Encyclopedia of Muhammad

آپ کے دندان مبارک

اللہ ربّ العزت کی تمام مخلوقات حسن و خوبصورتی کا مظہر ہیں جس سے اس کی اخلّاقیت کی عظمت و رفعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جابجا کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق میں غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ 1 اللہ ربّ العزت کی تمام تر مخلوقات میں سب سے بڑھ کر حسین و جمیل تخلیق حضور سیدنا محمد کی ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے آپ کی قسم اٹھا کر2 اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آپ ہر لحاظ سے خصوصا جسمانی لحاظ سے سب سے بڑھ کر حسین و جمیل تھے۔ اسی طرح آپ کے حسین و جمیل بدن اقدس میں سے ایک حصّہ آپ کے دندان مبارک بھی تھے۔

حضور کے دہن مبارک میں دندانِ مقدس موتیوں کی لڑیوں کی طرح پروئے ہوئے تھے۔ دانت مبارک، باریک، آب دار اور ایک دوسرے سے جداجدا تھے۔ مبارک دانتوں کے درمیان باریک ریخیں تھیں۔ دورانِ گفتگو اور تبسم کے موقع پر ان ریخوں سے نور کی شعاعیں پھوٹتی دکھائی دیتیں۔3

آپ کے دندان مبارک کا حسن و جمال

انسانی چہرے کے بعد اس کی شخصیت کے حسن و جمال کا ایک اہم مظہر اس کے دانت ہوا کرتے ہیں کہ انسان کے عزّت اور وقار کا اندازہ اس کی گفتار کے ذریعے لگایا جاتا ہے اور گفتگو کے دوران سب سے زیادہ نظر انے والا حصّہ اس کے دہن میں دانتوں کی نفاست، نظافت، ترتیب و خوبصورتی ہوا کرتا ہے۔ اس میں آپ یکتائے زمانہ تھے۔

آپ کے دندان مبارک ہموار، باریک اور آبدار تھے اور ایک دوسرے سے جدا جدا تھے جیسا کہ روایت میں"افلج الثنیتین"آتا ہے۔"فلج"سامنے کے دو اوپر نیچے والے دانتوں یا چاروں دانتوں کے درمیانی فاصلہ کو کہا جاتا ہے۔ ایک روایت میں"براق الثنایا"کے الفاظ ہیں جس کے معنی سامنے کے دانتوں کی آبداری و ہمواری کے ہے۔ جب آپ بات کرتے تو آبدار دانتوں کی بجلیاں سی مچلتیں، جو آپ کے سامنے کے دانتوں کے درمیان سے پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں اور وہ ایسے لگتے جیسے بادلوں سے گرنے والے اولے ہوتے ہیں۔ جب نبی کریم ہنستے تو آپ کے سفید اور چمکدار دانت اولوں کی سی جھلک پیش کرتے تھے۔ جیسے کہ امام بیہقیفرماتے ہیں:

  كان افلج الاسنان اشنبھا قال: والشنب ان تكون الاسنان متفرقة فیھا طرائق مثل تعرض المشط الا انھا حدیدة الاطراف وھو الاشر الذى یكون اسفل الاسنان كانه ماء یقطر فى تفتحه ذلك وطرائقه وكان یتبسم عن مثل البرد المنحدر من متون الغمام فاذا افتر ضاحكا افتر عن مثل سناء البرق اذا تلالا وكان احسن عباداللّٰه شفتین.4
  آپ کے دانت افلج تھے اور اشنب تھے۔ شنب: یہ ہوتا ہے کہ دانت متفرق ہوں اس میں حسین فاصلے ہوں جیسے کنگھی کے داندن میں ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کنارے قدرے تیز تھے اس کے ساتھ ساتھ ایسے تھے جیسے آبدار موتی۔ کھلنے سے ایسے محسوس ہوتا جیسے ابھی ان سے پانی ٹپکے گا ۔ آپ جب ہنستے تھے تو ایسے محسوس ہوتا جیسے برف کے اولے ہیں جو بادلوں کی سطح سے پھسلے ہیں جب مسکراکر ہنس دیتے تو لگتا بجلی آہستہ سے ایک دم تیز چمکتی ہے اور ہونٹ تو بندگانِ خدا میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔

حسن اعتدال

حضور ﷺکے دندان مبارک میں نفیس انداز میں توازن تھا۔ اس خوبصورت توازن کو بیان کرتے ہوئے حضور کے صحابی حضرت جمیع فرماتے ہیں:

  عن جُمیع قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضلیع الفم مفلّج الأسنان.
  رسول اللہ کا منہ مبارک بڑااوردانت متفرق(الگ الگ)تھے۔
  عن ابن عباس قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أفلج الثنیتین.
  حضرت ابن عباس نےفرمایا: رسول اللہ کےسامنے کےدندان مبارک کشادہ تھے۔

برف کے موتی

حضور کے دانت مبارک انتہائی سفید اور صاف ستھرے تھے۔ حضرت ھند بیان کرتے ہیں :

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یفترّ عن مثل حبّ الغمام.5
  رسول اللہ جب ہنستےتو آپ کے دانت مبارک برف کے اولوں کی مانند دکھائی دیتے۔

حضرت ہند ابن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضلیع الفم اشنب مفلج الاسنان یفترعن مثل حب الغمام.6
  آپ کا منہ مبارک بڑا تھا دانت نہایت سفید چمک دار اور کشادہ تھے تبسم کے وقت اولوں کی طرح دکھائی دیتے۔

الشیخ مصطفی عبد الواحد مصری "حب الغمام" کا معنی اور وجہ تشبیہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

حب الغماممنجمد اولوں کے دانوں کو کہا جاتا ہے آپ کے مبارک دانتوں کی صفائی، سفیدی، چمک دمک اور رطوبت اولوں کی طرح محسوس ہوتی تھی اس لیے صحابی نے ان کے ساتھ تشبیہ دی۔7

امام بوصیریحضور کے دندان مبارک کو دُرّد رخشاں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

  كأنّما  الّلؤلؤ  المكنون  فى  صدف      من  معدنى  منطق  منه  ومبتسم.8
  حضور کے دانت مبارک اس خوبصورت چمکدار موتی کی طرح ہیں جو ابھی سیپ سے باہر نہیں نکلا، جوکلام اورمسکرانےکےدوران ظاہرہوتاہے۔

حضرت ملا علی قاریمذکورہ شعر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  رانى فى المنام ان الصدیق یرثى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم بھذا البیت والیت الذى قبله باحسن الانعام.9
  انہوں نے سیدنا صدیق اکبر کو خواب میں اس شعر اور اس سے پہلے شعر کے ساتھ حضور کی تعریف کرتے ہوئے دیکھا۔

آپ کے دانتوں کی چمک

حضور کے دندان مبارک نہایت حسین اور چمکدار تھے ۔ حضرت علی فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم براق الثنایا.10
  حضور کے سامنے والےدو دانت مبارک بہت چمکدار تھے۔

مسکراتے تو جیسے موتیوں کی لڑیاں فضا میں بکھر جاتیں، چہرہ انور گلاب کے پھول کی طرح کھل اُٹھتا۔ جیسے کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں:

  اذا افتر ضاحكا افتر عن مثل سناء البرق و عن مثل حب الغمام اذا تكلم رئى كالنور یخرج من ثنایاه.11
  جب حضور تبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی اور بارش کے اولوں کی طرح چمکتے جب گفتگو فرماتے تو ایسے دکھائی دیتا جیسے دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عباس سامنے کے دانتوں کی کشادگی اور حسن بیان کرتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم افلج الثنیتین.12
  حضور کے سامنے کے دانت باہم ملے ہوئے نہیں تھے بلکہ ان میں مناسب فاصلہ اور کشادگی تھی۔

امام جوزی نے بھی اس روایت کو ذکر کیاہے:

  عن ابن عباس قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أفلج الثنیتین. 13
  حضرت عبدللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حبیب مکرم رسول معظم کے سامنے والے دانت مبارک باہم ملے ہوئے نہیں تھے بلکہ ان میں مناسب کشادگی اور فاصلہ تھا ۔14

دانتوں سے نور کی شعائیں

حضور جب گفتگو فرماتے تو دہن مبارک سے دندان مبارک نظر آتے جن سے نور کا ظہور ہوتا۔ حضور کی اس کیفیت کو حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم افلج الثنیتین اذا تكلم روى كالنور یخرج من بین ثنایاه.15
  حضور نبی کریم کے سامنے کےدو دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا، جب گفتگو فرماتے تو ان ریخوں سے نور کی شعاعین پھوٹتی دکھائی دیتیں۔

یعنی کہ سامنے کے دونوں دانتوں میں ذراسافاصلہ تھا،بقیہ دانت بھی الگ الگ تھے ،دانتوں میں چمک تھی۔جب آپ گفتگو فرماتے تو دانتوں کے درمیان سے نور نکلتا دکھائی دیتا۔غرض آپ کے دانت سب سےخوبصورت تھے۔16

حضور کے دندان مبارک مثل جواھرات

حضور کے دندان مبارک کا مسوڑھوں میں جڑاؤ اور جماؤ نہایت حسین تھا جیسے انگوٹھی میں کوئی ہیرا ایک خاص تناسب کے ساتھ جڑدیا گیا ہو حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حسن الثغر.17
  نبی اکرم کا منہ مبارک نہایت حسین تھا۔

حضور سراپائےحسن تھے۔ایک بارجونگاہ انہیں دیکھ لیتی بارباران کے حسن رعنا کی زیبائیوں کی زیارت کرنے کو بےتاب ہوتی۔دندان مبارک کی نفاست ،جڑاؤ، ترتیب، سفیدی، چمک،دمک،توازن ایسا تھاکہ توصیف وثنا کوالفاظ نہیں ملتے۔کسی نے بجلی کی چمک سےتشبیہ دی تو کسی نے برف کےاولوں سے،کوئی نورسمجھااورکوئی درِّ صدف۔اللہ رب العزت نے آپ کو بےمثال وبےنظیرحسین شاہکار بناکردنیامیں بھیجا۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ الغاشیۃ 88: 17-20
  • 2 القرآن، سورۃ النساء 4: 65
  • 3 مفتی محمد خان قادری، شاہکار ربوبیت،مطبوعہ: کاروانِ اسلام پبلیکیشنز ، جامعہ اسلامیہ، لاہور، پاکستان، 2005 ء، ص:246
  • 4 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:303
  • 5 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:45
  • 6 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993 ء ، ص:30
  • 7 مصطفی عبد الواحد مصری، حاشیۃ الوفاء، مطبوعۃ: دار ابن رجب، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :391
  • 8 إمام شرف الدين البوصيرى، البردة للاعراب، مطبوعة: دار البيروتى، دمشق، السورية، 1426هـ، ص:228
  • 9 نورالدین علی بن سلطان القاری ، الزبدۃ شرح البردہ ، مطبوعہ:جمعیت علماء سکندریہ ، سندھ،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:67
  • 10 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص :30
  • 11 عیاض بن موسیٰ المالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ،ج -1، مطبوعہ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 1433ﻫ ، ص :146
  • 12 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:32
  • 13 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:45
  • 14 امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ، مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی ،لاہور ، پاکستان،2002ء،ص:445-446
  • 15 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 14، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988، ص:16
  • 16 مولانا صفی الرحمن مبارکپوری،تجلیاتِ نبوت، مطبوعہ:دارالسلام، لاہور، پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:396
  • 17 محمد بن اسماعیل بخاری، الادب المفرد، حدیث: 1155، ج-1، مطبوعۃ: دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت، لبنان، 1989ء، ص :395