اللہ تبارک وتعالی عدل کا حکم دیتا ہے1 اور عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔2 عادل کی صفت یہی ہوتی ہے کہ وہ ہر ہر شئی کو اس کی مناسب مقام اور حالت میں رکھتا ہے۔یہ نظام ِ کائنات گواہ ہے کہ اس کا بنانے والا عادل ہے۔اسی عادل ذات عالیہ نے اپنے وجود کی خبر دینے کے لیے جس ہستی مقدس کی تخلیق فرمائی وہ ہستی مقد س فی الحقیقت اسی صفتِ عدل کا مظہر کامل ہے۔حضور نبی اکرم ہی وہ شاہکار ربوبیت ہیں کہ جن کو دیکھنے والاپکار اٹھتا کہ میں نے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ آپ کے بعد دیکھا۔3حضور اکرم بے پناہ حسن وکمال رکھتے تھے اور آپ کا جسم اقدس بھی اسی طرح مھبط ِ انوار تھا۔اسی جسم اقدس کا ایک حصہ آپ کی کلائیاں مبارک بھی ہے جو انتہائی خوبصورت تھیں۔آپ کی کلائیاں لمبی اور بڑی بڑی تھیں جو طاقت و قوت اورمضبوطی کی علامت ہیں ۔ حضور اکرم کی کلائیاں مبارک بڑی عظمت والی تھیں اور طویل بھی۔
اسی حوالہ سے حضرت ہند بن ابی ہالہ سے روایت ہے:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم طویل الزندین.4
"حضور کی کلائیاں لمبی تھیں۔"
اس حدیث کوامام ابن جوزی نے بھی روایت کیا ہے ۔5
اسی طرح حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شبیح الذراعین اى طویلھما.6
رسول اللہ کی کلائیاں شبیح یعنی لمبی تھیں۔
ابن سعد نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے۔7
حافظ ابو بکر بن ابی خیثمہ نے لکھا ہے:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عبل العضدین والذراعین طویل الزندین.8
رسول اللہ کے بازو اور کلائیاں پُر از گوشت تھیں اور لمبی بھی تھیں۔
امام بیہقی نےبھی اس روایت کو ذکرفرمایا ہے ۔9 امام یوسف الصالحی الشامی نقل کرتے ہیں:
طویل الزندین رحب الراحة.10
حضور کے بازو اور کلائیاں لمبی تھیں اور گدازتھیں۔11
محمد بن عیسی الترمذی اس حوالہ سے روایت کرتے ہیں:
رحب الراحة شثن الكفین.12
(آپ ) کثیر العطاء تھےاورآپ کی ہتھیلیاں فراخ اورکشادہ تھیں۔
نشوان بن سعید رسول اکرم کی اسی صفت کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وفى صفة النبى علیه السلام: كان طویل الزندین.13
نبی علیہ صلٰوۃ والسلام کے حلیہ کی صفات میں سے ہےکہ آپ کی کلائیاں دراز تھیں۔"
ان روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم کی کلائیاں مبارک لمبی و کشادہ تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ نرم و گداز بھی تھیں۔
رسول اکرم کی کلائی مبارک پر بال بھی تھے جو حسن کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔چنانچہ امام محمد بن یوسف الصالحی شامی اس حوالہ سے ذکر کرتے ہیں :
وقال ھند بن أبى ھالة: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أشعر الذراعین.14
ہند بن ابی ہالہ نے بیان کیا:آپ کی کلائیوں پر بال تھے۔
یعنی رسول مکرم کے جسم اطہر کے جن حصوں پربال مبارک تھے ان میں سے آپ کی کلائیاں بھی ہیں ۔
مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی کلائیاں سفید رنگ کی تھیں جس سے نو رکی کرنیں ظاہر ہوتی تھیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی کلائیاں لمبی تھیں جو آپ کےحسن وجمال میں اضافہ کرتی تھیں ۔مردانہ ہاتھ،بازواورکلائیاں اگر مردانہ وجاہت کا اظہار کرتی ہوں توشخصیت کے باوقار،مضبوط ،بہادر اور قوی ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔جس طرح پتلی اور کمزور کلائیاں نسوانی حسن کا خاصہ سجھی جاتی ہیں ویسے ہی مضبوط اور بڑی کلائیاں مردانہ حسن کا وصف ہواکرتی ہیں ۔ اگر یہی کلائیاں بڑی اور مضبوط ہونے کے ساتھ سفید وچمکدار ہوں تو اس کی جمال و رعنائی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔اللہ تبارک وتعالی نے رسول مکرم کے جسم مبارک کے حسن وجمال کی طرح آپ کی کلائیاں بھی بڑی حسین بنائی تھیں جو شجاعت ومردانگی کی علامت تھیں ۔ اسی لیے اللہ کے رسول نے اپنی کلائیوں کی مضبوطی،قوت اور کمال تحرک کی بدولت میدان جنگ میں تلوار ،نیزے،بھالے،تیر اور کمان کا استعمال فرمایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ گھوڑاسواری ،لڑائی ،دشمنوں کے وار کو روکا بھی ہے۔
آج اگر کوئی شخص ایک ہاتھ میں اس دور کی وزنی تلوار اور دوسرے ہاتھ میں اس وزنی ڈھال کو تھام کر میدان جنگ میں دشمنوں کے سامنے آنے کی کوشش کرے تو جنگ وقتال اور حملہ ودفاع کرنا توبعد کی بات ہے صرف اس تلوار اور ڈھال کو حرکت دینے سے ہی اس کی کلائیاں جواب دے جائیں گی۔یہ صرف اللہ کاہی کمال تھا کہ اس قدفر نازک اندازہونے کے باوجود مردانگی اور شجاعت کی جملہ صفات آپ کے جسم کے ہر عضوسے عیاں تھیں ۔باالخصوص آپ کی کلائیوں کی ملائمت اور نفاست نے قوت اور مضبوطی کے ساتھ ملکر آپ کے پیکرِرعناکو حسن وشجاعت کا پیکر رعنابنادیاتھا۔