Encyclopedia of Muhammad

آپ کے اَبرو مبارک

رسول اکر م کو اللہ تبارک وتعالی نے حسن کامل کا مظہر اتم بنا یا تھاجس کی جلوہ رعنائیوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آج بھی لوگ اتنے ہی بیتاب ہیں جتنے آپ کے وصال مبارک سے پہلے تھے۔آپ کی ہر ہر عضو مبارک کی بناوٹ اور ہیئت و کیفیت خوبصورتی کا ایسا شاہکار تھی کہ پہلی بار اچکتی نظرو ں سے ہی دیکھنے والا زندگی بھر اس خوبصورت پیکر کو بھلا نہ پاتا اور وصل کی امید پر ہی زندہ رہتا۔اسی خوبصور ت جسم مبارک میں ایک حسن کا مرقع آپ کے ابرو مبارک تھے۔ حضور کے اَبرو مبارک گہرے سیاہ، گنجان اور کمان کی طرح خمیدہ و باریک تھے۔ دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ چھپی رہتی لیکن جب کبھی آپ غیظ اور جلال کی کیفیت میں ہوتے تو وہ رگ اُبھر کر نمایاں ہوجاتی جسے دیکھ کر صحابہ کرام جان لیتے کہ حضور نبی کریم کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کی وجہ سے کبیدہ خاطر ہیں۔

نبی اکرمﷺکی ابرو مبارک کمان کی طرح تھی

حضرت ہند بن ابی ہالہ رسول اکرم کی ابرو مبارک کی ہیئت و کیفیت اور خوبصورتی کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ازج الحواجب سوابغ فى غیر قرن، بینھما عرق یدره الغضب.1
  رسول اﷲ کے اَبرو مبارک (کمان کی طرح) خمدار، باریک اور گنجان تھے۔ اَبرو مبارک جدا جدا تھے۔ دونوں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصے کے وقت نظر آتی تھی۔

امام ابنِ جوزی اس حدیث کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:

  قوله (أزجّ الحواجب) أى: طویل امتدادھا.2
  روای کے قول ازج الحواجب كا مطلب ہے کہ ایسی ابرو جو اپنے پھیلاؤ میں لمبی ہوں۔

امام بیہقی "ازج الحواجب" کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  ازج الحواجب الزجج طول الحاجبین ودقتھما وسبوغھما الى موخر العینین.3
  ازج الحواجب یہ ماخوذ ہے "الزجج "سے۔ لمبی اور باریک اَبرؤوں کو کہتے ہیں جو دونوں آنکھوں کی پچھلی جانب تک مکمل ہوں، پوری ہوں۔

امام بیہقی رسول اکرم کے ابرو مبارک کے بارے میں روایت میں مذکورہ الفاظ کی مزید توضیح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  ثم وصف الحواجب، فقال: (سوابغ فى غیر قرن) والقرن: أن یطول الحاجبان حتى یلتقى طرفاھما. وھذا خلاف ما وصفته به أم معبد، لأنھا قالت فى وصفه: (أزج أقرن) ولا أراه إلا كما ذكر ابن أبى ھالة وقال الأصمعى: كانت العرب تكره القرن، وتستحب البلج. والبلج: أن ینقطع الحاجبان فیكون مابینھما نقیا.4
  پھر راوی نے ابرو کی ساخت بیان کرتے ہوئے کہا: (مکمل بغیر ملے ہوئے)اور القرن کا مطلب یعنی دونوں ابرو کا دراز ہونا یہاں تک کہ اُن کے سرے مل جائیں ۔اور یہ اُس کے خلاف ہے جو ام معبد نے اوصاف بیان کیے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس کے وصف میں کہا :( گھنے ملے ہوئے)جبکہ میں ایسا نہیں سمجھتاسوائے اس کے جو ابن ابی ھالہ نے بیان کیا اور امام اصمعی نے کہا:عرب ملے ہوئے ابرو کو مکروہ ( بد صورت)جانتے تھے اور ابروؤں کو(البلج)علیحدہ علیحدہ پسند کرتے تھے۔اور(البلج)یعنی ابرو الگ ہوں اور اُن کے درمیان سفیدی باقی ہو۔

دونوں بھویں تیار شدہ اور متوسط بھی تھیں اور ان دونوں میں سے کوئی ایک بال بھی بے محل یازائد نہیں تھا۔نہ ہی آگے تھا ، نہ ہی اُگنے میں بے محل تھا اورنہ ہی برابر ہونے میں۔دونوں بھویں ناک کے اوپر جڑی ہوئی نہیں تھیں بلکہ دونوں کے درمیان حسین چمکدارسا فاصلہ تھاجوایسا خوبصورت لگتاتھا جیسے دونوں بھوؤں کے درمیان صاف شدہ چاندنی چمک رہی ہے۔5جن ابروؤں میں یہ چار صفات پائی جائیں وہ ازج ہوتی ہیں:

  1. کمان کی طرح گولائی کا پایا جانا۔
  2. بھر پور بالوں والا ہونا۔
  3. باریک ہونا۔
  4. لمبا ہونا۔

اس طرح"ازج الحواجب" کا پورا مفہوم یہ بنے گا کہ حضور نبی کریم کے اَبرو مبارک لمبے تھے، باریک تھے، بھرپور بالوں والے تھے اور کمان یا محراب کی مانند گولائی رکھتے تھے۔

آپ ﷺکےابرو نہایت باریک تھے

باریک ابروؤں کے بارے میں ایک روایت یوں مروی ہے۔

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دقیق الحاجبین.6
  رسول اﷲ کے اَبرو مبارک نہایت باریک تھے۔

اسی طرح امام صالحی روایت کرتے ہیں:

  قال رجل من الصحابة :كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دقیق الحاجبین.7
  ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ: رسول اﷲ کے اَبرو مبارک نہایت باریک تھے۔

اس کی شرح میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:

  دقیق شعر الحاجبین طویلھما الى مؤخر العین مع تقوس.8
  دونوں ابرؤوں کے بالوں کا باریک ہونا آنکھ کے آخر تک قوس کی شکل میں لمبا ہونا ہے۔

یوسف بن اسمعیل نبہانی نے بھی لکھا ہے کہ آپ کے ابرومبارک خمدار، باریک، گھنے اور ایک دوسرے سے جداتھے۔9

آپﷺکےابرو مبارک متصل تھے

حضور کے دونوں اَبروؤں کے درمیان فاصلہ بہت کم تھا۔اس کا اندازہ روئے منور کو بغور دیکھنے سے ہی ہوتا تھا ورنہ عام حالت میں یوں لگتا تھا کہ ان کے درمیان سرے سے کوئی فاصلہ ہی نہیں جیسا کہ حضرت علی فرماتے ہیں۔

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مقرون الحاجبین.10
  رسول اﷲ کے اَبرو مبارک آپس میں متصل تھے۔

حضرت سوید بن غفلہ نے بھی نبی کریم کی زیارت کی اور آپ کی ابرو مبارک کے بارے میں آپ سے یوں منقول ہے:

  واضح الجبین اھدب مقرون الحاجبین.
  پیشانی کشادہ اور اَبرو آپس میں متصل تھے۔11

روایات میں تطبیق

سابقہ روایات میں یہ تذکرہ تھا کہ اَبرو مبارک ملے ہوئے نہ تھے اور بعض روایات میں ہے کہ ملے ہوئے تھے بظاہر ان روایات میں تعارض محسوس ہوتا ہے مگر محدثین نے اس ظاہری تعارض کو دلائل کے ذریعہ حل فرمایا ہے۔چنانچہ صاحب سیرت حلبیہ فرماتے ہیں:

  ان الفرجة التى كانت بین حاجبیه یسیرة لا تبین الا لمن دق النظر.
  دونوں اَبروؤں کے درمیان اتنی قلیل کشادگی تھی کہ اسی شخص پر واضح ہوتی جو غور سے دیکھتا۔ 12

شیخ ابراہیم بیجوری تعارض کو رفع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  ولایعارض ذلك خبر ام معبد بفرض صحته كان ازج قرن لان المراد انه كان كذلك بحسب ما یبدو للناظر من غیر تامل واما المتامل فیبصر بین حاجبیه فاصلا لطیفا فھو اھلج فى الواقع اقرن بحسب الظاھر.13
  فاصلہ والی روایات ام معبد سے مروی روایات کے منافی نہیں ہیں کیونکہ یہ اختلاف دیکھنے والے کے اعتبار سے ہے جس نے بغیر تامل دیکھا اس نے مبارک اَبروؤں کو متصل کہا لیکن جس نے خوب تامل کیا وہ جانتا ہے کہ ان کے درمیان خوبصورت فاصلہ تھا الغرض آپ کے اَبرو مبارک حقیقۃً پیوست نہیں تھے اور ظاہراً متصل تھے۔

یعنی اختلافِ روایات دیکھنے کی نوعیت کے مختلف ہونے کی بنا پر ہے در حقیقت رسول اکرم کے ابرو متصل نہیں تھے بلکہ علیحدہ علیحدہ تھے۔

ابروؤں کےمابین مقدس رگ

بسا اوقات رسول اکرم کسی ناپسندیدہ امر کے پیش ِنظرجلال کی حالت میں ہوتے جو فی الحقیقت احکام الٰہی کی پامالی کی بناء پر پیش آتی۔علماء سیر نے اس حالت کو تحریر فرمایا ہے اور ساتھ ہی اس کا ذکر بھی کیاہے کہ ایک رگ ایسی بھی تھی جوجلال کے وقت ابروؤں کے درمیان ظاہر ہوجاتی تھی۔چنانچہ علامہ طبرانی معجم الکبیر میں اس رگ کا ذکر کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں:

  بینھما عرق یدره الغضب إذا غضب در العرق الذى بین الحاجبین.14
  ان (اَبرووں ) کے مابین ایک رگ تھی۔ جب آپ غصے کی حالت میں ہوتے تھے تو دونوں ابرو کے درمیان رگ ابھرجاتی تھی۔

اس روایت کو امام بیہقی 15 ،امام شامی 16اور صاحب مجمع الزوائد نے 17بھی نقل فرمایاہے۔

عرق کامعنی پسینہ اورکشیدشدہ پانی بھی ہوتاہے نیز عَرَق کامعنی رگ اور جوڑ ہوتا ہے یہاں رگ مرادہے ۔

انسان کے وجود میں نظام جسم وحیات کے قیام واستحکام کے لیے بہت سی رگیں پھیلی ہوئی ہیں بعض رگیں غیر مجوف ہیں ان کو اعصاب اور جورگیں مجوف ہیں ان کو عرق کہتے ہیں جن میں خون اور پٹے ہوتے ہیں۔حضور اقدس کے دونوں ابرؤں کے درمیان میں ایک ایسی باریک رگ تھی جو غصے کے وقت ابھرکرنظرآنے لگتی ۔ 18دونوں ابروؤں کے درمیان میں کشادگی تھی یعنی اقبال اور برکتوں کی کھلی دلیل اوران دونوں کے بیچ میں ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھرجاتی اور پھڑکتی تھی۔ 19اسی ضمن میں علامہ بغوی نقل فرماتے ہیں:

  بین حاجبیه عرق یمتلأ دما إذا غضب، یقال: درت العروق: إذا امتلأت دما.20
  آپ کی ابروؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو خون سے بھرجاتی تھی جب آپ غصہ میں ہوتے۔عربی محاورہ میں کہا جاتا ہے( درت العروق ) یعنی جب رگوں میں خون دوڑے۔

عام طور پر آپ غصہ کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔مگر جب کوئی اللہ کے حدود کو پامال کرتا تھا پھر آپ ﷺکو غصہ آتا تھا اور جب غصہ آتا تو آپ ﷺکے سامنے کوئی ٹھر نہیں سکتا تھا ۔ 21

انسانوں میں مختلف وضع وقطع اور مختلف تناسب رکھنے والے افراد موجود رہتے ہیں۔بالخصوص ابروکے لحاظ سے کسی کے ابرونہایت کثیف ہوتے ہیں،کسی کے بالکل نظر نہیں آتے،کسی کے بالکل جدا ہوتے ہیں اور کسی کے بالکل متصل ہوتے ہیں ،کسی کی لمبائی زیادہ ہوتی ہے اور کسی کی کم کسی کے ابرودرمیان سے مقطوع ہوتے ہیں اور کسی کے مقطوع نہ ہونے باوجودعدم توزن کا شکار ہوتے ہیں،کسی کے ابرو ں کے بالوں میں بے ترتیبی اور کسی کے پلکوں کی خمیدگی تراش وخراش کی محتاج ہوتی ہے،اسی طرح خواتین میں زیب وزینت کی طرف متوجہ خواتین اپنی ابروں کو سنوارنے اور بنانے کے لیے کیا کچھ اور کتناوقت صرف کرتی ہیں ۔ہر ذی شعور آدمی اس سے بخوبی واقف ہے کیونکہ انسان کے ظاہری اعضاء کے حسن وجمال میں جن اعضاء کی تہذیب ونزاکت کا زیادہ خیال رکھاجاتاہے اس میں ابروبھی شامل ہیں۔حضوراکرم جہاں دیگراعضائے بدنی کے ترتیب کے اعتبار سے باکمال ہستی تھے وہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے ابرومبارک کو بھی حسن کا شاہکاربنایاتھا جس کی مصنوعی تراش وخراش سے آپ بالکل بے نیاز تھے ۔قدرتی طورپر رب تعالیٰ نے آپ کی ابرو مبارک میں تربیت و تزئین و دیعت کر رکھی تھی کہ اس پرانسانی محنت و کاریگری کا گمان گزرتا تھالیکن درحقیقت آپ مصور کائنات کی سجاوٹ پر حسن تخلیق کا شاہکار اعظم ہیں جہاں خوبصورتی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور جملوں کا سہارابھی بہت کمزور ثابت ہوتا ہے۔

ایک طرف حضور کے ابرو مبارک کا حسن صحابہ کرام نے جیسا دیکھا تھا ویسے ہی کی بنیاد پر بیان کیا لیکن دوسری طرف یہ بھی آپ کی نبوت کے معجزات میں سے ایک بڑا معجزہ ہے کہ آپ کو وہ قدر دان صحابہ کرام عطا فرمائے کہ جنہوں نے آپ کے جسم مبارک میں چہرہ مبارک کو انتہائی گہری نگاہوں سے دیکھ کرآپ کے نقوش طیبہ کے ایک ایک عکس کو اپنے دل ودماغ میں کتنی حفاظت سے محفوظ کیا اور پھر اسی صداقت ودیانت کے ساتھ آنے والی نسلوں کو بلاکم و کاست منتقل کردیا۔

 


  • 1 محمد بن عیسیٰ الترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع ، بیروت،لبنان، 1988، ص:11-13
  • 2 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:42
  • 3 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:293
  • 4 ایضاً، دار الريان للتراث، القاهرة، مصر، 1408ھ ، ص:288
  • 5 امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی دلائل النبوۃ(مترجم:محمد اسماعیل الجاروی)،مطبوعہ :دارالاشاعت،کراچی ، پاکستان،2009ء،ص:253
  • 6 علی بن ابی بکر ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج -4، مطبوعۃ:د ار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1987ء، ص:74
  • 7 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :21
  • 8 علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1421ھ ، ص :160
  • 9 یوسف بن اسمعیل نبھانی ،فضائل محمدیہ(مترجم:مولانا مختار احمد رومی)،مطبوعۃ:ضیاءالقرآن پبلی کیشنز ، لاہور، پاکستان، 2006ء، ص:129
  • 10 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ ، مصر، 1997ء، ص:22
  • 11 ایضًا، ص:21
  • 12 علی بن ابراہیم حلبی ، السیرۃ الحلبیۃ ،ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1427ھ، ص:468
  • 13 ابراہیم بن محمد بیجوری ، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی ،مصر، 1956ء، ص:20
  • 14 سليمان بن احمد الطبرانى، المعجم الكبير، ج-2، مطبوعہ: مكتبة ابن تيمية ،القاهرة ،مصر، 1415ھ،ص:160
  • 15 ابو بكر احمد بن الحسين البيهقى، دلائل النبوة، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1405ھ، ص:242
  • 16 محمد بن یوسف الصالحی شامی، سبل الھدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1971ء، ص:21
  • 17 علي بن ابى بكر الهيثمى، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج-8، مطبوعۃ: مكتبة القدسى، القاهرة ، مصر، 1414 ھ، ص:276
  • 18 عبدالقیوم حقانی، شرح شمائل ترمذی،ج-1، مطبوعہ: مطبع عربیہ ،لاہور، پاکستان،2002ء، ص:157
  • 19 مولانا محمد اسلم زاہد،حضرت محمد ﷺ کا عہد شباب ،مطبوعہ:معارف الادب الاسلامی،لاہور،پاکستان2016ء،ص:22
  • 20 ابو محمد حسين بن مسعود البغوي ، شرح السنة،ج-13، المكتب الإسلامي ، بيروت، لبنان، 1403ھ، ص:277
  • 21 محمد حسین صدیقی،آفتاب نبوت کی کرنیں اردو شرح شمائل ترمذی، مطبوعہ: دارالاشاعت ،کراچی ، پاکستان،2004ء، ص:96