Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکا قلب اطہر

Published on: 02-Nov-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ،علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 36، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 486-493)

حضور نبی کریم sym-1کے قلب مبارک کی وسعتوں اور گہرائیوں کا اندازہ لگانا اوراس بارے میں لب کشائی کی جرات کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ آپ sym-1کا قلب مبارک اﷲ تعالیٰ کی خصوصی تجلیات وانوار اور علوم و معارف کا مرکز تھا ۔سب سے اعلیٰ وحی کے نزول کا محل اور مرکز یہی قلب اطہر بنا جوتمام کائنات کے دلوں سے پاکیزہ ، بہتر، نرم رقیق، وسیع وقوی اور تقویٰ و نظافت کا سرچشمہ تھا ۔ آپ sym-1کا قلب اقدس کئی صفات سے متصف تھا مثلاً آپ sym-1کا قلب مبارک صرف حالت بیداری میں نہیں بلکہ حالت نیند میں بھی بیدار رہتا تھا۔آپ sym-1کے قلب اطہر ہی کے انوار و کمالات سے تمام کائنات آج تک فیضیاب ہورہی ہے اور قیامت تک ہوتی رہےگی۔

یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس مرتبہ کمال پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم sym-1کو فائز فرمایا ہے کسی اور کے لئے یہ منزلت رفیعہ ثابت نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز اور اخلاص کا مقام دل کو بنایا ہے ۔اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس بندے کے دل کو چن لیتا ہے اس کو اپنے راز کا امین بنالیتا ہے اور سب سے پہلے جس مبارک دل کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز کا امین بنایا وہ قلب مبارک سید الخلق رحمۃ للعالمین محمد مصطفی sym-1ہے کیونکہ حضور sym-1خلق میں سب سے پہلے ہیں اور ظہور میں سب انبیاء sym-3سے آخر میں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی حکمت نے اجسام وقوالب کے اخلاق کو دلوں میں مخفی رازوں کی علامت اور نشانی بنایا ہے ۔پس جس کے دل میں راز خداوندی متحقق ہوگیا اس کے اخلاق میں بڑی وسعتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اس کی شفقت کا سایہ کسی ایک نوع اور جنس کے ساتھ مخصوص نہیں رہتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کی ساری مخلوق، خواہ اس کا تعلق نباتات سے ہو، جمادات سے ہو یا حیوانات سے ہو، سب پر یکساں رہتا ہے۔ وہ نوع انسانی میں ہر فرد کے ساتھ ایسے اخلاق سے پیش آتا ہے جس سے اس کا بگاڑ دور ہوتا ہے اور اس میں خوبیاں نمودار ہوتی ہیں۔ اور اسی شفقت کے پیش نظر کبھی اس کو سختی سے بھی پیش آنا پڑتا ہے ۔بلکہ بعض اوقات اس کی خیر خواہی کے لیے اس پر حدود بھی نافذ کی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر نرمی اور سختی ہر پیار اور ہر شدت میں اس کی بہتری ملحوظ ہوتی ہے۔1

قرآن کریم میں قلب مصطفیٰ sym-1

قرآن کریم کی بعض آیات اور الفاظ حضور نبی کریم sym-1کے قلب مبارک سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔امام ثعلبی ، امام خازن اور امام بغوی رحمہما اﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8نے حضرت کعبsym-5 سے کہا کہ مجھے مثل نورہ کمشکوۃ (الایۃ) کے بارے میں بتائیے کہ اس سے کیا مراد ہے؟تو حضرت کعب sym-5نے جواب دیا:

ھذا مثل ضربه اللّٰه سبحانه لحمد صلى اللّٰه علیه وسلم فالمشكوة صدره والزجاجة قلبه والمصباح فیه النبوة توقد من شجر مباركة ھى سجرة النبوة.2
(آیت مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب sym-1کے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکوۃ سے آپ sym-1کا سینہ اقدس مراد ہے زجاجۃ سے مراد آپ sym-1کا قلب اطہر ہے جبکہ مصباح سے مراد وہ صفت نبوت ہے جو شجرہ نبوت سے روشن ہے۔

امام ابو حاتم رازی sym-4اپنی سند کے ساتھ اس کو ان الفاظ میں روایت کرتے ہیں:

عن شمر بن عطیة قال جاء ابن عباس الى كعب الاحبار فقال حدثنى عن قول اللّٰه فیھا مصباح والمصباح قلبه یعنى قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم و عن ابى بن كعب فى قوله المصباح فى زجاجة فذلك النور فى زجاجة والزجاجة قلبه.3
شمر بن عطیہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس sym-8 کعب الاحبار sym-5کے پاس آئے توفرمایا کہ مجھے اللہ تبارک وتعالی کے فرمان: فیھامصباح کے بارے میں بتائیں تو (انہوں نے کہا) مصباح سے مراد آپ ﷺکا قلب انور ہے۔حضرت ابی بن کعب sym-5 سے باری تعالی کے فرمان: المصباح فی الزجاجۃ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ نور شیشی میں ہے اور شیشی سے مراد آپ ﷺکا قلب انور ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے حضور ﷺکے مبارک سینے کو انوار و معارف الٰہیہ کا خزینہ بنایا تھا۔اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالنَّجْمِ اِذَا ھوٰى14
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔

امام جعفر صادق sym-5 سے "والنجم اذا ھویٰ" کے بارے میں منقول ہے کہ النجم سے مراد حضور ﷺکا قلب انور ہے۔قاضی عیاض sym-4 نے ان کا قول ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔

ھو قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم .5
نجم سے مراد حضرت محمد مصطفی sym-1کا قلب انور ہے۔

شیخ احمد شہاب الدین خفاجی sym-4اس کے تحت لکھتے ہیں کہ ان انوار سے وہ ربانی تجلیات مراد ہیں جو علوم و حکم اور کمالات ومشاہدات کی صورت میں آپ ﷺکو حاصل ہوئیں اس کے بعد قلب اقدس کو نجم کہنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وتشبیه قلبه صلى اللّٰه علیه وسلم بالنجم لا یخفى ظھوره لا شراقه بنور ربه.6
قلب انور کی نجم کے ساتھ تشبیہ واضح ہے کیونکہ آپ sym-1 کا قلب اقدس رب کریم کے انوار سے روشن ہے۔

رب تعالیٰ کا انتخاب قلب مصطفیٰ sym-1

قلب نبوی تمام بندوں کے دلوں سے افضل و اعلیٰ ہے اور آپ sym-1کے بعد آپ sym-1کے صحابہ کا دل تمام نوع انسانی سے بہتر ہے ۔چنانچہ امام ابوداؤد الطیالسی sym-4روایت کرتے ہیں:

عن عبداللّٰه قال ان اللّٰه عزوجل نظر فى قلوب العباد فاختار محمداً فبعثه برسالاته وانتخبه بعلمه ثم نظر فى قلوب الناس بعده فاختارله اصحابه فجعلھم انصار دینه ووزاء نبیه صلى اللّٰه علیه وسلم فما راه المومنون حسنا فھو عنداللّٰه حسن وما راه المومنون قبیحا فھو عنداللّٰه قبیح.7
سیدنا عبداﷲ بن مسعود sym-5 بیان فرماتے ہیں کہ اﷲ عزوجل نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو حضرت محمد sym-1کے دل کا انتخاب کیا۔پس آپ sym-1کو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا اور اپنے علم کے ساتھ منتخب کیا۔ پھر اپنے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو آپ sym-1کے اصحاب کرام کا انتخاب کیاتو انہیں اپنے دین کا مددگار بنایا اور انہیں اپنے نبی sym-1کا وزیر بنایا۔ سو جس کو مؤمنین اچھا خیال کریں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہوتا ہے اور جس کو مؤمنین برا سمجھیں وہ اﷲ کے ہاں بھی برا ہوتا ہے۔

امام احمد بن حنبلsym-4 نے اس حدیث مبارکہ کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

عن عبداللّٰه بن مسعود قال ان اللّٰه نظر فى قلوب العباد فوجد قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم خیر قلوب العباد فاصطفاه لنفسه فابتعثه برسالته ثم نظر فى قلوب العباد بعد قلب محمد فوجد قلوب اصحابه خیر قلوب العباد فجعلھم وزراء نبیه یقاتلون على دینه فما راى المسلمون حسنا فھو عنداللّٰه حسن وما راوا سیئا فھو عنداللّٰه سیئى.8
حضرت عبداﷲ بن مسعودsym-5 بیان کرتے ہیں کہ اﷲ نے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھاتو حضور sym-1کے قلب اقدس کو سب سے افضل پایا لہٰذا انہیں اپنی ذات کے لئے منتخب کرتے ہوئے رسالت کے لیے مبعوث فرمایا۔ پھر حضور نبی کریم sym-1کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو آپ sym-1کے اصحاب کا دل تمام سے افضل پایا پس انہیں اپنے پیارے نبی sym-1کی معیت وصحبت عطا کی۔ انہوں نے آپ sym-1کے مشن کی خاطر خوب قربانی دی پس جس عمل کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جسے مسلمان برا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی برا ہے۔

قلب مصطفیٰ sym-1گنجینہ اسرار خداوندی

اﷲ تعالیٰ نے دلوں کو اپنے راز ونیاز اور اخلاص کا محل بنایا ہے اور اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اپنے لیے منتخب فرمالیتا ہے ۔سب سے اولین دل جو اﷲ کے خصوصی رازوں کا محل ومرکز بنا وہ حضور sym-1کا قلب انور ہی تھا۔ اس حوالہ سے امام قسطلانیsym-4 فرماتے ہیں:

اول قلب اودعه الیه قلب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم لانه اول خلق.9
سب سے پہلا دل جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے راز کا مرکز بنایا وہ قلب مصطفوی sym-1ہے کیونکہ آپ sym-1کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی۔

اسی حوالہ سےشیخ عبد الحق محدث دہلویsym-4 لکھتے ہیں کہ امام لغت حضرت اصمعیsym-4 سے ایک شخص نے پوچھا حضور sym-1کے فرمان "انہ لیغان علی قلبی" (میرے دل پر بعض اوقات بوجھ آتا ہے) سے کیا مراد ہے تو انہوں نے فرمایا:

اگر از غیر قلب رسول ا للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وغین اومى پرسیدید مگیفتم انچه میدانستم اما ایں جادم نتوانم زركه حقیقت آنرا جز علام الغیوب كسے نداند.10
اگر حضور sym-1کے علاوہ کسی کے قلب اور اس پر بوجھ کے بارے میں سوال ہوتا تو اس پر گفتگو کرتا مگر یہاں میں دم نہیں مارسکتا کیونکہ آپ sym-1کے قلب انور کے معاملہ کو سوائے اﷲ تعالیٰ کے کوئی نہیں جان سکتا۔

دل مبارک مصدر خشیت الہٰی

قلب نبوی sym-1سب سے بڑھ کر تقویٰ کے زیور سے آراستہ تھاکیونکہ خود آپ sym-1کا ارشاد گرامی ہے:

اما واللّٰه انى لاخشاكم للّٰه واتقاكم له.11
سنو بخدا میں تم سب سے زیادہ اﷲ سے خشیت اور اﷲ سے تقویٰ رکھنے والا ہوں۔

قلب نبوی اور کینہ سے برأت

حضرت عبداﷲ بن مسعود sym-5سے مروی ہے کہ رسول اﷲ sym-1نے اپنے صحابہ کرام sym-5کو مخاطب کرکے فرمایا تم میں سے کوئی دوسرے کے بارے میں مجھے کوئی چیز نہ پہنچائے:

فانى احب ان اخرج الیكم وانا سلیم الصدر.12
میں پسند یہ کرتا ہوں کہ میں تمہاری طرف اس حال میں آؤں کہ میرا سینہ بالکل صاف ہو۔

حضرت عبداﷲ بن عمرو sym-8 سے مروی ہے کہ صحابہ کرام sym-7 نے عرض کیا یا رسول اﷲ! لوگوں میں افضل ترین کون شخص ہے؟ آپ sym-1نے فرمایا ہر وہ شخص جو مغموم القلب اور صدوق اللسان ہو ۔عرض کیا یا رسول اﷲ sym-1! ہم صدوق اللسان (سچ کہنے والا) کا معنی جانتے ہیں مگر مغموم القلب کے بارے میں نہیں جانتے تو آپ sym-1نےفرمایا : اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا دل متقی اور اس طرح صاف ہو کہ اس میں کوئی گناہ ،سرکشی،کھوٹ اور حسد نہ ہو۔13

آپ sym-1کا قلب مبارک ھمہ وقت بیدار رہتا

اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے قلبِ انور کو اسی طرح بیداری عطا فرمائی تھی کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں باری تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا تھا۔ نہ تو اس پر نیند کا غلبہ ہوسکتا تھا اور نہ ہی اس پر غفلت طاری ہوسکتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم sym-1کا خواب بھی سراپا وحی تھا اور آپ sym-1کی نیند وضو میں خلل واقع نہیں کرتی تھی۔چنانچہ امام بخاریsym-4 اور دیگر کئی محدثین روایت کرتے ہیں:

حدثنا عبداللّٰه ابن مسلمة عن مالك عن سعید المقبرى عن ابى سلمة بن عبد الرحمن انه سال عائشة كیف صلوة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى رمضان قالت ما كان یزید فى رمضان ولا غیره على احدى عشرة ركعة یصلى اربع ركعات فلا تسال عن حسنھن وطولھن ثم یصلى ثلاثاً فقلت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم تنام قبل ان توتر قال تنام عینى ولا ینام قلبى.14151617181920
ام المومنین عائشہ صدیقہ sym-6 سے دریافت کیا گیا کہ رسول اﷲ sym-1رمضان المبارک میں کتنی نماز پڑھا کرتے تھے انہوں نے جواب دیا کہ آپ sym-1رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ جب چار رکعتیں پڑھتے تو ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں کچھ نہ پوچھیے۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے اور ان کی درستی و درازی کی کیا ہی بات ہے۔ (تہجد کی آٹھ رکعت) اس کے بعد تین رکعت (وتر) پڑھتے میں عرض گزار ہوئی یا رسول اﷲ sym-1! وتر پڑھنے سے پہلے تو آپ سوگئے تھے؟ فرمایا میری آنکھ سوتی ہے لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

قلوبِ انبیاء ہمیشہ بیدار رہتے تھے

حضرت ملا علی قاریsym-4اور امام عبد الرؤف مناوی sym-4اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

انما فعلت ذلك لانى لا اخشى فوت الوتر وھذا من خصائص الانبیاء علیھم السلام لحیاة قلوبھم واستغراق شھود جمال الحق المطلق.21
میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے وتروں کی قضا کا اندیشہ نہیں ( کہ میرا دل بیدار رہتا ہے اور) یہ انبیاء sym-3 کا خاصہ ہے کہ ان کے مبارک دل ہر وقت ہر حال میں بیدار اور جمال حق اﷲ تعالیٰ کے مشاہدہ میں مستغرق رہتے ہیں۔

قلب مصطفیٰ sym-1کی سماعت و بصارت

اس حوالہ سے امام دارمیsym-3 روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل sym-9نبی کریم sym-1کی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے آپ sym-1کے پیٹ مبارک کو چیر دیا پھر حضرت جبریل sym-9نے فرمایا:

قلب وكیع فیه اذنان سمیعتان وعینان بصیرتان محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم المقفى الحاشر خلقك قیم ولسانك صادق ونفسك مطمئنة.قال ابو محمد وكیع یعنى شدیدا.22
یہ بہت زبردست دل ہے ،اس میں دو کان ہیں جو سن لیتے ہیں اوردو آنکھیں ہیں جو دیکھ لیتی ہیں ۔حضرت (سیدنا)محمد sym-1اﷲ کے رسول ہیں جوسب سے آخر میں تشریف لائے ہیں، یہی جمع کرنے والے ہیں (اےسیدنا محمد sym-1) آپ sym-1کے اخلاق مضبوط ہیں، آپ sym-1کی زبان سچی ہے اور آپ sym-1کا نفس مطمئن ہے۔امام دارمیsym-4 فرماتے ہیں کہ "وکیع" کا مطلب شدید اور زبردست ہے۔

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1کا قلب مبارک جماعتِ انبیاء کرام sym-3میں سے بھی سب سے قوی اور مضبوط تھا۔یہی وہ دل اقدس تھا کہ جس کو اللہ رب العزت نے سب سے پہلے اپنے اسرار کا راز داں بنایا اور پھر اسی قلب مبارک کے وسیلہ سے دوسرے قلوب کو اپنی معرفت کا محل بنایا۔


  • 1  پیر محمد کرم شاہ الازہری ، ضیاء النبی ﷺ ،ج -5،مطبوعہ : ضیا ء القرآن پبلی کیشنز ، لاہور،پاکستان، 1420ھ، ص: 492-493
  • 2  ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی ،تفسیر ثعلبی ،ج -7 ،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت ، لبنان، 2002 ء، ص:105
  • 3  عبد الرحمن بن محمد بن ادریس رازی ، تفسیر ابی حاتم الرازی ،،حدیث: 14577-14578، ج -8، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ، 1419ھ، ص: 2696-2597
  • 4  القرآن، سورۃالنجم53: 1
  • 5  عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:99
  • 6  شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی مصری ، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -1، مطبوعۃ: دار ابن رجب، القاہرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :200
  • 7  سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابی داؤد الطیالسی، حدیث: 243، ج -1، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر،1999ء، ص:99
  • 8  احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 3600، ج-6، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:84
  • 9  محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب ،ج-5، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1996ء،ص:466
  • 10  الشیخ عبد الحق الدھلوی ، مدارج النبوۃ ،ج-1 ،مطبوعۃ: منشی لولکشور،ہند، (لیس التاریخ موجوداً) ،ص :19
  • 11  محمد بن حبان ، صحیح ابن حبان، حدیث: 317، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:20-21
  • 12  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 3759، ج-6، ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:301-302
  • 13  محمد بن یزید ابن ماجہ ، سنن ابن ماجہ، حدیث:4216، ج-2 ، مطبوعۃ:دار احیاء الکتب العربیۃ ، القاہرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجوداً)، ص:1409
  • 14  محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری، حدیث: 3376، ج -3، مطبوعۃ: دار ابن کثیر ، بیروت، لبنان، 1987ء، ص:1308
  • 15  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 738، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی،بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً) ،ص-509
  • 16  احمد بن حنبل شیبانی، مسند احمد، حدیث: 23553، ج-7 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص :55
  • 17  احمد بن محمد بن سلامۃ ابو جعفر الطحاوی ،مشکل الآثار، حدیث: 3757، ج-5، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، 1995ء،ص :243
  • 18  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی،السنن الکبریٰ، حدیث: 602، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003ء ، ص :198-197
  • 19  یوسف بن عبداﷲ ابن عبدالبر قرطبی ،التمھید لما فی الموطأ من المعانی والمسانید ، ج-8، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، وبیروت ،لبنان، 1999ء،ص:403
  • 20  محب الدین ابو جعفر احمد بن عبداﷲ طبری ، غایۃ الاحکام فی احادیث الاحکام، حدیث: 583، ج -1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2004ء، ص-1512
  • 21  نور الدین علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2، مطبوعۃ: مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجوداً)، ص :74
  • 22  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث:54، ج-1، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، المکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 2000ء، ص:199-200

Powered by Netsol Online