Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکا شکم مبارک

Published on: 04-Nov-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، ڈاکٹر عمران خان، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 38، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 508-519)

رسول اکرم sym-1کو اللہ تبارک وتعالی نے تمام نوع انسانی کے لیے رسول sym-1بناکر مبعوث فرمایا ہے۔اسی وجہ سے آپ sym-1کو ہرلحاظ سے کامل و اکمل ،ارفع واعلی اور احسن واجمل اشیاء عطا فرمائی گئی ہیں۔اسی طرح آپ sym-1کا جسم اطہر بھی تمام اجسام کائنات میں سب سے بڑھ کر حسین و جمیل ہے۔اس جسم اقدس کا ہر عضو اور ہر حصہ اپنی آب و تاب اور چمک میں ممتاز ومشرف ہے۔انہی اعضاء بدنی میں سے ایک عضو مبارک آپ sym-1کا شکم (پیٹ مبارک)ہے۔رسول اکرم sym-1کا شکم اطہر سینہ اقدس کے برابر تھا،بڑھا ہوا نہ تھا ۔ریشم کی طرح نرم وملائم اور چاندی کی طرح سفید تھا ۔یہی وہ شکم تھا جو اپنے مولیٰ کی رضا کی خاطر کئی کئی دن تک خالی رہتا اورآپ sym-1کبھی اس پر پتھر باندھ لیتے تاکہ کمر سیدھی رہے۔

حضور sym-1کا سینہ اور شکم مبارک ایک جیسا تھا

نبی اکرم sym-1کا شکم مبارک سینہ ا قدس سے بڑھا ہوا نہیں تھا جو کہ مردانہ حسن و وجاہت کے لیے اہم ترین شئی سمجھی جاتی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سےحضرت ہند بن ابی ہالہ sym-5بیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سواء البطن والصدر.1
حضور sym-1کا شکم مبارک اور سینہ مبارک برابر تھے۔

اسی طرح سیدنا ابوہریرہsym-5 فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مفاض البطن.2
آپ sym-1کا شکم مبارک آپ sym-1کے سینہ سے باہر نہیں تھا۔

علماء اس برابری کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سینہ اور شکم مبارک دونوں اس طرح ایک دوسرے کے برابر تھے کہ ان میں سے کوئی ابھرا ہوا نہ تھایعنی نہ تو پیٹ سینہ سے زائد تھا اور نہ ہی سینہ پیٹ سے۔

اسی حوالہ سے امام الاجری sym-4 فرماتے ہیں:

وقوله سواء البطن والصدر یعنى ان بطنه غیر مستفیض فھو مساو لصدره وان صدره عریض فھو مساو لبطنه.3
راوی کے قول میں سواء البطن والصدر کا مطلب ہے کہ آپ sym-1کا شکم مبارک بڑھا ہوا نہیں تھا بلکہ وہ سینہ کے برابر تھا اور آپ sym-1کا سینہ اقدس کشادہ تھا تو وہ شکم کے برابر تھا۔

اسی طرح حضرت اُم معبد sym-6 بیان کرتی ہیں کہ آپ sym-1کا شکم مبارک ایسے بڑھا ہوا نہیں تھا کہ برا محسوس ہو۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

لم تعله ثجلة ولم تزر به صعلة.4
شکم مبارک بڑھا ہوا نہ تھا اور آپ sym-1کا پہلو نہایت پتلا اور باریک تھا۔

شکم مقدّس کی پر نور لپٹیں

نبی اکرم sym-1کے شکم مبارک کے حوالہ سے حضرت اُم ہانیsym-6 آپ sym-1کے شکم مبارک کے بارے میں فرماتی ہیں:

مارایت بطن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قط الا ذكرت القراطیس المثنیة بعضھا على بعض.5
میں نے حضور نبی کریم sym-1کے شکم مبارک کو ہمیشہ لپٹے ہوئے کاغذ کی طرح تہ بہ تہ نازک اور لطیف دیکھا۔

آپ sym-1 کے شکم مبارک کے تین سلوٹ (یا شکن) تھے ان میں سے دوکو تہہ بند چھپالیتا تھا اور ایک ظاہر رہتا تھا یہ سلوٹ سفید سوتی کپڑے کی تہہ (لٹھے کے سفید کپڑے کی تہہ) سے زیادہ سفید تھی اور چھونے میں نرم تھی۔ حافظ ابوبکر احمد بن ابی خیثمہsym-4ان مبارک تہوں کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ وہ تین تھیں ان میں سے ایک تہبند ڈھانپ لیتا اور دو ظاہر رہتیں اور بعض روایات میں ہے کہ دو کو تہبند ڈھانپ لیتا اور ایک ظاہر رہتی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

تلك العكن ابیض من القباطى المطواة والین مسا.6
وہ تینوں تہیں لپٹے ہوئے ریشمی کپڑے سے زیادہ سفید اورچھونےمیں بہت نرم تھیں۔

شکم مقدّس پر بالوں کا حسن خط

آپ sym-1کے جسم اطہر پر کاندھوں اور بازوؤں کے علاوہ کسی مقام پر بال نہ تھےالبتہ سینہ اقدس کے اوپر سے لے کر ناف مبارک تک بالوں کا ایک خوبصورت خط تھا جس نے آپ sym-1کے شکم مبارک کے حسن کو دوبالا کر رکھا تھا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہsym-5 نے انہی بالوں کے خط کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انور المتجرد موصول ما بین اللبة والسرة بشعر یجرى كالخط عارى الثدیین والبطن مما سوى ذلك.7
آپ sym-1کا (جسم اطہر) سراپا نور اور حُسن کا پیکر تھا حلق(اقصٰى) کے نیچے سے لے کر ناف تک بالوں کی باریک لکیر تھی ،باقی سینہ اور شکم مبارک بالوں سے خالی تھا۔

حضرت علی sym-5اس کی حسن طوالت کو یوں بیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم طویل المسربة.8
آپ ﷺکے شکم مبارک پر بالوں کی لکیر طویل تھی۔

حضرت علی sym-5سے مروی دوسری روایت میں ہے:

كان لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شعر یجرى من لبته الى سرته كالقضیب لیس فى صدره ولا بطنه شعر غیره.9
نبی کریم sym-1کے سینہ اقدس کے اوپر سے ناف تک ایک خوبصورت باریک شاخ کی طرح بالوں کی لکیر تھی جس کے علاوہ آپ sym-1کے سینہ اقدس اور شکم مبارک پر بال نہ تھے۔

اسی طرح حضرت فاروق اعظمsym-5 بھی فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دقیق المسربة له شعرات من لبته الى سرته كانھن قضیب مسك اذفر ولم یكن فى جسده ولا صدره شعرات غیرھن.10
حضور نبی کریم sym-1کے سینہ اقدس کے اوپر سے لے کر ناف تک بالوں کا ایک خط بنا ہوا تھا گویا کہ وہ مشک اذفر کی ایک سطر تھی۔ آپ sym-1کے جسم اطہر اور سینہ مبارک پر ان کے علاوہ اور بال نہ تھے۔

بطن مبارک کے پہلؤوں کی خوبصورتی

آپ sym-1کے شکم مبارک کی دونوں اطراف نہایت ہی خوبصورت اور سفید تھیں۔چنانچہ حضرت ابوہریرہsym-5 اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابیض الكشحین.11
رسول اﷲ sym-1کے دونوں پہلو سفید تھے۔

شکم مبارک سےبرکت کا حصول

نبی کریم sym-1سراپا برکت ہیں اوراسی طرح آپ sym-1کے ہر عضو مبارک کی بھی اپنی برکت ہے۔اسی حوالہ سے روایت میں منقول ہےکہ حضرت اسید بن حضیر sym-5بیان کرتے ہیں:

عن اسید بن حضیر رجل من الانصار قال: بینما ھو یحدث القوم وكان فیه مزاح بینا یضحكھم، فطعنه النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فى حاضرته بعود فقال: اصبرنى قال: اصطبر قال: ان علیك قمیصا ولیس على قمیص. فرفع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عن قمیصه فاحتضنه وجعل یقبل كشحه. قال: انما اردت ھذا یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .121314151617181920
حضرت اسید بن حضیر sym-5بیان کرتے ہیں : ایک انصاری ایک دن لوگوں کو مزاح والی باتیں کرکے ہنسا رہا تھا تو حضور نبی کریم sym-1نے لکڑی کے ساتھ اس کے پہلو میں چوکا لگایا تو اس نے کہا :میں اس پر صبر کرلوں؟ (یعنی میں آپ کو معاف کردوں اور بدلہ نہ لوں) حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا :بدلہ لے لو۔اس نے کہا: آپ sym-1کے بدن پر قمیص ہے اور میرا بدن بغیر قمیص کے تھا۔ حضور نبی کریم sym-1نے قمیص اٹھادی تو وہ آپ sym-1سےلپٹ گیا اور آپ sym-1 کے پہلو کو چومنے لگا اور کہا: اے اﷲ کے رسول sym-1! میرا تو صرف یہی (آپ sym-1کا بدن مبارک چومنے کا) ارادہ تھا۔

اس روایت کو امام ابن ہشام sym-4اس طرح نقل کرتے ہیں:

قال ابن اسحاق و حدثنى حبان بن واسع بن حبان عن اشیاخ من قومه ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عدل صفوف اصحابه یوم بدر وفى یده قدح یعدل به القوم فمر بسواد بن غزیة حلیف بنى عدى بن النجار...مستنصل من الصف فطعن فى بطنه بالقدح وقال: استو یا سواد. فقال: یا رسول اللّٰه ! اوجعتنى وقد بعثك اللّٰه بالحق والعدل. قال: فاقدنى. فكشف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن بطنه وقال: استقد. قال: فاعتنقه فقبل بطنه. فقال: ما حملك على ھذا یا سواد؟ قال: یا رسول اللّٰه! حضر ما ترى فاردت ان یكون اخر العھد بك ان یمس جلدى جلدك. فدعا له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بخیر.21
امام ابن اسحاق sym-4نے کہا: مجھ سے حبان بن واسع بن حبان sym-4نے اپنی قوم کے بعض شیوخ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اﷲ sym-1بدر کے روز اپنے صحابہ کرامsym-7 کی صف بندی کررہے تھے۔ آپ sym-1کے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس کے اشارہ سے اپنی قوم کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے۔ حضور sym-1بنی عدی بن نجار کے حلیف حضرت سواد بن عزیہ sym-5کے پاس سے گزرے جبکہ وہ صف سے آگے نکلے کھڑے تھے۔ حضور sym-1نے اس تیر سے ان کے شکم پر ہلکی سی چوٹ لگائی اور فرمایا:اے سواد! سیدھے ہوجاؤ۔ وہ کہنے لگے: یا رسول اﷲ sym-1! مجھے درد ہوا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1کو حق و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ پس مجھے اس چوٹ کا بدلہ دیجئے۔ رسول اﷲ sym-1نے فوراً اپنے شکم اقدس سے قمیص اٹھادی اور فرمایا: آؤ بدلہ لے لو۔ انہوں نے لپک کر حضور sym-1کو گلے لگالیا اور پیٹ مبارک کو چوم لیا۔ حضور نبی کریم sym-1نے پوچھا اے سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟ "انہوں نے عرض کی:یا رسول اﷲ sym-1! جو مرحلہ ہمیں درپیش ہے وہ حضور sym-1ملاحظہ فرمارہے ہیں۔ میری یہ آرزو تھی کہ اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت میری جلد حضور sym-1کی جلد مبارک سے مس ہوجائے۔اس پر رسول اﷲ sym-1نے انہیں دعائے خیر سے سرفراز فرمایا۔

امام عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی sym-4صحابی رسول sym-1حضرت سواد بن غزیہ sym-5کے بارے میں فرماتے ہیں:

ھذا ھو عامل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم علی خیبر الذى جاء ه بتمر جنیب ذكرہ مالك فى المؤطا ولم یسمه.22
یہ سواد خیبر کے علاقہ میں رسول اﷲ sym-1کے عامل تھے جو جنیب کھجوریں حضور sym-1کی خدمت میں لے کر آئے۔ اسے امام مالک sym-4نے المؤطا میں ذکر کیا لیکن نام ذکر نہیں کیا۔

امام ابو نعیم اصفہانی sym-4حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8سے طویل حدیث روایت کرتے ہوئے نقل فرماتےہیں:جب سورت"اذا جاء نصر اﷲ والفتح" نازل ہوئی تو نبی کریم sym-1نے فرمایا اے جبرائیلsym-9 میری وفات کی آواز لگ گئی ۔حضرت جبریل sym-9نے فرمایا آخرت آپ sym-1کے لئے دنیا سے بہتر ہے اور عنقریب آپ sym-1کا رب عطا کرے گا تو آپ sym-1راضی ہوجائیں گے۔ تو نبی کریم sym-1نے حضرت بلال sym-5کو حکم فرمایا کہ نماز کے لئے اذان دیں۔ چنانچہ مہاجرین وانصار مسجد میں جمع ہوگئے توآپ sym-1نے نماز پڑھائی اور پھر منبر پر بیٹھ کر خطبہ دیا جس سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ پھر آپ sym-1نے فرمایا:

مسلمانوں کی جماعت! میں تمہیں اﷲ کے واسطے سے اور اس حق کے واسطے سے جو میرا تم پر ہے کہتا ہوں کہ میری طرف سے کسی سے کوئی زیادتی ہوگئی ہو تو قیامت میں بدلہ لینے سے پہلے یہیں لے لے۔لیکن کوئی شخص کھڑا نہ ہوا آپ sym-1نے دوسری مرتبہ فرمایا تو پھرکوئی کھڑا نہ ہوا۔ پھرجب آپ sym-1نے تیسری مرتبہ فرمایا تومسلمانوں میں سے ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا، جنہیں عکاشہ sym-5 کہا جاتا تھا ۔وہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا نبی کریم sym-1کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگاکہ میرے ماں باپ آپ sym-1پر قربان ہوں۔ اگر آپ sym-1ہمیں اﷲ کا واسطہ نہ دیتے تو میں آگے سے کچھ نہیں کہتا۔ ہم آپ sym-1کے ساتھ ایک غزوہ سے واپس ہورہے تھے توواپسی میں میری اونٹنی آپ sym-1کی اونٹنی کے برابر آگئی میں اترا کہ آپ sym-1 کی ران کا بوسہ لے لوں مگر آپ sym-1نے اچانک لکڑی اٹھائی اور وہ میرے پہلو میں چبھ گئی مجھے نہیں معلوم کہ وہ جان بوجھ کر تھا یا نادانستہ ہوگیا۔

آپ sym-1نے فرمایا: میں اﷲ کے جلال کی پناہ لیتا ہوں کیا اﷲ کا رسول جان بوجھ کر تجھے مارے گا؟ پھر آپ sym-1نے حضرت بلال sym-5 کو حکم دیا: جاؤ فاطمہ سے وہ لکڑی لے آؤ۔ حضرت بلالsym-5 گئے اور دروازہ کھٹکھٹا کر بولے: اے اﷲ کے رسول کی بیٹی! آپ sym-1کی وہ لکڑی دے دو، حضرت فاطمہsym-6 بولیں کہ: اس لکڑی کی ضرورت کیا ہے ؟نہ تو حج ہے اور نہ حج کا وقت؟ حضرت بلال sym-5 نے فرمایا :کیا آپ sym-8 کو علم نہیں رسول کریم sym-1دنیا اور ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اب وہ قصاص دینا چاہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ sym-6 نے فرمایا: کیا رسول اﷲ sym-1سے بھی کوئی انتقام لے گا؟ یہ حسن حسین sym-8 ہیں انہیں لے جاؤ اور اس سے کہو ان سے انتقام لے لے۔ یہ دونوں نبی کریم sym-1سے انتقام لینے نہیں دیں گے۔ بہر حال وہ واپس آئے اور وہ لکڑی آنحضرت sym-1کے دست مبارک میں دے دی۔ حضور نبی کریم sym-1نے وہ لکڑی حضرت عکاشہsym-5 کو دے دی کہ انتقام لے لو۔چنانچہ منقول ہے:

فقال النبی صلى اللّٰه علیه وسلم : یا عكاشة اضرب ان كنت ضاربا فقال: یا رسول اللّٰه! ضربتنى وانا حاسر عن بطنى فكشف عن بطنه صلى اللّٰه علیه وسلم وصاح المسلمون بابكاء وقالوا: اترى عكاشة ضاربا بطن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما نظر عكاشة الى بیاض بطن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كانه القباطى لم یملك ان اكب علیه فقبل بطنه وھو یقول: فداك ابى وامى ومن تطیق نفسه ان یقتص منك؟ فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : اما ان تضرب واما ان تعفو. فقال: قد عفوت عنك رجاء ان یعفو اللّٰه عنى یوم القیامة. فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: من اراد ان ینظر الى رفیقى فى الجنة فلینظر الى ھذا الشیخ. فقام المسلمون فجعلوا یقبلون مابین عینیه ویقولون: طوباك طوباك نلت درجات العلى ومرافقة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمرض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من یومه.23
حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا: اے عکاشہ! اگر مارنا ہے تو مارلے۔ اس نے کہا :یا رسول اﷲ! جس وقت مجھے لکڑی لگی تھی میرا پیٹ کھلا تھا۔ آپ sym-1نے اپنا پیٹ کھول دیا مسلمان زور زور سے رونے لگے کہ کیا ہم عکاشہ sym-5 کو نبی کریم sym-1کے پیٹ پر مارتے دیکھیں گے؟ جب عکاشہ sym-5 نے نبی کریم sym-1کے پیٹ مبارک کی رنگت سفیدی دیکھی تو گویا وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ پائےاورجھپٹ کر انہوں نے حضور sym-1کے پیٹ مبارک پر بوسہ لیا اور کہتے جاتے: میرے ماں باپ آپ sym-1پر قربان کس کی مجال ہے جو آپ sym-1سے بدلہ لے؟ حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:یا تو مار لو یا معاف کردو۔ انہوں نے کہا: میں نے آپ sym-1کو قیامت میں اپنی معافی کی امید پر معاف کردیا۔نبی کریم sym-1نے فرمایا :جو شخص چاہتا ہے کہ وہ جنت میں میرے ساتھی کو دیکھے تو وہ اس بوڑھے کو دیکھ لے۔ چنانچہ مسلمان کھڑے ہوکر عکاشہ sym-5کی آنکھوں کے درمیان بوسہ لینے لگے اور مبارک ہو مبارک ہو کہتے جاتے: تم نے بڑا بلند درجہ پالیا ہے اور رسول کریم sym-1کا ساتھ پالیا ہے۔ اسی دن نبی کریم sym-1بیمار ہوگئے۔

انتہائی قلیل غذا کے باوجود بھرپور جسمانی قوّت

حضور sym-1صحابہ اور تابعین میں سے سلف صالحینsym-7 نے سادہ زندگی اختیار کی اور فقر اور فاقہ کی تلخی پر صبر کیا غنیٰ کی حلاوت کو ترک کردیا اور صرف اتنی مقدار خوراک پر گزارہ کیا جس سے ان کی کمر سیدھی رہ سکے اور رمقِ حیات قائم رہے ۔خود حضور نبی کریم sym-1اس کے لیے دعا بھی فرماتے :

اللّٰھم اجعل رزق آل محمد قوتا.24
اے اﷲ محمد sym-1کی آل کا رزق بقدر روزی بنا۔ (یعنی بقدر قوت لایموت بنا)

نیزحضور نبی کریم sym-1کئی کئی دن بھوکے رہتے تھے اور بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھ۔ زندگی کی سختی کو ترجیح دیتے تھے اور اس پر صبر کرتے تھے حالانکہ آپ sym-1کو یقین تھا کہ اگر آپ sym-1اپنے رب سے یہ سوال کریں کہ وہ آپ sym-1کے لیے مکہ کے پہاڑوں کو سونا بنادے اور چاندی بنادے تو اﷲ تعالیٰ ضرور ایسا کرتا ۔لیکن آپ sym-1نے فقر کو ترجیح دی۔چنانچہ امام بخاریsym-7 اس حوالہ سے روایت نقل کرتے ہیں:

عن عائشة قالت: ما شبع آل محمد صلى اللّٰه علیه وسلم منذ قدم المدینة من طعام بر ثلاث لیال تباعا حتى قبض.25
اُم المؤمنین عائشہ صدیقہsym-6 بیان کرتی ہیں : جب سے حضور نبی کریم sym-1مدینہ آئے کبھی آل محمد sym-1نے مسلسل تین دن گندم کا کھانا (روٹی) سیر ہوکر نہیں کھایا حتیٰ کہ آپ sym-1دنیا سے پروہ فرماگئے۔26

شكم اقدس پر دو پتهر

کبھی کبھی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے آپ sym-1 شکم مبارک پر پتھر باندھ لیتے۔ حسب ضرورت کبھی ایک اور کبھی دو۔چنانچہ حضرت ابو طلحہsym-5 بیان کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر صحابہ کرام sym-7نے بھوک کی وجہ سے اپنے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیے۔جب بھوک سے نڈھال ہوگئے تو تمام نے حضور نبی کریم sym-1 کی بارگاہ میں شکایت کی کہ حضور sym-1 بھوک نے بہت پریشان کر رکھا ہے اور ساتھ اپنے بندھے ہوئے پتھر بھی دکھائے ۔ اس کے بعد حضور sym-1 نے اپنے شکم مبارک سے کپڑا ہٹایا تو صحابہ حیران رہ گئے کہ آپ sym-1 نے ایک کے بجائے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

شكونا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الجوع ورفعنا عن بطوننا عن حجر حجر فرفع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن بطنه عن حجرین.27
ہم نے حضور نبی کریم sym-1 کی خدمت میں بھوک کی شکایت کرتے ہوئے اپنے اپنے پیٹ پر باندھے ہوئے پتھر دکھائے آپ sym-1 نے اپنے شکم مبارک سے کپڑا اٹھایا تو آپ sym-1 نے دو پتھر باندھ رکھے تھے۔

آپ sym-1 نے اپنی تمام ظاہری زندگی حالت فقر میں بسر کی۔ کسی شخصیت کا کمال ہی یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے وہ دوسروں کو ترجیح دے اور اپنی ذات کو دنیوی زینت و آرائش سے مبرا کرلے ۔اگر کوئی انسان حالت مجبوری میں فقر اختیار کرتا ہے تو اس میں کمال والا پہلو نہیں ہوسکتا ۔ یہاں کتاب و سنت کے چند واضح ارشادات کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپsym-1 کو دونوں جہاں کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں اور آپ sym-1 جیسا غنی کائنات میں کوئی نہیں۔

آپ sym-1 سب سے بڑے بے نیاز ہیں

قرآن مجید نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1 کی حالت فقر کو حالت غنا سے تبدیل فرمادیاہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَوَجَدَك عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى828
اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لئے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو (جوّاد و کریم) پایا تو اس نے (آپ کے ذریعے) محتاجوں کو غنی کر دیا۔ان دونوں تراجم میں یَتِیماً کو فَاٰوٰی کا، ضآلًّا کو فَھَدٰی کا اور عائِلًا کو فَاَغنٰی کا مفعولِ مقدم قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر، القرطبی، البحر المحیط، روح البیان، الشفاء اور شرح خفاجی) ۔

جس ذات کو اﷲ تعالیٰ غنی فرمادے وہاں فقر کا کوئی تصور نہیں رہ سکتا۔ حضرت ابوامامہ sym-5 سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم sym-1نے ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے رب کریم نے فرمایا:اے محبوب sym-1اگر آپ چاہیں تو آپ کے لیے میں مکہ کی تمام زمین سونے کی بنادوں لیکن میں نے عرض کیا :

لا یا رب ولكن اشبع یوما واجوع یوما او نحو ذلك فاذا جعت تضرعت الیك وذكرتك واذا شبعت حمدتك و شكرتك.29
ربِّ کریم میں یہ نہیں چاہتا بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن کھاؤں پس جب مجھے بھوک لگے تو میں تیری طرف تضرع کروں اور تجھے یاد کروں اور جب میں سیر ہوجاؤں تو تیرا شکر و حمد کروں۔

اسی حوالہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہsym-6 فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا:

لو شئت لسارت معى جبال الذھب.30
اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں۔

اسی طرح ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

فواللّٰه لو شئت لاجرى اللّٰه معى جبال الذھب والفضة.31
اﷲ کی قسم! اگر میں چاہوں تو اﷲ تعالیٰ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ کردے۔

کتاب وسنت کے ان واضح ارشادات کی روشنی میں ائمہ نے یہ تصریح کی ہے کہ آپ sym-1 کا فقر اختیاری تھا اضطراری نہیں۔ چنانچہ یحییٰ بن ابوبکر بن محمد عامری sym-4لکھتے ہیں:

ان فقره صلى اللّٰه علیه وسلم كان فقر اختیار لا فقر اضطرار لانه صلى اللّٰه علیه وسلم فتحت علیه الفتوح وجلبت الیه الاموال.32
بلا شبہ نبی کریم sym-1کا فقر اختیاری تھا نہ کہ فقرِ اضطراری کیونکہ آپ sym-1پر تو تمام خزانوں کے منہ کھول دیے گئے تھے اور اموال کا مالک بنادیا گیا تھا۔

ملا علی قاری sym-4فرماتے ہیں:

اعلم ان فقره صلى اللّٰه علیه وسلم كان اختیاریا لاكرھا واضطراریا.33
آپ sym-1کا مبارک فقر اختیاری تھا اضطراری نہ تھا۔

شیخ ابراہیم بیجوری sym-4فرماتے ہیں:

اعلم ان ضیق عیشه صلى اللّٰه علیه وسلم لیس اضطرارایا بل كان اختیاریا قد عریضت علیه بطحاء مكة ان تكون ذھبا فاباه.34
واضح رہے کہ تنگی آپ sym-1کی مجبوری نہ تھی بلکہ یہ اختیاری معاملہ تھا۔ آپ sym-1پر تو اس بات کی پیش کش کی گئی تھی کہ مکہ کی زمین سونے کی بنادی جائے تو آپ sym-1نے اس سے انکار فرمایا۔

کائنات کے سب سے بڑے انسان حضور اکرم sym-1ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ sym-1کو حسن بے مثال عطا فرمایا تھا وہیں جسم مبارک میں توازن اور اعتدال میں بھی آپ sym-1یکتا و منفرد تھے۔ جسمانی اعتدال ایک طرف آپ sym-1کا معجزہ تھا تو دوسری طرف آپ sym-1کی جسمانی مشقت، محنت، ریاضت اور جدوجہد بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ sym-1کسی ایک جگہ بیٹھ کر تن کوشی کے ساتھ آرام کرنے کے عادی نہ تھے اور آپ sym-1کھانے پینے کی کثرت کو بھی ناپسند فرماتے چہ جائیکہ وہ مرغن و لمحیات سے بھرپور کھانوں کا استعمال فرماتے۔ آپ sym-1کا جسم مبارک حد درجہ تناسب اور متوازن اور معتدل تھا جس کی وجہ سے آپ sym-1جسمانی طور پر بھی مکمل طور پر چاک و چوبند اور جسمانی قوت و وجاہت کا شاہکار تھے۔

آپ ﷺ کی گردن مبارک|آپ ﷺ کے کندھے مبارک|آپ ﷺ کی معطر بغلیں|آپ ﷺ کے بے مثال بازوئے پاک|آپ ﷺ کی کلائی مبارک|آپ ﷺ کا دست مبارک|آپ ﷺ کی مبارک ہتھیلیاں|آپ ﷺ کا سینہ اقدس|آپ ﷺ کا قلب اطہر|آپ ﷺ کی مہر نبوت|آپ ﷺ کی ناف مبارک}}


  • 1  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث : 414 ، ج -22، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ،القاھرۃ ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص : 155-156
  • 2  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:240
  • 3  ابوبکر محمد بن حسین الآجری ، الشریعۃ، ج -3، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع ،الریاض، السعودیۃ،1999ء، ص :1520-1521
  • 4  ابوبکر محمد بن عبداﷲ بن ابراہیم البزاز ، کتاب الفوائد (الغیلانیات) ، حدیث : 1138، ج -2 ، مطبوعۃ: دار ابن الجوزی، الریاض ،السعودیۃ، 1997ء، ص:829
  • 5  ابوداؤد سلیمان بن داؤد الطیالسی ، مسند ابی داؤد الطیالسی، حدیث : 1724، ج-3 ، مطبوعۃ: دار ھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،مصر، 1999ء، ص:190
  • 6  علی بن حسن ابن عساکر ، تاریخ دمشق الکبیر ، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت،لبنان، 1995ء، ص:361
  • 7  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، ج-7 ، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع ، بیروت، لبنان،1988، ص: 11-13
  • 8  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ ، ج-7 ، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع ، بیروت، لبنان، 1988، ص:9
  • 9  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت،لبنان،1993 ء ، ص:55
  • 10  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت،لبنان،1993ء، ص:56
  • 11  محمد بن اسماعیل بخاری ، الادب المفرد ، حدیث :255 ، ج-1، مطبوعۃ:دار البشائر الاسلامیۃ بیروت، لبنان،1989ء، ص:99
  • 12  سلیمان بن الاشعث ابو داؤد السجستانی ، سنن ابی داؤد ، حدیث : 5224، ج-4، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان(لیس التاریخ موجودًا)، ص – 356
  • 13  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ، حدیث : 556، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق (لیس التاریخ موجودًا)، ص:205
  • 14  احمد بن محمد بن زیاد المعروف بابن الاعرابی ،القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الاعرابی ، حدیث: 23 ، مطبوعۃ: مکتبۃ القرآن ،القاھرۃ ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص : 53-54
  • 15  محمد بن عبداﷲابوعبداﷲالحاکم نیسابوری،مستدرک علی الصحیحین، حدیث :5262، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان،1990ء،ص:327
  • 16  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ،سنن الکبریٰ ، حدیث :13586 ، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان ، 2003ء، ص:164
  • 17  ابو محمد الحسین بن مسعود بن محمد الشافعی البغوی ،مصابیح السنۃ للبغوی ، حدیث : 3629، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفۃ ،بیروت،لبنان، 1987 ء،ص:283
  • 18  ابو السعادات مبارک بن محمد ابن اثیر جزری ،جامع الاصول فی احادیث الرسول، حدیث :8525، ج -11، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:56
  • 19  شیخ ولی الدین الخطیب التبریزی ،مشکاۃ المصابیح، حدیث :4685، ج -3 ، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985ء، ص:1328
  • 20  ابو الفداء اسماعیل ابن کثیرالدمشقی ، جامع المسانید والسنن لابن کثیر ، حدیث : 467 ، ج -1، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،بیروت، لبنان، 1998ء، ص:289
  • 21  عبد الملک بن ہشام معافری، سیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی ،مصر، 1955ء، ص:626
  • 22  عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی ،الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، ج-5 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان، 2000ء، ص:84
  • 23  ابو نعیم احمد اصفہانی ،حلیۃ الاولیاء ، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی ، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:73
  • 24  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، ج -2،حدیث: 1055، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:730
  • 25  محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح البخاری ج -5 ،حدیث : 6089 ، مطبوعۃ: دار ابن کثیر ، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2371
  • 26  اسی طرح ایک اور روایت میں مروی ہے: عن عائشۃ قالت: ما اکل آل محمدصلى اللّٰه علیه وسلم کلتین فی یوم الا احداھما تمراترجمہ: "ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کی آل نے کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا نہیں کھایا مگر ان دو کھانوں میں سے ایک کھانا کھجوریں ہوتی تھیں۔" (محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ،ج -5 ، حدیث: 6090، مطبوعۃ: دار ابن کثیر بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:2371)امام بخاری ہی روایت کرتے ہیں:عائشۃ قالت: کان یاتی علینا الشھر ما نوقد فیہ نارا انما ھو التمر والماء الا ان نوتی باللحیم عن ترجمہ: "ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے اوپر ایسا مہینہ آتا جس میں ہم آگ نہیں جلاتے تھے اس مہینہ میں صرف کھجور اور پانی ہوتا تھا یااس کے کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آجائے۔"¬(محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری ، ج-5 ، حدیث :6094 ، مطبوعۃ: دار ابن کثیر ، بیروت،لبنان (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2372)اسی طرح حضرت نوفل بن ایاس الہذلی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں صحابی رسول حضرت عبد الرحمن بن عوف کی رفاقت وصحبت نصیب ہوئی اور وہ بہت ہی اچھے رفیق تھے ایک دن ہم ان کے گھر بیٹھے تھے کھانے کا وقت ہوگیا اس موقعہ پر جب کھانا لایا گیا تو اس میں روٹی کے ساتھ گوشت بھی تھا کھانا ملاحظہ کرکے حضرت عبد الرحمن بن عوف نے زار وقطار رونا شروع کردیا میں نے عرض کیا:اےبو محمد آپ کیوں رودئیے؟"فرمانے لگے کہ مجھے یاد آگیا: ہمارے آقا ﷺ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ ﷺ اور آ پﷺ کے خاندان نے کبھی بھی پیٹ سیر کرکے جوکی روٹی بھی نہیں کھائی۔"(محمد بن سعد بصری ، طبقات ابن سعد ، ج -1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:30) سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بیٹھ کر نماز ادا فرمارہے تھے میں نے عرض کیا:یارسول اﷲﷺ اس کا سبب کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا بھوک تومیں بے اختیار روپڑا۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا: مت رو اے ابوہریرہ جو شخص رضائے الٰہی کی خاطر دنیا میں بھوکا رہے وہ قیامت کی سختی سے محفوظ ہوجائے گا۔ (ابوبکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی ، تاریخ بغداد، ج- 4، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی ، بیروت ، لبنان،2002ء، ص:260)
  • 27  محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ ،حدیث : 134، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان،1988، ص:65
  • 28  القرآن، سورہ الضحیٰ 93 : 08
  • 29  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 22910، ج- 36، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 2001ء، ص:528
  • 30  ابو یعلی احمد بن علی مثنی موصلی، مسند ابو یعلی ، حدیث: 4920 ، ج -8 ، مطبوعۃ: دار المامون للتراث ،دمشق، السوریۃ، 1984ء، ص:318
  • 31  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، شعب الایمان ، حدیث 1395، ج -3 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد الریاض،السعودیۃ، 2003ء، ص:61
  • 32  یحییٰ بن ابوبکر بن محمد العامری ، بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل فی تلخیص المعجزات والسیر والشمائل ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:291
  • 33  نور الدین بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2 ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:185
  • 34  ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:192

Powered by Netsol Online