Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکی مبارک ہتھیلیاں

Published on: 01-Nov-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 34، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 474-480)

خالق کائنات نے انسانوں کے لیے انسانوں ہی میں سے حسن کا شاہکار بناکر حضوراکرم sym-1کو بھیجا۔ حضورسرور کائنات کا حسن وکردارہر لحاظ سے شیطانیت کے وسوسوں سےپیداکردہ شکوک وشبہات کاردتھا اور رب کی کمال تخلیق کو واضح اوربندے کو رب کی بندگی کے لیے اُبھارتا تھا ۔بندے کے دل میں رب کی محبت اور رب کی رضاکی چاہت کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ sym-1کے حسن بے مثال کو بنایا تھا۔ خود آپsym-1 کی مبارک ہتھیلیاں بھی نفاست و نزاکت کا وہ گلدستہ تھیں کہ ملائمت و نرمی کے ساتھ ساتھ خوشبو کی ڈلیاں تھیں جس میں مردانہ وجاہتِ شان اور نرمی نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ کشادگی اور فراخی بھی موجود تھی۔ اس امتیازی وصف نے آپ sym-1کی مبارک ہتھیلیوں کو دوسرے تمام اہل زمان سے یکسر مختلف کردیا تھا ۔آپ sym-1کے مبارک ہتھیلیوں کا لمس اتنا پُر اثر تھا کہ صحابہ کرامsym-7 تو آپ sym-1سے شرفِ دست بوسی ہر صورت اور ہمہ وقت حاصل کرتے ہی کرتے۔ لیکن وہ جو آپsym-1 کو نہیں جانتے تھےوہ بھی آپ sym-1کے ہاتھ کی نزاکت سے بہرہ ور ہوتے اور اسی لیے آپ sym-1کی بارگاہ میں بچوں کو بھی لایا جاتا کہ آپ sym-1ان کے سروں پر اپنے دست شفقت پھیر کر اپنی ہتھیلیوں سے ان کے قلب تک میں اپنی نبوت کے بابرکت اثرات پہنچا دیں۔

آپ sym-1کی ہتھیلیاں گداز تھی

آپ sym-1کی ہتھیلی مبارک کے بارے میں ذکر کرتے ہوئےحضرت ابو ہریرہ sym-5سے روایت ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم الكفین.1
آپ sym-1کی ہتھیلیاں گداز تھیں۔2

اس حدیث مبارکہ کوابو یعلی نے 3 اورامام بخاری 4نے تھوڑے سے الفاظ کے اختلاف سے اپنی کتب میں بھی ذکرکیا ہے۔

حضرت انس sym-5رسول اکرم sym-1 کی ہتھیلیوں کی ہئیت بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بسط الكفین.5
حضوراکرم sym-1کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔6

اس حدیث مبارکہ کو امام بخاری sym-4نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔7

حضرت انس sym-5سے ایک اور روایت میں مروی ہے:

كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم شثن القدمين والكفین.8
نبی sym-1کے دونوں قدم اور دونوں ہتھیلیاں بھری بھری تھیں،گداز تھیں۔9

اسی روایت کو مسند ابو یعلی نے حضرت علیsym-5 سے روایت کیا ہے۔10 اس کے بارے میں متعدد روایات ہیں۔ذیل میں حضرت ہند بن ابی ہالہ کی روایت میں بھی آنحضرت sym-1کی ہتھیلیوں کی کشادگی اور پر ہونے کی کیفیت کو قدم مبارک کی کیفیت کے پُر ہونے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔یہاں عام احادیث کے برعکس آپsym-1 کی ہتھیلیوں کی وسعت و فرانی کے لیے رحب الراحۃ کے الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ روایت کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم…رحب الراحة… شثن الكفین والقدمین.11
حضور sym-1۔۔۔کی ہتھیلیاں نرم و فراخ تھیں۔۔۔ہتھیلیاں اور قدم بھرے ہوئے تھے۔12

یعنی آپ sym-1کی ہتھیلی اورقدم مبارک گدازتھے۔۔۔علامہ مناوی sym-4رحب الراحۃ کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے ایک طرف ہتھیلی کی وسعت کی طرف اشارہ ہے تو دوسری طرف وسعتِ قوت کی طرف بھی اشارہ ہے۔13علامہ مناوی نے ’’رجب الراحۃ‘‘کی شرح میں بھی یہی لکھا ہےاور راجح معنی بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ اول معنی راحج ہےکیونکہ راوی آپ sym-1کے خلقی و جسمانی اوصاف کو ذکر کررہےہیں۔14

آپ sym-1کی ہتھیلیاں مبارک نرم اور ٹھنڈی تھی

آپsym-1 کی ہتھیلیاں ریشم سے زیادہ نرم تھیں۔15آپsym-1 کی ہتھیلیاں ( مضبوط اور سخت ہونے کے باوجود)سب سے زیادہ ملائم تھیں ۔یعنی سرکار sym-1 جب کسی سے کوئی چیز کو پکڑتے تو مضبوطی سے پکڑتےاور جب کوئی ہتھیار چلاتے تو خو ب شدت سے چلاتے۔16 آقائے دو جہاںsym-1 کی مبارک ہتھیلیوں میں نرمی، خنکی اور ٹھنڈک کا احساس آپsym-1 کا ایک منفرد وصف تھا ۔17چنانچہ حضرت انس sym-5روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ما مسست حریرا ولا دیباجا قط ألین من كف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.18
میں نے کسی ریشم ودیباج(انتہائی نرم کپڑے کی قسم) کو نہیں چھواجو حضوراکرم sym-1کی مبارک ہتھیلیوں سے زیادہ نرم ہو۔19

مثنی بن صالحsym-4 نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔

قال: صافحت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلم أر واللّٰه كفا ألین من كفه صلى اللّٰه علیه وسلم.20
انہوں نے کہا: میں نے حضور sym-1سے مصافحہ کیا،بخدا میں نے کوئی ہتھیلی آپ sym-1کی ہتھیلی سے نرم نہیں دیکھی۔ 21

اسی حوالہ سےامام حافظ سلیمان بن احمد طبرانی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن المستورد بن شداد عن ابیه قال اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاخذت بیده فاذا ھى الین من الحریر وابرد من الثلج.22
حضرت مستورد بن شداد sym-5 اپنے والد گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں: میں حضور sym-1کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا پس میں نے حضور sym-1کا ہاتھ تھام لیا ۔حضور sym-1کے دست اقدس ریشم سے زیادہ نرم و گداز اور برف سے زیادہ ٹھنڈے تھے۔

حافظ ابن حجر sym-4نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔23

امام اعظم ابو حنیفہ sym-5کی مسند میں بھی اس پر باب باندھا گیا ہے جس میں یہ روایت ذکر کی گئی ہے:

عن انس بن مالك قال: ما مسست بیدى خزا ولا حریرا الین من كف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .24
حضرت انس sym-5سے روایت ہے کہ میں نے کسی نرم اون یا ریشم کو نہیں چھوا جو رسول اﷲ sym-1کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو۔

امام بغوی کی نقل کردہ روایت میں ہے کہ رسول اللہ sym-1کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم نہ کوئی ریشمی کپڑا مَس کیا ،نہ خالص ریشم اور نہ کوئی دوسری چیز۔25یعنی ہر ہتھیلی جس کو حضرت انس sym-5نے آپ sym-1کے ماسواء چھوا یامصافحہ کیا تو آپ sym-1کی ہتھیلی کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں کی ہتھیلیاں قدرے سخت تھیں۔

صحابہ کرام sym-5بیان کرتے ہیں کہ حضور sym-1کی مبارک ہتھیلیوں سے بڑھ کر کوئی شے نرم اور ملائم نہ تھی۔ رسول اکرم sym-1جب کسی سے مصافحہ فرماتے یا سر پر دستِ شفقت پھیرتے تو اس سے ٹھنڈک اور سکون کا یوں احساس ہوتا جیسے برف جسم کو مس کر رہی ہو۔

ہتھیلی مبارک کی ٹھنڈک

رسول اکرم sym-1کی ہتھیلیاں مبارک نرم وملائم اور گدا ز ہونے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی بھی تھیں۔چنانچہ حضرت ابو جحیفہ سےمروی ہے:

عن عون بن أبى جحیفة عن أبیه قال: خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إلى الأبطح فركز عنزة فصلّى إلیھا، وجعل أصحابه یأخذون یده فيیمِرُّونھا على وجوھھم، فجئت وأخذت یده فأمررتھا على وجھى، فإذا ھى أبرد من الثلج وأطیب ریحاً من المسك. 26
عون بن ابی جحیفہ اپنےوالدسےروایت کرتےہیں: حضور sym-1ابطح کی جانب روانہ ہوئے تو آپ sym-1نے ایک ڈنڈازمین میں گاڑا(سترہ کے طورپر)اوراس کی طرف نماز ادافرمائی۔ بعدازاں آپ sym-1کے صحابہ نے آپ sym-1کے ہاتھ مبارک کواپنے چہروں پرمس کرناشروع کردیا پس میں بھی آیا اورآپ sym-1کاہاتھ مبارک پکڑکراپنے چہرےپرپھیراتو وہ برف سےزیادہ ٹھنڈااورمشک سےزیادہ معطرتھا۔

آپ sym-1کی ہتھیلیاں خوشبو سے معطر تھیں

رسول اکرم sym-1کی ہتھیلیاں مبارک کی صفات میں سے ایک صفت اس کا خوشبودار ہونا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت جابر sym-5کی اپنے والد سے مروی روایت میں منقول ہے:

قال:أتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو بمنى، فقلت له: یا رسول اللّٰه، ناولنى یدك، فناولنیھا، فإذا ھى أبرد من الثلج، وأطیب ریحا من المسك.27
حضرت جابر sym-5اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ sym-1منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ میں آپ sym-1کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نےعرض کیا، اے اللہ کے رسول sym-1اپنا دست مبارک بڑھایئے (کہ میں بوسہ لوں) چنانچہ آپ sym-1نے بڑھایا تو میں نے آپ sym-1کادست مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبو دار پایا ۔

اسی طرح حضرت جابر بن سمرۃ سے مروی ہے:

قال: فوجدت یده بردا أو ریحا كأنما أخرجھا من جؤنة عطار.28
حضرت جابر بن سمرہ sym-5 فرماتے ہیں کہ آپ sym-1کے دست مبارک کو نہایت خوشبودار اور ٹھنڈا پایا۔ ایسا جیسا عطر فروش کے عطر دان سے ابھی نکلا ہوا۔

امام بخاریsym-5 اس حوالہ سے روایت کرتے ہیں:

عن أبیه أبى جحیفة، قال فأخذت بیده فوضعتھا على وجھى فإذا ھى أبرد من الثلج وأطیب رائحة من المسك.29
حضرت حجیفہ کے والدسے روایت ہے کہ میں نے آپ sym-1کا ہاتھ مبارک پکڑاتو آپ sym-1کاہاتھ مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار پایا ۔

قاضی عیاض 30اور صاحب سبل الہدی 31نےبھی یہ نقل کیا ہے۔

مذکورہ روایات سے واضح ہوا کہ آپsym-1کی ہتھیلی خوشبو کے اعتبار سے ایسی تھی جیسے عطار کی ہتھیلی، خواہ اس کو خوشبو لگاتے یا نہ لگاتے خوشبودار ہوتی تھیں۔32 خیال رہے کہ ہتھیلی کا ٹھنڈاہوناصحت اورقوت جگر ومعدہ کی پہچان ہے اور کچھ گرم ہونا حدت وحرارتِ جگرومعدہ کی علامت ہے جو مرض ہے اورخدائے پاک نے آپ sym-1کو تمام جسمانی امراض سے محفوظ رکھاتھا جس طرح تمام امراض روحانی سے پاک ومنزہ بنایاتھا۔33

یعنی آپsym-1بحکم خداوندی زندگی بھر میں مسلسل کسی بھی بڑی بیماری تو کجا، معدہ کی حرارت و گرمی جیسے چھوٹے مرض میں بھی مبتلا نہیں ہوئے ۔بلکہ صحت و عافیت اور سلامتی کے ساتھ رسول اللہ sym-1نے اپنی پوری زندگی گزاری۔ خود بھی صحت مند رہے اور جس جس پر آپ sym-1کی دست شفقت کا سایہ پڑا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بھی صحت و سلامتی مقرر فرما دی ۔

آپ sym-1کا اپنی انگلیوں کو پلٹنا

حضور sym-1گفتگو اور خطاب کے دوران عموماً اپنی ہتھیلیوں سے اشارہ فرمایا کرتے اور اسی طرح جب کسی معاملہ میں حیرت کا اظہار فرماتے تو اپنی مبارک ہتھیلیوں کو پلٹ دیا کرتے تھے۔چنانچہ ابو بكر احمد بن الحسين البيہقی آپ sym-1کے انداز اشارات ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

إذا أشار أشار بكفه كلھا، وإذا تعجب قلبھا، وإذا تحدث اتصل بھا، یضرب براحته الیمنى بطن إبھامه الیسرى وفى روایة العلوى ”فیضرب“ بإبھامه الیمنى باطن راحته الیسرى.34
جب آپ sym-1اشارہ کرتے تواپنی پوری ہتھیلی کے ساتھ اور تعجب اور حیرانی کا اظہار کرتے تو ہتھیلی پلٹتے۔جب باتیں کرتے تو ہتھیلی کوشامل کرتے ۔دائیں ہتھیلی کا اندروالا حصہ اُلٹے ہاتھ کے انگوٹھے پرمارتے۔اور علوی کی ایک روایت میں ہے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے تھے۔35

آپ sym-1کی ہتھیلیاں مبارک وہ شاہکار تھیں کہ جس میں حسن کے مختلف کمال نظرآتے تھے۔جس کو اللہ نے توفیق دی اُن لوگوں نے حضور sym-1سے بے شمار فیض حاصل کیا۔اورآخرت میں جنت تو کیا رب کے دیدار کے بھی حقدار ٹھہرے۔

اس پوری تفصیل کا لب لباب یہ ہے کہ رسول اکرم sym-1قدرت کی تخلیق کا شاہکار تھے۔ جس طرح آپsym-1 کی نبوت کمال نبوت ہے، اسی طرح آپ sym-1کا سراپا اقدس حسن و جمال کی جملہ رعنائیوں کا عطور المجموعہ ہے، آپ sym-1کے جسم مبارک کے رنگ رنگ سے نکلنے والے جمال الٰہی کے انوار و تجلیات نے sym-1آپ کی ظاہری حیات مبارک میں بھی لاکھوں افراد کو آپ sym-1کا گرویدہ بنایا اور آپ sym-1کے پردہ فرمانے کے بعد بھی کروڑوں انسان آپ sym-1کے جمال و کمال پر اس طور پر فریفتہ ہیں کہ ان کی اول و آخر تمنا یہی ہے کہ کسی طرح حضور کا دیدار نصیب ہوجائے اگرچہ کہ خواب میں ہی ایک جھلک نگاہئیں آپ sym-1کے جسم کا بوسہ اور لب آپ sym-1کے دست و ہتھیلیوں کو چومنے کی سعادت حاصل کرسکیں۔


  • 1  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ،ج-2،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:73
  • 2  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ،سُبل الہدیٰ (مترجم:ذوالفقار علی ساقی) ،ج-2،مطبوعہ:زاویہ پبلیشر، لاہور،پاکستان ،ص:609
  • 3  ابو یعلی احمد بن علی موصلی ، مسند ابویعلی، حدیث: 2875، ج-5 ، مطبوعۃ: دار المامون للتراث، دمشق، السوریۃ، 1984ء، ص: 255-256
  • 4  محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح بخاری،حدیث:5912،مطبوعۃ:داراالسلام للنشروالتوزیع،ریاض، السعودیۃ، 1999ء، ص:1038
  • 5  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد،ج-2،مطبوعہ: دار الكتب العلمية ، بيروت، لبنان، 1971 ،ص:73
  • 6  محمد بن یوسف الصالحی شامی ،سُبل الہدیٰ (مترجم:ذوالفقار علی ساقی) ،ج-2،مطبوعہ:زاویہ پبلیشر، لاہور،پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)،ص:609
  • 7  محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح بخاری،حدیث :5907،مطبوعہ:داراالسلام للنشروالتوزیع، ریاض ، السعودیہ، 1999ء، ص:1038
  • 8  ایضًا
  • 9  علامہ غلام رسول سعیدی،نعم الباری فی شرح صحیح بخاری،مطبوعہ:ضیاء القرآن، کراچی، پاکستان ، 2013ء،ص:433
  • 10  ابو یعلی احمد بن علی موصلی ، مسند ابویعلی، حدیث: 369، ج-1، مطبوعۃ: دار المامون للتراث ،دمشق، السوریۃ، 1984ء، ص:303
  • 11  ابو حسين بدر الدين العينى الغيتابى الحنفى، عمدة القارى شرح صحيح البخارى، ج-22، مطبوعہ: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:53
  • 12  ابو بکراحمد بن الحسین البیہقی ،دلائل النبوۃ (مترجم:مولانا اسماعیل الجاروی) ،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت، کراچی،پاکستان، 2009،ص:609
  • 13  محمد حسین صدیقی،آفتاب نبوت کی کرنیں اردو شرح شمائل ترمذی، مطبوعہ: دارالاشاعت ،کراچی ، پاکستان،2004ء، ص:104
  • 14  مفتی محمد ارشاد قاسمی ،آئینہ جمال وکمال محمدﷺ، مطبوعہ: ادارالمطالعہ،بہاول پور، پاکستان،2008ء، ص:72
  • 15  امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوہ (مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)،مطبوعہ :دارالاشاعت،کراچی ،پاکستان،2009ء،ص:255
  • 16  یوسف بن اسمعیل نبھانی ،فضائل محمدیہ( مترجم:مولانا مختار احمد رومی)،مطبوعہ:ضیاءالقرآن پبلی کیشنز ، لاہور، پاکستان، 2006ء،ص:131
  • 17  حمد بن سعد،طبقات ابن سعدن (مترجم: علامہ عبداللہ العمادی)،ج-2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ،کراچی،پاکستان، 1389ھ،ص:129
  • 18  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد،ج-2،مطبوعہ: دار الكتب العلمية ، بيروت، لبنان، 1971، ص:74
  • 19  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ،سُبل الہدیٰ (مترجم:ذوالفقار علی ساقی) ،ج-2،مطبوعہ:زاویہ پبلیشر ،لاہور،پاکستان ،(سن اشاعت ندارد) ،ص:609
  • 20  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد،ج-2،مطبوعہ: دار الكتب العلمية ، بيروت، لبنان، 1971، ص:74
  • 21  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ،سُبل الہدیٰ (مترجم:ذوالفقار علی ساقی) ، ج-2،مطبوعہ:زاویہ پبلیشر لاہور،پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)،ص:610
  • 22  سلیمان بن احمد طبرانی،طبرانی الاوسط، حدیث: 9237 ، ج-9 ، مطبوعۃ: دار الحرمین ،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:97
  • 23  ابن حجر عسقلانی ،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، حدیث:11739، ج-8، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 113
  • 24  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، مسند الامام ابی حنیفۃ، مطبوعۃ: مکتبۃ الکوثر ،الریاض، السعودیۃ،1994 ء، ص: 50-51
  • 25  حسین بن سعود بغوی،آنحضرتﷺکے فضائل وشمائل (مترجم: محمد عابد عمران انجم)،مطبوعہ:بیت العلوم ،لاہور،پاکستان ،(سن اشاعت ندارد )، ص:14
  • 26  ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية (لیس التاریخ موجودًا)، ص:53-54
  • 27  ابو بكر احمد بن الحسين البيهقى،دلائل النبوۃ، ج-1،مطبوعۃ: دار الكتب العلمية،بيروت، لبنان، 1405 هـ،ص:256-257
  • 28  مسلم بن الحجاج القشيرى ،صحیح مسلم، حدیث: 2329، ج-13،مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1405ھ،ص:703
  • 29  محمد بن إسماعيل بخاری،صحیح بخاری ،حدیث: 3553،ج-4،مطبوعۃ: دار طوق النجاة، مصر،1422ھ ،ص:188
  • 30  قاضی عیاض بن موسی ، الشفا بتعريف حقوق المصطفىﷺ،ج-1، مطبوعہ: دار ابن حزم ،بيروت، لبنان،1433 ھ،ص:147
  • 31  محمد بن يوسف الصالحي الشامي،سبل الهدى والرشاد ،ج-2، مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1414 ھ، ص:74
  • 32  امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوہ (مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)،مطبوعہ :دارالاشاعت،کراچی، پاکستان،2009ء،ص:255
  • 33  مولانا مفتی مظفر حسین ،شمائل کُبریٰ ، ج-5،مطبوعۃ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص :65
  • 34  ابو بكر احمد بن الحسين البيهقى،دلائل النبوة ،ج-1،مطبوعہ: دار الكتب العلمية ، بيروت، لبنان،1405 ﻫ،ص:288
  • 35  ابو بکراحمد بن الحسین البیہقی (مترجم:مولانا اسماعیل الجاروی) ،دلائل النبوۃ ،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت، کراچی،پاکستان، 2009،ص:214

Powered by Netsol Online