Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکی داڑھی مبارک

Published on: 23-Oct-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 21، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 370-398)

اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کو اشرف و افضل مخلوق بنایا گیا ہے 1 اورجس کی ساخت و قوام بھی سب سے زیادہ حسین و جمیل پیدا کیےگئے ہیں۔2 اس کے ساتھ ساتھ اس کا مکمل جسم انتہاء درجہ کے اعتدال کے ساتھ تخلیق کر کے اس کودنیا میں بھیجا گیا ہے۔3 جب یہ نوع انسانی کے افراد کی عمومی حالت ہے تو وہ قدسی جماعت جو ان انسانوں کے لیے رہبر ورہنما بناکر بھیجی گئی ہے ا س مقدس جماعت انبیاء کرام sym-3کے حسن و خوبصورتی کا کیا عالم ہوگا؟اس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حسن یوسف sym-9 کو دیکھا تو دیکھنے والیاں پکا ر اٹھیں کے قسم بخدا یہ انسان نہیں بلکہ معزز فرشتہ ہیں۔4جب حسن یوسف کا یہ عالم ہے تو سرور انبیاء خاتم النبیین sym-1 کے حسن کا اندازہ لگانا یقینا عقل سے بالا تر ہے۔جس کے عجز کا اظہار آپ sym-1کو دیکھنے والوں نے ان الفاظ سے کیا کہ نہ آپ sym-1سے پہلے کبھی اتنا حسین دیکھا گیا اور نہ ہی آپ sym-1 کے بعد دیکھا جا سکتا ہے۔5 سرورِ عالم حضور اکرم sym-1حسن کامل و اکمل کا پرتو تھے جو بے نظیر تھا۔اسی طرح آپ sym-1 کے جسم اقدس کے تمام خدو خال بھی انفرادی طور پر یکتا حسن کے حامل تھے اور جب جسم اطہر کی صورت میں ان کی مجموعی حالت کسی انسان کی بصار ت میں اپنا جلوہ دکھاتی تو وہ آپ sym-1کی حقانیت و صادقیت کی بر ملا گواہی دیتا۔انہی اعضاء جسم نبوی sym-1میں سے آپ sym-1کی داڑھی مبارک بھی تھی جو گھنی، گنجان اور خوش منظر تھی۔ ایسی بھری ہوئی نہ تھی کہ پورے چہرے کو ڈھانپ لے اور نیچے گردن تک چلی جائے۔داڑھی مبارک کے بال بالکل سیاہ تھے ۔ عمر مبارک کے آخری حصہ میں کل سترہ یا بیس بال ریشِ مبارک میں سفیدہوگئے تھے لیکن یہ سفید بال عموماً سیاہ بالوں میں چھپے رہتے تھے، آپ sym-1 ریشِ مبارک کے بالوں کو طول و عرض سے برابر کٹوادیا کرتے تھے تاکہ بالوں کی بے ترتیبی سے شخصی وقار اور وجاہت متاثرنہ ہو۔6

داڑھی کا وسیع اور کشادہ ہونا خوشنمائی کی علامت ہوتاہے۔ جن لوگوں کی داڑھی صرف ٹھوڑی پر ہوتی ہےوہ خوشنما نہیں ہوتی اور اس سے چہرے کا بھی حسن نہیں کھلتا جبکہ لمبی اور چوڑی داڑھی سے چہرہ کا حسن نمایاں ہوتا ہے اور چہرہ پروقار اور وجیہ معلوم ہوتا ہے۔7

آپ ﷺکی مبارک داڑھی معتدل اورگھنی تھی

شمائل حبیب sym-1کےبارے میں وارد احادیث مبارکہ اس کوخوب واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم sym-1کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔ چنانچہ حضرت علی sym-5سے مروی ہے :

كان رسول اللّٰهٍ صلى اللّٰه علیه وسلم : ضخم الرأس واللحیة.8
حضور sym-1اعتدال کے ساتھ بڑے سر اور بڑی داڑھی والے تھے۔ 9

امام ابوبکر الاجری sym-4لکھتے ہیں کہ حضرت ھند بن ابی ہالہsym-5 فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم...كث اللحیة.10
آپ sym-1کی داڑھی مبارک گنجان تھی۔

اس حدیث میں موجود لفظ الکث کا معنی بیان کرتے ہوئے امام بیہقیsym-4 فرماتے ہیں:

الکث کا مطلب ہوتاہے کہ بالوں کے اُگنے کا وہ سرا جو ایک دوسرے سے ملا ہوا ہو۔11

ا سی طرح امام شامی صالحی sym-4لکھتے ہیں:

وقال جبیر بن مطعم كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم اللحیة.12
حضرت جبیر بن مطعم sym-5سے روایت ہے کہ حضور sym-1 کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔

مشہور تابعی حضرت سعید بن المسیب sym-5بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ sym-5 سے آپ کی داڑھی مبارک کا تذکرہ ان الفاظ میں سنا کہ حضرت نافع بن جبیر sym-4سے روایت ہے:

قال: وصف لنا على النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ، فقال: كان ضخم الھامة عظیم اللحیة.13
حضرت علی نے ہمیں نبی sym-1کا حلیہ بیان کرتےہوئےفرمایا: آپ sym-1 کی داڑھی مبارک اعتدال کے ساتھ لمبی تھی اور سرِ اقدس بڑا تھا۔

سینہ اقدس کو ریش مبارک نے جو زینت بخشی تھی صحابہ کرامsym-7 اس کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

كث اللحیة تملأ صدره.14
حضور نبی کریم sym-1کی مبارک داڑھی گھنی اور سینے کو پُر کیے ہوئے تھی۔

اسی حوالہ سے حضرت اُم معبدsym-6 فرماتی ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كثیف اللحیة.15
آپ sym-1کی داڑھی مبارک کے بال الجھے ہوئے نہ تھے۔

حضرت انسsym-5 سے آپ sym-1کے بارے میں منقول ہے:

كانت لحیة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قد ملات ھھنا الى ھھنا وامر یدیه على خدیه.16
دونوں ہاتھوں سے اپنے رخساروں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ sym-1 کی داڑھی مبارک یہاں سے یہاں تک تھی۔

حضرت جھضم بن الضحاکsym-5 بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مقامِ رخیخ پر ٹھہرا تھا تو کسی نے بتایا کہ یہاں ایک شخص ایسا بھی موجود ہے جس نے نبی کریم sym-1کی زیارت کی ہے:

فاتیته فقلت رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال نعم رایته رجلا مربوعا حسن السبلة.17
میں اسی وقت اس شخص کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ نے محبوبِ خدا sym-1کی زیارت کی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں آپ sym-1 کاقد مبارک نہایت خوبصورت تھا نہ زیادہ طویل نہ ہی پست اور آپ sym-1 کی داڑھی نہایت خوش منظر تھی۔

"السبلۃ" سامنے والی ڈاڑھی کو کہتے ہیں۔ لحیہ کے وہ سامنے والے بال جو سینہ پر لٹکے ہوتے ہیں یعنی نچلی ٹھوڑی والے بال ۔

ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم sym-1 کے داڑھی مبارک گنجان ،سینہ تک بھری ہوئی اور سلجھی ہوئی تھی۔

آپ ﷺکی داڑھی کی رنگت

رسول اکرم sym-1کی داڑھی مبارک انتہائی گہری سیاہ تھی۔چنانچہ امام بیہقی اس بارے میں روایت نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اسود اللحیة.18
آپ sym-1کی داڑھی مبارک خوب سیاہ تھی۔

حضرت سعید بن مسیبsym-5 کی اسی روایت کو ابن عساکرنے بھی ان الفاظ میں بیان کیاہے:

كان اسود اللحیه حسن الشعر.19
حضور نبی اکرم sym-1کی ریش مبارک سیاہ اور خوبصورت تھی۔

حضرت سعد بن ابی وقاص sym-5سے ان کے خادم زیاد نے آپ ﷺ کی داڑھی مبارک کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

وكانت لحیته حسنة....شدید سواد الراس واللحیة.20
آپ sym-1کی داڑھی مبارک نہایت خوبصورت تھی یعنی داڑھی اور سر اقدس کے بال خوب سیاہ تھے۔

ان روایات سے واضح ہوتا ہےکہ رسول اکرم sym-1 کی داڑھی مبارک کے بال گہرے سیاہ تھے۔یہ سیاہی مکمل داڑھی مبارک کے بالوں کی شان تھی سوائے آخری عمر میں چند بالوں کے کہ ان میں کچھ سفیدی مزید چار چاند لگانے کے لیے در آئی تھی۔

حضور اکرم ﷺکی داڑھی مبارک مرقّع حسن تھی

حضور اکرم sym-1کی داڑھی مبارک مرقع حسن تھی۔دین الہٰی کی اشاعت و تبلیغ کی وجہ سے جب داڑھی مبارک بڑھ جاتی تھی تو آپ sym-1اس کو سنوار تے تھے۔چنانچہ اس بارے میں حضرت عبداﷲ بن عمر و بن العاصsym-8 سے روایت ہے:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یاخذ من لحیته من عرضھا و طولھا.21
آپ sym-1داڑھی مبارک کے طول و عرض کو برابر طور پر کاٹ دیتے تھے۔

آپ sym-1کے اس عمل سے یہ واضح ہورہا ہے کہ داڑھی میں زینت و حسن کا قائم رکھنا ضروری ہے۔اسی طرح سیدنا صدیق اکبرsym-5 کے والدِ گرامی حضرت ابو قحافہ sym-5 آپ sym-1کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھی منتشر تھی جس کو دیکھ کرآپ sym-1نے ارشاد فرمایا:

لو اخذتم واشار بیده الى نواحى لحیته.22
داڑھی مبارک کے دونوں اطراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئےآپ sym-1 نے فرمایا کہ کاش آپ اسے درست کرلیتے۔

تو معلوم ہوا کہ رسول اکرم sym-1کی سنت ہے کہ آپ sym-1داڑھی مبارک کو سنوارتے تھے اور اسی طرح سنوارنے کاحکم صحابہ کرام sym-7 کو بھی دیاکرتے تھے۔اسی لیے صحابہ sym-7 کا معمول تھا کہ وہ قبضۂ دست سے زائد داڑھی کٹوادیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8 کا معمول تھا جب آپ حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے توداڑھی کی مناسب تراش خراش کرتےچنانچہ ان کےبارے میں منقول ہے:

قبض على لحیته فما فضل اخذه.23
داڑھی مبارک کو مشت میں لیتے جو اس سے زائد ہوتی اسے کٹوادیتے۔

اور امام نسائی sym-4اپنی سند کے ساتھ حضرت مروان بن سالم المنقطع سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں:

رایت ابن عمر قبض على لحیته فقطع ما زاد على الكف.24
میں نے ابن عمر sym-8کو دیکھا کہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے جو حصہ مٹھی سے زائد ہوتا اسے کاٹ دیتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ sym-5کا بھی یہی معمول تھاچنانچہ ان کےمتعلق روایت میں منقول ہے:

یقبض على لحیته ثم یاخذ ما فضل عن القبضه.25
آپ داڑھی مبارک پر مٹھی رکھتے جو اس سے زائد ہوتی اسے ترشوا دیتے۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اکرم sym-1 اپنی گنجان داڑھی مبارک ترشواتے تھے اور آپ sym-1 کی سنت مبارک کی وجہ سے صحابہ کرام sym-7 کا بھی طریقہ رہا کہ وہ اپنی داڑھیوں کو ایک مشت پکڑ کر زائد بالوں کو کٹوادیا کرتے تھے۔

حضور اکرمﷺکاداڑھی مبارک میں خوشبو لگانا

حضور نبی کریم sym-1اپنے سر کے بالوں پر اور داڑھی مبارک میں خوشبو لگاتے تھے ۔چنانچہ امام بخاری sym-4نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے :

باب الطیب فى الراس واللحى.
سر میں اور داڑھی میں خوشبو لگانا۔

اور اس کے تحت حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6سے ایک روایت نقل کی ہے۔چنانچہ وہ نقل فرماتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6اس حوالہ سے فرماتی ہیں:

كنت اطیب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم باطیب ما یجد حتى اجد وبیص الطیب فى راسه ولحیته.26
میں نبی کریم sym-1کو وہ خوشبو لگاتی تھی جو مجھے میسر ہونے والی خوشبوؤں میں سب سے بہترین تھی حتیٰ کہ میں خوشبو کی چمک آپ sym-1 کے سر اور داڑھی میں پاتی۔

اس حدیث مبارکہ میں "وبیص الطیب" کا ذکر ہے اس کا معنی خوشبو کی چمک اور اس کی شعائیں ہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم sym-1 داڑھی مبارک میں خوشبو کا استعمال فرماتے تھے۔

چہرہ پر داڑھی کاحصہ

داڑھی تین جگہوں پر ہوتی ہے۔(1)قلموں سے نیچے کنپٹیوں پر ۔(2)جبڑوں پر۔(3)ٹھوڑی پر۔کانوں پر یا گالوں پر اُگنے والے بال داڑھی میں شامل نہیں لہٰذا ان کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں۔چنانچہ اس حوالہ سے علامہ احمد رضا خانsym-4لکھتے ہیں :

داڑھی قلموں کے نیچے سے کنپٹیوں، جبڑوں، ٹھوڑی پر جمتی ہے اور عرضاً اس کا بالائی حصہ کانوں اور گالوں کے بیچ ہوتا ہے۔ جس طرح بعض لوگوں کے کانوں پررونگٹے (بال) ہوتے ہیں وہ داڑھی سے خارج ہیں۔یوں ہی گالوں پر جو خفیف بال کسی کے کم کسی کے آنکھوں تک نکلتے ہیں وہ بھی داڑھی میں داخل نہیں۔ یہ بال قدرتی طور پر موئے ریش سے جدا وممتاز ہوتے ہیں۔ اس کا مسلسل راستہ جو قلموں کے نیچے سے ایک مخروطی شکل پر جانب ذقن (ٹھوڑی کی جانب) جاتا ہے یہ بال اس راہ سے جدا ہوتے ہیں۔ ان میں موئے محاسن کے مثل قوت نامیہ (بڑھنے کی طاقت) ہے،ان کے صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بسا اوقات ان کی پرورش باعثِ تشویہ خلق وتقبیح صورت ہوتی ہےجو شرعاً پسندیدہ نہیں۔27

داڑھی انبیاء کرامﷺکی سنتِ متواترہ ہے

داڑھی رکھنا حضور سید عالم sym-1اور جمیع انبیاء ومرسلینsym-3 کی سنت قدیمہ ومتواترہ ہے حضورنبی کریم sym-1کے بعد خلفائے راشدین، جمیع صحابہ کرامsym-7 ائمہ عظام ،محدثین ،فقہاء کرام اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیھم کا اس پر دوامی واستمراری عمل رہا ہے اور کسی سے اس کے خلاف منقول نہیں ہے۔

عبیداﷲ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ حضور sym-1کی خدمت میں ایک مجوسی آیا اس نے داڑھی منڈائی ہوئی تھی اور مونچھیں لمبی رکھی ہوئی تھیں۔ حضور sym-1نے اس سے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ہمارے دین میں ہے۔ حضور sym-1نے فرمایا ہمارے دین میں یہ ہے کہ ہم مونچھیں کم کرائیں اور داڑھی بڑھائیں۔ 28

تمام فقہاء امت اس پر متفق ہیں کہ داڑھی کی مقدار قبضہ سے کم کرنا جائز نہیں اور یہ اجماع خود ایک مستقل دلیل ہے۔ امت محمدیہ sym-1کے لیے داڑھی رکھنا واجب ہےاور داڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام و گناہ ہے۔چنانچہ اس کا حکم بیان کرتے ہوئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی sym-4 لکھتے ہیں:

حلق كردن لحیه حرام است وروش افرنج وھنود وجوقیان است كه ایشاں را قلندریه گویند آں بقدر قبضه واجب است.29
داڑھی منڈوانا حرام ہے اور فرنگیوں(یورپیوں) اور ہندوؤں کا طریقہ ہے اور جوگی لوگ کہ جنہیں قلندریہ کہتے ہیں ان کی عادت ہے ۔داڑھی مٹھی بھر لمبی رکھنا واجب ہے۔

داڑھی کی حد

داڑھی کا ایک مشت ہونا سنت کی آخری حد ہے۔ اس سے کم کرنا جائز نہیں اور اس سے اگر کچھ زیادہ ہوجائے تو جائز بلکہ اولیٰ ہے اور اس قدر لمبی چوڑی رکھنا کہ حد شہرت تک پہنچ جائے اور تمسخر کا سبب بن جائے مکروہ ہے۔چنانچہ علامہ احمد رضا خان sym-4لکھتے ہیں:

حضور اقدس sym-1، حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت ابوہریرہ وغیرہم، صحابہ وتابعین sym-7کے افعال و اقوال اور ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ ومحرر مذہب امام محمد sym-8 وعامہ کتب فقہ وحدیث کی تصریح سے داڑھی کی حد ایک مشت ہے۔ اس سے کم کرنا کسی نے حلال نہ جانا، قبضہ(مٹھی) سے زائد کا قطع ہمارے نزدیک مسنون ہے بلکہ نہایہ میں بلفظ وجوب تعبیر کیا ہے۔ 30

داڑھی مبارک میں سفیدی

حضور نبی کریم sym-1کے سرِمبارک اور داڑھی مبارک کے بال سیاہ تھے جیسا کہ ابتداء میں بیان ہوا۔ تاہم آخری عمرِ مبارکہ میں کچھ بال مبارک سفید بھی ہوگئے تھے ۔آپ sym-1کی ٹھوڑی مبارک کے اوپری بال سفید تھےاور سرِ مبارک اور داڑھی مبارک کے دوسرے حصوں میں سفید بال بہت کم تھے جو حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں سفید ہوئےتھے۔ چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت وہب بن ابو جحیفہsym-5 بیان کرتے ہیں:

رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ورایت بیاضا من تحت شفته السفلى العنفقة.31
میں نے حضور sym-1کی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ sym-1 کے لب ِ اقدس کے نیچے کچھ بال سفید تھے۔

اس کی شرح کرتے ہوئے امام بیہقی sym-4 تحریر کرتے ہیں:

العنفقۃ:نچلے ہونٹ کے نیچے کے بالوں کے گرد کے بال سفید تھے۔ایسا لگتا تھا جیسے یہ سفید موتی ہیں ۔۔۔ یہاں تک کہ وہ داڑھی کے اصل بالوں پر پڑتے اس طرح کہ جیسے وہ داڑھی میں سے ہیں۔32

ٹھوڑی کے بال

اسی طرح امام بخاری sym-4 بیان کرتے ہیں:

عن وھب أبى جحیفة السوائى، قال: رأیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ورأیت بیاضا من تحت شفتھا لسفلى العنفقة.33
وہب ازابی حجیفہ السوائیsym-4 وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ sym-1کے نچلے ہونٹ کے نیچے ٹھوڑی کے کچھ بال سفید تھے۔

اس حدیث میں"عنفقہ" کا لفظ ہے ۔نچلے ہونٹ کے نیچے جو چند بال ہوتے ہیں ان کو "عنفقہ "کہتے ہیں ۔ اردو میں اس کو بچہ داڑھی کہتے ہیں۔34

امام بخاری sym-4سے ہی روایت ہے:

سأل عبد اللّٰه بن بسر صاحب النبي صلى اللّٰه علیه وسلم ، قال: أرأیت النبي صلى اللّٰه علیه وسلم كان شیخا؟ قال: كان فى عنفقته شعرات بیض.35
حضرت عبد اللہ بن بسر sym-5سے سوال کیاگیا جو نبی sym-1کے صحابی تھے : کیا آپ نے نبی sym-1کی زیارت کی (جب) آپ بوڑھے تھے؟ انہوں نے کہا کہ(ہاں اور) آپ sym-1کے نچلے ہونٹ کے نیچے چند سفید بال تھے۔36

ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم sym-1کی ریش مبارک میں لب اقدس کے نیچے اور گوش مبارک کے ساتھ گنتی کے چند بال ہی سفید تھے اور اس کے علاوہ باقی تمام کے تمام بال گہرے سیاہ تھے۔

داڑھی مبارک کے سفید بالوں کی تعداد

سفید بالوں کی تعداد کتنی تھی ا ن میں مختلف روایات سیرت کی کتب میں مروی ہیں ۔حضرت عبداﷲ بن بسر sym-5 کی حدیث کا مقتضی یہ ہے کہ آپsym-1 کے دس سے زائد سفید بال نہ تھے کیونکہ انہوں نے قلت کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ آپsym-1 کی داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے اور حضرت حمید نے اپنی ٹھوڑی کے اوپر اشارہ کرکے بتایا کہ سترہ بال سفید تھے۔

علامہ بلقینی sym-4نے ان تمام ر وایات کو جمع کیا ہے۔ ساری روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سفید بالوں کی تعداد بیس سے زائد نہ تھی۔چنانچہ حضرت انس sym-5بالوں کی سفیدی کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

لیس فى راسه ولحیته عشرون شعرة بیضاء.37
حضور نبی کریم sym-1کے سر اقدس اور داڑھی مبارک میں بیس سے زائد بال سفید نہ تھے۔

بعض روایات میں سترہ یا اٹھارہ کا بھی ذکر موجود ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ داڑھی مبارک کے تمام بال سفید نہ تھے۔

بالوں کا کونسا حصّہ سفید تھا؟

جہاں صحابہ کرامsym-7 نے آپ sym-1کے سفید بالوں کی تعداد بیان فرمائی ہے وہاں انہوں نے ان مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں سفیدی درآئی تھی۔ وہ دو مقامات تھے ایک ہونٹ اور ٹھوڑی کا درمیانی حصہ اور دوسرا آنکھ اور کان کا درمیانی حصہ تھا۔چنانچہ جب قتادہ sym-5نے حضور sym-1کے خادمِ خاص حضرت انس سے آپsym-1 کے خضاب استعمال کرنے کے بارے میں سوال کیا توخادم خاص حضرت انس sym-5نے فرمایا:

لا انما كان شىء فى صدغیه.38
نہیں!آپ کی کنپٹیوں میں کچھ سفیدی تھی۔

"کنپٹیوں" یعنی آنکھ اور کان کے درمیان کچھ سفیدی تھی باقی اس کے علاوہ تمام داڑھی مبارک گہری سیاہ تھی۔اسی حوالہ سے امام احمد بن حنبل شیبانی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن حریز بن عثمان قال: كنا غلماناً جلوساً عند عبدللّٰه بن بسر و كان من اصحاب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ولم نكن نحسن نساله فقالت اشیخاً كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال كان فى عنفقته شعرات بیض.39
حضرت حریز بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ ہم چند بچے حضرت عبداﷲ بن بسرsym-5 جو حضور sym-1کے صحابی تھے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ہمیں صحیح طرح سوال کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا حضورsym-1بوڑھے ہوگئے تھے انہوں نے فرمایا کہ حضور sym-1کے نچلے ہونٹ کے نیچے بال سفید تھے۔

نیز امام احمد بن حنبل شیبانیsym-4روایت کرتے ہیں:

عن ابى جحیفة قال: رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھذه منه واشار الى عنفقته بیضاء فقیل لابى جحیفة و مثل من انت یومئذ قال ابرى النبل واریشھا.40
حضرت ابوجحیفہsym-5 بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور sym-1کو دیکھا کہ آپ sym-1کے یہ بال( اشارہ نچلے ہونٹ کے نیچے والے بالوں کی طرف تھا ) سفید تھے کسی نے ابو جحیفہsym-5 سے پوچھا کہ اس زمانے میں آپ کیسے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں تیر تراشتا اور اس میں پر لگاتا تھا۔

حضرت ابو جحیفہ sym-5بیان کرتے ہیں:

رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فرایت بیاضا من تحت شفته السفلى مثل موضع اصبغ العنفقة.41
میں نے رسول اﷲ sym-1کی زیارت کی اور میں نے دیکھا کہ آپ sym-1 کے نیچے والے مبارک ہونٹ کے نیچے سفید بال تھے۔

بالوں کی سفیدی میں چاندی کی چمک

آپ sym-1کے سر اقدس اور داڑھی مبارک میں جو چند بال سفید تھے یہ سفید بال مبارک گویا کہ چاندی کے دھاگے تھے جو سیاہ بالوں کے سامنے چمکتے تھے۔ جب ان بالوں کو زردی سے رنگ دیا جاتا تھا تو وہ یوں چمکتے تھے گویاکہ سامنے کے سیاہ بالوں میں سونے کے دھاگے چمک رہے ہوں۔چنانچہ اسی حوالہ سے امام شامی صالحی sym-4لکھتے ہیں:

وكان شیبه كانه خیوط الفضة یتلالا بین ظھرى سواد الشعر الذى معه اذا مس ذلك الشیب الصفرة.42
آپ sym-1کے سفید بال مبارک گویا کہ چاندی کے دھاگہ تھے جو آپ sym-1کے سیاہ بالوں کے بیچ میں چمکتے تھے جب ان سفید بالوں کو مہندی لگتی تھی۔

بالوں کی سفیدی کا چھپ جانا

سر اقدس میں اس قدر قلیل بال سفید تھے کہ بعض اوقات وہ نظر بھی نہ آتے تھے۔ خصوصاً جب بالوں کو تیل لگاتے تو اس وقت دکھائی نہیں دیتے تھے۔ حضرت جابر بن سمرہ sym-5 سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ sym-1کے سر اقدس کے بال سفید تھے؟ تو انہوں نے فرمایا:

لم یكن فى راس رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شیب الا شعرات فى مفرق راسه اذا ادھن واراھن الدھن.43
آپ sym-1کے سر اقدس میں صرف چند بال سفید تھے جب آپ sym-1تیل لگاتے تو وہ بھی اوجھل ہوجاتے تھے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ بالوں کی سفیدی خشیت الہٰی کی وجہ سے تھی کیونکہ ایک مرتبہ صحابہ کرام sym-7کے اس سوال پر کہ حضور آپ sym-1بوڑھے نظر آرہے ہیں تو آپ sym-1نے فرمایا مجھے سورۂ ھود اور اس طرح کی دیگر سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے۔روایات میں ہے کہ رسالت مآب sym-1کی یہ کیفیت دیکھ کرحضرت سیدنا ابوبکر صدیقsym-5 روپڑتے تھے۔ حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر sym-8دونوں مسجد نبوی میں منبر رسول sym-1کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں رسالت مآب sym-1اپنے دولت کدہ سے اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ اپنی داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔حضرت ابوبکرsym-5 انتہائی نرم دل اور حضرت عمر sym-5کچھ سخت تھے تو حضرت ابوبکر sym-5نے دیکھتے ہی عرض کیاکہ یا رسول اﷲ sym-1! میرے والدین آپ sym-1پر فدا ہوں،آقا اتنی جلدی آپ sym-1پر بڑھاپا آگیا ہے؟بس اتنی بات کہنا تھی کہ ابوبکر کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آیا۔اس پر آقائے دوجہاں sym-1نے فرمایا:ہاں مجھے ھود اور اس کی ہم مثل سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے ۔حضرت ابوبکر sym-5نے سوال کیا یا رسول اﷲ! ہم مثل سے کونسی سورتیں مراد ہیں؟ آپ sym-1نے فرمایا :وہ سورتیں الواقعہ، القارعۃ، سَاَلَ سَآئِلٌ اوراِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ہیں۔44

ابو ایوب انصاری کا نبی اکرم ﷺکی داڑھی کا ادب کرنا

طبرانی میں حضرت ابوایوب انصاری sym-5کے بارے میں ایک روایت مذکور ہے ۔ جس میں منقول ہے کہ آپ sym-1کی داڑھی مبارک پر پرندے کا پر گرا تو حضرت ابو ایوب انصاری sym-5نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔چنانچہ روایت میں مروی ہے:

فسقطت على لحیته ریشة فابتدر ابو ایوب فاخذھا لحیته.فقال صلى اللّٰه علیه وسلم نزع للّٰه عند ما تكره.45
تو آپ sym-1کی داڑھی مبارک پر کسی پرندے کا پرگراتوابوایوب انصاری sym-5نے فی الفور اسے پکڑلیا۔اس پر سرورِ کونین sym-1نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ تجھ سے ہر وہ شے دور کردے جو تجھے ناپسند ہو۔

یعنی حضرت ابو ایوب انصاری sym-5نے رسولِ اکرم sym-1کی داڑھی مبارک کا اس طرح سے ادب کیا تو آپ sym-1نے ان کو دعا دی۔اسی طرح مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبsym-5 کا بیان ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری sym-5نے اپنے آقا sym-1کی مبارک داڑھی کا ایک بال حاصل کرلیا اور سرور عالم sym-1کو علم ہوا تو آپ sym-1نے فرمایا:

لا یصییك السوء یا ابا ایوب.46
اے ابوایوب تجھے کبھی کوئی تکلیف عارض نہ ہوگی۔

حضور اکرم ﷺکا داڑھی میں خضاب لگانا

حضور نبی کریم sym-1کے خضابِ مبارک کے بارے میں کتب احادیث میں دو طرح کی روایت مروی ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور sym-1نے خضاب نہیں لگایا جیسے کہ حضرت انسsym-5 کی روایت میں ہے اور بعض روایات میں ہےکہ حضور ﷺنے خضاب لگایا ہے۔ ان روایات میں راجح یہی ہے کہ حضور نبی کریم sym-1نے خضاب لگایاہے۔ چنانچہ حضرت انس والی روایت اس طرح منقول ہے:

ولم یختضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، انما كان البیاض فى عنفقته وفى الصد غین وفى الراس نبذ.47
حضور sym-1نے کبھی خضاب نہیں لگایا، کیونکہ آپ sym-1 کے ہونٹ کے نیچے، کنپٹیو ں اور سر مبارک سے چند بال سفید تھے۔

اس روایت میں اگرچہ کہ خضاب کی ممانعت آئی ہے جس کا جواب آگے مذکور ہے۔لیکن اس روایت کے برعکس کئی روایات میں منقول ہے کہ آپ sym-1نے خضاب استعمال فرمایا ہے اورکئی صحابہ کرام sym-7نے اس کو ذکر کیا ہے۔ چنانچہ پہلے ان صحابہ کرامsym-7 کی روایت پیش کرتے ہیں پھر حضرت انس sym-5 والی روایت کا جواب ذکر کریں گے۔

حضرت ابوہریرہsym-5 کا بیان

حضرت ابو ہریرہ sym-5سے روایت کرتے ہوئے امام ترمذی sym-4نقل کرتے ہیں:

عن عثمان بن موھب قال: سئل ابوھریرة ھل خضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: نعم.48
حضرت عثمان بن موہبsym-4 بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ sym-5سے سوال کیا گیا، کیا رسول اﷲ sym-1نے خضاب لگایا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔

حضرت عبداﷲ بن بریدہ sym-5 کا بیان

حضرت عبداﷲ بن برید ہ sym-5سے روایت کرتے ہوئے امام محمد بن سعد البصری sym-4لکھتے ہیں:

عن عبدللّٰه ابن بریدة قال: قیل له: ھل خضب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟ قال: نعم.49
حضرت عبداﷲ بن بریدہsym-5 سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ رسول اﷲ sym-1نے خضاب لگایا تھا تو انہوں نے کہا:ہاں۔

حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8کا بیان

حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8سے روایت کرتے ہوئےامام ا بن ابی شیبہ sym-4 نقل کرتےہیں:

ان ابن جریج سال ابن عمر رایتك تصفر لحیتك بالورس فقال ابن عمر: اما تصفیرى لحیتی فانى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یصفرلحیته.50
ابن جریج sym-4نے حضرت ابن عمر sym-8سے سوال کیا میں دیکھتا ہوں کہ آپ اپنی داڑھی کو زردرنگ سے رنگتے ہیں؟ حضرت ابن عمر sym-8نے فرمایا:میں اپنی داڑھی زردرنگ سے اس لیے رنگتا ہوں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺکو زرد رنگ سے داڑھی کو رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8 کا بیان

حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8سے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمیsym-4نقل کرتےہیں:

عن ابن عباس قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا ارادان یخضب اخذ شیئا من دھن وزعفران فرشه بیده ثم یمرسه على لحیته.51
حضرت ابن عباس sym-8 بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ sym-1جب خضاب لگانے کا ارادہ کرتے توکچھ تیل اور زعفران لے کر اپنےہاتھ پرمسلتے پھر اس کو اپنی داڑھی پر ملتے۔

ابن مالک، شعیب ، ناجیہ sym-7 کا بیان

ان تمام سے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمی sym-4نقل کرتے ہیں:

وعن انس بن مالك وشعیب بن عمرو وناجیة بن عمرو قالوا راینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخضب.52
حضرت انس بن مالک، شعیب بن عمرو اورناجیہ بن عمرکہتےہیں: ہم نے رسول اللہ sym-1 کو خضاب کرتے ہوئے دیکھا۔

دیگر راویوں کا بیان

حضرت جہذمہ sym-6سے روایت کرتے ہوئے امام ہیثمی sym-4نقل کرتے ہیں:

عن الجهدمة قالت: رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خرج إلى الصلاة ینفض رأسه ولحیته من ردع الحناء.53
جہذمہsym-6 بیان کرتی ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اﷲ sym-1 نمازکےلیے گھر سے نکلے تو آپ sym-1 کے سر اور داڑھی سےمہندی کےاثرات جھلکتے تھے۔

اسی طرح حضرت عبد الرحمن ثمالیsym-5 سے روایت کرتے ہوئے امام محمد بن سعد البصری sym-4نقل کرتے ہیں:

عن عبدالرحمن الثمالى قال كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یغیر لحیته بماء السدر ویامر بتغییر الشعر مخالفة للاعاجم.54
عبدالرحمن ثمالی sym-4سے روایت ہے کہ رسول اﷲ sym-1اپنی داڑھی کا رنگ بیری کے پانی سے بدلتے تھے اور عجمیوں کی مخالفت کے لیے بالوں کا رنگ بدلنے کا حکم دیتے تھے۔

ان تمام روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ آپ sym-1اپنی داڑھی مبارکہ میں خضاب استعمال فرمایا کرتے تھے۔

روایات میں تطبیق

اب تک کی روایات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم sym-1نے اپنی داڑھی مبارک پرخضاب لگایا۔لیکن ان مذکورہ روایات کے برعکس بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور sym-1نے خضاب نہیں لگایا ۔اس حوالہ سے ایک روایت ماقبل میں گزری اور اسی طرح کی ایک روایت قتادہ sym-5سے بھی مروی ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور sym-1کے خادمِ خاص حضرت انس sym-5سے سوال کیا کہ کیا حضور نبی کریم sym-1نے خضاب استعمال کیا تو آپ نے فرمایا:

لا انما كان شىء فى صدغیه.55
نہیں!آپ کی کنپٹیوں میں کچھ سفیدی تھی۔

بعض اوقات حضور sym-1نے خضاب لگایا اور بعض اوقات خضاب نہیں لگایا حضرت انس sym-5نے ایک حال دیکھ کر اس کی روایت کی اور دوسرے صحابہ sym-7نے دوسرے حال کی روایت بیان کی۔بلکہ امام ترمذیsym-5 نے خود حضرت انس سے بھی خضاب لگانے کی روایت کی ہے چنانچہ امام ابو عیسیٰ ترمذی sym-5روایت کرتے ہیں:

عن انس قال: رایت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبا.56
حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو ل اﷲ sym-1 کے بالوں کو رنگا ہوا دیکھا۔

اسی طرح امام نووی sym-4 لکھتے ہیں:

مختار یہ ہے کہ نبی کریم sym-1نے بعض اوقات میں بالوں کو رنگا اور اکثر اوقات میں رنگنے کو ترک کردیا سو ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق بیان کیا اور یہ تاویل محکماً معین ہے۔ حضرت ابن عمر sym-8سے بالوں کو زرد رنگ کے ساتھ رنگنے کی جوروایت ہے اس کو ترک کرنا ممکن نہیں اور نہ اس کی کوئی تاویل ممکن ہے۔57

حضرت انسsym-5 کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم sym-1 کو خضاب لگانے کی احتیاج نہیں تھی اور حضرت عبداﷲ بن عمر sym-5 اور حضرت ابن عباسsym-8 کی روایات اس کے منافی نہیں ہیں کہ انہوں نے نبی کریم sym-1کو زردرنگ کا خضاب لگاتے ہوئے دیکھا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم sym-1نے بعض اوقات اپنے سفید بالوں پر خضاب لگایا اور اکثر اوقات خضاب نہیں لگایا لہٰذا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق روایت کیا اور ہر ایک اپنے قول میں صادق ہے۔

متقدمین علماءکرام کی رائے

امام احمد بن حنبل sym-4 بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ نبی اکرمsym-1 خضاب لگاتے تھے۔امام محب الدین طبریsym-4لکھتے ہیں:

قال احمد بن حنبل: انى لارى الشیخ المخضوب فافرح به.وقال لرجل: لم لا تخضب؟ قال: استحى. قال: سبحان للّٰه سنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟.58
امام احمد بن حنبل sym-4نے فرمایا کہ میں جب کبھی کسی بوڑھےکومہندی لگائےدیکھتاہوں توخوش ہوتاہوں۔انہوں نےایک شخص سےکہا:تم کیوں مہندی نہیں لگاتے؟اس نےکہا:مجھے شرم آتی ہے۔انہوں نےکہا:سبحان اللہ سنت رسول سے! (کیسی شرم)۔

اسی طرح ابن قیم جوزی sym-4لکھتے ہیں:

فاحمد اثبت خضاب النبى ومعه جماعة من المحدثین.59
پس امام احمد نے حضور sym-1کا مہندی لگانا ثابت کیا ہے اور ان کے ساتھ محدثین کی پوری جماعت ہے۔

اسی پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حافظ ابن کثیر sym-4روایت کرتے ہیں:

قلت ونفى انس للخضاب معارض بما تقدم عن غیره من اثباته والقاعدة المقررة ان الاثبات مقدم على النفى لان المثبت معه زیادة علم لیست عند النافى وھكذا اثبات غیره لزیادة ما ذكر من السبب مقدم لا سیما عن ابن عمر الذین المظنون انه تلقى ذلك عن اخته ام المومنین حفصة فان اطلاعھا اتم من اطلاع انس لانھا ربما انھا فلت راسه الكریم علیه الصلاة والسلام.60
میں کہتا ہوں کہ حضرت انسsym-5 نے خضاب کی نفی کی ہےجبکہ قبل ازیں جو دوسروں کی احادیث بیان ہوئی ہیں ان میں اس کا اثبات پایا جاتا ہے اور طے شدہ اصول یہ ہے کہ مثبت منفی پر مقدم ہوتا ہے کیونکہ مثبت کے ساتھ اضافہ علم ہوتا ہے جو منفی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوسروں کے اثبات میں جو اضافی سبب بیان کیا گیا ہےوہ مقدم ہے۔ خصوصا حضرت ابن عمر کے متعلق یہ ظن کیا جاتا ہے کہ آپ نے یہ بات اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہsym-6 سے معلوم کی ہوگی اور بلاشبہ حضرت حفصہ sym-6 کی روایت حضرت انسsym-5 کی روایت سے زیادہ مکمل ہےکیونکہ انہوں نےکبھی حضور sym-1کےبال مبارک سنوارے ہوں گے۔

اسی حوالہ سے امام طحاوی sym-4لکھتے ہیں:

قال ابوجعفر: فكان فیما روینا عن ابى رمثة من ھذا ما یخالف ما رویناه فیه عن انس بن مالك ومن اثبت شیئا كان اولى ممن نفاه.61
ابوجعفر طحاویsym-4 بیان کرتے ہیں کہ وہ روایات جو ہم نے ابورمثہ سے روایت کی ہیں وہ اس کے خلاف ہیں جو ہم نے انس بن مالک sym-5سے روایت کی ہے (اور قانون یہ ہے) وہ روایت جو کسی چیز کو ثابت کرے وہ اولیٰ ہوتی ہے ان روایات سے جو کسی چیز کی نفی کرے۔

حضرت ابن عمر sym-8کے فرمان مبارک فانی رایت رسول اﷲ sym-1یصفر لحیتہ سے اظہر من الشمس کی طرح واضح ثبوت مل رہا ہے کہ حضور sym-1نے خضاب لگایا ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابن عمرsym-8 خو د بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی داڑھی زردرنگ سے اس لیے رنگتا ہوں کہ میں نے رسول اﷲ sym-1 کو زرد رنگ سے داڑھی کو رنگتے ہوئے دیکھا ہے اور اہل علم حضرات پر مخفی نہیں کہ اتباع رسول sym-1میں حضرت عبداﷲ ابن عمر کا مقام بہت بلند تھا۔اسی کو بیان کرتے ہوئے حافظ ابن کثیرsym-4روایت کرتے ہیں:

عن نافع قال: لو نظرت الى ابن عمر اذا اتبع رسول اللّٰه لقلت ھذا مجنون.62
حضرت نافع sym-4فرماتے ہیں کہ جب میں ابن عمر sym-5کی حضور ل sym-1کی اتباع کو دیکھتا تو کہتا کہ یہ مجنون ہے۔

حضور اکرم ﷺکے خضاب کی اشیاء

عموماً رسول مکرم کا خضاب دو چیزوں سے ہوا کرتا تھا،ایک مہندی سے اور دوسری وسمہ سے۔ وسمہ کا معنی ہے کہ نیل کے پتے ۔چنانچہ اس حوالہ سے امام احمدsym-4ابو رمثۃ سے روایت نقل کرتے ہیں:

عن ابى رمثة قال: كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یخضب بالحناء والكتم وكان شعره یبلغ كتفیه او منكبیه.63
حضرت ابو رمثہ تمیمیsym-5 بیان کرتے ہیں کہ :حضور sym-1مہندی اور وسمہ سے خضاب لگاتے تھے اور حضور sym-1کے بال مبارک کندھوں تک آتے تھے۔

اسی طرح امام بزار sym-4روایت کرتے ہیں:

قال ر سول صلى اللّٰه علیه وسلم: احسن ما غیرتم به الشیب الحناء والكتم. قال: كان النبى یختضب بالحناء والكتم.64
رسول اللہ sym-1نے ارشاد فرمایا: سب سے بہترین چیز جس سے تم سفیدی کو تبدیل کرتے ہو وہ مہندی اور وسمہ ہے۔راوی فرماتے ہیں کہ نبی کریم sym-1مہندی اور وسمہ سے خضاب فرمایا کرتے تھے۔

اسی طرح امام ا بن ابی شیبہ sym-4لکھتے ہیں:

عن یزید قال: قلت لابى جعفر ھل خضب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: قد مس شیئا من الحناء والكتم.65
یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفر سے پوچھا کہ نبی کریم sym-1خضاب لگاتےتھے؟ انہوں نے کہا: نبی کریم sym-1نے مہندی اور وسمہ (نیل کےپتوں)کو لگایا تھا۔

امام محمد بن سعد البصری sym-4لکھتے ہیں:

عن ابى جعفر قال: شمط عارضا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخضبه بحناء وكتم.66
حضرت ابی جعفر sym-5سے روایت ہے کہ رسول اﷲ sym-1کے دونوں رخساروں کے بال بکھرے ہوئے(سیاہ وسفید ملے جلے) تھے آپ sym-1نے ان پر مہندی اور کتم(نیل کےپتوں) کا خضاب لگایا۔

حضورﷺمہندی کا خضاب بھی لگاتے تھے

اس حوالہ سے امام ترمذیsym-4 روایت کرتے ہیں:

ابو رمثة قال: اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مع ابن لى فقال: ابنك ھذا؟ فقلت: نعم اشھد به. قال: لایجنى علیك ولا تجنى علیه ورایت الشیب احمر.67
حضرت ابورمثہsym-5 بیان کرتے ہیں کہ میں رسو ل اﷲ sym-1کی خدمت میں اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوا توآپ sym-1نے فرمایا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میں نے کہا جی میں اس کی گواہی دیتا ہوں ۔آپ sym-1نے فرمایا یہ تم پر ظلم نہیں کرے گا تم اس پر ظلم نہیں کرو گے۔ میں نے دیکھا آپ sym-1کے سفید بال مبارک سرخ تھے۔

رسول اکرم sym-1کےخضاب مبارک لگانے کے متعلق اگرچہ کے روایات میں بظاہرتعارض ہے تاہم اس کی تحقیق و تصحیح کرتے ہوئے ملاعلی قاری sym-4فرماتے ہیں:

وھذه الروایة صریحة فى خضابه صلى اللّٰه علیه وسلم.68
اور یہ آپ sym-1کے خضاب کرنے میں صریح روایت ہے۔

ان مذکورہ روایات سے واضح ہوجاتاہے کہ رسول اکرمsym-1 خضاب استعمال فرماتے تھے اور یہ خضاب مہندی اور نیل کے پتوں سے بنتا تھا۔

زرد رنگ کا خضاب بھی لگاتے تھے

عموما رسول اکرم sym-1ان دو چیزوں یعنی مہندی اور نیل کے پتوں کا خضاب استعمال فرماتے تھے۔لیکن ان کے علاوہ بھی رسول اکرم sym-1نے دیگر چیز وں کاخضاب استعمال فرمایا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابو داؤد sym-4حضرت ابن عمر sym-8سے روایت کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں:

عن ابن عمر ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یلبس النعال السبتیة ویصفر لحیته بالورسوالزعفران وكان ابن عمر یفعل ذلك.69
حضرت ابن عمر sym-8 بیان کرتے ہیں کہ حضور sym-1بغیر بالوں کے چمڑے کی جوتی پہنتے تھے اور اپنی داڑھی کوورس اور زعفران سے رنگتے تھے۔ حضرت ابن عمر sym-8 بھی ایساہی کرتے تھے۔

اسی حوالہ سے حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی sym-4 روایت کرتے ہیں:

عن ابن عمر ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یصفر لحیته.70
حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8 رو ایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺاپنی داڑھی کو زرد رنگ لگاتے تھے۔

اسی طرح حافظ ابوبکراحمدبن حسین بیہقی sym-4کی روایت میں ہے:

عن ابن عمر أنه كان یصفر لحیته بالخلوق ویحدث أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یصفر.71
حضرت ابن عمراپنی داڑھی کوزعفران ملی خوشبوسے رنگتےتھےاوربیان کرتے تھےکہ رسول اللہ sym-1داڑھی کو رنگتے تھے۔

اسی طرح حضرت عبید بن جریج sym-5سے نقل کرتے ہوئے امام طحاویsym-4 لکھتے ہیں:

عن عبید بن جریج انه قال لعبدللّٰه بن عمر: یا ابا عبدالرحمن رایتك تصبغ بالصفرة فقال: انى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یصبغ بھا فانا احب ان اصبغ بھا.72
حضرت عبید بن جریجsym-4 سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداﷲ بن عمر سے کہا :اے ابو عبدالرحمن میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ پیلے رنگ کا خضاب استعمال کرتے ہیں؟ عبداﷲ ابن عمر sym-8نے کہا: میں نے نبی کریمsym-1کو دیکھا کہ وہ اسی رنگ سے (داڑھی مبارک) کو رنگتے تھے اور مجھے یہی رنگ پسند ہے کہ میں اس سے ( اپنی داڑھی کو)رنگوں۔

ابن عمر سے ہی نقل کرتے ہوئے امام عبدبن حمید sym-4لکھتے ہیں:

عن ابن عمر: أنه كان یستحب الصفرة حتى فى العمامة، وزعم أن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یستحب الصفرة.73
حضرت ابن عمر sym-8سے روایت ہے کہ وہ عمامہ رنگنے کو بھی پسند فرماتے تھے اوراپنےاندازے سےفرماتےکہ نبی کریم sym-1بھی اسے محبوب رکھتےتھے۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن عبدللّٰه بن محمد بن عقیل قال :قلت لانس بن مالك: ھل كان شاب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم؟ قال: ما اراه كان فى راسه ولحیته خمس عشرة شعرة بیضاء ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یمسھا بصفرة.74
حضرت عبداﷲ بن عقیلsym-5 فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک sym-5سے عرض کی :کیا حضور sym-1جوان تھے؟ حضرت انسsym-5 نے فرمایا: آپ sym-1کے سر مبارک اور داڑھی مبارک میں پندرہ بال سفید تھے اور حضور sym-1اپنی داڑھی مبارک کو زرد رنگ کرتے تھے۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانیsym-4 روایت کرتے ہیں:

عن عبید بن جریج انه كان یخضب بصفرة ویخبر ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یخضب بالصفرة.75
عبید بن جریج سےمروی ہے کہ وہ زردرنگ کا خضاب لگاتےتھےاور بیان کرتےکہ بے شک رسول اللہ sym-1زرد رنگ کا خضاب لگاتے تھے۔

ان مذکورہ بالا روایات سے واضح ہواکہ نبی اکرم sym-1کا خضاب عمومی طور پر مہندی اور وسمہ یعنی نیل کے پتوں سے ہوا کرتاتھا اور ان کے علاوہ زرد رنگ اور ورس کو بھی نبی اکرم sym-1نے خضاب کے طور پر استعمال فرمایا ہے۔

مہندی اور وسمہ سے رنگے ہوئے موئے مبارک

رسول اکرم sym-1کے موئے مبارک کو صحابہ کرامsym-7 اپنے پاس بطورِ تبرک رکھتے جس کی برکات مسلّم ہیں،جیسا کہ ماقبل میں حضرت ابو ایوب انصاریsym-5 کےحوالہ سے روایت گزری ہے۔اسی حوالہ سے ایک روایت میں عثمان بن عبد اللہ سے نقل کرتے ہوئے امام ابو یوسف sym-4لکھتے ہیں:

عن عثمان بن عبدللّٰه ابن موھب انه قال اخرجت لنا ام سلمة مشاقة من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبة بالحناء والكتم.76
حضرت عبداللہ ابن موھب سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے(ام المومنین) حضرت ام سلمہ sym-6نےمشاقہ (بالوں کاگچھاجوکنگھی کرتےہوئےٹوٹ جاتےہیں)نکالا جس میں رسول اللہ sym-1کے بال مبارک تھے جو مہندی اور کتم(نیل) سے رنگے ہوئے تھے۔

اسی طرح امام محمد بن اسحاق بن خذیمہ sym-4روایت کرتے ہیں:

محمد بن عبد اللّٰه بن زيد، أخبره أن أباه شھد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عند المنحر ھو ورجل من الأنصار فحلق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم رأسه فى ثوبه فأعطاه، فقسم منه على رجال، وقلم أظفاره، فأعطاه صاحبه قال: فإنه عندنا مخضوب بالحناء والكتم أو بالكتم والحناء.77
حضرت محمد بن عبداﷲ بن زید sym-5فرماتے ہیں کہ ان کے والد قربان گاہ کے پاس نبی کریم sym-1کے ساتھ موجود تھے اور وہ ایک انصاری آدمی تھے۔پس رسول اﷲ sym-1نےاپناسر اپنے کپڑے میں مونڈا۔ پھر آپ sym-1نے وہ بال انہیں عطا کردیے اورانہوں نےان کولوگوں میں تقسیم کردیا۔ آپ sym-1نے ناخن تراشے اور ایک صحابی کو عطا کردیے۔صحابی فرماتے ہیں کہ آپ sym-1کے بال مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) یا فرمایا وسمہ اور مہندی کے ساتھ رنگے ہوئے ہمارے پاس موجود ہیں ۔

اسی پر روشنی ڈالتے ہوئےامام حاکم sym-4روایت کرتے ہیں:

قالوا: فانه عندنا مخضوب بالحناء والكتم. ھذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاه.78
صحابہ کرامsym-7 فرماتے ہیں وہ بال اب بھی ہمارے پاس مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) سے رنگے ہوئے موجود ہیں۔یہ حدیث امام بخاریsym-4 اور امام مسلمsym-4 کی معیار کے مطابق صحیح ہے مگردونوں نے اسے نقل نہیں کیا۔

اسی حوالہ سے امام مقدسیsym-4 لکھتے ہیں:

قال فانه لعندنا مخضوب بالحناء والكتم یعنى شعره.79
راوی نے کہا بلاشبہ ہمارے پاس مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) سے رنگے ہوئے یعنی نبی کریم sym-1کے بال مبارک موجود ہیں۔

امام بخاری sym-4نے بھی اسی طرح کی ایک روایت حضرت عثمان بن عبد اللہ سے روایت کی ہے۔چنانچہ وہ روایت کرتے ہوئے نقل فرماتےہیں:

عن عثمان بن عبد اللّٰه بن موھب، قال: أرسلنى أھلى إلى أم سلمة زوج النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح من ماء. وقبض إسرائیل ثلاث أصابع من قصة. فیه شعر من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، وكان إذا أصاب الإنسان عین أو شىء بعث إلیھا مخضبه، فاطلعت فى الجلجل، فرأیت شعرات حمرا.80
عثمان بن عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ میرے گھر والوں نے مجھےام سلمہ sym-6کے پاس پانی کا ایک پیالہ لے کر بھیجا۔ اسرائیل راوی نے تین انگلیاں بند کر لیں یعنی وہ اتنی چھوٹی پیالی تھی۔ اس پیالی میں بالوں کا ایک گچھا تھا جس میں نبی کریم sym-1کے بالوں میں سے کچھ بال تھے۔ عثمان نے کہا جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو وہ اپنا پانی کا برتن بی بی ام سلمہ sym-6کے پاس بھیج دیتا۔ (وہ اس میں نبی کریم sym-1کے بال ڈبو دیتیں)۔ عثمان نے کہا کہ میں نے نلکی کو دیکھا (جس میں موئے مبارک رکھے ہوئے تھے) تو سرخ سرخ بال دکھائی دیے۔

ایک اور روایت میں امام بخاری sym-4نقل کرتے ہیں:

عن عثمان بن عبد للّٰه بن موھب قال: دخلت على ام سلمة فاخرجت الینا شعراً من شعر النبى مخضبوباً. وقال لنا ابونعیم حدثنا نصیر بن ابى الاشعت عن ابن موھب ان ام سلمة ارته شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم احمر.81
عثمان بن عبداللہ بن موہب نے کہا: میں ام سلمہ sym-6کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمیں حضور نبی کریم sym-1کے چند بال نکال کر دکھائے جن پر خضاب لگا ہوا تھا۔ ہمیں ابونعیم نےبتایا نصیر بن ابوالاشعث نے ابن موہب سے روایت کی کہ حضرت ام سلمہ sym-6 نے انہیں نبی کریم sym-1کا سرخ بال دکھایا۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی sym-4روایت کرتے ہیں:

عثمان بن عبد اللّٰه بن موھب، قال: دخلنا على أم سلمة، فأخرجت لنا صرة فیھا شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوب بحناء، فقالت: ھذا من شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم.82
عبداللہ بن موھب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت امہ سلمہ sym-6 کی خدمت میں حاضرہوئے تو انہوں نے ایک شیشی نکالی جس میں حضور sym-1کےمہندی سے رنگے ہوئے بال تھے۔پس آپ sym-5نے فرمایا کہ یہ نبی کریم sym-1کے چند بال ہیں۔

امام حاکم sym-4 لکھتے ہیں:

عن ابى رمثة قال اتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وعلیه بردان اخضران وله شعر قد علاه الشیب وشیبه احمر مخضوب بالحناء.83
حضرت ابو رمثہsym-5 فرماتے ہیں :میں نبی کریم sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ نے دو سبز چادریں اوڑھ رکھی تھیں اور آپ sym-1کے چند بال مہندی کے ساتھ خضاب استعمال کرنے کی وجہ سے سرخ تھے۔

یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری sym-4 اور امام مسلمsym-4 نے اسے نقل نہیں کیا۔ سنن نسائی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:

اتیت انا وابى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وكان قد لطخ لحیته بالحناء.84
میں اور میرےوالد نبی کریم sym-1 کی خدمت میں حاضر ہوئےتوآپ sym-1نےاپنی داڑھی کومہندی سےرنگاہواتھا۔

علامہ بلاذری sym-4 لکھتے ہیں:

قال ابو صالح فى حدیثه عن ابن عباس رضى اللّٰه عنهما : رایت وفرة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بھا ردع من حناء. وقال عكرمة فى حدیثه عن ابن عباس :رایت وفرة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وبھا تلوین من الحناء.85
حضرت ابن عباس sym-8نےفرمایا:میں نے رسول اللہ sym-1کے کانوں کے قریب تک بال دیکھے جو مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔

امام ابن ابی شیبہ sym-4لکھتے ہیں:

عن عثمان بن حكیم قال: رأیت عند آل ابى عبیدة بن عبدللّٰه بن زمعة شعرات من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء.86
امام عثمان بن حکم sym-4بیان کرتے ہیں کہ میں نے آل ابوعبیدہ بن عبد اللہ بن زمعہ کے پاس نبی کریم sym-1کے کچھ بال مبارک دیکھے جو مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔

محمد بن سعد البصری sym-4 نے بھی اس حدیث کو اسی طرح ذکر کیا ہے۔ 87 اسی حوالہ سے حافظ ابن حجر عسقلانیsym-4 لکھتے ہیں:

ابوعقیل قال: انه راى شعرا من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء. قال: كنا نخضضه بالماء ونشرب ذلك الماء.88
ابوعقیل نے کہا :انہوں نے حضور sym-1کے بالوں میں سے ایک بال دیکھا جو مہندی سے رنگا ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا: ہم اس بال کو پانی میں ہلالیاکرتے اور اس پانی کو پی لیا کرتے تھے ۔

ایک اور روایت نقل کرتے ہوئےحافظ ابن حجر عسقلانی sym-4لکھتے ہیں:

عن ابى مالك قال: انه رأى شعرا من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مصبوغا بالحناء ولیس بشدید الحمرة. قال: وكلنا نغلسه بالماء.89
ابن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ sym-1کے بالوں میں سے ایک بال دیکھا جو مہندی سے رنگا ہوا تھا لیکن زیادہ سُرخ نہیں تھا۔مزیدکہا: ہم اسے پانی سے دھوتے تھے۔

اس حوالہ سے امام ابو عیسیٰ ترمذی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن انس قال رایت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوبا. قال حماد واخبرنى عبدللّٰه بن محمد بن عقیل قال رأیت شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عند انس بن مالك مخضوبا.90
حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو ل اﷲ sym-1کے بالوں کو رنگا ہوا دیکھا۔حماد نے کہامجھےعبد اللہ بن محمد بن عقیل نےبتایا: کہ میں نےحضرت انس کےپاس رسو ل اﷲ sym-1کامہندی میں رنگابال دیکھا۔

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمدالطبرانی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن عبدللّٰه بن بریدة عن ابیه قال: رایت فى اصداغ النبى ا خضاب الحناء.91
عبد اللہ بن بریدہ اپنےوالدسےروایت کرتے ہیں:میں نے نبی کریم sym-1کی کنپٹیوں (کےبالوں) کومہندی سے رنگے ہوئے دیکھا۔

امام محمد بن سعد بصریsym-4 لکھتے ہیں:

عن عكرمة بن خالد قال: عندى من شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخضوب مصبوغ فى سكة.92
حضرت عکرمہ بن خالد sym-4بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس رسول اﷲ sym-1کے بال ہیں جو رنگین اور خوشبو دار ہیں۔

ان روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کے موئے مبارک کو اپنے پاس بطورِ تبرک رکھنا اور اس سے برکت کا خواستگار ہونا صحابہ کرامsym-7 کامعمول مبارک تھا۔نہ صرف اتنا بلکہ صحابہ کرامsym-7 ا ن بال مبارک کو اپنے پاس رکھتے ، اس کی زیارت سے لوگوں کو مشرف فرماتے،ان بالوں کو غسل بھی دیتے اور اپنے مریضوں کو وہ پانی پلاتے جن میں ان موئے مبارک کو غوطہ دیا جاتا۔لہٰذا یہ تمام کام کوئی نئے کام نہیں ہیں بلکہ اس کی اصل دور رسالت مآب sym-1 میں موجودہے اور صحابہ کرام sym-7کے معمولات میں رہے ہیں ۔

ماقبل تمام تفصیلات کاخلاصہ یہ ہوا کہ حضور اکرم sym-1کی داڑھی مبارک گھنی اور نور الٰہی کا مرقع تھی ۔صحابہ کرام sym-7نے بیان کیا کہ حضور sym-1کی داڑھی موتیوں کی طرح چمکتی تھی۔ اعتدال کے ساتھ ترتیب سے مزین کیے ہوئے ہوتی تھی ۔آپ sym-1کے اندازمیں نکھارِ شخصیت بدرجہ اولیٰ موجود تھا۔نہ صرف یہ بلکہ رسول اکرم sym-1کی داڑھی مبارک گہری سیاہ تھی جس میں سوائے معدودے چند بال مبارک کے باقی تمام کے تمام بال مانندِ بدلی تھے۔ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اکرم sym-1اپنی داڑھی مبارک کو تراشتے اور سنوارتے بھی تھے اور صحابہ کرام sym-7کا بھی یہی معمول تھا کہ قبضۃ سے زائد داڑھی کو ترشوادیتے تھے۔آپ sym-1کی داڑھی مبارک کے بال مبارک بھی باعث ِ شفاء ہوتے تھے جن سے صحابہ کرامsym-7 اپنے مریضوں کو پانی پلا کر ٹھیک کرتے تھے۔جب داڑھی مبارک کا یہ عالم ہے تو خود سرورِ دو عالمsym-1 کی شان و عظمت کا اندازہ لگانا انسانی عقل سے وراء الوراء ہے۔اس مقام پر پھر صرف یہ وحیِ ربانی ہی جلوہ گر ہوجاتی ہے کہ رب کائنات نے تمام تر فضائل و عظمتیں آپ sym-1کو عطا فرمائیں اور اس کا یوں اعلان فرمایا کہ آپ sym-1پر اللہ ربُّ العزّت کا بے پناہ اور سب سے بڑھ کر فضل ہے۔93


  • 1  القرآن، سورۃالاسراء70:17
  • 2  القرآن، سورۃالتین4:95
  • 3  القرآن، سورۃالانفطار7:82
  • 4  القرآن، سورۃیوسف31:12
  • 5  محمدبن سعد البصری،الطبقات الکبرٰی، ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:138
  • 6  ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری، شمائل مصطفی ﷺ ،مطبوعہ: منہاج القرآن پبلیکیشنز، لاہور،پاکستان،2013، ص:137
  • 7  فتی ارشاد احمد قاسمی ، شمائل کبریٰ، ج-5،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2003ء، ص:41
  • 8  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1408هـ، ص:216
  • 9  أبو عبداللہ محمد بن عبد الله الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج-2، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1990ء، ص:662
  • 10  ابوبکر محمد بن الحسین الآجری،الشریعۃ، حدیث: 1022، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض،السعودیۃ،1990ء ، ص: 150
  • 11  ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوہ(مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)،جـ1، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراتشی، باکستان، 2009ء، ص:254
  • 12  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:34
  • 13  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:216
  • 14  عیاض بن موسیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان ،اردن،1407ھ، ص:148
  • 15  عبد الرحمن بن علی الجوزی ، الوفاء باحوال المصطفیٰ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:397
  • 16  ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر، تہذیب دمشق الکبیر، ج-1، مطبوعۃ: دار المیسرۃ، بیروت، لبنان، 1979ھ، ص:321
  • 17  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:218-217
  • 18  ایضًا: ص:217
  • 19  أبو القاسم على بن الحسن ابن عساكر، تاريخ دمشق، ج-3، مطبوعہ: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، دمشق، السوریۃ، 1995ء، ص:269
  • 20  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:321
  • 21  ابو عیسی محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2762، ج -4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:391
  • 22  ایضاً
  • 23  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:5892، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ مصر، 2003ء، ص:1225
  • 24  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی، سنن نسائی، حدیث:3315، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:374
  • 25  ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:25481، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1409ھ، ص:225
  • 26  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5923، ج- 7، مطبوعۃ: دمشق، السوریۃ، (لیس تاریخ موجود اً)، ص: 164
  • 27  امام احمد رضا خان، فتاوی رضویہ، ج- 22، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان، 1429ھ، ص:596
  • 28  ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ،مصنف ابن ابی شیبہ، ج-8، مطبوعۃ: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ، کراتشی، باکستان، 1406ھ، ص:379
  • 29  عبد الحق دہلوی،اشعۃ اللمعات، ج-1، مطبوعہ: لکشور، بھارت، (سن اشاعت ندارد)، ص:228
  • 30  امام احمد رضاخان، لمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحی، مطبوعہ: مکتبہ فیضان مدینہ، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد) ، ص:45
  • 31  محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري، فيض الباري على صحيح البخاري، ج-4، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،2005ء، ص:434
  • 32  ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوۃ(مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)، ج-1، مطبوعہ: دارالاشاعت، کراتشی، باکستان، 2009ء، ص:254
  • 33  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3545، مطبوعۃ: دارالاسلام للنشروالتوزیغ،الریاض، السعودیہ، 1419ھ، ص: 596
  • 34  علامہ غلام رسول سعیدی ،نعمتہ الباری فی شرح صحیح بخاری ،حدیث:3545، ج-6،مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2012ء، ص:610
  • 35  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3546، مطبوعۃ: دارالاسلام للنشروالتوزیغ، الریاض، السعودیۃ، 1419ھ،ص:596
  • 36  علامہ غلام رسول سعیدی ،نعمتہ الباری فی شرح صحیح بخاری ،حدیث:3546،ج-6،مطبوعہ: فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2012ء، ص:610
  • 37  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3547، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:743
  • 38  ایضًا:حدیث: 3550
  • 39  ابو عبداللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:17219، ج-5، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:205
  • 40  ابو عبداللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:18294، ج-5، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص:401
  • 41  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:334
  • 42  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:18
  • 43  ابو عیسی محمد بن عیسیٰ الترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 43، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء،ص:28
  • 44  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:336
  • 45  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :4048، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:172
  • 46  احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث :2168، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:200
  • 47  مسلم بن الحجاج القشیری، صحيح مسلم، حدیث:6077، مطبوعۃ۔: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000ء، ص:130
  • 48  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:46، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:60
  • 49  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 438-437
  • 50  ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ فی الخضاب بالحناء، حدیث: 25047، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 185
  • 51  ابو الحسن علی بن ابی بکر الہیثمی، مجمع الزوائد، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ القدسی، القاہرۃ،مصر، 1414ھ، ص:162
  • 52  ایضًا: ص:161
  • 53  ایضًا:ص:162
  • 54  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1410ھ، ص:338
  • 55  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3550، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر، 2003ء، ص:743
  • 56  محمد بن عیسیٰ ترمذی،الشمائل المحمدیۃ، حدیث:48، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:62
  • 57  یحییٰ بن شرف الدین نووی، شرح مسلم، ج -2، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع کراتشی، باکستان، ،(لیس التاریخ موجودًا) ، ص:259
  • 58  محب الدین ابوجعفر احمد بن عبد اﷲ الطبری، غایۃ الاحکام فی احادیث الاحکام، حدیث:1228، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :495
  • 59  محمد بن ابی بکر الدمشقی الشہیر بابن قیم الجوزیہ، زادالمعاد، ج -4، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:367
  • 60  ابو الفداء اسماعیل بن عمر نب کثیر الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ المعارف، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:22
  • 61  ابوجعفراحمدبن محمدالطحاوی، شرح مشکل الآثا، حدیث:3118 ، ج -8، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:195
  • 62  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی،جامع المسانید والسنن، ج-28، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:7623
  • 63  ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:17043، ج-5، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص: 169
  • 64  احمد بن عمر وبن عبد الخالق عتیکی بزار، مسند البزار، حدیث: 2777، ج -7 ، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ،السعودیۃ، ص:206
  • 65  ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبہ،مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:5060، ج-8، مطبوعۃ: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ، کراتشی، باکستان ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 246
  • 66  محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 67  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:45، مطبوعۃ: موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:60
  • 68  نور الدین بن سلطان القاری،جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج -1، مطبوعۃ: ادارہ تالیفات اشرفیۃ، ملتان، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا) ، ص:119
  • 69  سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، حدیث :4210 ،ج -4 ، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1430ھ، ص:86
  • 70  سلیمان بن احمدالطبرانی، طبرانی الاوسط، حدیث:2070، ج -2، مطبوعۃ: دارالحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:310
  • 71  ابوبکراحمدبن الحسین البیہقی، شعب الایمان، حدیث :5985، ج-8، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1423ھ، ص:394
  • 72  ابوجعفراحمدبن محمدالطحاوی، شرح مشکل الآثار، ج-9 ، مطبوعۃ: بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:310
  • 73  عبدبن حمید بن نصرابو محمد الکسی، مسند عبد بن حمید، حدیث:840، مطبوعۃ: مکتبۃ السنۃ ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:265
  • 74  سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:5259، ج-5، مطبوعۃ: دارالحرمین، القاھرۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:261
  • 75  سلیمان بن احمد الطبرانی، مسند الشامیین، حدیث: 326 ، ج -1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1984ء، ص:187
  • 76  ابو یوسف یعوب بن ابراہیم،کتاب الآثار لامام ابو یوسف، حدیث:1033، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :232-233
  • 77  محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیشابوری، صحیح ابن خزیمہ، حدیث: 2931، ج-4، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:300
  • 78  ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲالحاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، حدیث :1744، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:648
  • 79  ابو عبداﷲ محمد بن عبدالواحد الحنبلی المقدسی،الاحادیث المختارۃ، حدیث:354، ج -9، مطبوعۃ: مکتبۃ النھضۃ الحدیثۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:358
  • 80  ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5892، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1419ھ، ص:1037
  • 81  ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:5897-5898، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص:1225
  • 82  سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث :764 ، ج-23 ،مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل،عراق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:332
  • 83  ابو عبداﷲ محمد بن عبداللہ الحاکم نیشا بوری،المستدرک علی الصحیحین، حدیث:4203، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:664
  • 84  ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب نسائی، سنن النسائی، حدیث:5084، ج-8، مطبوعۃ: مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:140
  • 85  احمد بن یحییٰ بن جابر بلاذری، جمل من انساب الاشراف، حديث:857، ج-1، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:396
  • 86  ابوبکرعبداﷲ بن محمد بن ابی شیبۃ، مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث:25014، ج -5، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:183
  • 87  محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ: دارصادر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 88  حافظ شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی، المطالب العالیۃبزوائد المسانید الثمانیۃ، حدیث :2208، ج -2، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:276
  • 89  ایضًا:حدیث :2209
  • 90  محمد بن عیسیٰ ترمذی،الشمائل المحمدیۃ، حدیث:48، مطبوعۃ:موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:62
  • 91  سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الاوسط، حدیث:7743، ج -7، مطبوعۃ: دارالحرمین القاھرۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:366
  • 92  محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبریٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:437
  • 93  القرآن، سورۃ النساء113:4

Powered by Netsol Online