Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکی گردن مبارک

Published on: 30-Oct-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 28، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 447-450)

رسول اﷲ sym-1اس کائنات کی وہ عظیم ترین ذات عالیہ ہیں جن کی فضیلت کی بے شمار جہتیں ہیں۔انہی جہتوں میں سے ایک جہت یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے رسول اکرم sym-1کے جسمانی اعضاء مبارکہ کاذکر قرآن مجید فرقان حمید میں کئی مقامات پر کیا ہے۔1 اس لیے کہ آپ sym-1کا جسم اطہر وہ ممتاز ومشرف جسد ہے کہ جو خالق کائنات کاعظیم شاہکار ہے۔آپ sym-1کے جسم اطہر ہی کا ایک حصہ آپ sym-1کی گردن مبارک بھی ہے جوبندگانِ خدا میں سب سے زیادہ حسین ترین گردن تھی جس کو نہ تو طویل اور لمبا ہونے کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے اورنہ (قصر )یعنی چھوٹا ہونے کی طرف بلکہ متوازی لمبی اور حسین گردن تھی ۔گردن کا وہ حصہ جو کھلا ہوا تھا جس پر سورج کی روشنی پڑتی اور جس کو ہوا لگتی رہتی وہ حصہ اس طرح تھا جیسے کہ چاندی کے کوزے کی کرن جس پر سونے کے ہونے کا دھوکہ لگے جس سے چاندی کی سفیدی اور سونے کی سرخی وزردی چمکتی تھی اور گردن کا بالائی حصہ جسے کپڑوں نے چھپایا ہوا تھا ایسے تھا جیسے کہ چودھویں رات کا چاند ہو۔

گردن مبارک چاندی کی طرح چمک دار تھی

رسول اکرم sym-1کی گردن مبارک کی صفت کو بیا ن کرتے ہوئے حضرت ہند بن ابی ہالہsym-5 فرماتے ہیں:

كان عنقه جید دمیة فى صفاء الفضة.2
حضور sym-1کی گردن مبارک مورتی کی طرح تراشی ہوئی اور چاندی کی طرح صاف تھی۔

امام عبدالرحمن ابن جوزی sym-4اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس میں موجود لفظ دمیۃ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

الدمیة الصورة المصورة.3
دمیۃ کا مطلب تراشی ہوئی صورت ہے۔

الشیخ احمد عبدالجواد الدومی sym-4اس روایت کے تحت اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

ھذا یدل على تلألؤعنقه صلى اللّٰه علیه وسلم ولمعانه وجماله.4
یہ آپ sym-1کی گردن کے جمال اور اس کی چمک دمک پر دلالت کرتا ہے۔

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے الشیخ عبداﷲ سراج الدین شامی sym-4 فرماتے ہیں:

كان عنقه صلى اللّٰه علیه وسلم فى استواه ٔواعتداله وحسن ھیئة وجماله كانه عنق صورة ولكن من حیث اللون ھو فى صفاء الفضة وبیاضھا البھیج اللامع.5
آپ sym-1کی مبارک گردن، استواء، اعتدال اور حسن و جمال میں ایسی تھی جیسے کوئی مورتی تراشی گئی ہو رنگ میں چاندی کی طرح صاف وشفاف اور سفیدی میں خوب روشن تھی۔

رسول اکرم sym-1کی گردن مبارک لوگوں میں سے سب سے زیادہ حسین اور شفاف چاندی کی طرح واضح محسوس ہوتی تھی۔چنانچہ حضرت حافظ ابوبکر ابن ابی خیثمہ sym-4 اسی پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس عنقا ما ظھر عن عنقه للشمس والریاح فكانه بریق فضة مشرب ذھبا یتلأ لأ فى بیاض الفضة وحمرة الذھب وما غیبت الثیاب من عنقه فما تحتھا فكانه القمر لیلة البدر.6
حضور sym-1کی گردن مبارک تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت تھی۔ دھوپ یا ہوا میں گردن کا نظر آنے والا حصہ چاندی کی صراحی کے مانند تھا جس میں سونے کا رنگ اس طرح بھرا گیا ہوکہ چاندی کی سفیدی اور سونے کی سرخی کی جھلک نظر آتی ہو اور گردن کا جو حصہ کپڑوں میں چھپ جاتا وہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور منور ہوتا۔

ایک اور جگہ حضرت اُم معبدsym-6 یبان فرماتی ہیں:

وفى عنقه سطع.7
رسول اﷲ sym-1کی گردن مبارک قدرے لمبی تھی۔

اس روایت میں موجود لفظ سطع کی معنی بیان کرتے ہوئے ابن جوزی نے لکھا ہے۔

السطع: الطول.8
سطع کامعنی لمبائی ہے۔

ا ُم المؤمنین عائشہ صدیقہ sym-6 نبی اکرم sym-1کی گردن مبارک کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

كان واحسن عباداللّٰه عنقا لا ینسب الى الطول ولا الى القصر.9
اور اﷲ کے بندوں میں سے آپ sym-1کی گردن سب سے بڑھ کر حسین و جمیل تھی، نہ زیادہ طویل اور نہ زیادہ چھوٹی۔

رسول اﷲ sym-1کی گردن مبارک سونے اور چاندی کے رنگوں کا حسین امتزاج معلوم ہوتی تھی۔ گردن اقدس کو چاندی کی صراحی سے بھی تشبیہ دی گئی۔

گردن مبارك چاند ی کے کوزہ کی طرح

حضرت علی sym-5سے روایت ہے:

كان عنقه ابریق فضة.10
حضور sym-1کی مبارک گردن چاندی کی صراحی کی مانند تھی۔

ابن جوزی sym-4نے بھی اس حدیث مبارکہ کو عثمان بن عبدالملک سے روایت کیا ہے جس کے الفاظ یوں نقل کیے ہیں:

حدثنى خالى وكان من أصحاب على یوم صفّین عن على قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كأن عنقه إبریق فضة.11
مجھے میرے ماموں جو جنگ صفین میں حضرت علی sym-5کے ساتھ تھےانہوں نے حضرت علی سے یہ روایت بیان کی کہ سرور عالم sym-1کی گردن مبارک صفائی اور سفیدی کے لحاظ سے چاندی کے کوزہ کی مانند تھی۔ 12

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم sym-1 کی گردن مبارک ہر قسم کے عیب سے مبّرا اور انسان کے جسمانی نقائص و معائب سے پاک تھی۔ یعنی نہ حد اعتدال سے زیادہ فربہ تھی اور نہ ہی بالکل پتلی بلکہ معتدل تھی ۔گردن کی خوبصورتی کے حوالہ سے عموماً مردوں کے بجائے عورتوں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور وہاں بھی کسی خاتون کے حسن کے اس پہلو کو بھی خوبصورت صراحی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔اسی طرح عموماً گردن مسلسل دھوپ میں رہنے کی وجہ سے سیاہ پڑھ جاتی ہے یا اس کی رنگت جل جایا کرتی ہے لیکن حضورsym-1 اس عیب سے بھی بالکل پاک و صاف تھے۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ عموماً جلد لٹکنا یا ڈھیلی پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔جس کے ذریعہ جھریاں (wrinkles) پڑنا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ آج اگرچہ کہ غیر فطری طریقہ علاج کے ذریعہ اس طرح کی جھریوں کو ختم کردیا جاتا ہے لیکن اگر ایک مخصوص مدت کے بعد دوبارہ Botox کا ٹیک نہ لگایا جائے تو دوبارہ جھریاں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ آقائے کریم sym-1 کو رب تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے شاہکار حسن و جمال بناکر خود آپsym-1 کی آرائش و زیبائش کا انتظام کر رکھا تھا۔ وہ ذات جو ہر عیب سے خود مبرا ہے اپنے حبیب کریم sym-1میں کس طرح کوئی ادنی ٰسابھی عیب گوارا کرسکتی ہے۔ گردن مبارک بھی آپ sym-1کے جمال خلقی کا شاہکار تھی، اسے بھی رب تعالیٰ نے حسن و جمال کا آئینہ اور ہر عیب سے مبرا بنا کر آپ sym-1کے وجود مسعود کی ظاہری خوبصورتی کا حصہ بنا رکھا تھا جس کے ذریعہ آپ sym-1کا حسن دوبالا اور خوبصورتی بے مثال ہوجایا کرتی تھی۔


  • 1  القرآن، سورۃ الانشراح94 : 03-01
  • 2  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:11-13
  • 3  ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:50
  • 4  شیخ احمد عبدالجواد الدومی،اتحافات ربانیة بشرح شمائل المحمدیة، مطبوعۃ: التجاریة الکبریٰ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:41
  • 5  الشیخ عبداﷲ سراج الدین شامی، محمد رسول اﷲ ﷺ ، مطبوعۃ: حلب، شام، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:218
  • 6  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ،ص:43
  • 7  ابو عبد اللہ محمد بن عبداﷲ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4274، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:10
  • 8  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجود)، ص:50
  • 9  علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، ج -1، مطبوعۃ: دار المیسرۃ، بیروت، لبنان، 1979ء، ص:33
  • 10  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج -1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :314
  • 11  ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:50
  • 12  )امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰےﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ: حامد اینڈ کمپنی،لاہور، باکستان، 2002ء،ص:450

Powered by Netsol Online