Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺ کی آنکھیں مبارک

Published on: 20-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 18، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 349-357)

رسول اکرم sym-1کی آنکھیں مبارک بلاشبہ خالق کائنات کی تخلیق کا شاہکار تھیں۔جن کا حسن دیکھنے والے کو اپنے اندر جذب کرلیتا تھا۔وہ ان کی رعنائی سےمرعوب ہوکررہ جاتاتھا۔بارباران کو دیکھنےکی آرزو جذبات میں چٹکیاں لیتی تھے۔یہ وہ مبارک آنکھیں تھیں جن سے کون ومکاں کی کوئی شےاوجھل نہیں۔ ان چشمانِ اقدس نے لوح وقلم ،عرش وفرش،جنت ودوزخ، بحروبر، جن وانس غرض کائنات کی ہرشےکودیکھا تھا۔یہ وہ آنکھیں تھیں جن کے متعلق اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا:

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى171
اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی )۔

یہی وہ آنکھیں ہیں جنہیں لیلۃ الاسراء رب کائنات نے اپنی نشانیاں دکھائیں۔2

خوبصورت آنکھیں

حضور sym-1کی مقدس اور نورانی آنکھیں بہت ہی خوبصورت تھیں ۔قدرت الٰہی سے سرمگیں بھی کہ سرمہ کے بغیر معلوم ہوتا کہ سرمہ لگا ہوا ہے۔ آنکھوں کی سفیدی میں باریک سرخ ڈورے تھے جن کو علامات نبوت میں شمار کیا گیا ہے۔ پلکیں نہایت خوشنما اور دراز تھیں۔ حضور نبی کریم sym-1کی آنکھیں مبارک بڑی بڑی اور کشادہ تھیں۔ سیاہ حصہ مکمل طور پر سیاہ تھا اور سفید حصہ انتہائی سفید تھا۔ بالائی پپوٹوں کے وہ حصے جو آپس میں ملتے ہیں مائل بہ سیاہی تھے جن کی وجہ سے سرمہ لگائے بغیر بھی آپ sym-1کی آنکھیں سُرمگیں دکھائی دیتی تھیں۔

حضرت فاروق اعظمsym-5 نبی اکرم sym-1کی آنکھوں کی صفت کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ادعج العینین.3
حضور نبی کریم sym-1کی مبارک آنکھیں کشادہ اور گہری سیاہ تھیں۔

مولائےکائنات حضرت علیsym-5 نے بھی حضور نبی اکرم sym-1کی نگاہ نازنین کی حالت کو بیان کیاہے۔ 4

ابن کثیر لفظ دعج کا معنى بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

قال الجوھرى: الدعج شدة سواد العینین مع سعتھا.5
جوہری نے کہا: دعج کا مطلب دونوں آنکھوں کی سیاہی کا گہرہ ہونا وسیع ہونے کا ساتھ۔

دعج پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے امام بیہقی sym-4تحریر فرماتے ہیں:

والدعج شدة سواد الحدقة لایكون الدعج فى شىء الا فى سواد الحدق وكان فى عینیه تمزج من حمرة.6
دعج سے مراد ہے کہ آنکھ کے ڈھیلے میں سیاہ حصہ شدید سیاہ تھا یہ صفت ادعج کسی چیز میں نہیں ہوتی صرف آنکھ کی سیاہ پتلی میں ہوتی ہے۔نیز آپ sym-1کی آنکھوں میں سُرخی اور ہلکی سرخی کا امتزاج بھی تھا۔

صحابئ جلیل حضرت ابوہریرہ sym-5سے روایت ہے :

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابرج العینین.7
آپ sym-1کی آنکھیں نہایت ہی کشادہ اور خوبصورت تھیں۔

حضرت انس sym-5فرماتےہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابحر العینین.8
حضور sym-1کی آنکھیں سُرخی مائل تھیں۔

حضرت جابر بن سمرہ sym-5 سے روایت ہے:

عن جابر بن سمرة قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أشكل العینین. وراوه أبو داود عن شعبة فقال: أشھل العینین...أما قوله: أشكل العینین: قال أبو عبیدة: الشكلة: حمرة فى بیاض العین، والشھلة: حمرة فى سوادھا. 9
حضرت جابر بن سمرہ sym-8سے مروی ہے کہ رسول اکرم sym-1کی مقدس آنکھیں سفید سرخی مائل تھیں۔ یعنی سفیدی میں سرخ باریک دھاریاں تھیں اور ابو داود نے شعبہ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں اشکل العینین کی بجائے اشہل العینین وارد ہے۔بہر حال راوی کے قول "اشکل العینین" کا مطلب ابوعبیدۃ نے یہ بتایا ہے کہ: شکلۃ آنکھ کی سفیدی میں سرخی کو کہتے ہیں اور شھلۃ کا معنی آنکھ کی پتلی میں سیاہی کا ہونا ہے۔

اس تقدیر پر مطلب یہ ہو گا کہ آنکھوں کی پتلیاں سیاہ سرخی مائل تھیں ۔راوی نے حضر ت سماک بن حربsym-4سے پوچھا:

ما اشكل العین؟ قال: طویل شق العین.10
اشکل العینین کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: آنکھوں کے گوشوں کا طویل ہونا۔

حضرت علی sym-5 سے روایت ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عظیم العینین.11
آپ sym-1 کی آنکھیں بڑی تھیں۔

اسی طرح حضرت علی sym-5 سے ہی ایک مروی روایت میں مذکور ہے :

اسود الحدقة.12
حضور sym-1کی مبارک آنکھوں کی پُتلی سیاہ تھی ۔

حضرت جابر بن سمرہ sym-5 کی روایت میں "اشہل العینین" آیا ہے اس کا معنی ہے سرخ و سیاہ آنکھوں والے۔کیونکہ نبی اکرم sym-1کی آنکھوں کے سفید حصے میں سرخ ڈورے تھے۔

چنانچہ امام ابوداؤد طیالسیsym-4 روایت کرتے ہیں:

جابر بن سمرة یقول: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اشھل العین، منھوس العقب، ضلیع الفم.13
حضرت جابر بن سمرہsym-5 فرماتے ہیں: رسول اﷲ sym-1کی آنکھیں سُرخی مائل تھیں، ایڑیوں میں گوشت کم تھااور منہ مبارک کشادہ تھا۔

آنکھوں کی سفیدی میں باریک سرخ ڈوروں کو علامات نبوت میں شمار کیا گیا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے ایک واقعہ امام ابن کثیر نے تحریر کیا ہے کہ جب حضرت ابوطالب sym-5 آپ sym-1کو اپنے ساتھ ملک شام لے گئے تو وہاں کے راہب جو الہامی کتب کے عالم تھے انہوں نے حضور نبی کریم sym-1کو دیکھ کر حضور نبی کریم sym-1اور حضرت ابوطالبsym-5 سے چند سوالا ت کیے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

قال بحیرا: فباللّٰه أسألك، وجعل یسأله عن أشیاء من أحواله فیخبره حتى سأله عن نومه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: تنام عیناى ولا ینام قلبى وجعل ینظر فى عینیه إلى الحمرة ثم قال لقومه: أخبرونى عن ھذه الحمرة تأتى وتذھب أو لا تفارقه؟ قالوا: ما رأیناھا فارقته قط وكلمه أن ینزع جبة علیه حتى نظر إلى ظھره وإلى خاتم النبوة بین كتفیه علیه السلام مثل زر الحجلة متواسطا فاقشعرت كل شعرة فى رأسه وقبل موضع خاتم النبوة وجعلت قریش تقول: إن لمحمد عند ھذا الراھب لقدرا وجعل أبو طالب . لما رأى من الراھب . یخاف على ابن أخیه ثم قال الراھب لأبی طالب: ما یكون ھذا الغلام منك؟ قال: ابنى قال: ما ھو بابنك وما ینبغى أن یكون أبوه حیا قال: فإنه ابن أخى قال: فما فعل أبوه؟ قال أبو طالب: توفى وأمه حبلى به قال: فما فعلت أمه؟ قال: توفیت قريیا قال: صدقت ارجع بابن أخیك إلى بلدك واحذر علیه الیھود فواللّٰه إن رأوه أو عرفوا منه الذى أعرف لیبغنه عنتا فإنه كائن لابن أخیك شأن عظیم نجده فى كتبنا وما ورثنا من آبائنا، وقد أخذ علینا مواثیق.14
بحیرا نے کہا: میں آپ سے اﷲ کے نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں پھر وہ آپ sym-1سے سوالات کرنے لگا اس نے آپ sym-1کی نیند کے متعلق پوچھا آپ sym-1نے فرمایا:میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا پھر وہ آپ sym-1کی آنکھوں میں بسی سرخی کی طرف متوجہ ہوا کہنے لگا: بتلاؤ یہ سرخی آتی جاتی رہتی ہے یا ہمیشہ رہتی ہے؟ اہل قافلہ کہنے لگے: ہم نے تو یہ کبھی غائب نہیں دیکھی۔بحیرا نے تقاضا کیا کہ آپ sym-1اپنا جبّہ اتاریں آپ sym-1نے اتارا جب اس نے آپ sym-1کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی حجلہ عروسی کے مہرے جیسی تھی تو اس کے سر کے بال کھڑے ہوگئے اور بے اختیار مہر نبوت کو چوم لیا۔بالآخر راہب شام نے کہا: اس بچے کو فوراً اپنے وطن لے جاؤ مجھے اس کے متعلق یہود سے ڈر آرہا ہے۔ بخدا اگر انہوں نے اسے دیکھ لیا یا جو کچھ میں نے اس میں پہچانا ہے وہ پہچان گئے تو اسے نقصان پہچانےکی کوشش کریں گے کیونکہ تمہارے بھتیجے کو عظیم الشان مقام ملنے والا ہے جو ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا اور اپنے باپ دادا سے سنا ہے اور اس پر ہم سے مضبوط وعدے لیے گئے ہیں۔

حضرت علی sym-5فرماتے ہیں: جب مجھے قاضی بناکر یمن بھیجا گیا تو ایک یہودی عالم نے مجھے نبی آخرالزماں sym-1کا حلیہ مبارک بیان کرنے کے لیے کہا۔جب میں سرکار دو عالم sym-1کا سراپا مبارک بیان کرچکا تو اس یہودی عالم نے کچھ مزید بیان کرنے کی استدعا کی میں نے کہا :اس وقت مجھے یہی کچھ یاد ہے۔ اس یہودی عالم نے کہا: اگر مجھے اجازت ہو تو مزید حلیہ مبارک میں بیان کروں؟ اس کے بعد وہ یوں گویا ہوا:

فى عینیه حمرة، حسن اللحیة حسن الفم، تام الاذنین.
حضور sym-1کی مبارک آنکھوں میں سرخ ڈورے ہیں، ریش مبارک نہایت خوبصورت دہن اقدس حسین وجمیل اور دونوں کان مبارک (حسن میں) مکمل تھے۔15

امام ابن عساکرsym-4 نے حضرت قاتل بن حیانsym-4 کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰsym-9 کو حکم دیا:

جد فى امرى ولا تھزل! الى ان قال: صدقوا النبى العربى الانجل العینین.16
میرے معاملے میں کوشش کر حتیٰ کہ فرمایا: اس نبی عربی sym-1 کی تصدیق کرو جن کی آنکھیں خوبصورت اور بڑی ہوں گی۔

آپ ﷺکی چشمِ سُرمگیں

حضور نبی کریم sym-1کی آنکھیں قدرتی طور پر سرمگیں تھیں اور جوان مبارک آنکھوں کو دیکھتا وہ یہ سمجھتا کہ آپﷺ ابھی ابھی سرمے کی سلائی ڈال کر آئے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام برہان الدین حلبیsym-4 فرماتے ہیں:

وولد نبینا لى صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا. اى: على صورةالمختون.مکحولا ونظیفا ما به قذر.17
ہمارے نبی پاک sym-1ختنہ شدہ پیدا ہوئے یعنی اس طرح جیسے مختون آدمی ہوتا ہے نیز اس طرح کہ (آپ کی آنکھوں میں گویا) سرمہ لگا ہوا تھا اور پاک صاف پیدا ہوئے کہ آپ sym-1کے جسم مبارک پر کوئی آلودگی نہیں تھی۔

حضرت جابر بن سمرہ sym-5 سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

وكنت اذا رایته قلت: اكحل العینین ولیس باكحل.18
اگر تم حضور نبی کریم ﷺکی مبارک آنکھوں کو دیکھوگے تو کہو گے کہ ان میں سرمہ لگا ہوا ہے حالانکہ ان میں سرمہ لگا ہوا نہیں ہوتا تھا۔

اس کی شرح میں امام ابن جوزی sym-4تحریر فرماتے ہیں:

والكحل: سواد ھدب العین خلقة.قال الزجاج: الكحل: أن یسود مواضع الكحل.19
کحل کا مطلب آنکھ کی پتلی کا پیدائشی سیاہ ہونا ہے۔زجاج نے کہا کہ: کحل کا معنی سرمہ لگانے کی جگہ کا سیاہ ہونا ہے۔

حضرت ابوہریرہ sym-5 سے روایت ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اكحل العینین.20
حضور نبی کریم sym-1کی آنکھیں ہمیشہ سرمگیں رہتی تھیں ۔

امام صالحی sym-4"اکحل" کا معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

سواد یكون فى مفاوز اجفان العین خلقة.21
اکحل اس سیاہی کو کہتے ہیں جو آنکھوں کی پلکوں وغیرہ میں پیدائشی طور پر ہو۔

مبارک آنکھوں کی تازگی

حضور sym-1بچپن میں بھی جب نیند سے بیدار ہوتے تو سر کے بال اُلجھے ہوئے ہوتے نہ آنکھیں بوجھل ہوتیں بلکہ آپ sym-1خندہ بہ لب اور شگفتہ گلاب کی طرح تروتازہ ہوتے اور قدرتی طور پر آنکھیں سرمگیں ہوتیں۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 سے مروی ہے کہ حضرت ابوطالب sym-5نے فرمایا:

كان الصبیان یصبحون رمصا شعثا ویصبح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دھینا كحیلا.22
عام طور پر بچے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں بوجھل اور سر کے بال اُلجھے ہوتے ہیں جبکہ حضور sym-1بیدار ہوتے تو آپ sym-1کے سر انور میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔

حضرت ابن عباسsym-8 نے بھی اس کو بیان کیا ہے کہ آپ sym-1 بچپن کی حالت میں بیدار ہوتےتو عام بچوں سے الگ اور نمایاں طور پر ہشاش بشاش اور کھِلے کھِلے بیدار ہوتے اور آنکھوں میں بجائے نیند و اضطرابیت کے تازگی و فرحت نمایاں ہوتی اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔

تورات میں سرمگیں آنکھوں کا ذکر

نبی کریم sym-1کی آنکھوں کا قدرتی طور پر سرمگیں ہونے کی صفت تورات شریف میں بھی موجود تھی جس کاعلمائے یہود خود اقرار کرتے تھے کہ ہم تورات شریف میں حضور sym-1کی یہ صفت پاتے ہیں کہ قدرتی طور پرآخری نبی ﷺکی آنکھیں سرمگیں ہونگی۔ ابن عباس sym-8 فرماتے ہیں:

قال احبار الیھود: وجدو ا صفة محمد صلى اللّٰه علیه وسلم مكتوبا فى التوراة اكحل العین.23
یہودیوں کے بڑوں نے کہاکہ:محمد sym-1 کی صفت تورات میں یہ لکھی ہے کہ حضور نبی کریم sym-1 کی آنکھیں ہمیشہ سرمگیں رہیں گی۔

آپﷺ کی قوّت بصارت

رسول اکرم sym-1کی آنکھوں کی بصارت کا عالم یہ ہوتا تھا کہ آپ sym-1کو اشیاءکے دیکھنے کے لیے عام انسانوں کی طرح کسی خارجی روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔بلکہ نبی اکرم sym-1کےبارے میں منقول ہے کہ آپ sym-1اجالہ اور اندھیرے میں یکساں طور پر دیکھتے تھے۔چنانچہ روایت میں مروی ہے:

عن عائشة قالت:كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یرى فى الظلمة كمایرى فى الضوء.24
ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہsym-6 فرماتی ہیں:حضور نبی کریم sym-1اندھیرے میں بھی ویسے ہی دیکھتے تھے جیسے روشنی میں۔

شرم و حیاء سے معمور نگاہ مصطفیٰ ﷺ

شرم و حیاء ہی انسان کا وہ وصفِ جمیل ہے جس کی آغوش میں اخلاق و کردار کی خوبیاں پرورش پاتی ہیں۔ جو انسان اس وصف سے کامل طور پر متصف ہوجاتا ہے وہ اخلاق حسنہ کا پیکر بن جاتا ہے اور جس انسان میں یہ صفت نہ رہے وہ پھر بے حیائی وبے شرمی کا مجسمہ ہوکر جو چاہے کرسکتا ہے۔ آپ sym-1کا دیکھنا کمالِ حیاء اور شانِ محبوبیت کا آئینہ دار ہوتا۔ آپ sym-1کی چشمانِ اطہر میں شفقت و محبت اور شرم و حیا کی ملی جلی کیفیت ہمہ وقت موجود رہتی۔جس کی عکاسی آپ sym-1نے اپنے اسوہ حسنہ سے اور اس قول مبارک سے بھی کی:

اذا لم تستحى فاصنع ماشئت.25
جب تو نے شرم و حیاء نہیں کی تو جو چاہے کر۔

شرم وحیاء کا وصف مبارک بھی دوسرے اوصاف حمیدہ کی طرح حضور نبی کریم sym-1کی ذات اقدس میں اکمل طور پر تھا صحابہ کرام sym-7فرماتے ہیں کہ آپ sym-1کثرت حیاء کی وجہ سے کسی شخص کے چہرے پر نظریں نہیں جماتے تھے۔جب کبھی کسی طرف دیکھتے تو تھوڑی اوپر آنکھ اٹھاتے اور اسی سے دیکھ لیتے۔ آپ ﷺکی اس ادائے محبوبانہ کا ذکر روایات میں یوں مذکور ہے۔

خافض الطرف نظره الى الارض اكثر من نظره الى السماء.26
آپ sym-1کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی۔

گوشہ چشم سے دیکھنا کمال شفقت والفت کا انداز لیے ہوئے تھا جبکہ جھکی ہوئی نظریں نہایت درجہ شرم وحیاء پر دلالت کرتی ہیں، اور آپ sym-1سے بڑھ کر کون عفت مآب اور حیا دار ہوسکتا تھا۔حضرت ابوسعید خدریsym-5 آپ sym-1کے اس وصف عالیہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اشد حیاء من العذراء فى خدرھا وكان اذا كره شیئا عرفناه فى وجھه.27
آپ sym-1پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرم و حیاء کے مالک تھے۔ ہم چہرہ اقدس کے آثار سے ہی آپ sym-1کی ناپسندیدگی محسوس کرلیا کرتے۔

نبی رحمت ،فخر دوعالم ، سروردوعالم sym-1کی آنکھیں مبارک بڑی کشادہ ،سیاہ، سرمگیں تھیں۔جوبھی آپ sym-1کو دیکھتا یا آپ sym-1کی محفل میں بیٹھتا اور آپ sym-1کے ایک ایک حسن کو دیکھتا تواسے رب ِکائنات کی قدرت کا کمال نظرآتا۔کیاکیا کمالات آپ sym-1کی شخصیت میں جمع تھے اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے؟سوائےان کمالات کو عطاکرنے والے کے یا جس کو یہ عطا کیے گئے ان کے۔


  • 1  القرآن،سورۃ النجم53 : 17
  • 2  رب العزت نےفرمایا: لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا، ترجمہ: تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں ۔(القرآن،سورۃ الاسراء 01:17)
  • 3  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1414ھ، ص:23
  • 4  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص: 213
  • 5  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی ، شمائل الرسول لابن کثیر ، مطبوعۃ:مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :26
  • 6  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405 ھ، ص :303
  • 7  عمر بن شبہ نمیری بصری ، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ ، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة جدۃ، جدة، السعودیۃ، 1399ھ، ص:608
  • 8  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:23
  • 9  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً) ص: 43
  • 10  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث :2339، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ھ، ص:1029
  • 11  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:24
  • 12  ضیاء الدین ابو عبداﷲ محمد بن عبد الواحد مقدسی، الاحادیث المختارۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:316
  • 13  سلیمان بن داؤ دالطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 802، ج-2، مطبوعۃ: دار ھجر، القاهرة، مصر، 1999ء، ص:126
  • 14  ابو نعیم احمد اصفہانی ، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986 ء، ص:169-170
  • 15  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، شمائل الرسول، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:16
  • 16  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 2، مطبوعۃ: احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء ، ص:24
  • 17  برہان الدین علی بن ابراہیم حلبی ، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ ، ص:78
  • 18  احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 20917، ج -34، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:466
  • 19  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى ﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:43
  • 20  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص :23
  • 21  ایضًا، ص :26
  • 22  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1990 ء، ص :120
  • 23  اسماعیل بن محمد اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث :179، مطبوعۃ: دار طیبۃ ،الریاض،السودیۃ، 1409ھ، ص:157
  • 24  عیاض بن موسیٰ المالکی،الشفا بتعريف حقوق المصطفى، ج-1،مطبوعہ: دار الفيحاء، عمان، 1407هـ ، ص:164
  • 25  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 655 ، ج -2، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:15
  • 26  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت،لبنان، 1988، ص:13-12
  • 27  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی ، حدیث: 2336، ج-3، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:670

Powered by Netsol Online