Encyclopedia of Muhammad

آپ کی گردن مبارک

رسول اﷲ اس کائنات کی وہ عظیم ترین ذات عالیہ ہیں جن کی فضیلت کی بے شمار جہتیں ہیں۔انہی جہتوں میں سے ایک جہت یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے رسول اکرم کے جسمانی اعضاء مبارکہ کاذکر قرآن مجید فرقان حمید میں کئی مقامات پر کیا ہے۔1 اس لیے کہ آپ کا جسم اطہر وہ ممتاز ومشرف جسد ہے کہ جو خالق کائنات کاعظیم شاہکار ہے۔آپ کے جسم اطہر ہی کا ایک حصہ آپ کی گردن مبارک بھی ہے جوبندگانِ خدا میں سب سے زیادہ حسین ترین گردن تھی جس کو نہ تو طویل اور لمبا ہونے کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے اورنہ (قصر )یعنی چھوٹا ہونے کی طرف بلکہ متوازی لمبی اور حسین گردن تھی ۔گردن کا وہ حصہ جو کھلا ہوا تھا جس پر سورج کی روشنی پڑتی اور جس کو ہوا لگتی رہتی وہ حصہ اس طرح تھا جیسے کہ چاندی کے کوزے کی کرن جس پر سونے کے ہونے کا دھوکہ لگے جس سے چاندی کی سفیدی اور سونے کی سرخی وزردی چمکتی تھی اور گردن کا بالائی حصہ جسے کپڑوں نے چھپایا ہوا تھا ایسے تھا جیسے کہ چودھویں رات کا چاند ہو۔

گردن مبارک چاندی کی طرح چمک دار تھی

رسول اکرم کی گردن مبارک کی صفت کو بیا ن کرتے ہوئے حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:

  كان عنقه جید دمیة فى صفاء الفضة.2
  حضور کی گردن مبارک مورتی کی طرح تراشی ہوئی اور چاندی کی طرح صاف تھی۔

امام عبدالرحمن ابن جوزی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس میں موجود لفظ دمیۃ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  الدمیة الصورة المصورة.3
  دمیۃ کا مطلب تراشی ہوئی صورت ہے۔

الشیخ احمد عبدالجواد الدومی اس روایت کے تحت اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

  ھذا یدل على تلألؤعنقه صلى اللّٰه علیه وسلم ولمعانه وجماله.4
  یہ آپ کی گردن کے جمال اور اس کی چمک دمک پر دلالت کرتا ہے۔

اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے الشیخ عبداﷲ سراج الدین شامی فرماتے ہیں:

  كان عنقه صلى اللّٰه علیه وسلم فى استواه ٔواعتداله وحسن ھیئة وجماله كانه عنق صورة ولكن من حیث اللون ھو فى صفاء الفضة وبیاضھا البھیج اللامع.5
  آپ کی مبارک گردن، استواء، اعتدال اور حسن و جمال میں ایسی تھی جیسے کوئی مورتی تراشی گئی ہو رنگ میں چاندی کی طرح صاف وشفاف اور سفیدی میں خوب روشن تھی۔

رسول اکرم کی گردن مبارک لوگوں میں سے سب سے زیادہ حسین اور شفاف چاندی کی طرح واضح محسوس ہوتی تھی۔چنانچہ حضرت حافظ ابوبکر ابن ابی خیثمہ اسی پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم احسن الناس عنقا ما ظھر عن عنقه للشمس والریاح فكانه بریق فضة مشرب ذھبا یتلأ لأ فى بیاض الفضة وحمرة الذھب وما غیبت الثیاب من عنقه فما تحتھا فكانه القمر لیلة البدر.6
  حضور کی گردن مبارک تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت تھی۔ دھوپ یا ہوا میں گردن کا نظر آنے والا حصہ چاندی کی صراحی کے مانند تھا جس میں سونے کا رنگ اس طرح بھرا گیا ہوکہ چاندی کی سفیدی اور سونے کی سرخی کی جھلک نظر آتی ہو اور گردن کا جو حصہ کپڑوں میں چھپ جاتا وہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور منور ہوتا۔

ایک اور جگہ حضرت اُم معبد یبان فرماتی ہیں:

  وفى عنقه سطع.7
  رسول اﷲ کی گردن مبارک قدرے لمبی تھی۔

اس روایت میں موجود لفظ سطع کی معنی بیان کرتے ہوئے ابن جوزی نے لکھا ہے۔

  السطع: الطول.8
  سطع کامعنی لمبائی ہے۔

ا ُم المؤمنین عائشہ صدیقہ نبی اکرم کی گردن مبارک کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

  كان واحسن عباداللّٰه عنقا لا ینسب الى الطول ولا الى القصر.9
  اور اﷲ کے بندوں میں سے آپ کی گردن سب سے بڑھ کر حسین و جمیل تھی، نہ زیادہ طویل اور نہ زیادہ چھوٹی۔

رسول اﷲ کی گردن مبارک سونے اور چاندی کے رنگوں کا حسین امتزاج معلوم ہوتی تھی۔ گردن اقدس کو چاندی کی صراحی سے بھی تشبیہ دی گئی۔

گردن مبارك چاند ی کے کوزہ کی طرح

حضرت علی سے روایت ہے:

  كان عنقه ابریق فضة.10
  حضور کی مبارک گردن چاندی کی صراحی کی مانند تھی۔

ابن جوزی نے بھی اس حدیث مبارکہ کو عثمان بن عبدالملک سے روایت کیا ہے جس کے الفاظ یوں نقل کیے ہیں:

  حدثنى خالى وكان من أصحاب على یوم صفّین عن على قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كأن عنقه إبریق فضة.11
  مجھے میرے ماموں جو جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ تھےانہوں نے حضرت علی سے یہ روایت بیان کی کہ سرور عالم کی گردن مبارک صفائی اور سفیدی کے لحاظ سے چاندی کے کوزہ کی مانند تھی۔ 12

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کی گردن مبارک ہر قسم کے عیب سے مبّرا اور انسان کے جسمانی نقائص و معائب سے پاک تھی۔ یعنی نہ حد اعتدال سے زیادہ فربہ تھی اور نہ ہی بالکل پتلی بلکہ معتدل تھی ۔گردن کی خوبصورتی کے حوالہ سے عموماً مردوں کے بجائے عورتوں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور وہاں بھی کسی خاتون کے حسن کے اس پہلو کو بھی خوبصورت صراحی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔اسی طرح عموماً گردن مسلسل دھوپ میں رہنے کی وجہ سے سیاہ پڑھ جاتی ہے یا اس کی رنگت جل جایا کرتی ہے لیکن حضور اس عیب سے بھی بالکل پاک و صاف تھے۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ عموماً جلد لٹکنا یا ڈھیلی پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔جس کے ذریعہ جھریاں (wrinkles) پڑنا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ آج اگرچہ کہ غیر فطری طریقہ علاج کے ذریعہ اس طرح کی جھریوں کو ختم کردیا جاتا ہے لیکن اگر ایک مخصوص مدت کے بعد دوبارہ Botox کا ٹیک نہ لگایا جائے تو دوبارہ جھریاں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ آقائے کریم کو رب تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے شاہکار حسن و جمال بناکر خود آپ کی آرائش و زیبائش کا انتظام کر رکھا تھا۔ وہ ذات جو ہر عیب سے خود مبرا ہے اپنے حبیب کریم میں کس طرح کوئی ادنی ٰسابھی عیب گوارا کرسکتی ہے۔ گردن مبارک بھی آپ کے جمال خلقی کا شاہکار تھی، اسے بھی رب تعالیٰ نے حسن و جمال کا آئینہ اور ہر عیب سے مبرا بنا کر آپ کے وجود مسعود کی ظاہری خوبصورتی کا حصہ بنا رکھا تھا جس کے ذریعہ آپ کا حسن دوبالا اور خوبصورتی بے مثال ہوجایا کرتی تھی۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ الانشراح94 : 03-01
  • 2 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:11-13
  • 3 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً)، ص:50
  • 4 شیخ احمد عبدالجواد الدومی،اتحافات ربانیة بشرح شمائل المحمدیة، مطبوعۃ: التجاریة الکبریٰ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:41
  • 5 الشیخ عبداﷲ سراج الدین شامی، محمد رسول اﷲ ﷺ ، مطبوعۃ: حلب، شام، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:218
  • 6 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ،ص:43
  • 7 ابو عبد اللہ محمد بن عبداﷲ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4274، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:10
  • 8 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجود)، ص:50
  • 9 علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، ج -1، مطبوعۃ: دار المیسرۃ، بیروت، لبنان، 1979ء، ص:33
  • 10 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج -1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :314
  • 11 ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:50
  • 12 )امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰےﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ: حامد اینڈ کمپنی،لاہور، باکستان، 2002ء،ص:450