صلح حدیبیہ کے بعدجب حضرت محمد مصطفیٰ
مشرکینِ مکہ کی طرف سے مطمئن ہوگئے تو سن 7 ہجری، محرم الحرام میں آپ
نے خیبر کے سرکش یہود کی سرکوبی کا ارادہ فرمایا جو مسلسل دشمنانِ اسلام کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرتے اور اُن کے ساتھ ممکنہ تعاون کرتے تھے۔ 1 رسول اللہ
اپنے ساتھ1600 جانباز لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے 2 جو کہ کئی سارے قلعوں پر مشتمل تھا، 3 جن میں 10 ہزار مسلح جنگجو موجود تھے۔ 4آپ
نے اُن پر لشکر کشی فرمائی اور ایک ایک کرکے تمام قلعے فتح کرلیے۔ اس معرکہ میں 93 یہودی جہنم رسید ہوئے اور 15 مسلمان شہید ہوئے۔5 اہل ِ ایمان کو عظیم کامیابی نصیب ہوئی اور بہت سارا مال غنیمت اور وسائل حاصل ہوئے۔ 6
خیبر میں جو یہودی آباد تھے ان میں سے ایک قبیلہ بنو نضیر بھی تھا جسے محمد رسول اللہ
نے مدینہ منورہ سےجلا وطن کیا تھا۔ ان لوگوں نے خیبر میں قیام کر کے اسلام کے خلاف برا بر سازشیں جاری رکھیں ہوئی تھیں۔ غزوہ خندق کا باعث بھی یہی لوگ تھے۔ انہوں نے قریشِ مکہ کو جا کر ورغلایا کہ وہ مدینہ منورہ پر چڑھائی کریں جس میں وہ ان مشرکین کی معاونت کریں گے۔ اس کے بعد یہ یہودی قبیلہ غطفان کے لوگوں کے پاس گئے اور اُنہیں بھی خیبر کی ایک سال کی پیداوار دینے کی شرط پر رسول اللہ
کے خلاف جنگ میں شامل ہونے پر آمادہ کر لیا۔7 پھر جب مشرکینِ مکہ نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرلیا تو ان سخت حالات میں ان یہودیوں کا سردار حیی بن اخطب بنوقریظہ کے پاس گیا اور اُنہیں بھی نقضِ عہد اور غدر پر آمادہ کر کے جنگِ احزاب میں قریش مکہ کا ساتھی بنا دیا اور اپنی طرف سے مدد کرنے کا بھر پور یقین دلایا ۔ 8 اسی طرح مستقبل میں بھی قوی خطرہ تھا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئیں اور موقع پا کر قیصرِ روم یا کسریٰ فارس سے مدد لے کر یا مسلمانوں کے دیگر دشمن قبائل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف چڑھائی کریں۔ اس بناء پر رسول اللہ
نے مشرکین مکہ کے ساتھ صلح کر کے ان کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد اس سازشی گروہ کی سرکوبی کا ارادہ فرمایااور ان کے خلاف لشکر کشی فرمائی۔ 9

جب غزوۂ خیبر کے لیے حضرت محمدمصطفیٰ
نے منادی کرائی تو اس مہم جوئی میں شریک ہونے کے لیے کچھ دیہاتی لوگ بھی آگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو حدیبیہ کے سفر میں رسول اللہ
کےساتھ شامل نہیں ہوئے تھےبلکہ اپنے کاموں میں مشغول ہونے کا عذر کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔اب غزوۂ خیبر میں اُنہیں مالِ غنیمت ملنے کی امیدتھی، اس لیے یہ رسول اللہ
کے ساتھ غزوۂ خیبر میں جانا چاہتے تھے۔ 10 ادھر رسول اللہ
نے اس غزوہ میں ساتھ لے جانے کے لیے صرف اپنے اُن ہی جانباز صحابہ کرام
کا انتخاب فرمایا جو آپ
کے ساتھ حدیبیہ کے سفر میں شریک ہوئے تھے۔ آپ
نے باقی لوگوں کے لیے یہ اعلان فرمایا کہ اُن میں سے صرف وہی لوگ اس سفر میں جاسکتے ہیں جو مالِ غنیمت کے طلب گار نہ ہوں اور جن کے دلوں میں صرف کلمۂ حق کو بلند کرنے کا شوق موجزن ہو۔ 11اس غزوہ میں آپ
کے ساتھ جانے والے صحابۂ کرام
کی تعداد 1600تھی جن میں سے 1400 پیادے اور 200 گھڑ سوار تھے اور ازواج مطہرات میں سے حضرت ام سلمہ
اس سفر میں آپ
کے ہمراہ تھیں۔ 12
خیبر میں تقریباً10 ہزار جنگجو تھےجنہیں اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ اور ناز تھا۔ اُن کے گوشۂ خیال میں بھی یہ نہ تھا کہ رسول اللہ
کبھی اُن پرلشکر کشی کریں گے۔ جب اُنہیں بتایا گیا کہ محمد
تمہارے خلاف حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں تووہ ہر روز نکل کر اپنے لشکر کی صف بندی کرتے تھےاور اپنی عسکری قوت پر اتراتے اور کہتے کہ محمد (
) کا لشکرکشی کرنا بہت دور کی بات ہے۔ 13
کےخادمِ خاص اور نائبخیبر کے سفر پر روانہ ہوتے وقت حضرت ابو طلحہ
نے آپ
کی خدمت کے لیے حضرت ام سلیم
کے پہلے خاوند مالک بن نضر کے بیٹے اور اپنی سوتیلی اولاد یعنی حضرت انس بن مالک
کو آپ
کی خدمت کے لئے مختص فرمایا۔ آپ
جہاں بھی فروکش ہوتے تو وہ آپ
کی خدمت کے لیے پیش پیش ہوتے تھے۔ 14 اسی طرح مدینہ منورہ میں ایک روایت کے مطابق حضرت نُمیلہ بن عبداللہ لیثی
کو 15جبکہ دوسری روایت کے مطابق حضرت سِباع بن عُر فُطہ غطفانی
کو نبی
کے نائب ہونے کےشرف سے نوازا گیا۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہنے حضرت سباع بن عرفطہ غطفانی
کی نیابت والی روایت کو صحیح ترین قرار دیا ہے۔ 16 اس بات کی تائید حضرت ابوہریرہ
کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہےجس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ
غزوہ خیبر کے لیے تشریف لے گئے تب وہ مدینہ منورہ تشریف لائے جہاں آپ
نے حضرت سِباع بن عُرفُطہ غطفانی
کونائب مقررفر مایا ہوا تھا۔ آپ
نے ان کی اقتدا ء میں نمازِ فجر ادا کی جس کی پہلی رکعت میں انہوں نے سورۂ مریم اور دوسری رکعت میں سورۂ مطففین تلاوت فرمائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعدجب اُن سے آپ
کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپ
کو خیبر تک جانے کے لیےزادِ راہ دیا۔ 17 البتہ امام زُرقانیرحمۃ اللہ علیہ نے دونوں روایات کے درمیان اس طرح تطبیق کی ہے کہ ممکن ہے کہ پہلے آپ
نے ان دونوں میں سے ایک صحابی کو اپنی جگہ مقرر فرمایاہو پھر کسی وجہ سے اس کی جگہ دوسرے کو متعین کردیا ہو۔ 18
مدینہ منورہ میں تاحال جو یہودی موجود تھے انہیں یقین تھا کہ اس غزوے میں بھی مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی اور پہلے کی طرح اب بھی یہود شکست سے دوچار ہوں گے۔ مگر حصولِ عبرت سے عاری یہود ایک مرتبہ پھر اپنی تاریخ دہرانے لگے۔ کئی مسلمان ان کے مقروض تھے۔ انہوں نے مقررہ وقت سے پہلے ہی مسلمانوں سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کر دیا جس پر مسلمانوں نے کچھ مہلت مانگی کیونکہ ان کو یقین تھا کہ اللہ تعالی نے ان سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہوگا اور خیبر سے ان کو مال غنیمت ملے گا جس سے یہ ان کا قرض لوٹا دیں گے۔ لیکن یہود کا مقصد چونکہ صرف پریشان کرنا تھا، اس لیے وہ مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے اسی بات پر مُصر تھے کہ خیبر جانے سے پہلے ہی ہماراقرض واپس کیا جائے جبکہ مسلمانوں کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا۔ 19
کی حکم عدولی کا انجاممحمد رسول اللہ
نے غزوہ خیبر پر نکلنے سے پہلے ایک اعلان یہ بھی کرایا کہ جس کی سواری کمزور ہو یا وہ پریشان حال ہو تو وہ واپس چلا جائے۔ یہ حکم سن کر سوائے ایک آدمی کے تمام کمزور لوگ پلٹ گئے۔ یوں آپ
نے غزوے میں جانے والوں کی چھانٹی کردی۔یہ لشکر رات کے وقت اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ اس کمزور آدمی کا گھوڑا ڈر کر بدکا، جس سے وہ آدمی گرپڑا اور اس کی روح پرواز کرگئی۔ جب رسول اللہ
کو تمام صورتحال کا علم ہوا تو آپ
نے پوچھاکہ کیا انہوں نے یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ کمزور سواریوں والے اور پریشان حال لوگ واپس چلے جائیں۔ پھر آپ
نے نماز جنازہ کا حکم دیا اور تین بار فرمایا کہ نافرمان شخص کے لئے جنت حلال نہیں۔ 20
غزوہ خیبر کے موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بن سلول نے اپنے اِک خاص بندے کو خط دے کر خیبر روانہ کیا جس میں اس نے واضح لکھاکہ محمد(
) تم پر لشکر کشی کے لیے آ رہے ہیں ۔ ساتھ اس نے یہ بھی ہدایت دی کہ یہودی اپنا مال و متاع اپنے قلعوں میں محفوظ کر لیں اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے نکلیں۔مزید یہ کہ اس نے ان کو اس بات کا یقین دلایا کہ مسلمانوں کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم ہے اور ان کے پاس خاص اصلحہ بھی نہیں ہے۔21اس خط کی وجہ سے یہود خیبر مسلمانوں کی طرف سےچوکنے ہو گئے۔
جب یہود خیبر کو عبد اللہ بن اُبی کی طرف سے یہ اطلاع پہنچی کہ رسول اللہ
اُن پر لشکر کشی کے لیے آرہے ہیں تو انہوں نے کنانہ بن ابی حقیق اور ہودہ بن قیس کی قیادت میں 14 افراد پر مشتمل ایک وفد قبیلۂ غطفان کی طرف روانہ کیا۔اُنہوں نے غطفان کے سردار عیینہ بن حصن – جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے– سے ملاقات کی اور ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ کنانہ نے عیینہ سے مدد مانگی اور فتح کی صورت میں ایک سال خیبر کی آدھی پیداوار دینے کا وعدہ کیا۔عیینہ نے یہود کی پیشکش قبول کی اور 4000 جنگجو خیبر کے یہود کی مدد کے لیے بھیجنے پر آمادہ ہوگیا۔ 22
خیبر جانے کے لیے رسول اللہ
نے بطورِ راہ نما حضرت حسیل بن خارجہ اشجعی
جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے– کو اپنے ساتھ لیا اوراس کے عوض انہیں 20 صاع کھجور دینے کا وعدہ فرمایا۔ 23 اس کے بعد آپ
نے لشکرِ اسلام کو اس طرح ترتیب دیا کہ مقدمۃ الجیش کی کمان حضرت عکاشہ بن محصن الاسدی
کے سپرد کی۔ میمنہ پر حضرت عمر بن خطاب
کو امیر مقرر فرمایا اور میسرہ پر ایک دوسرے صحابی کو متعین فرمایا۔ 24
لشکر کو ترتیب دینے کے بعدرسول اللہ
خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب صہباء کے مقام پر پہنچے جو خیبر سے قریب تھا تو وہاں عصر کی نماز ادا فرمائی اور ستّو سے کھانا تناول فرمایا۔ مغرب وعشاء کی نمازبھی اسی مقام پر ادا فرمائی۔اس کے بعد حضرت حسیل بن خارجہ
کوطلب فرما کر حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کو اس مقام تک لے جائیں جہاں سے مسلمان بنو غطفان اور اہل خیبر کے درمیان حائل ہوجائیں۔انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور لشکر ِ اسلام کو لے کر ایسے مقام پر پہنچے جہاں سے متعدد راستے نکل رہے تھے۔ آپ
نے حضرت حسیل بن خارجہ اشجعی
سے آگے جانے والے تمام راستوں کے نام دریافت فرمائے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک راستے کانام حزن، دوسرے کا شاش اور تیسرے کا حاطب ہے۔ آپ
نے ان تینوں کو مسترد فرمایا۔ اب ایک ہی راستہ رہ گیا تھا جس کا نام مرحب (کشادگی) تھا۔ آپ
نے اُسی پر چلنے کا حکم فرمایا۔ 25 اس راستے کو اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپ
کی عادت مبارکہ تھی کہ ہمیشہ اچھے ناموں کو پسند فرمایا کرتے اور ان سے نیک فال لیتے اور برے ناموں اور بد فالی کو ناپسند فرمایا کرتے۔ چونکہ تین دیگر نام اچھے نہیں تھے تو آپ
نے چوتھے نام کو منتخب فرمایا۔
اس راستے پر چلتے ہوئے لشکرِاسلام وادی رجیع میں جاکر قیام پذیر ہوا۔ یہی وہ جگہ تھی جو بنو غطفان اور خیبر کے درمیان واقع تھی۔ یہاں ٹھہرنے کا مقصد یہ تھا کہ بنو غطفان کو یہودِ خیبر کی مدد کرنے سے روکا جائے۔ 26
جب بنو غطفان کو اطلاع ملی کہ محمد رسول اللہ
خیبر پرحملہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئے ہیں تو انہوں نے اپنے تمام جنگجو جوانوں کو اکٹھا کیا تا کہ اہل خیبر کی امداد کے لیے روانہ ہوں۔ جب وہ خیبر کی طرف ایک منزل طے کر چکے تو انہیں پیچھے سے شور سنائی دیا جیسے کسی نے ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دیا ہو۔ انہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں مسلمانوں نے ان کے اہل وعیال کو بے یارو مددگار پاکر ان پر دھاوا نہ بول دیا ہو۔ اس خیال سے وہ لرز اٹھے ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ خیبر کے یہودیوں کی امداد کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے انہیں چاہئے کہ وہ واپس لوٹ کراپنے اہل و عیال کی حفاظت کریں۔ چنانچہ انہوں نے خیبر کے یہودیوں کو ان کے حال پر چھوڑا اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے لوٹ آئے۔ 27
حضرت محمد مصطفیٰ
نے حضرت عباد بن بشر
کو چند گھڑ سواروں کے ساتھ لشکر کے آگے چلے جانے اور وہاں کے حالات دریافت کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ حضرت عباد
آگے گئے تو اُنہیں ایک یہودی جاسوس ملا۔ اُسےگرفتار کرکے جب چھان بین کی گئی تو وہ کہنے لگاکہ اس کے اونٹ بھاگ گئے ہیں جنہیں ڈھونڈنے کے لیے وہ اِدھر اُدھر گھوم رہا ہے۔ حضرت عباد
نے جب اس کے ساتھ سختی کی تو وہ بولا کہ کنانہ بن ابی الحقیق اور ہوذہ بن قیس اہلِ غطفان کے ہاں مدد لینے گئے تھے، جس کے عوض وہ اہلِ غطفان کو خیبر کی پیداوار سے آدھی کھجوریں دیں گے۔ وہ اسلحے سے لیس ہو کر اپنے جنگجوؤں کے ساتھ خیبر کے قلعوں میں آپہنچے ہیں۔ ان قلعوں میں تقریباً 10 ہزار جنگجو اسلحے سے لیس موجودہیں۔ خیبر کے قلعے بہت بلند و بالا اور بڑے مضبوط ہیں، جنہیں فتح کرنا ممکن نہیں۔ بے شمار اسلحے اور کھانے ، پینے کے سامان کی بہتات ہے۔ ان کی شکست کا کوئی امکان نہیں۔ ان کے قلعوں میں پانی کا وافر ذخیرہ ہے۔ ایسی صورتحال میں ان سے پنجہ آزمائی بے سود ہے۔اس یہودی جاسوس کی یہ جھوٹی داستان سن کر سید نا عباد
کو اندازہ ہوگیا کہ وہ یقیناً یہود کا جاسوس ہے۔ آپ
نے جب اس پر مزید سختی فرمائی تو اس نے اپنی جان کی امان پانے کی شرط پر حقیقتِ حال سے آگاہ کیا اور کہنے لگا کہ یہودِ مدینہ کے عبرتناک انجام کی وجہ سے یہودِ خیبر میں خوف و ہراس پھیلا ہواہے۔ ان پر اہلِ ایمان کی دہشت چھا گئی ہے۔ حضرت عباد
اس جاسوس کی یہ ساری باتیں سن کر اسے پکڑ لائے اور رسول اللہ
کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ اس نے آپ
کوبھی خیبر کے اندرونی احوال سے آگاہ کیا۔ سابقہ دی ہوئی امان کے تحت اسے قتل کرنے کے بجائے اس کی مشکیں باندھ کر لشکر میں ہی دھر لیا گیا۔ 28
کی دعاجب آپ
خیبر کے قریب پہنچے تو صحابہ کرام
کو رُکنے کا حکم دیا اورپھر یہ دعاپڑھی:
اللهم رب السموات السبع وما اظللنا ورب الأرضين السبع وما أقللن ورب الشياطين وما أضللن، فإنا نسألك خير هذه القرية، وخير أهلها، وخير ما فيها، ونعوذ بك من شر هذه القرية وشر أهلها وشر ما فيها۔29
اللہ! سات آسمانوں اوراُن کے زیرِ سایہ تمام اشیاء کےرب ! اے سات زمینوں اور اُن کی پُشت پر موجود سب چیزوں کے رب! اے شیطانوں اور اُن کی گمراہ کردہ مخلوق کے رب! ہم تجھ سے اس شہر کی بھلائی، اس کے باشندوں کی بھلائی اور جو کچھ اس میں ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور ہم اس گاؤں کے شر سے، اس کے رہنے والوں کے شر سے اور جو کچھ بھی اس میں موجود ہے اُن سب کے شر سےتیری پناہ مانگتے ہیں ۔
یہ حضور
کی عادتِ مبارکہ تھی کہ وہ کسی بھی بستی یا شہر میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ 30 بعد ازاں آپ
نے صحابۂ کرام
کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر آگے بڑھنے کا حکم فرمایا۔ اسلامی لشکر آگے بڑھتار ہا یہاں تک کہ خیبر کی بستی کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔ ابھی رات کا اندھیرا تھا تووہاں لشکرِ اسلام نے پڑاؤ ڈالا اور سب نے کچھ دیر آرام کیا۔ 31
خیبر کے یہودیوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ مسلمان ان پر حملہ کرنے کی جرأت کرسکیں گے۔ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ
اُن کے خلاف لشکر کشی کےارادہ سے نکلنے والے ہیں تو وہ روزانہ اپنے پورے لشکر کو قلعہ سے نکال کر صف بستہ کرتے اور اُسے پوری طرح سےچاق وچوبند دیکھ کر کہتےکہ بھلا محمد (
) ان پرکیسے حملہ کریں گے۔ جس رات اسلام کے جانبازوں کی فوج ان کے علاقہ میں پہنچی اس رات ان پر ایسی نیند مسلط ہوئی کہ طلوع آفتاب تک ان کی آنکھ نہ کھلی۔ وہ نیند کے خمار میں بے سدھ پڑے رہےیہاں تک کہ اس صبح ان کے مرغوں نے بھی اذان نہیں دی۔ 32
جب سورج چڑھے ان کی آنکھ کھلی تو ایک گھبراہٹ ان پر مسلط تھی لیکن وہ حسبِ معمول اپنی کسیاں، کدالیں کندھوں پر اٹھائے اور ہاتھوں میں ٹوکرے، ٹوکریاں پکڑے روز مرہ کے کام کے لیے کھیتوں اور باغات کی طرف روانہ ہوئے ۔ باہر نکلے تو دیکھا کہ اسلام کے مجاہد آپ
کی قیادت میں ان کے قلعوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیں اور وہ اپنے قلعوں کی طرف بھاگ نکلے۔ رسول اللہ
نے جب انہیں سراسیمہ ہو کر پیچھے بھاگتے دیکھا تو اللہ کی بڑھائی بیان کی اور فرمایا کہ خیبر اب اجڑ جائے گا۔33
خیبر کا خطہ بنیادی طورپر 3حصوں میں منقسم تھا اور ہر حصہ متعدد قلعوں پر مشتمل تھا۔ پہلا حصہ حصون النطاۃتھا، اس حصے میں قلعہ ناعم، قلعہ صعب اور قلعہ زبیر تھے۔ دوسرا حصہ حصون الشق تھا،اس حصے میں قلعہ ابی اور قلعہ نزارتھے۔ تیسراحصہ حصون الکتیبہ تھا، اس حصے میں قلعہ قموص، قلعہ وطیح اور قلعہ سلالم تھے۔ 34
حضرت محمد مصطفیٰ
نے لشکرِ اسلام کے قیام کے لیے یہودیوں کے نطاق کے قلعوں کے قریب اپنے خیمے نصب کروائے۔ حضرت حباب بن منذر
جو خیبر کے یہودیوں کے حوالے سے کافی جان کاری رکھتے تھے، آپ
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر اس جگہ کا انتخاب حکمِ الہی سے ہوا ہے تو پھر کچھ عرض کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر یہ آپ
کی رائے ہے اوراس میں مشورہ کی گنجائش موجود ہے تو وہ اپنی رائے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلمانوں کے خیموں کا قلعوں کے قریب ہونا نقصان دے ہوسکتا تھا کیونکہ نطاق کے قلعوں کے تیر انداز بلا کے ماہر تھے اور وہ مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا سکتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کے خیموں کو ایسی جگہ منتقل کریں کہ ان کے تیر بآسانی ان تک نہ پہنچ سکیں۔ثانیا وہ جگہ کھلے میدان کی مانند ہو تاکہ دشمن درختوں کی آڑ لے کر حملہ نہ کرسکے اور پانی کے تالاب بھی وہاں نہ ہوں ۔ 35 آپ
نے حضرت حباب
کی رائے کو پسند فرمایا اور محمد بن مسلمہ کو حکم دیا کہ وہ لشکرِ اسلام کے قیام کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کریں۔ چنانچہ محمد بن مسلمہ
نے پورے علاقہ کاجائزہ لینے کے بعد رجیع کی وادی کو لشکرِ اسلام کے قیام کے لیے موزوں سمجھتے ہوئے منتخب کیا اور آپ
کو اس کے بابت آگاہ فرمایا۔ 36
خیبر کے مختلف قلعوں میں سے سب سے پہلے رسول اللہ
نے قلعہ ناعم کا محاصرہ فرمایا۔اوپر سے تیروں کی بارش ہورہی تھی۔مسلمان بڑی احتیاط سے تیر برسا رہے تھے کیونکہ تیر کم تھے۔ اس کمی کو یوں پورا کیا گیا کہ یہود کی طرف سے آنے والے تیر اُٹھا اُٹھا کر واپس انہی پر برسا دیے جاتے ۔ 37 لڑائی قدرے تھمی تو گرمی کی شدت کی وجہ سے ایک صحابی حضرت محمود بن مسلمہ
جاکر قلعۂ ناعم کے سایے میں بیٹھ گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس جگہ کوئی نہیں ہوگا لیکن اوپرسے مرحب یا کنانہ بن ابی الحقیق نامی یہودی نے چکی کا پاٹ گرا دیا جس سے ان کی پیشانی کی جلد کٹ کر نیچے لٹکنے لگی۔ انہیں رسول اللہ
کے پاس لایا گیا۔ آپ
نے اپنے دستِ مبارک سے ان کی جلد کو درست فرما کر کپڑے سے باندھ دیا لیکن کچھ وقت بعد حضرت محمود بن مسلمہ
کی اسی زخم سے شہادت واقع ہو گئی۔ 38
کی شہادتپہلے دن قتال کے بعد رسول اللہ
نے اپنے پڑاؤ کی جگہ تبدیل کی اور غطفان اور خیبر کے درمیان واقع وادی رجیع میں تشریف لے گئے۔ وہیں سے آپ
مجاہدین کو قلعوں کی تسخیر کے لیے بھیجتے رہے۔ 39 ایک روز مرحب نامی یہودی قلعے سے باہر نکل کر فدائیان اسلام کو للکار نے لگا۔ مرحب اپنی جرأت و بہادری میں اپناثانی نہ رکھتا تھا۔ وہ غرور وتکبر سے دھاڑتا ہوا باہر نکلا اور تلوار لہرا لہرا کر پکارنے لگا :
قد علمت خيبر أني مرحب
شاكي السلاح بطل مجرب
إذا الحروب أقبلت تلهب. 40
سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ جب جنگیں شعلے بھڑکاتی ہیں تو میں ہتھیار بند، سورما،تجربہ کار اور بہادر ترین شخص کے طور پر سامنے آتا ہوں۔
مرحب کا یہ چیلنج سن کرحضرت عامر بن اکوع
لشکر سے نکل کر شیر کی طرح اس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اسے للکارتے ہوئے کہنے لگے :
قد علمت خيبر أني عامر
شاكي السلاح بطل مغامر. 41
خیبر(میرے بارے میں بھی) خوب جانتا ہے کہ میں عامر ہوں، ہتھیاروں سے لیس، ایک بہادر اور مہم جو مجاہد۔
ان اشعار کو پڑھتے ہوئے حضرت عامر
نے مرحب کی دعوت مبارزت قبول کی۔ دونوں کی تلواریں ایک دوسرے کے ساتھ چمکنے لگیں اور وہ ایک دوسرے پر وار کرنے لگے۔ مرحب نے تلوار کا وار کیاجسے حضرت عامر
نے اپنی ڈھال پرروکا اور پھر اُنہوں نے جھٹ سے جھک کر مرحب پر وار کرنا چاہا۔ مگر ان کی تلوار چھوٹی تھی، اس لیے وہ دشمن پر لگنے کے بجائے گھومتی ہوئی خود اُنہیں کو لگی۔ جس سے اُنہیں گہرازخم لگا اور ان کی شہادت واقع ہو گئی ۔
رسول اللہ
مقام رجیع ہی میں جلوہ گر تھے اور وہیں سے صحابۂ کرام
کو قلعہ ناعم فتح کرنے کے لیے مسلسل کئی دن تک بھیجتے رہے لیکن قلعہ فتح نہ ہوسکا۔آپ
نے حضرت ابو بکر صدیق
اور حضرت عمر
کی قیادت میں بھی باری باری صحابۂ کرام
بھیجے مگر جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ مجاہدین صبح آتے، دن بھر قلعہ فتح کرنے کے لیے حملے کرتے، مگر فتح پائے بغیر رات ڈھلنے پر رسول اللہ
کی خدمت میں مقام رجیع پر واپس چلے جاتے تھے۔ 42
کو جھنڈا عطا کرنامختلف تدابیر اختیار کرنے کے باوجود جب محاصرہ طول پکڑتا چلا گیا تو ایک رات آپ
نے فرمایا کہ اگلے دن وہ اسلام کا عَلم ایک ایسے آدمی کو عطا فرمائیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائے گا۔ اس آدمی کی صفات آپ
نے یہ بیان فرمائیں کہ وہ آدمی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول
سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول
بھی اس سےمحبت کرتے ہونگے ۔یہ سن کر صحابۂ کرام
میں سے ہر ایک کی آرزو تھی کہ یہ شرف اسے ہی نصیب ہو۔اگلے دن فجر کی نماز کے بعد آپ
نے حضرت علی
کو طلب فرمایا۔ آپ
کے حکم پر وہ خدمت میں حاضر ہوئے تو اُن کی آنکھیں آشوبِ چشم کی وجہ سے دُکھ رہی تھیں۔ آپ
نے اُن کی دُکھتی آنکھوں پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور دعا فرمائی۔ ان کی آنکھیں اسی وقت اس طرح ٹھیک ہو گئیں جیسے پہلے کبھی دُکھی ہی نہ ہوں۔ آپ
نے انہیں عَلم تھما کرقلعہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا اور یہ نصیحت فرمائی کہ جہاد وقتال سے پہلے اُن کو اسلام کی دعوت دیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق سے اُنہیں آگاہ کریں کیونکہ اگرایک شخص کو بھی اللہ نے ہدایت نصیب فرمادی تو وہ سرخ اونٹوں سے کہیں زیادہ بہترہے۔ 43
حضرت علی
رسول اللہ
سے فتح ونصرت کی دعائیں اور عَلم لے کر لشکرِ اسلام کے ہمراہ قلعہ ناعم کے سامنے تشریف لے گئے۔ یہودیوں میں سب سے پہلے مرحب کا بھائی حارث نکلا۔ اس نے آکر حضرت علی
کو دعوتِ مبارزت دی۔حضرت علی
اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلےاور جلد ہی اس کا کام تمام کردیا۔ جو یہودی حارث کے ساتھ قلعہ سے نکلے تھے وہ حارث کو قتل ہوتا دیکھ کر بھاگ نکلے اور قلعہ میں پناہ گزیں ہوگئے۔ 44بعدازاں یہودیوں کا مشہور شہسوار مرحب دھاڑتا ہوا نکلا۔ اس نے اپنے سابقہ رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے حضرت علی
کودعوتِ مبارزت دی۔ حضرت علی
اس کا غرور بھی خاک میں ملانے کے لیے نکلے اور یہ رجزیہ اشعار پڑھنے لگے:
أنا الذي سمتني أمي حيدره
كليث غابات كريه المنظره
أوفيهم بالصاع كيل السندره.45
میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے، میں جنگل كے شیروں کی طرح بڑا خوفناک ہوں، میں انہیں پورا پورا بدلہ چکاتا ہوں، جیسے بھرے پیمانے سے ناپ کر دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد آپ
کا مرحب کے ساتھ مقابلہ ہوا۔ آپ
نےاس پر اپنی تلوار سے بھر پور وار کیا، جس سے اس کا خود کٹ گیا اور سر کے دو ٹکڑے ہوگئے۔46 اس کے بعداسیر نکلا، حضرت محمد بن مسلمہ
نے اُسے جہنم رسید کیا۔ پھر مرحب کا بھائی یاسر نکلا اور رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے دعوتِ مبارزت دی۔ حضرت زبیر بن عوام
اس کے مقابلے کےلیے نکلے اور اس کو واصل باجہنم کرد یا۔ 47 مرحب اور اس کے بھائیوں کے قتل کے بعد یہودیوں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے مایوس ہوگئے۔ دوسری جانب صحابہ کرام
نے سخت حملہ کردیا۔جس سے وہ قلعہ ناعم چھوڑ کر بھاگ نکلے اور قلعہ صعب میں پناہ گزیں ہوگئے۔ یوں مسلمانوں نےقلعۂ ناعم فتح کرلیا۔ 48
قلعۂ ناعم فتح کرنے کے بعد مسلمانوں نے قلعہ صعب کا محاصرہ کیا جو 2 دن تک جاری رہا۔ مسلمان اس دوران بھوک کی شدت سے نڈھال ہونے لگے تھے۔ تیسرے دن قبیلہ اسلم نے اسماء بن حارثہ
کو اپنا نمائندہ بناکر رسول اللہ
کی خدمت میں بھیجا اور بھوک سے نڈھال ہونے کی شکایت کی۔ رسول اللہ
نے اللہ تعالیٰ سے ایسے قلعہ کی فتح کی دعا مانگی جس میں اشیاءِ خورد ونوش وافر مقدار میں موجود ہوں۔ پھر حضرت حباب بن منذر
کو عَلم دے کر قلعہ فتح کرنے کے لیے بھیجا۔ اس روز یہود کی طرف سے یوشع نامی ایک جنگجو نکلا اور دعوتِ مبارزت دی۔ حضرت حباب بن منذر
اس کے مقابلے کےلیے نکلے اور اس کو واصل باجہنم کرد یا۔ پھر دیال نامی ایک اور جنگجو نکلا جسے حضرت عمارہ بن عقبہ
نے جہنم رسید کردیا۔ بعد ازاں یہودیوں کی طرف سے اچانک اجتماعی حملہ ہوا۔ اس اچانک حملہ سےمسلمان پیچھے ہٹتے ہٹتے رسول اللہ
تک پہنچ گئے۔ آپ
نے اپنے گھوڑے سے اتر کر اپنے صحابہ
کو جہاد کی ترغیب دی۔ رسول اللہ
کی اس ترغیب کی بدولت مسلمان دوبارہ سے سنبھل گئے اورآگے بڑھ کرسخت حملہ کیا جس سے یہودی پسپا ہوکر قلعہ کی طرف بھاگ نکلے اور دروازے بندکرنے لگے لیکن مسلمان بھی قلعہ میں داخل ہوگئے اور یہودیوں کو جہنم رسید کرنا شروع کردیا اور جو زندہ بچے اُنہیں قیدی بنالیا۔ 49
مسلمانوں کو اس قلعہ سے جو ذخائر حاصل ہوئے جن میں جو، کھجور، گھی، شہد، تیل، چربی اور دیگر بے شمار اشیاء شامل تھیں۔ آپ
کے حکم سے ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیاکہ خود کھاؤ، جانوروں کو کھلاؤ لیکن کوئی چیز اٹھا کر نہ لے جاؤ۔ اس قلعہ سے مسلمانوں کو یمن سے آئے ہوئے کپڑے کی 20 گانٹھیں دستیاب ہوئیں۔ مختلف قسم کی شرابوں کے مٹکے ملے جن کو توڑ دیا گیا اور شراب بہادی گئی۔ تا نبے اور مٹی کے برتن ملے جن میں یہود کھایا پیا کرتے تھے۔ رسول اللہ
نے ان کو دھو کر ان میں کھانے پینے کی اجازت دے دی۔ ان اشیاء کے علاوہ بھیٹر بکریوں کے ریوڑ، گائے کے گلّے اور کثیر تعداد میں گدھے بھی ملے۔مزید یہ کہ ایک یہودی کی نشان دہی پر زیرِ زمین مکان سے اسلحہ دریافت ہوا جس میں منجنیق وغیرہ کی بھی کثیر تعداد تھی۔ 50
خیبر کی وادی نطاۃ میں تین بڑے قلعے تھے جن میں سے ناعم اور صعب تو مسلمانوں کے قبضہ میں آچکے تھے جبکہ آخری ایک قلعہ حصنِ زبیر باقی تھا۔پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہونے کی وجہ سے پہلے اس قلعہ کو ‘حصنِ قلۃ ’کہاجاتاتھا۔بعد میں حضرت زبیر بن عوام
کے حصے میں آنے کی وجہ سے اسے حصنِ زبیر کہا جانے لگا۔ 51 مسلمانوں نے پہلے 2 قلعے فتح کرنے کے بعد اس قلعے کا محاصرہ کیا جو 3 دن تک جاری رہا۔
ایک یہودی جس کا نام غزال تھا جب اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور یہود کے پاس بچنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں تو وہ آپ
کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی اگر حضور
اسے جان کی امان دیں تو وہ آپ
کو ایک ایساراستہ بتاسکتا ہے جس سے آپ
نطاق کے سارے قلعوں کو فتح کر کے مطمئن ہو جائیں گے اور اس کے بعد آپ
اہل شق کی طرف متوجہ ہو سکیں گے۔آپ
نے اس کو ، اس کے اہل و عیال اور اس کے اموال کو امان دے دی۔ امان پانے کے بعد اس نے کہاکہ اگر آپ
ایک مہینہ بھی اس قلعہ کا محاصرہ جاری رکھیں تو یہود کو ذرا پروا نہ ہوگی۔ انہوں نے زیرِ زمین پانی کے لیے سُرنگیں بنا رکھی ہیں۔ رات کی تاریکی میں وہ نکلتے ہیں، پانی سے سیراب ہو کر قلعوں میں واپس آتے ہیں اور تازہ دم ہو کر آپ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر آپ
ان سُرنگوں کو کاٹ دیں تو وہ شدتِ پیاس سے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چنانچہ آپ
نے ان کی سُرنگوں کو کاٹ دیا جس کی وجہ سے وہ باہر نکل آئے اور مسلمانوں سے جنگ شروع کی۔ خوب بہادری کے جوہر دکھائے ۔ کئی مسلمان بھی شہید ہوئے جبکہ 10 یہودی لقمہ اجل بنے۔ بالآخر مسلمانوں نے اس قلعہ کو بھی فتح کر لیا۔ 52یہ نطاق کے قلعوں میں سےآخری قلعہ تھا۔اس سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ
شق کے علاقہ کے قلعوں کو فتح کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے۔
شق کےعلاقہ میں بھی متعدد قلعے تھے۔ سب سے پہلے جس قلعہ کو فتح کرنے کے لئے آپ
متوجہ ہوئے وہ حصن ابی تھا۔ یہاں کے یہودیوں نے انفرادی لڑائی سے آغاز کیا۔ چنانچہ ایک یہودی سورما جس کا نام عزول تھامیدان میں نکلا اور مسلمانوں کو مقابلہ کے لیے للکارا۔ حضرت حباب بن منذر
اس کے مقابلہ کے لئے نکلے۔ دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔ حضرت حباب
نے اپنی تلوار کے وار سے اس کا دایاں بازو کاٹ دیا۔ اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی ، وہ پیچھے مڑا،تا کہ بھاگ کرقلعہ میں داخل ہولیکن حضرت حباب
نے اسے بھاگنے نہ دیا۔ اس کے پاؤں کو کاٹ ڈالا اور پھر اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد ایک اور یہودی نکلا۔ اس نے بھی دعوتِ مبارزت دی۔ اس کے مقابلہ کے لئے ایک مسلمان مجاہد نکلا لیکن اس یہودی نے اس کو شہید کر دیا اور پھر مد مقابل کے لئے چیلنج دیا۔ اب اس کے مقابلہ کے لئے حضرت ابودجانہ
اپنی شمشیر آبدار لہراتے ہوئے نکلے۔ آپ
نے پہلے وار سے ہی اس کی ٹانگیں کاٹ دیں اور اس کو موت کے گھاٹ اتارکر اس کی تلوار، زرہ اور دوسرا سامان اتار لیا۔ اس کے بعد کسی یہودی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ میدان میں آکر کسی مسلمان کو للکار سکے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئےقلعہ پر حملہ کیا اور اندر داخل ہو گئے۔ حضرت ابودجانہ
ان حملہ آور مسلمانوں کی قیادت کر رہے تھے۔ وہاں جتنے یہودی تھے سب بھاگ کھڑے ہوئے اور شق کے دوسرے قلعہ حِصن النزارمیں جا کر پناہ لی۔ 53اس قلعہ سے بھی مسلمانوں کو کثیرتعداد میں بھیڑ، بکریاں، کھانے کی چیزیں اور دیگر ساز وسامان ہاتھ آیا۔
یہ شق کے علاقہ کا دوسرا قلعہ تھا۔ قلعۂ ابی اورنطاق کے تینوں قلعوں کے شکست خوردہ یہودی بھاگ کر اس قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئےتھے۔ رسول اکرم
نے اپنے صحابہ
کے ساتھ اس قلعہ پر حملہ کیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی ۔ انہوں نے مسلمانوں پر تیر اور پتھروں کی بوچھاڑ کر دی۔ کئی تیر آپ
کے لباس کے ساتھ جا کر پیوست ہو گئے ۔ آپ
نے مٹھی میں کنکریاں لیکر ان کے قلعے کی طرف پھینکیں جس کے نتیجہ میں قلعہ کی دیواریں لرزنے لگیں۔ مسلمانوں نے ان پر شدید حملہ کیا اور یہودیوں کو جنگی قیدی بناکر قلعہ فتح کرلیا۔ 54
نطاق اور شق کے قلعوں کوفتح کر نےکے بعد رسول اللہ
کتیبہ کے قلعوں کی طرف متوجہ ہوئے۔کتیبہ کے قلعوں میں حصن القموص سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا۔رسول اللہ
نے صحابہ کرام
کےساتھ اس قلعہ کا محاصرہ کیا جو 20دن تک جاری رہا۔ یہ قلعہ آخر کار حضرت علی
کے ہاتھوں فتح ہوا۔اس قلعہ کے بہت سے یہودی مرد و زن کو جنگی قیدی بنالیا گیا۔ اسیر ہونے والی یہودی عورتوں میں حضرت صفیہ
بھی شامل تھیں۔ 55 یہ حیی بن اخطب کی بیٹی اورکنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں۔ اُن کے ساتھ ان کی چچازاد بہن بھی گرفتار ہوئیں۔ 56 رسول اللہ
نے ان دونوں کو حضرت بلال
کے حوالے کیا تانکہ ان کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچایا جا سکے۔ حضرت بلال
لا شعوری طور پر اُنہیں ایسے راستے سےلے کر جانےلگے جہاں یہودیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر حضرت صفیہ
کی چچازاد بہن رونے لگیں اور غم سے نڈھال ہونے لگیں۔ رسول اللہ
کو جب اس کی خبر لگی تو آپ
نے حضرت بلال
سےناراضگی کا اظہار فرمایا 57 کہ وہ ان خواتین کو ان کے مقتول مردوں کے پاس سے لے گزرے جو کہ یقیناً ان خواتین کے لئے تکلیف دہ عمل تھا۔
قلعۂ قموص فتح ہونے کے بعد رسول اللہ
نے حصنِ قموص اور حصنِ سلالم کا محاصرہ کیا۔ یہ خیبر میں یہود کےآخری دو قلعے تھے۔ 14 دن تک ان دونوں قلعوں کا محاصرہ جاری رہا لیکن یہودیوں میں سے کوئی جنگ کے لیے باہر نہیں نکلا۔ جب رسول اللہ
نے منجنیق کے ذریعے پتھر برسانے کا ارادہ فرمایا تو اُنہیں اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا اور اُنہیں صلح کرنے میں ہی اپنی عافیت نظرآئی۔ 58 چنانچہ کنانہ بن ابی الحقیق نے ایک آدمی کو رسول اللہ
کی خدمت میں بھیجا اور اس کے ذریعہ سے عرض کی کہ اگر اجازت ہو تووہ گفتگو کے لئے حاضر ہوجائے۔ جب رسول اللہ
نے اسے اجازت دی تو وہ اپنے قلعہ سے نکل کر بارگاہِ رسالت ماب
میں حاضر ہوا اور صلح کی درخواست کی۔ رسول اللہ
نے اس کی درخواست قبول فرمائی اور مندرجہ ذیل شرائط پر صلح ہوئی:
قلعہ میں مورچہ بند یہودیوں کا خون معاف فرمادیں گے۔
کے حوالے کردیں گے۔صرف اتنا کپڑا ساتھ لے جائیں گے جو ان کی پشت پر لدا ہوگا۔
اس صلح سے بری الذمہ ہوں گے۔ 59اس طرح یہ 2 قلعے صلح سے فتح ہوگئے۔ دوسرے قلعوں کے برعکس یہاں جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ ان 2قلعوں سے مسلمانوں کو 100 زرہیں، 400 تلواریں، 1000 نیزے اور 500 عربی کمانیں ترکشوں سمیت مالِ غنیمت کے طور پرمِلیں نیز تورات کے بہت سارے نسخے بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگے جنہیں یہود کی درخواست پر رسول اللہ
نے واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ 60
صلح کا معاہدہ طے ہونے کے بعد نبی اکرم
نے کنانہ اور ربیع کو بلاکران سے حیی بن اخطب کے خزانے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ 61انہوں نے کہاکہ جنگوں کے اخراجات کے باعث وہ سارا خزانہ خرچ ہو گیا ہےاور اپنے قول کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انہوں نے شدید قسمیں کھائیں۔ رسول اللہ
نے انہیں واضح طور پر آگاہ کردیا کہ اگر وہ خزانہ ان کے پاس سے بر آمد ہو گیا تو اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی اور وہ مال مؤمنین کے لئے حلال ہو جائے گا۔ اس بات پر چند مسلمانوں اور یہودیوں کو گواہ بنالیا گیا۔ بعد ازاں سعیہ نے، جو سلام بن ابی الحقیق کا بیٹا تھا، آپ
کو ایک کھنڈر کے بارے میں بتایا کہ وہاں خزانہ مدفون ہے۔ رسول اللہ
نے حضرت زبیر
کو چند مجاہدین کے ہمراہ سعیہ کے ساتھ بھیجا۔ وہاں کھدائی کی گئی تو اونٹ کے چمڑے میں وہ خزانہ دستیاب ہو گیا اور اس میں ان کے سارے زیورات بھی بر آمد ہوگئے۔ جب کنانہ سے مزید تفتیش کی گئی تو اس نے مزید جو کچھ چھپا رکھا تھا وہ سب بھی نکال کر پیش کردیا۔ پھر آپ
نے کنانہ کو محمد بن مسلمہ
کے حوالہ کیاتا کہ وہ اسے اپنے بھائی کے بدلے میں بطور قصاص کے قتل کرسکیں۔ ادھر ربیع کا سر بھی قلم کیا گیا اور ان کی اولاد کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ اونٹ کے چمڑے میں جو خزانہ ملا، اس میں سونے کے کڑے، سونے کی چوڑیاں، پازیبیں، کان کے آویزے اور جواہرات و زمرد کے ہار اور سونے کی انگوٹھیاں وغیرہ کافی مقدار میں دستیاب ہوئیں۔ 62
کا قبولِ اسلام اور حضرت محمد
کے ساتھ نکاحاسیرانِ خیبر میں سے ایک حضرت صفیہ
ؤ تھیں جن کا تعلق حضرت ہارون
کے خاندان سے تھا۔ حضرت دحیہ کلبی نےاُنہیں آپ
کی اجازت سے اپنے لئے منتخب کر لیا تھا لیکن ایک صحابی
کی درخواست پر رسول اللہ
نے حضرت دحیہ کلبی
کو ان سے دستبردار ہو جانے کا حکم دیا۔ 63اس کے بعدآپ
نے حضرت صفیہ
کو اختیار دیا کہ اگر ان کی مرضی ہو تو آپ
ان کو آزاد کر دیں اور وہ اپنے باقی ماندہ رشتہ داروں کے پاس واپس چلی جائیں یا وہ اسلام قبول کرلیں اور آپ
اُنہیں اپنی زوجیت کا اعزاز عطا فرمائیں۔ اُنہوں آپ
کی دوسری پیشکش کو قبول فرمایا اور رسول اللہ
کی زوجیت کے شرف سے مشرف ہو گئیں۔ 64
کی بے مثال پاسبانیجس رات حضرت صفیہ
بارگاہِ رسالت
میں حاضر ہوئیں وہ پوری رات حضرت ابوایوب انصاری
نے رسول اللہ
کےخیمہ کے باہر پہرہ دیتے ہوئے جاگ کر گزاری۔ صبح کوجب آپ
بیدار ہوئے اوراُن کے پاؤں کی آہٹ سنی تو اُنہیں بلا کر خیمہ کے ارد گرد چکر لگانے کی وجہ دریافت فرمائی۔ اس پر حضرت ابوایوب انصاری
نے وجہ بیان فرمائی کہ یہ خاتون نومسلمہ تھیں اور ان کے باپ ، خاوند اور قوم کو مجاہدینِ اسلام نے قتل کیا تھا۔ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں یہ آپ
کو کوئی نقصان نہ پہنچادیں، اس لیے پوری رات وہ خیمہ کے باہر پہرہ دیتے رہے۔ آپ
اُن کی اس ادا سے بہت خوش ہوئے اور ان کے لیے حفاظت کی خاص دعافرمائی۔ 65
کو زہر دینے کی سازشجب خیبر فتح ہوا تو زینب نامی ایک یہودن نے رسول اللہ
کو زہر دینے کی سازش کی۔ 66 اس نے بکری کا بھنا ہوا گوشت بطور ہد یہ بارگاہِ رسالت
میں پیش کیا۔ اس نے لوگوں سے باقاعدہ معلوم کیا تھا کہ آپ
کو بکری کے کس حصہ کا گوشت زیادہ پسندہے۔ اسے بتایا گیا کہ آپ
بکری کے بازو کا گوشت بہت پسند فرماتے ہیں۔ لہذا اس یہودن نےاس بکری کے سارے گوشت میں زہر ملا دیا، لیکن زیادہ زہر بکری کے بازو کے گوشت میں ملایا۔ جب اس بکری کا بھنا ہوا ز ہر آلود گوشت دستر خوان پر رکھا گیا تو آپ
نے اس دستی کواٹھا لیا اور اس کا ایک ٹکڑا تناول فرمایا لیکن چبانے کے بعد فوراً اسے تھوک دیا اور فرمایا اس بازو نے آپ
کو خبر دی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ اس دسترخوان پرآپ
کے ہمراہ بشر بن براء
اور چند دیگر صحا بہ کرام
بھی موجودتھے۔ حضرت بشر
نے بھی گوشت کاایک ٹکڑا منہ میں ڈالا ، اسے چبایا اور پھر نگل لیا۔ زہر نہایت سخت قسم کا تھا۔ چنانچہ گوشت کے نگلتےہی ان کے چہرہ کی رنگت متغیر ہو گئی اور پَل بھر میں ان کی موت واقع ہوگئی۔آپ
نے بطور قصاص اس یہودن کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم فرمایا۔ 67
نبی اکرم
نے خیبر پر مکمل فتح پانے کے بعد مالِ غنیمت صحابہ کرام
میں تقسیم فرمایا۔ خیبرکے جو قلعےبزورِ قوت فتح ہوئے تھے اُن سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کا خمس نکال کر باقی تمام کا تمام مال مجاہدینِ اسلام میں تقسیم فرمادیاگیا۔ پیدل کو 1 حصہ دیا اور گھڑ سوار کو 2حصے دیےگئے۔ ایک اس کا اور دوسرا اس کے گھوڑے کا۔ 68 جو قلعے بغیرلڑائی کے فتح ہوئے تھے اُن سے حاصل ہونے والا مال ومتاع آپ
نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات اور دیگر امورِ خیر کے لیے رکھوا دیا۔
جب خیبر کے سارے قلعے مسلمانوں نے فتح کر لئے تو آپ
نے یہودکو یہاں سے چلے جانے کا حکم دیا جس طرح معاہدۂ صلح میں طے پایا تھا۔ اس وقت یہود نے آپ
کی بارگاہ میں عرض کی کہ انہیں وہیں رہنے دیا جائے تاکہ وہ وہاں کھیتی باڑی اور باغات کی دیکھ بھال کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور بدلے میں جو پیداوار بھی حاصل ہوگی اس میں سے نصف مسلمانوں کو دیں گے۔ چونکہ مسلمانوں کے پاس اتنی تعداد میں غلام نہیں تھے جو یہ کام کرسکیں اس لئے آپ
نے انہیں مشروط اجازت عطا فرمائی کہ جب بھی اہل ایمان چاہیں گے تو یہودیوں کو اس جگہ سے جانا ہوگا۔ 69
رسول اللہ
نے باغات کے پھلوں اور اجناس کی تقسیم کے لئے حضرت عبداللہ بن رواحہ
کو مقرر فرمایا۔ وہ ہر سال تشریف لے جاتے اور طے شدہ معاہدہ کے مطابق ان اجناس اور پھلوں کو تقسیم کرتے۔ نصف یہود کو دے دیا جاتا اور بقیہ نصف بیت المال کے سپرد کر دیا جاتا۔ ایک سال یہودیوں نے آپ
کو رشوت دینا چاہی تا کہ غلہ اور زرعی پیداوار کی تقسیم ان کی مرضی کے مطابق کرنے پر آمادہ کر لیا جائے لیکن آپ
نے نہایت سخت الفاظ میں ان کو تنبیہ فرمائی اور یہاں تک کہا کہ یہود ان کی نگاہ میں سب سے ذیادہ مبغوض اور گھٹیا ہیں لیکن وہ تعلیماتِ رسول
کی وجہ سے مجبور ہیں اور ان کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ آپ
کا جواب سن کر یہود کہنےلگے کہ ایسے ہی بے لاگ عدل کے باعث آسمان وزمین قائم ہیں ۔ 70
جب اہلِ فدک کو اس کی اطلاع ہوئی کہ یہودِ خیبر نے رسول اللہ
کے ساتھ صلح کرلی ہے تو اُن لوگوں نے آنحضرت
کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ان کی جانوں کو بھی امان دی جائے اوروہ تمام مال واسباب چھوڑ کر وہاں سے جلا وطن ہوجائیں گے۔ آپ
نے اُن کی یہ درخواست قبول فرمائی۔ چوں کہ فدک بغیر کسی حملہ اور فوج کشی کے فتح ہوا، اس لیے وہ خالص رسول اللہ
کے تصرف اور قبضہ میں رہا اور خیبر کی طرح مجاہدین میں تقسیم نہیں ہوا۔ 71
کی حاضریجن دنوں رسول اللہ
خیبر تشریف لے گئےتھے ان دنوں حضرت ابوہریرہ
اور ان کی قوم کے لوگ اسلام قبول کرکے رسول اللہ
کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مدینہ منورہ آئے۔ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ
تو خیبر تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ رات اُنہوں نے مدینہ منورہ میں گزاری اور فجر کی نماز حضرت سباع
کی اقتدا میں ادا فرمائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت سباع
سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ آپ
نے اُنہیں خیبر جانے کے لیے زادِ راہ دیا۔ یہ لوگ خیبر پہنچے تو رسول اللہ
خیبر فتح کرچکے تھے۔ رسول اللہ
سے ملاقات ہوئی تو آپ
نے مجاہدینِ اسلام سے بات کی اور اُنہیں بھی خیبر کے مال ِ غنیمت میں شریک کر لیا۔ 72
خیبر میں صحابہ کرام
کو مال غنیمت کے طور پر کچھ دراز گوش بھی میسر آئے جنہیں اُنہوں نے کھانے کی نیت سے ذبح کر کےپکانا شروع کردیا۔ جب آپ
کو اس کی اطلاع ملی تو آپ
نےاُس گوشت کے پھینکنے کا حکم دیا اور گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ اسی طرح کچے لہسن کے استعمال سے بھی منع فرما یا۔ 73 مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کسی چیز کے بیچنے سےبھی منع فرمایا ۔ چیر پھاڑنے والے درندوں کا گوشت کھانے سےبھی منع کیا۔ باندی کے استبراء رحم سے پہلے اس کے ساتھ صحبت سے منع فرمایا 74اور متعہ کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا۔ 75
فتح ِخیبر کے بعد آپ
نے وادی القریٰ کا رُخ فرمایا۔ وہاں کے لوگوں کو آپ
نے اسلام کی دعوت دی لیکن اُنہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا اور جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ ایک فیصلہ کن معرکہ کے بعد بزورِ بازو وادی القریٰ فتح ہوا ۔ وہاں سے بھی جو مالِ غنیمت حاصل ہوا خمس نکالنے کے بعد باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا گیا۔ وہاں کی زمین وہاں کے لوگوں کے حوالہ کی گئی اور اُن کے ساتھ وہی معاہدہ ہوا جو اہلِ خیبر کے ساتھ ہوا تھا۔ 76اہلِ تیماء کو جب وادی القریٰ کی فتح کا حال معلوم ہوا تواُنہوں نے رسول اللہ
کے ساتھ جزیہ دینے کی شرط پر صلح کرلی۔ 77
وادی القریٰ اور تیماء کی فتح کے بعد آپ
مدینہ منورہ واپس ہوئے۔ مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر ایک وادی میں آرام کرنے کی غرض سے نزول فرمایا۔فجر کی نماز کے لیے جگانے کی ذمہ داری حضرت بلال کو سونپی گئی۔ اتفاق سے اُن کی بھی آنکھ لگ گئی اور شدید تھکاوٹ کے باعث پورے لشکر میں سے کسی کی بھی آنکھ نہ کھل سکی ، یہاں تک کہ آفتاب بلند ہوگیا۔ سب سے پہلے رسول اللہ
بیدار ہوئے اور فوراً صحابہ کرام
کو جگاکر اس وادی سے کوچ کرنے کا حکم دیا کہ وہاں شیطان ہے۔ اس وادی سے نکل کر آگے گئے تو آپ
نے نزول فرماکر حضرت بلال
کو اذان کا حکم دیااور نماز ادا فرمائی۔ جب جرف کے مقام پر پہنچے تو رات کا وقت ہوچکا تھا۔ آپ
نے صحابۂ کرام
کو وہاں رُکنے کاحکم فرمایا اور رات کے وقت اچانک سے گھر میں جانے سے منع فرمایا۔ صبح کو آپ
مدینہ منورہ میں داخل ہوئے ۔ جب اُحد پہاڑ پر نگاہ مبارک پڑی تو فرمایا کہ یہ پہاڑ آپ
سے محبت کرتا ہے اور آپ
اس سے محبت کرتے ہیں 78 یوں آپ
کی خیبر سے بخیر و عافیت واپسی ہوئی۔