encyclopedia

غزوہ بنو لحیان | دھوکہ دہی، شہادتِ صحابہ اور آپ ﷺ کا انتقام

Published on: 30-Jun-2025
نام غزوہ:غزوہ بنو لحیانتاریخ:5 ہجری/627 عیسویءسبب:مسلمانوں کے قافلوں اور مال پر حملے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کیا۔مقام غزوہ:مدینہ منورہ کے شمال میں بنو لحیان کی بستی کے علاقے میںمسلمانوں کی تعداد:تقریباً 200 صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکفار کی تعداد:تقریباً 1000 افرادمسلمان شہداء:کوئی خاص شہید نہ ہوادشمن کا جانی نقصان:دشمن کے کئی قیدی بنائے گئے اور کچھ مارے گئےمال غنیمت:قیدی، مال اور جانور شامل تھےنتائج و ثمرات:دشمن کی طاقت کم ہوئی، مدینہ کے لیے امن قائم ہوا، اسلامی ریاست کی ساکھ مضبوط ہوئی، اور دشمن اسلام کو سبق حاصل ہوا۔

غزوہ بنو لحیان سن 6 ہجری، ماہ ربیع الاول، میں پیش آیا۔ 1 یہ ایک انتقامی مہم تھی جو نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بنولحیان کے قبیلے کے خلاف مرتب کی کیونکہ انہوں نے ماضی میں مسلمانوں کے خلاف دھوکہ دہی سے کام لیا تھا اور کئی صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو بے دردی سے شہید کردیا تھا۔ 2

غزوہ بنو لحیان کا سبب

غزوہ بنو لحیان کے پیچھے ایک نہایت دردناک واقعہ تھا جسے رجیع کا سانحہ کہا جاتا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بعض عرب قبائل نے نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس آکر عرض کی کہ ان کے علاقے میں کچھ صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو تعلیم و تبلیغ کے لیے بھیجا جائے تاکہ وہ دین کا علم حاصل کر سکیں۔چنانچہ ان کے مطالبہ پر رسول کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے 6 صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو ان کے ساتھ روانہ فرمایا۔ جب یہ قافلہ رجیع نامی مقام پر پہنچا، تو بنو لحیان قبیلہ کے لوگوں نے دھوکہ سے اچانک ان صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو گھیر لیا اور دو صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے علاوہ باقی سب کو شہید کردیا۔ مزید یہ کہ ان دو بچ جانے والے صحابیوں کو قریش مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔ 3

یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں کو غمزدہ کر دیا۔ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بھی اس واقعے پر بہت دکھ پہنچا مگر اس وقت حالات ایسے نہ تھے کہ فوری انتقام لیا جاسکے کیونکہ اس وقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہود کی طرف سے داخلی انتشار کا سامنا تھا اور خارجی خطرات بھی مد نظر تھے جس میں بڑا خطرہ قریش مکہ تھے۔ 4

غزوہ بنو لحیان کی تیاری

جب 6 ہجری میں حالات کچھ سازگار ہوئے تو نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بنو لحیان کے خلاف ایک مہم روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 5 بنو لحیان کا علاقہ مدینہ منورہ سے 200 میل سے بھی زیادہ فاصلہ پر واقع تھا لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے اپنے عظیم صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا قصاص پیش نظر تھا اس لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس دور دراز اور کٹھن سفر کی پرواہ کیے بغیر بنو لحیان کی طرف جانے کا قصد فرمایا۔ 6 200 صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو لے کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ سے نکلے جن میں 20 گھڑ سوار بھی شامل تھے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےمدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم Radi Allah Anho کو اپنا نائب بنایا۔ اس سفر میں نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک منفرد جنگی حکمت عملی اختیار فرمائی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دشمن کو غافل رکھنے کے لیے ایسا راستہ اختیار کیا کہ ان کو یہ تاثر ملے کہ مسلمان شام کی طرف جا رہے ہیں تاکہ بنو لحیان کو ان کے جاسوسوں کے ذریعہ اس مہم کی خبر نہ ہو سکے۔ 7 اس حکمت عملی کی وجہ سے بنولحیان مسلمانوں کی آمد سے غافل رہے اور انہیں حملے کو روکنے کے لیے پہلے سے کوئی تیاری کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ منورہ سے نکل کر مقام”جرف“ کا راستہ اختیار کیا پھر وہاں سے مقام ”بین“ سے ہوتے ہوئے مقام ”صخیرات الثمام“ پہنچے اور وہاں سے یکدم راستہ بدل کر بنو لحیان کے علاقہ کے قریب وادی ”غران“ پہنچ گئے۔ 8

بنو لحیان کے علاقے میں مسلمانوں کی آمد

قبیلہ بنو لحیان کو جب مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ پہلے ہی پہاڑوں میں چھپ گئے اور مقابلے کے لیے سامنے نہ آئے۔ اس موقع پر نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے رجیع کے مقام پر قیام فرمایا جہاں مسلمانوں کے شہید صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا خون بہایا گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شہداء کے لیے دعا فرمائی، دو دن وہاں قیام کیا اور آس پاس کئی دوسری مہمات بھی سر فرمائیں۔ 9

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مدینہ واپسی کا سفر

جب بنولحیان پہاڑوں میں پناہ لے کر کھلے میدان میں جنگ کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ فرمایا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam عسفان تک تشریف لے گئے جو مکہ کے قریب ایک مقام تھا۔ یہاں نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قریشِ مکہ پر دھاک بٹھانے کے لیے قیام فرمایا تاکہ وہ جان لیں کہ مسلمان مکہ کے قریب تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ 10 اس کے بعد نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ واپس لوٹ آئے۔ اس غزوہ میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ سے 14 دن باہر رہے۔ 11

غزوہ بنو لحیان کے نتائج

بنی لحیان جو خود مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے، اب مسلمانوں سے اتنے خوفزدہ ہوگئے تھے کہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ 12 ان کا پسپا ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ مسلمان اب پہلے کی طرح کمزور نہیں رہے تھے بلکہ طاقتور ہو چکے تھے اور اب اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر خاموش رہنے والے نہیں تھے۔ وہ پہاڑوں میں چھپ کر مسلمان فوج کی واپسی کا انتظار کرنے لگے تاکہ ان کی مسلمانوں کے ساتھ مڈبھیڑ کا خطرہ ختم ہوجائے۔ 13 مکہ کے قریب عسفان تک پہنچ کر مسلمانوں نے قریش کو بھی یہ پیغام دے دیا تھا کہ وہ جب چاہیں مکہ کے قریب پہنچ سکتے ہیں 14 اور ان پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں۔


  • 1  ابو الفتح محمد بن محمدابن سید الناس اليعمري، عیون الأثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 119
  • 2  ابو محمد علي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (بدون تاریخ الطبع)، ص: 159
  • 3  محمود شیت خطاب، الرسول القائد، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1422ھ، ص: 248
  • 4  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-5، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 30
  • 5  موسى بن راشد العازمي، اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون، ج-3، مطبوعۃ: المكتبة العامرية للإعلان والطباعة والنشر والتوزيع، الکویت، 2011م، ص: 231
  • 6  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-5، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 31
  • 7  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 30
  • 8  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 535- 536
  • 9  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، بدون تاریخ الطبع، ص: 4
  • 10  موسى بن راشد العازمي، اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون، ج-3، مطبوعۃ: المكتبة العامرية للإعلان والطباعة والنشر والتوزيع، الکویت، 2011م، ص: 232
  • 11  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، بدون تاریخ الطبع، ص: 4
  • 12  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 280
  • 13  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-5، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 33
  • 14  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 258

Powered by Netsol Online