encyclopedia

غزوہ بنوقریظہ | عہد شکنی اور حضرت جبرائیل کی آمد

Published on: 10-Nov-2025
تاریخ:22 یا 23 ذو القعدہ 5 ہجری / جنوری، 627 عیسویمقام:قلعہ بنی قریظہنتیجہ:مسلمانوں کی فتحفریقین:مسلمان و بنی قریظہسپہ سالار اعلیٰ:حضرت محمد ﷺنائب سپہ سالار:حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ
حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ
حضرت علی شیرخدا رضی الله عنہ
خالد ابن ولید رضی الله عنہ
سعد بن معاذ رضی الله عنہ
مسلمانوں کی تعداد:3000 مسلمانلشکرِ کفار کی تعداد:700-600کفارمدّتِ محاصرہ:15 دنمسلمان شہداء:صرف ایک صحابی شہید ہوئے۔کفار کے مقتولین:بنی قریظہ کے 600 تا 700 افراد کو قتل کیا گیا۔مالِ غنیمت1500 تلواریں،2000 نیزے اور 300 زِرہ جات۔
LanguagesEnglishPortuguese

بروز بدھ ، 22 یا 23 ذوالقعدہ، 1سن 5 ہجری2کوغزوہ خندق سے واپس آنے كے بعدحضرت محمد مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے صحابہ کرامRadi Allah Anhum کو بنو قریظہ کی طرف مخصوص مہم پرروانگی کا حکم دیا۔ 3اس مہم پر تشریف لے جانے کے لئے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حضرت جبرئیل Alaihis Salam نےحضرت دحیہ کلبی Radi Allah Anhoکی صورت میں حاضر ہوکر اللہ کے حکم سےآگاہ فرمایا۔ 4آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دورانِ مہم حضرت عبداللہ بن مکتومRadi Allah Anho کو مدینہ منورہ کا والی مقرر کیا۔5اس مہم میں مسلمانوں نے تقریباً 15 روز تک یہودیوں کا محاصرہ کئے رکھا 6جس کے بعد یہودیوں نے ہتھیار ڈال دئے۔

نماز عصر کا معاملہ

غزوہ بنو قریظہ کے لئے روانہ ہوتے وقت آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو عصر کی نماز قبیلہ بنو قریظہ کے قریب پہنچ کر ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔مسلمانوں کی یہ فوج چھوٹے گروہوں کی صورت میں بنو قریظہ قبیلہ کی طرف روانہ ہوئی۔ ان میں سے ایک گروہ اپنی کوشش کے باوجود عصر کی نماز بنو قریظہ قبیلہ میں ادا کرنے سے قاصر رہا لہذا انہوں نے اپنی نماز عصر راستے ہی میں ادا فرما لی جس پر مسلمانوں کے اِن گروہوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ وہ صحابہ کرامRadi Allah Anhum جنہوں نے راستے میں ہی عصر کی نماز ادا فرما لی تھی انہوں نے اس کی توجیہ یہ بیان کی کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ جلد از جلد قبیلہ بنو قریظہ کے علاقے تک پہنچا جائے نہ کہ نماز عصر کی ادائیگی کے لیے کسی مخصوص مقام کا تعین آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا مقصود تھا۔ 7جبکہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا دوسرا گروہ اس بات پر مُصر تھا کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دیے گئے حکم کی لفظ بہ لفظ اطاعت کی جائے یعنی نماز بنو قریظہ میں ہی ادا کرنی چاہئے تھی۔ 8چنانچہ یہ مسئلہ بعد میں جب آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی اپنے موقف کے لحاظ سے غلط یا خطاکار قرار نہیں دیا۔910

بنو قریظہ کا محاصرہ

حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مسلمانوں کے لشکر کا عَلم حضرت علی بن ابی طالبRadi Allah Anho کو عطا فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ فوج کے آگے چلیں۔11اس حکم پر حضرت علی Radi Allah Anho نے اسلامی لشکر پر سبقت فرمائی اورآپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پہلے ہی قبیلہ بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ گئے۔آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ملاقات راستے میں چند صحابہ کرامRadi Allah Anhum سے ہوئی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کسی کو اسلامی لشکرسےآگے جاتے ہوئے دیکھا ہے تو ان صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے جواب دیا کہ حضرت دحیہ کلبیRadi Allah Anho جو سفید خچر پر سوار تھےان سے آگے جاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کا جواب سن کر مسلمانوں کو آگاہ فرمایا کہ وہ جس شخص کو دحیہ کلبی (Radi Allah Anho) سمجھ رہے ہیں وہ جبرائیل Alaihis Salam ہیں جو بنو قریظہ کی طرف اس لیے گئے ہیں تاکہ ان کے دلوں کو خوف اور ہیبت سے بھر دیں۔ 12جب آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بنو قریظہ کے علاقے میں پہنچے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ 3000 صحابہ کرامRadi Allah Anhum کی جماعت تھی جنہوں نے ان یہود کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ 13

جب مسلمانوں نے بنو قریظہ کے تمام قلعوں کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیا تو دو طرفہ تیر اندازی سے مقابلہ شروع ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ برچھیوں اور پتھروں کا بھی دو طرفہ آزادانہ استعمال کیا گیالیکن کامیابی نا ملنے پر یہودی مایوس ہو گئے۔ 14مسلمانوں کا یہ محاصرہ 15 دن تک لگاتار جاری رہا۔15دیگر اقوال کے مطابق بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ 25 دن تک جاری رہا۔16ابن ہشام17ابن قیم الجوزی18اور باقی کئی علماء اسی رائے کے قائل ہیں ۔192021تاہم جب اس رائے کا تقابل مسلمان فوج کی بنو قریظہ کی طرف روانگی کی تاریخوں کے ساتھ کر کے دیکھا جائے اور پھر مسلمان فوج کے واپس مدینہ منورہ پہنچنے کی تاریخ کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ رائے درست معلوم نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر مسلمان سیرت نگار اور مورخین کے مطابق آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور مسلمان فوج بنو قریظہ کے محاصرے کے لیے مدینہ منورہ سے 23 ذوالقعدہ 5 ہجری کوروانہ ہوئے22اور مدینہ منورہ ان کی واپسی 7 ذوالحجہ کو ہوئی، 23جس کے مطابق یہ عرصہ 14 سے 15 دن کا بنتا ہے۔ ابن عقبہ کے مطابق یہ محاصرہ 13 سے 19 دن پر مشتمل تھا 24جبکہ بعض دوسرے اہل علم کے مطابق 25جس میں ابن سعد26بھی شامل ہیں انہوں نے اس بات کی صراحت اور حتمی وضاحت کی ہے کہ محاصرے کا مجموعی عرصہ 15 دن پر ہی مشتمل تھا۔

محاصرہ کے دوران حیی بن اخطب بھی اس وقت بنو قریظہ کے قلعوں کے اندر تھا کیونکہ اس نے بنو قریظہ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر قریش ان کی مدد کو نہیں آئے یا مدد کیے بغیر واپس مکہ چلے گئےتو وہ آخر دم تک ان کے ساتھ رہے گا۔27

نباش بن قیس کے مسلمانوں کے ساتھ مذاکرات

یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے جب اس بات کو محسوس کیا کہ مسلمان کسی بھی صورت بغیر فتح اور مقصد کے حصول کے واپس نہیں جائیں گے تو انہوں نے نباش بن قیس کو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا۔ نباش نے خود آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے یہ درخواست کی کہ وہ بنو قریظہ کے لیے ویسا ہی فیصلہ جاری فرمائیں جس طرح کہ انہوں نے بنو نضیر کے لیے جاری فرمایا تھا۔ اس نے خود اس بات کی تجویز دی کہ بنو قریظہ مدینہ منورہ سے صرف وہی سامان اپنے ساتھ لے کر جائیں گے جس کی انہیں ضرورت ہوگی اور جو کچھ وہ صرف اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے ہوں گےجبکہ اپنا بقیہ سامان وہ مسلمانوں کے حوالے کر کے چلے جائیں گے۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے نباش کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ نباش نے دوسری تجویز یہ دی کہ پھر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam انہیں اس بات کی اجازت دے دیں کہ وہ بغیر کسی سامان کے مدینہ منورہ چھوڑ جائیں۔ 28آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس کی پیش کردہ یہ تجویز بھی مسترد کر دی اور یہ اعلان فرمایا کہ بنو قریظہ کو اب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا کیا ہوا فیصلہ ہی ماننا گا۔

نباش بن قیس واپس قلعہ کی طرف لوٹ کر گیا اور کعب بن اسد جو اس وقت قبیلہ بنو قریظہ کے سردار تھے انہیں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ کعب بن اسد نے اپنے تمام لوگوں کو جمع کیا اور انہیں سخت لعنت و ملامت کی۔اس نے اپنے قبیلے کے لوگوں کے سامنے اللہ تعالی کی قسم اٹھا کر کہا کہ اہل یہود آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر محض حسد کی بنیاد پر ایمان اس لیے نہیں لائے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ولادت یہود کے ہاں نہیں ہوئی ورنہ یہود کو اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں۔کعب نے مزید یہ کہا کہ اس نے کبھی نہیں چاہا کہ وہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مخالفت یا دشمنی کرے اور ان سے کیا ہوا معاہدہ توڑ ے لیکن یہودی قبیلہ بنو نضیر کہ سردار حیی بن اخطب نے اسے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مخالفت پر مجبور کیا۔29

کعب بن اسد کی بنو قریظہ کو تجویز

کعب بن اسد بذات خود آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا اس لیے اس نے اپنے لوگوں کو ابن الخراش کی بنو قریظہ میں آمد کے موقع پر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد سے متعلقہ پیش گوئی کی یاد دہانی بھی کروائی۔اس نے واضح طور پر بنو قریظہ کے لوگوں سے کہا تھا کہ انہیں چاہیے کہ وہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے معاون و مددگار بنیں اور کبھی ان کی مخالفت نہ کریں۔تاہم بنو قریظہ کی حسد اور جہالت نے انہیں یہ سب کچھ سننے کے باوجود بھی اپنے سردار کی بات ماننے اور آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت پر ایمان لانے سے روک دیا تھا۔30کعب بن اسد نے صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اپنے لوگوں کو آخری چارہ کے طور پر 3 باتوں میں سے ایک بات اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔31اس نے کہا:

  1. یا تو وہ لوگ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اللہ کے آخری نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے قبول کر لیں۔
  2. یا وہ اپنے بچوں اور اہل خانہ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے میدان جنگ میں آجائیں۔
  3. یا پھر مسلمانوں پر یوم سبت کی شب کو حملہ آور ہوں تاکہ مسلمان اس بات کی توقع اور امید بھی نہ کر سکیں کہ یہودی خود اپنے مقدس دن کی حرمت کو پامال کر کے ان پر حملہ آور ہوں گے اور نتیجہ کے طور پر یہودی مسلمانوں کو مغلوب کر کے خود غالب اور فاتح ہو جائیں۔ 32

بنو قریظہ نے اپنے لیے ان سارے انتخابات کو مسترد کر دیا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی نکتہ انہیں اپنے لیے فائدہ مند نظر نہیں آرہا تھا۔

بنو قریظہ کا ابو لبابہRadi Allah Anho کے ساتھ ملاقات کا مطالبہ

جب بنی قریظہ نے کعب بن اسد کے پیش کردہ تمام نکات کو غیر نفع بخش سمجھا تو انہوں نے حضرت ابو لبابہ Radi Allah Anho سے ملاقات کی درخواست کی جن کا تعلق اوس قبیلہ سے تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہود اور اوس قبیلہ کے آپس میں بڑے اچھے تعلقات رہے تھے۔ اسی تناظر میں یہود نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سےیہ درخواست کی کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho کو ان کے معاملہ میں مشاورت کے لیے بھیجنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی یہ درخواست قبول فرمالی۔ جب حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho ان کے قلعہ میں داخل ہوئے تو انہیں یہودی خواتین اور بچوں نے گھیر لیا اور ان سے مدد کی درخواست کی۔انہوں نے حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho سے اس معاملے پر بھی پوچھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے خلاف غداری اور بغاوت کے حوالے سےآپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا فیصلہ اپنے حق میں قبول کر لیتے ہیں تو انہیں کیا سزا دی جائے گی۔3334حضرت ابولبابہRadi Allah Anho نے انہیں اپنی انگلی کے اشارے سے آگاہ فرمایا کہ اگر وہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فیصلے کو قبول کر لیتے ہیں تو انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ خندق میں بغاوت اور غداری کی وجہ سے سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔35یہود کو یہ بات بتانے کے بعد حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho کو محسوس ہوا کہ انہوں نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے راز کو افشا کر دیا ہے اور وہ خود آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بے وفائی کے مرتکب ہوگئے ہیں۔ حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho کے اوپر اپنی اس خطا کا اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ زار و قطار رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھی مبارک ان کے آنسوؤں سے تَر ہو گئی ۔36

اس واقعہ کے بعد حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho میں یہ قوت اور طاقت نہ رہی کہ وہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سامنا کر سکیں۔37چنانچہ وہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہونے کے بجائے سیدھا مدینہ منورہ واپس ہو گئے جہاں جا کر انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ستون کے ساتھ باندھ لیا ۔38آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho کی خود ساختہ سزا کا علم ہوا تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا بہتر ہوتا کہ ابو لبابہ (Radi Allah Anho) براہ راست آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس ہی ا ٓجاتے۔ اب جب کہ ابو لبابہ (Radi Allah Anho)نے خود اپنے لیے سزا کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ اس وقت ہی آزاد ہو سکیں گے جب اللہ تعالی براہ راست خود انہیں وحی کے ذریعے معافی کا پروانہ عطا فرما ئے گا۔ 39حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho نے یہ سزا اور مشقت کئی دنوں تک صحرا کی جھلسا دینے والی گرمی میں بغیر کھائے پیئے برداشت کرنے کی قسم اٹھائی اور اپنے آپ سے اس بات کا عہد کیا کہ وہ اسی حالت میں یا تو مر جائیں گے اور یا پھر اللہ تعالی انہیں معاف فرما دے گا۔40اس دوران حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho کی اہلیہ فرض نمازوں کے اوقات میں ا ٓکر ان کی رسی کھول دیا کرتیں اور نماز کی ادائیگی کے بعد دوبارہ انہیں ستون سے باندھ دیا کرتی تھیں۔ان کی اپنے لیے تجویز کردہ یہ سزا 6 دن رات تک جاری رہی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے معافی کا پروانہ جاری فرما دیا اور خود نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انہیں اپنے دست مبارک سے ستون کے ساتھ بندھی ہوئی رسی کی بندش سے آزاد فرما دیا ۔41

بنو قریظہ کی خود سُپردگی

حضرت ابو لبابہRadi Allah Anho کے چلے جانے کے بعد بنو قریظہ کے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ مسلمان جب تک کامیاب نہ ہو جائیں اس وقت تک محاصرہ جاری رہے گا جبکہ دوسری طرف یہود کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے تھے ۔چنانچہ بنو قریظہ نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فیصلے کو غیر مشروط طور پر قبول کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کر دی۔ انہوں نے اپنے قلعوں کے دروازے کھولے اور باہر آگئے۔ان کے مَردوں کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ خواتین اور بچوں کو علیحدہ ایک جگہ بغیر کسی تکلیف دیے ہوئے جمع کر دیا گیا۔ 42اس فتح کے بعد آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چند انصاری صحابہ جن کا تعلق اوس قبیلہ سے تھا وہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے درخواست کی کہ بنو قریظہ کی جان بخشی کی جائے۔انصاری صحابہ کی مسلسل درخواستوں پر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے دوسرےصحابہ کرام Radi Allah Anhum سے مشورہ کیا 43اور فرمایا:

ألا ترضون أن يحكم فيهم رجل منكم؟44
کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تم ہی (قبیلہ اوس)میں سے ایک شخص ان کے بارے میں فیصلہ کر لے؟

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس تجویز سے سب نے اتفاق کیا جس پر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت سعد بن معاذRadi Allah Anho کا انتخاب فرمایا 45اور ابن عقبہ کی روایت کے مطابق آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرامRadi Allah Anhum کو یہ اختیار دیا کہ وہ جسے چاہیں یہود کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے منتخب فرما لیں۔ اس طرح انصاری صحابہ کرامRadi Allah Anhum نے حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho کا انتخاب کیا جس پر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی خوش ہوئے۔ 46بعض روایات کے مطابق سعد بن معاذ Radi Allah Anho کا انتخاب خود قبیلہ بنو قریظہ نے کیا تھا۔ 47اس وقت سعد بن معاذ Radi Allah Anho مدینہ میں تھے اور اپنے زخمی ہو جانے کی وجہ سے اس محاصرے میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ جب ان کا انتخاب کیا گیا تو قبیلہ اوس کہ لوگ واپس مدینہ منورہ آئے تاکہ حضرت سعد بن معاذRadi Allah Anho کو قبیلہ بنو قریظہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے وہاں لے جایا جا سکے۔حضرت سعد بن معاذRadi Allah Anho کو بنو قریظہ کی طرف لے جاتے ہوئے انصاری صحابہ کرام Radi Allah Anho نے مسلسل کوشش کی کہ وہ انہیں اسے بات پر قائل کرسکیں کہ وہ بنو قریظہ کے حق میں فیصلہ فرمادیں۔حضرت سعد Radi Allah Anho جب وہاں پہنچے تو انہوں نے انصار صحابہ کرام Radi Allah Anhum سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے فیصلے کو قبول کریں گے تو تمام صحابہ کرام Radi Allah Anho نے اجتماعی طور پر ان کا فیصلہ قبول کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ بغیر کسی سوال کے قبول کر لیا جائے گا۔48حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anhum نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا:

۔۔۔فإني أحكم فيهم أن تقتل المقاتلة، وأن تسبى الذرية والنساء، وتقسم أموالهم۔49
میں تو ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے اور ان کے بچوں او ر عورتوں کو قید کیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔

آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب حضرت سعد بن معاذRadi Allah Anho کا فیصلہ سنا تو فرمایا:

لقد حكمت فيهم بحكم اللّٰه عز وجل۔50
تم نے اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

جب یہود کے بارے میں حضرت سعد بن معاذ فیصلہ دے چکے تو مسلمان مدینہ واپس جنگی قیدیوں کے ساتھ لوٹ آئے۔مدینہ منورہ پہنچ کر تمام قیدی جن کی تعداد 600 سے 700 کے لگ بھگ تھی انہیں اُن کی عہد شکنی اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کی سزا کے طور پر قتل کر دیا گیا۔ 00 15تلواریں، 2000 برچھے، بھالے اور300 زرہیں مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ 51اس دوران مسلمانوں کی طرف سے حضرت خلاد بن سویدRadi Allah Anho ایک یہودی عورت کی طرف سے پھینکے گئے نیزے کے لگنے سے شہید ہوئے۔52اور اللہ تعالی نے بنو قریظہ کے یہودیوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا تھا53 وہ لفظ بہ لفظ صحیح ثابت ہوا کیونکہ مسلمانوں نے اس بار آگے بڑھ کر بنو قریظہ کا محاصرہ کر کے انہیں ان کی عہد شکنی اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کا سبق ہمیشہ کےلیے سکھا دیا تھا۔


  • 1  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 65
  • 2  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 633
  • 3  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 4
  • 4  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 316
  • 5  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن قیم الجوزی، سیرۃ خیر العباد (اعداد، صالح احمد الشامی)، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 198
  • 6  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 57
  • 7  شمس الدين محمد بن ابي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-3، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،2005 مـ، ص: 119-118
  • 8  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 317
  • 9  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4119، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 698
  • 10  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 347
  • 11  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 316
  • 12  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 633
  • 13  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 326
  • 14  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 6
  • 15  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 57
  • 16  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 330
  • 17  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 634
  • 18  شمس الدين محمد بن ابي بكر ابن القيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-3، مطبوعة: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،2005 مـ، ص: 120
  • 19  ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسندالامام احمد بن حنبل، حدیث: 25097، ج-42، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 28
  • 20  ابو یعقوب اسحاق بن ابراهیم المروزی المعروف بابن راهويه، مسند اسحاق بن راهویه، حدیث: 1126، ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ الایمان، المدینۃ، السعودية، 1991م، ص: 544
  • 21  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمي، الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، حدیث: 7028، ج-15، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 500
  • 22  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 65
  • 23  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 57
  • 24  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 20
  • 25  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 318
  • 26  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 57
  • 27  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 347
  • 28  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 6
  • 29  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 444
  • 30  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 7
  • 31  أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-2، مطبوعۃ: دار المعارف، القاهرة، مصر، 1967م، ص: 584
  • 32  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 347
  • 33  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 8
  • 34  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن قیم الجوزی، سیرۃ خیر العباد (اعداد صالح احمد الشامی)، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 198
  • 35  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، السیرۃ النبویۃ من کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 448
  • 36  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 76
  • 37  ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 16
  • 38  أبو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الأشبیلی، ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر المعروف بتاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 443
  • 39  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 250
  • 40  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 11
  • 41  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 635
  • 42  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 327
  • 43  الحافظ يوسف بن البر النمری، الدرر في اختصار المغازي والسير، مطبوعۃ: دار المعارف، القاهرة، مصر، 1403ھ، ص: 180
  • 44  أبو زید عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون الأشبیلی، ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر المعروف بتاریخ ابن خلدون، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1981م، ص: 443
  • 45  ایضا
  • 46  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 10
  • 47  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 5327، ج-6، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 7
  • 48  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 14-15
  • 49  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 4598، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 785
  • 50  ایضاً، حدیث: 4599
  • 51  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 328
  • 52  ایضاً، ص: 330
  • 53  القرآن، سورۃ الاحزاب 33: 25-27

Powered by Netsol Online