encyclopedia

واقعہ رجیع | سبب، حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت

Published on: 01-Jul-2025

سانحہ رجیع سن 4 ہجری میں پیش آیا 1 جس میں حضرت محمد مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے 6 2 اور دوسرے قول کے مطابق 10 صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو اسلام کی تعلیم دینے کے لئے بھیجا گیا۔ 3 ان 10 میں سے 7 صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو بنو ہذیل نے دیگر قبائل کے ساتھ مل کر رجیع کے مقام پر شہید کردیا ۔ باقی ماندہ3 صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو بنو ہذیل نے دھوکے سے قیدی بنا لیا۔ بنو ہذیل نے کوشش کی کہ ان کو مکہ لے جائیں جس پر ایک صحابی Radi Allah Anho نے مزاحمت کی جس کی وجہ سے ان کو شہید کردیا گیا اور بقیہ 2کو قریش سے نقد انعام پانے کی لالچ میں مکہ لے جایا گیا اور ان کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔ 4قریش میں سے حجیربن اہاب تمیمی نےحضرت خبیب بن عدی Radi Allah Anho کو اور صفوان بن امیہ نے حضرت زید Radi Allah Anhoکو خرید کر مقتولین بدر کے بدلہ میں نہایت ظالمانہ طور پر شہید کر دیا۔ 5آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب حضرت جبرئیل Alaihis Salam کے ذریعہ اس واقعہ کی خبرملی اور یہ بتایا گیا کہ حضرت خبیب Radi Allah Anho کا جسم مبارک ابھی تک سولی سے نہیں اتارا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ منورہ سے 2 صحابہ کرام Radi Allah Anhuma کو بھیج کر حضرت خبیب Radi Allah Anho کا جسم مبارک اتروایا۔ 6

رجیع کا واقعہ پیش آنے کا سبب

حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بعض صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو مکہ کی طرف جاسوسی پر روانہ فرمایا تاکہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو قریش کی خبردیں۔ چنانچہ وہ نجد کے راستے سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ وہ مقامِ "رجیع" پر پہنچے، تو بنو لحیان نے ان کے راستے میں گھات لگا کر انہیں آ لیا۔7 جبکہ دوسرے اور راجح قول کے مطابق آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس باوثوق ذرائع سے یہ خبر پہنچی تھی کہ قبیلہ ہذیل جو اب تک اپنے آباء واجداد کے مشرکانہ مذہب پر قائم ودائم تھا ، اس قبیلہ کا سردار خالد بن سفيان بن نبیح الہذلی ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کرچکا تھا۔ 8 نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس لشکر کی تیاری اور ان کے ارادوں کے بارے میں جیسے ہی اطلاع دی گئی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسی وقت عبد اللہ بن انیسRadi Allah Anho کو اپنے پاس بلوایااور ان سے فرمایا کہ ابن نبيح یعنی خالد بن سفیان ہذلی ہمارے خلاف لشکر اکٹھا کررہا ہے۔ 9حضرت عبداللہ بن انیس Radi Allah Anho نے یہ سن کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اس کی نشانی پوچھی تاکہ اسکو پہچان سکیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ جب بھی وہ اس شخص کو دیکھیں گے تو اس کے رونگٹے کھڑے پائیں گے۔ 10

حضرت عبداللہ بن انیس Radi Allah Anho اس نشانی کو ذہن میں رکھ کر اس کی طرف روانہ ہوئے اور جب اس کے علاقے میں پہنچے تو عصر کا وقت داخل ہوچکا تھا۔ اس وقت خالد بن سفیان ہذلی جو ابن نبيح کے نام سے مشہور تھا”عرنہ“ وادی میں اپنی عورتوں کےلیے خیمہ اور آرام کے انتظامات کررہا تھا۔ 11 حضرت عبداللہ بن انیس Radi Allah Anho کی نظر جب اس پر پڑی توانہیں لگا کہ اس کے رونگٹے کھڑ ے ہو گئے ہیں اور وہ پریشان سا ہوگیا ہے۔ اس نے حضرت عبداللہ بن انیس Radi Allah Anho سے ان کی شناخت پوچھی تو آپ Radi Allah Anho نے فرمایا کہ ان کا تعلق بھی اسی کی طرح عر ب علاقہ سے ہے اور انہیں پتہ چلاہے کہ وہ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر حملہ کرنے کےلیے لشکر تیار کررہا ہے اور وہ یہاں اسی غرض سے آئے ہیں کہ اس لشکر میں شامل ہوسکیں۔یہ سن کر وہ آپ Radi Allah Anho سے مطمئن ہوگیا اور ان کو اپنے منصوبہ کے بارے میں بتانے لگا۔ حضرت عبد اللہ بن انیس Radi Allah Anho کچھ دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہے اورجیسے ہی اس پر غلبہ پانے کا موقع ملا تو اپنی تلوار سے اسے قتل کر کے واپس مدینہ منورہ چلے گئے۔12

سردار کے قتل کا بدلہ لینے کےلیے منصوبہ بندی

اپنے سردار کے اچانک مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کا بدلہ لینے کےلیے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کے لوگ عضل اور قارہ جو بنو ہون بن خزیمہ کی شاخیں تھیں، ان کے پاس آئے تاکہ منصوبہ بندی کرکے مسلمانوں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اپنے سردار کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔ انہوں نے یہ بات طے کی کہ عضل اور قارہ کے لوگ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے یہ درخواست کریں کہ وہ ان کے ساتھ دعوت وتبلیغ اور مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کےلیے معلمین صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا ایک وفد روانہ کریں تاکہ موقع پاکر وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو شہید کردیں ۔ اس منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے عضل اور قارہ کے 7 افراد مدینہ منورہ آئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے اپنے ایمان لانے اور اپنے قبیلوں کو اسلام کی دعوت دینے اور ان کی تعلیم وتربیت کرنے کےلیے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی ایک جماعت کو اپنے ساتھ بھجوانے کی درخواست کی جو انہیں دین کی تعلیم، تلاوت قرآن کریم اور احکامات اسلامی سکھائیں۔13 ان کی درخواست قبول کر کے رسول کریمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کےساتھ اپنے چند ممتاز صحابہ کرام Radi Allah Anhum بھجوائے جن کے امیر ابن اسحاق کے نزدیک مرثد ابن ابی مرثد Radi Allah Anho14 اور امام بخاری Rehmatullah Alaih کے نزدیک عاصم بن ثابت Radi Allah Anho تھے۔ 15بھیجے گئے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے اسماءِ مبارک درجِ ذیل ہیں:

  1. عاصم بن ثابت Radi Allah Anho
  2. خبیب بن عددی Radi Allah Anho
  3. مرثد بن ابی مرثد غنوی Radi Allah Anho
  4. عبداللہ بن طارق Radi Allah Anho
  5. خالد بن ابی البکیر Radi Allah Anho
  6. زید بن الدثنہ Radi Allah Anho16
  7. معتب بن عبید Radi Allah Anho17
  8. حارث بن الصمہ Radi Allah Anho
  9. عطیبہ بن نُہَیک Radi Allah Anho
  10. سعد بن عبید Radi Allah Anho

ان میں سے آخری 3 نام مختلف فیہ ہیں جبکہ باقی 7 پر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے۔ یہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum اُن دغا بازوں کے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ اور عسفان کےدرمیان ایک مقام پر پہنچے جسے”ہداۃ “کہتے تھے اور آج کل ”الوطیہ“ کہلاتا ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے 70 کلو میٹر شمال میں واقع تھا۔ 18

نہتے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا گھیراؤ

ہداۃ کے مقام پر یہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum اپنے خیموں میں موجود تھے کہ اس دوران ان کو لانے والےعضل اور قارہ کے لوگوں نے سفیان ہذلی کے قبیلہ کی ایک شاخ بنو لحیان کو ان صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی موجودگی کا پیغام بھجوایا جس پر بنو لحیان 200 کے قریب مسلح جنگجو لے کر صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے سروں پر آپہنچے۔ صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے جب دیکھا کہ اچانک اتنے لوگ شمشیر و سناں لیے ان کے سروں پر موجود ہیں تو وہ فوراً ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور اس جگہ کو اپنا جنگی مورچہ بنا لیا۔19

دشمن کی چال

عضل، قارہ اور وہاں موجود دیگر لوگوں نے جب ان شیر دل صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو اپنے سامنے ہتھیار تھامے دیکھا تو کہنے لگے کہ ان کامقصد ہرگز قتل و غارت گری نہیں ہے بلکہ انہیں اہل مکہ کے حوالہ کر کے انعام وصول کرنا ہے۔ انہوں نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو دعوت دی کہ وہ بغیر لڑے پہاڑ سے نیچے آجائیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ 20 اس پر مسلمانوں میں سے خُبَیب بن عدی Radi Allah Anho، زید بن دِثنہ Radi Allah Anho اور عبداللہ بن طارق Radi Allah Anho نے ان کی امان قبول کی اور گرفتاری دے دی جبکہ عاصم بن ثابت Radi Allah Anho جن کی کنیت ابو سلیمان تھی، مرثد Radi Allah Anho، خالد بن ابی البُکیر Radi Allah Anho اور معتب بن عبید Radi Allah Anho نے کفار کی امان کو قبول نہ کیا۔ حضرت عاصم Radi Allah Anho نے اپنے ساتھیوں سمیت دشمن سے جنگ شروع کر دی۔ آپ Radi Allah Anho نے ان پر تمام تیر چلادیے پھر نیزے سے ایسا حملہ کیا کہ نیزہ بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد آپ Radi Allah Anho نے تلوار نیام سے نکالی اور نیام کو بھی توڑ دیا اور جانثار ہوکر لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ جب حضرت عاصم Radi Allah Anho شہید کردیے گئے تو ان قاتلوں نے یہ چاہا کہ ان کا سر کاٹ کر سلافہ بنت سعد کو فروخت کرکے بھاری انعام وصول کیا جائے۔ سلافہ وہ مشرکہ عورت تھی جس کے دو بیٹوں کو حضرت عاصم Radi Allah Anho نے غزوہ اُحد کے دن قتل کیا تھا جس پر اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ حضرت عاصم Radi Allah Anho کی کھوپڑی میں شراب پئے گی۔ 21 ادھر حضرت عاصم Radi Allah Anho نے شہادت سے قبل ہی اپنے لیے یہ دعا مانگی تھی:

اللّٰهم حميت دينك أول نهاري فاحم لي لحمي آخره.22
اے اللہ! میں آج دن کا آغاز تیرے دین کی حفاظت سے کررہا ہوں۔ تو اس دن کے آخر میں میرے جسم کی حفاظت فرمانا۔

اس سے قبل کہ کفار اپنے اس منصوبے پر عمل پیرا ہوتے اللہ تعالی نے ان کی حفاظت کے لیے کاٹنے والی مکھیوں کا ایک غول ان کی لاش پر پہرہ کے لیے مقرر کردیا جنہوں نے حضرت عاصم Radi Allah Anho کی پوری لاش کو ڈھانپ دیا۔ قاتلین یہ کہہ کر رات ہونے کا انتظار کرنے لگے کہ رات میں مکھیاں چھٹ جائیں گی تب وہ حضرت عاصم Radi Allah Anho کے سرِ مبارک کو کاٹ ڈالیں گے تو اللہ تعالی نے رات میں اس قدر زور دار بارش کردی کہ تیز پانی کا بہاؤ ان کے جسد خاکی کو کفار کی دسترس سے دور لے گیا اور یوں اللہ تعالی نے کفار کے ناپاک ہاتھوں سے ان کے جسم کو محفوظ رکھا۔ 23 مجموعی طور پر 7 صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو شہید کیا گیا اور 3 کو گرفتار کیا گیا۔ 24 جب ان تینوں کو مکہ لے جانے کی کوشش کی گئی تو حضرت عبد اللہ بن طارق Radi Allah Anho نے جانے سے انکار کردیا اور مزاحمت کی۔ کافروں نے انہیں زبردستی لے جانا چاہا مگر حضرت عبداللہ بن طارق Radi Allah Anho ڈٹ گئے۔ جب وہ انہیں لے جانے سے مایوس ہوگئے تو انہیں بھی وہیں شہید کردیا گیا اورباقی 2 صحابہ کرام Radi Allah Anhuma کو لے کروہ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ 25

حضرت خبیب Radi Allah Anho اور زید بن دثنہ Radi Allah Anho مکہ مکرمہ میں

کفار نے حضرت زید بن دثنہ Radi Allah Anho اور حضرت خبیب عدی Radi Allah Anho کو مکہ مکرمہ لے جاکر فروخت کردیا۔ حضرت زید Radi Allah Anho کو صفوان بن امیہ نے خریدا تاکہ اپنے والد کا بدلہ لے سکے جس کو بدر میں قتل کردیا تھا جبکہ حضرت خبیب بن عدی Radi Allah Anho کو حجیربن اہاب تمیمی نے اپنے باپ کے قتل کے بدلہ میں خریدا تاکہ وہ خود انہیں شہید کر سکے۔ 26

حضرت زید بن دثنہ Radi Allah Anho کا عشق مصطفیٰSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam

حضرت زید بن دثنہ Radi Allah Anho کو صفوان بن امیہ نے اپنے ہاں رکھا ہوا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا کہ وہ حضرت زید بن دثنہ Radi Allah Anho کو لے کر حرم سے باہر تنعیم میں آئے۔ وہاں اہل مکہ جمع تھے۔ اس دوران ابو سفیان آگے بڑھا اور حضرت زید Radi Allah Anho کے قریب ہوکر ان سے کہنے لگا کہ اگر انہیں چھوڑدیا جائے اور ان کی جگہ محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کی گردن ماردی جائے (نعوذباللہ) تو ان کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ حضرت زید Radi Allah Anho نے یہ سن کر فرمایا:

واللّٰه ما أحب أن محمدا الآن فى مكانه الذى هو فيه تصيبه شوكة تؤذيه وأنى جالس فى أهلى.27
اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی نہیں چاہوں گا کہ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس جگہ ہوں جس میں وہ اس وقت ہیں اور (نہ ہی یہ چاہوں گا کہ) انہیں کوئی کانٹا چبھ جائے جو انہیں تکلیف دے اور میں اپنے گھر میں رہوں۔

نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ان کے حضرت زید بن دثنہ Radi Allah Anho کا عشق و محبت دیکھ کر ابو سفیان بہت متاثر ہوا۔ مشرکین نے ان کو اور بھی پیشکشیں کیں لیکن وہ ان تمام پیشکشوں کو انتہائی جرأت و استقامت کے ساتھ مسترد کرتے رہے بالآخر صفوان کا غلام نسطاس آگے بڑھا اور حضرت زید Radi Allah Anho کو شہید کر ڈالا۔ 28

حضرت خبیب Radi Allah Anho کی دلیرانہ شہادت

حضرت خبیب بن عدی Radi Allah Anho کو حجیر بن ابی اہاب تمیمی نے خریدا اور ایک گھر میں قید کرلیا تاکہ مقررہ وقت پر ان کو سولی پرلٹکایا جائے۔ 29 جس گھر میں وہ قید تھے وہ ماویہ بنت حجیر نامی ایک خاتون کا تھا۔ جب بعد میں وہ اسلام لائیں تو وہ حضرت خبیب Radi Allah Anho کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ان کا بچہ کھیلتے ہوئے حضرت خبیب Radi Allah Anho کی گود میں چلا گیا جبکہ اس وقت ان کے ہاتھ میں تیز دھار کا استرا موجود تھا لیکن انہوں نے بچے پر شفقت ومحبت فرمائی اور اسے پیار کرکے ان خاتون کی طرف واپس بھیج دیا۔ آپ Radi Allah Anho بے موسم کے پھل کھارہے ہوتے تھے اور اس قید کی حالت میں بھی تہجد کا اہتمام کرتے تھے۔ 30

پھر وہ وقت آیا جب حضرت خبیب Radi Allah Anho کو حرم سے باہر نکالا گیا، ایک سولی نصب کی گئی اور انہیں اس کی طرف لے جانے لگے۔ حضرت خبیب Radi Allah Anho نے ان سے کہا کہ انہیں صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ 31 جب آپ Radi Allah Anho نے اطمینان سے دو رکعت نماز ادا کرلی تو کفار سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے کہ اگرانہیں یہ اندیشہ نہ ہو تاکہ وہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ انہیں موت سے ڈر لگ رہا ہے تووہ اچھی طرح لمبی رکعت والی نماز پڑھتے۔ تختہ دار پر جانے سے قبل نماز پڑھنے کی سنت ان ہی کے عمل سے شروع ہوئی۔ 32 جب آپ Radi Allah Anho نے نماز ادا کرلی توکفار نے حضرت خبیب Radi Allah Anho کو بھی وہی پیشکش کی جو حضرت زید Radi Allah Anho کے سامنے پیش کی تھی۔ اولا تو یہ کہا کہ اسلام چھوڑ دو تو جان بخشی کردی جائے گی۔ اس کے جواب میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا:

لا واللّٰه مااحب انى رجعت عن الاسلام وان لى ما فى الارض جمیعا.33
اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یقیناً زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب بھی اگر مجھے مل جائے تب بھی میں اسلام سے دستبردار نہیں ہوں گا۔

یہ سن کر کفار نےدوسرا حربہ آزمایا اور کہنے لگے کہ اگر وہ اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہوتے اور ان کی جگہ محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) ہوتے تو کیا یہ بہتر نہیں تھا ۔ حضرت خبیب Radi Allah Anho نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:

واللّٰه مااحب ان یشاك محمد بشوكة وانا جالس فى بیتى.34
اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کوئی کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں۔

یہ سن کر کفار نے ان کو سولی والی لکڑی پر باندھ دیا۔ حضرت خبیب Radi Allah Anho نے اللہ تعالی کے دربار میں ان کفار کے خلاف دست دعا بلند کیے اور فرمایا:

اللّٰهم أحصهم عددا واقتلهم بددا ولا تغادر منهم أحدا.35
اے اللہ! ان میں سے ایک ایک کو گن گن کر ہلاک فرما اور ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑنا۔

کفار نے ان کی بددعا سے ڈر کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنا شروع کردیں اور ان میں سے کچھ زمین پر لیٹ گئے کہ بد دعا ان کے اوپر سے گزر جائے۔ اس کے بعد آپ Radi Allah Anho نے چند اشعار پڑھے:

فلست أبالي حين أقتل مسلما
على أي جنب كان واللّٰه مصرعي
وذلك في ذات الإله وإن يشاء
يبارك في أوصال شلو ممزع36
جب میں اسلام پر قتل کیا جاؤں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا۔ یہ تو صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے بکھرے ہوئے ایک ایک جوڑ کے بدلے میں مجھے ڈھیروں اجر و ثواب عطا فرمادے گا۔

جب کفار نے سولی کی لکڑی کھڑی کی جس پر حضرت خبیب Radi Allah Anho کو باندھا گیا تھا تو انہوں نے ایک بار پھر دعا کے لیے لب ہلائے اور اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہوئے فرمایا:

اللّٰهم إني لا أرى إلا وجه عدو، اللّٰه إنه ليس هنا أحد يبلغ رسولك عني السلام، فبلّغه أنت عني السلام.37
اے اللہ! میں یہاں سوائے دشمنوں کے چہروں کے کسی اور کو نہیں پاتا، اے اللہ! یہاں کوئی نہیں ہے جو تیرے رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کو میرا سلام پہنچادے، تو تُو میرا سلام ان تک پہنچا دے۔

اس وقت رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ میں صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ان تک حضرت جبرائیل Alaihis Salam نے حضرت خبیب Radi Allah Anho کا سلام پہنچایا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کے سامنے ان کے سلام کا جواب دیا۔ 38 ادھر کفار نے ان 40 لوگوں کو بلایا جن کےعزیز و اقرباء بدر میں مارے گئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے دیے گئے تاکہ وہ حضرت خبیب Radi Allah Anho کو شہید کریں۔ ان تمام کفار نے ظالمانہ طور پر چاروں طرف سے حضرت خبیب Radi Allah Anho پر نیزوں کے وار کیے اور ان کو شہید کرڈالا۔39

حضرت خبیب Radi Allah Anho کی لاش کی حفاظت

کفار نے حضرت خبیب Radi Allah Anho کو شہید کرنے کے بعد ان کو سولی پر ہی رکھا اور نیچے نہ اتارا۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب اس کی خبر ملی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum سے فرمایا کہ جو خبیب Radi Allah Anho کی لاش کو اتارے گا اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ چنانچہ اس مہم کے لیے حضرت زبیر بن عوام Radi Allah Anho اور حضرت مقداد بن اسود Radi Allah Anho نے اپنے آپ کو پیش فرمایا۔ یہ دونوں حضرات مکہ مکرمہ پہنچے اور موقع ملتے ہی حضرت خبیب Radi Allah Anho کے جسد کو اتار کر گھوڑے پر رکھا اور وہاں سے چل دیے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد کفار نے ان کا تعاقب کیا۔ حضرت زبیر Radi Allah Anho نے ایک مقام پر حضرت خبیب Radi Allah Anho کے جسد اطہر کو زمین پر رکھا تو زمین نے فوراً ان کو نگل لیا۔ اللہ تعالی نے کفار کے ناپاک ہاتھوں سے ان کے پاک جسم کو موت کے بعد بھی محفوظ رکھا۔ اور وہ کسی کافر کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رہے۔


  • 1  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم للطباعۃ واللنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2010ء، ص: 304
  • 2  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-6، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 125
  • 3  محمد بن إسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3045، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 503
  • 4  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم للطباعۃ واللنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2010ء، ص: 304
  • 5  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-6، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 130
  • 6  محمد بن عمر الحميري الشهير ببحرق الیمنی، حدائق الأنوار ومطالع الأسرار في سيرة النبي المختار، مطبوعۃ: دارالمنہاج، جدة، السعودية، 1419ھ، ص: 288-287
  • 7  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 354
  • 8  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 619
  • 9  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ، حدیث: 445، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان،1986م، ص: 517
  • 10  ایضاً
  • 11  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، بدون تاریخ الطبع، ص: 450
  • 12  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 42
  • 13  أبو ا لعباس أحمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 260
  • 14  محمد بن إسحاق المطلبی، كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویه لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 372
  • 15  محمد بن إسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3045، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 503
  • 16  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 327
  • 17  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 355
  • 18  عاتق بن غيث بن زوير البلادي، معجم المعالم الجغْرافيّة في السّيرة النّبويّة، مطبوعۃ: دار مكة للنشر والتوزيع، مكة المكرمة، 1982م، ص: 138
  • 19  ابو شُهبة محمد بن محمد بن سويلم، السيرة النبوية على ضوء القرآن والسنة، ج-2، مطبوعۃ: دار القلم، دمشق، السوریۃ، 1427ھ، ص: 235
  • 20  أبو ا لعباس أحمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 260
  • 21  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 185
  • 22  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 356
  • 23  أبو محمد علي بن أحمد ابن حزم الأندلسي، جوامع السیرۃ النبوية، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 107
  • 24  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم للطباعۃ واللنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 2010ء، ص: 304
  • 25  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 171
  • 26  أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 366
  • 27  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص:405
  • 28  ایضاً
  • 29  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-6، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 42
  • 30  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 58-59
  • 31  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 58-59
  • 32  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-6، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 43
  • 33  ایضا
  • 34  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 187
  • 35  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-6، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 44
  • 36  ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 325
  • 37  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 360
  • 38  ایضاً، ص: 361
  • 39  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 236

Powered by Netsol Online