بروز بدھ ، 22 یا 23 ذوالقعدہ، 1سن 5 ہجری2کوغزوہ خندق سے واپس آنے كے بعدحضرت محمد مصطفیٰ
نے اپنے صحابہ کرام
کو بنو قریظہ کی طرف مخصوص مہم پرروانگی کا حکم دیا۔ 3اس مہم پر تشریف لے جانے کے لئے آپ
کو حضرت جبرئیل
نےحضرت دحیہ کلبی
کی صورت میں حاضر ہوکر اللہ کے حکم سےآگاہ فرمایا۔ 4آپ
نے دورانِ مہم حضرت عبداللہ بن مکتوم
کو مدینہ منورہ کا والی مقرر کیا۔5اس مہم میں مسلمانوں نے تقریباً 15 روز تک یہودیوں کا محاصرہ کئے رکھا 6جس کے بعد یہودیوں نے ہتھیار ڈال دئے۔
غزوہ بنو قریظہ کے لئے روانہ ہوتے وقت آپ
نے صحابہ کرام
کو عصر کی نماز قبیلہ بنو قریظہ کے قریب پہنچ کر ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔مسلمانوں کی یہ فوج چھوٹے گروہوں کی صورت میں بنو قریظہ قبیلہ کی طرف روانہ ہوئی۔ ان میں سے ایک گروہ اپنی کوشش کے باوجود عصر کی نماز بنو قریظہ قبیلہ میں ادا کرنے سے قاصر رہا لہذا انہوں نے اپنی نماز عصر راستے ہی میں ادا فرما لی جس پر مسلمانوں کے اِن گروہوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ وہ صحابہ کرام
جنہوں نے راستے میں ہی عصر کی نماز ادا فرما لی تھی انہوں نے اس کی توجیہ یہ بیان کی کہ آپ
کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ جلد از جلد قبیلہ بنو قریظہ کے علاقے تک پہنچا جائے نہ کہ نماز عصر کی ادائیگی کے لیے کسی مخصوص مقام کا تعین آپ
کا مقصود تھا۔ 7جبکہ صحابہ کرام
کا دوسرا گروہ اس بات پر مُصر تھا کہ آپ
کے دیے گئے حکم کی لفظ بہ لفظ اطاعت کی جائے یعنی نماز بنو قریظہ میں ہی ادا کرنی چاہئے تھی۔ 8چنانچہ یہ مسئلہ بعد میں جب آپ
کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ
نے دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی اپنے موقف کے لحاظ سے غلط یا خطاکار قرار نہیں دیا۔910
حضرت محمد
نے مسلمانوں کے لشکر کا عَلم حضرت علی بن ابی طالب
کو عطا فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ فوج کے آگے چلیں۔11اس حکم پر حضرت علی
نے اسلامی لشکر پر سبقت فرمائی اورآپ
سے پہلے ہی قبیلہ بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ گئے۔آپ
جب بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ
کی ملاقات راستے میں چند صحابہ کرام
سے ہوئی۔ آپ
نے ان سے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کسی کو اسلامی لشکرسےآگے جاتے ہوئے دیکھا ہے تو ان صحابہ کرام
نے جواب دیا کہ حضرت دحیہ کلبی
جو سفید خچر پر سوار تھےان سے آگے جاتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔آپ
نے ان کا جواب سن کر مسلمانوں کو آگاہ فرمایا کہ وہ جس شخص کو دحیہ کلبی (
) سمجھ رہے ہیں وہ جبرائیل
ہیں جو بنو قریظہ کی طرف اس لیے گئے ہیں تاکہ ان کے دلوں کو خوف اور ہیبت سے بھر دیں۔ 12جب آپ
بنو قریظہ کے علاقے میں پہنچے تو آپ
کے ساتھ 3000 صحابہ کرام
کی جماعت تھی جنہوں نے ان یہود کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ 13
جب مسلمانوں نے بنو قریظہ کے تمام قلعوں کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیا تو دو طرفہ تیر اندازی سے مقابلہ شروع ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ برچھیوں اور پتھروں کا بھی دو طرفہ آزادانہ استعمال کیا گیالیکن کامیابی نا ملنے پر یہودی مایوس ہو گئے۔ 14مسلمانوں کا یہ محاصرہ 15 دن تک لگاتار جاری رہا۔15دیگر اقوال کے مطابق بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ 25 دن تک جاری رہا۔16ابن ہشام17ابن قیم الجوزی18اور باقی کئی علماء اسی رائے کے قائل ہیں ۔192021تاہم جب اس رائے کا تقابل مسلمان فوج کی بنو قریظہ کی طرف روانگی کی تاریخوں کے ساتھ کر کے دیکھا جائے اور پھر مسلمان فوج کے واپس مدینہ منورہ پہنچنے کی تاریخ کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو یہ رائے درست معلوم نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر مسلمان سیرت نگار اور مورخین کے مطابق آپ
اور مسلمان فوج بنو قریظہ کے محاصرے کے لیے مدینہ منورہ سے 23 ذوالقعدہ 5 ہجری کوروانہ ہوئے22اور مدینہ منورہ ان کی واپسی 7 ذوالحجہ کو ہوئی، 23جس کے مطابق یہ عرصہ 14 سے 15 دن کا بنتا ہے۔ ابن عقبہ کے مطابق یہ محاصرہ 13 سے 19 دن پر مشتمل تھا 24جبکہ بعض دوسرے اہل علم کے مطابق 25جس میں ابن سعد26بھی شامل ہیں انہوں نے اس بات کی صراحت اور حتمی وضاحت کی ہے کہ محاصرے کا مجموعی عرصہ 15 دن پر ہی مشتمل تھا۔
محاصرہ کے دوران حیی بن اخطب بھی اس وقت بنو قریظہ کے قلعوں کے اندر تھا کیونکہ اس نے بنو قریظہ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر قریش ان کی مدد کو نہیں آئے یا مدد کیے بغیر واپس مکہ چلے گئےتو وہ آخر دم تک ان کے ساتھ رہے گا۔27
یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے جب اس بات کو محسوس کیا کہ مسلمان کسی بھی صورت بغیر فتح اور مقصد کے حصول کے واپس نہیں جائیں گے تو انہوں نے نباش بن قیس کو آپ
کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا۔ نباش نے خود آپ
سے یہ درخواست کی کہ وہ بنو قریظہ کے لیے ویسا ہی فیصلہ جاری فرمائیں جس طرح کہ انہوں نے بنو نضیر کے لیے جاری فرمایا تھا۔ اس نے خود اس بات کی تجویز دی کہ بنو قریظہ مدینہ منورہ سے صرف وہی سامان اپنے ساتھ لے کر جائیں گے جس کی انہیں ضرورت ہوگی اور جو کچھ وہ صرف اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے ہوں گےجبکہ اپنا بقیہ سامان وہ مسلمانوں کے حوالے کر کے چلے جائیں گے۔ آپ
نے نباش کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ نباش نے دوسری تجویز یہ دی کہ پھر آپ
انہیں اس بات کی اجازت دے دیں کہ وہ بغیر کسی سامان کے مدینہ منورہ چھوڑ جائیں۔ 28آپ
نے اس کی پیش کردہ یہ تجویز بھی مسترد کر دی اور یہ اعلان فرمایا کہ بنو قریظہ کو اب آپ
کا کیا ہوا فیصلہ ہی ماننا گا۔
نباش بن قیس واپس قلعہ کی طرف لوٹ کر گیا اور کعب بن اسد جو اس وقت قبیلہ بنو قریظہ کے سردار تھے انہیں آپ
کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ کعب بن اسد نے اپنے تمام لوگوں کو جمع کیا اور انہیں سخت لعنت و ملامت کی۔اس نے اپنے قبیلے کے لوگوں کے سامنے اللہ تعالی کی قسم اٹھا کر کہا کہ اہل یہود آپ
پر محض حسد کی بنیاد پر ایمان اس لیے نہیں لائے کیونکہ آپ
کی ولادت یہود کے ہاں نہیں ہوئی ورنہ یہود کو اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں۔کعب نے مزید یہ کہا کہ اس نے کبھی نہیں چاہا کہ وہ آپ
کی مخالفت یا دشمنی کرے اور ان سے کیا ہوا معاہدہ توڑ ے لیکن یہودی قبیلہ بنو نضیر کہ سردار حیی بن اخطب نے اسے آپ
کی مخالفت پر مجبور کیا۔29
کعب بن اسد بذات خود آپ
کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا اس لیے اس نے اپنے لوگوں کو ابن الخراش کی بنو قریظہ میں آمد کے موقع پر آپ
کی آمد سے متعلقہ پیش گوئی کی یاد دہانی بھی کروائی۔اس نے واضح طور پر بنو قریظہ کے لوگوں سے کہا تھا کہ انہیں چاہیے کہ وہ حضور
کے معاون و مددگار بنیں اور کبھی ان کی مخالفت نہ کریں۔تاہم بنو قریظہ کی حسد اور جہالت نے انہیں یہ سب کچھ سننے کے باوجود بھی اپنے سردار کی بات ماننے اور آپ
کی نبوت پر ایمان لانے سے روک دیا تھا۔30کعب بن اسد نے صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اپنے لوگوں کو آخری چارہ کے طور پر 3 باتوں میں سے ایک بات اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔31اس نے کہا:
کو اللہ کے آخری نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے قبول کر لیں۔بنو قریظہ نے اپنے لیے ان سارے انتخابات کو مسترد کر دیا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی نکتہ انہیں اپنے لیے فائدہ مند نظر نہیں آرہا تھا۔
کے ساتھ ملاقات کا مطالبہجب بنی قریظہ نے کعب بن اسد کے پیش کردہ تمام نکات کو غیر نفع بخش سمجھا تو انہوں نے حضرت ابو لبابہ
سے ملاقات کی درخواست کی جن کا تعلق اوس قبیلہ سے تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہود اور اوس قبیلہ کے آپس میں بڑے اچھے تعلقات رہے تھے۔ اسی تناظر میں یہود نے آپ
سےیہ درخواست کی کہ آپ
حضرت ابو لبابہ
کو ان کے معاملہ میں مشاورت کے لیے بھیجنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔آپ
نے ان کی یہ درخواست قبول فرمالی۔ جب حضرت ابو لبابہ
ان کے قلعہ میں داخل ہوئے تو انہیں یہودی خواتین اور بچوں نے گھیر لیا اور ان سے مدد کی درخواست کی۔انہوں نے حضرت ابو لبابہ
سے اس معاملے پر بھی پوچھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے خلاف غداری اور بغاوت کے حوالے سےآپ
کا فیصلہ اپنے حق میں قبول کر لیتے ہیں تو انہیں کیا سزا دی جائے گی۔3334حضرت ابولبابہ
نے انہیں اپنی انگلی کے اشارے سے آگاہ فرمایا کہ اگر وہ آپ
کے فیصلے کو قبول کر لیتے ہیں تو انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ خندق میں بغاوت اور غداری کی وجہ سے سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔35یہود کو یہ بات بتانے کے بعد حضرت ابو لبابہ
کو محسوس ہوا کہ انہوں نے آپ
کے راز کو افشا کر دیا ہے اور وہ خود آپ
سے بے وفائی کے مرتکب ہوگئے ہیں۔ حضرت ابو لبابہ
کے اوپر اپنی اس خطا کا اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ زار و قطار رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھی مبارک ان کے آنسوؤں سے تَر ہو گئی ۔36
اس واقعہ کے بعد حضرت ابو لبابہ
میں یہ قوت اور طاقت نہ رہی کہ وہ نبی کریم
کا سامنا کر سکیں۔37چنانچہ وہ آپ
کی خدمت میں حاضر ہونے کے بجائے سیدھا مدینہ منورہ واپس ہو گئے جہاں جا کر انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی
کے ستون کے ساتھ باندھ لیا ۔38آپ
کو جب حضرت ابو لبابہ
کی خود ساختہ سزا کا علم ہوا تو آپ
نے فرمایا بہتر ہوتا کہ ابو لبابہ (
) براہ راست آپ
کے پاس ہی ا ٓجاتے۔ اب جب کہ ابو لبابہ (
)نے خود اپنے لیے سزا کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ اس وقت ہی آزاد ہو سکیں گے جب اللہ تعالی براہ راست خود انہیں وحی کے ذریعے معافی کا پروانہ عطا فرما ئے گا۔ 39حضرت ابو لبابہ
نے یہ سزا اور مشقت کئی دنوں تک صحرا کی جھلسا دینے والی گرمی میں بغیر کھائے پیئے برداشت کرنے کی قسم اٹھائی اور اپنے آپ سے اس بات کا عہد کیا کہ وہ اسی حالت میں یا تو مر جائیں گے اور یا پھر اللہ تعالی انہیں معاف فرما دے گا۔40اس دوران حضرت ابو لبابہ
کی اہلیہ فرض نمازوں کے اوقات میں ا ٓکر ان کی رسی کھول دیا کرتیں اور نماز کی ادائیگی کے بعد دوبارہ انہیں ستون سے باندھ دیا کرتی تھیں۔ان کی اپنے لیے تجویز کردہ یہ سزا 6 دن رات تک جاری رہی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے معافی کا پروانہ جاری فرما دیا اور خود نبی کریم
نے انہیں اپنے دست مبارک سے ستون کے ساتھ بندھی ہوئی رسی کی بندش سے آزاد فرما دیا ۔41
حضرت ابو لبابہ
کے چلے جانے کے بعد بنو قریظہ کے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ مسلمان جب تک کامیاب نہ ہو جائیں اس وقت تک محاصرہ جاری رہے گا جبکہ دوسری طرف یہود کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے تھے ۔چنانچہ بنو قریظہ نے آپ
کے فیصلے کو غیر مشروط طور پر قبول کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کر دی۔ انہوں نے اپنے قلعوں کے دروازے کھولے اور باہر آگئے۔ان کے مَردوں کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ خواتین اور بچوں کو علیحدہ ایک جگہ بغیر کسی تکلیف دیے ہوئے جمع کر دیا گیا۔ 42اس فتح کے بعد آپ
کے چند انصاری صحابہ جن کا تعلق اوس قبیلہ سے تھا وہ آپ
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ
سے درخواست کی کہ بنو قریظہ کی جان بخشی کی جائے۔انصاری صحابہ کی مسلسل درخواستوں پر آپ
نے اپنے دوسرےصحابہ کرام
سے مشورہ کیا 43اور فرمایا:
ألا ترضون أن يحكم فيهم رجل منكم؟44
کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تم ہی (قبیلہ اوس)میں سے ایک شخص ان کے بارے میں فیصلہ کر لے؟
آپ
کی اس تجویز سے سب نے اتفاق کیا جس پر آپ
نے حضرت سعد بن معاذ
کا انتخاب فرمایا 45اور ابن عقبہ کی روایت کے مطابق آپ
نے صحابہ کرام
کو یہ اختیار دیا کہ وہ جسے چاہیں یہود کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے منتخب فرما لیں۔ اس طرح انصاری صحابہ کرام
نے حضرت سعد بن معاذ
کا انتخاب کیا جس پر آپ
بھی خوش ہوئے۔ 46بعض روایات کے مطابق سعد بن معاذ
کا انتخاب خود قبیلہ بنو قریظہ نے کیا تھا۔ 47اس وقت سعد بن معاذ
مدینہ میں تھے اور اپنے زخمی ہو جانے کی وجہ سے اس محاصرے میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ جب ان کا انتخاب کیا گیا تو قبیلہ اوس کہ لوگ واپس مدینہ منورہ آئے تاکہ حضرت سعد بن معاذ
کو قبیلہ بنو قریظہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے وہاں لے جایا جا سکے۔حضرت سعد بن معاذ
کو بنو قریظہ کی طرف لے جاتے ہوئے انصاری صحابہ کرام
نے مسلسل کوشش کی کہ وہ انہیں اسے بات پر قائل کرسکیں کہ وہ بنو قریظہ کے حق میں فیصلہ فرمادیں۔حضرت سعد
جب وہاں پہنچے تو انہوں نے انصار صحابہ کرام
سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے فیصلے کو قبول کریں گے تو تمام صحابہ کرام
نے اجتماعی طور پر ان کا فیصلہ قبول کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ بغیر کسی سوال کے قبول کر لیا جائے گا۔48حضرت سعد بن معاذ
نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا:
۔۔۔فإني أحكم فيهم أن تقتل المقاتلة، وأن تسبى الذرية والنساء، وتقسم أموالهم۔49
میں تو ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے اور ان کے بچوں او ر عورتوں کو قید کیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔
آپ
نے جب حضرت سعد بن معاذ
کا فیصلہ سنا تو فرمایا:
لقد حكمت فيهم بحكم اللّٰه عز وجل۔50
تم نے اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
جب یہود کے بارے میں حضرت سعد بن معاذ فیصلہ دے چکے تو مسلمان مدینہ واپس جنگی قیدیوں کے ساتھ لوٹ آئے۔مدینہ منورہ پہنچ کر تمام قیدی جن کی تعداد 600 سے 700 کے لگ بھگ تھی انہیں اُن کی عہد شکنی اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کی سزا کے طور پر قتل کر دیا گیا۔ 00 15تلواریں، 2000 برچھے، بھالے اور300 زرہیں مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ 51اس دوران مسلمانوں کی طرف سے حضرت خلاد بن سوید
ایک یہودی عورت کی طرف سے پھینکے گئے نیزے کے لگنے سے شہید ہوئے۔52اور اللہ تعالی نے بنو قریظہ کے یہودیوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا تھا53 وہ لفظ بہ لفظ صحیح ثابت ہوا کیونکہ مسلمانوں نے اس بار آگے بڑھ کر بنو قریظہ کا محاصرہ کر کے انہیں ان کی عہد شکنی اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کا سبق ہمیشہ کےلیے سکھا دیا تھا۔