encyclopedia

غزوہ بنو قینقاع | وجوہات، نتائج و ثمرات اور یہود کی جلاوطنی

Published on: 07-Nov-2025
نامِ غزوہ:غزوۂ بنو قینقاعہجری تاریخ:15 شوال، 2 ہجریعیسوی تاریخ (تقریباً):اپریل 624ءمقام:قلعۂ بنو قینقاعدشمن فریق:قبیلہ بنو قینقاعدشمن کی تعداد:کل 700 ، 300 زِرہ پوشمسلمانوں کی تعداد:600 سے 700 مجاہدینوجہِ غزوہ:بازارِ قینقاع میں ایک مسلمان خاتون کی بےحرمتی اور ایک مسللمان کا قتل۔پس منظر:بدر کی فتح کے بعد مسلمانوں کے خلاف حسد ، بغض، کینہ اور غصہ۔جنگ یا محاصرہ:15 دنوں پر مشتمل محاصرہنتیجہ:قبیلہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا، نبی ﷺ کے حکم سے مدینہ سے نکال دیا گیا۔غنیمت:کافی مقدار میں اسلحہ و زرہ بکتر حاصل ہوئیں۔نتائج و ثمرات:مسلمانوں کو بغیر جانی نقصان کے فتح حاصل ہوئی،بڑی مقدار میں اسلحہ حاصل ہوا؛ یہود اور دیگر دشمنان اسلام کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ گیا جس وجہ سے وہ اسلام دشمنی سے باز رہے۔

غزوہ بنو قینقاع سن2 ہجری، 15 شوال، بروز ہفتہ کو پیش آیا۔1اس غزوہ میں رسول اللہ Alaihmas Salam نے بنو قینقار کے قلع کامحاصرہ فرمایا جو کہ بغیر کسی خون خرابہ کے 15 دن تک جاری رکھا۔2اس محاصرہ میں یہودیوں کے 700کے قریب افراد قلعہ بند تھے جن میں 300 زِرہ پو ش تھے۔3غزوه قینقاع میں مسلمانوں كو بغیر جنگ اور جانی نقصان کے فتح حاصل ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ بڑی تعداد میں اسلحہ ان کے حصہ میں مال غنیمت كے طور پر آیا۔4

بنو قینقاع کا محل وقوع

مسجد نبوی Alaihmas Salam سے مسجد قبا جاتے ہوئے مدینہ منورہ کے جنوب میں یہود کی بستیاں موجود تھیں۔ 5ان میں سےایک قلعہ بنو قینقاع کا بھی تھا جس میں یہود کے اس قبیلہ کے لوگ آباد تھے۔ان کا مشہور بازار، جو سوقِ قینقاع کہلاتا تھا، مدینہ کا مرکزی تجارتی مرکز سمجھا جاتا تھا جہاں زیورات سازی، اسلحہ سازی اور دیگر حرفتی کام کیے جاتے تھے۔

غزوہ کا سبب

جب حضرت محمد مصطفیٰ Alaihmas Salam مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ Alaihmas Salam نے وہاں موجود یہودی قبائل اور آس پاس کے قبائل سے تعلقات استوار فرما کر ایک میثاق مرتب فرمایا۔ 6اس معاہدہ کے اندر ایک شق تھی جس کے مطابق یہ معاعدہ کسی ظالم یا گناہ گار (فساد کرنے والے) کو تحفظ فراہم نہیں کرے گا۔ 7کچھ دن بعد ایک مسلمان خاتون یہودیوں کے بازار میں کچھ خریداری کرنے گئیں۔ خریداری کے بعد جب وہ واپس ہونے لگیں تو وہاں موجود ایک یہودی نے ان کے لباس کو کسی چیز سے باندھ دیا جس کی وجہ سے جب خاتون چلنے لگیں تو ان کے جسم سے کپڑا سرک گیا جس کو دیکھ کر یہودی قہقہے لگانے لگے۔ خاتون نے جب یہ حرکت دیکھی تو چیخ کر مسلمانوں کو مدد کے لئے پکارہ۔اس عورت کی فریاد اتنی دلسوز تھی کہ ایک مسلمان کی غیرت اس کو برداشت نہ کرسکی اور اس نے موقع پر ہی متعلقہ یہودی کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ جب بات بڑھی تو جواب میں یہودیوں نے مل کر اس مسلمان کو شہید کردیا ۔ 8مسلمان کا اس یہودی کا قتل کرنا معاہدہ کے خلاف اس لئے نہیں تھا کیونکہ یہ معاہدہ کسی ظالم یا فسادی کو تحفظ مہیا نہیں کرتا تھا۔ اس کے برعکس یہودیوں نے جب مل کر اس مسلمان کو شہید کردیا تو یہ معاہدہ کی صریح خلاف ورزی تھی کیونکہ معاہدہ میں یہ بات طے تھی کہ کسی بھی مسئلہ کی صورت میں نبی کریم Alaihmas Salam سے رابطہ کیا جائے گا۔ اس شق كو بیان كرتے ہوئے ابن ہشام فرماتے ہیں:

وإنه ما كان بين أهل هذه الصحيفة من حدث أو اشتجار يخاف فساده، فإن مرده إلى اللّٰه عز وجل، وإلى محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وإن اللّٰه على أتقى ما في هذه الصحيفة وأبره.9
اس دستور کو تسلیم کرنے والوں کے درمیان اگر کوئی مسئلہ یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اور اللہ اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات پر احتیاط اور وفا شعاری کے ساتھ عملدرآمد کرے۔

اس عہد شکنی کے باوجود نبی کریم Alaihmas Salam اہل یہود کے پاس تشریف لے گئے تاکہ اس معاملہ کو بغیر کسی مزید خون خرابے کے حل کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے رسول اللہ Alaihmas Salam نے یہودی باشندوں کو جمع کیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی10لیکن یہود یوں نے بڑی ڈھٹائی سے آپAlaihmas Salam کی دعوت کو رد کردیا اور کہنے لگے کہ ابھی آپ Alaihmas Salam کا مقابلہ ان کی اپنی قوم کے نا تجربہ کار لوگوں سے ہی ہوا ہے جب یہ تجربہ کار جنگجوؤں سے لڑیں گے تو ان کو مصائب جنگ کا اندازہ ہوگا۔11رسول اللہ Alaihmas Salam نے ان کی بدتمیزی پر مبنی یہ بات بڑے صبر و تحمل سے سنی اور بغیر کسی رد عمل کے واپس تشریف لے گئے۔صحابہ کرام Alaihmas Salam بھی رسول اللہ Alaihmas Salam کے ساتھ خاموشی سے اپنے غم وغصہ کو دبا کر واپس تشریف لے گئے اور اس وقت صبر وبرداشت سے کام لیا ۔12

یہود سے جنگ کرنے کی اجازت

میثاق مدینہ کی صورت میں رسول اللہ Alaihmas Salam چونکہ یہود سے جنگ نہ کرنے کا عہد کرچکے تھے اس لیے آپAlaihmas Salam از خود اقدام جنگ نہیں فرمارہے تھے لیکن اس طرح کے عہد شکنی کے واقعہ اور اس سے قبل بھی اہل یہود کی سازشوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ Alaihmas Salam کو یہود کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم کرنے کا حکم دےدیا اور فرمایا :

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ 5813
اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر واپس لوٹا دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ Alaihmas Salam کو کھلی اجازت تھی کہ اب آپ Alaihmas Salam یہود کے ساتھ کئے ہوئے عہد کے پابند نہیں ہیں لہذا آپAlaihmas Salam ان کے خلاف اب اقدامی کاروائی حملہ کی صورت میں کرسکتے ہیں۔ اس ہی آیت کے نزول کے بعد آپ Alaihmas Salam نے یہود کےقبیلہ بنو قینقاع کے محاصرہ کا ارادہ فرمایا۔14

بنوقینقاع کا محاصرہ

حضرت محمدAlaihmas Salam صحابہ کرام Alaihmas Salam کی جماعت لے کر بنو قینقا ع کے قلعہ کی طرف روانہ ہوئے۔ لشکر کا جھنڈا حضرت حمزہ Alaihmas Salam کے ہاتھ میں دیا اور مدینہ منورہ میں ابو لبابہ Alaihmas Salam کو والی بنایا ۔ قلعہ کے قریب پہنچ کر مسلمانوں نے دیکھا کہ یہودیوں نے اپنے آپ کو قلع بند کردیا ہے۔ رسول اللہ Alaihmas Salam نے ان کا محاصرہ فرمایا اور بغیر کسی خون خرابہ کے 15 دن تک ان کا محاصرہ جاری رکھا۔15اس محاصرہ میں یہودیوں کے 700کے قریب افراد قلعہ بند تھے جن میں 300 زِرہ پو ش تھے۔16

یہود کی صلح کی کوشش

جب محاصرہ کو 15دن ہوگئے تو یہودیوں نے مغلوب زدہ ہوکر رسول اللہ Alaihmas Salam سے صلح کرنے کےلیے پیغام بھیجا کہ وہ مال کو قبول فرمالیں اور ان کی عورتوں کوان کے ساتھ رہنے دیں۔ 17رسول اللہ Alaihmas Salam نے باوجود ان کی ہٹ دھرمی، بدتمیزی اور وعدہ خلافی کے ان کوقلعہ سےنیچے آنے کی اجازت دے دی۔18

ریئس المنافقین کی دُہائی

یہودیوں کے جرم اور ہٹ دھرمی کی سزا تو قتل تھی لیکن جب ان کو قلعہ سے نکال کر باندھا گیا تو رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی رسول اللہ Alaihmas Salam کے پاس آیا اور مِنت کرنے لگا کہ آپAlaihmas Salam ان کو چھوڑ دیں اور قتل نہ کریں۔ رسول اللہ Alaihmas Salam نے اس کی بات اَن سنی کی تو وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگا جس کی وجہ سے آپ Alaihmas Salam نے یہود کی جان بخشی کردی اور ان کو وہاں سے فوری نکلنے کاحکم جاری فرمایا۔19

مومن اور منافق میں فرق

عبداللہ ابن ابی نے بھرپور کوشش کی کہ اس کی دوستی یہود کے ساتھ قائم رہے اور ان کی جان بخشی کےلیے اس نے بہت جتن کئے تاکہ ان کا نورِ نظر بن سکے۔ دوسری طرف حضرت عبادہ بن صامت Alaihmas Salam جن کے تعلقات اسلام سے قبل یہود کے ساتھ تھے، جب ان کو پتہ چلا کہ یہود نے رسول اللہ Alaihmas Salam کی بات نہیں مانی اور جنگ پر آمادہ ہوگئے ہیں تو وہ رسول اللہ Alaihmas Salam کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمانے لگے:

أتولى اللّٰه ورسوله صلى اللّٰه عليه وسلم والمؤمنين، وأبرأ من حلف هؤلاء الكفار وولايتهم.20
میں اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کی دوستی کو ترجیح دیتا ہوں۔اور ان کفار(یہود) کی دوستی اور تعلق سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت عبادہ بن صامت Alaihmas Salam کے اس عمل سے خوش ہوکر مومن اور منافق کے فرق پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل فرمائیں:21

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ51فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْہِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَۃٌ۝۰ۭ فَعَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَسَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِيْنَ5222
اے ایمان والو! یہود اور نصارٰی کو دوست مت بناؤ۔ یہ (سب تمہارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا، یقیناً اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔ سو آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں (نفاق اور ذہنوں میں غلامی کی) بیماری ہے کہ وہ ان (یہود و نصارٰی) میں (شامل ہونے کے لئے) دوڑتے ہیں، کہتے ہیں: ہمیں خوف ہے کہ ہم پر کوئی گردش (نہ) آجائے (یعنی ان کے ساتھ ملنے سے شاید ہمیں تحفظ مل جائے)، تو بعید نہیں کہ اﷲ (واقعۃً مسلمانوں کی) فتح لے آئے یا اپنی طرف سے کوئی امر (فتح و کامرانی کا نشان بنا کر بھیج دے) تو یہ لوگ اس (منافقانہ سوچ) پر جسے یہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں شرمندہ ہوکر رہ جائیں گے۔

یہود کی جلاوطنی اور مال غنیمت

یہودی اپنی عورتوں، بچوں اور دیگر سامان لے کر وہاں سے نکلے اور شام کے علاقہ کی طرف ہجرت کرگئے۔23حضرت محمدAlaihmas Salam نے یہود یوں کو اسلحہ کے بغیر نکلنے کا حکم دیا تھا اس لیے جب وہ قلعہ چھوڑ کر گئے تو مسلمانوں کو وہاں سے اچھی خاصی مقدار میں اسلحہ ملا جس میں سے رسول اللہ Alaihmas Salam نے 3کمانیں جن کے نام الكتوم ، الروحاء اورالبيضاء تھے، 3 تلواریں قلعی، بتّار اور حتف،242 زِرہیں الصغدیہ یا السغدیہ اور فضہ اور3 نیزے اپنے لئے پسند فرمائے۔ اس کے علاوہ اسلحہ بنانے کا سامان اور مزید جنگی آلات بھی مسلمانوں کو یہود سے حاصل ہوئے جس کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیاگیا۔غزوہ بدر کے بعد یہ پہلا غزوہ تھا جس میں رسول اللہ Alaihmas Salam کےلیے خمس نکالا گیا۔ 25

غزوہ قینقاع کے نتائج وثمرات

غزوہ بنو قینقاع میں رسول اللہ Alaihmas Salam کی قیادت میں مسلمانوں کو بغیر جانی نقصان کے فتح حاصل ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ بڑی تعداد میں اسلحہ بھی مال غنیمت میں آیا ۔26مسلمانوں کی اس فتح نے یہود کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردیااور دیگر اقوام کے لوگ بھی مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کی کھلی سازش کرنے سے وقتی طور پر دور رہے۔


  • 1  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة ﷺ ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 173
  • 2  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-۱، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 344
  • 3  أبو محمد علي بن أحمد ابن حزم الأندلسي، جوامع السیرۃ النبوية، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 121
  • 4  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 410
  • 5  ڈاکٹر عبدالمالک، اطلس الغزوات، مطبوعہ:مکتبۃالعرب، کراچی ، پاکستان، 2022ء، ص: 108
  • 6  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ مصطفی البابی حلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص: 501
  • 7  ایضا، ص: 504
  • 8  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ ، ج-4، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 179
  • 9  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ مصطفی البابی حلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص: 504
  • 10  ایضاً
  • 11  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 176
  • 12  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 256
  • 13  القرآن، سورۃ الانفال 8 : 58
  • 14  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-4، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 179
  • 15  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-۱، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 344
  • 16  أبو محمد علي بن أحمد ابن حزم الأندلسي، جوامع السیرۃ النبوية، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 121
  • 17  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-۱، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 344
  • 18  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة ﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 174
  • 19  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-۱، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 344
  • 20  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 49
  • 21  محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 315
  • 22  القرآن، سورۃ المائدۃ 5: 51-52
  • 23  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 179
  • 24  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس ﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، بدون تاریخ الطبع، ص: 410
  • 25  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-4، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 180
  • 26  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، بدون تاریخ الطبع، ص: 410

Powered by Netsol Online