Encyclopedia of Muhammad

آپ کی زُلف مبارک

اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم کو ہر لحاظ سے بے مثل و بے مثال بنایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے حسنِ سراپا کا ذکر خود رب کائنات نے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں بھی جا بجا کئی مقامات پر مختلف انداز سے فرما یا ہے۔ بالکل اسی طرح نبی اکرم کے جسم اقدس کا ہر ہر عضو بھی انتہائی درجہ حسین وخوبصورت اور معتدل تھا۔اس مقالہ میں حضور اکرم کے موئے مبارک کے حوالہ سے معروضات تحریر کی گئی ہیں جس سے واضح ہوجائے گا کہ رسول اکرم کے موئے مبارک اس جہاں رنگ و بو کے حسین ترین اور شاہکار خلقت ہیں۔حضور نبی کریم کے سر انور پر مبارک بال نہایت حسین اور جاذب نظر تھے جیسے ریشم کے سیاہ گچھے۔ نہ بالکل سیدھے اور نہ پوری طرح گھنگھریالے بلکہ نیم خمدار جیسے ہلال عید اور ان میں بھی اعتدال، توازن اور تناسب کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ان سے چہرہ أنور کا حسن دوبالا ہوتاتھا۔

رسول اکرم کی زلف مبارک

قرآن مجید میں نبی اکرم کے اعضاءِ جسمانی کا ذکر صراحۃ اور کنایۃ موجود ہے۔چنانچہ ایک مقام پر اﷲ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:

  وَالَّیلِ اِذَا سَـجٰى2 1
  اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ (یا: اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے)۔ (یا:- قَسم ہے رات کی (طرح آپ کے حجابِ ذات کی) جب کہ وہ (آپ کے نورِ حقیقت کو کئی پردوں میں) چھپائے ہوئے ہے)۔

محدث شاہ عبد العزیز دہلوی اس آیت کریمہ کی تفسیرکرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:

  "ضحٰی"سے مراد حضور کا رُخِ انور ہے، اور "لیل"سے زلف عنبریں مراد ہیں۔ 2

یہاں تشبیہ کے پیرائے میں آپ کے گیسوئے عنبریں کا ذکر قسم کھا کر کیا گیا جو در اصل محبوب کے حسن وجمال کی قسم ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام کو حضور نبی کریم سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ ان کی نگاہیں ہمہ وقت آپ کے چہرۂ انور کا طواف کرتی رہتیں۔ وہ آپکی خمدار زلفوں کے اسیر تھے اور اکثر اپنی محفلوں میں آپ کی زلف عنبریں کا تذکرہ والہانہ انداز سے کیا کرتے تھے۔چنانچہ امام ابو نعیم اصفہانی اُم المومنین عائشہ صدیقہ کی روایت میں لکھتے ہیں۔

  وكان صلى اللّٰه علیه وسلم رجل الشعر حسنه لیس بالسبط ولا الجعد القطط وكان اذا امتشط بالمشط كانه حبك الرمال وكانه المتون التى فى الغدر اذا صفقتھا الریاح واذا نكته بالمرجل اخذ بعضه بعضا وتحلق حتى یكون متحلقا كالخواتیم وكان من اول امرہ قد سدل ناصیته بین عینیه كما تسدل نواصى الخیل حتى جاء ہ جبرئیل بالفرق ففرق وكان شعره یضرب منكبیه وربما كان الى شحمة اذنیه وكان ربما جعله غدائر تخرج الاذن الیمنى من بین غدیرتین تكتنفانھا وتخرج الاذن الیسرى من بین غدیرتین تكتنفانھا ینظر من كان یتاملھما من بین تلك الغدائر كانھما توقد الكواكب الدریة بین سواد شعره.3
  آپ کے بال مبارک قدرے خمدار اور حسین تر تھے جو نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ حد سے زائد گھنگریالے۔جب آپ گنگھی استعمال کرتے تو بالوں میں حسین لہریں سی پڑجاتیں جیسے ریت کے میدان میں چھوٹے چھوٹے راستے بنے ہوں یا کسی تالاب کے سوکھ جانے پر وہاں دراڑیں پڑی ہوں۔ مگر جب آپ کنگھی سے انہیں سر کے دائیں و بائیں ڈال لیتے تو وہ لہریں ختم ہوجاتیں اور زلفیں چہرہ انور کے گرد گھیرا ڈال لیتیں جیسے انگلی کو انگشتری نے لپیٹ میں لے رکھا ہوتا ہے۔پہلے آپ بالوں کو آنکھوں کے درمیان پیشانی پر گرالیا کرتے تھے مگر جب جبریل امین بالوں میں مانگ نکال کر آئے تو آپ نے بھی مانگ نکالنا شروع کردی۔آپ کی زلفیں کندھوں تک پہنچتی تھیں اور کبھی کانوں کی لو تک۔ بسا اوقات آپ کے بال خوبصورت لٹوں کی شکل میں ہوتے۔ ایسے میں آپ کے کان مبارک دونوں طرف بالوں کے درمیان میں سے ابھرے ہوئے یوں لگتے جیسے سیاہ آسمان میں چمکتے ستارے ہوں۔

گیسؤے مبارک کا حسن و جمال

صحابہ کرام رسول اﷲ کے سراپائے مبارک کا ذکر محبت بھرے انداز میں کرتے رہتے تھے ۔آپ کی زلفوں کا ذکر کرتے ہوئے مولا علی ان کی صفت کو یوں بیان فرماتے ہیں:

  حسن الشعر.4
  (رسول اﷲ کے) موئے مبارک نہایت حسین وجمیل تھے۔

آپ کے موئے مبارک کی رنگت

حضرت ابوہریرہ آپ کی مبارک زلفوں کی سیاہی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  شدید سواد الشعر.5
  (آپ ) کے بال گہرے سیاہ تھے۔

حضرت ابو الطفیل اعلان فرمایا کرتے کہ لوگوں اگر حضور کے بارے میں کسی نے کچھ پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھ لے۔ کیونکہ آج روئے زمین پر میرے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں جس نے حضورکو دیکھا ہو۔ جب کوئی بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کے حلیہ مبارک کے بارے میں سوال کرتا تو آپ تفصیلاً انہیں حلیہ رسول ِ اقدس بیان کرتے اور آخر میں فرماتے کہ میں نے فتح مکّہ کے موقعہ پر آپ کی جو زیارت کی تھی وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

  فما انسى شدة بیاض وجھه وشدة سواد شعره.6
  آپ کے چہرۂ اقدس کی خوبصورت سفیدی اور زلفوں کی گہری سیاہی آج بھی میری نگاہوں میں ہے۔

اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں:

  شدید سواد الرآس واللّحیة.7
  حضور نبی کریم کی ریش مبارک اور سرِ انور کے بال گہرے سیاہ تھے۔

پیچ دار زلفیں

آپ کے مبارک بال نہ بالکل سیدھے اور کھڑے تھے اور نہ ہی بالکل گھنگھریالے بلکہ ان دونوں کے بین بین تھے۔اس حوالہ سے حضرت انس سے مروی روایت میں مذکور ہے:

  وكان شعره لیس بجعد ولا سبط.8
  آپ کے بال نہ بہت زیادہ گھنگھریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے۔

حضرت انس ہی سے مروی ایک اور روایت کے الفاظ یوں منقول ہوئے ہیں:

  وكان شعر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم رجلا لا جعد ولا سبط.9
  آپ کے بال قدرے گھنگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے اورنہ بالکل پیچدار۔

اسی حوالہ سے حضرت علی فرماتے ہیں:

  ولم یكن بالجعد القطط ولا بالسبط كان جعدا رجلا.10
  حضور نبی کریم کے بال مبارک نہ توبالکل گھنگھریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لیے ہوئے تھے۔

اسی طرح حضرت علی بن حجر سے مروی ہے:

  لم یكن شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالجعد القطط ولا بالسبط كان جعداً رجلا.11
  حضور نبی کریم کے مبارک بال نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل پیچدار بلکہ کچھ گھنگھریالے تھے۔

حضرت انس سےبھی اس حوالہ سے منقول ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم رجْل الشعر، لیس بالسَّبط ولا الجعْد القَطط. 12
  حبیب اکرم کے بال مبارک درمیانے گھنگریا لے تھے نہ بالکل سیدھے اور نہ انتہائی پیچدار تھے۔

اسی طرح نبی اکرم کے بالوں کی صفات و ہئیت کو بیان کرتے ہوئے حضرت ہند بن ابی ہالہ روایت کرتے ہیں:

  كان رجل الشعر ان انفرقت عقیقته فرق والا.13
  آپ کے بال مبارک درمیانے گھنگھریالے تھے۔ اگر سر اقدس کے بالوں کی مانگ بسہولت نکل آتی تو نکال لیتے تھے ورنہ نہیں ۔

اس روایت کو صاحب الوفاء نے بھی نقل کیا ہے۔14 آپ کے سر اقدس کے بال مبارک گھنے تھے۔سر کا کوئی حصہ بالوں سے خالی نہ تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت جبیر بن مطعم کا بیان ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كثیر شعر الراس رجله.15
  آپ کے سرِاقدس کے بال گھنے اور خمدار تھے۔

گیسؤے مبارک کا طول

سر اقدس کے بال کتنے لمبے اور دراز تھے؟ اس بارے میں صحابہ کرام سے مختلف اقوال مروی ہیں ہم پہلے ان اقوال کا تذکرہ کرتے ہیں اس کے بعد ان کے درمیان تطبیق بیان کریں گے۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کا سر اقدس اعتدال کے ساتھ بڑا تھا ۔آپ کے بال مبارک خمدار تھے ان میں اگر خود مانگ نکل آتی تو اسے رہنے دیتے ورنہ خود مانگ کے لیے تکلف نہ فرماتے۔آپ مزیدفرماتے ہیں:

  یجاوز شعره شحمة اذنیه اذا ھو وفرة.16
  آپ کے مبارک بال جب لمبے ہوتے تو کانوں کی لو سے ذرا نیچے ہوجاتے تھے۔

حضرت براء بن عازب حضور اکرم کے گیسو مبارک کے حسن وجمال کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

  له شعر یبلغ شحمة الیسرى رایته فى حلة حمراء لم ار شیئا قط احسن منه.17
  آپ کی زلفیں کانوں کی لو تک نیچے لٹکتی رہتیں میں نے سرخ جبہ میں حضور سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔

چھوٹی زلفیں

صحابہ کرام نے حضور نبی کریم کے گیسوئے عنبریں کی مختلف کیفیتوں کو ان کی لمبائی کے پیمائش کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے اچھوتے اور دل نشیں انداز سے بیان کیا ہے ۔اگر زلفانِ مقدس چھوٹی ہوتیں اور آپ کے کانوں کی لوؤں کو چھونے لگتیں تو وہ پیار سے آپ کو "ذی لمۃ" (چھوٹی زلفوں والا) کہہ کر پکارتے جیسا کہ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں:

  مارایت من ذى لمة احسن فى حلة حمراء من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شعره یضرب منكبیه.18
  میں نے کانوں کی لو سے نیچے کندھوں کوچھوتی زلفوں والا سرخ جبہ پہنے رسول اﷲ سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔

دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

  ما رایت احدا من خلق اللّٰه احسن فى حلة حمراء من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ان جمته لتضرب قرییا من منكبیه.19
  میں نے مخلوقِ خدا میں سرخ جبے میں آپ سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا اور آپ کے بال مبارک اور زلفیں کاندھوں کو چھورہی ہوتی تھیں۔

اسی طرح حضرت انس فرماتے ہیں:

  كان شعر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى نصف اذنیه.20
  حضور نبی کریم ﷺکے بال مبارک نصف کانوں تک تھے۔

حضرت براء بن عازب اس حوالہ سے فرماتے ہیں:

  عظیم الجمة الى شحمة اذنیه.21
  آپ کے بال مبارک بہت گنجان تھے اور کانوں کی لو تک آتے تھے۔

کتب حدیث میں درج ہے کہ ایک دفعہ ابورمثہ تمیمی اپنے والد گرامی کے ہمراہ حضور نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ بعد میں انہوں نے اپنے ہم نشینوں سے ان حسین لمحات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آپ کی زلف عنبرین کا تذکرہ کیا۔اس تذکرہ کو نقل کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل شیبانی روایت کرتے ہیں:

  عن ابى رمثة قال: كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یخضب بالحناء والكتم وكان شعره یبلغ كتفیه او منكبیه.22
  حضرت ابو رمثہ تمیمی بیان کرتے ہیں کہ: حضور مہندی اور وسمہ(نیل کےپتوں) سے خضاب لگاتے تھے اور حضور کے بال مبارک کندھوں تک آتے تھے۔

دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

  وله لمة بھما ردع من حناء.23
  آپ کی مبارک زلفیں آپ کے کانوں کی لو سے نیچے تھیں جن کو مہندی سے رنگا گیا تھا۔

اسی طرح اس حوالہ سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے مروی ہے:

  وكان له شعر فوق الجمة ودون الوفرة.24
  آپ کی زلفیں کانوں اور شانوں کے درمیان ہوا کرتی تھیں۔

مذکورہ روایت کو اسی طرح ابن جوزی صاحب الوفاء نے بھی نقل کیا ہے۔25

بڑھی ہوئی زلفیں

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ کی زلف عنبریں اپنی اصل مقدار سے بڑھ جاتیں اور کانوں کی لوؤں سے تجاوز کرنے لگتیں تو صحابہ کرام آپ کو "ذی وقرۃ" (لٹکتی ہوئی زلفوں والا) کہنے لگتے۔چنانچہ سیّدنا فاروق اعظم نے آپ کے حلیہ مبارک کا حسین تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی زلفِ مشکبار کا تذکرہ یوں کیا:

  كان نبى اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ...ذو وفرة.26
  حضور نبی کریم لٹکتی ہوئی زلفوں والے تھے۔

طویل زلفیں

جب آپ کی زلفیں مبارک شانوں کو چھونے لگتیں تو صحابہ کرام فرطِ محبت سے آپ کو "ذی جمۃ (کاندھوں سے چھوتی ہوئی زلفوں والا)" کہہ کر پکارتے۔چنانچہ حضرت براء بن عازب روایت کرتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مربوعا بعید ما بین المنكبین وكانت جمته تضرب شحمة اذنیه.27
  حضور نبی کریم میانہ قد تھے آپ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ آپ کی زلفیں آپ کے مبارک کانوں کی لوکو چھوتی تھیں۔

حضرت براء ہی سے مروی ہے:

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یضرب شعره منكبیه.28
  حضور نبی کریم ﷺکی زلفیں کاندھوں کو چھورہی ہوتی تھیں۔

اس کو صاحب الوفاء نے بھی نقل کیا ہے۔ 29اسی حوالہ سے حضرت ہند بن ابی ہالہ روایت کرتے ہیں:

  یجاوز شعره اذنه اذا ھووفره.30
  آپ کے سر اقدس کے بال مبارک جب لمبے ہوتے تھے تو کانوں کی لو سے ذرا نیچے ہوتے تھے۔

مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کی زلف ِ عنبریں مختلف حالات میں کبھی کانوں کی لو تک،کبھی کندھوں تک، کبھی ان دونوں کے درمیان تک ہوتی تھیں۔اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ بعض حالات میں آپ کے گیسو مبارک اتنے دراز ہوتے کہ کاندھوں کو چھورہے ہوتے اور وہاں تک لٹک جایا کرتے تھے۔

اختلاف روایات میں تطبیق

آپ کے مبارک بالوں کے بارے میں احادیث میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:

  1. "جمۃ" ایسے بال جو کاندھوں کو چھورہے ہوں۔
  2. "وفرۃ"ایسے بال جو کانوں کی لو تک ہوں۔
  3. "لمۃ"ایسے بال جو کانوں سے نیچے ہوں مگر کاندھوں کو نہ چھوئیں۔

صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ آپ کے بال کانوں تک تھے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ نہیں بلکہ کاندھوں تک تھے۔بنظر غائر دیکھا جائے تو ان میں کوئی تعارض نہیں اس لیے کہ یہ مختلف اوقات کے احوال ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک ہی صحابی نے مختلف احوال بیان کئے ہیں حضرت قاضی عیاض ان احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

  ان ذلك لاختلاف الاوقات فكان اذا ترك تقصیرھا بلغت المناكب واذا قصرھا كانت الى الاذن اوشحمتھا او نصفھا فكانت تطول وتقصر بحسب ذلك.31
  یہ مختلف احوال کا بیان مختلف اوقات کی وجہ سے ہے۔ عدم حجامت کی صورت میں کاندھوں تک پہنچ جاتے اور حجامت کے بعد کانوں کی لو یا اس کے نیچے تک ہوتےاور اسی اعتبار سے کبھی بڑے اور کبھی چھوٹے ہوتے۔

اہم نکتہ

ان احادیث کو پڑھنے کے بعد غور کیجئے کہ صحابہ کرام کو محبوب خدا سے کس قدر والہانہ محبت وعقیدت تھی اور وہ آپ کی مقدس زلفوں کے کس طرح اسیر ہوچکے تھے کہ جب بھی آپ کے حسن وجمال کا تذکرہ کرتے، اسے آپ کی زلفوں کے ذکر سے زینت دے کر اپنے دل و جاں کی راحت کا سامان کرتے ۔اگر آپ کی زلفیں کانوں کی لو کو چھورہی ہوتیں تو وہ پیار سے آپ کو"ذی قرہ" (کانوں کی لو تک زلفوں والا) کہتے۔ اگر کچھ بڑھ کر کانوں کی لو سے نیچے ہوجاتیں تو آپ کو"ذی لمۃ" (کانوں کی لو سے نیچے زلفوں والا) کہہ کر پکارتے تھے اور کبھی شبانہ روز مصروفیات کی وجہ سے زلفیں بڑھ کر مبارک شانوں کو چھونے لگتیں تو وہ فرطِ محبت میں"ذی جمۃ" (کاندھوں سے چھونے والی زلفوں والا) پکارتے۔

آپ کے گیسؤے مبارک میں مانگ

سابقہ روایات میں گزرچکا ہے کہ آقا مانگ نکالنے کے لیے خود تکلف نہیں فرمایا کرتے تھے اور نہ ہی آپ کو اس کی حاجت تھی ۔چنانچہ آپ کے آرائشِ گیسو کے مبارک معمول کے بارے میں حضرت عبداﷲ بن عباس فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یسدل ناصیته سدل اھل الكتاب ثم فرق بعد ذلك فرق العرب.32
  حضور نبی کریم پیشانی اقدس کے اوپر سامنے والے بال بغیر مانگ نکالے پیچھے ہٹا دیتے تھے جیسا کہ اہل کتاب کرتے ہیں لیکن بعد میں آپ اس طرح مانگ نکالتے جیسے اہل عرب نکالا کرتے۔

اسی طرح امام قرطبینے آپ کے خصائص میں بیان کیا ہے:

  و كان شعره صلى اللّٰه علیه وسلم باصل الخلقة مسرحا.33
  آپ کے مبارک بال خلقی طور پر کنگھی شدہ تھے۔

اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ کبھی کبھی آپ میری گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتے تو میں بطور محبت آپ کےسر اقدس میں مانگ نکالتی تھی۔چنانچہ آپ فرماتی ہیں:

  اذا فرقت لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم راسه صدعت فرقة عن یافوخه وارسلت ناصیته بین عینیه.34
  میں آپ کے سر اقدس کے درمیان سے آپ کی مانگ نکال کر بالوں کو سر کے دونوں طرف کردیتی اور پیشانی کے بال دونوں آنکھوں کے درمیان چھوڑ دیتی تھی۔

اسی طرح دوسرے مقام پر اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ آپ کی مانگ کے حسن وجمال کو ایک خوبصورت تشبیہ دیتے ہوئے فرماتی ہیں:

  وكان اذا امتشط بالمشط كأنه حبك الرمال.35
  "آپ جب سر اقدس میں کنگھی فرماتے تو اس طرح خوبصورت مانگ نکلتی جس طرح سفید ریت میں ہوا کے ساتھ خوبصورت راستہ بن جاتا ہے۔"

کسی بھی شخص کے سر پر بال ہوں اور وہ بھی لمبے یعنی زلفیں ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص بال کے نہ ہونے کے خلقی عیب سے مبرا ہے۔ ہر شخص جس کے سر پر بال نہ ہوں یا پھر ہوں تو بہت کم ہوں وہ اس بات کا خواہشمند رہتاہے کہ اس کے بال اُگ آئیں یا کم ہونے کی صورت میں اس کی چاہت ہوتی ہے کہ وہ گھنے ہوجائیں ۔کیونکہ بال انسان کے سر کے لیے پردہ کا کام دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انسان کے حسن و جمال میں اضافہ کا سبب ہوتے ہیں۔ ہر آدمی اپنی چاہت کے مطابق کم یا زیادہ بال رکھتا اور پھر اس کوحسب حال و ضرورت ترشواتا ہے تاکہ اس کی شخصی وجاہت قائم و دائم رہے۔آقائے کریم کے بال مبارک بالکل ویسے ہی تھے جیساکہ انھیں ہونا چاہیے تھا یعنی آپ کے بال مبارک گھنے اور مکمل تھے۔ ان بالوں کی رنگت سیاہ تھی جو عرب خطہ کا خاصہ ہے لیکن گیسو مبارک کی سیاہی عام نہ تھی بلکہ ان میں قدرتی طور پرایسی چمک تھی کہ گویا بالوں میں تیل لگایا گیا ہو۔یعنی بالوں کے رنگت پھیکی نہ تھی بلکہ زور دار اور چمک دار تھی جس سے وہ بہت زیادہ خوبصورت نظر آتے تھے ۔ آپ بالوں کو بے ترتیب اور غیر منظم کبھی نہ چھوڑتے بلکہ ان کو نہایت سلیقہ و شائستگی سے آراستہ رکھتے اور اس کے ساتھ ساتھ بالوں میں آپ نے ہمیشہ صرف ایک ہی انداز اختیار نہیں فرمایا بلکہ حسب حال کبھی حلق اور کبھی قصر فرمایا اور کبھی گیسو مبارک کانوں کو چھورے ہوتے ، کبھی اس سے بھی بڑھ جاتے اور کبھی اتنے طویل ہوجاتے کہ مبارک کاندھوں تک پہنچ جاتے۔ آپ نے بالوں کے حوالے سے یہ مختلف انداز اس لیے اختیار فرمائے تاکہ آپ کی امت کے مرد حضرات اپنے حسب چاہت آپ کی اتباع میں جس انداز سے اپنے بال رکھیں وہ آپ کے طریقہ (Style) کے موافق ہواور وہ سنت کے اجرو برکات سے محروم نہ رہیں۔

 


  • 1 القرآن ،سورۃ الضحیٰ 93: 02
  • 2 شاہ عبد العزیز بن ولی اﷲ الدہلوی ، تفسیر عزیزی ، مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ ، یوپی ، انڈیا، 1388، ص:219
  • 3 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی ، دلائل النبوۃ ،ج -2 ، مطبوعۃ :دار النفائس بیروت، لبنان، 1986ء ، ص:637
  • 4 احمد بن عمرو بن عبد الخالق ابن البزار ،مسند البزار، حدیث : 645 ، ج -2 ، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ ، السعودیۃ، 2009 ء، ص : 244-245
  • 5 عبد الرزاق بن ہمام صنعانی ، مصنف عبد الرزاق ، حدیث : 20490 ، ج -11 ، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت ، لبنان،
  • 6 ابوبکر بن ابی عاصم شیبانی ، الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم، حدیث:947 ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الرایۃ ، الریاض، السعودیۃ،1991ء، ص:199
  • 7 محمد بن سعد البصری ، الطبقات الکبریٰ لابن سعد ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:321
  • 8 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، سنن الترمذی ، حدیث: 1754، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:233
  • 9 محمد بن اسماعیل بخاری ، صحیح البخاری، حدیث : 5906 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ، مصر2003ء، ص:1226
  • 10 ابوبکر بن ابی شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث : 31805 ، ج -6 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد ، الریاض، السعودیۃ، 1409ھ ، ص:328
  • 11 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1993ء ، ص:15
  • 12 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، ص:48-49
  • 13 ابوبکر بن ابی عاصم شیبانی ، الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم ، حدیث: 1232 ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الرایۃ الریاض، السعودیۃ،1991 ء، ص :439-440
  • 14 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، ص:48-49
  • 15 محمد بن يوسف الصالحئ الشامي، سبل الهدى والرشاد ،ج-2 ،مطبوعہ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، ص:15
  • 16 ابوبکر محمد بن الحسین الاجری ، الشریعۃ للآجری ، حدیث : 1022 ، ج -3 ، مطبوعۃ: دار الوطن، الریاض، السعودیۃ، 1999ء، ص: 1509-1510
  • 17 محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری (مجلد) ، حدیث : 3551 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان المنصورۃ ، مصر2003ء، ص:744
  • 18 مسلم بن الحجاج قشیری ، صحیح مسلم ، حدیث : 2337 ، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:1818
  • 19 عمر بن زید بصری ، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ ،ج -2، مطبوعۃ:مکتبۃ جدۃ، جدۃ، السعودیۃ، 1399ھ، ص:612
  • 20 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی ، سنن نسائی، حدیث : 5234 ، ج-8 ، مطبوعۃ: مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، السوریۃ،1986 ء ص:183
  • 21 مسلم بن الحجاج قشیری ،صحیح مسلم، حدیث : 2337 ، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:1818
  • 22 احمد بن حنبل شیبانی ، مسند احمد ، حدیث : 17043 -17046 ،ج-5 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1994ء، ص : 168- 169
  • 23 احمد بن حنبل شیبانی ، مسند احمد ، حدیث : 17498، ج-29 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:43
  • 24 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، سنن الترمذی ، حدیث: 1755 ، ج -6 ، مطبوعۃ : دار الغرب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:258
  • 25 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، ص:48-49
  • 26 علی بن حسن ابن عساکر ، تاریخ دمشق لابن عساکر ، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1995 ء ،ص:264
  • 27 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدیۃ حدیث : 25 ، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988، ص:35
  • 28 مسلم بن الحجاج قشیری ، صحیح مسلم ، حدیث : 2338 ، ج -4 ، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:1819
  • 29 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزي، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:48-49
  • 30 ابوبکر بن ابی عاصم شیبانی ، الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم ، حدیث: 1232 ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الرایۃ ، الریاض، السعودیۃ، 1991ء، ص :439-440
  • 31 نور الدین بن سلطان القاری ، جمع الوسائل فی شرح الشمائل ، ج -1 ، مطبوعہ : نور محمد اصح المطابع کراچی، پاکستان ، (سن اشاعت ندارد)، ص:18
  • 32 محمد بن حبان ، الثقات ، حدیث: 8879 ، ج -7 ، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1975ء، ص:34
  • 33 محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:18
  • 34 احمد بن حنبل شیبانی ،مسند احمد ، حدیث : 26355 ، ج -43 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:375
  • 35 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ الاصفہانی ، دلائل النبوۃ ،ج-2 ، مطبوعۃ :دار النفائس ، بیروت، لبنان، 1986ء ، ص:63