Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکی مہرِ نبوت

خالق کائنات نے اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو امتیازِ نبوت عطا کرکے انہیں عام انسانوں سے ممتاز کردیا ہے جبکہ حضور نبی کریم کو اﷲ رب العزت نے عظمت و رفعت کا وہ بلند مقام عطا کیا کہ جس تک کسی فردِ بشر کی رسائی ممکن نہیں ہے۔

مہر ِنبوت کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے آپ کو مہر نبوّت عطا فرمائی۔آپ سے قبل یہ مہر نبوّت کسی نبی و رسول کو نہیں دی گئی۔ مہر نبوت سے مراد وہ چیز ہے جو آپ کے خاتم النبیین ہونے کی دلیل ہے کہ آپ کے بعد کوئی نیا نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ خاتم النبوۃ آپ کے دو کندھوں کے درمیان ایک نشان تھا۔ کتب متقدمہ میں اس کی صفت بیان کی گئی ہے اور مہر نبوت اس بات کی علامت ہے کہ آپ ہی وہی نبی ہیں جس کا آسمانی کتابوں میں وعدہ کیا گیا تھا۔

آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی جو اس حکم ایزدی کی تصدیق کرتی تھی کہ آپ اﷲ کے آخری رسول ہیں اورآپ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے مقفل کردیا گیا ہے۔چنانچہ حضرت علی حضور نبی کریم کی صفات گنواتے تو طویل حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  بین كتفیه خاتم النبوة وھو خاتم النبیین.1
  آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے۔

اسی حوالہ سے امام صالحی شامی فرماتے ہیں:

  سئل الحافظ برھان الدین الحلبى رحمه اللّٰه تعالى ھل خاتم النبوة من خصائص النبى صلى اللّٰه علیه وسلم او كل نبى مختوم بخاتم النبوة؟ فاجاب: لا استحضر فى ذلك شیئا ولكن الذى یظھر انه صلى اللّٰه علیه وسلم خص بذلك لمعان منھا: انه اشارة الى انه خاتم النبیین ولیس كذلك غیره. ولان باب النبوة ختم به فلا یفتح بعده ابدا.2
  الحافظ برہان الدین الحلبی سے پوچھا گیا کہ کیا ختم نبوت حضور کی خصوصیت تھی یا ہر نبی پر مہر نبوت لگی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: مجھے تو اس ضمن میں کچھ یاد نہیں لیکن جو بات ظاہر ہے وہ یہی ہے کہ یہ کئی اعتبار سے آپ کے لیے خاص ہے ۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی ہےکہ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں جبکہ آپ کے علاوہ کوئی اور نبی اس طرح نہ تھا کیونکہ باب نبوت آپ پر بند ہوگیا ہے اورآپ کے بعد یہ کبھی بھی نہیں کھولا جائے گا۔

مہر نبوت ختم نبوّت کی سند

مہر نبوت حضور نبی کریم کے آخری نبی ہونے کی علامت ہے جیساکہ سابقہ الہامی کتب میں مذکور تھا کہ نبی آخر الزماں کی ایک علامت ان کی پشت اقدس پر مہر نبوت کا موجود ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس نشانی کے بارے میں پڑھ رکھا تھا تو وہ اس نشانی کو دیکھ کر آپ پر فوراً ایمان لاتے تھے۔ حضرت سلمان فارسی بھی آپ کی پشت اقدس پر مہر نبوت کی تصدیق کرلینے کے بعد ہی ایمان لائے تھے ۔حضرت سلمان فارسی کے قبول اسلام کا واقعہ کتب تاریخ و سیر میں تفصیل کے ساتھ درج ہے ،آتش پرستی سے توبہ کرکے عیسائیت کے دامن سے وابستہ ہوئے پھرپادریوں اور راہبوں سے حصول علم کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن کہیں بھی دل کو اطمینان حاصل نہ ہوا۔اس سلسلے میں انہوں نے کچھ عرصہ غموریا کے راہب کے ہاں بھی اس کی خدمت میں گزارا۔ غموریا کا راہب الہامی کتب کا ایک جید عالم تھا ۔جب اس کا آخری وقت آیا تو حضرت سلمان فارسی نے دریافت کیا کہ اب میں کس کے پاس جاؤں؟ الہامی کتب کے اس عالم نے بتایا کہ نبی آخر الزماں کا زمانہ قریب ہے یہ نبی دین ابراہیمی کے داعی ہوں گے اور پھر غموریا کے اس راہب نے مدینہ منورہ کی تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی کو بتادیں کہ نبی آخر الزماں مکہ سے ہجرت کرکے کھجوروں کے جھنڈ والے شہر دلنواز میں سکونت پذیر ہوں گے۔چنانچہ حضرت سلمان فارسی بیان کرتے ہیں:

  ویذكر نى نحو ما یذكر القوم یوم الاحد حتى قال فیما یقول: یا سلمان! ان اللّٰه عزوجل سوف یبعث رسولا اسمه احمد یخرج بتھمة. وكان رجلا اعجمیا لایحسن القول علامته انه یاكل الھدیة ولا یاكل الصدقة بین كتفیه خاتم وھذا زمانه الذى یخرج فیه قد تقارب.3
  وہ آدمی جیسے اتوار کے دن لوگوں کو نصیحتیں کیا کرتا تھا اسی طرح مجھے بھی نصیحتیں کرتا رہا ۔اس نے مجھے کہا اے سلمان! بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ عنقریب ایک رسول مبعوث فرمائے گا، اس کا نام "احمد" ہوگا، وہ تہمہ سے نکلے گا۔وہ عجمی شخص تھاعربی صحیح طور پر نہیں بول پارہا تھا (کہ تہامہ کو تہمہ کہہ رہا تھا۔) اس نے بتایا کہ اس کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ "ہدیہ" (کی چیز) کھالے گا مگر "صدقہ " (کی چیز) نہیں کھائے گا، اس کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی اور اس نبی کے ظاہر ہونے کا زمانہ بالکل قریب ہے۔

سلمان فارسیشہر نبی کی تلاش میں نکل پڑے۔ سفر کے دوران حضرت سلمان فارسی چند تاجروں کے ہتھے چڑھ گئے اور یہ تاجر انہیں مکّہ مکرّمہ لے آئے جس کی سرزمین نبی آخر الزماں کا مولد پاک ہونے کا اعزاز حاصل کرچکی تھی ۔تاجروں نے حضرت سلمان فارسی کو اپنا غلام ظاہر کیا اور انہیں مدینہ جو اس وقت یثرب تھا کے بنی قریظہ کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کردیا۔ عرصہ گزر نے کے بعد حضرت سلمان فارسی ایک دن اپنے یہودی مالک کے کھجوروں کے باغ میں کام کررہے تھے کہ انہوں نے سنا کہ ان کا یہودی مالک کسی سے باتیں کررہا تھا کہ مکہ سے ہجرت کرکے قبا میں آنے والی ہستی نبی آخر الزماں ہونے کی داعی ہے۔

حضرت سلمان فارسی بغیر تاخیر کے ایک طشتری میں تازہ کھجوریں سجا کر والی کونین کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ صدقے کی کھجوریں ہیں۔ آقائے دوجہاں نے وہ کھجوریں واپس کردیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے۔ دوسرے دن پھر کھجوروں کا خوان لے کر رسول کریم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورعرض کی کہ یہ ہدیہ ہے قبول فرمالیجئے ۔حضور نے یہ تحفہ قبول فرمالیا اور کھجوریں اپنے صحابہ کرام میں تقسیم فرمادیں۔پھر حضور اکرم ﷺجنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائے اور ایک جگہ جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی آقائے دو جہاں کی پشت مبارک کی طرف بے تابانہ نگاہیں لگائے بیٹھے تھے ۔خود حضرت سلمان فارسی روایت کرتے ہیں:

  اذا ذھبت الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فلما كانت الساعة التى اخبرتنى المراة یجلس فیھا ھو واصحابه خرجت امشى حتى رایت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا ھو یحتبى واذا اصحابه حوله فاتیته من وراہ فعرف النبى صلى اللّٰه علیه وسلم الذى ارید فارسل حبوته فنظرت الى خاتم النبوة بین كتفیه.4
  میں نبی کریم ﷺکے پاس گیا۔جب وہ گھڑی آئی جس کے بارے میں عورت نے مجھے خبر دی تھی کہ رسول اللہ اور انکے صحابہ کرام اس وقت بیٹھے ہوں گے۔میں نکلا اور چلا یہاں تک کہ میں نے رسول اﷲ کی زیارت کرلی۔ آپ تمام صحابہ کرام کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ کرام آپ کے ارد گرد حلقہ باندھے بیٹھے تھے۔ میں رسول اﷲ کے پیچھے سے آیا لیکن (اس دلوں کے حال جاننے والے) نبی کریم نے میرے ارادے کو جان لیا۔ آپ نے اپنی چادر مبارک سرکادی میں نے آپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا۔

دیگر روایات کے مطابق حضرت سلمان فارسی کی کیفیت ہی بدل گئی، تصویر حیرت بن کے آگے بڑھے ،فرط محبت سے مہر نبوت کو چوم لیا اور آپ پر ایمان لاکر ہمیشہ کے لئے دامن مصطفیٰ سے وابستہ ہوگئے۔

عیسائی راہب کا واقعہ

اسی طرح بحیرا شام کے ایک راہب کا قصہ بھی سیر ت کی کتابوں میں مشہور ہے کہ جب حضرت ابوطالب آپ کو شام اپنے ساتھ لے گئے تو وہاں کے راہب جو الہامی کتب کے عالم تھے۔ انہوں نے حضور نبی کریم کو دیکھ کر حضور نبی کریم اور حضرت ابوطالب سے چند سوالات کیے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

  قال بحیرا فباللّٰه اسالك وجعل یساله عن اشیاء من احواله فیخبره حتى ساله عن نومه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: تنام عیناى ولا ینام قلبى. وجعل ینظر فى عینیه الى الحمرة ثم قال لقومه: اخبرونى عن ھذه الحمرة تاتى وتذھب او لا تفارقه؟ قالوا: ما رایناھا فارقته قط...وكلمه ان ینزع جبة علیه حتى نظر الى ظھره والى خاتم النبوة بین كتفیه علیه السلام مثل زر الحجلة متواسطا فاقشعرت كل شعرة فى راسه وقبل موضع خاتم النبوة. ارجع بابن اخیك الى بلدك واحذر علیه الیھود فواللّٰه ان راوہ او عرفوا منه الذى اعرف لیبغنه عنتا فانه كائن لابن اخیك شان عظیم نجدہ فى كتبنا وما ورثنا من آبائنا وقد اخذ علینا مواثیق.5
  بحیرا نے کہا:میں آپ سے اﷲ کے نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں پھر وہ آپ سے آپ کے احوال کے متعلق سوالات کرنے لگا ۔اس نے آپ کی نیند کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔ پھر وہ آپ کی آنکھوں میں بسی سرخی کی طرف متوجہ ہوگیا۔ قوم سے کہنے لگا: بتلاؤ یہ سرخی آتی جاتی رہتی ہے یا ہمیشہ رہتی ہے ؟اہل قافلہ کہنے لگے: ہم نے تو یہ کبھی غائب نہیں دیکھی۔۔۔بحیرا نے تقاضا کیا کہ آپ اپنا جبہ اتاریں تو آپ نےجبہ اتار دیا ۔ جب اس نے آپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی جو حجلہ عروسی کے مہرے جیسی تھی تو اس کے سر کے رونگٹےکھڑے ہوگئے اور بے اختیار مہر نبوت کو چوم لیا۔اپنے بھتیجے کو واپس اپنے شہر لے کر لوٹ جائیں اور ان کے بارے میں یہودیوں سے محتاط رہیں۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے آپ کے بھتیجے کو دیکھ لیا یا اس نشانی کو جان لیا جو میں نے جان لی تو وہ ضروران تک دشمنی کے تحت پہنچ جائیں گے ۔بلاشبہ آپ کے بھتیجے کی عظیم شان ہوگی جس کو ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں پاتے ہیں اور اس کا تو ہم سے وعدہ بھی لیا گیا ہے۔

مہر نبوت کی وجہ

رسول اکرم کی پیٹھ مباک پر مہر نبوت کیوں رکھی گئی تھی۔اس حوالہ سے امام بدر الدین عینیتحریر فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم کے قلب میں ایمان اور حکمت کو بھر دیا گیا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں ہے تو اس پر مہر لگادی گئی۔جیسا کہ جو برتن مشک اور موتیوں سے بھرا ہوا ہو تو اس پر مہر لگادی جاتی ہے تاکہ اس مہر کی وجہ سے دشمن اس برتن تک رسائی نہ حاصل کرسکے۔ جس چیز پر مہر لگادی جائے تووہ محفوظ ہوجاتی ہے اور اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں کسی چیز کی حفاظت کی یہی تدبیرفرمائی ہے ۔اس مہر کی وجہ سے کسی چیز کے متعلق انسانوں کا شک اور جھگڑا ختم ہوجاتا ہے اور ان کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ وہی چیز ہے۔ پس جب اﷲ تعالیٰ نے آپ کے قلب مبارک پر ختم نبوت کی نورانی مہر لگادی تو آپ کا قلب مطمئن ہوگیا اور اس میں نور باقی رہا ،قلب کی قوت پشت میں نافذ ہوگئی، پھر آپ کے کندھوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر اُبھرا ہوا گوشت ظاہر ہوگیا۔اسی وجہ سے میدان حشر میں آپ کا نمایاں ظہور ہوگا اور تمام رسولوں میں سب سے پہلے آپ کو شفاعت عطا کی جائے گی اور آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے۔6

مہر نبوت کے متعلق متعدد روایات

رسول اکرم کی مہر نبوت کی ہیئت میں متعدد روایات منقول ہیں۔جو مختلف کتب احادیث و سیر میں مذکور ہوئی ہیں۔امام صالحینے سبل الہدی میں اکیس(21)احادیث کا ذکر کیا ہے جس میں نبی اکرم کی مہر نبوت کی ہئیت بیان کی گئی ہے۔ 7

اس مہر نبوت کے بارے میں امام بخاری روایت کرتے ہیں:

  السائب بن یزید یقول: ذھبت بى خالتى الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم. فقالت: یا رسول اللّٰه! ان ابن اختى وجع فمسح راسى ودعا لى بالبركة ثم توضا فشربت من وضوه ثم قمت خلف ظھره فنظرت الى خاتم النبوة بین كتفیه مثل زر الحجلة.8
  حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں: مجھے میری خالہ نبی کریم کے پاس لے گئیں اور عرض کیا:یا رسول اﷲ ! میرے بھانجے کے سر میں درد ہے۔ آپ نے میرے سر پر دست اقدس پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی۔ پھر آپ نے وضوء کیا، میں نے آپ کے وضوء کا پانی پیا، پھر میں آپ کی پشت کے پیچھے کھڑا ہوگیاتو میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا جو (مسہری کی) گھنڈی کی مثل تھی۔

اسی طرح ایک روایت حضرت عبداﷲ بن سرجس سے مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

  فنظرت الى خاتم النبوة بین كتفیه عند ناغض كتفه الیسرى جمعا علیه خیلان كامثال الثالیل.9
  میں نے آپ کے شانوں کے مابین بائیں کندھے کی ہڈی کے بالائی حصہ پر مہر نبوت دیکھی وہ بالوں کےگچھےکی طرح تھی جس پر مسّے بنے ہوئے تھے۔

مہر نبوت کی شکل و صورت

اس ہیئت کو بیان کرتے ہوئے حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں:

  رایت خاتما فى ظھر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كانه بیضة حمام.10
  میں نے رسول اﷲ کی پشت میں مہر نبوت کو دیکھا،وہ کبوتر کے انڈے کی طرح تھی۔

بالوں کے گولہ کی شکل میں

اس حوالہ سے روایت کرتے ہوئے حضرت عمر وبن اخطب انصاری بیان کرتے ہیں:

  قال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : یا ابا زید ادن منى. فامسح ظھرى فمسحت ظھره فوقعت اصابعى على الخاتم قلت وما الخاتم قال شعرات مجتمعات.11
  مجھ سے رسول اﷲ نے فرمایا: اے ابو زید! قریب آؤ! اور میری پشت پر ہاتھ پھیرو۔میں نے آپ کی پشت مبارک پر ہاتھ پھیرا تو میری انگلیاں مہر نبوت پر تھیں۔راوی نے پوچھا: مہر نبوت کیسی تھی؟ انہوں نے کہا وہ جمع شدہ بال تھے۔

ابھرے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کی شکل میں

اس ہئیت کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابو رمثہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد محترم کے ہمراہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو میری نظر مہر نبوت پر پڑی۔چنانچہ روایت میں ہے:

  نظر الى مثل السلعة بین كتفیه.12
  انہوں نے حضور کے شانوں کے مابین اُبھرے ہوئے گوشت کی گرہ کی طرح کی مہر نبوت دیکھی۔

مہر مثل ابھرتا گوشت

ابو نضرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری سے مہر نبوت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا:

  كان فى ظھره بضعة ناشزة.13
  وہ آپ ﷺکی پشت میں اُبھرا ہوا گوشت کا ٹکڑا تھا۔

سینگی کے نشان کی مانند

ہر قل کے قاصد تنوخی سے روایت ہے کہ اچانک میں نے کندھے کی ہنڈی کی جگہ مہر دیکھی:

  مثل الحجمة الضخمة.14
  جو سینگی کے نشان کی طرح تھی۔

یعنی ایسا نہ تھا کہ مطلقا آپ کے جسم مبارک کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہ عام انسانی جسم کے کسی حصہ کی مانند ہو بلکہ اس مہر نبوّت میں نور کی تابانی اور روشنی کی چمک بھرپور انداز میں موجود تھی جو دیکھنے والوں کو ضیاء پاشی کرتی نظر آتی تھی۔

سیب کی طرح

اس حوالہ سے حضرت ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں:

  خاتم النبوةاسفل من غضروف كتفه مثل التفاخة.15
  آپ ﷺکے کندھے کی ہڈی کے نیچے مہر نبوت سیب کی طرح تھی۔

تاباں نور کی طرح

اس حوالہ سے حضرت ابن عائذ بیان کرتے ہیں:

  أنه كنور یتلألأ. 16
  وہ تاباں نور کی طرح تھی۔

بکری کے بچے کے گھٹنے کی طرح

اس ہیئت کو بیان کرتےہوئے حضرت عباد بن عمر و فرماتے ہیں:

  وكان الخاتم على طرف كتفه الایسر كانه ركبة عنز.17
  مہر نبوت حضور نبی کریم کے بائیں کندھے کے ایک طرف میں تھی جو بکری کے بچے کے گھٹنے کی طرح تھی۔

رسول اللہ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی جو آپ کے بائیں کاندھے کے متصل تھی اور اس کے اوپر سیاہ تل تھا جو صُفرت و پیلے پن کی طرف مائل تھا۔تل کے اردگرداحاطہ کرنے والے بال تھے(جوکہ سخت تھے)جیسے گھوڑے کی پیشانی کے بال۔18

مختلف احدیث مبارکہ میں مطابقت

مہر نبوت کے متعلق جو مختلف روایتیں ہیں ان میں تطبیق اس طرح کی جائے گی کہ جس کسی نے اس کو جس چیز کے ساتھ تشبیہ دی ہے وہ اپنے ذہن کے مطابق دی ہے اور تشبیہ ہر شخص کے ذہن کے موافق ہوتی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے امام صالحی شامی لکھتے ہیں:

  قال العلماء: ھذه الروایات متقاربة فى المعنى ولیس ذلك باختلاف بل كل راوشبه بما نسخ له فواحد قال: كزر الحجلة وھو بیض الطائر المعروف او زرار البشخاناه. واخر: كبیضة الحمامة. واخر: كالتفاخة. واخر: بضعة لحم ناشزة. واخر: لحمة ناتءة. واخر: كالمحجمة. واخر: كركبة العنز وكلھا الفاظ موداھا واحد وھو قطعة لحم. ومن قال: شعر.فلان الشعر حوله متراكب علیه كما فى الروایة الاخرى. قال ابو العباس القرطبى فى المفھم: دلت الاحادیث الثابتة على ان خاتم النبوة كان شیئا بارزا احمر عند كتفه صلى اللّٰه علیه وسلم الایسر اذا قلل قدر بیضة الحمامة واذا كبر قدر جمع الید.19
  علماء کرام نے فرمایا ہےکہ یہ ساری روایات معنی میں قریب قریب ہیں۔ یہ اختلاف نہیں ہے بلکہ ہر راوی نے مہر نبوت کو اس شے کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو اسے مناسب لگی۔ مثلاً کسی نے حجلہ کے انڈے کی طرح کہا، کسی نے کبوتری کے انڈے کی طرح کہا ہے ،کسی نے سیب کی طرح، کسی نے ابھرے ہوئے گوشت کی طرح، کسی نے سینگی کی نشان کی طرح اورکسی نے بکری کے بچے کے گھٹنے کی طرح کہا ہے۔ ان سارے الفاظ کا مدعا ایک ہی ہے یعنی گوشت کا قدرے ابھراہواحصہ۔ جس نے اس کو بال کہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مہر نبوت کے ارد گرد بال اُگے ہوئے تھے۔ امام قرطبی نے "المفھم"میں کہا ہے کہ یہ ساری روایات ثابت کرتی ہیں کہ مہر نبوت سرخ رنگ کی اُبھری ہوئی چیز تھی جو آپ کے بائیں کندھے کے پاس تھی ۔جب وہ کم ہوتی تو وہ کبوتری کے انڈے کی طرح اور بڑھتی تو وہ ہاتھ کی مٹھی کی طرح ہوجاتی تھی۔

شیخ عبداﷲ سراج الدین شامی اختلاف روایات کی حکمت اور ان میں تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

  واختلاف اقوال الرواة فى اوصاف خاتم النبوة لیس من باب التنا فى بینھما وانما ھى باعتبار ان كلامنھم شبه بما سنح له وظھر لانه كان یستره باعتبار انه فى ظھره الشریف صلى اللّٰه علیه وسلم فواصفه اما راه من غیر قصد او انه صلى اللّٰه علیه وسلم راه له مع ملاحظة الرائى مقام الھیبة والوقار والادب مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم .20
  اوصاف مہر نبوت کے بارے میں راویوں میں جو اختلاف ہے اس میں منافات نہیں ہے بلکہ ہر ایک نے اپنے ذہن و فہم کے مطابق تشبیہ دی ہے ۔چونکہ مہر نبوت آپ کی پشت انور کی طرف قمیص کے نیچے تھی اسے یا تو کوئی اچانک دیکھ لیتا یا آپ خود مشاہدہ کرواتے اور دیکھنے والا آپ کی ہیبت، وقار اور ادب کا پاس کرتے ہوئے زیارت کرتا۔

مقام مہر نبوت

رسول اکرم کی پیٹھ مبارک پر مہر نبوت کس جگہ تھی؟اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں:

  فنظرت الى خاتم النبوة بین كتفیه.21
  پھر میں نے آپ ﷺکے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا۔

اس حوالہ سے وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں:

  ولم یبعث اللّٰه نبیا الا وقد كانت علیه شامة النبوة فى یده الیمنى الا ان یكون نبینا محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فان شامة النبوة كانت بین كتفیه وقد سئل نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم عن ذلك فقال: ھذه الشامة التى بین كتفى شامة الانبیاء قبلى لانه لا نبى بعدى ولا رسول.22
  اﷲ تعالیٰ نے جس کو بھی نبی بناکر مبعوث فرمایا، اس کے داہنے بازو پر نبوت کی نشانی رکھی سوائے ہمارے نبی کریم کے ۔ آپ کی مہر نبوت آپ کے کندھوں کے درمیان تھی اور نبی کریم سے اس کے بارے میں پوچھا بھی گیا تو آپ نے فرمایا: یہ مہر جو میرے کندھوں کے درمیان ہے یہ مجھ سے پہلے انبیاء کرام کی نشانیاں ہیں کیونکہ میرے بعد نہ کوئی نبی آسکتا ہے نہ رسول۔

مہر نبوت دونوں شانوں کے درمیان ہونے کے باوجود بائیں کاندھے کے زیادہ قریب تھی۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن سرجس فرماتے ہیں:

  فنظرت الى خاتم النبوة بین كتفیه عند ناغض كتفه الیسرى. 23
  میں نے آپ کے شانوں کے درمیان بائیں کاندھے کی ہڈی کے قریب مہر نبوت دیکھی۔

البتہ ایک نظر میں دیکھنے میں یوں لگتی تھی کہ دونوں کاندھوں کے درمیان میں ہے۔لیکن معمولی سا بائیں کندھے کی طرف تھی جو بنظرِ غائر دیکھنے سے معلوم ہوتی۔

مہر نبوت بائیں جانب ہونے کی حکمت

ائمہ امت نے مہر نبوت کے بائیں جانب ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا دل بائیں جانب ہوتا ہے اور اس میں شیطان بائیں کاندھے کی طرف سے وسوسہ انداز ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے وہاں مہر نبوت ثبت فرماکر واضح کردیا کہ میرا حبیب وسوسہ شیطان سے معصوم و محفوظ ہے۔چنانچہ آپ کے بائیں کندھے کی ہڈی کے پاس مہر نبوت ہونے میں امام سہیلی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  معصوم من وسوسة الشیطان وذلك الموضع منه یوسوس الشیطان لابن ادم.24
  آپ شیطان کے وسوسہ سے معصوم (completely protected)ہیں شیطان اسی جگہ (دل) سے ابن آدم میں وسوسہ اندازی کرتا ہے۔

اسی حوالہ سے روشنی ڈالتے ہوئے امام صالحی شامی فرماتے ہیں:

  قلت :روى ابو عمر بسند قوى عن عمر بن عبد العزیز ان رجلا سال ربه ان یریه موضع الشیطان من ابن ادم فارى جسدا ممھى یرى داخله من خارجه وارى الشیطان فى صورة ضفدع عند كتفه حذاء قلبه له خرطوم كخرطوم البعوضة وقد ادخله فى منكبه الایسر الى قلبه یوسوس الیه فاذا ذكر اللّٰه تعالى العبد خنس.
  میں کہتا ہوں کہ ابو عمر نے قوی سند سے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے رب تعالیٰ سے التجا کی کہ وہ بنو آدم میں شیطان کی جگہ دکھادے۔ اسے ایک شفاف جسم دکھایا گیا جس کا اندر باہر سے نظر آتا تھا ۔اسے شیطان کو ایک مینڈک کی شکل میں دکھایا گیا جو اس کے کندھے پر دل کے بالکل بالمقابل تھا۔ مچھر کی سونڈکی طرح اس کی سونڈ تھی وہ اس کے کندھے کے بائیں طرف سے دخل اندازی کررہا تھا جب اس نے رب تعالیٰ کا ذکر کیا تو وہ بھاگ گیا۔25

یہ مہر نبوت کب سے تھی

رسول اکرم کی مہر نبوت خلقت کے ساتھ ہی تھی یا بعد میں ابھری تھی۔اس حوالہ سے چار اقوال کتب سیر میں منقول ہوئے ہیں:

  1. ولادت کے وقت موجود تھی۔
  2. حضرت حلیمہ کے ہاں شق صدر کے وقت بنائی گئی۔
  3. اعلان نبوت کے وقت دی گئی۔
  4. معراج کی رات عطا کی گئی۔

پہلے قول کو حافظ ابن حجر نے رد کردیا ہے باقی تین اقوال میں تطبیق یوں دی گئی ہے کہ یہ تین دفعہ لگائی گئی۔26

مہر نبوت سے خوشبو وں کی برسات

اس حوالے سے بیان کرتے ہوئے حضرت جابر فرماتے ہیں:

  فالتقمت خاتم النبوة بفى فكان ینم على مسكا.27
  پس میں نے مہر نبوت اپنے منہ کے قریب کی تو اس کی دلنواز مشک کی مہک مجھ پر غالب آرہی تھی۔

یعنی رسول اکرم کے جسم اطہر کی طرح مہر نبوت بھی خوشبودار تھی۔مہرنبوت کاکمال یہ تھاکہ انبیائے وعلمائے مذاہب سابقین نے بھی اس کو بطور علامت نبوتِ خاتم النبین کے اپنے متبعین کے سامنے ذکر فرمایا اور اسی لیے بشمول راہبان و حضرت سلمان فارسی ؓ کئی دوسرے اہل حق نے مطلقاً اس مہر ِنبوت کو آپ کی نبوت کی صداقت کی علامت کبری جانا اوراس کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔

 


  • 1 ابوبکر بن ابی شیبہ الکوفی، مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث: 31805، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض، السعودیۃ، 1409ھ، ص:328
  • 2 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص:50
  • 3 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث :6543، ج -3 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:692
  • 4 ایضاً
  • 5 ابو نعیم احمد اصفہانی ، دلائل النبوۃ ، ج -1 ، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986، ص :169-170
  • 6 بدر الدین محمود عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421 ھ، ص:117
  • 7 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993 ء، ص:47
  • 8 محمد بن اسماعیل بخاری ، صحیح البخاری، حدیث: 190 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ، مصر،2003ء، ص:57
  • 9 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:2346، ج-4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 1823
  • 10 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث : 2344 ، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان (لیس التاریخ موجودًا)، ص:1823
  • 11 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث : 19، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988 ء، ص:18
  • 12 احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث : 7109 ، ج -11، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان 2001ء، ص :670-679
  • 13 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ ، حدیث: 22، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان 1988، ص :19-20
  • 14 احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد ، حدیث : 15655 ، ج -24 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :419
  • 15 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، سنن الترمذی ، حدیث : 3660 ، ج -5 ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1975ء،ص: 590
  • 16 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص: 47
  • 17 ضیاء الدین محمد بن عبدالواحد مقدسی، الاحادیث المختارۃ، ج -8، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2000ء، ص :248-249
  • 18 امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوہ (مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)،مطبوعہ :دارالاشاعت،کراچی ، پاکستان، 2009ء،253
  • 19 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:49
  • 20 الشیخ عبداﷲ سراج الدین الشامی، محمد رسول اﷲ ﷺ ، مطبوعۃ: حلب، السوریۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:174
  • 21 محمد بن اسماعیل بخاری ، صحیح البخاری ، حدیث : 190، مطبوعۃ:داراالسلام لنشروالتوزیع،ریاض،السعودیۃ، 1999ء، ص:37
  • 22 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم ، مستدرک علی الصحیحین، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:631
  • 23 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث : 2346 ، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:1823
  • 24 عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی ،الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-2، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص :114-115
  • 25 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1993ء، ص :49-50
  • 26 ایضا، ص:50
  • 27 ایضا، ص:53