Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکی زُلف مبارک

Published on: 17-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 14، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 304-315)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم sym-1کو ہر لحاظ سے بے مثل و بے مثال بنایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ sym-1کے حسنِ سراپا کا ذکر خود رب کائنات نے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں بھی جا بجا کئی مقامات پر مختلف انداز سے فرما یا ہے۔ بالکل اسی طرح نبی اکرم sym-1کے جسم اقدس کا ہر ہر عضو بھی انتہائی درجہ حسین وخوبصورت اور معتدل تھا۔اس مقالہ میں حضور اکرم sym-1کے موئے مبارک کے حوالہ سے معروضات تحریر کی گئی ہیں جس سے واضح ہوجائے گا کہ رسول اکرم sym-1کے موئے مبارک اس جہاں رنگ و بو کے حسین ترین اور شاہکار خلقت ہیں۔حضور نبی کریم sym-1کے سر انور پر مبارک بال نہایت حسین اور جاذب نظر تھے جیسے ریشم کے سیاہ گچھے۔ نہ بالکل سیدھے اور نہ پوری طرح گھنگھریالے بلکہ نیم خمدار جیسے ہلال عید اور ان میں بھی اعتدال، توازن اور تناسب کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ان سے چہرہ أنور کا حسن دوبالا ہوتاتھا۔

رسول اکرم sym-1کی زلف مبارک

قرآن مجید میں نبی اکرم sym-1کے اعضاءِ جسمانی کا ذکر صراحۃ اور کنایۃ موجود ہے۔چنانچہ ایک مقام پر اﷲ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:

وَالَّیلِ اِذَا سَـجٰى21
اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ (یا: اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے)۔ (یا:- قَسم ہے رات کی (طرح آپ کے حجابِ ذات کی) جب کہ وہ (آپ کے نورِ حقیقت کو کئی پردوں میں) چھپائے ہوئے ہے)۔

محدث شاہ عبد العزیز دہلویsym-4 اس آیت کریمہ کی تفسیرکرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:

"ضحٰی"سے مراد حضور sym-1کا رُخِ انور ہے، اور "لیل"سے زلف عنبریں مراد ہیں۔ 2

یہاں تشبیہ کے پیرائے میں آپ sym-1کے گیسوئے عنبریں کا ذکر قسم کھا کر کیا گیا جو در اصل محبوب sym-1کے حسن وجمال کی قسم ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ صحابہ کرامsym-7 کو حضور نبی کریم sym-1سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ ان کی نگاہیں ہمہ وقت آپ sym-1 کے چہرۂ انور کا طواف کرتی رہتیں۔ وہ آپsym-1کی خمدار زلفوں کے اسیر تھے اور اکثر اپنی محفلوں میں آپ sym-1کی زلف عنبریں کا تذکرہ والہانہ انداز سے کیا کرتے تھے۔چنانچہ امام ابو نعیم اصفہانی sym-4اُم المومنین عائشہ صدیقہ sym-6 کی روایت میں لکھتے ہیں۔

وكان صلى اللّٰه علیه وسلم رجل الشعر حسنه لیس بالسبط ولا الجعد القطط وكان اذا امتشط بالمشط كانه حبك الرمال وكانه المتون التى فى الغدر اذا صفقتھا الریاح واذا نكته بالمرجل اخذ بعضه بعضا وتحلق حتى یكون متحلقا كالخواتیم وكان من اول امرہ قد سدل ناصیته بین عینیه كما تسدل نواصى الخیل حتى جاء ہ جبرئیل بالفرق ففرق وكان شعره یضرب منكبیه وربما كان الى شحمة اذنیه وكان ربما جعله غدائر تخرج الاذن الیمنى من بین غدیرتین تكتنفانھا وتخرج الاذن الیسرى من بین غدیرتین تكتنفانھا ینظر من كان یتاملھما من بین تلك الغدائر كانھما توقد الكواكب الدریة بین سواد شعره.3
آپ sym-1کے بال مبارک قدرے خمدار اور حسین تر تھے جو نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ حد سے زائد گھنگریالے۔جب آپ sym-1گنگھی استعمال کرتے تو بالوں میں حسین لہریں سی پڑجاتیں جیسے ریت کے میدان میں چھوٹے چھوٹے راستے بنے ہوں یا کسی تالاب کے سوکھ جانے پر وہاں دراڑیں پڑی ہوں۔ مگر جب آپ sym-1کنگھی سے انہیں سر کے دائیں و بائیں ڈال لیتے تو وہ لہریں ختم ہوجاتیں اور زلفیں چہرہ انور کے گرد گھیرا ڈال لیتیں جیسے انگلی کو انگشتری نے لپیٹ میں لے رکھا ہوتا ہے۔پہلے آپ sym-1بالوں کو آنکھوں کے درمیان پیشانی پر گرالیا کرتے تھے مگر جب جبریل امین بالوں میں مانگ نکال کر آئے تو آپ sym-1نے بھی مانگ نکالنا شروع کردی۔آپ sym-1کی زلفیں کندھوں تک پہنچتی تھیں اور کبھی کانوں کی لو تک۔ بسا اوقات آپ sym-1کے بال خوبصورت لٹوں کی شکل میں ہوتے۔ ایسے میں آپ sym-1کے کان مبارک دونوں طرف بالوں کے درمیان میں سے ابھرے ہوئے یوں لگتے جیسے سیاہ آسمان میں چمکتے ستارے ہوں۔

گیسؤے مبارک کا حسن و جمال

صحابہ کرام sym-7رسول اﷲ sym-1کے سراپائے مبارک کا ذکر محبت بھرے انداز میں کرتے رہتے تھے ۔آپ sym-1کی زلفوں کا ذکر کرتے ہوئے مولا علی sym-5ان کی صفت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

حسن الشعر.4
(رسول اﷲ sym-1کے) موئے مبارک نہایت حسین وجمیل تھے۔

آپ sym-1کے موئے مبارک کی رنگت

حضرت ابوہریرہ sym-5آپ sym-1کی مبارک زلفوں کی سیاہی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

شدید سواد الشعر.5
(آپ sym-1) کے بال گہرے سیاہ تھے۔

حضرت ابو الطفیل sym-5 اعلان فرمایا کرتے کہ لوگوں اگر حضور sym-1کے بارے میں کسی نے کچھ پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھ لے۔ کیونکہ آج روئے زمین پر میرے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں جس نے حضورsym-1کو دیکھا ہو۔ جب کوئی بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ sym-1کے حلیہ مبارک کے بارے میں سوال کرتا تو آپ تفصیلاً انہیں حلیہ رسول ِ اقدس sym-1بیان کرتے اور آخر میں فرماتے کہ میں نے فتح مکّہ کے موقعہ پر آپsym-1 کی جو زیارت کی تھی وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

فما انسى شدة بیاض وجھه وشدة سواد شعره.6
آپ sym-1کے چہرۂ اقدس کی خوبصورت سفیدی اور زلفوں کی گہری سیاہی آج بھی میری نگاہوں میں ہے۔

اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاصsym-5 سے روایت کرتے ہیں:

شدید سواد الرآس واللّحیة.7
حضور نبی کریم sym-1کی ریش مبارک اور سرِ انور کے بال گہرے سیاہ تھے۔

پیچ دار زلفیں

آپ sym-1کے مبارک بال نہ بالکل سیدھے اور کھڑے تھے اور نہ ہی بالکل گھنگھریالے بلکہ ان دونوں کے بین بین تھے۔اس حوالہ سے حضرت انس sym-5سے مروی روایت میں مذکور ہے:

وكان شعره لیس بجعد ولا سبط.8
آپ sym-1کے بال نہ بہت زیادہ گھنگھریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے۔

حضرت انسsym-5 ہی سے مروی ایک اور روایت کے الفاظ یوں منقول ہوئے ہیں:

وكان شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم رجلا لا جعد ولا سبط.9
آپ sym-1کے بال قدرے گھنگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے اورنہ بالکل پیچدار۔

اسی حوالہ سے حضرت علی sym-5فرماتے ہیں:

ولم یكن بالجعد القطط ولا بالسبط كان جعدا رجلا.10
حضور نبی کریم sym-1کے بال مبارک نہ توبالکل گھنگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لیے ہوئے تھے۔

اسی طرح حضرت علی بن حجر sym-5سے مروی ہے:

لم یكن شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالجعد القطط ولا بالسبط كان جعداً رجلا.11
حضور نبی کریم sym-1کے مبارک بال نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل پیچدار بلکہ کچھ گھنگھریالے تھے۔

حضرت انس sym-5سےبھی اس حوالہ سے منقول ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم رجْل الشعر، لیس بالسَّبط ولا الجعْد القَطط. 12
حبیب اکرم sym-1کے بال مبارک درمیانے گھنگریا لے تھے نہ بالکل سیدھے اور نہ انتہائی پیچدار تھے۔

اسی طرح نبی اکرم sym-1کے بالوں کی صفات و ہئیت کو بیان کرتے ہوئے حضرت ہند بن ابی ہالہ sym-5روایت کرتے ہیں:

كان رجل الشعر ان انفرقت عقیقته فرق والا.13
آپ sym-1کے بال مبارک درمیانے گھنگھریالے تھے۔ اگر سر اقدس کے بالوں کی مانگ بسہولت نکل آتی تو نکال لیتے تھے ورنہ نہیں ۔

اس روایت کو صاحب الوفاء نے بھی نقل کیا ہے۔14 آپ sym-1کے سر اقدس کے بال مبارک گھنے تھے۔سر کا کوئی حصہ بالوں سے خالی نہ تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت جبیر بن مطعم کا بیان ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كثیر شعر الراس رجله.15
آپ sym-1کے سرِاقدس کے بال گھنے اور خمدار تھے۔

گیسؤے مبارک کا طول

سر اقدس کے بال کتنے لمبے اور دراز تھے؟ اس بارے میں صحابہ کرام sym-7سے مختلف اقوال مروی ہیں ہم پہلے ان اقوال کا تذکرہ کرتے ہیں اس کے بعد ان کے درمیان تطبیق بیان کریں گے۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ sym-5بیان کرتے ہیں کہ آپsym-1 کا سر اقدس اعتدال کے ساتھ بڑا تھا ۔آپ sym-1کے بال مبارک خمدار تھے ان میں اگر خود مانگ نکل آتی تو اسے رہنے دیتے ورنہ خود مانگ کے لیے تکلف نہ فرماتے۔آپsym-5 مزیدفرماتے ہیں:

یجاوز شعره شحمة اذنیه اذا ھو وفرة.16
آپ sym-1کے مبارک بال جب لمبے ہوتے تو کانوں کی لو سے ذرا نیچے ہوجاتے تھے۔

حضرت براء بن عازبsym-5 حضور اکرم sym-1کے گیسو مبارک کے حسن وجمال کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

له شعر یبلغ شحمة الیسرى رایته فى حلة حمراء لم ار شیئا قط احسن منه.17
آپ sym-1کی زلفیں کانوں کی لو تک نیچے لٹکتی رہتیں میں نے سرخ جبہ میں حضور sym-1سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔

چھوٹی زلفیں

صحابہ کرامsym-7 نے حضور نبی کریم sym-1کے گیسوئے عنبریں کی مختلف کیفیتوں کو ان کی لمبائی کے پیمائش کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے اچھوتے اور دل نشیں انداز سے بیان کیا ہے ۔اگر زلفانِ مقدس چھوٹی ہوتیں اور آپ sym-1کے کانوں کی لوؤں کو چھونے لگتیں تو وہ پیار سے آپ sym-1کو "ذی لمۃ" (چھوٹی زلفوں والا) کہہ کر پکارتے جیسا کہ حضرت براء بن عازبsym-5 فرماتے ہیں:

مارایت من ذى لمة احسن فى حلة حمراء من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شعره یضرب منكبیه.18
میں نے کانوں کی لو سے نیچے کندھوں کوچھوتی زلفوں والا سرخ جبہ پہنے رسول اﷲ sym-1سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔

دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

ما رایت احدا من خلق اللّٰه احسن فى حلة حمراء من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ان جمته لتضرب قرییا من منكبیه.19
میں نے مخلوقِ خدا میں سرخ جبے میں آپ sym-1سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا اور آپ sym-1کے بال مبارک اور زلفیں کاندھوں کو چھورہی ہوتی تھیں۔

اسی طرح حضرت انسsym-5 فرماتے ہیں:

كان شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى نصف اذنیه.20
حضور نبی کریم ﷺکے بال مبارک نصف کانوں تک تھے۔

حضرت براء بن عازبsym-5 اس حوالہ سے فرماتے ہیں:

عظیم الجمة الى شحمة اذنیه.21
آپ sym-1کے بال مبارک بہت گنجان تھے اور کانوں کی لو تک آتے تھے۔

کتب حدیث میں درج ہے کہ ایک دفعہ ابورمثہ تمیمی sym-5اپنے والد گرامی کے ہمراہ حضور نبی کریم sym-1کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ بعد میں انہوں نے اپنے ہم نشینوں سے ان حسین لمحات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آپ sym-1کی زلف عنبرین کا تذکرہ کیا۔اس تذکرہ کو نقل کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل شیبانی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن ابى رمثة قال: كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یخضب بالحناء والكتم وكان شعره یبلغ كتفیه او منكبیه.22
حضرت ابو رمثہ تمیمی sym-5بیان کرتے ہیں کہ: حضور sym-1مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) سے خضاب لگاتے تھے اور حضور sym-1کے بال مبارک کندھوں تک آتے تھے۔

دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

وله لمة بھما ردع من حناء.23
آپ sym-1کی مبارک زلفیں آپ sym-1کے کانوں کی لو سے نیچے تھیں جن کو مہندی سے رنگا گیا تھا۔

اسی طرح اس حوالہ سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6سے مروی ہے:

وكان له شعر فوق الجمة ودون الوفرة.24
آپ sym-1کی زلفیں کانوں اور شانوں کے درمیان ہوا کرتی تھیں۔

مذکورہ روایت کو اسی طرح ابن جوزی صاحب الوفاء نے بھی نقل کیا ہے۔25

بڑھی ہوئی زلفیں

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ sym-1کی زلف عنبریں اپنی اصل مقدار سے بڑھ جاتیں اور کانوں کی لوؤں سے تجاوز کرنے لگتیں تو صحابہ کرام sym-7 آپ sym-1کو "ذی وقرۃ" (لٹکتی ہوئی زلفوں والا) کہنے لگتے۔چنانچہ سیّدنا فاروق اعظم sym-5نے آپ sym-1کے حلیہ مبارک کا حسین تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی زلفِ مشکبار کا تذکرہ یوں کیا:

كان نبى اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ...ذو وفرة.26
حضور نبی کریم sym-1لٹکتی ہوئی زلفوں والے تھے۔

طویل زلفیں

جب آپ sym-1کی زلفیں مبارک شانوں کو چھونے لگتیں تو صحابہ کرامsym-7 فرطِ محبت سے آپ sym-1کو "ذی جمۃ (کاندھوں سے چھوتی ہوئی زلفوں والا)" کہہ کر پکارتے۔چنانچہ حضرت براء بن عازبsym-5 روایت کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مربوعا بعید ما بین المنكبین وكانت جمته تضرب شحمة اذنیه.27
حضور نبی کریم sym-1میانہ قد تھے آپ sym-1کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ آپ sym-1کی زلفیں آپ sym-1کے مبارک کانوں کی لوکو چھوتی تھیں۔

حضرت براء sym-5ہی سے مروی ہے:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یضرب شعره منكبیه.28
حضور نبی کریم ﷺکی زلفیں کاندھوں کو چھورہی ہوتی تھیں۔

اس کو صاحب الوفاء نے بھی نقل کیا ہے۔ 29اسی حوالہ سے حضرت ہند بن ابی ہالہsym-5 روایت کرتے ہیں:

یجاوز شعره اذنه اذا ھووفره.30
آپ sym-1کے سر اقدس کے بال مبارک جب لمبے ہوتے تھے تو کانوں کی لو سے ذرا نیچے ہوتے تھے۔

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کی زلف ِ عنبریں مختلف حالات میں کبھی کانوں کی لو تک،کبھی کندھوں تک، کبھی ان دونوں کے درمیان تک ہوتی تھیں۔اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ بعض حالات میں آپ sym-1کے گیسو مبارک اتنے دراز ہوتے کہ کاندھوں کو چھورہے ہوتے اور وہاں تک لٹک جایا کرتے تھے۔

اختلاف روایات میں تطبیق

آپ sym-1کے مبارک بالوں کے بارے میں احادیث میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:

  1. "جمۃ" ایسے بال جو کاندھوں کو چھورہے ہوں۔
  2. "وفرۃ"ایسے بال جو کانوں کی لو تک ہوں۔
  3. "لمۃ"ایسے بال جو کانوں سے نیچے ہوں مگر کاندھوں کو نہ چھوئیں۔

صحابہ کرام sym-7 بیان کرتے ہیں کہ آپ sym-1 کے بال کانوں تک تھے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ نہیں بلکہ کاندھوں تک تھے۔بنظر غائر دیکھا جائے تو ان میں کوئی تعارض نہیں اس لیے کہ یہ مختلف اوقات کے احوال ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک ہی صحابی نے مختلف احوال بیان کئے ہیں حضرت قاضی عیاضsym-4 ان احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان ذلك لاختلاف الاوقات فكان اذا ترك تقصیرھا بلغت المناكب واذا قصرھا كانت الى الاذن اوشحمتھا او نصفھا فكانت تطول وتقصر بحسب ذلك.31
یہ مختلف احوال کا بیان مختلف اوقات کی وجہ سے ہے۔ عدم حجامت کی صورت میں کاندھوں تک پہنچ جاتے اور حجامت کے بعد کانوں کی لو یا اس کے نیچے تک ہوتےاور اسی اعتبار سے کبھی بڑے اور کبھی چھوٹے ہوتے۔

اہم نکتہ

ان احادیث کو پڑھنے کے بعد غور کیجئے کہ صحابہ کرامsym-7 کو محبوب خدا sym-1سے کس قدر والہانہ محبت وعقیدت تھی اور وہ آپ sym-1کی مقدس زلفوں کے کس طرح اسیر ہوچکے تھے کہ جب بھی آپ sym-1کے حسن وجمال کا تذکرہ کرتے، اسے آپ sym-1کی زلفوں کے ذکر سے زینت دے کر اپنے دل و جاں کی راحت کا سامان کرتے ۔اگر آپ sym-1کی زلفیں کانوں کی لو کو چھورہی ہوتیں تو وہ پیار سے آپ کو"ذی قرہ" (کانوں کی لو تک زلفوں والا) کہتے۔ اگر کچھ بڑھ کر کانوں کی لو سے نیچے ہوجاتیں تو آپ sym-1کو"ذی لمۃ" (کانوں کی لو سے نیچے زلفوں والا) کہہ کر پکارتے تھے اور کبھی شبانہ روز مصروفیات کی وجہ سے زلفیں بڑھ کر مبارک شانوں کو چھونے لگتیں تو وہ فرطِ محبت میں"ذی جمۃ" (کاندھوں سے چھونے والی زلفوں والا) پکارتے۔

آپ sym-1کے گیسؤے مبارک میں مانگ

سابقہ روایات میں گزرچکا ہے کہ آقا sym-1مانگ نکالنے کے لیے خود تکلف نہیں فرمایا کرتے تھے اور نہ ہی آپ sym-1کو اس کی حاجت تھی ۔چنانچہ آپ sym-1کے آرائشِ گیسو کے مبارک معمول کے بارے میں حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8 فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یسدل ناصیته سدل اھل الكتاب ثم فرق بعد ذلك فرق العرب.32
حضور نبی کریم sym-1پیشانی اقدس کے اوپر سامنے والے بال بغیر مانگ نکالے پیچھے ہٹا دیتے تھے جیسا کہ اہل کتاب کرتے ہیں لیکن بعد میں آپ sym-1اس طرح مانگ نکالتے جیسے اہل عرب نکالا کرتے۔

اسی طرح امام قرطبیsym-4نے آپ sym-1کے خصائص میں بیان کیا ہے:

و كان شعره صلى اللّٰه علیه وسلم باصل الخلقة مسرحا.33
آپ sym-1کے مبارک بال خلقی طور پر کنگھی شدہ تھے۔

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6فرماتی ہیں کہ کبھی کبھی آپ sym-1میری گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتے تو میں بطور محبت آپ sym-1 کےسر اقدس میں مانگ نکالتی تھی۔چنانچہ آپsym-6 فرماتی ہیں:

اذا فرقت لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم راسه صدعت فرقة عن یافوخه وارسلت ناصیته بین عینیه.34
میں آپ sym-1کے سر اقدس کے درمیان سے آپ sym-1کی مانگ نکال کر بالوں کو سر کے دونوں طرف کردیتی اور پیشانی کے بال دونوں آنکھوں کے درمیان چھوڑ دیتی تھی۔

اسی طرح دوسرے مقام پر اُم المؤمنین عائشہ صدیقہsym-6 آپ sym-1کی مانگ کے حسن وجمال کو ایک خوبصورت تشبیہ دیتے ہوئے فرماتی ہیں:

وكان اذا امتشط بالمشط كأنه حبك الرمال.35
"آپ sym-1جب سر اقدس میں کنگھی فرماتے تو اس طرح خوبصورت مانگ نکلتی جس طرح سفید ریت میں ہوا کے ساتھ خوبصورت راستہ بن جاتا ہے۔"

کسی بھی شخص کے سر پر بال ہوں اور وہ بھی لمبے یعنی زلفیں ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص بال کے نہ ہونے کے خلقی عیب سے مبرا ہے۔ ہر شخص جس کے سر پر بال نہ ہوں یا پھر ہوں تو بہت کم ہوں وہ اس بات کا خواہشمند رہتاہے کہ اس کے بال اُگ آئیں یا کم ہونے کی صورت میں اس کی چاہت ہوتی ہے کہ وہ گھنے ہوجائیں ۔کیونکہ بال انسان کے سر کے لیے پردہ کا کام دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کے حسن و جمال میں اضافہ کا سبب ہوتے ہیں۔ ہر آدمی اپنی چاہت کے مطابق کم یا زیادہ بال رکھتا اور پھر اس کوحسب حال و ضرورت ترشواتا ہے تاکہ اس کی شخصی وجاہت قائم و دائم رہے۔آقائے کریم sym-1کے بال مبارک بالکل ویسے ہی تھے جیساکہ انھیں ہونا چاہیے تھا یعنی آپ sym-1کے بال مبارک گھنے اور مکمل تھے۔ ان بالوں کی رنگت سیاہ تھی جو عرب خطہ کا خاصہ ہے لیکن گیسو مبارک کی سیاہی عام نہ تھی بلکہ ان میں قدرتی طور پرایسی چمک تھی کہ گویا بالوں میں تیل لگایا گیا ہو۔یعنی بالوں کے رنگت پھیکی نہ تھی بلکہ زور دار اور چمک دار تھی جس سے وہ بہت زیادہ خوبصورت نظر آتے تھے ۔ آپ sym-1 بالوں کو بے ترتیب اور غیر منظم کبھی نہ چھوڑتے بلکہ ان کو نہایت سلیقہ و شائستگی سے آراستہ رکھتے اور اس کے ساتھ ساتھ بالوں میں آپ sym-1نے ہمیشہ صرف ایک ہی انداز اختیار نہیں فرمایا بلکہ حسب حال کبھی حلق اور کبھی قصر فرمایا اور کبھی گیسو مبارک کانوں کو چھورے ہوتے ، کبھی اس سے بھی بڑھ جاتے اور کبھی اتنے طویل ہوجاتے کہ مبارک کاندھوں تک پہنچ جاتے۔ آپ sym-1نے بالوں کے حوالے سے یہ مختلف انداز اس لیے اختیار فرمائے تاکہ آپ sym-1کی امت کے مرد حضرات اپنے حسب چاہت آپ sym-1کی اتباع میں جس انداز سے اپنے بال رکھیں وہ آپ sym-1کے طریقہ (Style) کے موافق ہواور وہ سنت کے اجرو برکات سے محروم نہ رہیں۔


  • 1  القرآن ،سورۃ الضحیٰ 93: 02
  • 2  شاہ عبد العزیز بن ولی اﷲ الدہلوی ، تفسیر عزیزی ، مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ ، یوپی ، انڈیا، 1388، ص:219
  • 3  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی ، دلائل النبوۃ ،ج -2 ، مطبوعۃ :دار النفائس بیروت، لبنان، 1986ء ، ص:637
  • 4  احمد بن عمرو بن عبد الخالق ابن البزار ،مسند البزار، حدیث : 645 ، ج -2 ، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ ، السعودیۃ، 2009 ء، ص : 244-245
  • 5  عبد الرزاق بن ہمام صنعانی ، مصنف عبد الرزاق ، حدیث : 20490 ، ج -11 ، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،
  • 6  ابوبکر بن ابی عاصم شیبانی ، الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم، حدیث:947 ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الرایۃ ، الریاض، السعودیۃ،1991ء، ص:199
  • 7  محمد بن سعد البصری ، الطبقات الکبریٰ لابن سعد ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:321
  • 8  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، سنن الترمذی ، حدیث: 1754، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:233
  • 9  محمد بن اسماعیل بخاری ، صحیح البخاری، حدیث : 5906 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ، مصر2003ء، ص:1226
  • 10  ابوبکر بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث : 31805 ، ج -6 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد ، الریاض، السعودیۃ، 1409ھ ، ص:328
  • 11  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص:15
  • 12  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، ص:48-49
  • 13  ابوبکر بن ابی عاصم شیبانی ، الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم ، حدیث: 1232 ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الرایۃ الریاض، السعودیۃ،1991 ء، ص :439-440
  • 14  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، ص:48-49
  • 15  محمد بن يوسف الصالحئ الشامي، سبل الهدى والرشاد ،ج-2 ،مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، ص:15
  • 16  ابوبکر محمد بن الحسین الاجری ، الشریعۃ للآجری ، حدیث : 1022 ، ج -3 ، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض، السعودیۃ، 1999ء، ص: 1509-1510
  • 17  محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری (مجلد) ، حدیث : 3551 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ، مصر2003ء، ص:744
  • 18  مسلم بن الحجاج قشیری ، صحیح مسلم ، حدیث : 2337 ، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:1818
  • 19  عمر بن زید بصری ، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ ،ج -2، مطبوعۃ:مکتبۃ جدۃ، جدۃ، السعودیۃ، 1399ھ، ص:612
  • 20  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی ، سنن نسائی، حدیث : 5234 ، ج-8 ، مطبوعۃ: مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، السوریۃ،1986 ء ص:183
  • 21  مسلم بن الحجاج قشیری ،صحیح مسلم، حدیث : 2337 ، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:1818
  • 22  احمد بن حنبل شیبانی ، مسند احمد ، حدیث : 17043 -17046 ،ج-5 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص : 168- 169
  • 23  احمد بن حنبل شیبانی ، مسند احمد ، حدیث : 17498، ج-29 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:43
  • 24  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، سنن الترمذی ، حدیث: 1755 ، ج -6 ، مطبوعۃ : دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:258
  • 25  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، ص:48-49
  • 26  علی بن حسن ابن عساکر ، تاریخ دمشق لابن عساکر ، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1995 ء ،ص:264
  • 27  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ حدیث : 25 ، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988، ص:35
  • 28  مسلم بن الحجاج قشیری ، صحیح مسلم ، حدیث : 2338 ، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:1819
  • 29  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:48-49
  • 30  ابوبکر بن ابی عاصم شیبانی ، الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم ، حدیث: 1232 ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الرایۃ ، الریاض، السعودیۃ، 1991ء، ص :439-440
  • 31  نور الدین بن سلطان القاری ، جمع الوسائل فی شرح الشمائل ، ج -1 ، مطبوعہ : نور محمد اصح المطابع کراچی، پاکستان ، (سن اشاعت ندارد)، ص:18
  • 32  محمد بن حبان ، الثقات ، حدیث: 8879 ، ج -7 ، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1975ء، ص:34
  • 33  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:18
  • 34  احمد بن حنبل شیبانی ،مسند احمد ، حدیث : 26355 ، ج -43 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:375
  • 35  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی ، دلائل النبوۃ ،ج-2 ، مطبوعۃ :دار النفائس ، بیروت، لبنان، 1986ء ، ص:63

Powered by Netsol Online