ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی    کا اصل نام زینب تھا۔ آپ
 کا اصل نام زینب تھا۔ آپ    صفیہ کے نام سے  اس وقت مشہور ہوئیں جب حضور
 صفیہ کے نام سے  اس وقت مشہور ہوئیں جب حضور  نے آپ
  نے آپ   کے ساتھ نکاح فرمایا۔ 1 "صفی" یا  "صفیہ" اُس وقت مال غنیمت کے اُس خاص حصہ کو کہا جاتا تھا  جسے عمومی تقسیم سے قبل کسی بادشاہ  یا  فوجی  جرنیل کی خدمت میں پیش کیا جاتا۔  2 آپ
 کے ساتھ نکاح فرمایا۔ 1 "صفی" یا  "صفیہ" اُس وقت مال غنیمت کے اُس خاص حصہ کو کہا جاتا تھا  جسے عمومی تقسیم سے قبل کسی بادشاہ  یا  فوجی  جرنیل کی خدمت میں پیش کیا جاتا۔  2 آپ  نے  غزوہ خیبر کے  اسیران جنگ میں سے خود حضرت صفیہ بنت حیی
  نے  غزوہ خیبر کے  اسیران جنگ میں سے خود حضرت صفیہ بنت حیی  کا انتخاب فرمایا تھا 3  اس لئے آپ
    کا انتخاب فرمایا تھا 3  اس لئے آپ   کو بھی  "صفیہ"  کہا گیا جس کی تصدیق حضرت عائشہ
 کو بھی  "صفیہ"  کہا گیا جس کی تصدیق حضرت عائشہ  سے مروی شدہ روایت بھی کرتی ہے۔
    سے مروی شدہ روایت بھی کرتی ہے۔
 کا نسب
 کا نسبآپ    کا پورا نام اور نسب صفیہ بنت حیی بن اخطب بن سعنہ بن ثعلبہ بن عبيد بن كعب بن ابی حبيب تھا۔ آپ
 کا پورا نام اور نسب صفیہ بنت حیی بن اخطب بن سعنہ بن ثعلبہ بن عبيد بن كعب بن ابی حبيب تھا۔ آپ    کا والد حیی بن اخطب  بنو نضیر قبیلہ کا  ایک مال دار سردار تھا  جس کا نسب  حضرت ہارون بن عمران
 کا والد حیی بن اخطب  بنو نضیر قبیلہ کا  ایک مال دار سردار تھا  جس کا نسب  حضرت ہارون بن عمران  سے  ملتا تھا جو حضرت موسی
 سے  ملتا تھا جو حضرت موسی    کے بھائی تھے۔ 5 آپ
 کے بھائی تھے۔ 5 آپ       کی والدہ کانام برّہ بنت سموال تھا6  جو  رفاہ بن سموئیل کی بہن تھیں اور وہ بنوقریضہ قبیلہ کے سردار تھے۔ 7
 کی والدہ کانام برّہ بنت سموال تھا6  جو  رفاہ بن سموئیل کی بہن تھیں اور وہ بنوقریضہ قبیلہ کے سردار تھے۔ 7
 سے نکاح سے قبل حضرت صفیہ بنت حیی
  سے نکاح سے قبل حضرت صفیہ بنت حیی      کی زندگی
 کی زندگیآپ    کا تعلق مدینہ میں بسنے والے ایک یہودی خاندان کے ساتھ تھا۔ آپ
 کا تعلق مدینہ میں بسنے والے ایک یہودی خاندان کے ساتھ تھا۔ آپ    کی پیدائش حضور
 کی پیدائش حضور  کے اعلان نبوت کے تین برس بعد ہوئی۔یہ یہودی خاندان  اللہ  تعالی کے آخری پیغمبر  کی آمد کا منتظر تھا جن کی آمد وبعثت کے متعلق ان کی مذہبی کتب میں بشارات موجود تھیں۔ حضور
  کے اعلان نبوت کے تین برس بعد ہوئی۔یہ یہودی خاندان  اللہ  تعالی کے آخری پیغمبر  کی آمد کا منتظر تھا جن کی آمد وبعثت کے متعلق ان کی مذہبی کتب میں بشارات موجود تھیں۔ حضور  کی آمد کی اطلاع پاکر یہودی  جن میں حیی بن اخطب بھی شامل تھا  اور اپنے قبیلہ کا سردار ہونے کی حیثیت سے نہایت معزز ومحترم بھی تھا، آپ
  کی آمد کی اطلاع پاکر یہودی  جن میں حیی بن اخطب بھی شامل تھا  اور اپنے قبیلہ کا سردار ہونے کی حیثیت سے نہایت معزز ومحترم بھی تھا، آپ  کو دیکھنے کےلیے اپنے گھر سے نکلا۔  حيی بن اخطب جب حضور
  کو دیکھنے کےلیے اپنے گھر سے نکلا۔  حيی بن اخطب جب حضور  کو دیکھنے کےلیے جانے لگا تو اس کا بھائی یعنی حضرت صفیہ
  کو دیکھنے کےلیے جانے لگا تو اس کا بھائی یعنی حضرت صفیہ       کا چچا بھی اس کے ساتھ تھا ۔ جب آپ
 کا چچا بھی اس کے ساتھ تھا ۔ جب آپ  مدینہ  تشریف لے آئے  تو آپ
   مدینہ  تشریف لے آئے  تو آپ  نےقبا میں قبیلہ بنو عمر بن عوف کے مکان   پر قیام  فرمایا ۔ یہ وہ وقت تھا جب حیی بن اخطب اور اس کا بھائی یاسر بن اخطب حضور
  نےقبا میں قبیلہ بنو عمر بن عوف کے مکان   پر قیام  فرمایا ۔ یہ وہ وقت تھا جب حیی بن اخطب اور اس کا بھائی یاسر بن اخطب حضور  سے ملنے کےلیے گئے۔ سورج غروب ہونے کے وقت  وہ دونوں  آہستہ آہستہ، تھکی ماندی حالت میں، شکست خوردہ سے  گھر کو واپس لوٹے۔ حضرت صفیہ
  سے ملنے کےلیے گئے۔ سورج غروب ہونے کے وقت  وہ دونوں  آہستہ آہستہ، تھکی ماندی حالت میں، شکست خوردہ سے  گھر کو واپس لوٹے۔ حضرت صفیہ    نے انہیں گھر واپسی پر بڑی خوشد لی کے ساتھ  خوش آ مدیدکہا اور سلام کیا لیکن وہ دونوں  ذہنی طور پر اتنے زیادہ پریشان تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان کے سلام وکلام  کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس کے بعد ابو یاسر نے حیی بن اخطب سے سوال کیا کہ کیا  اس کے خیال کے مطابق محمد
 نے انہیں گھر واپسی پر بڑی خوشد لی کے ساتھ  خوش آ مدیدکہا اور سلام کیا لیکن وہ دونوں  ذہنی طور پر اتنے زیادہ پریشان تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان کے سلام وکلام  کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس کے بعد ابو یاسر نے حیی بن اخطب سے سوال کیا کہ کیا  اس کے خیال کے مطابق محمد  اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں جس کے جواب میں حیی انکار نہ کرسکا اور اس نے تسلیم کیا کہ وہ واقعی اللہ کے سچےنبی اور رسول ہیں ۔ اس کے بعد ابو یاسر نے  حیی سے اس کے آئندہ کے عزائم کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں   حیی نے  واضح طور پر کہہ ڈالا   کہ وہ ان پر کبھی بھی  اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے ایمان نہیں لائے  گا اور مرتے    دم  تک ان سے اپنی دشمنی جاری  رکھے گا۔ 8
 اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں جس کے جواب میں حیی انکار نہ کرسکا اور اس نے تسلیم کیا کہ وہ واقعی اللہ کے سچےنبی اور رسول ہیں ۔ اس کے بعد ابو یاسر نے  حیی سے اس کے آئندہ کے عزائم کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں   حیی نے  واضح طور پر کہہ ڈالا   کہ وہ ان پر کبھی بھی  اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے ایمان نہیں لائے  گا اور مرتے    دم  تک ان سے اپنی دشمنی جاری  رکھے گا۔ 8
کچھ عرصہ کے بعد بنو نضیر کے یہود نے آپ  کو شہید کرنے کی سازش تیا رکی  لیکن  اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ آپ
  کو شہید کرنے کی سازش تیا رکی  لیکن  اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ آپ  کو پہلے سے ہی  یہودیوں کی اس سازش کے بارےمیں  آگاہ فرمادیا۔ چنانچہ قبل اس  کے کہ یہودی اپنی سازش کو عملی جامہ پہناتے، آپ
  کو پہلے سے ہی  یہودیوں کی اس سازش کے بارےمیں  آگاہ فرمادیا۔ چنانچہ قبل اس  کے کہ یہودی اپنی سازش کو عملی جامہ پہناتے، آپ  جس جگہ تشریف فرما تھے، آپ
  جس جگہ تشریف فرما تھے، آپ  نے وہ جگہ فوری طور پر  چھوڑ دی اور   وہاں سے روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد  یہودی قبیلہ بنونضیر  کے قلعوں کا مسلمانوں نے محاصرہ کر لیا جو 6 دن تک جاری رہا جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے  اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے  ہتھیار پھینک ڈالے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کردیا۔ انہوں نے آپ
  نے وہ جگہ فوری طور پر  چھوڑ دی اور   وہاں سے روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد  یہودی قبیلہ بنونضیر  کے قلعوں کا مسلمانوں نے محاصرہ کر لیا جو 6 دن تک جاری رہا جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے  اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے  ہتھیار پھینک ڈالے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کردیا۔ انہوں نے آپ  سے درخواست کی کہ ان کی جان بخشی کردی  جائے۔ آپ
  سے درخواست کی کہ ان کی جان بخشی کردی  جائے۔ آپ  نے ان کی اس  درخواست کو اس شرط  پر قبول فرمایا کہ وہ  مدینہ منورہ چھوڑ کر کسی اور طرف چلے جائیں گے اور اپنے ساتھ صرف اپنے اونٹوں پر لے جایا جانے والا اسلحہ    اور  سامان انہیں لے جانے کی اجازت  ہوگی۔ اس طرح  یہودیوں کے اس قبیلہ نے  مدینہ سے کوچ کیا اور جا کر  خیبر  اور شام میں مقیم ہوگئے۔ 9
   نے ان کی اس  درخواست کو اس شرط  پر قبول فرمایا کہ وہ  مدینہ منورہ چھوڑ کر کسی اور طرف چلے جائیں گے اور اپنے ساتھ صرف اپنے اونٹوں پر لے جایا جانے والا اسلحہ    اور  سامان انہیں لے جانے کی اجازت  ہوگی۔ اس طرح  یہودیوں کے اس قبیلہ نے  مدینہ سے کوچ کیا اور جا کر  خیبر  اور شام میں مقیم ہوگئے۔ 9
 کے ساتھ نکاح سے  قبل آپ
  کے ساتھ نکاح سے  قبل آپ       کی ازدواجی زندگی
 کی ازدواجی زندگیحضرت صفیہ بنت حیی     کی شادی  پہلے  مشہور یہودی شاعر  سلام بن مشکم  سے ہوئی۔ وہ  ایک بڑا شاعر  اور بہادر جنگجو تھا   لیکن  کچھ عرصہ کے بعد دونوں کے درمیان تفریق ہوگئی اور اس کے بعد حضرت صفیہ
  کی شادی  پہلے  مشہور یہودی شاعر  سلام بن مشکم  سے ہوئی۔ وہ  ایک بڑا شاعر  اور بہادر جنگجو تھا   لیکن  کچھ عرصہ کے بعد دونوں کے درمیان تفریق ہوگئی اور اس کے بعد حضرت صفیہ    کی شادی کنانہ ابن ربیع کے ساتھ ہوئی  10 جو نہایت   مالدار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے مضبوط ترین قلعہ القموص کا مالک بھی تھا ۔
  کی شادی کنانہ ابن ربیع کے ساتھ ہوئی  10 جو نہایت   مالدار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے مضبوط ترین قلعہ القموص کا مالک بھی تھا ۔
خیبر میں یہودی  مستقل طور پر  مسلمانوں کے خلاف  حملوں کے لیے لوگوں  کو  اکساتے رہے   اور اس  مقصد کے لیے تیار ہونے والے افراد وقبائل کے ساتھ مالی طور پر تعاون بھی کرتے رہے۔ چنانچہ 7 ہجری میں مسلمانوں نے ان کی  مسلسل ریشہ دوانیوں سے نجات پانے کےلیے خیبر پر حملہ کر کے   ان کے قلعوں کو یکے بعد دیگرے تباہ کرڈالا  یہاں تک کہ مسلمان فوج ان کے سب سے آخری اور مضبوط ترین گڑھ القموص تک جاپہنچی۔ اعصاب شکن جنگ کے بعد یہودیوں  کا یہ آخری اور مضبوط گڑھ بھی  مسلمانوں نے بالآخر اللہ کی مدد سے  فتح کر ڈالا اور اس میں موجود  کِنانہ سمیت دوسرے یہودیوں کو بھی جنگی اسیر بنالیا۔ جنگ کے بعد کنانہ کو آپ  کی خدمت میں لایا گیا اور اس سے  خیبر  میں یہودیوں کی دولت  اور خزانوں سے متعلق معلومات حاصل  کی گئی جس پر اس نے جواب دیا  کہ وہ سب  جنگ کی تیاریوں پر خرچ کیا جاچکا ہے  لہذا اب اس میں سے باقی کچھ نہیں بچا۔ آپ
    کی خدمت میں لایا گیا اور اس سے  خیبر  میں یہودیوں کی دولت  اور خزانوں سے متعلق معلومات حاصل  کی گئی جس پر اس نے جواب دیا  کہ وہ سب  جنگ کی تیاریوں پر خرچ کیا جاچکا ہے  لہذا اب اس میں سے باقی کچھ نہیں بچا۔ آپ  نے حضرت ابوبکر
   نے حضرت ابوبکر ، عمر
   ، عمر  اور علی
   اور علی    اور دوسرے یہودیوں کو کنانہ کے الفاظ پر گواہ  بناتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اگر  کنانہ  کی بات جھوٹ ثابت ہوئی تو اسے  بدترین سزاد ی جائے گی۔ اللہ تعالی نے آپ
   اور دوسرے یہودیوں کو کنانہ کے الفاظ پر گواہ  بناتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اگر  کنانہ  کی بات جھوٹ ثابت ہوئی تو اسے  بدترین سزاد ی جائے گی۔ اللہ تعالی نے آپ  کو  یہودیوں کے خزانوں کی موجودگی اور مقامات کے بارے میں آگاہ فرمادیا۔ آپ
  کو  یہودیوں کے خزانوں کی موجودگی اور مقامات کے بارے میں آگاہ فرمادیا۔ آپ  نےحضرت زبیر بن عوام
  نےحضرت زبیر بن عوام   کو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ  اس مقام کی طرف روانہ فرمایا جہاں خزانے کوچھپایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے یہودیوں کے چھپائے ہوئے  خزانے کو نکالا اور اسے لاکر آپ
 کو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ  اس مقام کی طرف روانہ فرمایا جہاں خزانے کوچھپایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے یہودیوں کے چھپائے ہوئے  خزانے کو نکالا اور اسے لاکر آپ  کی خدمت میں پیش کردیا۔ ایک روایت کے مطابق ایک یہودی ثعلبہ ابن سلام نے آپ
 کی خدمت میں پیش کردیا۔ ایک روایت کے مطابق ایک یہودی ثعلبہ ابن سلام نے آپ  کواس خزانے کی صحیح جگہ کے بارے میں آگاہ کیا تھا چنانچہ مسلمانوں نے وہ  خزانہ وہاں سے ڈھونڈ نکالا  اور  اس  موقع پر کنانہ کو محمد ابن  مسلمہ  کے حوالہ کیا گیا  جنہوں نے  اسے   اپنے بھائی کے قتل کے بدلہ میں قتل کرڈالا  ۔11
  کواس خزانے کی صحیح جگہ کے بارے میں آگاہ کیا تھا چنانچہ مسلمانوں نے وہ  خزانہ وہاں سے ڈھونڈ نکالا  اور  اس  موقع پر کنانہ کو محمد ابن  مسلمہ  کے حوالہ کیا گیا  جنہوں نے  اسے   اپنے بھائی کے قتل کے بدلہ میں قتل کرڈالا  ۔11
اسی جنگ میں  قلعہ قموص سے  دوسری خواتین کے ہمراہ حضرت صفیہ بنت حیی   کو بطور  اسیران جنگ کے مسلمانوں نے اپنی تحویل میں لیا۔ 12  ایک دوسری روایت کے مطابق آپ
 کو بطور  اسیران جنگ کے مسلمانوں نے اپنی تحویل میں لیا۔ 12  ایک دوسری روایت کے مطابق آپ   خیبر کے علاقہ شق میں واقعہ قلعہ نزار سے  بطور جنگی قیدی کے  مسلمان فوج کے ہاتھ آئیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی  کہ یہودیوں نے  خیبر کے علاقہ   شق میں واقع  اس قلعہ میں  اپنے دوسرے قلعوں کے مسلمانوں کے  ہاتھوں  فتح ہوجانے کے بعد اپنی شکست کے خوف سے اپنے بچوں اور خواتین کو اس قلعہ میں منتقل کردیا تھا۔ 13  بحیثیت جنگی اسیر کے حضرت صفیہ
 خیبر کے علاقہ شق میں واقعہ قلعہ نزار سے  بطور جنگی قیدی کے  مسلمان فوج کے ہاتھ آئیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی  کہ یہودیوں نے  خیبر کے علاقہ   شق میں واقع  اس قلعہ میں  اپنے دوسرے قلعوں کے مسلمانوں کے  ہاتھوں  فتح ہوجانے کے بعد اپنی شکست کے خوف سے اپنے بچوں اور خواتین کو اس قلعہ میں منتقل کردیا تھا۔ 13  بحیثیت جنگی اسیر کے حضرت صفیہ   کو ابتدا میں حضرت دحیہ کلبی
 کو ابتدا میں حضرت دحیہ کلبی    کے حوالہ کردیا گیا تھا   لیکن  جب آپ
 کے حوالہ کردیا گیا تھا   لیکن  جب آپ  کو حضرت صفیہ
   کو حضرت صفیہ   کے بارے میں بتایا گیا  کہ وہ  بنو قریظہ اور بنو نضیر   قبیلہ کے حکمران خاندان کی  نہایت  معزز ومحترم خاتون ہیں  جو اپنے خاندانی نسب کے لحاظ سے بھی  حضرت ہارون
 کے بارے میں بتایا گیا  کہ وہ  بنو قریظہ اور بنو نضیر   قبیلہ کے حکمران خاندان کی  نہایت  معزز ومحترم خاتون ہیں  جو اپنے خاندانی نسب کے لحاظ سے بھی  حضرت ہارون    کی اولاد میں سے ہیں توآپ
 کی اولاد میں سے ہیں توآپ  نے ان کی عزت اور تعظیم میں حضرت دحیہ
   نے ان کی عزت اور تعظیم میں حضرت دحیہ    کو حضرت صفیہ
 کو حضرت صفیہ    کے عوض   مالی  بدل دے کر  حاصل کیا  اور حضرت دحیہ
 کے عوض   مالی  بدل دے کر  حاصل کیا  اور حضرت دحیہ  کو  مزید اس بات کی اجازت دی کہ وہ اسیران جنگ میں سے جس خاتون کو چاہیں اپنے لیے بطور باندی پسند کرسکتے ہیں۔ آپ
  کو  مزید اس بات کی اجازت دی کہ وہ اسیران جنگ میں سے جس خاتون کو چاہیں اپنے لیے بطور باندی پسند کرسکتے ہیں۔ آپ  نے حضرت صفیہ
   نے حضرت صفیہ     کو اپنی ماتحتی میں لینے کے بعد  انہیں  سب سے پہلے غلامی سے آزاد فرمایا  اور پھر  آپ
 کو اپنی ماتحتی میں لینے کے بعد  انہیں  سب سے پہلے غلامی سے آزاد فرمایا  اور پھر  آپ    سے نکاح فرمالیا۔ 14
 سے نکاح فرمالیا۔ 14
آپ  نے حضرت صفیہ
  نے حضرت صفیہ    اور آپ
 اور آپ   کی عزیزہ   کو حضرت بلال
 کی عزیزہ   کو حضرت بلال    کی معیت میں نکاح کے بعد  مدینہ منورہ روانہ کیا۔ حضرت بلال
 کی معیت میں نکاح کے بعد  مدینہ منورہ روانہ کیا۔ حضرت بلال    نے واپسی کےلیے اس راستہ کا انتخاب کیاجس پر   معرکہ خیبر کے نتیجہ میں حضرت صفیہ
 نے واپسی کےلیے اس راستہ کا انتخاب کیاجس پر   معرکہ خیبر کے نتیجہ میں حضرت صفیہ     کے عزیز واقارب کی لاشیں زمین پر بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ اس موقع پر حضرت صفیہ
 کے عزیز واقارب کی لاشیں زمین پر بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ اس موقع پر حضرت صفیہ    خاموش رہیں جبکہ   آپ
 خاموش رہیں جبکہ   آپ    کی  نو عمر عزیزہ یہ منظر دیکھ کر ضبط کے بندھن کو روک  نہ پائیں اور  دھاڑیں مار مار کر   رونے لگیں۔ وہ شدت غم سے  اس قدر  مغلوب ہوئیں  کہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو زمین پر بکھرے ہوئے دیکھ کر اپنے چہر ے پر مٹی ملنے لگیں۔ جب آپ
 کی  نو عمر عزیزہ یہ منظر دیکھ کر ضبط کے بندھن کو روک  نہ پائیں اور  دھاڑیں مار مار کر   رونے لگیں۔ وہ شدت غم سے  اس قدر  مغلوب ہوئیں  کہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو زمین پر بکھرے ہوئے دیکھ کر اپنے چہر ے پر مٹی ملنے لگیں۔ جب آپ  کو حضرت بلال
   کو حضرت بلال     کا علم ہوا تو آپ
 کا علم ہوا تو آپ  نے اس کو سخت نہ پسند فرمایا اور  حضرت بلال
   نے اس کو سخت نہ پسند فرمایا اور  حضرت بلال    کی اس عمل پر  سخت سرزنش فرمائی اور حضرت صفیہ
 کی اس عمل پر  سخت سرزنش فرمائی اور حضرت صفیہ   کی عزیزہ  کو تسلی دی اور  اس کے غم کو دور کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ 15
 کی عزیزہ  کو تسلی دی اور  اس کے غم کو دور کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ 15
دوسری روایت کے مطابق   جب حضرت صفیہ     کو جنگ کے بعدآپ
 کو جنگ کے بعدآپ   کے  سامنے پیش کیا گیا تو آپ
  کے  سامنے پیش کیا گیا تو آپ    نے    اپنے صحابہ
  نے    اپنے صحابہ     کو انہیں خیمہ میں لے جانے کا حکم دیا۔ جب آپ
 کو انہیں خیمہ میں لے جانے کا حکم دیا۔ جب آپ   ان سے ملنے خیمہ میں تشریف لائےتو حضرت صفیہ
  ان سے ملنے خیمہ میں تشریف لائےتو حضرت صفیہ     نے آپ
 نے آپ   کے لیے  گدا بچھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئیں۔ ان کے ادب اور معاملات کو دیکھتے ہوئے آپ
  کے لیے  گدا بچھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئیں۔ ان کے ادب اور معاملات کو دیکھتے ہوئے آپ   نے ان کے سامنے دو باتیں رکھیں۔  پہلی بات یہ تھی کہ اگر وہ اپنے قبیلہ اور لوگوں میں واپس جانا چاہیں تو جا سکتی ہیں اور دوسرا اختیار یہ تھا کہ وہ اسلام قبول کرکےآپ
   نے ان کے سامنے دو باتیں رکھیں۔  پہلی بات یہ تھی کہ اگر وہ اپنے قبیلہ اور لوگوں میں واپس جانا چاہیں تو جا سکتی ہیں اور دوسرا اختیار یہ تھا کہ وہ اسلام قبول کرکےآپ   سے نکاح فرما کر زوجیت کے شرف سے مشرف ہوجائیں۔  حضرت صفیہ
   سے نکاح فرما کر زوجیت کے شرف سے مشرف ہوجائیں۔  حضرت صفیہ    نے اس موقع پر اسلام قبول کرنے کو پسند فرمایا کیوں کہ وہ اپنی نوجوانی کی عمر سے ہی اسلام کو پسند کرتی تھیں اور اپنی مرضی اور رغبت سےآپ
 نے اس موقع پر اسلام قبول کرنے کو پسند فرمایا کیوں کہ وہ اپنی نوجوانی کی عمر سے ہی اسلام کو پسند کرتی تھیں اور اپنی مرضی اور رغبت سےآپ   کے ساتھ نکاح  فرمایا اور ام المؤمنین بننے کے شرف سے مزین ہوئیں۔   16
  کے ساتھ نکاح  فرمایا اور ام المؤمنین بننے کے شرف سے مزین ہوئیں۔   16
 کاحضرت صفیہ
  کاحضرت صفیہ   سے نکاح
 سے نکاحآپ  نے حضرت صفیہ
  نے حضرت صفیہ   سے خیبر میں نکاح فرمایا  اور آپ
 سے خیبر میں نکاح فرمایا  اور آپ   کی آزادی کو  آپ
 کی آزادی کو  آپ   کےلیے مہرقرار دیا۔ 17 حضرت صفیہ
 کےلیے مہرقرار دیا۔ 17 حضرت صفیہ    کی عمر نکاح کے وقت17 برس تھی۔ 18 جس وقت حضرت صفیہ
 کی عمر نکاح کے وقت17 برس تھی۔ 18 جس وقت حضرت صفیہ    کا آپ
 کا آپ  کے ساتھ نکاح ہوا اس وقت آپ
  کے ساتھ نکاح ہوا اس وقت آپ   کی آنکھ کے نیچے ایک زخم تھا۔ آپ
کی آنکھ کے نیچے ایک زخم تھا۔ آپ نے جب حضرت صفیہ
  نے جب حضرت صفیہ    سے اس زخم کے بارے میں دریافت فرمایا  تو انہوں نے  اس کے جواب میں  یہ تفصیل بیان کی کہ  انہیں ان کے سابقہ شوہر نے  اُس وقت  مارا جب انہوں نے اپنا خواب اس سے بیان کیا۔ وہ خواب  یہ تھاکہ انہوں نے  بدر ِکامل(چودہویں کے چاند) کو یثرب سے نکلتے اور ابھرتے ہوئے دیکھا  جو بعد میں آپ
 سے اس زخم کے بارے میں دریافت فرمایا  تو انہوں نے  اس کے جواب میں  یہ تفصیل بیان کی کہ  انہیں ان کے سابقہ شوہر نے  اُس وقت  مارا جب انہوں نے اپنا خواب اس سے بیان کیا۔ وہ خواب  یہ تھاکہ انہوں نے  بدر ِکامل(چودہویں کے چاند) کو یثرب سے نکلتے اور ابھرتے ہوئے دیکھا  جو بعد میں آپ   کی گود میں   آگرا۔ حضرت صفیہ
 کی گود میں   آگرا۔ حضرت صفیہ    کے سابقہ شوہر نے  جب ان سے یہ خواب سنا  تو وہ کہنے لگا  کہ اس کا مطلب یہ ہے  کہ تم  یثرب کے اس بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہو  جو ہم سے مسلسل حالت جنگ میں ہے چنانچہ  اس بد بخت نے آپ
 کے سابقہ شوہر نے  جب ان سے یہ خواب سنا  تو وہ کہنے لگا  کہ اس کا مطلب یہ ہے  کہ تم  یثرب کے اس بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہو  جو ہم سے مسلسل حالت جنگ میں ہے چنانچہ  اس بد بخت نے آپ    کے چہرے پر ایک زور دار ضرب لگائی جس سے آپ
 کے چہرے پر ایک زور دار ضرب لگائی جس سے آپ   کی آنکھ کے نیچے  زخم پیدا ہوگیا  جو بعد میں نیلا پڑ گیا تھا اور آپ
 کی آنکھ کے نیچے  زخم پیدا ہوگیا  جو بعد میں نیلا پڑ گیا تھا اور آپ    کے چہرہ پر واضح نظر آتا تھا۔ 19
 کے چہرہ پر واضح نظر آتا تھا۔ 19
نکاح کے بعد مدینہ پہنچتے پہنچتے آپ  کو تین دن لگے جہاں اس نکاح کےلیے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا گیا  جس میں  ستو اور کھجور مہمانوں کو پیش کی گئی۔ 20 ابن ہشام کے مطابق مہمانوں کی ضیافت  ”الحیس“ کھانے سے کی گئی جو کھجور، گندم کے ستو اور گھی کو ملا کر  بنایا گیا تھا۔ 21 ابن سعد کے مطابق  اس دعوت میں  مہمانوں کی ضیافت کےلیے ”حریرہ“ پیش کیا گیا جو   پنیر،کھجور اور دودھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ 22 حضرت صفیہ
 کو تین دن لگے جہاں اس نکاح کےلیے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا گیا  جس میں  ستو اور کھجور مہمانوں کو پیش کی گئی۔ 20 ابن ہشام کے مطابق مہمانوں کی ضیافت  ”الحیس“ کھانے سے کی گئی جو کھجور، گندم کے ستو اور گھی کو ملا کر  بنایا گیا تھا۔ 21 ابن سعد کے مطابق  اس دعوت میں  مہمانوں کی ضیافت کےلیے ”حریرہ“ پیش کیا گیا جو   پنیر،کھجور اور دودھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ 22 حضرت صفیہ     کیونکہ بے انتہا خوبصورت تھیں  اور آپ
 کیونکہ بے انتہا خوبصورت تھیں  اور آپ    کے حسن و جمال کے چرچےانصاری خواتین میں عام تھے اس لئےجب آپ
 کے حسن و جمال کے چرچےانصاری خواتین میں عام تھے اس لئےجب آپ    کی آمدکی خبر مدینہ میں عام ہوئی تو  وہاں کی خواتین آپ
 کی آمدکی خبر مدینہ میں عام ہوئی تو  وہاں کی خواتین آپ    کودیکھنے کےلیے جمع ہوگئیں 23 جبکہ آپ
 کودیکھنے کےلیے جمع ہوگئیں 23 جبکہ آپ    کواس وقت  حضرت حارثہ بن نعمان
 کواس وقت  حضرت حارثہ بن نعمان   کے گھر ٹھہرایا گیا تھا۔ 24
 کے گھر ٹھہرایا گیا تھا۔ 24
حضرت صفیہ    آپ
 آپ  سے بے پناہ محبت کیا  کرتی تھیں جس کا اظہار   وہ گاہے بگاہے اپنی زبان سے بھی کیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ
  سے بے پناہ محبت کیا  کرتی تھیں جس کا اظہار   وہ گاہے بگاہے اپنی زبان سے بھی کیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ  بیمار ہوئے  تو آپ
   بیمار ہوئے  تو آپ  کی جمیع ازواج
  کی جمیع ازواج  آپ
 آپ  کے گرد جمع تھیں۔ اسی دوران  حضرت صفیہ
 کے گرد جمع تھیں۔ اسی دوران  حضرت صفیہ    تشریف لے آئیں اور اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں فرمانے لگیں :
 تشریف لے آئیں اور اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں فرمانے لگیں :
إني واللّٰه يا نبي اللّٰه لوددت أن الذي بك بي. 25
(اے اللہ کے رسول!) میری خواہش ہے کہ اس وقت جو تکلیف آپ
کو لاحق ہے یہ آپ
کے بجائے مجھے لاحق ہوجائے۔
 کا اخلاق وکردار
 کا اخلاق وکردارحضرت صفیہ    نہایت عقل مند پاکباز، صابرہ اور شاکرہ خاتون تھیں جو  نہایت سخت حالات اور مشکلات میں  گھرے ہوئے ہونے کے باوجود  زبان سے کبھی شکو ہ کناں نہیں ہوتی تھیں۔  26 آپ
 نہایت عقل مند پاکباز، صابرہ اور شاکرہ خاتون تھیں جو  نہایت سخت حالات اور مشکلات میں  گھرے ہوئے ہونے کے باوجود  زبان سے کبھی شکو ہ کناں نہیں ہوتی تھیں۔  26 آپ     نہایت رحم دل ہونے کی وجہ سے  دوسروں کی غلطیوں پر انہیں معاف فرمادیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ  آپ
 نہایت رحم دل ہونے کی وجہ سے  دوسروں کی غلطیوں پر انہیں معاف فرمادیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ  آپ    کی خادمہ نے  خلیفہ  وقت حضرت عمر فاروق
 کی خادمہ نے  خلیفہ  وقت حضرت عمر فاروق     کو جا کر آپ
 کو جا کر آپ   کے بارے میں   غلط شکایت کی جسےا بن حجر العسقلانی
 کے بارے میں   غلط شکایت کی جسےا بن حجر العسقلانی نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:
 نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:
أن جارية لها أتت عمر فقالت : إن صفية تحب السبت وتصل اليهود، فبعث إليها فسألها عن ذلك، فقالت: أما السبت فإني لم أحبه منذ أبدلني اللّٰه به الجمعة، وأما اليهود فإن لي فيهم رحما، فأنا أصلها، ثم قالت للجارية: ما حملك على هذا؟ قالت: الشيطان. قالت: اذهبي، فأنت حرة. 27
ان (حضرت صفیہ) کی خادمہ خلیفہ وقت حضرت عمر
کے پاس آئیں اور کہا: صفیہ (
) کو آج بھی یوم السبت (ہفتہ کے دن ) سے محبت ہے اور اب بھی آپ
کا بہت قریبی تعلق یہودیوں کے ساتھ ہے ۔حضرت عمر
نے حضر ت صفیہ
سے اس شکایت کی صداقت کے بارے میں جاننے کےلیے آپ
کے پاس پیغام بھیجوایا ،حضرت صفیہ
نے جواب میں ارشاد فرما یا کہ میں اب یوم السبت کو اس لیے ناپسند کرتی ہوں کہ اللہ تعالی نے اس کے مقابلہ میں مجھے کہیں بہتر دن یعنی یوم الجمعہ عطا فرمایا ہے جب کہ اپنے یہودی عزیز واقارب سے ملاقات کے حوالہ سے میں یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ میرے سارے رشتہ دار یہودی الاصل ہیں (لہذا ان سے میری ملاقات یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ہے)۔ اس کے بعد حضرت صفیہ
نے اپنی اس خادمہ سے پوچھا کہ تجھے میرے بارے میں اس بدگمانی اور شکایت پر کس چیز نے اکسایا؟ خادمہ نے جواب دیا کہ شیطان نے۔ آپ
نے (اسےسزا دینے کے بجائے ) فرمایا :جاؤ، تم آزاد ہو۔
آپ     نہایت سخی  وفیاض خاتون تھیں۔ آپ
 نہایت سخی  وفیاض خاتون تھیں۔ آپ   اپنی شادی کے بعد  جب مدینہ تشریف لائیں  توتحفہ کے طور پر  آپ
 اپنی شادی کے بعد  جب مدینہ تشریف لائیں  توتحفہ کے طور پر  آپ    نے سونے کی بالیاں حضرت فاطمہ
 نے سونے کی بالیاں حضرت فاطمہ   اور آپ
 اور آپ  کی جمیع ازواج مطہرات
  کی جمیع ازواج مطہرات   کو   پیش فرمائیں۔آپ
 کو   پیش فرمائیں۔آپ   نے اپنے سابقہ  گھرکو فروخت  کرکے اس کی تہائی رقم اپنے یہودی بھانجے  جبکہ بقایا دو تہائی اہل مدینہ کے لیے صدقہ کردی۔ 28  آپ
 نے اپنے سابقہ  گھرکو فروخت  کرکے اس کی تہائی رقم اپنے یہودی بھانجے  جبکہ بقایا دو تہائی اہل مدینہ کے لیے صدقہ کردی۔ 28  آپ  کے دنیا سےظاہری پردہ فرماجانے کے بعد آپ
  کے دنیا سےظاہری پردہ فرماجانے کے بعد آپ   ہمیشہ حضور
 ہمیشہ حضور  کی شفقتوں اور عنایتوں کا تذکرہ کیا کرتی تھیں۔ آپ
  کی شفقتوں اور عنایتوں کا تذکرہ کیا کرتی تھیں۔ آپ    نے  حضور
 نے  حضور  کے  وصال کے بعد  اپنی باقی ماندہ زندگی  اللہ تعالی کے  ذکر وعبادت میں بسر کی۔  البتہ ہمیشہ آپ
  کے  وصال کے بعد  اپنی باقی ماندہ زندگی  اللہ تعالی کے  ذکر وعبادت میں بسر کی۔  البتہ ہمیشہ آپ    کی یہ خواہش رہی کے آپ
 کی یہ خواہش رہی کے آپ   کے ساتھ اہل ایمان کا رویہ اور برتاؤ ویسا ہی رہے جیسے دوسری ازواج مطہرات
 کے ساتھ اہل ایمان کا رویہ اور برتاؤ ویسا ہی رہے جیسے دوسری ازواج مطہرات  کے ساتھ  ان کا تھا۔ اس حوالہ سے کتب سیرت میں یہ واقعہ بھی  نقل کیا گیا ہے کہ مسلمان فوج نے دشمن کے  علاقے فتح کرنے کے بعد جو مال غنیمت حاصل کیا اس میں سے  حضرت عمر
 کے ساتھ  ان کا تھا۔ اس حوالہ سے کتب سیرت میں یہ واقعہ بھی  نقل کیا گیا ہے کہ مسلمان فوج نے دشمن کے  علاقے فتح کرنے کے بعد جو مال غنیمت حاصل کیا اس میں سے  حضرت عمر    نے حضرت جویریہ
 نے حضرت جویریہ   اور حضرت صفیہ
 اور حضرت صفیہ   کے علاوہ   تمام ازواج مطہرات
 کے علاوہ   تمام ازواج مطہرات  کے لیے  بارہ  ہزار(12000)دراہم  کا وظیفہ  متعین فرمایا   جبکہ ان دونوں ازواج مطہرات کو بارہ ہزار(12000) کے بجائے فی کس چھ ہزار (6000)دراہم دئے جس پر انہوں نے شدید اعتراض کرتے ہوئے اس وظیفہ کو لینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر
 کے لیے  بارہ  ہزار(12000)دراہم  کا وظیفہ  متعین فرمایا   جبکہ ان دونوں ازواج مطہرات کو بارہ ہزار(12000) کے بجائے فی کس چھ ہزار (6000)دراہم دئے جس پر انہوں نے شدید اعتراض کرتے ہوئے اس وظیفہ کو لینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر    نے یہ کہہ  کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ باقی ازواج مطہرات
 نے یہ کہہ  کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ باقی ازواج مطہرات   کو زیادہ وظیفہ دینے کا سبب ان کا مہاجر ہونا ہے لیکن حضرت جویریہ
 کو زیادہ وظیفہ دینے کا سبب ان کا مہاجر ہونا ہے لیکن حضرت جویریہ   اور حضرت صفیہ
 اور حضرت صفیہ    نے فرمایا کہ انہیں  یہ رقم ان کے آپ
 نے فرمایا کہ انہیں  یہ رقم ان کے آپ  کے ساتھ  ازدواجی رشتے سے منسلک ہونے کی وجہ سے دی گئی ہےلہذا  ہمارا بھی آپ
  کے ساتھ  ازدواجی رشتے سے منسلک ہونے کی وجہ سے دی گئی ہےلہذا  ہمارا بھی آپ  کے ساتھ اصل تعلق ان کی  شریک حیات ہونے کا ہے  چنانچہ حضرت عمر
  کے ساتھ اصل تعلق ان کی  شریک حیات ہونے کا ہے  چنانچہ حضرت عمر    کی پیش کردہ توضیح کو قبول فرماتے ہوئے ان کےلیے بھی بارہ ہزار (12000) دراہم کا وظیفہ مقرر فرمایا۔ 29
 کی پیش کردہ توضیح کو قبول فرماتے ہوئے ان کےلیے بھی بارہ ہزار (12000) دراہم کا وظیفہ مقرر فرمایا۔ 29
 کے محاصرہ کے دوران آپ
 کے محاصرہ کے دوران آپ      کا کردار
 کا کردارحضرت صفیہ    نے  حضرت عثمان
 نے  حضرت عثمان    کے دور خلافت میں پیدا ہونے والے شدیدسیاسی بحران  کو ختم کرنے اور بغاوت کو  فروکرنے کےلیے  اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ آپ
 کے دور خلافت میں پیدا ہونے والے شدیدسیاسی بحران  کو ختم کرنے اور بغاوت کو  فروکرنے کےلیے  اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ آپ    نے حضرت عثمان
 نے حضرت عثمان    کے محاصرہ کے دوران  ان تک  اپنے خچر پر بیٹھ کر جانے اورپہنچنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی لیکن اشتر نے بزور آپ
 کے محاصرہ کے دوران  ان تک  اپنے خچر پر بیٹھ کر جانے اورپہنچنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی لیکن اشتر نے بزور آپ    کو اس بات پر مجبور کیا  کہ آپ
 کو اس بات پر مجبور کیا  کہ آپ    واپس لوٹ کرچلی جائیں۔  3031اس کے بعد  آپ
 واپس لوٹ کرچلی جائیں۔  3031اس کے بعد  آپ    نے اپنے اور حضرت عثمان
 نے اپنے اور حضرت عثمان    کے گھر کے مابین لکڑی  کا ایک  نالہ بنا کر کوشش کی کہ کسی طریقہ سے آپ
 کے گھر کے مابین لکڑی  کا ایک  نالہ بنا کر کوشش کی کہ کسی طریقہ سے آپ   حضرت عثمان
 حضرت عثمان    اور ان کے اہل خانہ کو پانی اور خوراک پہنچا سکیں۔  32 آپ
 اور ان کے اہل خانہ کو پانی اور خوراک پہنچا سکیں۔  32 آپ   حضرت عثمان
 حضرت عثمان          کی شہاد ت سے قبل ان کی ہر ممکن مدد ومعاونت کی مسلسل کوشش کرتی رہیں جس کی وجہ سے انہیں کئی بار تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
 کی شہاد ت سے قبل ان کی ہر ممکن مدد ومعاونت کی مسلسل کوشش کرتی رہیں جس کی وجہ سے انہیں کئی بار تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
آپ    کا وصال 52 ہجری میں حضرت امیر معاویہ
 کا وصال 52 ہجری میں حضرت امیر معاویہ    کے دور حکومت میں ہوا۔ 33 آپ
 کے دور حکومت میں ہوا۔ 33 آپ   کی نماز جنازہ حضر ت سعید بن عاص
 کی نماز جنازہ حضر ت سعید بن عاص    نے پڑھا ئی34 اور آپ
 نے پڑھا ئی34 اور آپ   کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔ آپ
 کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔ آپ   کا نام کتب احادیث میں بھی   مذکور ہے کیوں کہ   آپ
 کا نام کتب احادیث میں بھی   مذکور ہے کیوں کہ   آپ   نے حضور
 نے حضور  سے دس احادیث کو روایت کیا ہے۔ 35
  سے دس احادیث کو روایت کیا ہے۔ 35