Encyclopedia of Muhammad

آپﷺکی ناف مبارک

آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ پیدائش کے وقت ہی کئی حوالوں سے ممتاز اور منفرد اوصاف کے حامل تھے عام انسانوں کے برعکس آپ کی پیدائش اس حال میں ہوئی کہ آپ ختنہ شدہ اور ناف بریدہ تھے۔

حضور کی شان انفرادیت

  عن على قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أجرد ذو مسربة.
  حضرت علی سے مروی ہے کہ فخر اولین وآخر ین کا بدن اقدس بالوں سے خالی تھا ۔صرف سینہ اقدس اور ناف مبارک کے درمیان بال تھے۔
  عن الحسن عن خاله ھند قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أنور المتجرد دقیق المسربة، موصول ما بین اللَّبَّة والسُّرة بشعر، یجرى كالخیط، عارى الثدیین والبطن مما سوى ذلك، أشعر الذراعین والمنكبین وأعالى الصدر.1
  حضرت حسن مجتبیٰؓ سے مروی ہے کہ حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے تھے: رسول خدا کا جسد اطہر چمکدار، شفاف اور بالوں سے خالی تھا۔ البتہ سینہ اقدس سے ناف تک بالوں کا ایک باریک ساخط تھا۔ سینہ اقدس اور پیٹ پر بال نہیں تھے، کلائیوں اور کندھوں پر بال تھےجبکہ سینہ مبارک قدرےابھراہواتھا۔2

حضور کی شان عظمت

امام ابن عبد البر مالکیروایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس اپنے والد حضرت عباس سے روایت کرتے ہیں:

  ولد رسول صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا مسرورا یعنى مقطوع السرة فاعجب بذلك جده عبد المطلب وقال: لیكونن لبنى ھذا شان عظیم.3
  رسول اﷲ ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے تو آپ کے جد امجد حضرت عبد المطلب اس پر متعجب ہوئے اور فرمایا :میرا یہ بیٹا یقینا عظیم شان کا مالک ہوگا۔

ثقاہتِ روایت

امام ابن سعدنے بھی اس کو روایت کیا ہے۔4 امام بیہقینے اس حدیث مبارکہ کو مکمل سند کے ساتھ روایت کیا ہے: 5 امام ابو نعیم اصفہانینے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس کے لیے باب باندھا ہے: باب رضاعہ و فصالہ وانہ ولد مختونا مسرورا 6 امام عبد الرؤف مناویامام مغلطائیکے حوالے سے فرماتے ہیں:ورواہ ابو نعیم بسند جید .7

  اس حدیث کو امام ابو نعیم نےجید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

محدث کبیر امام جلال الدین سیوطینے بھی ان احادیث کے لیے باب باندھا ہے:

  باب الایة فى ولادته صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا مقطوع السر.8
  وقت ِ ولادت آپ کا ختنہ شدہ اور ناف بریدہ ہونے پر نشانی کا باب۔

امام صالحینے بھی اس حدیث مبارکہ کے لیے باب باندھاہے:

  الباب الثامن فى ولادته صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا مقطوع السرة.9
  آٹھواں باب آپ کا مختون اور ناف بریدہ پیدا ہونا۔

حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں:

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولد مختونا مسرورا یعنى مقطوع السرة.10
  نبی کریم ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے تھے۔

امام زرقانیلکھتے ہیں:

  و عن ابن عمر قال: ولد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مسرورا مختونا.11
  حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا: حضور ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے۔

امام عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلیفرماتے ہیں:

  وولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم معذورا مسرورا اى مختونا مقطوع السرة یقال: عذر الصبى واعذر اذا ختن وكانت امه تحدث انھا لم تجد حین حملت به ما تجده الحوامل من ثقل ولا وحم ولا غیر ذلك ولما وضعت وقع الى الارض مقبوضة اصابع یدیه مشیرا بالسبابة كالمسبح بھا.12
  حضور نبی کریم مختون پیدا ہوئے آپ کی ناف بھی کٹی ہوئی تھی آپ کی والدہ محترمہ بیان فرماتی ہیں: جب محمد مصطفی میرے بطن اطہر میں قرار پذیر ہوئے تو مجھے کوئی بوجھ وغیرہ محسوس نہ ہوانہ کسی شےکی خواہش پیداہوئی جیسےدیگرعورتوں کو ہوتی ہے۔ جب آپ اس عالم آب و خاک میں تشریف لائے تو آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بند کر رکھی تھیں صرف شہادت کی انگلی سے یوں اشارہ فرمارہے تھے جیسے آپ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بیان کررہے ہوں۔

امام قاضی عیاضایک روایت نقل کرتے ہیں:

  كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قد ولد مختونا مقطوع السرة.13
  بے شک نبی کریم ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے۔

امام ابن سید الناسفرماتے ہیں:

  وولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم معذورا مسرورا اى مختونا مقطوع السرة.14
  حضور نبی کریم مختون پیدا ہوئے آپ کی ناف بھی کٹی ہوئی تھی۔

آپ کی مختونیت

امام ابن قنفذفرماتے ہیں:

  ومن آیاته انه صلى اللّٰه علیه وسلم مختوماً ویروى مقطوع السرة.15
  اور آپ کے معجزات میں سے ہے کہ آپ پر مہر نبوت تھی اور بیان کیا گیا ہے کہ آپ ناف بریدہ تھے۔

امام مقریزیفرماتے ہیں:

  ولد مختونا مسروا.16
  آپ ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے۔

آپ کا بارگاہ خداوندی میں شرف و اکرام

امام طبرانیروایت کرتے ہیں:

  عن انس بن مالك قال: قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: من كرامتى على ربى انى ولدت مختونا ولم یر احد سوءتى.17
  حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضور نے فرمایا: رب تعالیٰ کے دربار میں میری یہ عزت ہے کہ میں مختون پیدا ہوا کسی نے میری شرم گاہ کو نہیں دیکھا۔

امام طبرانینے اس کو طبرانی صغیر میں بھی روایت کیا ہے۔ 18امام ابو نعیم اصفہانینے اپنی کتاب حلیہ الاولیاء میں بھی اس کو روایت کیا ہے۔ 19امام ضیاء مقدسینے بھی اس کو روایت کیا ہے: 20امام عبد الرؤف مناویفرماتے ہیں : وصححه فى المختارة .21

  امام مقدسینےاپنی کتاب الاحادیث المختارہ میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

امام صالحیفرماتے ہیں:

اس روایت کو الطبرانی، ابو نعیم، ابن عساکر، ابن سعد، ابن عدی، نے حضرت عباس، ابوہریرہ، حضرت انس اور حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:

  ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ولد مختونا.22
  بے شک حضور نبی کریم مختون پیدا ہوئے۔

امام قسطلانیحضرت ابوہریرہ کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:

  وولد صلى اللّٰه علیه وسلم معذورا اى مختونا مسرورا اى مقطوع السرة كما روى من حدیث ابى ھریرة عند ابن عساكر.23
  اور حضور معزور یعنی ختنہ شدہ ، مسرور یعنی ناف بریدہ پیدا ہوئے۔ جیسا کہ ابن عسا کرکے نزدیک حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے۔

امام حاکمفرماتے ہیں:

  وقد تواترت الاخبار ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولد مختونا مسروا. 24
  اس امر پر تواتر کے ساتھ روایات آئی ہیں کہ نبی کریم مختون پیدا ہوئے۔

امام ابن جوزی حنبلیفرماتے ہیں:

  قد خلق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا مسروراً .25
  بے شک رسول اللہ ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے۔

امام برہان الدین حلبیفرماتے ہیں:

  وولد نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا اى على صورة المختون اى مكحولا ونظیفا ما به قذر.26
  ہمارے نبی پاک ختنہ شدہ پیدا ہوئے یعنی اس طرح جیسے مختون آدمی ہوتا ہے نیز اس طرح کہ (آپ کی آنکھوں میں گویا) سرمہ لگا ہوا تھا اور پاک صاف پیدا ہوئے کہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی آلودگی نہیں تھی۔

یعنی آپ اس طرح پیدا نہیں ہوئے جس طرح عام بچے پیدا ہوتے ہیں کہ ان کے سارے جسم پر گندگی اور خون وغیرہ لگا ہوتا ہے یہاں تک کہ منہ کے اندر بھی آلائش بھری ہوتی ہے جسے دایہ صاف کرتی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس آپﷺ بالکل پاکیزہ صاف و شفاف مختون و مسرور پیدا ہوئے۔

امام حلبینے جو فرمایا یہ اسی سندکےساتھ ابن سعدنے بھی روایت کیا ہے:

  وروى ابن سعد بسند رجاله ثقات عن اسحاق بن ابى طلحة مرسلاً رحمه اللّٰه تعالى ان امنة قالت: وضعته نظیفا ما ولدته كما یولد السخل ما به قذر ووقع الى الارض وھو جالس على الارض بیدیه.27
  ابن سعدنے ثقہ راویوں سے روایت لکھی ہے کہ حضرت آمنہ نے فرمایا :میں نے آپ کو جنم دیا تو آپ پاکیزہ وطاہر تھے۔ جسم اطہر پر کوئی گندگی نہ تھی آپ زمین پر جلوہ افروز ہوئے ہاتھوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے۔

امام ابن سعدکی اصل عبارت اس طرح ہے:

  عن اسحاق بن عبداللّٰه ان ام النبی صلى اللّٰه علیه وسلم قالت: لما ولدته خرج منى نور اضاء له قصور الشام، فولدته نظیفا ولدته كما یولد السخل ما به قذر ووقع الى الارض وھو جالس على الارض بیده.
  اسحاق بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم کی والدہ نے فرمایا: جب میں نے انہیں جنم دیا تو مجھ سے نور ظاہر ہوا، جس سے شام کے محل روشن ہوگئے، پس میں نے انہیں صاف ستھرا پیدا کیا، میں نے انہیں ایسے جنم دیا جیسے بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے(آسانی سے) آپ پر کوئی نجاست نہ تھی۔ آپ زمین پر ہاتھوں کے بل تشریف فرما ہوئے۔

امام صالحیفرماتے ہیں:

  وقد جزم بانه صلى اللّٰه علیه وسلم ولد مختونا جماعة من العلماء منھم ھشام بن محمد بن السائب فى كتاب الجامع وابن حبیب فى المحبر وابن درید فى الوشاح وابن الجوزى فى العلل والتلقیح.28
  علماء کی ایک جماعت جن میں ہشام بن محمد نے"کتاب الجامع"میں ابن حبیب نے‘‘"المعجم" میں، ابن بردرید نے" الوشاح"میں ابن جوزی نے "العلل" اور "تلقیح"شامل ہیں ان کا یہ مؤقف ہے کہ آپ مختون پیدا ہوئے۔

امام صالحیامام حاکمکی عبارت کے حوالے سے فرماتے ہیں:

  قال الحاكم فى المستدرك: تواترت الاخبار بانه صلى اللّٰه علیه وسلم ولد مختونا.2930
  امام حاکم نے" المستدرک"میں فرمایا: احادیث اس کے بارے میں متواتر ہیں کہ آپ مختون پیدا ہوئے۔

نیز امام صالحیفرماتے ہیں:

  قال الحافظ قطب الدین الخیضرى رحمه اللّٰه تعالى فى الخصائص: وارجحھا عندى الاول وادلته مع ضعفھا امثل من ادلة غیره.31
  حافظ قطب الدین الخیضرمینے لکھا ہے: میرے نزدیک پہلا قول (یعنی حضور نبی کریم مختون پیدا ہوئے) زیادہ راجح ہے اور اس کے دلائل دوسرے قول سے قوی ہیں۔

نیز امام صالحیفرماتے ہیں:

  قلت: قد قدمنا انه له طریقا جیدة صححھا الحافظ الضیاء. وقد قال الزركشى: ان تصحیح الضیاء اعلى مزیة من تصحیح الحاكم.32
  میں کہتا ہوں: میں نے پہلے اسی سند کا تذکرہ کیا ہے جسے حافظ ضیاء الدین مقدسینے صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ زرکشینے لکھا ہے: حضرت ضیاء الدین مقدسیکا کسی روایت کو صحیح قرار دینا امام حاکمکے صحیح قرار دینے سے بہتر ہے۔

نیز امام صالحیفرماتے ہیں:

  قال الخیضرى: فان قیل ان فیه اى فى ولادته صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا بعض نقص فى حق من یوجد كذلك. فیقال: ھذا فى حقه صلى اللّٰه علیه وسلم غایة الكمال، لان القلفة ربما تمنع من تكمیل النظافة والطھارة وتمنع كمال لذة الجماع فاوجد اللّٰه تعالىٰ عبده ورسوله صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا مسرورا مكملا سالما من سائر النقائص والمعایب. فان قیل: اذا كان كذلك! فلم شق صدره صلى اللّٰه علیه وسلم واستخرج منه العلقة السوداء التى ھى حظ الشیطان؟ ولو كان كما ذكرت لخلقه سالما منھا؟ قلت: لا سواء لان الختان والاسرار من الامور الظاھرة التى تحتاج الى فعل الادمى، فخلقه اللّٰه تعالى سلیما منھا لئلا یكون لاحد علیه منة كما فى كمال الطھارة واما اخراج العلقة التى ھى حظ الشیطان فمحلھا القلب ولا اطلاع للادمى علیھا ولو خلق اللّٰه تعالى نبیه صلى اللّٰه علیه وسلم سلیما منھا لم یكن للادمیین اطلاع على حقیقته فاظھره اللّٰه تعالى لعباده على ید جبریل لیتحققوا كمال باطنه كما برز لھم مكمل الظاھر.33
  امام خیضرینے لکھا ہے: اگریہ اعتراض کیا جائے کہ مختون پیدا ہونے میں عیب بھی پایا جاتا ہے۔ تو ہم کہیں گے آپ کے حق میں تو یہ انتہائی کمال ہے کیونکہ یہ کھال جو ختنہ کے وقت کاٹی جاتی ہے بعض اوقات یہ نظافت اور طہارت کی تکمیل میں رکاوٹ بن جاتی ہےاور وظیفہ زوجیت کے وقت بھی رکاوٹ بن جاتی ہے، رب تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم کو اس طرح پیدا فرمایا کہ مختون، مسرور اور سارے عیوب ونقائص سے بَری تھے۔اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پھر آپ کا شق صدر کیوں ہوا؟ وہ سیاہ گوشت کا ٹکڑا کیوں نکالا گیا جو شیطان کا حصہ ہوتا ہے ؟ یعنی اگر اس طرح ہے جس طرح منقول ہے تو پھر آپ کی تخلیق اس کے بغیر ہی ہونا چاہیے تھی۔اس کا جواب علماء کرام نے یہ دیا ہے کہ ختنہ کرنا اور ناف کاٹنا یہ ظاہری امور ہیں جو آدمی کے عمل کے محتاج ہوتے ہیں۔ رب تعالیٰ نے یہ اشیاء آپ میں پیدا نہ فرمائیں تاکہ کسی کا آپ پر احسان نہ ہو اور آپ کمال طہارت پر پیدا ہوں لیکن اس گوشت کے ٹکڑے کو باہر نکالنا جو شیطان کا حصہ ہوتا ہے اس کا محل دل ہوتا ہے جس سے کوئی آگاہ نہیں ہوتا اگر رب تعالیٰ آپ میں یہ بھی پیدا نہ فرماتا تو لوگوں کو اس کی حقیقت پر آگاہی نہ ہوسکتی تھی۔ رب تعالیٰ نے یہ حقیقت حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ہاتھوں خود ظاہر کی تاکہ آپ کے باطن کا کمال بھی متحقق ہوسکے جس طرح اس نے ظاہر کردیا تھا کہ آپ کا ظاہر مکمل ہے۔

انبیاء کرام اور مخوتنیت

امام محمد بن حبیب بغدادی لکھتے ہیں:

  من خلق مختونا فلم یختن ولم یحتج إلى الختان من الأنبیاء صلى اللّٰه علیھم آدم، شیث، نوح، سام، ھود، صالح، لوط، یوسف، موسى، شعیب، سلیمان، زكریا، عیسى، شعیب بن ذى مھدم. حنظلة بن صفوان نبى أھل الرس، ومحمد صلى اللّٰه عليه وعلیھم أجمعین. قال أبو سعید: قال ابن حیيب ذكر ابن الكلبى عن ابى محمد المرھبى عن شیخ من ذى الكلاع قال: سمعت كعب الأحبار یقول: وجدت فى بعض كتبنا أن آدم وجد مختونا وكذلك وجد أحد عشر نبیا مختونین وھم شیث، وإدریس، ونوح، وإبنه سام، ولوط، ویوسف، وموسى، وسلیمان، وزكریا، وعیسى، ومحمد صلى الله عليه وعلیھم.34
  انبیاء میں جو مختون پیداہوئے اورانہیں کسی ختنہ کرنے والےکی حاجت نہ ہوئی وہ حضرت آدم، شیث،نوح، سام، صالح، لوط، یوسف، موسی، شعیب، سلیمان،زکریا، عیسی، شعیب بن ذی مہدم، حنظلہ بن صفوان(اہل رس کے نبی)اورمحمدصلی اللہ علیہ وعلیہم اجمعین ہیں۔ابوسعید نےکہا: ابن حبیب نے ابو محمد الموہبی سے انہوں نےابو محمد المرہبی سے انہوں نے ذی الکلاع کے ایک شیخ(بوڑھے) سےبیان کیا کہ انہوں نے کہا : میں نے کعب احبارکو کہتے سنا: میں نے اپنی چند کتب میں پایاکہ آد مختون پیدا ہوئےاوراسی طرح گیارہ دیگرانبیاء کرام بھی مختون پیداہوئےوہ یہ ہیں:حضرت شیث، ادریس، نوح اوران کا بیٹاسام،لوط، یوسف، موسی، سلیمان، زکریا، عیسی اورمحمد ۔

بہت سے انبیاء کرام مختون پیدا ہوئے ابن درید نے الوشاح اور ابن جوزی نے التلقح میں ان کی تعداد تیرہ لکھی ہے انہوں نے یہ روایت حضرت کعب الاحبار سے روایت کی ہے۔

امام ابن جوزی نے محمد بن حبیب سے یہ تعداد 14لکھی ہے ۔ درج ذیل انبیاء کرام کے بارے میں ان کا اتفاق ہے۔

  1. حضرت آدم
  2. حضرت شیث
  3. حضرت نوح
  4. حضرت لوط
  5. حضرت یوسف
  6. حضرت شعیب
  7. حضرت موسیٰ
  8. حضرت سلیمان
  9. حضرت عیسیٰ
  10. حضرت محمد رسول اﷲ

حضرت کعب الاحبار نے ان انبیاء کا اضافہ کیا ہے:

  1. حضرت ادریس
  2. حضرت سام
  3. حضرت یحییٰ

حضرت ابن حبیبنے ان انبیاء علیہم السلام کا اضافہ کیا ہے:

  1. حضرت ہود
  2. حضرت صالح
  3. حضرت زکریا
  4. حضرت حنظلہ بن صفوان (یہ اصحاب الراس کے نبی تھے)

ان کے کلام سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سترہ انبیاء مختون پیدا ہوئے تھے سب سے پہلے حضرت آدم اور سب سے آخر میں حضور نبی کریم تھے۔

الشیخ نے" قلائد الفوائد"میں ان کے نام اسی طرح نظم کیے ہیں:

  وسبعة  مع  عشر  قد  روى  خلقوا
وھم  ختان  فخذ  لا  زلت  ما نوسا
  سترہ انبیاء کے بارے روایت ہے کہ وہ مختون پیدا ہوئے ۔

  محمد  آدم  ادریس   شیث   نوح
سام  ھود  شعیب  یوسف  موسى
  وہ حضرت محمد مصطفی ، حضرت آدم، حضرت ادریس، حضرت شیث، حضرت نوح، حضرت سام، حضرت ھود، حضرت شعیب، حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ ہیں۔

  لوط     سلیمان     یحیى     صالح
زكریا  حنظله  الرسى  مع  عیسى
  حضرت لوط، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ ، حضرت صالح، حضرت زکریا، حضرت حنظلہ الرسی اور حضرت عیسیٰ ہیں۔

علامہ قاضی عبد الباسط البلقینینے یوں فرمایا ہے:

  وفى  الرسل  مختوناً  لعمرك  خلقه
ثمان    وتسع    طیبون    اكارم
  تیری زندگانی کی قسم! ارْسُل عظام میں سے آٹھ اور نو پاکیزہ صفت اور مکرم انبیاء علیہم السلام مختون پیدا ہوئے۔

  وھم  زكریا  شیث  ادریس  یوسف
وخنظله   عیسى   و  موسى   و آدم
ونوح  وشعیب  سام  لوط  وصالح
سلیمان  یحیى  ھود  یاسین  خاتم.35
  ان میں حضرت زکریا، حضرت شیث، حضرت ادریس، حضرت یوسف، حضرت خنظلہ، حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ اور حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت شعیب، حضرت سام، حضرت لوط، حضرت صالح، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ، حضرت ھود،حضرت یاسین اور حضور نبی کریم علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں۔

حضور اور بعض دوسرے جلیل القدر انبیائے کرام کا مختون پیدا ہونا، دوسرے تمام انسانوں کے درمیان ایک امتیازی و صف تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی عزت و عصمت کے لیے رب ّتعالیٰ نے ان انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی جائے ختنہ کو دوسرے انسانوں کی نگاہوں سے عہد طفولیت میں بھی محفوظ رکھا چہ جائیکہ کہ کوئی بدبخت ان پر کسی قسم کی تہمت اور الزام تراشی کی بعد میں جرأت کرے۔ ولادت کے وقت ناف بریدگی کی حالت میں آقائے کریم کی پیدائش اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عام بچوں کی طرح آپ اپنی والدہ ماجدہ کے رحم اقدس میں خونِ مادر پر قانع نہیں تھے۔ بلکہ ناف بریدگی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہاں بھی رب تعالیٰ نے آپ کے اکل و شرب کے لیے خصوصی اہتمام و انتظام کر رکھا تھا۔

 


  • 1 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:52
  • 2 امام عبدالرحمنٰ ابن جوزی، الوفا باحوال مصطفیٰ ﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی) ، مطبوعہ: حامد اینڈ کمپنی،لاہور ،پاکستان،2002،ص:450-451
  • 3 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ، ج -1،مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992ء، ص: 51
  • 4 محمد بن سعد بصری ، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص: 82
  • 5 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405 ھ، ص: 114
  • 6 ابو نعیم احمد اصفہانی ، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص: 154
  • 7 عبدالرؤف بن تاج العارفین مناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج -6، مطبوعۃ: المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، القاہرۃ، مصر، 1356ھ، ص: 16
  • 8 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی ، خصائص الکبریٰ، ج -1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1971ء، ص: 90
  • 9 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص: 347
  • 10 محمد بن حبان بستی ، کتاب الثقات، ج -1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1975ء ، ص: 42
  • 11 محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-1 ،مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ئ،ص:232
  • 12 عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی،الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ،ج -2 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ئ، ص:94-95
  • 13 عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص :159
  • 14 محمد بن محمد ابن سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج -1، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:37
  • 15 احمد بن حسین بن علی ابن قنفذ قسنطینی ،وسیلۃ الاسلام بالنبی علیہ الصلاۃ والسلام، ج -1، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1984ئ، ص :127
  • 16 احمد بن علی بن عبد القادر تقی الدین المقریزی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1999ئ، ص:7
  • 17 سلیمان بن احمد طبرانی ، المعجم الأوسط، حدیث: 6148، ج -6 ، مطبوعۃ : دار الحرمین ،القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :188
  • 18 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الصغیر، حدیث: 936 ، ج -2 ، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1985، ص: 145
  • 19 ابو نعیم احمد اصفہانی ، حلیۃ الاولیاء، ج -3 ، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التارخ موجودًا)، ص:24
  • 20 ضیاء الدین ابو عبداﷲ محمد بن عبد الواحد مقدسی، الاحادیث المختارۃ، ج -5، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2000ئ، ص :233
  • 21 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1993ء ، ص: 347
  • 22 ابو الحسن ابن الحمامی، مجموع فیہ مصنفات ابی الحسن ابن الحمامی، حدیث:221، مطبوعۃ: مکتبۃ اضواء السلف، الریاض، السعودیۃ،1425ﻫ ،ص:160
  • 23 احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج -1، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر ،(لیس التاریخ موجودًا)،ص :81
  • 24 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4177، ج-2،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ئ، ص: 657
  • 25 جمال الدین عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، کشف المشکل من حدیث الصحیحین، ج-2، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :302
  • 26 برہان الدین علی بن ابراہیم حلبی ، السیرۃ الحلبیۃ، ج -1،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ،لبنان، 1427ھ ، ص:78
  • 27 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،1993ء ، ص :347
  • 28 ایضًا
  • 29 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ،ج -1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان،1993ء، ص :347
  • 30 وتعقبہ الذھبی فقال: ما اعلم صحۃ ذلک فکیف یکون متواترا؟ واجیب باحتمال ان یکون اراد بتواتر الاخبار اشتھارھا وکثرتھا فی السیرۃ لا من طریق السند المصطلح علیہ عند ائمۃ الحدیث۔ترجمہ: اگرچہ امام ذہبی﷫ نے ان کی گرفت کی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ میں تو اس کی صحت کے بارے میں بھی نہیں جانتا یہ متواتر کیسے ہوسکتی ہے؟ امام ذہبی﷫کو یہ جواب دیا گیا ہے کہ تواتر سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت مشہور ہوچکی ہے اور سیرت کی کتب میں کثرت سے پائی جاتی ہے، اس تواتر سے مراد وہ تواتر نہیں جو محدثین کی اصطلاح میں ہے۔نیز یہ بات بھی مستحضر رہے کہ آپ ﷺ کا پیدا ہوتے ہی بیٹھ جانا یا بلا کسی نجاست ظاہری کے دنیا میں آنا آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے جسکو عوام الناس پہ قیاس کرنا کم عقل و کم فہمی ہے۔
  • 31 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 1993ء ، ص :347
  • 32 ایضًا
  • 33 ایضًا، ص:347-348
  • 34 محمد بن حبیب بغدادی، المحبر، مطبوعۃ: دار الآفاق الجدیدۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :131
  • 35 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص :348