غزوہ عشیرہ کے چند دن بعد، 1 سن 2 ہجری، جمادی الآخر کے مہینے میں 23 رسول اللہ غزوہ سفوان کے لیے روانہ ہوئے۔ 4اس کی وجہ یہ بنی کہ آپ
مکہ کے ایک نامور شہسوار کرز بن جابر فہری کے تعاقب میں مقام سفوان تک گئے تھے کیونکہ اس نے مسلمانوں کے اونٹ اور دیگر چرنے والے جانور چُرائے تھے ۔ وہاں پہنچ کر آپ
نے جب کرز بن جابر کے آثار نہ دیکھے تو آپ
واپس مدینہ منورہ لوٹ آئے تھے۔ 5 اس غزوہ کو بدرالاولی کا نام بھی دیا گیا ہے۔ 6
وادی عقیق کے قریب امّ خالد نام کی ایک چراہ گاہ تھی جہاں اہل مدینہ اپنے جانور چَرایا کرتے تھے۔ 7کرز بن جابر فہری نےچند سواروں کے ہمراہ مدینہ منورہ کی اس چراہ گا ہ پر حملہ کیا 8اور مسلمانوں کے کچھ اونٹ اور دیگر چرنے والے جانور اپنے ساتھ لے کر فرار ہوگیا ۔9 رسول اللہ کو اس واردات کی خبر ملی تو آپ
نے فوراً ایک لشکر تیا ر کیا۔ لشکر کا عَلَم حضرت علی
کو دیا10اور 70 صحابہ کرام
کو لیکر مدینہ منورہ سے وادی سفوان کی طرف نکلے 11 جو کہ بدر کے نواح میں مدینہ منورہ سے 73 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ 12کرز بن جابر کا یہ اقدام اہل مکہ کی طرف سے پہلا قدم تھا جو انہوں نے اہل مدینہ کے خلاف اٹھایا تھا۔ یہ حملہ اسلامی ریاست کے لیے ایک ناقابل فراموش حملہ تھا جس کا بھرپور جواب دینا ضروری تھا اس لیے آپ
ایک طرف لشکر لے کر خود روانہ ہوئے۔دوسری طرف آپ
نے حضرت سعد بن ابی وقاص
کو 8 مہاجرین کے ہمراہ دوسرے راستے سے اس کا پیچھا کرنے کےلیے روانہ کیا جنہوں نے مقام خرار تک کرز بن جابر کو تلاش کیا لیکن اس کو ڈھونڈ نہ سکے۔ 13 رسول اللہ
نے بھی مقام سفوان تک کرز بن جابر کو تلاش کیا اور اس سے آگے جانے کو بے سود سمجھ کر واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئےاور رجب اور شعبان کا مہینہ مدینہ منورہ میں ہی گزارا۔ 14
رسول اللہ کی اس حکمت عملی سے اہل مکہ کو یہ پیغام ملا کہ مسلمان قیادت ہرممکنہ حملہ کا جواب دینے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتی ہےاور کسی بھی صورت اپنی سیاسی خود مختاری پر مصالحت کے لئے تیار نہیں ہے ۔