Encyclopedia of Muhammad

غزوہ سفوان

Published on: 30-Jun-2025

غزوہ عشیرہ کے چند دن بعد، 1 سن 2 ہجری، جمادی الآخر کے مہینے میں 23 رسول اللہ sym-1 غزوہ سفوان کے لیے روانہ ہوئے۔ 4اس کی وجہ یہ بنی کہ آپ sym-1 مکہ کے ایک نامور شہسوار کرز بن جابر فہری کے تعاقب میں مقام سفوان تک گئے تھے کیونکہ اس نے مسلمانوں کے اونٹ اور دیگر چرنے والے جانور چُرائے تھے ۔ وہاں پہنچ کر آپ sym-1 نے جب کرز بن جابر کے آثار نہ دیکھے تو آپ sym-1 واپس مدینہ منورہ لوٹ آئے تھے۔ 5 اس غزوہ کو بدرالاولی کا نام بھی دیا گیا ہے۔ 6

کرز بن جابر کی چوری

وادی عقیق کے قریب امّ خالد نام کی ایک چراہ گاہ تھی جہاں اہل مدینہ اپنے جانور چَرایا کرتے تھے۔ 7کرز بن جابر فہری نےچند سواروں کے ہمراہ مدینہ منورہ کی اس چراہ گا ہ پر حملہ کیا 8اور مسلمانوں کے کچھ اونٹ اور دیگر چرنے والے جانور اپنے ساتھ لے کر فرار ہوگیا ۔9 رسول اللہ sym-1 کو اس واردات کی خبر ملی تو آپ sym-1 نے فوراً ایک لشکر تیا ر کیا۔ لشکر کا عَلَم حضرت علی sym-5 کو دیا10اور 70 صحابہ کرام sym-7 کو لیکر مدینہ منورہ سے وادی سفوان کی طرف نکلے 11 جو کہ بدر کے نواح میں مدینہ منورہ سے 73 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ 12کرز بن جابر کا یہ اقدام اہل مکہ کی طرف سے پہلا قدم تھا جو انہوں نے اہل مدینہ کے خلاف اٹھایا تھا۔ یہ حملہ اسلامی ریاست کے لیے ایک ناقابل فراموش حملہ تھا جس کا بھرپور جواب دینا ضروری تھا اس لیے آپ sym-1 ایک طرف لشکر لے کر خود روانہ ہوئے۔دوسری طرف آپ sym-1 نے حضرت سعد بن ابی وقاص sym-5 کو 8 مہاجرین کے ہمراہ دوسرے راستے سے اس کا پیچھا کرنے کےلیے روانہ کیا جنہوں نے مقام خرار تک کرز بن جابر کو تلاش کیا لیکن اس کو ڈھونڈ نہ سکے۔ 13 رسول اللہ sym-1 نے بھی مقام سفوان تک کرز بن جابر کو تلاش کیا اور اس سے آگے جانے کو بے سود سمجھ کر واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئےاور رجب اور شعبان کا مہینہ مدینہ منورہ میں ہی گزارا۔ 14

رسول اللہ sym-1 کی اس حکمت عملی سے اہل مکہ کو یہ پیغام ملا کہ مسلمان قیادت ہرممکنہ حملہ کا جواب دینے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتی ہےاور کسی بھی صورت اپنی سیاسی خود مختاری پر مصالحت کے لئے تیار نہیں ہے ۔


  • 1  ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مصطفی البابی الحلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص:601
  • 2  محمد بن عمر بن مبارك الحميري، حدائق الأنوار ومطالع الأسرار في سيرة النبي المختار، مطبوعۃ: دار المنهاج، جدۃ، السعودیۃ، 1419ھ، ص: 517
  • 3  محمد بن احمد باشمیل، من معارک الاسلام الفاصلۃ: موسوعة الغزوات الكبرى، ج-1، مطبوعۃ: المکتںۃ السلفیۃ ، القاھرۃ، مصر، 1408ھ، ص:114
  • 4  ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مصطفی البابی الحلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص:601
  • 5  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:41
  • 6  ابو محمد عبد الملک بن ہشام المعافری، ،السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مصطفی البابی الحلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص:601
  • 7  ابو عبداللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی، معجم البلدان، ج-3مطبوعۃ :دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص:353
  • 8  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة،ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008ء، ص:13
  • 9  محمد بن احمد باشمیل، من معارک الاسلام الفاصلۃ: موسوعة الغزوات الكبرى، ج-1، مطبوعۃ: المکتںۃ السلفیۃ ، القاھرۃ، مصر، 1408ھ، ص:114- 115
  • 10  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-2، المطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 2012م، ص:237
  • 11  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم للطباعۃ واللنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2010ء، ص: 219
  • 12  ڈاکٹر عبدالمالک ، اطلس الغزوات، مطبوعہ:مکتبۃ العرب، کراچی، پاکستان، 2022ء، ص:60
  • 13  أبو محمد علي بن أحمد ابن حزم الأندلسي، جوامع السیرۃ النبوية، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 78
  • 14  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:41

Powered by Netsol Online