encyclopedia

غزوہ خندق

Published on: 29-Mar-2024
نامِ غزوہ:غزوۂ خندق/غزوہ احزابتاریخ:شوال ،5 ہجری / 31 مارچ 627 ءمقام:مدینہ منورہ کے شمالی اطراف (اُحد کے نزدیک)مسلمانوں کی تعداد:تقریباً 3000 صحابہدشمن کی تعداد:تقریباً 10000افرادمسلمان سپہ سالار:نبی کریم ﷺدشمن سپہ سالار:ابوسفیان (بعد میں اسلام قبول کر لیادفاعی حکمت عملی:خندق کا کھودنا (سلمان فارسی کی تجویز)مدتِ محاصرہ:تقریباً ایک ماہمسلمانوں کے شہداء:6 صحابہ رضی اللہ عنہمدشمن کاجانی نقصان:10 افراد ہلاکغزوہ کا سبب:10 مدینہ پر قریش اور اتحادی قبائل کا حملہ اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازش۔نتیجہ:مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، کفار اور ان کے اتحادیوں نے شکست کھائی جس وجہ سے اسلام مزید طاقتور اور اسلامی ریاست مظبوط ہوئی۔
LanguagesالعربىةPortugueseEnglish

غزوہ خندق مدینہ منورہ میں 5 ہجری کو شوال کے آخر میں وقوع پذیر ہوا۔ 1 اس غزوہ میں رسول اللہ Alaihmas Salam کے ساتھ 3000 صحابہ کرام Alaihmas Salam نے شرکت فرمائی۔ 2 غزوہ خندق کو قرآن کریم میں "احزاب" کا نام بھی دیا گیا ہے۔ 3 اس غزوہ میں اہل مکہ نے یہود کے گٹھ جوڑ سے مکہ کے آس پاس کے قبائل کو اپنے ساتھ شامل کرکے مسلمانوں کی بیخ کنی کا ارادہ کیا۔ رسول اللہ Alaihmas Salam کو جب اس حملہ کی خبر ملی تو آپ Alaihmas Salam نے اہل مدینہ کے مشورہ سے مدینہ کےاندر رہ کر ہی لڑنے کا فیصلہ فرمایا اور اس مقام کو خندق کھود کر محفوظ کیا۔ 4 اہل مکہ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو اپنے سامنے خندق کھُدی دیکھ کر دنگ رہ گئے کیوں کہ اہل عرب کے لیے یہ جنگی چال بالکل نئی تھی۔ بالآخر ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد لشکر کفار خائب و خاسر ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ 5

غزوہ خندق کا سبب

اس غزوہ کا اصل محرک یہ بنا کہ مدینہ کے یہودی قبیلے بنونضیر کو اس کی شرارتوں کی وجہ سے مدینہ سے نکال دیا گیا اور خیبر کی طرف بھیج دیا گیا۔ بنونضیر اس بات کا غم و غصہ اپنے دل میں لیے ہوئے تھے جس کو وجہ بنا کر ان کے چند سردار مثلاً حی ابن اخطب، کنانہ بن ابو الحقیق، ہَوذہ ابن قیس وائلی اور ابو عامر فاسق مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور وہاں جاکر ابو سفیان سے ملاقات کی اور اس کو اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ ابوسفیان جو کئی بار کی شکست کے بعد ذلت سے دوچار تھا، یہودیوں کی اس سازش اور دعوت نے اس کے حوصلہ کو جلا بخشی۔ ابوسفیان نے ان کے ساتھ مل کر جنگ کی حامی بھرنے سے پہلے ان کو جانچنے کے لیے ان سے کچھ سوالات کیے، جس میں ایک سوال یہ تھا کہ ہم زیادہ افضل ہیں یا محمد (Alaihmas Salam) کیوں کہ ہم بیت اللہ کو آباد کرتے ہیں، حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں اور بتوں کی عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہودی وفد نے یوں دیا کہ:

اللّٰهم أنتم أولى بالحقّ منه، إنكم لتعظّمون هذا البيت، وتقومون على السّقاية، وتنحرون البدن، وتعبدون ما كان يعبد آباؤكم، فأنتم أولى بالحقّ منه. 6
یقیناً تم لوگ ہی ان سے زیادہ حق کے قریب ہو۔ تم لوگ بیت اللہ کی تعظیم کرتے ہو اور پانی پلانے کی خدمت کرتے ہو اور اونٹ ذبح کرتے ہو اور اسی کی عبادت کرتے ہو جس کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے تھے، لہذا تم لوگ ان سے زیادہ بہتر ہو۔

باوجود اس کے کہ یہود اہل کتاب تھے اور وہ قطعی طور پر یہ جانتے تھے کہ مشرکین مکہ حق پر قائم نہیں اوریہ بُت پرست ہیں پھر بھی ضد اور عناد کی وجہ سے انہوں نے ان کی خوشامد کرتے ہوئے نہ صرف ان کی تائید کی بلکہ ان کی خوب تعریف بھی کی۔ ان کے اس کتمان حق پر اللہ تعالی نے اُن پراِن الفاظ میں لعنت فرمائی:

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا 51 أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا 527
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں (آسمانی) کتاب کا حصہ دیا گیا ہے (پھر بھی) وہ بتوں اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت یہ (کافر) زیادہ سیدھی راہ پر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، اور جس پر اللہ لعنت کرے تُو اس کے لئے ہرگز کوئی مددگار نہ پائے گا۔

اس کے بعد مشرکین مکہ اور یہود نے بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر اس بات پر قسمیں کھائیں اور اتفاق کیا کہ وہ مل کر مسلمانوں پر حملہ کریں گے۔ یہودی سرداران نے مشرکین مکہ کے علاوہ قبیلہ غطفان اور قبیلہ بنوسلیم کو بھی اس جنگ پر آمادہ کیا اور ان کو بھی ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ان تمام قبائل نے دارالندوہ میں جمع ہوکر جنگ كے لئےنکلنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ 8

مسلمان شوریٰ کا اجلاس

اہل مکہ نے جب جنگ كی تیاریاں شروع کیں تو قبیلہ بنو خزاعہ نے اپنا ایک سوار رسول اللہ Alaihmas Salam کی طرف روانہ کیا جو 4 دن میں مدینہ پہنچا اور رسول اللہ Alaihmas Salam کو قریش مکہ کے ارادوں سے باخبر کیا۔ رسول اللہ Alaihmas Salam نے صحابہ کرام Alaihmas Salam کو جمع فرمایا اور ان سے دفاعی سلسلے میں مشورہ طلب فرمایا۔ حضرت سلمان فارسی Alaihmas Salam نے عرض کیا:

يا رسول اللّٰه!إنا كنا بأرض فارس إذا تخوفنا الخيل خندقنا علينا.
یا رسول اللہ! ہم جب فارس میں دشمن کا خوف محسوس کرتے تو اپنے اردگرد خندق کھود لیتے تھے۔

یہ ایک شاندار دفاعی تدبیر تھی جو مدینہ منورہ کے محل وقوع کے لحاظ سے بھی بہت موزوں تھی، چنانچہ یہ رائے متفقہ قرار پائی گئی اور اس پر عملی طور پر کام شروع کردیا گیا۔ 9

اہل مکہ کا خروج اور خندق کی کھدائی

لشکر کفار تقریباً 10،000 کی سپاہ کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا 10 جن میں کفار مکہ کے 4000 جنگجو، 300 گھوڑے اور 1500 اونٹ تھے۔ مرالظہران میں ان کے لشکر میں بنوسلیم اپنے 700 جنگجو لے کر شامل ہوئے، بنو فزارہ 1000 کے لشکر کے ساتھ، قبیلہ اشجع 400 سواروں کے ساتھ اور قبیلہ بنومرہ بھی 400 جنگجوؤں کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے کے لئے شامل ہوئے۔ مدینہ منورہ کا محل وقوع دفاعی لحاظ سے صرف شمالی طرف سے پُرخطر تھا باقی اطراف میں سے مشرقی جانب میں حرہ واقِم اور مغربی جانب میں حرہ وبَرَہ واقع تھا جس کے نوکیلے پتھروں کی وجہ سے وہاں سے لشکر کی صورت میں گزرنا محال تھا۔ اس کے علاوہ اطراف میں کھجوروں کے گھنے باغات کی وجہ سے مدینہ منورہ قدرتی طور پر محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔ شمالی جانب جس طرف اُحد پہاڑ واقع ہے وہ مقام خالی تھا جس کے سبب وہاں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 11 خندق کی کھدائی کے لئے دس دس لوگوں کی ٹولیاں بنائی گئیں اور ہر ٹولی کو 40 ہاتھ (گز) خندق کھودنے کا کام سونپا گیا۔ 12 خندق کھودنے کا سامان یہود مدینہ سے عاریۃ لیا گیا۔ 13

پھر رسول اللہ Alaihmas Salam کے لئے سرخ چمڑے کا ایک خیمہ نصب کیا گیا اورخندق کھودنے کا کام شروع کیا گیا۔ صبح سے شام تک مسلمان خوب دل جمعی سے محنت کرتے تھے جبکہ رسول اللہ Alaihmas Salam خود بھی بنفس نفیس ان کے ساتھ شریک عمل تھے۔ کچھ لوگ کھدائی میں مصروف تھے اور کچھ مٹی اٹھانے میں۔ رسول اللہ Alaihmas Salam کا جسم مبارک بھی راہ جہاد میں غبار آلود تھا۔ مسلمان سخت سردی اور بھوک کی حالت میں محوِ عمل تھے۔ کھانے پینے کے سامان کی حد درجہ قلت تھی۔ لشکر اسلام کے لئے مٹھی بھر جَو پرانی بدمزہ چربی میں بنا کر پیش کی جاتی جو حلق سے اترتی نہ تھی لیکن مجبوری میں نگلنا پڑتی تھی۔ اس حالت میں کھدائی کے دوران آپ Alaihmas Salam ترنم کے ساتھ کبھی تو یہ اشعار پڑھتے:

لولا انت ما اهتدينا
ولا تصدقنا ولاصلينا
فأنزل السكينة علينا
وثبت الاقدام ان لا قينا
ان الالى قد بغو ا علينا
اذا ارادو فتنة ابينا 14
(اے اللہ ) اگر تیری رحمت نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ ہم صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے، پس تو ہم پر سکون نازل فرما اور اگر ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ، بے شک ان لوگوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے، جب انہوں نے فتنہ (میں ڈالنے کا) ارادہ کیا تو ہم نے انکار کیا۔

اور کبھی یہ فرماتے:

اللّٰهم لا عيش الا عيش الاخرة
فاغفر للانصار والمهاجرة
اے اللہ بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے۔ سو تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔

اس کے جواب میں مہاجرین وانصار زوردار انداز میں یہ فرماتے:

نحن الذين بايعوا محمدا
على الاسلام ما بقينا ابدا 15
ہم نے محمد Alaihmas Salam سے بیعت کی ہے۔ تا حیات اسلام پر (قائم رہنے پر)۔

اسی اثناء میں رسول اللہ Alaihmas Salam کے پاس صحابہ کرام Alaihmas Salam تشریف لائے اور ایک چٹان نما پتھر کے بارے میں بتایا کہ ہمارے اوزار ٹوٹ گئے لیکن وہ پتھر نہیں ٹوٹتا۔ اس وقت آپ Alaihmas Salam ایک جبہ زیب تن کئے ہوئے تھے اور بھوک کی وجہ سے شکمِ مبارک پر پتھر باندھا ہوا تھا۔ آپ Alaihmas Salam یہ سن کر وہاں سے حضرت سلمان فارسی Alaihmas Salam کے ہمراہ اس مقام پر تشریف لائے اور ان سے کھدائی کا آلہ لیا، بسم اللہ پڑھ کر ایک ضرب لگائی جس سے اس چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ جس وقت رسول اللہ Alaihmas Salam نے اس چٹان پر ضرب لگائی تواس سے ایک روشنی کا شعلہ نمودار ہوا۔ آپ Alaihmas Salam نے بآواز بلند تکبیر لگا کر ارشاد فرمایا:

أعطيت مفاتيح اليمن، إني لأبصر أبواب صنعاء من مكاني الساعة.
یمن کی کنجیاں عطا کردی گئیں، میں اپنی جگہ سے یمن میں صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔

اس کے بعد دوسری ضرب لگائی جس سے اس چٹان کا دوسرا آدھا حصہ بھی ٹوٹ گیا۔ اس بار پھر آپ Alaihmas Salam نے تکبیر بلند فرمائی اور فرمایا:

أعطيت مفاتيح الشام، واللّٰه إني لأبصر قصورها الحمر.
مجھے شام کی کنجیاں عطا کردی گئیں، خدا کی قسم میں اس کے سرخ محلات دیکھ رہا ہوں۔

پھرتیسری ضرب پر بعینہ اسی کیفیت کے ساتھ آپ Alaihmas Salam نے ارشاد فرمایا:

أعطيت مفاتيح فارس، واللّٰه إني لأبصر قصور الحيرة ومدائن كسرى. 16
مجھے فارس کی کنجیاں عطا کردی گئیں، خدا کی قسم میں اپنی جگہ سے مقام حیرہ اور مدائنِ کسریٰ کے محلات دیکھ رہا ہوں۔

ان بشارتوں کے بعد آپ Alaihmas Salam نے فرمایا کہ جبرائیل Alaihmas Salam نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالی آپ Alaihmas Salam کی امت کو یہ سب عطا فرمائے گا۔ منافقین یہ دیکھ کر مذاق اڑانے لگے اور کہنے لگے دیکھو ان کا نبی ان کو کیسی امیدیں دلارہا ہے، ان کو قیصر وکسری کے محلات کے خواب دکھا رہا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہےکہ کم کھانے کی وجہ سے یہ بول وبراز کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ 17 اس پر اللہ تعالی نے ان کی مذمت میں یہ آیت نازل فرمائی:

وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا 1218
اور جب منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (کمزورئ عقیدہ اور شک و شبہ کی) بیماری تھی، یہ کہنے لگے کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے صرف دھوکہ اور فریب کے لئے (فتح کا) وعدہ کیا تھا۔

اس آیت کے ذریعے اللہ تعالی نے ان اعتراض کرنے والوں کو نا صرف منافق کہہ کر پکارا بلکہ ان کے اعتراض کو ان کے باطنی مرض کا نتیجہ قرار دیا۔ اس کے بعد منافقین جھوٹے بہانے بنا کر وہاں سے نکل جاتے اور جان بوجھ کر دیر لگاتے تاکہ خندق کھودنے کا کام سست روی کا شکار ہو اور مشرکین مسلمانوں کے سروں پر آپہنچیں جبکہ اہل ایمان اللہ کے نبی Alaihmas Salam سے اجازت لیتے اور جلدی سے حاجت پوری کرکے واپس خندق کھودنے آجاتے۔ 19 اہل ایمان کو اللہ تعالی کی طرف سے اس آنے اور جانے کی خاص اجازت عطا فرمائی گئی تھی اور ان کی تعریف میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ 6220
ایمان والے تو وہی لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول (Alaihmas Salam) پر ایمان لے آئے ہیں اور جب وہ آپ کے ساتھ کسی ایسے (اجتماعی) کام پر حاضر ہوں جو (لوگوں کو) یکجا کرنے والا ہو تو وہاں سے چلے نہ جائیں (یعنی امت میں اجتماعیت اور وحدت پیدا کرنے کے عمل میں دل جمعی سے شریک ہوں) جب تک کہ وہ (کسی خاص عذر کے باعث) آپ سے اجازت نہ لے لیں، (اے رسولِ معظّم!) بیشک جو لوگ (آپ ہی کو حاکم اور مَرجَع سمجھ کر) آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی لوگ اللہ اور اس کے رسول (Alaihmas Salam) پر ایمان رکھنے والے ہیں، پھر جب وہ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے (جانے کی) اجازت چاہیں تو آپ (حاکم و مختار ہیں) ان میں سے جسے چاہیں اجازت مرحمت فرما دیں اور ان کے لئے (اپنی مجلس سے اجازت لے کر جانے پر بھی) اللہ سے بخشش مانگیں (کہ کہیں اتنی بات پر بھی گرفت نہ ہوجائے)، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

اس کے بر عکس منافقین رسول اللہ Alaihmas Salam کو مصروف عمل پاکر چوری چپکے بلا اجازت خندق سے کھسک جاتے تھے۔21 منافقین کی اس حرکت پر اللہ تعالی نے سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

...قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 6322
بیشک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت Alaihmas Salam سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (Alaihmas Salam) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا۔

نبی کریم Alaihmas Salam کی قیادت میں صحابہ کرام Alaihmas Salam خندق کھودنے میں کئی دن تک مصروف رہے اور اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جب کھدائی مکمل ہوئی تو خندق کی لمبائی تقریبا 3000 میٹر، چوڑائی 9 میٹر جبکہ گہرائی 5 میٹر بنتی تھی۔ 23

خندق کی کھدائی کے دوران معجزہ نبوی ﷺ

جس وقت خندق کی کھدائی ہورہی تھی اس وقت مسلمان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ جسموں پر مکمل لباس نہیں تھا، کھانے کے بقدر ضرورت طعام دستیاب نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ اس کے باوجود ایمان کا عالم یہ تھا کہ تکبیر کی گونجوں میں قیصر وکسری کے محلات دکھائی دے رہے تھے اور ایمان واسلام پر شکر گزاری سے لب تر تھے۔ اسی دوران حضور Alaihmas Salam کے ہاتھ سے معجزات کے ظہور نے ان کی ہمت کو اور بھی دوبالا کردیا۔ حضرت نعمان بن بشیر Alaihmas Salam کی ہمشیرہ فرماتی ہیں کہ مجھے میری والدہ نے لَپ (دونوں ہاتھوں میں) بھر کھجوریں دیں کہ میں اپنے ماموں عبداللہ بن رواحہ Alaihmas Salam اور اپنے والد کو دے کر آؤں۔ میں ان کوکھجوریں دینے کے لیے روانہ ہوئی تووہاں مجھے رسول اللہ Alaihmas Salam نے دیکھ کر بلایا اور ان کھجوروں کے متعلق دریافت کیا جو میرے ہاتھ میں تھیں۔ میرے بتانے پر آپ Alaihmas Salam نے مجھ سے وہ کھجوریں لے لیں اور ایک کپڑے پر ڈال دیں۔ وہ مٹھی بھر کھجوریں آپ Alaihmas Salam کی برکت سے اتنی زیادہ ہوگئیں کہ وہ کپڑے سے باہر گرنے لگیں۔ آپ Alaihmas Salam نے بآواز بلند سب صحابہ کرام Alaihmas Salam کو اپنے پاس جمع ہونے کا حکم فرمایا۔ جب سب صحابہ کرام Alaihmas Salam آپ Alaihmas Salam کے پاس جمع ہوئے تو آپ Alaihmas Salam نے ان کھجوروں کو ان میں تقسیم کرنا شروع کردیا یہاں تک کے سب صحابہ کرام Alaihmas Salam ان کو کھاتے رہے یہاں تک کہ تمام اہل لشکر کے کھانے کے بعد بھی وہ بچ گئیں۔ 24

اسی طرح حضرت جابر Alaihmas Salam کے بارے میں آتا ہے کہ خندق کی کھدائی کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب آپ Alaihmas Salam نے دیکھا کہ آپ Alaihmas Salam نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا تھا کیونکہ آپ Alaihmas Salam نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ حضرت جابر Alaihmas Salam نے حضور Alaihmas Salam سے اجازت لی اور گھر جاکر اپنی زوجہ کو سارا ماجرا بتایا۔ اس وقت آپ Alaihmas Salam کے گھر میں صرف ایک بکری کا بچہ تھا اور کچھ جَو کے دانےتھے۔ آپ Alaihmas Salam نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور جَو پیس کر آٹا گوندھنے کا کہہ کر واپس خندق چلے گئے تاکہ رسول اللہ Alaihmas Salam کو اپنے ساتھ کھانے کے لئے لا سکیں۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت ان کی زوجہ نے ان کو خبردار کیا کہ کھانے کے بقدر لوگوں کو لانا۔ جب یہ وہاں پہنچے تو رسول Alaihmas Salam سے عرض کی کہ وہ چند اصحاب کو لے کر ان کے گھر کھانا کھانے کے لئے تشریف لائیں۔ آپ Alaihmas Salam نے تمام اصحاب سے فرمایا کہ وہ حضرت جابر Alaihmas Salam کے گھر چلیں کیونکہ انہوں نے سب کے لئے کھانے کی دعوت کا اہتمام کیا ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ Alaihmas Salam نے دس دس لوگوں کو حضرت جابر Alaihmas Salam کے گھر میں داخل ہونے کا حکم دیا اور ہنڈیا سے خود سالن ڈال کر اس میں روٹی توڑ کر پیش کرتے رہے یہاں تک کہ تمام اہل خندق نے خوب سیر ہوکر کھانا کھایا اور اس کے بعد آپ Alaihmas Salam نے حضرت جابر Alaihmas Salam سے فرمایا کہ خود بھی کھالیں اور اہل خانہ کو بھی کھلائیں۔ 25 وہ تھوڑا سا کھانا تمام اہل خندق کو کفایت کرگیا اور سب آپ Alaihmas Salam کے ہاتھوں کی برکتوں سے مستفیض ہوئے۔

لشکر کفار کی بے بسی

چھ دن کی انتھک محنت ومشقت کے بعد رسول اللہ Alaihmas Salam جب خندق کی کھدائی سے فارغ ہوئے تو آپ Alaihmas Salam نے عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل فرما دیا۔ پھر پیر کے دن آپ Alaihmas Salam نے 3000 جانثار صحابہ کرام Alaihmas Salam کے لشکر کےساتھ خندق کی طرف جانے کا اعلان فرمایا اور علم برداروں کا بھی انتخاب کیا۔ مہاجرین کا جھنڈاحضرت زید بن حارثہ Alaihmas Salam کو اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ Alaihmas Salam کے حوالہ کیا۔ جب آپ Alaihmas Salam اس لشکر کو لے کر محاذ پر پہنچے تو جبلِ سلع کو اپنی پشت کی جانب رکھ کر لشکر کو جنگ کے لئے ترتیب دیا۔ اسی مقام پر آپ Alaihmas Salam کے لیے ایک خیمہ بھی نصب کیا گیا اور مسلمانوں کا جنگی خفیہ کلمہ حم لاینصرون مقرر کیا گیا۔ 26

دوسری طرف کفار کا لشکر بھی مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈال چکا تھا۔ لشکر کفار کو اپنی بڑی تعداد کے سبب 2 حصوں میں تقسیم ہوکر پڑاؤ ڈالنا پڑا۔ قریش اور ان کے حلیف مجمع الاسیال میں ٹھہرے جن کی تعداد تقریباً 4000 تھی جبکہ قبیلہ غطفان اور ان کے ساتھ اہل نجد وغیرہ نے جبلِ اُحد کے پاس پڑاؤ کیا 27 جن کی تعداد تقریباً 6000 تھی۔ کفار جب مدینہ منورہ پہنچے تو اپنے سامنے خندق کو دیکھ کر بری طرح سٹپٹا گئے اور مسلمانوں کے اس دفاعی نظام سے حیران وششدر رہ گئے کیوں کہ اس دفاعی تدبیر سے اہل عرب نا واقف تھے۔ 28

یہود کی ناکام سازش

لشکر کفار کی قیادت اس بار بھی ابو سفیان کے پاس تھی۔ اس نے خندق کا معائنہ کرنے کے بعد یہود کے پاس مدد کے لئے پیغام بھیجا۔ حیی بن اخطب جویہودی قبیلہ بنو نضیرکا سردار تھا، کعب بن اسد قرظی کے پاس گیا جس کا تعلق قبیلہ بنو قریظہ سے تھا۔ قبیلہ بنو قریظہ بھی اپنی اصل کے اعتبار سے یہودی ہی تھا لیکن اس وقت وہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ میں بندھا ہوا تھا اور اس کی مکمل پاسداری بھی کررہا تھا۔ اس قبیلہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے لوگ ایک قلعہ نما علاقہ میں رہتے تھے جو مدینہ طیبہ کے اندر واقع تھا۔ ابو سفیان اور حیی بن اخطب یہ چاہتے تھے کہ یہ کسی طرح اندر سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائیں تاکہ باہر سے خندق کو پار کرکے ان کو مدینہ میں داخل ہونے کا موقع مل جائے اور دو طرفہ حملہ مسلمانوں کو شکست سے دوچار کردے۔

حیی بن اخطب جب کعب بن اسد قرظی سے ملنے اس کے قلعہ گیا تو کعب بن اسد نے اس سے ملنے سے انکار کردیا اور تنبیہ کی کہ قلعہ کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ حیی بن اخطب نے بالآخر اس کو یہ طعنہ دیا کہ وہ مہمان نوازی سے بچنے کے لئے ملنے سے کترا رہا ہے۔ کعب اس طعنہ کو برداشت نہ کرسکا اور مجبوراً دروازہ کھلوادیا۔ دروازہ کھلتے ہی حیی بن اخطب کہنے لگا: تیرا ناس ہو، میں تیرے پاس ایک امڈتے ہوئے سمندر جیسا لشکر لایا ہوں جو تمام معزز قبائل پر مشتمل ہے اور انہوں نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اس بار مسلمانوں کی بیخ کنی کرکے ہی دم لیں گے اور تو ہے کہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا۔ یہ بات سن کر کعب بن اسد کہنے لگا کہ تو میرے پاس جو لشکر لایا ہے وہ زمانہ بھر کی ذلتیں اٹھائے ہوئے ہے اور اس لشکر میں سوائے گرجنے کے اور کوئی دم نہیں لہذا مجھے میرے عہد پر قائم رہنے دو کیونکہ میں نے محمد (Alaihmas Salam) میں امانت وصداقت ہی دیکھی ہے۔ لیکن حیی بن اخطب مستقل کعب بن اسد کو سبز باغ دکھاتا رہا یہاں تک کہ کعب بن اسد اس شرط پر اس کی بات ماننے کو تیار ہوگیا کہ اگر قریش اور غطفان مسلمانوں کو نقصان پہنچائے بغیر واپس لوٹ گئے تو حیی بن اخطب اپنے آپ کو ان کے ساتھ قلعہ بند کرے گا اور جو فیصلہ بنو قریظہ کے بارے میں ہوگا وہ اس پر بھی نافذ ہوگا۔ اس شرط پر کعب وحیی کے درمیان بات طے ہوگئی۔ 29

رسول اللہ Alaihmas Salam کو یہودیوں کی اس سازش کا علم ہوا تو آپ Alaihmas Salam نے حضرت سعدبن معاذ ،سعد بن عبادہ، عبداللہ بن رواحہ اور خوّات بن جبیر Alaihmas Salam کو اس واقع کی تحقیق کے لیے روانہ فرمایا اور ان کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر یہ خبر جھوٹی ہو تو مجمع عام میں اس کا تذکرہ کرنا اور اگر سچی ہو تو صرف آپ Alaihmas Salam کو ہی خبر کرنا۔ جب یہ حضرات یہود کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان کے تیور بدلے ہوئے پائے جس پر ان حضرات نے یہود کو سمجھایا اور وہ معاہدہ بھی یاد دلایا۔ اس بات کو سنے کے باوجود کعب بن اسد نے اس معاہدہ کی پاسداری سے انکار کردیا اور کہا کہ انہوں نے یہ معاہدہ جوتے کے تسمہ کی طرح توڑدیا ہے (نعوذ باللہ)۔ اس خبر کو لے کر یہ حضرات واپس رسول اللہ Alaihmas Salam کے پاس گئے اور اشاروں میں آپ Alaihmas Salam کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ 30

اس بات کو عام مسلمان بھی سمجھ گئے تھے اور سخت بے چینی کا شکار ہورہےتھے کیوں کہ سامنے کفار کا کئی گنا بڑا لشکر تھا اور پیٹھ پیچھے کے یہود بھی عہد شکن ہوگئے تھے۔ مسلمانوں کے سخت اضطراب کی اس کیفیت کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا:

إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا 10 هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا1131
جب وہ (کافر) تمہارے اوپر (وادی کی بالائی مشرقی جانب) سے اور تمہارے نیچے (وادی کی زیریں مغربی جانب) سے چڑھ آئے تھے اور جب (ہیبت سے تمہاری) آنکھیں پھر گئی تھیں اور (دہشت سے تمہارے) دل حلقوم تک آپہنچے تھے اور تم (خوف و امید کی کیفیت میں) اللہ کی نسبت مختلف گمان کرنے لگے تھے،اُس مقام پر مومنوں کی آزمائش کی گئی اور انہیں نہایت سخت جھٹکے دئیے گئے۔

اس امتحان کی گھڑی میں مسلمان اپنے مورچے سنبھالے ہوئے تھے جبکہ منافقین کا حال یہ تھا کہ کچھ تو پہلے ہی بہانے بنا کر نکل چکے تھے اور باقی اپنے گھروں کو یہود کے حملے سے بچانے کے بہانے چلے گئے۔ قرآن کریم نے ان کی اس حرکت کو یوں بیان فرمایا:

وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَاأَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا 1332
اور جبکہ اُن میں سے ایک گروہ کہنے لگا: اے اہلِ یثرب! تمہارے (بحفاظت) ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں رہی، تم واپس (گھروں کو) چلے جاؤ، اور ان میں سے ایک گروہ نبی اکرم (Alaihmas Salam) سے یہ کہتے ہوئے (واپس جانے کی) اجازت مانگنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں، حالانکہ وہ کھلے نہ تھے، وہ (اس بہانے سے) صرف فرار چاہتے تھے۔

رسول اللہ Alaihmas Salam یہود کی عہد شکنی کی خبر سن کر رخِ انور پر کپڑا ڈھانپ کر لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد آپ Alaihmas Salam نے رخِ زیبا سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا کہ میں تمھیں اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کی بشارت دیتا ہوں۔ 33

حضرت صفیہ Alaihmas Salam کی جرأتمندی

مدینہ منورہ میں یہود نے اس وعدہ خلافی کے بعد اپنے قلعوں سے نکل کران مقامات کا جائزہ لینا شروع کردیا جہاں مسلمانوں کی خواتین اور بچے موجود تھے۔ اسی اثنا میں حضرت صفیہ Alaihmas Salam ( جو رسول اللہ Alaihmas Salam کی پھوپھی تھیں) نے ایک یہودی کو دیکھا جو اس جگہ میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا جہاں مسلمانوں کی خواتین اور بچے موجود تھے۔ آپ Alaihmas Salam نے حضرت حسان بن ثابت Alaihmas Salam کو اس یہودی کو بھگانے کے لیے کہا لیکن جب ان کو اس حوالے سے کمزور پایا تو خود ایک مضبوط شہتیر لے کر اس یہودی کے سر پر دے مارا جس سے وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔ 34 اس کے بعد آپ Alaihmas Salam نے اس کا سر کاٹ کر یہودیوں کی طرف اچھال دیا جس سے وہ یہ سمجھنے لگے کہ یہاں بھی مسلمان محافظ موجود ہیں۔ اپنے ایک ساتھی کے قتل کے بعد وہ اپنے ناپاک ارادوں سے بازآگئے۔ 35

خندق پار کرنے کی ناکام کوشش

خندق کے اُس پار کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ غصے سے تلملا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح سے خندق پار کرلیں۔ ان میں جو بڑے بڑے جنگجو تھے انہوں نےباقائدہ باریاں مقرر کیں کہ وہ کسی طرح خندق کو پار کرلیں۔ ایک دن ابو سفیان کوشش کرتا، ایک دن خالد بن ولید اور ایک دن ضرار بن خطاب فہری۔ ان سب نے اپنےمختلف وقتوں اور ایّام میں کئی کئی سوار کے ساتھ جا کر خندق پار کرنے کی کوششیں کیں لیکن مسلمان فوج کے مضبوط دفاع نے ان کو پسپا کردیا۔ 36 مسلمان ایک طرف تو ان سے نبرد آزما تھے دوسری جانب رسالت مآب Alaihmas Salam کے خیمہ کی مسلح پہرہ داری بھی رکھے ہوئے تھے جبکہ رسول اللہ Alaihmas Salam خود بھی سخت سردی میں تشریف لاتے اور حالات و واقعات کا مشاہدہ فرماتے۔

ایک رات آپ Alaihmas Salam حضرت امِّ سلمہ Alaihmas Salam کے خیمہ میں نمازکی ادائیگی میں مشغول تھے کہ اچانک آپ Alaihmas Salam باہر تشریف لائے اور حضرت زبیر بن عوام Alaihmas Salam اور عباد بن بشر Alaihmas Salam جو پہرہ داری میں کھڑے تھے، ان سے فرمایا: وہ دیکھو مشرکین کے گھوڑے خندق پار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جاؤ اور ان کو روکو۔ حضرت عباد بن بشر Alaihmas Salam فوراً وہاں پہنچے تو ابو سفیان مشرکین کی ایک ٹولی کے ساتھ مل کر خندق عبور کرنے کی کوشش میں تھا، انہوں نے فوراً ان پر تیر اندازی اور سنگ باری شروع کردی اور وہاں سے بھگا دیا۔ 37

اسی طرح محاصرہ کو 20 دن گزر گئے۔ ایک دن مشرکین کا ایک مضبوط شہسوار عمروبن عبدود خندق کا معائنہ کرتا رہا اور اس بات کو جانچ لیا کہ خندق ایک جگہ سے تنگ ہے۔ اس نے اپنے گھوڑے کے ساتھ اس جگہ پر زور آزمائی کی اور بالآخر خندق پار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ خندق پار کرتے ہی عمرو نے مسلمانوں کو مبارزت کی دعوت دی جس پرحضرت علی Alaihmas Salam نے آپ Alaihmas Salam سے مقابلہ میں جانے کی اجازت طلب کی۔ رسول اللہ Alaihmas Salam نے ان کو عمامہ پہنا کر، تلوار دے کر روانہ کیا اور اللہ تعالی سے ان کی مدد کی دعا فرمائی۔ 38

حضرت علی Alaihmas Salam جب اس کے سامنے پہنچے تو آپ Alaihmas Salam نے اس سے مخاطب ہو کر اس کو اسلام کی دعوت دی۔ عمرو بن عبدود نے اس بات کو نظر انداز کردیا جس پر حضرت علی Alaihmas Salam نے ان کو واپس لوٹنے کا کہا اور نہ لوٹنے کی صورت میں جنگ کے لئے تیار رہنے کا کہا۔ اس پر عمرو نے کہا کہ وہ کسی چھوٹے بچے کا خون بہانا پسند نہیں کرتا لہذا کسی بڑے بندے کو لڑنے کے لئے بھیجا جائے۔ اس کے جواب میں حضرت علی Alaihmas Salam نے فرمایا کہ وہ عمرو کا خون بہانا پسند کرتے ہیں۔ اِس پرعمرو نے طیش و غضب میں اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں اوربجلی کی تیزی سے تلوار نکالی اور حضرت علی Alaihmas Salam پر وار کیا جس کو انہوں نے اپنی ڈھال سے روک کر اس مشرک پر ایسا وار کیا جو اس کے آر پار ہو گیا۔ تکبیر کی گونج سن کر رسول اللہ Alaihmas Salam نے فرمایا کہ علی Alaihmas Salam نے اس کو قتل کردیا۔ یہ حالت دیکھ کراس کے ساتھ آئے ہوئے باقی کفار بھاگنے لگے۔ حضرت زبیر بن عوام Alaihmas Salam نے ان میں سے نوفل بن عبداللہ کا پیچھا کیا اور اس پر اپنی تلوار سے وار کرکے دوٹکڑے کردیے۔ 39

عمروبن عبدود کے قتل کے بعد لشکر کفار کی طرف سے آپ Alaihmas Salam کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ لاش حاصل کرنے کے لئے 10،000 درھم دینے کو تیار ہیں۔ نبی کریم Alaihmas Salam نے اس قیمت کو رد کردیا اور فرمایا کہ تمام مشرکین کی میتیں وہ بغیر کسی قیمت کے لے جائیں۔ 40

دوران جنگ مال غنیمت

کفار کو محاصرہ کئے ہوئے کئی دن ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان کے پاس سامانِ خوردونوش اور جانوروں کا چارہ ختم ہوگیا تھا۔ ابو سفیان نے حیی بن اخطب کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ ان کے لئے امداد بھجوائے۔ حیی بن اخطب نے کعب بن اسد کی اجازت سے ان کو 20 اونٹ بمع سامان کے جس میں کھجور، جَو اور جانوروں کا چارہ تھا، بھجوانے کا انتظام کیا۔ جب یہ لوگ سامان لے کر لشکر گاہ کی طرف چلے تو صفنہ کے مقام پر ان کا سامنا بنو عمر بن عوف سے ہوا جس میں ابو لبابہ بن عبد المنذر، عويم بن ساعدة اورمعن بن عدی Alaihmas Salam شامل تھے۔ انہوں نے ان قریشیوں پر دھاوا بول دیا اور کفار کے اس قافلہ کے سردار ضرار بن خطاب نے اس سامان کو بچانے کی کوشش کی لیکن زخمی ہونے کے بعد ہتھیار ڈال دئے اور پورا سامان مسلمانوں کے حوالہ کرکے بھاگ گیا۔ بنو عمر و نے یہ سامان رسول اللہ Alaihmas Salam کی خدمت میں پیش کیا جس کو رسول اللہ Alaihmas Salam نے خندق کے محاصرہ کے دنوں میں استعمال کرنے کاحکم دیا اور جو بچ گیا وہ واپسی میں مدینہ منورہ ساتھ لے گئے۔ 41

شدید محاصرہ کی وجہ سے نمازیں قضا ہوئیں

عمرو ابن عبدود کے مارے جانے کے بعد کفار کے غیظ وغضب میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کفار کا لشکر ابھی تک مکمل خسارے میں تھا۔ اس لیے پوری قیادت سرجوڑ کر بیٹھ گئی اور یہ طے پایا کہ اگلے دن سب مل کر ایک ساتھ مسلمانوں پرحملہ کریں گے۔ اس رائے پر اتفاق کے بعد انہوں نے اگلی صبح ہونے تک انتظار نہیں کیا اور مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ ادھررسول اللہ Alaihmas Salam نے بھی صحابہ کرام Alaihmas Salam کو ہوشیار کیا ہوا تھا۔ اس لئے جب کفار نے حملہ کیا تو مسلمانوں نے اس کا بھرپور دفاع کیا یہاں تک کہ صبح سے شام ہوگئی لیکن کوئی اپنی جگہ سے نہ ہٹا۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ سنبھالے ہوئے تھا یہاں تک کہ رات کا اندھیرا چھاگیا اور دونوں لشکر اپنی قیام گاہوں میں واپس ہوگئے۔ 42

اسی سخت محاصرہ کے دوران مسلمان لشکر کی ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں فوت ہوگئیں۔ ان نمازوں کے قضا ہونے کا آپ Alaihmas Salam کو اس قدر دکھ تھا کہ آپ Alaihmas Salam نے کفار کے لیے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:

ملأ اللّٰه قبورهم وأجوافهم ناراً. 43
اللہ ان کے قبروں اور گھروں کو آگ سے بھردے۔

اس کے بعد آپ Alaihmas Salam نے تمام صحابہ کرام Alaihmas Salam کو ان الفاظ کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی ترغیب دی:

أيّها النّاس: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، واسألوا اللّٰه العافية، فإذا لقيتموهم فاصبروا، واعلموا أنّ الجنّة تحت ظلال السّيوف. 44
اے لوگو! تم خود دشمن سے لڑنے کی تمنا نہ کرو، اور اللہ تعالی سے عافیت مانگتے رہو لیکن اگر دشمن کا سامنا ہوجائے تو ثابت قدمی دکھاؤ۔ یاد رکھو! جنت تلوار کے سائے میں ہے۔

جنگ کا پانسہ پلٹنے میں نعیم بن مسعود Alaihmas Salam کا کردار

خندق کا محاصرہ دونوں فریقین کے لئے سخت ہوتا جارہا تھا اور کوئی نتیجہ خیز معرکہ ابھی تک پیش نہیں آیا تھا۔ اسی اثناء میں نعیم بن مسعود Alaihmas Salam جن کے تعلقات کا دائرہ بنو قریظہ وبنو نضیر سے لےکر قریش مکہ تک وسیع تھا، وہ رسول اللہ Alaihmas Salam کے پاس حاضر ہوئے اور اسلام قبول فرمالیا۔ اس کے بعد انہوں نے آپ Alaihmas Salam سے خصوصی اجازت طلب کی کہ وہ اس جنگ کے خاتمے کے لئے اپنی خدمات پیش کر سکیں۔ آپ Alaihmas Salam نے ان کو اجازت عطا فرمائی تو وہ سب سے پہلے بنو قریظہ کے پاس گئے جو کہ ابھی تک ان کے اسلام لانے پر آگاہ نہیں تھے۔ نعیم بن مسعود Alaihmas Salam بنو قریظہ کے پاس گئے اور انہیں تنبیہ کی کہ ان کے اور قریش کے درمیان ہونے والے معاہدے نے قبیلہ قریظہ کو مکمل طور پر نقصان میں ڈال دیا ہے کیونکہ اگر جنگ مسلمانوں کے حق میں ختم ہوئی تو قریش بنو قریظہ کی مدد نہیں کریں گے اور مکہ واپس چلے جائیں گے جس سے بنو قریظہ مسلمانوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اس مسئلہ کا حل آپ Alaihmas Salam نے یہ تجویز کیا کہ بنو قریظہ قریش اور بنو غطفان سے یہ تقاضہ کرے کہ وہ اپنے معزز ترین آدمیوں کو بنو قریظہ کے قبیلہ میں بھیج دیں جو ضمانت کے طور پر وہیں رہیں گے۔ اس سے قریش کبھی بھی بغیر فتح کے واپس جانے کا نہیں سوچیں گے چاہے حالات کتنے بھی سنگین کیوں نہ ہوجائیں۔ بنو قریظہ نے متفقہ طور پر اس تجویز کو قبول کیا۔ اس کے بعد نعیم ابن مسعود Alaihmas Salam نے قریش کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔ پھر نعیم ابن مسعود Alaihmas Salam نے ان کے ساتھ خفیہ معلومات دینے کی پیشکش اس شرط پر کی کہ قریش کے قائدین اس کو خفیہ رکھیں گے۔ جب اہل قریش نے یہ شرط مان لی تو آپ Alaihmas Salam نے ان کو آگاہ کیا کہ بنو قریظہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کررہے ہیں اور مسلمانوں سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اس صلح کے لئے اور اپنا کھویا ہوا اعتبار حاصل کرنے کے لئے انہوں نے قریش کے سرداروں کو حضور Alaihmas Salam کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا لہذا اگر بنو قریظہ قریش سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنے معزز آدمیوں کو ضمانت کے طور پر ان کے پاس بھیجیں تو قریش اس پیشکش کو رد کردیں۔ اس کے بعد نعیم بن مسعود Alaihmas Salam قبیلہ غطفان کے پاس گئے اور ان سے وہی باتیں کہیں جو قریش کے قائدین سے کی تھیں۔ 45

یہ ساری جنگی حکمت عملی تھی جس کے تحت انہوں نے تینوں قبائل کے اندر ایک دوسرے کے لیے دراڑیں پیدا کردیں اور تینوں قبائل ان کی بات پر اس لئے بھروسہ کر بیٹھے تھے کہ ابھی تک ان میں سے کسی کو بھی آپ Alaihmas Salam کے اسلام لانے کا علم نہیں ہوا تھا۔ کفار مکہ جو پہلے ہی خندق، سخت سردی، بھوک اور جانوروں کا چارہ ہونے کی وجہ سے پریشان تھے، یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری۔ اب ان دونوں گروہوں نے عملی طور پر ایک دوسرے کو جانچنا شروع کیا۔ بنو قریظہ نے اپنا ایک نمائندہ غزال ابن سموال قریش کے پاس یہ کہلا کر بھیجا کہ تم لوگوں نے وعدہ کیا تھا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ مل کر ان مسلمانوں پر حملہ کرو گے لیکن اتنا زیادہ وقت گذرنے کے باوجود تم لوگوں نے کوئی کار آمد کاروائی نہیں کی۔ اب ہم لوگ تمہارا ساتھ اس وقت ہی دیں گے جب تم لوگ اپنے کچھ بندے ہمارے حوالے کردو گے کیوں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ تم لوگ ہمیں پھنسا کر خود مکہ بھاگ جاؤ گے۔ ابو سفیان نے اس کی بات سنی تو اس کو بغیر کچھ واضح جواب دئے وہاں سے چلتا کردیا اور اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہی ہوا جس کا اندیشہ نعیم بن مسعود Alaihmas Salam نے ظاہر کیا تھا۔ نعیم بن مسعود Alaihmas Salam قریش کے خیموں سے واپس بنوقریظہ کے پاس گئے اور ان سے کہنے لگے کہ جب تمہارا بندہ ابو سفیان کے پاس آیا تھا تومیں وہیں تھا۔ ابو سفیان نے تمہارے بندے کے واپس آنے کے بعد واضح طور پرکہا کہ اگر یہ مجھ سے ایک اونٹ کا بچہ بھی مانگیں گے تو میں ان کو وہ تک نہ دوں گا۔ یہ ہمارے بندے محمد (Alaihmas Salam) کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ پس تم ان کا ساتھ نہ دینا جب تک کہ یہ تمہاری بات نہ مان لیں۔ 46

ہفتہ کی رات کو ابو سفیان نے عکرمہ بن ابو جہل اور کچھ لوگوں کو بنو قریظہ کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ قریش کے لشکر کی حالت بہت نازک ہے لہذا بنو قریظہ مسلمانوں کی پیٹھ سے حملہ کریں اور قریش کا لشکر سامنے سے حملہ کرے گا تاکہ مسلمانوں کا قصّہ تمام ہوجائے۔ بنو قریظہ نے یہ بات سنی تو جواب دیا کہ ہفتہ کا دن ہونے کی وجہ سے وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ پھر انہوں نے تقاضہ کیا کہ قریش اپنے کچھ معزز لوگ ان کے پاس ضمانت کے طور پر رکھوائے۔ اگر وہ یہ کام کریں گے تو بنو قریظہ ان کی مدد کرے گا ورنہ ان سے کسی چیز کی امید نہ رکھی جائے۔ جب یہ لوگ ناکام واپس ہوئے تو ابوسفیان اور غطفانی کہنے لگے کہ نعیم بن مسعود Alaihmas Salam ٹھیک کہتا تھا کہ یہود کے ارادے بدل چکے ہیں، اب یہ ہمارا ساتھ دینے والے نہیں ہیں۔ 47

قبیلہ غطفان کی مصالحت کی کوشش

حالات دونوں طرف ناسازگار تھے اور دونوں فریقین طوالتِ جنگ سے تنگ آرہے تھے کہ اسی دوران قبیلہ غطفان کا ایک سردار رسول اللہ Alaihmas Salam کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ Alaihmas Salam ہمیں مدینہ کی آدھی کھجوریں دینے کا اعلان فرما دیں نہیں تو ہم آ پ Alaihmas Salam کے خلاف قریش مکہ سے مل کر لشکر کشی کریں گے۔ رسول اللہ Alaihmas Salam کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ یہ قبیلہ محض مالی مفاد کےلیے قریش کے ساتھ شامل ہوا ہے اس لیے آپ Alaihmas Salam نے ان سے فرمایا کہ میں اس بارے میں مشورہ کروں گا۔ لیکن جب رسول اللہ Alaihmas Salam نے مسلمانوں کو سخت پریشانی کے عالم میں دیکھا تو آپ Alaihmas Salam نے ان کے سردار کو بلایا اور فرمایا کہ ہم تمہیں مدینہ کی ایک تہائی کھجور دیں گے پس تم اپنا لشکر لے کر یہاں سے روانہ ہوجاؤ۔ آپ Alaihmas Salam اس معاہدہ کے ذریعےکفار کی قوت توڑنا چاہتے تھے۔ معاہدہ لکھتے وقت آپ Alaihmas Salam کے پاس عباد بن بشر Alaihmas Salam موجود تھے جو آپ Alaihmas Salam کے اس فیصلہ پر عرض گزار ہوئے کہ اگر یہ آسمانی فیصلہ ہے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں لیکن اگر یہ محض ان کے لئے کیا جارہا ہے تو آپ Alaihmas Salam ایسا ہرگز نہ کریں کیونکہ وہ ہر حال میں لڑنے کو تیار ہیں اور دشمن کو اپنی تلواروں سے سیدھا کردیں گے۔ آپ Alaihmas Salam نے سعد بن معاذ Alaihmas Salam اور سعد بن عبادہ Alaihmas Salam کو بلوایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ انہوں نے آپ Alaihmas Salam کی بات سنی تو وہی جواب دیا جو عباد بن بشیر Alaihmas Salam نے دیا تھا۔ آپ Alaihmas Salam نے صحابہ کرام Alaihmas Salam کا یہ جذبہ دیکھ کر اس معاہدہ کو ختم فرمادیا اور غطفانی ناکام ہوکر لوٹ گئے۔ 48

نصرت الٰہی اور لشکر کفار کا بھاگنا

لشکر کفار کو کسی بھی زاویے سے اپنی کامیابی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے بلکہ ہر طرف سے ان کو منہ کی کھانی پڑ رہی تھی۔ اسی اثناء میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی مدد ونصرت فرمائی اور اس سخت سردی کی رات میں طوفانی ہوائیں چلادیں جس سے لشکر کفار کے خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں، آگ بجھ گئی، رسیاں ٹوٹ گئیں اور اس قدر اندھیرا چَھا گیا کہ ہاتھ کو دوسرا ہاتھ سجائی نہیں دیتا تھا۔ اللہ تعالی نے اس مدد ونصرت کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا 4949
اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب (کفار کی) فوجیں تم پر آپہنچیں، تو ہم نے ان پر ہوا اور (فرشتوں کے) لشکروں کو بھیجا جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔

رسول اللہ Alaihmas Salam کو اس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ اب لشکر کفار بھاگنے کی تیاری کرے گا۔ ان کی نقل وحرکت کو معلوم کرنے کے لیے آپ Alaihmas Salam نے حضرت حذیفہ بن یمان Alaihmas Salam کا انتخاب فرمایا، اوران کے لیے ان الفاظ میں دعا فرمائی :

اللّٰهم احفظه من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه، وعن شماله، ومن فوقه ومن تحته. 50
اے اللہ ان کی حفاظت فرما آگے پیچھے، دائیں بائیں اوپراور نیچے سے۔

حضرت حذیفہ Alaihmas Salam فرماتے ہیں کہ اس دعا کے اثر سے ان کا ڈر بھی چلا گیا اور سخت ہواؤں میں بھی ٹھنڈ نہیں لگی۔ وہاں پہنچ کر حضرت حذیفہ بن یمان Alaihmas Salam نے دیکھا کہ ابو سفیان کے اردگرد کچھ لوگ بیٹھے تھے اورلشکر میں واپس جانے کی باتیں چل رہی تھیں۔ اچانک کسی نے محسوس کیا کہ کوئی غیر لشکر میں داخل ہوگیا ہے۔ اس نے فوراً کہا کہ ہر شخص اپنے برابر والے کا ہاتھ پکڑلے۔ حضرت حذیفہ بن یمان Alaihmas Salam فرماتے ہیں کہ میرے برابر میں جو شخص تھا میں نے اس کا ہاتھ پہلے ہی پکڑلیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے تاکہ اس کو لگے کہ یہ ہمارے لشکر کا بندہ ہے۔ اسی دوران مجھے ابوسفیان پر تیر چلانے کا مکمل موقع ملا لیکن رسول اللہ Alaihmas Salam کی ہدایت یاد آگئی اس لئے میں رک گیا۔ ابوسفیان نے اپنے لشکر سے کہا کہ تم نے دیکھا کہ کس قدر طوفانی جھکڑ چل رہے ہیں اور بنو قریظہ نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا لہذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم واپس مکہ جارہے ہیں۔ اس کے بعد وہ جلدی میں اپنے اونٹ پر بیٹھا اور جلدی میں اونٹ کا پاؤں کھولنا بھی بھول گیا اور اس کو مارنے لگا۔ جیسے ہی ابوسفیان وہاں سے نکلا اس کا تمام لشکر بھی وہاں سے روانہ ہوا۔ یہ سب معاملات دیکھ کرحضرت حذیفہ Alaihmas Salam رسول اللہ Alaihmas Salam کے پاس آئے اور آپ Alaihmas Salam کو تمام احوال پر آگاہ فرمایا جس پر آپ Alaihmas Salam خوش ہوئے اور مسکرادیے۔ 51

رسول اللہ ﷺ کی مدینہ واپسی

اگلی صبح کا سورج مسلمانوں کے لیے فتح کی نوید لے کر طلوع ہوا۔ رسول اللہ Alaihmas Salam نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور صحابہ کرام Alaihmas Salam کو یہ نوید بھی سنائی کہ یہ مشرکین کا مسلمانوں کے خلاف آخری اقدامی غزوہ تھا۔ پھر آپ Alaihmas Salam نے ان الفاظ میں اللہ تعالی کا شکر ادا کیا:

لا إله إلا اللّٰه وحده، أعزّ جنده، ونصر عبده،وهزم الأحزاب وحده.
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ اکیلا ہے جس نے اپنے لشکر کو فتح بخشی اور اپنے بندہ کی مدد کی اور اکیلے لشکر کو شکست دی۔

جب سامنے کا میدان خالی ہوچکا تو آپ Alaihmas Salam نے لشکر کو واپس ہونے کا حکم دیا اورصحابہ کرام Alaihmas Salam کومنع فرمایا کہ یہود اور منافقین سے واپسی کو خفیہ رکھیں۔ ادھر منافقین مدینہ میں بیٹھ کر تبصرے کررہے تھے کہ مسلمان ابھی خندق کے محاصرہ میں ہیں اور اس بات پر خوشیاں منارہے تھے کہ شکر ہے ہم یہاں اپنے گھروں میں ہیں اور موت سے بچ گئے۔ 52 ان کی اس حالت کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا:

يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا وَإِنْ يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُمْ بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنْبَائِكُمْ وَلَوْ كَانُوا فِيكُمْ مَا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا 2053
یہ لوگ (ابھی تک یہ) گمان کرتے ہیں کہ کافروں کے لشکر (واپس) نہیں گئے اور اگر وہ لشکر (دوبارہ) آجائیں تو یہ چاہیں گے کہ کاش وہ دیہاتوں میں جا کر بادیہ نشین ہوجائیں (اور) تمہاری خبریں دریافت کرتے رہیں، اور اگر وہ تمہارے اندر موجود ہوں تو بھی بہت ہی کم لوگوں کے سوا وہ جنگ نہیں کریں گے۔

ابو سفیان کے خط کا جواب

ابوسفیان کو جب اس غزوہ میں بھی ناکامی ہوئی تو جاتے ہوئے اس نے ایک خط رسول اللہ Alaihmas Salam کو لکھا کہ قسم ہے لات، عزیٰ، صف، نائلہ اور حبل کی۔ ہم تو لڑنے آئے تھے لیکن تم لوگ ہم سے نہ لڑے اور خندق کھود کے اس پار چھپ گئے۔ ابھی ہم جارہے ہیں لیکن ہم پھر آئیں گے اور اُحد کے دن کی طرح پھر ملیں گے۔ 54 رسول اللہ Alaihmas Salam نے ابوسفیان کےاس خط کا جواب ان الفاظ میں لکھوایا کہ تم ابھی تک پرانے غرور میں مست ہو اور تم آئندہ آپاؤ گے یا نہیں یہ تو اللہ جانتا ہے۔ ہم نے خندق اس لیے کھودی کہ یہ اللہ تعالی نے ہماری مدد کی تاکہ تم ذلیل ورسوا ہوسکو، اور عنقریب وہ دن آئے گا کہ لات ومنات کو ہم روند دیں گےاور میں تمہیں یاد دہانی کراؤں گا کہ کیسے اللہ تعالی نے ہماری بات کو سچا کر دکھایا۔ 55

نتیجہ

غزوہ خندق میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مثالی کامیابی عطافرمائی۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کے شہداء کی تعداد 6 جبکہ کفار کے مقتولین کی تعداد 10 تھی۔ 56 اس مشکل غزوہ کا اختتام مسلمانوں کے حق میں ہوا۔ کفر اپنی تمام ترطاقت کے باوجود اللہ تعالی کی مدد ونصرت اور رسول اللہ Alaihmas Salam کی جنگی حکمت عملی کی وجہ سے المناک شکست سے دوچار ہوا۔


  • 1  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:392
  • 2  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 242
  • 3  دروزة محمد عزت، التفسير الحديث، ج-7، مطبوعۃ: دار إحياء الكتب العربية، القاهرة، مصر، 1383 ھ، ص: 361
  • 4  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 622
  • 5  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-3، مطبوعۃ: دارالمعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 220
  • 6  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:363
  • 7  القرآن، سورۃ النساء 4 : 51- 52
  • 8  أبو العباس أحمد بن علي المقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلميۃ، بيروت، لبنان، 1999 م،ص: 222
  • 9  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 418
  • 10  ابو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، 1956م، ص: 433
  • 11  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-3، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1408ھ، ص:131-132
  • 12  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 295
  • 13  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 295
  • 14  أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2837، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 470
  • 15  ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح المسلم، حدیث: 4676، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية، 2000م، ص: 806
  • 16  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 421
  • 17  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 298
  • 18  القرآن،سورۃ الأحزاب 33 : 12
  • 19  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 418
  • 20  القرآن،سورۃ النور 24: 62
  • 21  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009ء، ص:418
  • 22  القرآن،سورۃ النور 24: 63
  • 23  ڈاکٹر عبدالمالک ، اطلس الغزوات، مطبوعہ:مکتبۃ العرب، کراچی، پاکستان، 2022ء، ص:205
  • 24  ابو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃ من کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، 1956م، ص: 434-435
  • 25  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:369
  • 26  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 299
  • 27  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009ء، ص:422
  • 28  محمد بن احمد باشميل، من معارک الاسلام الفاصلۃ، ج-3، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1408ھ، ص:155
  • 29  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 423
  • 30  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 300
  • 31  القرآن، سورۃ الاحزاب 33: 10- 11
  • 32  القرآن، سورۃ الاحزاب 33: 13
  • 33  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008م، ص:403
  • 34  ابوالربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص:427
  • 35  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:372
  • 36  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 422
  • 37  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 464
  • 38  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 464
  • 39  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 427-428
  • 40  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:379
  • 41  احمدأحمد غلوش، السيرة النبوية والدعوة في العهد المدني، مطبوعۃ: مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 438
  • 42  إبراهيم بن محمد المدخلي، مرویات غزوۃالخندق، مطبوعۃ: عمادۃ البحث العلمی، المملكة العربية السعودية، 1424ھ، ص: 325
  • 43  ابوعبداللہ احمدبن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، حدیث: 1246، ج-2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:404
  • 44  محمد بن عمر بن مبارك الحميري، حدائق الأنوار ومطالع الأسرار في سيرة النبي المختار، مطبوعۃ: دارالمنہاج، جدہ، السعودية، 1419ھ، ص: 252
  • 45  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 311-310
  • 46  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:429-428
  • 47  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:429-428
  • 48  ابو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃ من کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، 1956م، ص: 436-437
  • 49  القرآن، سورۃ الاحزاب 33: 9
  • 50  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:388
  • 51  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 490
  • 52  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:390
  • 53  القرآن، سورۃ الاحزاب 33 : 20
  • 54  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 344
  • 55  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 493
  • 56  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دار ابن حزم للطباعۃ واللنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2010م، ص:321

Powered by Netsol Online