سانحہ رجیع سن 4 ہجری میں پیش آیا 1 جس میں حضرت محمد مصطفیٰ کے 6 2 اور دوسرے قول کے مطابق 10 صحابہ کرام
کو اسلام کی تعلیم دینے کے لئے بھیجا گیا۔ 3 ان 10 میں سے 7 صحابہ کرام
کو بنو ہذیل نے دیگر قبائل کے ساتھ مل کر رجیع کے مقام پر شہید کردیا ۔ باقی ماندہ3 صحابہ کرام
کو بنو ہذیل نے دھوکے سے قیدی بنا لیا۔ بنو ہذیل نے کوشش کی کہ ان کو مکہ لے جائیں جس پر ایک صحابی
نے مزاحمت کی جس کی وجہ سے ان کو شہید کردیا گیا اور بقیہ 2کو قریش سے نقد انعام پانے کی لالچ میں مکہ لے جایا گیا اور ان کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔ 4قریش میں سے حجیربن اہاب تمیمی نےحضرت خبیب بن عدی
کو اور صفوان بن امیہ نے حضرت زید
کو خرید کر مقتولین بدر کے بدلہ میں نہایت ظالمانہ طور پر شہید کر دیا۔ 5آپ
کو جب حضرت جبرئیل
کے ذریعہ اس واقعہ کی خبرملی اور یہ بتایا گیا کہ حضرت خبیب
کا جسم مبارک ابھی تک سولی سے نہیں اتارا گیا تو آپ
نے مدینہ منورہ سے 2 صحابہ کرام
کو بھیج کر حضرت خبیب
کا جسم مبارک اتروایا۔ 6
حضرت محمد نے بعض صحابہ کرام
کو مکہ کی طرف جاسوسی پر روانہ فرمایا تاکہ وہ آپ
کو قریش کی خبردیں۔ چنانچہ وہ نجد کے راستے سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ وہ مقامِ "رجیع" پر پہنچے، تو بنو لحیان نے ان کے راستے میں گھات لگا کر انہیں آ لیا۔7 جبکہ دوسرے اور راجح قول کے مطابق آپ
کے پاس باوثوق ذرائع سے یہ خبر پہنچی تھی کہ قبیلہ ہذیل جو اب تک اپنے آباء واجداد کے مشرکانہ مذہب پر قائم ودائم تھا ، اس قبیلہ کا سردار خالد بن سفيان بن نبیح الہذلی ایک بہت بڑا لشکر تیار کرکے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کرچکا تھا۔ 8 نبی کریم
کو اس لشکر کی تیاری اور ان کے ارادوں کے بارے میں جیسے ہی اطلاع دی گئی تو آپ
نے اسی وقت عبد اللہ بن انیس
کو اپنے پاس بلوایااور ان سے فرمایا کہ ابن نبيح یعنی خالد بن سفیان ہذلی ہمارے خلاف لشکر اکٹھا کررہا ہے۔ 9حضرت عبداللہ بن انیس
نے یہ سن کر آپ
سے اس کی نشانی پوچھی تاکہ اسکو پہچان سکیں۔ آپ
نے فرمایا کہ جب بھی وہ اس شخص کو دیکھیں گے تو اس کے رونگٹے کھڑے پائیں گے۔ 10
حضرت عبداللہ بن انیس اس نشانی کو ذہن میں رکھ کر اس کی طرف روانہ ہوئے اور جب اس کے علاقے میں پہنچے تو عصر کا وقت داخل ہوچکا تھا۔ اس وقت خالد بن سفیان ہذلی جو ابن نبيح کے نام سے مشہور تھا”عرنہ“ وادی میں اپنی عورتوں کےلیے خیمہ اور آرام کے انتظامات کررہا تھا۔ 11 حضرت عبداللہ بن انیس
کی نظر جب اس پر پڑی توانہیں لگا کہ اس کے رونگٹے کھڑ ے ہو گئے ہیں اور وہ پریشان سا ہوگیا ہے۔ اس نے حضرت عبداللہ بن انیس
سے ان کی شناخت پوچھی تو آپ
نے فرمایا کہ ان کا تعلق بھی اسی کی طرح عر ب علاقہ سے ہے اور انہیں پتہ چلاہے کہ وہ محمد
پر حملہ کرنے کےلیے لشکر تیار کررہا ہے اور وہ یہاں اسی غرض سے آئے ہیں کہ اس لشکر میں شامل ہوسکیں۔یہ سن کر وہ آپ
سے مطمئن ہوگیا اور ان کو اپنے منصوبہ کے بارے میں بتانے لگا۔ حضرت عبد اللہ بن انیس
کچھ دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہے اورجیسے ہی اس پر غلبہ پانے کا موقع ملا تو اپنی تلوار سے اسے قتل کر کے واپس مدینہ منورہ چلے گئے۔12
اپنے سردار کے اچانک مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کا بدلہ لینے کےلیے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کے لوگ عضل اور قارہ جو بنو ہون بن خزیمہ کی شاخیں تھیں، ان کے پاس آئے تاکہ منصوبہ بندی کرکے مسلمانوں اور آپ سے اپنے سردار کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔ انہوں نے یہ بات طے کی کہ عضل اور قارہ کے لوگ آپ
کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ
سے یہ درخواست کریں کہ وہ ان کے ساتھ دعوت وتبلیغ اور مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کےلیے معلمین صحابہ کرام
کا ایک وفد روانہ کریں تاکہ موقع پاکر وہ آپ
کے صحابہ کرام
کو شہید کردیں ۔ اس منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے عضل اور قارہ کے 7 افراد مدینہ منورہ آئے اور آپ
کے سامنے اپنے ایمان لانے اور اپنے قبیلوں کو اسلام کی دعوت دینے اور ان کی تعلیم وتربیت کرنے کےلیے صحابہ کرام
کی ایک جماعت کو اپنے ساتھ بھجوانے کی درخواست کی جو انہیں دین کی تعلیم، تلاوت قرآن کریم اور احکامات اسلامی سکھائیں۔13 ان کی درخواست قبول کر کے رسول کریم
نے ان کےساتھ اپنے چند ممتاز صحابہ کرام
بھجوائے جن کے امیر ابن اسحاق کے نزدیک مرثد ابن ابی مرثد
14 اور امام بخاری
کے نزدیک عاصم بن ثابت
تھے۔ 15بھیجے گئے صحابہ کرام
کے اسماءِ مبارک درجِ ذیل ہیں:
ان میں سے آخری 3 نام مختلف فیہ ہیں جبکہ باقی 7 پر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے۔ یہ صحابہ کرام اُن دغا بازوں کے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ اور عسفان کےدرمیان ایک مقام پر پہنچے جسے”ہداۃ “کہتے تھے اور آج کل ”الوطیہ“ کہلاتا ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے 70 کلو میٹر شمال میں واقع تھا۔ 18
ہداۃ کے مقام پر یہ صحابہ کرام اپنے خیموں میں موجود تھے کہ اس دوران ان کو لانے والےعضل اور قارہ کے لوگوں نے سفیان ہذلی کے قبیلہ کی ایک شاخ بنو لحیان کو ان صحابہ کرام
کی موجودگی کا پیغام بھجوایا جس پر بنو لحیان 200 کے قریب مسلح جنگجو لے کر صحابہ کرام
کے سروں پر آپہنچے۔ صحابہ کرام
نے جب دیکھا کہ اچانک اتنے لوگ شمشیر و سناں لیے ان کے سروں پر موجود ہیں تو وہ فوراً ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور اس جگہ کو اپنا جنگی مورچہ بنا لیا۔19
عضل، قارہ اور وہاں موجود دیگر لوگوں نے جب ان شیر دل صحابہ کرام کو اپنے سامنے ہتھیار تھامے دیکھا تو کہنے لگے کہ ان کامقصد ہرگز قتل و غارت گری نہیں ہے بلکہ انہیں اہل مکہ کے حوالہ کر کے انعام وصول کرنا ہے۔ انہوں نے صحابہ کرام
کو دعوت دی کہ وہ بغیر لڑے پہاڑ سے نیچے آجائیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ 20 اس پر مسلمانوں میں سے خُبَیب بن عدی
، زید بن دِثنہ
اور عبداللہ بن طارق
نے ان کی امان قبول کی اور گرفتاری دے دی جبکہ عاصم بن ثابت
جن کی کنیت ابو سلیمان تھی، مرثد
، خالد بن ابی البُکیر
اور معتب بن عبید
نے کفار کی امان کو قبول نہ کیا۔ حضرت عاصم
نے اپنے ساتھیوں سمیت دشمن سے جنگ شروع کر دی۔ آپ
نے ان پر تمام تیر چلادیے پھر نیزے سے ایسا حملہ کیا کہ نیزہ بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد آپ
نے تلوار نیام سے نکالی اور نیام کو بھی توڑ دیا اور جانثار ہوکر لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ جب حضرت عاصم
شہید کردیے گئے تو ان قاتلوں نے یہ چاہا کہ ان کا سر کاٹ کر سلافہ بنت سعد کو فروخت کرکے بھاری انعام وصول کیا جائے۔ سلافہ وہ مشرکہ عورت تھی جس کے دو بیٹوں کو حضرت عاصم
نے غزوہ اُحد کے دن قتل کیا تھا جس پر اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ حضرت عاصم
کی کھوپڑی میں شراب پئے گی۔ 21 ادھر حضرت عاصم
نے شہادت سے قبل ہی اپنے لیے یہ دعا مانگی تھی:
اللّٰهم حميت دينك أول نهاري فاحم لي لحمي آخره.22
اے اللہ! میں آج دن کا آغاز تیرے دین کی حفاظت سے کررہا ہوں۔ تو اس دن کے آخر میں میرے جسم کی حفاظت فرمانا۔
اس سے قبل کہ کفار اپنے اس منصوبے پر عمل پیرا ہوتے اللہ تعالی نے ان کی حفاظت کے لیے کاٹنے والی مکھیوں کا ایک غول ان کی لاش پر پہرہ کے لیے مقرر کردیا جنہوں نے حضرت عاصم کی پوری لاش کو ڈھانپ دیا۔ قاتلین یہ کہہ کر رات ہونے کا انتظار کرنے لگے کہ رات میں مکھیاں چھٹ جائیں گی تب وہ حضرت عاصم
کے سرِ مبارک کو کاٹ ڈالیں گے تو اللہ تعالی نے رات میں اس قدر زور دار بارش کردی کہ تیز پانی کا بہاؤ ان کے جسد خاکی کو کفار کی دسترس سے دور لے گیا اور یوں اللہ تعالی نے کفار کے ناپاک ہاتھوں سے ان کے جسم کو محفوظ رکھا۔ 23 مجموعی طور پر 7 صحابہ کرام
کو شہید کیا گیا اور 3 کو گرفتار کیا گیا۔ 24 جب ان تینوں کو مکہ لے جانے کی کوشش کی گئی تو حضرت عبد اللہ بن طارق
نے جانے سے انکار کردیا اور مزاحمت کی۔ کافروں نے انہیں زبردستی لے جانا چاہا مگر حضرت عبداللہ بن طارق
ڈٹ گئے۔ جب وہ انہیں لے جانے سے مایوس ہوگئے تو انہیں بھی وہیں شہید کردیا گیا اورباقی 2 صحابہ کرام
کو لے کروہ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ 25
کفار نے حضرت زید بن دثنہ اور حضرت خبیب عدی
کو مکہ مکرمہ لے جاکر فروخت کردیا۔ حضرت زید
کو صفوان بن امیہ نے خریدا تاکہ اپنے والد کا بدلہ لے سکے جس کو بدر میں قتل کردیا تھا جبکہ حضرت خبیب بن عدی
کو حجیربن اہاب تمیمی نے اپنے باپ کے قتل کے بدلہ میں خریدا تاکہ وہ خود انہیں شہید کر سکے۔ 26
حضرت زید بن دثنہ کو صفوان بن امیہ نے اپنے ہاں رکھا ہوا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا کہ وہ حضرت زید بن دثنہ
کو لے کر حرم سے باہر تنعیم میں آئے۔ وہاں اہل مکہ جمع تھے۔ اس دوران ابو سفیان آگے بڑھا اور حضرت زید
کے قریب ہوکر ان سے کہنے لگا کہ اگر انہیں چھوڑدیا جائے اور ان کی جگہ محمد (
) کی گردن ماردی جائے (نعوذباللہ) تو ان کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ حضرت زید
نے یہ سن کر فرمایا:
واللّٰه ما أحب أن محمدا الآن فى مكانه الذى هو فيه تصيبه شوكة تؤذيه وأنى جالس فى أهلى.27
اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی نہیں چاہوں گا کہ محمداس جگہ ہوں جس میں وہ اس وقت ہیں اور (نہ ہی یہ چاہوں گا کہ) انہیں کوئی کانٹا چبھ جائے جو انہیں تکلیف دے اور میں اپنے گھر میں رہوں۔
نبی کریم کے ساتھ ان کے حضرت زید بن دثنہ
کا عشق و محبت دیکھ کر ابو سفیان بہت متاثر ہوا۔ مشرکین نے ان کو اور بھی پیشکشیں کیں لیکن وہ ان تمام پیشکشوں کو انتہائی جرأت و استقامت کے ساتھ مسترد کرتے رہے بالآخر صفوان کا غلام نسطاس آگے بڑھا اور حضرت زید
کو شہید کر ڈالا۔ 28
حضرت خبیب بن عدی کو حجیر بن ابی اہاب تمیمی نے خریدا اور ایک گھر میں قید کرلیا تاکہ مقررہ وقت پر ان کو سولی پرلٹکایا جائے۔ 29 جس گھر میں وہ قید تھے وہ ماویہ بنت حجیر نامی ایک خاتون کا تھا۔ جب بعد میں وہ اسلام لائیں تو وہ حضرت خبیب
کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ان کا بچہ کھیلتے ہوئے حضرت خبیب
کی گود میں چلا گیا جبکہ اس وقت ان کے ہاتھ میں تیز دھار کا استرا موجود تھا لیکن انہوں نے بچے پر شفقت ومحبت فرمائی اور اسے پیار کرکے ان خاتون کی طرف واپس بھیج دیا۔ آپ
بے موسم کے پھل کھارہے ہوتے تھے اور اس قید کی حالت میں بھی تہجد کا اہتمام کرتے تھے۔ 30
پھر وہ وقت آیا جب حضرت خبیب کو حرم سے باہر نکالا گیا، ایک سولی نصب کی گئی اور انہیں اس کی طرف لے جانے لگے۔ حضرت خبیب
نے ان سے کہا کہ انہیں صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ 31 جب آپ
نے اطمینان سے دو رکعت نماز ادا کرلی تو کفار سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے کہ اگرانہیں یہ اندیشہ نہ ہو تاکہ وہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ انہیں موت سے ڈر لگ رہا ہے تووہ اچھی طرح لمبی رکعت والی نماز پڑھتے۔ تختہ دار پر جانے سے قبل نماز پڑھنے کی سنت ان ہی کے عمل سے شروع ہوئی۔ 32 جب آپ
نے نماز ادا کرلی توکفار نے حضرت خبیب
کو بھی وہی پیشکش کی جو حضرت زید
کے سامنے پیش کی تھی۔ اولا تو یہ کہا کہ اسلام چھوڑ دو تو جان بخشی کردی جائے گی۔ اس کے جواب میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا:
لا واللّٰه مااحب انى رجعت عن الاسلام وان لى ما فى الارض جمیعا.33
اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یقیناً زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب بھی اگر مجھے مل جائے تب بھی میں اسلام سے دستبردار نہیں ہوں گا۔
یہ سن کر کفار نےدوسرا حربہ آزمایا اور کہنے لگے کہ اگر وہ اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہوتے اور ان کی جگہ محمد () ہوتے تو کیا یہ بہتر نہیں تھا ۔ حضرت خبیب
نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:
واللّٰه مااحب ان یشاك محمد بشوكة وانا جالس فى بیتى.34
اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ آپکو کوئی کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں۔
یہ سن کر کفار نے ان کو سولی والی لکڑی پر باندھ دیا۔ حضرت خبیب نے اللہ تعالی کے دربار میں ان کفار کے خلاف دست دعا بلند کیے اور فرمایا:
اللّٰهم أحصهم عددا واقتلهم بددا ولا تغادر منهم أحدا.35
اے اللہ! ان میں سے ایک ایک کو گن گن کر ہلاک فرما اور ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑنا۔
کفار نے ان کی بددعا سے ڈر کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنا شروع کردیں اور ان میں سے کچھ زمین پر لیٹ گئے کہ بد دعا ان کے اوپر سے گزر جائے۔ اس کے بعد آپ نے چند اشعار پڑھے:
فلست أبالي حين أقتل مسلما
على أي جنب كان واللّٰه مصرعي
وذلك في ذات الإله وإن يشاء
يبارك في أوصال شلو ممزع36
جب میں اسلام پر قتل کیا جاؤں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا۔ یہ تو صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے بکھرے ہوئے ایک ایک جوڑ کے بدلے میں مجھے ڈھیروں اجر و ثواب عطا فرمادے گا۔
جب کفار نے سولی کی لکڑی کھڑی کی جس پر حضرت خبیب کو باندھا گیا تھا تو انہوں نے ایک بار پھر دعا کے لیے لب ہلائے اور اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہوئے فرمایا:
اللّٰهم إني لا أرى إلا وجه عدو، اللّٰه إنه ليس هنا أحد يبلغ رسولك عني السلام، فبلّغه أنت عني السلام.37
اے اللہ! میں یہاں سوائے دشمنوں کے چہروں کے کسی اور کو نہیں پاتا، اے اللہ! یہاں کوئی نہیں ہے جو تیرے رسول () کو میرا سلام پہنچادے، تو تُو میرا سلام ان تک پہنچا دے۔
اس وقت رسول اللہ مدینہ منورہ میں صحابہ کرام
کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ان تک حضرت جبرائیل
نے حضرت خبیب
کا سلام پہنچایا اور آپ
نے صحابہ کرام
کے سامنے ان کے سلام کا جواب دیا۔ 38 ادھر کفار نے ان 40 لوگوں کو بلایا جن کےعزیز و اقرباء بدر میں مارے گئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے دیے گئے تاکہ وہ حضرت خبیب
کو شہید کریں۔ ان تمام کفار نے ظالمانہ طور پر چاروں طرف سے حضرت خبیب
پر نیزوں کے وار کیے اور ان کو شہید کرڈالا۔39
کفار نے حضرت خبیب کو شہید کرنے کے بعد ان کو سولی پر ہی رکھا اور نیچے نہ اتارا۔ رسول اللہ
کو جب اس کی خبر ملی تو آپ
نے صحابہ کرام
سے فرمایا کہ جو خبیب
کی لاش کو اتارے گا اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ چنانچہ اس مہم کے لیے حضرت زبیر بن عوام
اور حضرت مقداد بن اسود
نے اپنے آپ کو پیش فرمایا۔ یہ دونوں حضرات مکہ مکرمہ پہنچے اور موقع ملتے ہی حضرت خبیب
کے جسد کو اتار کر گھوڑے پر رکھا اور وہاں سے چل دیے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد کفار نے ان کا تعاقب کیا۔ حضرت زبیر
نے ایک مقام پر حضرت خبیب
کے جسد اطہر کو زمین پر رکھا تو زمین نے فوراً ان کو نگل لیا۔ اللہ تعالی نے کفار کے ناپاک ہاتھوں سے ان کے پاک جسم کو موت کے بعد بھی محفوظ رکھا۔ اور وہ کسی کافر کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رہے۔