Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکا دہن مبارک

Published on: 28-Oct-2023

(حوالہ: علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ:27، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 441-444)

رسول اکرم sym-1در حقیقت رب کائنات کی وحدانیت کی اعلی و ارفع دلیل ہیں کہ جو مخلوق ہو کر بے مثل ہو اس کے خالق کی کوئی مثل کیسے ممکن ہے؟یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے آپsym-1کی تخلیق کو ممتاز و جداگانہ حیثیت سے خلق فرمایا۔چونکہ آپ sym-1اللہ تبارک وتعالی کی بے مثل تخلیق ہیں اسی لیے آپ sym-1کا ہر ہر جزوِبدن بے نظیر ہے۔اسی طرح حضور sym-1کا دہن (منہ) مبارک بھی انتہائی درجہ کا حسین اورموزونیت کی اپنی مثال آپ تھا۔روایت میں منقول ہے کہ آپ sym-1کا دہن مبارک فراخ، موزوں اور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا ۔آپ sym-1کا منہ مبارک نہ صرف مصدرِ وحی الٰہی اور مخرجِ علم وحکمت تھا بلکہ اپنی ساخت کے اعتبار سے اعتدال اور موزونیت کا کامل واکمل آئینہ دار بھی تھا۔

چنانچہ رسول اکرم sym-1کے دہن مبارک کی صفت کو بیان کرتے ہوئے حضرت ہندبن ابی ہالہ sym-5فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضلیع الفم.1
حضور ﷺکا منہ مبارک فراخ تھا۔

دہن مبارک کی اسی صفت کو حضرت جابر بن سمرہ sym-5نے بھی ذکر کیا ہے۔2 اسی طرح حضرت جمیع sym-5سے مروی ہے :

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضلیع الفم مفلّج الأسنان. 3
رسول اکرم sym-1کا منہ مبارک ذرا فراخ اور دانت مبارک باہم مکمل طور پر ملے ہو ئے نہیں تھے بلکہ ان میں ذرا ذرا فاصلہ تھا اور کشادگی تھی۔4

امام ابن اثیر sym-4"ضلیع الفم" کی تشریح میں فرماتے ہیں:

ضلیع الفم اى عظیمه وقیل: واسعه والعرب تمدح عظم الفم وتذم صغره.5
ضلیع الفم کا معنی منہ کا باعظمت ہونا ہے بعض علما نے اس کا معنی فراخ بھی کیا ہے (لیکن یہ واضح رہے) کہ عرب تنگ منہ کو برا محسوس کرتے اور فراخ کو پسند کرتے تھے۔

ابن جوزیsym-4خود اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں:

قوله: ( ضلیع الفم) أى كبیر، و( الفلج) تباعد مابین الثنایا والرباعیات.6
راوی کا قول ضلیع الفم کا معنی ہے کہ دہن مبارک کشادہ تھا اورفلج کا معنی ثنائی اور رباعی دانتوں کے درمیان کا فاصلہ ہے۔

دہن مبارک چہرہ انور کے حسن و جمال کو دوبالا کرتا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ sym-1کے دہن مبارک سے جو کلمہ ادا ہوتا حق ہوتا، حق کے سوا کچھ نہ ہوتا۔ یہ علم وحکمت کا چشمہ آبِ رواں تھا جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا ینْطِقُ عَنِ الْھوٰى3 اِنْ ھوَاِلَّا وَحْى یوْحٰى47
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے ۔

سیاق کلام اس مفہوم پر دلالت کرتا ہے کہ جو کچھ بھی آپ sym-1دین کے متعلق گفتگو فرماتے تو یہ خالص وحی الٰہی ہوتی جو انہیں بھیجی جاتی۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آپ sym-1جو کچھ بھی دینی امور کے متعلق ارشاد فرماتے تھے وہ وحی الٰہی کے تحت فرماتے ہیں اپنی منشا ومرضی کے تحت نہیں اور نہ ہی اپنی رائے سے کچھ کہتے ہیں بلکہ ان کا ارشاد وحی خالص ہوتا تھا۔ اس کی بابت مزید وضاحت درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہےجس میں حضرت عبد اللہ بن عمر sym-8نے اپنا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔چنانچہ ابن عمرsym-8 بیان فرماتے ہیں:

عن عبداللّٰه بن عمرو قال: كنت اكتب كل شىء اسمعه من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ارید حفظه فنھتنى قریش وقالوا: اتكتب كل شىء تسمعه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بشر یتكلم فى الغضب والرضا؟ فامسكت عن الكتاب فذكرت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاوما باصبعه الى فیه فقال: اكتب فوالذى نفسى بیدہ ما یخرج منه الا حق.8
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصsym-8 بیان کرتے ہیں میں یاد کرنے کے ارادے سے ہر اس بات کو لکھ لیا کرتا جو رسول اﷲ sym-1سے سنتا پس قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا اور کہا کہ: آپ ہر اس بات کو لکھ لیتے ہیں جو کہ سنتے ہیں حالانکہ رسول اﷲ sym-1بھی بشر ہیں جو ناراضگی اور رضا مندی میں بھی کلام فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور حضور sym-1سے اس بات کا ذکر کیا تو حضور sym-1نے انگشت مبارک سے دہن اقدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لکھتے رہو کیونکہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے کوئی بات نہیں نکلتی مگر حق۔

یعنی جو کچھ بھی رسول اللہ sym-1نے فرمایاہے وہ زبان صدق وصفاہے اور وہ ہو کر رہے گا پھر وہ ہوا بھی ویسے جیسے کی حضور اقدس sym-1نے فرمایا۔۔۔ ایک توجیہ یہ بھی کی گئی کہ حضور اقدس sym-1ادائے کلام اور ادائے مخارج میں صحیح اور موزوں تر لمحہ رکھتے تھے۔9

آپ sym-1کے الفاظ مبارک مثل نور کے موتی

گفتگو کے وقت آپ sym-1کے دہن مبارک سے جو نور کی جھڑیاں لگتی تھیں ان کے بارے میں حضرت ابوقرصافہ sym-5سے مروی ہے:

بایعنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انا وامى وخالتى فلما رجعنا قالت امى وخالتى: یا بنى ما راینا مثل ھذا الرجل احسن وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.10
جب میں، میری والدہ اور خالہ حضور نبی کریم sym-1کے دست اقدس پر بیعت کے بعد گھر لوٹے تو میری خالہ اور والدہ مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں: اے بیٹا ہم نے آج تک چہرہ کے لحاظ سے حسین، نظافت لباس اور نرمی کلام کے اعتبار سے اس ہستی جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کرتے وقت آپ sym-1کے مبارک منہ سے نور کی جھڑی لگ جاتی۔

دہن مبارک کی خوشبو

رسول اﷲ sym-1کے دہن اقدس سے نکلے ہوئے سانس اور لعاب وغیرہ کی خوشبو بہتر سے بہتر عطر سے بھی زیادہ عمدہ تھی۔ چنانچہ اس حوالہ سے حضرت انس بیان کرتے ہیں:

شممت العطر كله فلم اشم نكھة اطیب من نكھة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.11
میں نے ہر قسم کا عطر سونگھا ہے لیکن آپ sym-1 کی مبارک مہک سے زیادہ عمدہ مہک نہیں سونگھی۔

مذکورہ بالا حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ sym-1کا دہن مبارک ان تمام تر رعنائیوں اور کامل اوصاف کا حامل تھا جو کہ دہن اقدس کے لیے لازم ہیں ۔ خواہ وہ دہن اقدس کی کشادگی ہو یا دہن اقدس سے علم و حکمت کے غازن و منابع کا اخراج ہو۔ یا رسول اکرم sym-1کے دہن اقدس کی مہکی مہکی اور بھینی بھینی خوشبو میں سے آپ sym-1کے کلام کو سننے والے شخص کی طبیعت سماعت کی طرف مزید راغب ہو۔اس کے ساتھ ساتھ آپ sym-1کا دہن اقدس مخرج و مصدروحی الٰہی بھی تھا جس دہن کے ذریعہ نوع انسانیت نے اپنی تمام تر ترقیوں کے راستوں کو عبور کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہےگے، کامیاب وہ لوگ ہیں جو اس مخرجِ و ماخذِ ہدایت و حکمت کے مطابق اپنی زندگی گزار لیتے ہیں۔


  • 1  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، الحدیث :7 ، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان 1988ء، ص:11-13
  • 2  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الجامع الصحیح للترمذی ، الحدیث :3647 ، ج -6، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص :33
  • 3  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىٰ ﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:45
  • 4  امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی) ، مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی ،لاہور ، پاکستان،2002ء،ص:445-446
  • 5  ابو السعادات مبارک بن محمد ابن الاثیر جزری، النھایۃ فی غریب الاحدیث والاثر، ج -3 ، مطبوعۃ: المکتبۃ العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1979ء، ص: 67-96
  • 6  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوز ى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص-45
  • 7  القرآن،سورۃ النجم53: 3-4
  • 8  سلیمان بن الاشعث السجستانی، سنن ابوداؤد، حدیث :3643، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:618
  • 9  عبدالقیوم حقانی،شرح شمائل ترمذی،ج-2،مطبوعہ:مطبع عربیہ ،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:123
  • 10  احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ،ج-2،مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:20
  • 11  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،لبنان، 1990ء، ص:286

Powered by Netsol Online