اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بڑے کمال حسن کے ساتھ فرمائی ہے اسی وجہ سے انسان کارخانہ ربوبیت کی حسین ترین تخلیق ہے۔ جس کا ذکر قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِى اَحْسَنِ تَقْوِیمٍ41
بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔
کائنات حسن کے سارے جلوے وجودِ انسانیت میں مجتمع کردیے گئے۔ تاہم کائنات انسانیت کا حسن جب اپنے نکتہ کمال کو پہنچا تو وجودِ مصطفوی تخلیق پذیر ہوا۔ یہی وہ حسنِ ازلی ہے جب پھیلا تو کائنات ِحسن کے جلووں کی مانگ بھرگئی اور سمٹا تو چہرہ مصطفویسے معنون ہوگیا۔
رسول اکرم کے چہرہ انوار کی لونیت کو بیان کرتے ہوئےامام ابو نعیم اصفہانی لکھتے ہیں:
وكان لونه صلى اللّٰه علیه وسلم لیس بالابیض الامھق والامھق الشدید البیاض الذى لا تضرب بیاضه الى الشھبة ولم یكن بالادم وكان ازھر اللون والازھر ھو الابیض الناصع البیاض الذى لا یشوبه صفرة ولا حمرة ولا شى من الالوان وقد نعت بعض نعته بذلك ولكن انما كان المشرب حمرة ما ضحى منه للشمس والریاح وما كان تحت الثیاب فھو الابیض الازھر لایشك فیه احد ممن وصفه بانه ابیض ازھر فمن وصفه بانه ابیض ازھر فعنى ما تحت الثیاب فقد اصاب ومن وصف ما ضحى منه للشمس والریاح بانه ابیض مشرب بحمرة فقد اصاب ولونه الذى لا یشك فیه البیاض الازھر وانما الحمرة من قبل الشمس والریاح وكان عرقه فى وجھه مثل اللؤلو اطیب من المسك الاذفر.2
آپ کا رنگ خالص سفید جس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہ ہو نہ تھی۔ مگر آپ گندمی رنگ کے بھی نہ تھے بلکہ آپ کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھااور یہ بھی مروی ہے کہ آپ کا رنگ چمکدار تھا جس میں زردی سرخی یا کسی دوسرے رنگ کا امتزاج نہ تھا اور آپ کی تعریف کرنے والوں میں سے بعض کا خیال بھی یہی ہے۔اس لیے دونوں اقوال کے درمیان یوں محاکمہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ظاہری اعضاء دھوپ اور آب وہوا سے متاثر ہوکر سرخی مائل سفید تھے مگر کپڑوں کے نیچے والے جسم کا رنگ چمکدار سفید تھا (جس میں سرخی کی آمیزش نہ تھی) لہٰذا جس نے آپ کا رنگ چمکدار سفید قرار دیا ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ اس سے مراد کپڑوں کے نیچے کا حصہ ہے جبکہ سرخی مائل سفید قرار دینے والا بھی درست کہتا ہے اس لیے کہ دھوپ اور ہوا کے تاثر سے ظاہری اعضاء میں سرخی کی آمیزش ہوگئی تھی لہٰذا آپ کا اصل رنگ چمکدار سفیدی ٹھہرا جبکہ سرخی کا امتزاج آب وہوا کے باعث قرار پایا۔ آپ کے چہرے پر پسینہ موتیوں کی طرح چمکتا تھا جس کی خوشبو مہکتی کستوری سے بھی فزوں تر تھی۔
قرآن نے جہاں آپ سے منسوب دیگر اشیاء کی قسم کھائی وہاں آپ کے چہرۂ مبارک اور گیسوئے عنبریں کی قسم بھی کھائی ہے۔ جب سلسلہ وحی بعض حکمتوں کے پیش نظر کچھ دن منقطع ہوا تو اس پر بعض بدبخت دشمنانِ اسلام نے زبان طعن دراز کی اور کہنے لگے کہ محمد کا خدا (نعوذ باﷲ) اس سے روٹھ گیا ہے۔ اس قسم کی طعن آمیز باتوں کی وجہ سے بتقاضائے بشریت آپ کی طبیعت مبارکہ میں کچھ ملال سا پیدا ہوا اس پر اﷲ تعالیٰ نے سورۃوالضحی کو نازل کیا اور فرمایا:
وَالضُّحٰى1وَالَّیلِ اِذَا سَـجٰى2 مَا وَدَّعَك رَبُّك وَمَا قَلٰى33
قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔ (یا:- اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیا)۔ (یا:- قَسم ہے وقتِ چاشت (کی طرح آپ کے آفتابِ رِسالت کے بلند ہونے) کی (جس کے نور نے گمراہی کے اندھیروں کو اجالے سے بدل دیا)، اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ (یا:- اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے)۔ (یا:- قَسم ہے رات کی (طرح آپ کے حجابِ ذات کی) جب کہ وہ (آپ کے نورِ حقیقت کو کئی پردوں میں) چھپائے ہوئے ہے)، آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم کو ان الفاظ کے ذریعے اس بات کی طرف متوجہ کردیا کہ جب اﷲ تعالی تیرے رُخِ تاباں اور گیسوئے عنبریں تک کی قسم اٹھاتا ہے تو کبھی اس قدر پیار کرنے والا بھی اپنے محبوب سے ناراض ہوسکتا ہے۔
یہاں چاشت سے مراد آپ کا چہرہ اقدس اور لیل سے آپ کی مبارک زلفیں ہیں۔ا س پر ائمہ کی تصریحات بھی وافر موجود ہیں۔چنانچہ امام ملا علی قاری اسی تصور کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
والانسب بھذا المقام فى تحقیق المرام ان یقال: ان فى الضحى ایماء الى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم كما ان فى اللیل استعارا الى شعره علیه الصلوٰة والسلام.4
اس سورۃ کا نزول جس مقصد کی خاطر ہوا ہے اس کا تقاضا ہےکہ کہا جائے کہ ضحی سے آپ کے چہرۂ انور اور لیل سے آپ کی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔
واضح بات ہے کہ جب یہاں مقصد آپ کو تسلی دینا ہے تو اس سے مراد زیادہ مناسب یہی ہے کہ آپ کے چہرۂ انور اور سیاہ زلفوں کی قسم یاد فرمائی جائے تاکہ دشمنان اسلام کو شرمندگی ہو اور آپ کو تسکین حاصل ہو۔
سی طرح امام زرقانی فرماتے ہیں:
الضحى بوجھه صلى اللّٰه علیه وسلم واللیل بشعره.5
ضحیٰ سے مراد آپ کا چہرۂ انور اور لیل سے مراد آپکی مبارک زلفیں ہیں۔
اسی حوالہ سے امام فخر الدین رازی ایک سوال اور پھر اس کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ھل احد المذكرین فسر الضحى بوجھه محمد واللیل بشعره. نعم ولااستبعاد فیه.6
کیا کسی مفسر نے ضحی کی تفسیر حضور کے چہرۂ انور اور لیل کی تفسیر آپ کی زلفوں کے ساتھ کی ہے؟(جواباً کہتے ہیں کہ) ہاں یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں ۔
اسی آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے امام نیشاپوری لکھتے ہیں:
لا استبعاد مما یذكره الواعظ من تشبیه وجه محمد صلى اللّٰه علیه وسلم بالضحى وشعرہ باللیل.7
علماء اسلام حضور کے چہرہ اقدس کو جو ضحیٰ کے ساتھ اور مبارک زلفوں کو لیل کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔
اسی حوالہ سےعلامہ آلوسی لکھتے ہیں:
ومن الناس من فسر الضحى بوجھه صلى اللّٰه علیه وسلم واللیل بشعره علیه الصلوٰة والسلام كما ذكر الامام وقال: لا استبعاد فیه.8
بعض مفسرین نے الضحی سے آپ کا چہرۂ انور اور اللیل سے آپ کی سیاہ زلفیں مراد لی ہیں۔ امام رازی نے اس قول کو ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معنی لینے میں کوئی حرج نہیں۔
علامہ اسماعیل حقی "الضحی" اور "اللیل"کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اشارتست بروشنى وروى حضرت مصطفى صلى اللّٰه علیه وسلم وكنایت از سیاھى موئے وے.9
یہ آپ کے چہرہ اقدس کی نورانیت اور آپ کی زلفوں کی سیاہی کی طرف اشارہ ہے۔
امام شاہ عبد العزیز دہلویفرماتے ہیں:
بعضے گویند كه مراد از ضحى روئے پیغمبر است صلى اللّٰه علیه وسلم واز لیل موئے اوست كه درسیاھى ھمچو شب است.10
بعض مفسرین نے ضحیٰ سے آپ کا چہرہ انور مراد لیا ہے اور لیل سے آپ کی مبارک زلفیں جو سیاہی میں تاریک رات کی طرح ہیں۔
یہ تمام اقوال اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ ان آیات بینات میں استعارہ کے طور پر رسو ل اکرم کے چہرہ اور زلف مبارک کو ضحٰی اور لیل سے تعبیر کر کے ان کی قسم اٹھائی گئی ہے۔
اللہ ربُّ العزّت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب کے چہرہ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ مکّۃ المکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے ابتدائی دور میں مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے تھے اس پر یہود نے طعن کیا کہ مسلمان اور ان کا نبی ہمارے دین کی تو مخالفت کرتے ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ اگر ہم نہ ہوتے تو ان کو قبلہ کی خبر تک نہ ہوتی اور یہ عنقریب ہمارے دین کو اختیار کرلیں گے۔ اس طعن کی وجہ سے رسالت مآب کے دل اقدس پر بوجھ ہوا آپ نے تبدیلی قبلہ کی خواہش کرتے ہوئے حضرت جبرائیل سے فرمایا:
وددت لوحولنى اللّٰه الى الكعبة فانھا قبلة ابى ابراھیم.11
میں چاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ میرا قبلہ تبدیل فرماکر کعبہ کو قبلہ قرار دیں کیونکہ یہی میرے والد ابراہیم کا قبلہ ہے۔
حضرت جبرائیل نے عرض کیا:
انما انا عبد مثلك وانت كریم على ربك فسل انت ربك فانك عنداللّٰه بمكان.12
یا رسول اﷲ! میں بھی ایک عبد ہوں اور آپ بارگاہ ایزدی میں معزز ہیں آپ تبدیل قبلہ کے بارے میں سوال کریں کیونکہ یہ اﷲ کے ہاں آپ ہی کا مقام ہے۔
یعنی میں بندۂ مامور ہوں اور آپ بندۂ محبوب ، میں صرف ماننے والا ہوں آپ ماننے والےتو ہیں ہی ،اس کے ساتھ ساتھ منوانے والے بھی ہیں۔ میں فقط اﷲ تعالیٰ کی رضا چاہنے والا ہوں اور آپ کی رضا اﷲ کو مطلوب ہے۔یہ کہہ کر حضرت جبرائیل آسمان پر چلے گئے حضور نبی کریم نے نماز کی نیت باندھ لی اس آرزوئے شوق میں کہ تبدیلی قبلہ کا حکم آئے۔ چہرۂ اقدس اٹھاکر بار بار آسمان کی طرف دیکھا پس چہرۂ اقدس کو اٹھانے کی دیر تھی کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے محبوب کے اس انداز پر پیار آگیا یوں ارشادِ باری تعالی ہوا:
قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْھك فِى السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّینَّك قِبْلَة تَرْضٰیھا ۠ فَوَلِّ وَجْھك شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ14413
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجیے ۔
سیدِ عالم کو کعبہ کا قبلہ بنایا جانا پسندِخاطر تھا حضور اس اُمید میں آسمان کی طرف نظر فرماتے تھے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔چنانچہ امام ابن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
عن قتادةرضي الله عنه فى قوله "قد نرى تقلب وجھك فى السماء" قال: كان صلى اللّٰه علیه وسلم یقلب وجھه فى السماء یحب ان یصرفه اللّٰه عزوجل الى الكعبة حتى صرفه اللّٰه الیھا.14
حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم آسمان کی طرف چہرہ فرماتےتھے اور آپ یہ چاہتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو کعبہ کی طرف پھیردے تو یہ آیت نازل ہوئی : بے شک ہم آپ کے چہرہ کا آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں سو ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیردیں گے جس پر آپ راضی ہیں۔
جونہی یہ آیت لے کر حضرت جبریل نازل ہوئے اس وقت حضور نبی کریم نماز کی حالت میں تھےاور دو رکعت نماز بیت المقدس کی طرف رُخِ انور کرکے ادا فرماچکے تھے۔حضرت جبریل حکم خداوندی کے ساتھ نازل ہوئے تو آپ نے بقیہ دو رکعت کعبہ کی طرف رُخِ انور فرماکر ادا فرمائیں۔آپ کے ساتھ خوش قسمت صحابہ اُسی حالت میں آپ کی اقتداء میں کعبہ کی طرف مُڑگئے۔
اس ارشاد خداوندی سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے پیارے محبوبِ مکرم کی رضا بہت محبوب ہے جو محبوبِ مکرم چاہتے ہیں وہی عطا فرمادیا جاتا ہے۔حالانکہ اس سے پہلے بیت المقدس کی طرف اﷲ تعالیٰ کے حکم سے نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ لیکن نبی کریم کی تمنا یہ تھی کہ میرے لیے وہی قبلہ بنادیا جائے جو حضرت ابراہیم کا تعمیر کردہ اﷲ تعالیٰ کا سب سے پہلا گھر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی کریم کے بار بار اپنے رخ انور کو آسمان کی طرف اٹھانے پر آپ کی خواہش پوری فرمادی۔
اس حوالہ سےابن دحیہ کلبی لکھتے ہیں:
ان للّٰه مدح وجه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال جل من قائل: (قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْھك فِى السَّمَاء فَلَنُوَلِّینَّك قِبْلَة تَرْضَاھا) فبسبب تقلب وجھه حول القبلة من بیت المقدس الى الكعبة جھرا، بعد ان صلى الیھا ستة عشر او سبعة عشر شھرا على ماثبت باتفاق عند علماء الافاق. فكانت بركة وجھه فى التقلب معطیة لرضاہ فى اعطاه قبلة یرضاھا فیما اقتضاہ. وفیه كرامة عظیمة للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم حیث اعطاہ اللّٰه ذلك ولم یسال ولا صرح ولا تكلم.15
بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی پاک کے چہرۂ مبارکہ کی مدح فرمائی اور فرمایا کہ ہم تمہارے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ہم پھیردینگے تمہارے لیے قبلہ کو جیسا تم چاہتے ہو۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور اکرم نے 16 یا 17 ماہ بیت المقدس کےرُخ نماز پڑھی اور آپ کے بار بار چہرہ پھیرنے سے تحویل قبلہ کا واقعہ ہوا۔ یہ حضور کے چہرۂ مبارکہ کے بار بار پھیرنے کی برکتیں ہیں اور ان کی خوشی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کو قبلہ بنا دیا جو آپ کی تمنا اور دلی تقاضا تھا۔ اس واقعے میں حضور کی عظیم شان کا اظہار ہے کہ آپ کے لبہائے مبارک کی جنبش نہ ہوئی نہ صراحت ہوئی، نہ کلام پرجیسا آپ نے چاہا اللہ تعالیٰ نے وہ عطا فرمادیا۔
رسول اکرم کا رخِ انوار تمام سے بڑھ کر حسین و جمیل تھا۔چنانچہ امام بخاری لکھتے ہیں کہ حضرت براء نے فرمایا:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس وجھا.16
رسول اﷲ کا چہرہ تمام لوگوں سے زیادہ حسین تھا۔
اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن سمرۃ سے نقل کرتے ہوئےامام ترمذی روایت کرتے ہیں:
عن جابر بن سمرة قال: رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى لیلة اضحیان و علیه حلة حمرآء فجعلت انظر الیه والى القمر فاذاھو عندى احسن من القمر.17
حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں: میں نے حضور کو چودہویں رات میں دھاری دار سرخ یمنی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا میں کبھی آپ کی طرف دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف تو آپ میرے نزدیک یقیناً چاند سے زیادہ حسین تھے۔
کسی شخص کے اس سوال کے جواب میں کہ کیارسول اﷲ کا چہرۂ مبارک تلوار کی مثل تھا؟ حضرت براء بن عازب نے جواب میں کہا:
لا، بل مثل القمر.18
"نہیں"، بلکہ مثل ماہتاب تھا۔
صحابہ کرام نے حضور نبی کریم کے چہرۂ انور کو فقط چاند ہی سے تشبیہ نہیں دی بلکہ آپ کے چہرۂ انور کو قرآن کا ورق بھی قرار دیا۔ چنانچہ حضرت انس سے مروی ہے:
حضور نبی کریم کے مرضِ وصال کے دنوں میں سیدنا صدیق اکبر نماز کی امامت کے فرائض انجام دیا کرتے، سوموار کا دن تھا صحابہ کرام صف درصف ان کے پیچھے نماز ادا کررہے تھے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:
فكشف النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ستر الحجرة ینظر الینا وھو قائم كأن وجھه ورقة مصحف ثم تبسم یضحك فھممنا ان نفتتن من الفرح برؤیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم .19
تو اچانک نبی کریم نے اپنے حجرہ انور کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہوکر ہمیں دیکھا (ہم نے آپ کے چہرہ انور کی زیارت کی) تو وہ قرآن کے ورق کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ ہماری کیفیت دیکھ کر آپ نے تبسم فرمایا ہم نے آپ کے دیدار فرحت آثار کی خوشی کی وجہ سے نماز توڑدینے کا ارادہ کرلیا۔
حضرت ابوبکر صدیق مصلیٰ چھوڑ کر صف کی طرف آئے کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ شاید آقا تشریف لے آئے ہیں آپ نے ہمیں اشارے سے نماز کو پورا کرنے کا حکم دیا اور پردہ نیچے گرادیا اسی دن آپ کا وصال ہوگیا۔
حضرت انس سے مروی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
اخر نظرة نظرتھا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وكشف الستارة یوم الاثنین فنظرت الى وجھه كانه ورقة مصحف.20
مجھے آپ کے چہرہ انور کی آخری زیارت اور دیدار اس وقت نصیب ہوا جب پیر کی د ن آپ نے پردہ ہٹاکر صحابہ کرام کو نماز پڑھتے ہوئے ملاحظہ فرمایا۔ پس میں نے آپ کے چہرہ انور کو قرآن مجید کا ایک ورق پایا۔
محدث کبیر امام عبدالرؤف مناوی وجہ تشبیہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ووجھه التشبیه حسن الوجه وصفاء البشرة وسطوع الجمال لما افیض علیه من مشاھدة جمال الذات.21
چہرہ اقدس اپنی صفائی، حسن اور جمال کی چمک دمک میں قرآن کے ورق کی طرح کیوں نہ ہو؟کیونکہ یہی تووہ چہرہ اقدس ہے جس نے جمال ذات باری تعالیٰ کے مشاہدہ سے فیضان پایا ہے۔
امام نووی "کان وجھہ ورقۃ مصحف" کے تحت لکھتے ہیں:
عبارة عن الجمال البارع وحسن البشرة وصفاء الوجه واستنارته.22
یہ جملہ آپ کے با جمال چہرۂ انور کے حسنِ صفائی اور اس کے انتہائی منور ہونے کی تعبیر ہے۔
اسی طرح شیخ ابراہیم بیجوری لکھتے ہیں:
یشبه ورقة مصحف فى الحسن والصفا فان ورقة المصحف مشتملة على البیاض والاشراق الحسى والمعنوى من حیث ما فیھا من كلام اللّٰه تعالى وكذلك وجھه الشریف مشتمل على الحسن وصفاء البشرة وسطوع الجمال الحسى والمعنوى.23
حسن وصفائی میں آپ کے چہرۂ انور کو ورق مصحف اس لیے کہا کہ جس طرح ورق مصحف کلام الہٰی ہونے کی وجہ سے حسی ومعنوی نور پر مشتمل ہے اسی طرح آپ کا چہرہ انور بھی جمال حسی ومعنوی کا مرکز ومنبع ہے۔
رسول اکرم کے حسن وجمال کے فریفتہ صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ خود سید الملائکۃ حضرت جبریل بھی اس پر فریفتہ تھے۔چنانچہ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول پاک نے فرمایا :
عن جبریل علیه السلام قال: قلبت مشارق الارض ومغاربھا فلم اجدرجلاافضل من محمد صلى اللّٰه علیه وسلم ولم اربیتا افضل من بیت بنى ھاشم.24
جبریل نےکہا :میں نے تمام زمین کے مشرق ومغرب کوچھا ن مارا مگر نہ تومیں نے(سیدنا) محمد سے(کسی بھی چیز میں) بہتر کسی کو پایا نہ ہی میں نے بنوہاشم کے گھرسے بہتر کوئی گھر دیکھا۔
یوں تو کائنات کی ہر شے حسنِ باری تعالیٰ کی نشاندہی کرتی ہے ۔یہ چاند، سورج، ستارے، سبھی کے سبھی اس حسنِ مطلق کی تخلیق کے شاہکارہیں مگر ان سب سے بڑھ کر جمالِ الہٰی کا مظہر چہرہ وذاتِ مصطفوی ہے ۔کیونکہ یہی وہ چہرہ اقدس ہے جو ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور توجہ کا مرکز ہے جسے قرآنِ مجید و فرقانِ حمید نے فانک باعیننا 25 (آپ ہر وقت ہماری نگاہوں میں ہیں) کے دلنشین وفرحت بخش اور محبت بھرےالفاظ میں بیان کیا ہے۔چونکہ آپ کا چہرہ اقدس جمال الہٰیہ کا مظہر اتم ہے اسی وجہ سے آپ نے فرمایا:
من رانى فقد راى الحق.26
جس شخص نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا۔
امام نبھانی امام احمد بن ادریس کے حوالے سے مذکور حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
من رانى فقد راى الحق تعالى.27
جس نے مجھے دیکھا گویا اس نے اﷲ کو دیکھا۔
حضرت ملا علی قاری اس كی شرح ميں لکھتے ہیں:
نعم یصح ان یراد به الحق سبحانه على تقدیر مضاف، اى: راى مظھر الحق او مظھره اومن رانى فسیرى اللّٰه سبحانه. لان من ر اى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فى المنام فسیراہ یقظة فى دار السلام، فیلزم منه انه یرى اللّٰه فى ذلك المقام، ولا یبعد ان یكون المعنى من رانى فى المنام فسیرى اللّٰه فى المنام. فان رؤیتى له مقدمة او مبشرة لذلك المرام.28
یہاں الحق سے اﷲ تعالیٰ کی ذات مبارکہ بھی مراد لینا درست ہے البتہ مضاف مقدر ہوگا یعنی اس نے ذاتِ الہٰی کا مظہر دیکھايا یہ معنی ہے کہ جس نے میری زیارت کی تو وہ اﷲ تعالیٰ کی زیارت کا شرف بھی پائے گا۔ کیونکہ جس نے حضور کی خواب میں زیارت کی وہ بیداری میں بھی جنت میں زیارت کرے گا ۔پس اس سے لازم آتا ہے کہ وہ اس مقام پر دیدار الہٰی سے بھی مشرف ہوگا اور یہ معنی بھی بعید نہیں کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب خواب میں دیدار الہٰی سے مشرف ہوگا۔ کیونکہ آپ کی زیارت اس بات کی بشارت اور پیش خیمہ ہے کہ وہ شخص اپنے رب کریم کی زیارت سے مشرف ہوگا۔
برصغیر کی معتبر علمی و روحانی شخصیت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
حضرت رسالت مآب کے فرمان "من رانی فقد رای الحق" کے دو معنی ہیں:
اول یہ کہ "من رانی فقد رانی یقیناًفان الشیطان لا یتمثل بی"دوم یہ کہ "من رانی فقد رای اللّٰه تعالیٰ"یعنی اس فرمان نبوی کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا یقیناًاس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا اور دوسرا معنی یہ ہوگا کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے اﷲ تعالیٰ کو دیکھا۔29
شیخ عبد الحق محدث دہلوی چہرۂ اقدس کو جمالِ الہٰی کا آئینہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
او وجه شریف وےصلى اللّٰه علیه وسلم مرآت جمالِ الٰھى ومظھر انوار نامتناھى وے.30
آپ کا چہرہ اقدس اﷲ تعالیٰ کے جمال کے لیے آئینہ ہے اور اس قدر انوار الہٰی کا مظہر کہ اس کی حد نہیں۔
رسول اکرم جب خوش ہوتے تو آپ کے مبارک چہرہ پر اس کے اثرات نمایاں ہوجاتے۔چنانچہ اس حوالہ سےام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دخل علیھا مسرورا تبرق اساریر وجھه فقال الم تسمعى ما قال المدلجى لزید واسامة وراى اقدامھما ان بعض ھذه الاقدام من بعض.31
رسول اﷲ ان کے پاس خوش خوش تشریف لائے آپ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا‘ آپ نے فرمایا کیا تم نے نہیں سنا کہ المدلجی نے زید اور اسامہ کے متعلق کیا کہا ہے! اس نے ان دونوں کے قدم دیکھ کر کہا! یہ بعض قدم! بعض قدموں کا جز ہیں۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :
واذا ضحك كاد یتلالا فى الجدر لم ارقبله ولا بعده مثله صلى اللّٰه علیه وسلم.32
جب آپ مسکراتے تھے تو دیواریں آپ کے نور سے جگمگا اٹھتیں۔ میں نے آپ سے قبل یا آپ کے بعد آپ جیسا حسین نہیں دیکھا۔
ملا علی قاری نے درج ذیل الفاظ میں حدیث کا ترجمہ کیا ہے:
أى: یشرق نوره علیه إشراقا كإشراق الشمس علیھا .33
یعنی دیواروں پر نور اس طرح چمکتا جس طرح سورج کی وجہ سے دھوپ پڑتی ہے۔
حاشیہ زرقانی علی المواہب نہایہ ابن اثیر کے حوالہ سے ہے:
انه علیه الصلوٰة والسلام كان اذا سر فكان وجھه المرآة التی ترى فیھا صور الاشیاء وكان الجدر تلاحك وجھه. اى: یرى الجدر فى وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم.34
جب حضور مسرور و خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ مثل آئینے کے ہوجاتا کہ اس میں اشیاء کا عکس نظر آتا اور دیواریں آپ ﷺکے چہرہ میں نظر آجاتیں۔
اسی طرح امام زرقانی فرماتے ہیں:
ان وجھه صلى اللّٰه علیه وسلم كان شدید النور بحیث یقع نوره على الجدار اذا قابلھا.35
آپ کا چہرہ اقدس اس قدر نورانی تھا کہ جب اس کی نورانیت دیواروں پر پڑتی تو وہ چمک اٹھتیں۔
قاضی ثناء اﷲ پانی پتی شمائل محمدیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر جب حضور کی آمد ہوئی تو ان کا گھر روشن رہتا تھا۔حضرت حلیمہ سعدیہ نے لوگوں پر اس حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے فرمایا:
ما كنا نحتاج الى السراج یوم اخذناه لان نور وجھه كان انور من السراج فاذا احتجنا الى السراج فى مكان جئنا به فتنورت الامكنة ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم .36
جس دن سے ہم آپ کو اپنے گھر لائے ہیں اس دن سے ہمیں گھر میں چراغ جلانے کی حاجت نہ رہی کیونکہ آپ کے چہرہ انور کانور چراغ سے زیادہ منور تھا جب کبھی ہمیں کسی جگہ چراغ کی ضرورت ہوتی تو ہم آپ کو اٹھاکر وہاں لے جاتے آپ کی برکت سے تمام جگہ روشن ہوجاتی۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ آپ کے چہرہ اقدس کے اعجاز کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ ایک اندھیری رات میں مجھ سے سوئی زمین پر گر پڑی۔ میں تلاش کر ہی رہی تھی کہ اچانک رسالت مآب کے مبارک چہرہ سے نور کی شعاعیں نکلنا شروع ہوگئیں اس چمک کی وجہ سے مجھے گم شدہ سوئی مل گئی۔چنانچہ اس روایت کے متعلق امام اصبہانی کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
قالت استعرت من حفصة بنت رواحة ابرة كنت اخیط بھا ثوب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسقطت عنى الابرة فطلبتھا فلم اقدر علیھا فدخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فتبینت لشعاع نور وجھه.37
میں نے حفصہ بنت رواحہ سے ایک سوئی ادھار پر لی تھی جس سے رسول اﷲ کا کپڑا سی رہی تھی اور مجھ سے وہ سوئی گرگئی۔ میں نے اسے ڈھونڈا لیکن اسے نہ پاسکی۔ اتنے میں حضور داخل ہوئے آپ کے چہرہ انور کی نور میں مجھے سوئی نظر آگئی۔
یہ صرف ایک مرتبہ کا واقعہ یا اتفاقیہ معاملہ نہ تھا بلکہ آپ فرماتی ہیں:
كنت ادخل الخیط فى الابرة حال الظلمة لبیاض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .38
میں ہمیشہ رات کی تاریکی میں آپ کے چہرہ اقدس کے نور کی روشنی میں سوئی میں دھاگہ ڈال لیا کرتی تھی۔
حضرت حلیمہ سعدیہ بیان فرماتی ہیں کہ جب ہم حضور کو لے کر واپس اپنے خاندان میں جانے لگے تو خواہش ہوئی کہ جانے سے پہلے بیت اﷲ شریف کا طواف کرلینا چاہیے۔ میں آپ کو اٹھاکر حرم کعبہ لے گئی۔ طواف شروع کرنے سے پہلے میں نے چاہا کہ حجر اسود کو بوسہ دوں لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب حجر اسود نے آپ کو دیکھا تو اپنی جگہ سے حرکت کرکے آپ کی طرف بڑھا حتی کہ چہرۂ اقدس سے چمٹ کر اس نے بوسے لینے شروع کردئیے۔
قاضی ثناء اﷲ پانی پتی نے مذکورہ روایت کو ان الفاظ سے بیان کیا ہے:
روى ان حلیمة لما اخذته دخلت على الاصنام فنكس الحبل راسه وكذا جمیع الاصنام من اماكنھا تعظیما له وجاء ت به الى الحجر الاسود لیقبله فخرج من مكانه حتى التصق بوجھه الكریم صلى اللّٰه علیه وسلم.39
جب حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کو لے کر بتوں کے پاس گئیں تو حبل اور دیگر تمام بتوں نے آپ کی تعظیم کی خاطر سر جھکا دیا اور جب آپ کو لے کر حجر اسود کے پاس پہنچیں تو وہ دیکھتے ہی اپنی جگہ سےاکھڑکر آپ کے چہرہ انور کے ساتھ چمٹ گیا۔
حضرت عبداﷲ بن سلام جو اسلام لانے سے قبل یہود کے بہت بڑے عالم تھے۔وہ فرماتے تھے کہ اسلام کے دامن رحمت میں آنے سے پہلے جب میں نے نبی آخر الزماں کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا تو نبوت کی دعویدار اس ہستی کو دیکھنے کے لیے آیا۔ اس وقت آپ مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے۔ حضرت عبداﷲ بن سلام فرماتے ہیں:
فلما استبنت وجه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عرفت ان وجھه لیس بوجه كذاب.40
پس جب میں نے حضور کا چہرۂ اقدس دیکھا تو میرا دل پکار اٹھا کہ یہ (نورانی) چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح حضرت حارث بن عمرو سہمی فرماتے ہیں:
اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو بمنی او بعرفات وقد اطاف به الناس قال: فتجئى الاعراب فاذا راوا وجھه قالوا ھذا وجه مبارك.41
میں منیٰ یا عرفات کے مقام پر حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور (دیکھا کہ) حضور کی زیارت کے لیے لوگ جوق در جوق آرہے ہیں پس میں نے مشاہدہ کیا کہ دیہاتی آتے اور جب وہ آپ ﷺکے چہرہ اقدس کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔
طارق بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے قافلے نے مضافات مدینہ میں پڑاؤ ڈالا۔ ہمارے قافلے میں نبی آخر الزماں تشریف لائے۔ اس وقت تک ہم حضور نبی کریم کی ذاتِ اقدس سے آشنا نہیں تھے۔آقائے محتشم کو ہمارا سرخ اونٹ پسند آگیا اونٹ کے مالک سے سودا طے ہوالیکن اس وقت حضور کے پاس رقم نہ تھی۔آپ نے طے شدہ رقم بھجوانے کا وعدہ کیا اور سرخ اونٹ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد اہل قافلہ اپنے خدشات کااظہار کرنے لگے کہ ہم نے تو سرخ اونٹ کے خریدار کا نام تک دریافت نہیں کیا اور محض وعدے پر اونٹ ایک اجنبی کے حوالے کردیا ہے۔ اگر اونٹ کے خریدار نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو کیا ہوگا؟ لوگوں کی قیاس آرائیاں سننے کے بعد سالار قافلہ کی بیوی قافلے والوں کو مخاطب کرکے یوں گویا ہوئی:
لا تلاوموا، فإنى رأیت وجه رجل لم یكن لیحقركم، ما رأیت شیئا أشبه بالقمر لیلة البدر من وجھه.42
تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو بیشک میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے (اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ) وہ ہرگز تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ میں نے اس شخص کے چہرے سے بڑھ کر کسی چیز کو چودھویں کے چاند سے مشابہ نہیں دیکھا۔
جب شام ہوئی تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا میں رسول اﷲ کا قاصد ہوں یہ کھجوریں لو پیٹ بھر کر کھا بھی لو اور اپنی قیمت بھی پوری کرلو۔ تو ہم نے خوب سیر ہوکر کھجوریں کھائیں اور (اونٹ کی) قیمت بھی پوری کرلی۔
حضوراکرم کےچچا جناب حضرت ابو طالب نے ایک موقع پر چہرۂ مصطفیٰ کا نقشہ یوں کھینچا:
وأبیض یستسقى الغمام بوجھه ثمال الیتامى عصمة للأرامل.43
وہ ( )گورے رنگ والے جن کے روئے روشن کے توسل سے مینہ برستا ہےیتیموں کے جائےپناہ، بیواؤں کے نگہبان ہیں۔
صحابی رسول حضرت کعب بن زبیر نےچہرۂ مصطفیٰ کا بڑا نورانی منظر نامہ بیان فرمایا۔چنانچہ امام قسطلانی نے ابوبکر بن الانباری کے حوالے سے ایک روایت نقل کی کہ جب حضرت کعب قیصدہ پیش کرنے کے دوران اس شعر پر پہنچے:
ان الرسول لنور یستضاء به
مھند من سیوف اللّٰه مسلول.44
بے شک رسول خدا ایسا نور ہیں جن سے (ہدایت کی) روشنی حاصل کی جاتی ہے آپ اللہ کی کھینچی ہوئی تلواروں میں ایک عمدہ تلوارہیں۔
توحضور اکرم نے ردائے مبارک جو اس وقت آپ کے جسم اقدس پرتھی حضرت کعب کو عطا فرما دی۔
اسی طرح رخ زیبا کی تعریف و مدح بیان کرتے ہوئےحضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں:
و احسن منک لم ترقطّ عینی اجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من كل عیب و كانك قد خلقت كما تشاء .45
آپ سا حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا ۔آپ سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے گویا کہ آپ ایسے پیدا کیے گئے جیسا کہ آپ نے چاہا۔46
عرب وعجم میں معروف نعتیہ کلام قصیدہ بردہ شریف میں امام شرف الدین بوصیری نے کمالِ حسن حضور یوں بیان فرمایا :
فھو الذى تم معناه وصورته
ثم اصطفاه حبیبا بارى النسم.47
یعنی ،پس آپ وہ (ذات اتم) ہیں جن کے ظاہری و باطنی کمالات مکمل ہوئے تو خالق ارواح نے انھیں اپنا منتخب و محبوب بنالیا۔
اس سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں اگرکوئی مکمل واتم ہے تووہ صرف ذات مصطفیٰ ہے۔ آپ کی صورت تمام ظاہری کمالات و حسن کا مرقع ہےاور آپ کا باطن تمام اخلاق و محامد کا مجموعہ ہے۔ یعنی رب کائنات نے آپ کو جتنی عظمت بخشی اس سے بڑھ کر آپ کو اعزاز عطا کیا اور وہ اعزاز محبوبیت کا ہے۔
امام بوصیری نے اسی قصیدہ میں ایک جگہ پیارے آقا کو سورج سے تشبیہ دی اور تمام انبیائے کرام کو ستاروں سے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
فإنّه شمس فضل ھم كواكبھا یظھرن أنوارھا للنّاس فى الظّلم.48
یعنی ، بے شک آپ فضیلت و برتری میں (روشن) آفتاب کی مانند ہیں اور سب انبیائے کرام روشن ستارے ہیں جو اس آفتاب نبوت کے انوار کو لوگوں کے لیے تاریکیوں میں ظاہر کررہے ہیں۔
اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بقول کسے وہ اگر جلوہ کریں تو کون تماشاہی ہو؟مذ کورہ بالا صفحات میں چہرۂ مصطفیٰ کے ظاہری حسن کا تفصیلی ذکر کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حسن کی حقیقت کوسمجھانے کے لیے الفاظ ناکافی ہیں ۔ ان کے حسن کا طالب تو خود اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو بنایا۔ ہر کسی کو دیدارمصطفی اور لقائے محبوب کا متمنی بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ حقیقت جمال مصطفیٰ تو دیکھنے کی کسی آنکھ میں تاب ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ السلام کے والد شاہ عبدالرحیم دہلوی نے ذکر کیا کہ حضور نے فرمایا:
جمالى مستورعن اعین الناس غیرة من اللّٰه ولوظھر لفعل الناس اكثر ممافعلوا حسین راؤ یوسف.49
یعنی ، میرا حسن و جمال پردے میں چھپا ہوا ہے اگر ظاہر ہوجائے تو لوگوں کا حال اس حال سے زیادہ ہو جوان کا یوسف کو دیکھ کر ہوا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے میرے حسن کو چھپا رکھا ہے ۔
حضرت ابوبکرصدیق کو سرکار نے خود فرمایا:
یا ابابكر الذى بعثنى بالحق لم یعرفنى حقیقة غیرربى.50
یعنی ،اے ابوبکر مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے معبوث فرمایا مجھے میرے رب کے سوا کسی نے (کماحقہ) پہنچانا ہی نہیں۔
یعنی نبی اکرم کے حسن و جلوہ کو اللہ ربُّ العزّت نے پردوں میں ظاہر فرما یا ہے اور سوائے اللہ رب العزت کے نبی اکرم کی حقیقت خلقت کو کوئی اور نہیں جانتا۔
نبی اکرم حسن وجمال کا بے مثل و بے نظیر مرقع تھے اور اس بے نظیر حسن ِ کامل کا عکس آپ کے جسدِ اقدس کے تمام تر حصو ں میں نمایاں نظر آتاتھا۔بالخصوص آپ کے چہرۂ مبارک میں اس حسنِ کامل کا بدرجہ اتم واکمل اظہار ہوتا تھا۔جب آپ مسرور ہوتے اور مسکراتے تو آپ کے حسنِ تاباں میں مزید اضافہ ہوتا تھا جس سے ارد گرد کے درو دیوار پر نور کی کرنیں پڑتی تھیں اور ماحول یکسر تبدیل ہوجایا کرتا تھا۔اسی طرح آپ کا چہرۂ مبارک آپ کے جسمِ اطہر کا وہ خوبصورت ترین حصہ تھا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اگر ایک بار دیکھ لیتے تو منصف مزاج اشخاص آپ کی صداقت و حقانیت کی گواہی دیتے اور علی الاعلان رسالت نبی کریم کا اقرار کر کے ہمیشہ کے لیے آپ کے قافلہ حق میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔