خالق کائنات نے انسانوں کے لیے انسانوں ہی میں سے حسن کا شاہکار بناکر حضوراکرم کو بھیجا۔ حضورسرور کائنات کا حسن وکردارہر لحاظ سے شیطانیت کے وسوسوں سےپیداکردہ شکوک وشبہات کاردتھا اور رب کی کمال تخلیق کو واضح اوربندے کو رب کی بندگی کے لیے اُبھارتا تھا ۔بندے کے دل میں رب کی محبت اور رب کی رضاکی چاہت کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے حسن بے مثال کو بنایا تھا۔ خود آپ کی مبارک ہتھیلیاں بھی نفاست و نزاکت کا وہ گلدستہ تھیں کہ ملائمت و نرمی کے ساتھ ساتھ خوشبو کی ڈلیاں تھیں جس میں مردانہ وجاہتِ شان اور نرمی نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ کشادگی اور فراخی بھی موجود تھی۔ اس امتیازی وصف نے آپ کی مبارک ہتھیلیوں کو دوسرے تمام اہل زمان سے یکسر مختلف کردیا تھا ۔آپ کے مبارک ہتھیلیوں کا لمس اتنا پُر اثر تھا کہ صحابہ کرام تو آپ سے شرفِ دست بوسی ہر صورت اور ہمہ وقت حاصل کرتے ہی کرتے۔ لیکن وہ جو آپ کو نہیں جانتے تھےوہ بھی آپ کے ہاتھ کی نزاکت سے بہرہ ور ہوتے اور اسی لیے آپ کی بارگاہ میں بچوں کو بھی لایا جاتا کہ آپ ان کے سروں پر اپنے دست شفقت پھیر کر اپنی ہتھیلیوں سے ان کے قلب تک میں اپنی نبوت کے بابرکت اثرات پہنچا دیں۔
آپ کی ہتھیلی مبارک کے بارے میں ذکر کرتے ہوئےحضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم الكفین.1
آپ کی ہتھیلیاں گداز تھیں۔2
اس حدیث مبارکہ کوابو یعلی نے 3 اورامام بخاری 4نے تھوڑے سے الفاظ کے اختلاف سے اپنی کتب میں بھی ذکرکیا ہے۔
حضرت انس رسول اکرم کی ہتھیلیوں کی ہئیت بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بسط الكفین.5
حضوراکرم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔6
اس حدیث مبارکہ کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔7
حضرت انس سے ایک اور روایت میں مروی ہے:
كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم شثن القدمين والكفین.8
نبی کے دونوں قدم اور دونوں ہتھیلیاں بھری بھری تھیں،گداز تھیں۔9
اسی روایت کو مسند ابو یعلی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے۔10 اس کے بارے میں متعدد روایات ہیں۔ذیل میں حضرت ہند بن ابی ہالہ کی روایت میں بھی آنحضرت کی ہتھیلیوں کی کشادگی اور پر ہونے کی کیفیت کو قدم مبارک کی کیفیت کے پُر ہونے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔یہاں عام احادیث کے برعکس آپ کی ہتھیلیوں کی وسعت و فرانی کے لیے رحب الراحۃ کے الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ روایت کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم…رحب الراحة… شثن الكفین والقدمین.11
حضور ۔۔۔کی ہتھیلیاں نرم و فراخ تھیں۔۔۔ہتھیلیاں اور قدم بھرے ہوئے تھے۔12
یعنی آپ کی ہتھیلی اورقدم مبارک گدازتھے۔۔۔علامہ مناوی رحب الراحۃ کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے ایک طرف ہتھیلی کی وسعت کی طرف اشارہ ہے تو دوسری طرف وسعتِ قوت کی طرف بھی اشارہ ہے۔13علامہ مناوی نے ’’رجب الراحۃ‘‘کی شرح میں بھی یہی لکھا ہےاور راجح معنی بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ اول معنی راحج ہےکیونکہ راوی آپ کے خلقی و جسمانی اوصاف کو ذکر کررہےہیں۔14
آپ کی ہتھیلیاں ریشم سے زیادہ نرم تھیں۔15آپ کی ہتھیلیاں ( مضبوط اور سخت ہونے کے باوجود)سب سے زیادہ ملائم تھیں ۔یعنی سرکار جب کسی سے کوئی چیز کو پکڑتے تو مضبوطی سے پکڑتےاور جب کوئی ہتھیار چلاتے تو خو ب شدت سے چلاتے۔16 آقائے دو جہاں کی مبارک ہتھیلیوں میں نرمی، خنکی اور ٹھنڈک کا احساس آپ کا ایک منفرد وصف تھا ۔17چنانچہ حضرت انس روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ما مسست حریرا ولا دیباجا قط ألین من كف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.18
میں نے کسی ریشم ودیباج(انتہائی نرم کپڑے کی قسم) کو نہیں چھواجو حضوراکرم کی مبارک ہتھیلیوں سے زیادہ نرم ہو۔19
مثنی بن صالح نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔
قال: صافحت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلم أر واللّٰه كفا ألین من كفه صلى اللّٰه علیه وسلم.20
انہوں نے کہا: میں نے حضور سے مصافحہ کیا،بخدا میں نے کوئی ہتھیلی آپ کی ہتھیلی سے نرم نہیں دیکھی۔ 21
اسی حوالہ سےامام حافظ سلیمان بن احمد طبرانی روایت کرتے ہیں:
عن المستورد بن شداد عن ابیه قال اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاخذت بیده فاذا ھى الین من الحریر وابرد من الثلج.22
حضرت مستورد بن شداد اپنے والد گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں: میں حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا پس میں نے حضور کا ہاتھ تھام لیا ۔حضور کے دست اقدس ریشم سے زیادہ نرم و گداز اور برف سے زیادہ ٹھنڈے تھے۔
حافظ ابن حجر نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔23
امام اعظم ابو حنیفہ کی مسند میں بھی اس پر باب باندھا گیا ہے جس میں یہ روایت ذکر کی گئی ہے:
عن انس بن مالك قال: ما مسست بیدى خزا ولا حریرا الین من كف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .24
حضرت انس سے روایت ہے کہ میں نے کسی نرم اون یا ریشم کو نہیں چھوا جو رسول اﷲ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو۔
امام بغوی کی نقل کردہ روایت میں ہے کہ رسول اللہ کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم نہ کوئی ریشمی کپڑا مَس کیا ،نہ خالص ریشم اور نہ کوئی دوسری چیز۔25یعنی ہر ہتھیلی جس کو حضرت انس نے آپ کے ماسواء چھوا یامصافحہ کیا تو آپ کی ہتھیلی کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں کی ہتھیلیاں قدرے سخت تھیں۔
صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ حضور کی مبارک ہتھیلیوں سے بڑھ کر کوئی شے نرم اور ملائم نہ تھی۔ رسول اکرم جب کسی سے مصافحہ فرماتے یا سر پر دستِ شفقت پھیرتے تو اس سے ٹھنڈک اور سکون کا یوں احساس ہوتا جیسے برف جسم کو مس کر رہی ہو۔
رسول اکرم کی ہتھیلیاں مبارک نرم وملائم اور گدا ز ہونے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی بھی تھیں۔چنانچہ حضرت ابو جحیفہ سےمروی ہے:
عن عون بن أبى جحیفة عن أبیه قال: خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إلى الأبطح فركز عنزة فصلّى إلیھا، وجعل أصحابه یأخذون یده فيیمِرُّونھا على وجوھھم، فجئت وأخذت یده فأمررتھا على وجھى، فإذا ھى أبرد من الثلج وأطیب ریحاً من المسك. 26
عون بن ابی جحیفہ اپنےوالدسےروایت کرتےہیں: حضور ابطح کی جانب روانہ ہوئے تو آپ نے ایک ڈنڈازمین میں گاڑا(سترہ کے طورپر)اوراس کی طرف نماز ادافرمائی۔ بعدازاں آپ کے صحابہ نے آپ کے ہاتھ مبارک کواپنے چہروں پرمس کرناشروع کردیا پس میں بھی آیا اورآپ کاہاتھ مبارک پکڑکراپنے چہرےپرپھیراتو وہ برف سےزیادہ ٹھنڈااورمشک سےزیادہ معطرتھا۔
رسول اکرم کی ہتھیلیاں مبارک کی صفات میں سے ایک صفت اس کا خوشبودار ہونا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت جابر کی اپنے والد سے مروی روایت میں منقول ہے:
قال:أتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو بمنى، فقلت له: یا رسول اللّٰه، ناولنى یدك، فناولنیھا، فإذا ھى أبرد من الثلج، وأطیب ریحا من المسك.27
حضرت جابر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نےعرض کیا، اے اللہ کے رسول اپنا دست مبارک بڑھایئے (کہ میں بوسہ لوں) چنانچہ آپ نے بڑھایا تو میں نے آپ کادست مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبو دار پایا ۔
اسی طرح حضرت جابر بن سمرۃ سے مروی ہے:
قال: فوجدت یده بردا أو ریحا كأنما أخرجھا من جؤنة عطار.28
حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ آپ کے دست مبارک کو نہایت خوشبودار اور ٹھنڈا پایا۔ ایسا جیسا عطر فروش کے عطر دان سے ابھی نکلا ہوا۔
امام بخاری اس حوالہ سے روایت کرتے ہیں:
عن أبیه أبى جحیفة، قال فأخذت بیده فوضعتھا على وجھى فإذا ھى أبرد من الثلج وأطیب رائحة من المسك.29
حضرت حجیفہ کے والدسے روایت ہے کہ میں نے آپ کا ہاتھ مبارک پکڑاتو آپ کاہاتھ مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار پایا ۔
قاضی عیاض 30اور صاحب سبل الہدی 31نےبھی یہ نقل کیا ہے۔
مذکورہ روایات سے واضح ہوا کہ آپکی ہتھیلی خوشبو کے اعتبار سے ایسی تھی جیسے عطار کی ہتھیلی، خواہ اس کو خوشبو لگاتے یا نہ لگاتے خوشبودار ہوتی تھیں۔32 خیال رہے کہ ہتھیلی کا ٹھنڈاہوناصحت اورقوت جگر ومعدہ کی پہچان ہے اور کچھ گرم ہونا حدت وحرارتِ جگرومعدہ کی علامت ہے جو مرض ہے اورخدائے پاک نے آپ کو تمام جسمانی امراض سے محفوظ رکھاتھا جس طرح تمام امراض روحانی سے پاک ومنزہ بنایاتھا۔33
یعنی آپبحکم خداوندی زندگی بھر میں مسلسل کسی بھی بڑی بیماری تو کجا، معدہ کی حرارت و گرمی جیسے چھوٹے مرض میں بھی مبتلا نہیں ہوئے ۔بلکہ صحت و عافیت اور سلامتی کے ساتھ رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی گزاری۔ خود بھی صحت مند رہے اور جس جس پر آپ کی دست شفقت کا سایہ پڑا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بھی صحت و سلامتی مقرر فرما دی ۔
حضور گفتگو اور خطاب کے دوران عموماً اپنی ہتھیلیوں سے اشارہ فرمایا کرتے اور اسی طرح جب کسی معاملہ میں حیرت کا اظہار فرماتے تو اپنی مبارک ہتھیلیوں کو پلٹ دیا کرتے تھے۔چنانچہ ابو بكر احمد بن الحسين البيہقی آپ کے انداز اشارات ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إذا أشار أشار بكفه كلھا، وإذا تعجب قلبھا، وإذا تحدث اتصل بھا، یضرب براحته الیمنى بطن إبھامه الیسرى وفى روایة العلوى ”فیضرب“ بإبھامه الیمنى باطن راحته الیسرى.34
جب آپ اشارہ کرتے تواپنی پوری ہتھیلی کے ساتھ اور تعجب اور حیرانی کا اظہار کرتے تو ہتھیلی پلٹتے۔جب باتیں کرتے تو ہتھیلی کوشامل کرتے ۔دائیں ہتھیلی کا اندروالا حصہ اُلٹے ہاتھ کے انگوٹھے پرمارتے۔اور علوی کی ایک روایت میں ہے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے تھے۔35
آپ کی ہتھیلیاں مبارک وہ شاہکار تھیں کہ جس میں حسن کے مختلف کمال نظرآتے تھے۔جس کو اللہ نے توفیق دی اُن لوگوں نے حضور سے بے شمار فیض حاصل کیا۔اورآخرت میں جنت تو کیا رب کے دیدار کے بھی حقدار ٹھہرے۔
اس پوری تفصیل کا لب لباب یہ ہے کہ رسول اکرم قدرت کی تخلیق کا شاہکار تھے۔ جس طرح آپ کی نبوت کمال نبوت ہے، اسی طرح آپ کا سراپا اقدس حسن و جمال کی جملہ رعنائیوں کا عطور المجموعہ ہے، آپ کے جسم مبارک کے رنگ رنگ سے نکلنے والے جمال الٰہی کے انوار و تجلیات نے آپ کی ظاہری حیات مبارک میں بھی لاکھوں افراد کو آپ کا گرویدہ بنایا اور آپ کے پردہ فرمانے کے بعد بھی کروڑوں انسان آپ کے جمال و کمال پر اس طور پر فریفتہ ہیں کہ ان کی اول و آخر تمنا یہی ہے کہ کسی طرح حضور کا دیدار نصیب ہوجائے اگرچہ کہ خواب میں ہی ایک جھلک نگاہئیں آپ کے جسم کا بوسہ اور لب آپ کے دست و ہتھیلیوں کو چومنے کی سعادت حاصل کرسکیں۔