Encyclopedia of Muhammad

آپ کی آنکھیں مبارک

رسول اکرم کی آنکھیں مبارک بلاشبہ خالق کائنات کی تخلیق کا شاہکار تھیں۔جن کا حسن دیکھنے والے کو اپنے اندر جذب کرلیتا تھا۔وہ ان کی رعنائی سےمرعوب ہوکررہ جاتاتھا۔بارباران کو دیکھنےکی آرزو جذبات میں چٹکیاں لیتی تھے۔یہ وہ مبارک آنکھیں تھیں جن سے کون ومکاں کی کوئی شےاوجھل نہیں۔ ان چشمانِ اقدس نے لوح وقلم ،عرش وفرش،جنت ودوزخ، بحروبر، جن وانس غرض کائنات کی ہرشےکودیکھا تھا۔یہ وہ آنکھیں تھیں جن کے متعلق اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا:

  مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى171
  اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی )۔

یہی وہ آنکھیں ہیں جنہیں لیلۃ الاسراء رب کائنات نے اپنی نشانیاں دکھائیں۔2

خوبصورت آنکھیں

حضور کی مقدس اور نورانی آنکھیں بہت ہی خوبصورت تھیں ۔قدرت الٰہی سے سرمگیں بھی کہ سرمہ کے بغیر معلوم ہوتا کہ سرمہ لگا ہوا ہے۔ آنکھوں کی سفیدی میں باریک سرخ ڈورے تھے جن کو علامات نبوت میں شمار کیا گیا ہے۔ پلکیں نہایت خوشنما اور دراز تھیں۔ حضور نبی کریم کی آنکھیں مبارک بڑی بڑی اور کشادہ تھیں۔ سیاہ حصہ مکمل طور پر سیاہ تھا اور سفید حصہ انتہائی سفید تھا۔ بالائی پپوٹوں کے وہ حصے جو آپس میں ملتے ہیں مائل بہ سیاہی تھے جن کی وجہ سے سرمہ لگائے بغیر بھی آپ کی آنکھیں سُرمگیں دکھائی دیتی تھیں۔

حضرت فاروق اعظم نبی اکرم کی آنکھوں کی صفت کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ادعج العینین.3
  حضور نبی کریم کی مبارک آنکھیں کشادہ اور گہری سیاہ تھیں۔

مولائےکائنات حضرت علی نے بھی حضور نبی اکرم کی نگاہ نازنین کی حالت کو بیان کیاہے۔ 4

ابن کثیر لفظ دعج کا معنى بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  قال الجوھرى: الدعج شدة سواد العینین مع سعتھا.5
  جوہری نے کہا: دعج کا مطلب دونوں آنکھوں کی سیاہی کا گہرہ ہونا وسیع ہونے کا ساتھ۔

دعج پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے امام بیہقی تحریر فرماتے ہیں:

  والدعج شدة سواد الحدقة لایكون الدعج فى شىء الا فى سواد الحدق وكان فى عینیه تمزج من حمرة.6
  دعج سے مراد ہے کہ آنکھ کے ڈھیلے میں سیاہ حصہ شدید سیاہ تھا یہ صفت ادعج کسی چیز میں نہیں ہوتی صرف آنکھ کی سیاہ پتلی میں ہوتی ہے۔نیز آپ کی آنکھوں میں سُرخی اور ہلکی سرخی کا امتزاج بھی تھا۔

صحابئ جلیل حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے :

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابرج العینین.7
  آپ کی آنکھیں نہایت ہی کشادہ اور خوبصورت تھیں۔

حضرت انس فرماتےہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ابحر العینین.8
  حضور کی آنکھیں سُرخی مائل تھیں۔

حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے:

  عن جابر بن سمرة قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم أشكل العینین. وراوه أبو داود عن شعبة فقال: أشھل العینین...أما قوله: أشكل العینین: قال أبو عبیدة: الشكلة: حمرة فى بیاض العین، والشھلة: حمرة فى سوادھا. 9
  حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم کی مقدس آنکھیں سفید سرخی مائل تھیں۔ یعنی سفیدی میں سرخ باریک دھاریاں تھیں اور ابو داود نے شعبہ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں اشکل العینین کی بجائے اشہل العینین وارد ہے۔بہر حال راوی کے قول "اشکل العینین" کا مطلب ابوعبیدۃ نے یہ بتایا ہے کہ: شکلۃ آنکھ کی سفیدی میں سرخی کو کہتے ہیں اور شھلۃ کا معنی آنکھ کی پتلی میں سیاہی کا ہونا ہے۔

اس تقدیر پر مطلب یہ ہو گا کہ آنکھوں کی پتلیاں سیاہ سرخی مائل تھیں ۔راوی نے حضر ت سماک بن حربسے پوچھا:

  ما اشكل العین؟ قال: طویل شق العین.10
  اشکل العینین کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: آنکھوں کے گوشوں کا طویل ہونا۔

حضرت علی سے روایت ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عظیم العینین.11
  آپ کی آنکھیں بڑی تھیں۔

اسی طرح حضرت علی سے ہی ایک مروی روایت میں مذکور ہے :

  اسود الحدقة.12
  حضور کی مبارک آنکھوں کی پُتلی سیاہ تھی ۔

حضرت جابر بن سمرہ کی روایت میں "اشہل العینین" آیا ہے اس کا معنی ہے سرخ و سیاہ آنکھوں والے۔کیونکہ نبی اکرم کی آنکھوں کے سفید حصے میں سرخ ڈورے تھے۔

چنانچہ امام ابوداؤد طیالسی روایت کرتے ہیں:

  جابر بن سمرة یقول: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اشھل العین، منھوس العقب، ضلیع الفم.13
  حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں: رسول اﷲ کی آنکھیں سُرخی مائل تھیں، ایڑیوں میں گوشت کم تھااور منہ مبارک کشادہ تھا۔

آنکھوں کی سفیدی میں باریک سرخ ڈوروں کو علامات نبوت میں شمار کیا گیا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے ایک واقعہ امام ابن کثیر نے تحریر کیا ہے کہ جب حضرت ابوطالب آپ کو اپنے ساتھ ملک شام لے گئے تو وہاں کے راہب جو الہامی کتب کے عالم تھے انہوں نے حضور نبی کریم کو دیکھ کر حضور نبی کریم اور حضرت ابوطالب سے چند سوالا ت کیے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

  قال بحیرا: فباللّٰه أسألك، وجعل یسأله عن أشیاء من أحواله فیخبره حتى سأله عن نومه فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: تنام عیناى ولا ینام قلبى وجعل ینظر فى عینیه إلى الحمرة ثم قال لقومه: أخبرونى عن ھذه الحمرة تأتى وتذھب أو لا تفارقه؟ قالوا: ما رأیناھا فارقته قط وكلمه أن ینزع جبة علیه حتى نظر إلى ظھره وإلى خاتم النبوة بین كتفیه علیه السلام مثل زر الحجلة متواسطا فاقشعرت كل شعرة فى رأسه وقبل موضع خاتم النبوة وجعلت قریش تقول: إن لمحمد عند ھذا الراھب لقدرا وجعل أبو طالب . لما رأى من الراھب . یخاف على ابن أخیه ثم قال الراھب لأبی طالب: ما یكون ھذا الغلام منك؟ قال: ابنى قال: ما ھو بابنك وما ینبغى أن یكون أبوه حیا قال: فإنه ابن أخى قال: فما فعل أبوه؟ قال أبو طالب: توفى وأمه حبلى به قال: فما فعلت أمه؟ قال: توفیت قريیا قال: صدقت ارجع بابن أخیك إلى بلدك واحذر علیه الیھود فواللّٰه إن رأوه أو عرفوا منه الذى أعرف لیبغنه عنتا فإنه كائن لابن أخیك شأن عظیم نجده فى كتبنا وما ورثنا من آبائنا، وقد أخذ علینا مواثیق.14
  بحیرا نے کہا: میں آپ سے اﷲ کے نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں پھر وہ آپ سے سوالات کرنے لگا اس نے آپ کی نیند کے متعلق پوچھا آپ نے فرمایا:میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا پھر وہ آپ کی آنکھوں میں بسی سرخی کی طرف متوجہ ہوا کہنے لگا: بتلاؤ یہ سرخی آتی جاتی رہتی ہے یا ہمیشہ رہتی ہے؟ اہل قافلہ کہنے لگے: ہم نے تو یہ کبھی غائب نہیں دیکھی۔بحیرا نے تقاضا کیا کہ آپ اپنا جبّہ اتاریں آپ نے اتارا جب اس نے آپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی حجلہ عروسی کے مہرے جیسی تھی تو اس کے سر کے بال کھڑے ہوگئے اور بے اختیار مہر نبوت کو چوم لیا۔بالآخر راہب شام نے کہا: اس بچے کو فوراً اپنے وطن لے جاؤ مجھے اس کے متعلق یہود سے ڈر آرہا ہے۔ بخدا اگر انہوں نے اسے دیکھ لیا یا جو کچھ میں نے اس میں پہچانا ہے وہ پہچان گئے تو اسے نقصان پہچانےکی کوشش کریں گے کیونکہ تمہارے بھتیجے کو عظیم الشان مقام ملنے والا ہے جو ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا اور اپنے باپ دادا سے سنا ہے اور اس پر ہم سے مضبوط وعدے لیے گئے ہیں۔

حضرت علی فرماتے ہیں: جب مجھے قاضی بناکر یمن بھیجا گیا تو ایک یہودی عالم نے مجھے نبی آخرالزماں کا حلیہ مبارک بیان کرنے کے لیے کہا۔جب میں سرکار دو عالم کا سراپا مبارک بیان کرچکا تو اس یہودی عالم نے کچھ مزید بیان کرنے کی استدعا کی میں نے کہا :اس وقت مجھے یہی کچھ یاد ہے۔ اس یہودی عالم نے کہا: اگر مجھے اجازت ہو تو مزید حلیہ مبارک میں بیان کروں؟ اس کے بعد وہ یوں گویا ہوا:

  فى عینیه حمرة، حسن اللحیة حسن الفم، تام الاذنین.
  حضور کی مبارک آنکھوں میں سرخ ڈورے ہیں، ریش مبارک نہایت خوبصورت دہن اقدس حسین وجمیل اور دونوں کان مبارک (حسن میں) مکمل تھے۔15

امام ابن عساکر نے حضرت قاتل بن حیان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو حکم دیا:

  جد فى امرى ولا تھزل! الى ان قال: صدقوا النبى العربى الانجل العینین.16
  میرے معاملے میں کوشش کر حتیٰ کہ فرمایا: اس نبی عربی کی تصدیق کرو جن کی آنکھیں خوبصورت اور بڑی ہوں گی۔

آپ ﷺکی چشمِ سُرمگیں

حضور نبی کریم کی آنکھیں قدرتی طور پر سرمگیں تھیں اور جوان مبارک آنکھوں کو دیکھتا وہ یہ سمجھتا کہ آپﷺ ابھی ابھی سرمے کی سلائی ڈال کر آئے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام برہان الدین حلبی فرماتے ہیں:

  وولد نبینا لى صلى اللّٰه علیه وسلم مختونا. اى: على صورةالمختون.مکحولا ونظیفا ما به قذر.17
  ہمارے نبی پاک ختنہ شدہ پیدا ہوئے یعنی اس طرح جیسے مختون آدمی ہوتا ہے نیز اس طرح کہ (آپ کی آنکھوں میں گویا) سرمہ لگا ہوا تھا اور پاک صاف پیدا ہوئے کہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی آلودگی نہیں تھی۔

حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

  وكنت اذا رایته قلت: اكحل العینین ولیس باكحل.18
  اگر تم حضور نبی کریم ﷺکی مبارک آنکھوں کو دیکھوگے تو کہو گے کہ ان میں سرمہ لگا ہوا ہے حالانکہ ان میں سرمہ لگا ہوا نہیں ہوتا تھا۔

اس کی شرح میں امام ابن جوزی تحریر فرماتے ہیں:

  والكحل: سواد ھدب العین خلقة.قال الزجاج: الكحل: أن یسود مواضع الكحل.19
  کحل کا مطلب آنکھ کی پتلی کا پیدائشی سیاہ ہونا ہے۔زجاج نے کہا کہ: کحل کا معنی سرمہ لگانے کی جگہ کا سیاہ ہونا ہے۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اكحل العینین.20
  حضور نبی کریم کی آنکھیں ہمیشہ سرمگیں رہتی تھیں ۔

امام صالحی "اکحل" کا معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  سواد یكون فى مفاوز اجفان العین خلقة.21
  اکحل اس سیاہی کو کہتے ہیں جو آنکھوں کی پلکوں وغیرہ میں پیدائشی طور پر ہو۔

مبارک آنکھوں کی تازگی

حضور بچپن میں بھی جب نیند سے بیدار ہوتے تو سر کے بال اُلجھے ہوئے ہوتے نہ آنکھیں بوجھل ہوتیں بلکہ آپ خندہ بہ لب اور شگفتہ گلاب کی طرح تروتازہ ہوتے اور قدرتی طور پر آنکھیں سرمگیں ہوتیں۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس سے مروی ہے کہ حضرت ابوطالب نے فرمایا:

  كان الصبیان یصبحون رمصا شعثا ویصبح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم دھینا كحیلا.22
  عام طور پر بچے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں بوجھل اور سر کے بال اُلجھے ہوتے ہیں جبکہ حضور بیدار ہوتے تو آپ کے سر انور میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔

حضرت ابن عباس نے بھی اس کو بیان کیا ہے کہ آپ بچپن کی حالت میں بیدار ہوتےتو عام بچوں سے الگ اور نمایاں طور پر ہشاش بشاش اور کھِلے کھِلے بیدار ہوتے اور آنکھوں میں بجائے نیند و اضطرابیت کے تازگی و فرحت نمایاں ہوتی اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔

تورات میں سرمگیں آنکھوں کا ذکر

نبی کریم کی آنکھوں کا قدرتی طور پر سرمگیں ہونے کی صفت تورات شریف میں بھی موجود تھی جس کاعلمائے یہود خود اقرار کرتے تھے کہ ہم تورات شریف میں حضور کی یہ صفت پاتے ہیں کہ قدرتی طور پرآخری نبی ﷺکی آنکھیں سرمگیں ہونگی۔ ابن عباس فرماتے ہیں:

  قال احبار الیھود: وجدو ا صفة محمد صلى اللّٰه علیه وسلم مكتوبا فى التوراة اكحل العین.23
  یہودیوں کے بڑوں نے کہاکہ:محمد کی صفت تورات میں یہ لکھی ہے کہ حضور نبی کریم کی آنکھیں ہمیشہ سرمگیں رہیں گی۔

آپﷺ کی قوّت بصارت

رسول اکرم کی آنکھوں کی بصارت کا عالم یہ ہوتا تھا کہ آپ کو اشیاءکے دیکھنے کے لیے عام انسانوں کی طرح کسی خارجی روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔بلکہ نبی اکرم کےبارے میں منقول ہے کہ آپ اجالہ اور اندھیرے میں یکساں طور پر دیکھتے تھے۔چنانچہ روایت میں مروی ہے:

  عن عائشة قالت:كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یرى فى الظلمة كمایرى فى الضوء.24
  ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:حضور نبی کریم اندھیرے میں بھی ویسے ہی دیکھتے تھے جیسے روشنی میں۔

شرم و حیاء سے معمور نگاہ مصطفیٰ ﷺ

شرم و حیاء ہی انسان کا وہ وصفِ جمیل ہے جس کی آغوش میں اخلاق و کردار کی خوبیاں پرورش پاتی ہیں۔ جو انسان اس وصف سے کامل طور پر متصف ہوجاتا ہے وہ اخلاق حسنہ کا پیکر بن جاتا ہے اور جس انسان میں یہ صفت نہ رہے وہ پھر بے حیائی وبے شرمی کا مجسمہ ہوکر جو چاہے کرسکتا ہے۔ آپ کا دیکھنا کمالِ حیاء اور شانِ محبوبیت کا آئینہ دار ہوتا۔ آپ کی چشمانِ اطہر میں شفقت و محبت اور شرم و حیا کی ملی جلی کیفیت ہمہ وقت موجود رہتی۔جس کی عکاسی آپ نے اپنے اسوہ حسنہ سے اور اس قول مبارک سے بھی کی:

  اذا لم تستحى فاصنع ماشئت.25
  جب تو نے شرم و حیاء نہیں کی تو جو چاہے کر۔

شرم وحیاء کا وصف مبارک بھی دوسرے اوصاف حمیدہ کی طرح حضور نبی کریم کی ذات اقدس میں اکمل طور پر تھا صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ آپ کثرت حیاء کی وجہ سے کسی شخص کے چہرے پر نظریں نہیں جماتے تھے۔جب کبھی کسی طرف دیکھتے تو تھوڑی اوپر آنکھ اٹھاتے اور اسی سے دیکھ لیتے۔ آپ ﷺکی اس ادائے محبوبانہ کا ذکر روایات میں یوں مذکور ہے۔

  خافض الطرف نظره الى الارض اكثر من نظره الى السماء.26
  آپ کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی۔

گوشہ چشم سے دیکھنا کمال شفقت والفت کا انداز لیے ہوئے تھا جبکہ جھکی ہوئی نظریں نہایت درجہ شرم وحیاء پر دلالت کرتی ہیں، اور آپ سے بڑھ کر کون عفت مآب اور حیا دار ہوسکتا تھا۔حضرت ابوسعید خدری آپ کے اس وصف عالیہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  اشد حیاء من العذراء فى خدرھا وكان اذا كره شیئا عرفناه فى وجھه.27
  آپ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرم و حیاء کے مالک تھے۔ ہم چہرہ اقدس کے آثار سے ہی آپ کی ناپسندیدگی محسوس کرلیا کرتے۔

نبی رحمت ،فخر دوعالم ، سروردوعالم کی آنکھیں مبارک بڑی کشادہ ،سیاہ، سرمگیں تھیں۔جوبھی آپ کو دیکھتا یا آپ کی محفل میں بیٹھتا اور آپ کے ایک ایک حسن کو دیکھتا تواسے رب ِکائنات کی قدرت کا کمال نظرآتا۔کیاکیا کمالات آپ کی شخصیت میں جمع تھے اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے؟سوائےان کمالات کو عطاکرنے والے کے یا جس کو یہ عطا کیے گئے ان کے۔

 


  • 1 القرآن،سورۃ النجم53 : 17
  • 2 رب العزت نےفرمایا: لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا، ترجمہ: تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں ۔(القرآن،سورۃ الاسراء 01:17)
  • 3 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1414ھ، ص:23
  • 4 ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی ، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص: 213
  • 5 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی ، شمائل الرسول لابن کثیر ، مطبوعۃ:مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :26
  • 6 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405 ھ، ص :303
  • 7 عمر بن شبہ نمیری بصری ، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ ، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة جدۃ، جدة، السعودیۃ، 1399ھ، ص:608
  • 8 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:23
  • 9 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفىﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجوداً) ص: 43
  • 10 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث :2339، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ھ، ص:1029
  • 11 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:24
  • 12 ضیاء الدین ابو عبداﷲ محمد بن عبد الواحد مقدسی، الاحادیث المختارۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:316
  • 13 سلیمان بن داؤ دالطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 802، ج-2، مطبوعۃ: دار ھجر، القاهرة، مصر، 1999ء، ص:126
  • 14 ابو نعیم احمد اصفہانی ، دلائل النبوۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986 ء، ص:169-170
  • 15 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، شمائل الرسول، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:16
  • 16 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 2، مطبوعۃ: احیاء التراث الاسلامی، القاھرۃ، مصر، 1997ء ، ص:24
  • 17 برہان الدین علی بن ابراہیم حلبی ، السیرۃ الحلبیۃ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ ، ص:78
  • 18 احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 20917، ج -34، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:466
  • 19 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى ﷺ، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:43
  • 20 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص :23
  • 21 ایضًا، ص :26
  • 22 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج -1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1990 ء، ص :120
  • 23 اسماعیل بن محمد اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث :179، مطبوعۃ: دار طیبۃ ،الریاض،السودیۃ، 1409ھ، ص:157
  • 24 عیاض بن موسیٰ المالکی،الشفا بتعريف حقوق المصطفى، ج-1،مطبوعہ: دار الفيحاء، عمان، 1407هـ ، ص:164
  • 25 سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی، حدیث: 655 ، ج -2، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:15
  • 26 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت،لبنان، 1988، ص:13-12
  • 27 سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابو داؤد الطیالسی ، حدیث: 2336، ج-3، مطبوعۃ: دار ھجر، القاہرۃ، مصر، 1999ء، ص:670