Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکی مونچھیں مبارک

Published on: 26-Oct-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ سیّد سعد ابراہیم،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 24، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 410-418)

چہرہ انسانی حسن کا عکاس ہوتاہےجس میں آنکھیں، ناک ، ہونٹ،ابرو، رخساروغیرہ کےنقوش حسن کوچار چاند لگاتےہیں۔یہ جس قدر خوبصورت ہوتے ہیں چہرہ اتنا ہی حسین ہوتاہے۔حضورپرنور sym-1کی جبین، آنکھیں، ابرو،ناک اوردیگراعضاء انتہائی حسین تھے۔حضور نبی کریم sym-1حسنِ ظاہری کی نظافت ولطافت کا اہتمام بھی فرماتےتھے۔ جیسےگیسوئےمبارک میں کنگھاکرنا،داڑھی مبارک میں تیل یا خوشبولگاناوغیرہ۔اس کی وجہ واضح ہے کہ چہرہ پرداڑھی یا مونچھوں کے بال بڑھ جاتےہیں جوبسااوقات قباحت کا سبب بنتے ہیں۔ اسی لیے حضور نبی کریم sym-1 جمعۃ المبارک کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے اپنے ناخن اور مونچھیں کاٹتے تھے۔

تہذیب و تزئیین

حضرت عبداﷲ بن عمرsym-8 فرماتے ہیں:

رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یحفى شاربه.1
میں نے حضور sym-1کی زیارت کی اس وقت آپ sym-1اپنی مونچھیں ترشوارہے تھے۔

حضرت عبداﷲ بن بسرsym-5 بیان کرتے ہیں:

رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یطر شاربه طراً.2
میں نے اﷲ کے رسول sym-1کو مونچھیں مونڈتے ہوئے دیکھا ہے۔

حضرت اُم عیاش sym-6 فرماتی ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یحفى شاربه.3
حضور sym-1اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔

عبد الرحمن بن زیاد نے اپنے شیوخ sym-4سے روایت کیا:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یاخذ الشارب من اطرافه.4
حضور sym-1اطراف سے اپنی مونچھیں ترشوادیتے تھے۔

مذكوره احادیث مبارکہ سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہےکہ آقائے کریم sym-1کی مونچھیں بھری ہوئی اور مکمل تھیں اسی لیے وہ دائیں بائیں اور اوپر نیچے سے بڑھ جایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ان کو آقا کریم sym-1تر شوا لیا کرتے تھے۔ کیونکہ آپ sym-1اپنےظاہری حسن و جمال کوآنےوالےلوگوں کی تعلیم کی غرض سےخوب مدّنظررکھتے تھےورنہ آپ sym-1ظاہری وباطنی حسن وجمال سےآراستہ وپیراستہ تھے۔ جسم اور بالخصوص چہرہ اقدس پر اضافی بالوں کے بڑھنے کی صورت میں دوبارہ حالت اعتدال میں لے آتے تاکہ زیب و زینت کی مثال اعلى وارفع رہے۔

اعمال فطرت

مونچھیں کاٹنے کواحادیث میں فطرت بتلایا گیا ہے۔حضرت عبداﷲ بن عمر sym-8فرماتے ہیں کہ:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: من الفطرة حلق العانة وتقلیم الاظفار وقص الشارب.5
حضور sym-1نے فرمایا: زیر ناف بالوں کو صاف کرنا، ناخن کاٹنا اور مونچھیں تراشنا فطرت سلیمہ کا حصہ ہیں۔

دوسری روایت میں ہے حضرت ابن عمرsym-8 بیان کرتے ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: الفطرة قص الاظفار واخذ الشارب وحلق العانة.6
رسول اﷲ sym-1نے فرمایا: ناخن تراشنا ،مونچھیں کترنا اور زیر ناف بال مونڈنا فطرت ہے۔

حضرت ابوہریرہ sym-5سے روایت ہے:

عن النبی صلى اللّٰه علیه وسلم قال: الفطرة خمس او خمس من الفطرة الختان والاستحداد و تقلیم الاظفار وتنف الابط وقص الشوارب.7
رسو ل اﷲ sym-1نے فرمایا: پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں:ختنہ کرنا، زیرناف بال صاف کرنا ،ناخن کاٹنا، بغل کے بال نوچنا اور مونچھیں تراشنا۔

حضرت عمار بن یاسر sym-5بیان کرتے ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: من الفطرة المضمضة والاستنشاق والسواك وقص الشارب وتقلیم الاظفار ونتف الابط والاستحداد و غسل البراجم والانتضاح والا ختتان.8
حضور sym-1نے فرمایا یہ کام فطرت میں سے ہیں۔ کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا، مونچھوں کا کتروانا، ناخن کاٹنا، بغلوں کے بال صاف کرنا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، جوڑوں کا میل صاف کرنا، شلوار پر پانی چھڑکنا اور ختنہ کرنا۔

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہsym-6 بیان کرتی ہیں کہ:

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: عشر من الفطرة ! قص الشارب واعفاء اللحیة والسواك واستنشاق المآء وقص الاظفار وغسل البراجم ونتف الابط و حلق العانة وانتقاص المآء.قال زكریا: قال مصعب: ونسیت العاشرة الا ان تكون المضمضة.9
حضور sym-1نے فرمایا: دس چیزیں فطرت(سلیمہ میں سے) ہیں مونچھیں ترشوانااورداڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن تراشنا، جوڑوں کا دھونا، بغل کے بال نوچنا، زیر ناف بال صاف کرنا، استنجاء کرنا، راوی دسویں چیز بیان کرنا بھول گیا لیکن اس کا خیال ہے کہ وہ کلی کرنا ہے۔

فطرت ان چیزوں کو کہا جاتا ہے کہ انسا ن کی طبیعت سلیمہ پیدائشی طور پر ان کو پسند اور قبول کرتی ہو اور انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام بھی لازما اختیار اور پسند کرتے ہیں اس لئے امور فطرت ایسے کاموں کو بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ جن پر تمام انبیاء sym-3 اور رسولوں کا عمل ہو اور جو سب کا متفق علیہ طریقہ ہو اور ساتھ ہی ہم کو ان پر عمل کرنے کا بھی حکم ہو۔

ناخن کاٹنے کو فطرت اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ انسان کی فطرت اور پیدائش میں داخل ہے یعنی انسان کی فطرت سلیمہ (سلامتی والی فطرت) ناخن کاٹنے کا تقاضا کرتی ہے اور جب فطرت کے ساتھ شریعت کا بھی حکم ہو تو اس کی تاکید اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

امام عینی sym-4فرماتے ہیں:

وارد بالفطرةالسنة القدیمة التى اختارھا الانبیاء علیھم السلام واتفقت علیھا الشرائع فكانھا امر جلى فطروا علیه.10
اور فطرت سے مراد قدیم (وپرانا) طریقہ ہے جس کو تمام انبیاء sym-3نے اختیار کیا ہے اور اس پر تمام شریعتیں متفق رہی ہیں گویا کہ یہ ایسا واضح حکم ہے کہ جس پر انبیاء sym-3کو پیداکیا گیا ہے۔

سنّت انبیاء

مونچھیں کاٹنا ہمارے پیارے آقا sym-1کی سنت کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم sym-9کی بھی سنت ہے،حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 روایت کرتے ہیں:

كان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم یقص او یاخذ من شاربه... قال: وكان ابراھیم خلیل الرحمن یفعله.11
حضور sym-1اپنی مونچھیں کتراتے یا نوچ لیتےتھے۔فرمایا:اور حضرت ابراہیم خلیل الرحمنsym-9 یہ عمل کیا کرتے تھے۔( یعنی وہ بھی مونچھیں کترتے تھے)۔

نیز دوسری روایت حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 سے روایت ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یجز شاربه وكان ابراھیم النبی صلى اللّٰه علیه وسلم یجز شاربه.12
حضور sym-1اپنی مونچھیں کاٹتے تھے اور حضرت ابراہیمsym-9 بھی اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔

امام احمد بن حنبل شیبانیsym-4 کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 روایت کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یقص شاربه وكان ابو كم ابراھیم من قبله یقص شاربه.13
حضور sym-1اپنی مونچھوں کو تراشا کرتے تھے اور ان سے پہلے تمہارے باپ ابراہیمsym-9 بھی اپنی مونچھوں کو تراشتے تھے۔

امام سعید sym-5 فرماتے ہیں:

كان ابراھیم اول الناس قص شاربه.14
سب سے پہلے حضرت ابراہیمsym-9 نے مونچھیں کاٹی تھیں۔

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰھیمَ رَبُّه بِكلِمٰتٍ فَاَتَـمَّھنَّ 12415
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں۔

حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

ابتلاه اللّٰه عزوجل بالطھارة خمس فى الراس وخمس فى الجسد، فى الراس قص الشارب والمضمضة والاستنشاق والسواك وفرق الراس، وفى الجسد تقلیم الاظفار وحلق العانة والختان ونتف الابط وغسل مكان الغائط والبول بالماء.16
اﷲ تعالیٰ نے انہیں طہارت کے ساتھ آزمایا ہے پانچ کا تعلق سر سے ہے اور پانچ کا جسم سے ہے سر والی یہ ہیں:(1)مونچھیں کاٹنا ، (2) کلی کرنا ، (3)ناک میں پانی چڑھانا، (4) مسواک کرنا، (5)مانگ نکالنا اور جسم والی یہ ہیں: (6) ناخن کاٹنا، (7) زیر ناف بال مونڈنا، (8) ختنہ کرنا، (9) بغلوں کے بال اکھیڑنا، (10) قضائے حاجت اور پیشاب کی جگہ کو پانی سے دھونا۔

حضور sym-1 کی سنّت مبارکہ

حضور نبی کریم sym-1جمعۃ المبارک کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے اپنے ناخن اور مونچھیں کاٹتے تھے۔

حضرت عبداﷲ بن عمروsym-8 بیان کرتے ہیں:

كان یاخذ اظفارہ وشاربه كل جمعة.17
نبی کریم sym-1ہر جمعۃ المبارک کو اپنے ناخن اور مونچھیں کترتے تھے۔

حضرت عبداﷲ بن الاغرsym-5 فرماتے ہیں:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یقص شاربه ویاخذ من اظفاره قبل ان یروح الى صلاة الجمعة.18
رسول اﷲ ﷺنماز جمعہ ادا کرنے کے لئے جانے سے پہلے اپنی مونچھیں کاٹتے اور ناخن کترتے تھے۔

حضرت نافع sym-4 فرماتے ہیں:

ان عبداللّٰه بن عمر كان یقلم اظفارہ ویقص شاربه فى كل جمعة. وروینا عن ابی جعفر مرسلا قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یستحب ان یاخذ من شاربه واظفاره یوم الجمعة.19
نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲبن عمر sym-8 ہر جمعہ ناخن تراشتے اور مونچھیں کاٹتے تھے۔ امام ابو جعفرsym-4 سے مرسل روایت منقول ہے کہ رسول اﷲ sym-1پسند فرماتے تھے کہ ہر جمعہ مونچھیں اور ناخن کاٹے جائیں۔

حضرت محمد بن حاطب sym-5 سے روایت ہے کہ:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یاخذ من شاربه وظفره یوم الجمعة.20
نبی کریم sym-1جمعہ کے دن اپنی مونچھیں اور اپنے ناخن کاٹتے تھے۔

امام ابو الحسن بن ضحاک sym-4حضرت ابورمثہ sym-5 سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا:

ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یقص اظفاره وشاربه یوم الجمعة.21
کہ حضور نبی کریم sym-1بروز جمعۃ المبارک کو اپنے ناخن اور مونچھیں کاٹتے تھے۔

حضرت معاویہ بن قرہsym-5 فرماتے ہیں:

كان لى عمان قد شھدا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یاخذان من شواربھما واظفارھما كل جمعة.22
میرے دو چچاؤں نے حضور sym-1کو (ہمیشہ ) جمعہ کی دن مونچھیں اور ناخن کانٹتےہوئے دیکھا ۔

حضور اکرم sym-1 اہتمام نفاست

حضرت ابن عباسsym-8 سے روایت ہے:

عن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم انه قیل له: یا رسول اللّٰه ! لقد ابطا عنك جبریل؟ فقال: ولم لا یبطى عنى وانتم حولى لاتستنون ولا تقلمون اظفاركم ولا تقصون شواربكم ولاتنقون رواجبكم.23
حضور نبی کریم sym-1سے عرض کیا یا رسول اﷲ sym-1جبریل نے آپ sym-1 کے پاس خبر لانے میں دیر کردی رسول اﷲ sym-1نے فرمایا وہ میرے پاس آنے میں کیوں دیر نہ کرتے جب کہ تم میرے ارد گرد رہنے والے نہ مسواک کرتے ہو، نہ تم اپنے ناخن کاٹتے ہو، نہ تم اپنی مونچھیں کاٹتے ہو اور نہ تم اپنے ہاتھوں کے جوڑاندر سے صاف کرتے ہو۔

حضرت مغیرہ بن شعبہsym-5 بیان کرتے ہیں:

وكان شاربى وفَى فقصه لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على سواك. او قال: اقصه لك على سواك.24
میری مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں حضور sym-1نے ایک مسواک نیچے رکھ کر انہیں کتردیا۔یا فرمایا: میں انہیں مسواک پررکھ کر کتردیتاہوں۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ sym-5 سے ایک دوسری روایت میں اس طرح آتا ہے:

ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم راى رجلا طویل الشارب فدعا بسواك و شفرة فوضع السواك تحت الشارب فقص علیه.25
نبی کریم sym-1نے ایک آدمی کو دیکھا، اس کی مونچھیں بہت زیادہ لمبی تھیں، تو آپ sym-1نے مسواک اور ایک استرہ(بلیڈ) منگوایا، پس مسواک اس کی مونچھوں کے نیچے رکھی اور اس کی مونچھیں کاٹ ڈالیں۔

حضرت عبیداﷲ بن عبداﷲ sym-5 بیان کرتے ہیں:

جاء مجوسى الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قد اعفى شاربه واحفى لحیته فقال: من امرك بھذا؟ قال: ربى. قال: لكن ربى امرنى ان احفى شاربى واعفى لحیتى.
ایک مجوسی بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوا جس نے مونچھیں چھوڑرکھیں تھیں اور داڑھی کاٹ رکھی تھی۔ آپ sym-1نے اس سے پوچھا تمہیں یہ کس نے حکم دیا ہے؟اس نے عرض کی: میرے رب نے۔آپ sym-1نے فرمایا:مگرمیرےرب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی مونچھیں ترشواؤں اور داڑھی کو بڑھاؤں۔26

حضور sym-1کا مونچھوں کا تراشنا

امام ابن حجر عسقلانیsym-4 امام نوویsym-4کے حوالے سے فرماتے ہیں:

یستحب ان یبدا فى قص الشارب بالیمین.27
مونچھیں کاٹنے میں دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے۔

حضرت انسsym-5 بیان کرتے ہیں:

وقت لنا فى قص الشارب وتقلیم الاظفار ونتف الابط و حلق العانة ان لا نترك اكثر من اربعین لیلة.28
رسو ل اﷲ sym-1نے ہمارے لیے مونچھیں ترشوانے، ناخن کاٹنے، بغل کے بال صاف کرنے، زیرناف بال صاف کرنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر فرمائی ہے۔

ملا علی قاریsym-4فرماتے ہیں:

الافضل ان یقلم اظفارہ ویحفى شاربه ویحلق عانته وینظف بدنه بالاغتسال فى كل اسبوع مرة فان لم یفعل ذلك ففى كل خمسة عشر یوما ولا عذر فى تركه وراء الاربعین فالاسبوع ھو الافضل والخمسة عشر ھو الاوسط والاربعون ھو لابعد ولا عذر فیما وراء الاربعین ویستحق الوعید عندنا.29
افضل یہ ہے کہ آدمی یہ کام ہر ہفتہ میں ایک بار کرلیا کرے۔(1)اپنے ناخن کاٹنا(2) اپنی مونچھوں کو کاٹنا (3)اپنے زیر ناف بال مونڈنا(4) اپنے بدن کو غسل کرکے صاف کرنا۔اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر ہر پندرہ دن میں ایک بار کرے اور چالیس دن تک چھوڑنے میں کوئی عذر قبول نہیں ہوگا لہٰذا ایک ہفتہ کی مدت افضل ہے پندرہ دن کی درمیانی مدت ہے اور چالیس دن کی مدت انتہائی مدت ہے اور چالیس دن سے زیادہ مؤخر کرنے کے لیے کوئی عذر قبول نہیں ہوگا بلکہ ہمارے نزدیک وہ وعید کا مستحق ٹھہرے گا۔

حضورsym-1نے اپنی پوری حیات مبارکہ میں بڑی اور لمبی مونچھیں نہیں رکھیں بلکہ جب جب مونچھیں بڑھ کر لب مبارک پر آنے لگتی آپ sym-1اس کو فوری کتروا دیا کرتے تھے۔ کیونکہ آپ sym-1نہایت سلیم الطبع و نازک مزاج تھے اسی لیے آپ sym-1نہ خود بڑی اور بڑھی ہوئی مونچھوں کو پسند فرماتے اور نہ کسی اور کی اس طرح کی مونچھوں کو پسند فرماتے کیونکہ مونچھیں بار بار انسان کے منہ میں داخل ہوتی ہیں اور تمام کھانے پینے کی اشیاء میں شامل ہوکر اس کو آلودہ کر تی ہیں ۔ حضور sym-1نے ان معاملات میں طبعی نظامت و لطافت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی مونچھوں کو ترشوا اور بناکر، کم فرما دیا کرتے تھے۔


  • 1  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج- 1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1990ء، ص: 347
  • 2  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی ،حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء ، حدیث: 7923، ج- 6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمۃ، بیروت، لبنان ،1997ء،ص: 92
  • 3  ابو لفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی،جامع المسانید والسنن الھادی لاقوم، حدیث:13985، ج- 16، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002ء،ص: 5002
  • 4  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1990ء، ص: 347
  • 5  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 5952، ج- 2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص: 266
  • 6  احمد بن شعیب نسائی ، سنن النسائی، حدیث: 12، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 7
  • 7  محمد بن یزید قزوینی ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث: 292، ج- 1،مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص: 59
  • 8  ابو عبداﷲ محمد بن یزید ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث: 294، ج- 1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء،ص: 59
  • 9  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 261، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:125
  • 10  محمود بن احمد بدر الدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج- 22،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص: 45
  • 11  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی، حدیث: 2760، ج- 4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1998ء، ص: 390
  • 12 محی السنہ حسین بن مسعود بغوی، الانوار فی شمائل النبی المختار، حدیث: 1104، مطبوعۃ: دار المکتبی، دمشق، السوریۃ، 1995ء، ص: 695
  • 13  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 2733 ،ج- 1، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء،ص: 495
  • 14  یوسف بن عبداﷲ بن محمد ابن عبدالبر قرطبی ، التمھید لما فی الموطأ من المعانی والمسانید، حدیث: 4238، ج- 8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمۃ، بیروت، لبنان، 1999ء، ص: 393
  • 15  القرآن،سورۃ البقرۃ 2: 124
  • 16  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، حدیث: 685، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003ء، ص: 232-231
  • 17  محی السنہ حسین بن مسعود بغوی، الانوار فی شمائل النبی المختار، حدیث: 1106، مطبوعۃ: دار المکتبی، دمشق، السوریۃ، 1995ء، ص: 696
  • 18  ایضًا
  • 19  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، حدیث: 5964، ج- 3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003ء، ص: 346
  • 20  ابوبکر جلال الدین السیوطی، جامع الاحادیث الجامع الصغیر وزوائدہ والجامع الکبیر، حدیث: 18724، ج- 21، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1994ء، ص: 173
  • 21  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 7 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص: 348
  • 22  محی السنہ حسین بن مسعود بغوی، شرح السنۃ، ج- 12، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1983ء، ص: 114
  • 23  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث:2181، ج- 4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص: 68
  • 24  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 17747، ج- 5، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص: 308-309
  • 25  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابی داؤد الطیالسی، حدیث: 698، مطبوعہ دار البازعباس احمد الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 95
  • 26  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990 ء، ص: 347
  • 27  ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-10، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379هـ، ص: 295
  • 28  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم ، حدیث :257، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:124
  • 29  نور الدین علی بن سلطان قاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج- 8، مطبوعہ: مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 275-274

Powered by Netsol Online