حضور کے مبارک لب نہایت ہی خوبصورت اور سرخی مائل تھے نزاکت ولطافت میں اپنی مثال آپ تھے۔خالقِ کائنات نے آپ کو کمال کاحسن دیا تھاکہ جو بھی آپ کو دیکھتااپنادل آپ کو دے بیٹھتاتھا۔ایسالگتا تھا کہ ہر حسن کے کمال کو آپکی ذات میں جمع کردیا گیا تھا،آپ کے مقدس لبوں میں لطافت وشگفتگی سے بھر پور تھی۔
احمد بن محمد قسطلانی فرماتے ہیں:
كان صلى اللّٰه علیه وسلم احسن عباداللّٰه شفتین والطفھم ختم فم.1
آپ کے مقد س لب اﷲ کے تمام بندوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے اور بوقتِ سکوت نہایت ہی شگفتہ ولطیف محسوس ہوتے۔
آپ کے مقدس منہ کے بارے میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ "ضلیع الفم"ہے اس کا معنی اکثر علماء نے منہ کا فراخ ہونا بیان کیا ہے 2مگر بعض علماء نے اس کا معنی یہ بیان کیا :
ذبول شفتیه ورقتھما وحسنھما.3
کہ اس سے آپ کے مبارک ہونٹوں کا نرم ونازک، پتلا اور حسین ہونا مراد ہے۔
امام طبرانی روایت کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الطف عباد اللّٰه شفتین.4
آپ کے مبارک ہونٹ تمام اﷲ کے بندوں سے نرم ونازک تھے۔
سکوت کی صورت میں مبارک ہونٹوں پر جو حسن کی فراوانی ہوتی اسے صحابہ کرام نے یوں بیان کیاہے:
كان الطفھم ضم فم.5
سکوت کے وقت آپ کے ہونٹ نہایت ہی لطیف وشگفتہ محسوس ہوتے۔
وہ حضرت عبداﷲ بن عمر سے روایت کرتے ہیں
قال ما تركت استلام الحجر منذ رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یستلمه.6
کہ حضرت عبداﷲ بن عمر نے فرمایا میں نے جب سے نبی کریم کو حجر اسود کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت سے استلام کو کبھی ترک نہیں کیا۔
اس حدیث کو امام بخاری 7 اور مسلم 8 نے بھی روایت کیا ہے۔
ابو حنیفة عن حماد عن ابراھیم عن علقمة عن ابن مسعود ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال ما انتھیت الى الركن الیمانی الا لقیت عنده جبرئیل
و عن عطاء بن ابى رباح قال قیل یا رسول اللّٰه تكثر من استلام الركن الیمانی قال ما اتیت علیه قط الا وجبرئیل قائم عنده یستغفر لمن یستلمه . 9
حضرت امام ابو حنیفہ حماد سے وہ ابراہیم سے وہ علقمہ سے وہ حضرت عبداﷲ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا کہ میں جب بھی رکن یمانی کے قریب گیا میں نے اس کے پاس حضرت جبریل کو پایا۔
حضرت عطاء بن ابی رباح سے (مرسل) مروی ہے: کہ عرض کیا گیا یا رسول اﷲ! آپ اکثر رکن یمانی کو چھوتے ہیں (بوسہ دیتے ہیں) آپ نے فرمایا کہ میں کبھی بھی اس کے پاس نہیں آیا مگر یہ کہ میں نے حضرت جبریل کو اس کے پاس کھڑے ہوئے اور بوسہ دینے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہوئے پایا۔
حضرت زبیر بن عربی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبداﷲ بن عمر سے حجر اسود کی تعظیم کے متعلق سوال کیا انہوں نے کہا :
رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یستلمه ویقبله، قال: قلت: ارایت ان زحمت، ارایت ان غلبت، قال: اجعل ارایت بلیمن ! رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یستلمه و یقبله.10
میں نے رسول اللہ کو اس کو کو بوسہ دیتے دیکھا ہے، اس پر اس شخص نے کہا اگر ہجوم ہوجائے اور میں عاجز ہوجاؤں تو کیا کروں؟ ابن عمر نے فرمایا: اس اگرو گر کو یمن میں جاکر رکھو! میں نے تو رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ اس کو بوسہ دیتے تھے۔
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ:
لما قدم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم مكة دخل المسجد فاستلم الحجر ثم مضى على یمینه فرمل ثلاثا ومشى اربعا ثم اتى المقام فقال (واتخذوا من مقام ابراھیم صلى) فصلى ركعتین والمقام بینه وبین البیت ثم اتى الحجر بعد الركعتین فاستلمه ثم خرج الى الصفا اظنه قال (ان الصفا والمروة من شعائراللّٰه) .11
نبی کریم مکہ تشریف لائے تو مسجد حرام میں داخل ہوئے اور حجر اسود کو بوسہ دیا پھر اپنی دائیں جانب سے چلے اور تین چکروں میں ہلکی ہلکی دوڑ لگائی اور چار چکروں میں عام رفتار سے چلے پھر مقام ابراہیم پر آئے اور یہ آیت تلاوت کی "مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ" پھر دو رکعتیں ادا کیں اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اﷲ کے درمیان رکھاپھر دو رکعتوں کی ادائیگی کے بعد حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا پھر صفا کی طرف نکل گئے میرا گمان ہے کہ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (ان الصفا والمروۃ من شعائراﷲ)بلاشبہ صفا ومروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں۔
امام ابو حفص عمر بن محمد نسفی لکھتے ہیں:
واستلام الحجر الاسود لمسه بفم او ید.12
حجر اسود کا استلام کرنا یعنی اسے منہ یا ہاتھ سے چھونا ہے۔
ملاعلی قاری لکھتے ہیں:
ثم یستلم الحجر اى یلمسه اما بالقلبة او بالید على ما فى القاموس.13
استلام الحجر یعنی اسے چھوئے بوسے کے ساتھ یا ہاتھ کے ساتھ اس بنا پر جو قاموس میں ہے۔
ہونٹوں کا نرم ونازک، پتلاہونا دنیا میں خوبصورتی کی نشانی ہےاور حضور اکرم کے لب مبارک بھی خوبصورت ترین تھے اس بات کی گواہی صحابہ کرام نے بڑے واضح الفاظ سے دی ہے۔آپ لطافت وشگفتگی کے اعلیٰ شاہکار تھے۔