انسانی شخصیت کے حسن وجمال کا دارومداراس کے رخساروں کی خوبصورتی پر موقوف ہوتاہے۔اگر رخسارحسن کا پرتوہیں تو شخصیت میں خود بخود دلکشی ورعنائی پیدا ہوجاتی ہے۔اور اگر رخسار اس کے برعکس ہوں توپھر سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن خوبصورتی ودلکشی کا ہوناتقریباً ناممکنات میں سے ہوجاتا ہے۔رب تعالیٰ نےسرورکائنات فخرموجودات کے رخسار مبارک کو بہت ہی خوبصورت بنایاتھاکہ یہ آپ کی ذات و الاصفات کاسرنامہ تعارف ہی رخسارمبارک کے ذریعہ آپ کا چہرہ مبارک تھا آپ کے رخسار مبارک ہموار تھےان میں اُونچ نیچ نہیں تھی ،اعتدال و توازن کا دلکش نمونہ تھے۔سرخی مائل کہ سفید گلاب کے پھولوں کو بھی دیکھ کر پسینہ آجائے،چمک ایسی کہ چاند بھی شر ماجائے ،نرماہٹ ایسی کہ کلیاں بھی حجاب کرنے پرمجبورہوجائیں، رنگ میں سفید سرخی مائل تھےنرم اور دلکش تھے۔صحابہ اکرام نے آپ کے رخسار کوجس کیفیت میں دیکھاویسے ہی انہوں نے بیان فرمایااور کمال یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مشاہدات میں یکسانیت پائی جاتی ہےجواس بات پردلیل ہے کہ کسی بھی صحابی نے جو بیان کیا وہ ہرگز ہرگزخلاف حقیقت اور صرف نبی پر عقیدت ومحبت نہیں بلکہ عین الیقین کے ساتھ ساتھ حق الیقین کے رتبہ کی صداقت تھی۔
رسول اکرم کے رخسار مبارک کے حوالہ سے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے :
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابیض الخدین.1
آپ کے رخسار مبارک سفیدتھے۔
ایک اور جگہ حضور کے رخسار مبارک کا ذکرکرتے ہوئے۔حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق سے روایت ہے:
كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابیض الخد.2
آپ کے رخسار مبارک سفید تھے۔
عن عامر بن سعد، عن أبیه، قال: كنت أرى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یسلم عن یمینه، وعن یساره، حتى أرى بیاض خده.3
عامر بن سعید اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔کہ میں نے رسول اللہ کو دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے دیکھاتھا،یہاں تک کہ میں آپ کےمبارک رخساروں کی سفیدی بھی دیکھاکرتاتھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے :
أن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یسلم عن یمینه، وعن شماله، حتى یرى بیاض خدہ السلام علیكم ورحمة اللّٰه، السلام علیكم ورحمة اللّٰه.4
نبی علیہ الصلوۃ والسلام دائیں طرف اور بائیں طرف سلام پھیرتے تھے،یہاں تک کے آپ کے رخساروں کی سفیدی نظرآتی تھی ۔آپ پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللّٰه السلام علیکم ورحمۃاللّٰه کہتے تھے۔
رسول اکرم کے رخسار مبارک حسین و جمیل تو تھے ہی، ساتھ ہی ساتھ اس صفت سے بھی متصف تھے کہ ان میں کسی بھی قسم کا ابھار نہ تھا۔اس حوالہ سے حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:
كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سھل الخدین.5
رسول اﷲ کے رخسار مبارک ہموارتھے۔6
یعنی آپ کے مبارک رخسار نہایت ہی خوبصورت تھے۔ رنگت میں سفید سرخی مائل تھے ۔ نرم اور دلکش تھے۔ ان میں اُبھار نہیں تھا اور نہ ہی دبے ہوئے تھے، بلکہ اعتدال پر تھے۔آپ کے دونوں رخسار اٹھے ہوئے نہ تھے بلکہ ہموار تھے۔7
اسی طرح حضرت علی سے روایت ہے :
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سھل الخدین دقیق العرنین.8
آپ کے رخسار مبارک ہموار اور ناک مبارک اونچی تھی۔
سھل الخدین کا مطلب ہے کہ حضور اقدس کے رخسارنرم،ہموار ،صاف اور حسین تھے کیل چھائیوں اور داغ دھبوں سے پاک تھے۔9
حضرت ابوہریرہ کی روایت میں "اسیل الخدین" آتا ہے امام صالحی اس کے تحت فرماتے ہیں:
السھل الخدین اى لیس فى خدیه نتوء وارتفاع وقیل اراد ان خدیه صلى اللّٰه علیه وسلم اسیلان قلیل اللحم رقیق الجلد.10
آپ کے رخسار مبارک میں غیر موزوں ارتفاع نہ تھا اور کہا جاتا ہے کہ آپ کے رخسار مبارک "اسیلان"تھے یعنی ان پر گوشت کم اور ان کی جلد نرم تھی۔
اس کی شرح میں امام نبہانی فرماتے ہیں:
الخد الاسیل ھو ما فیه استطالة غیر مرتفع الوجنة.11
ایسے رخسار جن میں موزونیت کے ساتھ طوالت ہو اور ان میں زیادہ اُبھار نہ ہو۔
حضرت رقیقہ بنت ابی صیفی بن ہاشم بیان کرتی ہیں ایک مرتبہ مکہ شریف میں میں مسلسل کئی سال قحط آگیا میں نے خواب میں ایک ہاتف غیبی کو سنا جو قریش کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا کہ تمہارے اندر ایک اﷲ کا نبی مبعوث ہوچکا ہے اس کی خدمت اقدس میں جاؤ اس کی برکت سے قحط ختم ہوجائے گا۔پھر آپ کا تعارف کرواتے ہوئے و ہ ہاتف غیبی کہتا ہے:
الا فانظروا رجلا منكم وسیطا عظاما جساما ابیض بضیاء اوطف الاھداب سھل الخدین اشم العرنین.12
اس کا جسم اطہر انتہائی متناسب، اس کے جوڑ عظیم، رنگ سفید، پلکیں لمبی، رخسار ہموار اور ناک مبارک بلند ہے۔
رسول اکرم ﷺکے ان رخسار مبارک کو رکن یمانی نے بھی بوسہ دیا تھا۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں :
ان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قبل الركن الیمانی ووضع خده علیه.13
حضور نے رکن یمانی کو بوسہ دیا اور اپنا رخسار مبارک اس کے اوپر رکھ دیا۔
اسی طرح حضرت عبد الرحمن بن صفوان بیان کرتے ہیں:
رایت رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بین الحجر والباب واضعا وجھه على البیت.14
میں نے نبی کریم کو حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان چمٹے ہوئے دیکھا آپ نے اپنا چہرہ مبارک بیت اﷲ پر رکھا ہوا تھا۔
ایک دوسری حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
ورایت الناس ملتزمین البیت مع رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.15
میں نے لوگوں کو بھی حضور نبی کریم کے ہمراہ بیت اﷲ سے چمٹے ہوئے دیکھا۔
اور تیسری حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
حضرت عبد الرحمن بن صفوان بیان کرتے ہیں:
لما افتتح رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فانطلقت فوافقت رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قد خرج من الكعبة واصحابه قد استلموا البیت من الباب الى الحطیم وقد وضعوا خدودھم على البیت ورسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وسطھم فقلت لعمر كیف صنع رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حین دخل الکعبة قال صلى ركعتین.16
جب حضور نبی کریم نے مکّہ مکرّمہ فتح کرلیا تو میں نے اپنے دل میں سوچا کہ گھر جاکر جو راستے ہی میں تھا کپڑے پہنتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ نبی کریم کیا کرتے ہیں چنانچہ میں چلا اور نبی کریم کے پاس اس وقت پہنچا کہ جب آپ خانہ کعبہ سے باہر آچکے تھے صحابہ کرام کعبہ کے دروازے سے حطیم تک استلام کررہے تھے انہوں نے اپنے رخسار بیت اﷲ پر رکھے ہوئے تھے اور نبی کریم ان سب کے درمیان میں تھے میں نے حضرت عمر سے پوچھا کہ نبی کریم نے خانہ کعبہ میں داخل ہوکر کیا کیا تو انہوں نے بتایا کہ نبی کریم نے دو رکعتیں پڑھی تھی۔
انسان کی مختلف طبیعتوں کا اثراس کے چہرے پر چھلکتاہے خواہ خوشی ہویاغم ،غم خواہ دنیاوی ہویااخروی۔اخروی غم میں محبت الہٰی میں آنسوبہانایا محبوب کے فراق میں آنسوبہاناشامل ہوتاہے۔جیساکہ امام شرف الدین بوصیری قصیدہ بردہ میں فرماتے ہیں۔
وأثبت الوجد خطَّى عبرة وضنى
مثل البھار على خدیك والعن.17
اور (اے عاشق) تو عشق سے کیسے انکار کر سکتا ہے جب غم نے تیرے رخساروں پر دو نشان آنسواور لاغری کے مثل گلاب زرد اور درخت غم کے نمایاں کردیے ہیں۔
گویا غم کا اثر چہرے پر ظاہر ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ کی کیفیت کیسی ہی ہو میدان جنگ ہو یا قریبی رشتہ داروں کی وفات کا صدمہ، نور نظر حضرت ابراہیم کا وصال ہو یا راتوں کو اٹھ کر طویل عبادت اور گریہ و زاری، بہر صورت محبوب خدا کے رخسار کے حسن میں ہر وقت سویرا اور روشنی ہی رہی۔ غموں کے سائے رخسار مبارک سے کوسوں دور رہے اور اس کی ایک حکمت یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ رسول اللہ کی ذات گرامی تو ایسی تھی کہ جن کو دیکھ کر لوگ اپنے غموں کو بھول جاتے بلکہ سخت بھوک اور پیاس والوں کو کھانے پینے کی طلب نہ رہتی، تو پھر جو ذاتِ غمگسار غموں کا مدوا کرنے والی ہو اس کے رخسار مبارک پر غم کیسے ہوسکتا ہے!
آپ کے رخسار مبارک پر کلیوں کی طرح تازگی ہی رہتی تھی۔جیسے امام شرف الدین بوصیری علیہ رحمہ نے قصیدہ بردہ شریف میں فرمایا:
كالز ھرفى ترف والبدر فى شرف
والبحرفى كرم والد ھرفى ھمم.18
(حضور اکرم ) تازگی میں شگوفہ گل ، بزرگی میں چودھویں رات کے چاند اور بخشش میں دریا اور ہمت میں زمانہ ہیں۔
ان روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت کو رب تعالیٰ نے ایسے رخسار عطافرمائے تھے جو نہ ہی چپکے ہوئے تھے اور نہ دبے ہوئے تھے، نہ ہی ان میں غیر موزوں اٹھان تھی بلکہ وہ آپ کے چہرہ مبارک کی ہیئت کے عین مناسب تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کے رخسار وں میں کچھ دراریں بھی نہیں بلکہ خوبصورت چمک تھی جو آنکھوں کو بھاتی اور آپ کے چہرے مبارک کی دلکشی میں بے پناہ اضافہ کرتی تھی۔آپ کے رخسار مبارک کے حسن وجمال کی کیفیت ، ولادت باسعادت سے لیکر وصال پر ملال تک اسی آب وتاب کے ساتھ ضوفشانی کرتی رہتی تھی حالانکہ انسانوں کاساتھ معاملہ عمر گزرنے کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ ان کے جسم کے ساتھ ساتھ رخسار پر جھریاں پڑ جاتی ہیں ،چہرہ لٹک جاتا ہے،تل کیل مہاسے ابھر کر چہرے کی تازگی کو گہنا دیتے ہیں بسااوقات رخسار چہرے پر غیر مطلوب بال اتنے کثرت سے نمایاں ہونے لگتے ہیں۔گویاکہ انسان بالوں کی کثرت کے مرض میں مبتلا ہو جاتاہے لیکن آنحضرتکا یہ معجزہ تھا کہ مذکورہ بالاتمام عیوب ونقائص سے آپ کے رخسار مبارک آخری لمحات تک پاک تھے۔ صحابہ کرام نے جب جب اور جس جس حالت میں آپ کے رخسار مبارک کی زیارت کی کیفیت کو بیان فرمادیا۔(حضور اکرم ) تازگی میں شگفۃ گل اور بزرگی میں چودھویں رات کے چاند کی طرح تھے کیا کمالات اللہ نے آپ کے اندر رکھے تھے۔انسان ابھی تک اس کے عرفان تک نہیں پہنچا۔