encyclopedia

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها

Published on: 08-Apr-2025
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنهااسم گرامی:عائشہ بنت ابی بکر (رضى الله عنها)پیدائیش:613 عیسویمقام پیدائیش:مکہ مکرمہوصال:17 رمضان المبارک 678 عیسوی (58 ہجری)عمر مبارک:تقریباً 65 برسوالد گرامی:خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہوالدہ:ام رومان رضی اللہ عنھاشوہر:خاتم النبیین حضرت محمد ﷺالقابات:ام المؤمنین; الصدیقہ; حبیبہقبیلہ:قریش (بنو تمیم)قبر مبارک:جنت البقیعنمایاں خصوصیات:نبی اکرم ﷺ کی واحد بن بیاہی زوجہآپ رضی اللہ عنھا نے 2210 احادیث روایت کی ہیں جو اسلامی علم کا بڑا ذریعہ ہے
LanguagesEnglishالعربىةEspanolDanish

اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ بنت ابو بکر Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ازواج مطہرات میں سے واحد غیر شادی شدہ خاتون تھیں۔ 1آپ Radi Allah Anha کی ولادت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان نبوت سے قبل دور جاہلیت میں ہوئی۔ 2آپ Radi Allah Anha کو کئی القابا ت سے نوازا گیا جن میں سے "صدّیقہ بنت صدّیق"یعنی "سچے شخص کی سچی صاحبزادی"مشہور ہے۔ 3آ پ Radi Allah Anha کی کنیت اُمّ عبداللہ تھی حالانکہ آپ Radi Allah Anha بے اولاد تھیں۔ 4آپRadi Allah Anha کا مقام ومرتبہ تمام ازواج مطہرات میں حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے بعد سب سے بلند وبالا ہے۔ 5

نسب

آپ Radi Allah Anha کا پورا نام بمع سلسلہ نسب عائشہ بنت ابی بکر Radi Allah Anha بن ابی قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرۃ بن کعب بن لوئی تھا۔ 6آپ کی والدہ ماجدہ کا نام امّ رومان بن عامر 7 بن عویمر بن عبد الشمس بن عتاب بن اُذینہ بن سُبَیع بن دُھمان بن الحارث بن غنم بن مالک بن کنانہ الکنانیہ تھا۔ 8

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے ساتھ منگنی

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے وصالِ پُرملال کے بعد خولہ بنت حکیم Radi Allah Anha نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عائشہ Radi Allah Anha یا سودہ بنت زمعہ Radi Allah Anha کے ساتھ نکاح کرلینا چاہیے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے حضرت خولہ بنت حکیم Radi Allah Anha کے ذریعے حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho کے پاس ان کی صاحبزادی حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے رشتہ کےلیے بھیجا۔ حضرت خولہ Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا پیغام لے کر حضرت ابوبکرصدیق Radi Allah Anho کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ Radi Allah Anhoنے فرمایا کہ وہ پہلے ہی حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے رشتہ کی بات جبیرابن مطعم سے پکی کر چکے ہیں ، جو اب تک اسلام نہیں لائے تھے۔ اس کے باجود حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anho جبیر کے والد مطعم کے گھر تشریف لے گئے اور ان کی اہلیہ سے ملاقات کی جس نے آپ Radi Allah Anho کو اپنے اس فیصلہ سے آگاہ کیا کہ وہ کسی صورت اپنے بیٹے کو اس بات کی اجازت نہیں دےگی کہ وہ عائشہ Radi Allah Anha سے شادی کے بعد کے دین اسلام کو قبول کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho اس موقع پر اس خاتون کو جواب دینے کے بجائے مطعم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے اس کی بیوی کی کہی ہوئی بات کے بارے میں دریافت کیا ۔مطعم نے حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anho کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ انہوں نے اس کی بیوی سے سنا ہے خود اس کا مؤقف بھی یہی ہے۔ 9حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho نے اس انکار کو اللہ کی طرف سے نشانی جانا کیوں کہ اب ایسی صورت میں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اپنی صاحبزادی کا نکاح جبیر سے کریں لہذا آپ Radi Allah Anho کےلیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف سے اپنی صاحبزادی کے لیے آئے ہوئےرشتہ کی پیشکش کو قبول کرنا آسان ہوگیا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anho مطعم کے گھر سے واپس لوٹے اور حضرت خولہ Radi Allah Anha کو یہ خوشخبری سنائی کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ان کی صاحبزادی کے رشتہ کی بات پکی کرلیں۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ Radi Allah Anha کی منگنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ انعقاد پذیر ہوگئی۔ 10

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کےنکاح کی وجہ

حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نکاح کا سبب یہ حقیقت تھی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے خواب میں اس نکاح سے متعلق واضح علامات دیکھیں تھیں۔ 11ابن اثیرRehmatullah Alaih فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے وصال کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک خواب دکھایا گیا 12جسے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس طرح بیان فرمایا :

أريتك فى المنام مرتين، أرى أن رجلا يحملك فى سرقة حرير فيقول: هذا امرأتك فأكشف فأراك فأقول إن كان هذا من عند اللّٰه يمضه. 13
میں (محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam )نے آپ (حضرت عائشہ Radi Allah Anha ) کو اپنے خواب میں دو مرتبہ (نکاح سے قبل) دیکھا ہے۔ پہلی مرتبہ ایک شخص(فرشتہ) آپ Radi Allah Anha کی تصویر ریشم کے ایک ٹکڑے پر لے کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کی ہونے والی زوجہ (محترمہ) ہے۔ میں نے آپ Radi Allah Anha کی تصویر کو دیکھ کر کہا اگر اللہ کی یہی منشا ومرضی ہے تو یہ معاملہ انعقاد پذیر ہوکر رہے گا ۔

دوسری روایت خود حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی ہے جس میں آپ Radi Allah Anha فرماتی ہیں:

ما تزوجنى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم حتى أتاه جبريل بصورتى وقال:هذه زوجتك. 14
اللہ کے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مجھ سے اس وقت تک نکاح نہیں فرمایا جب تک جبریل Alaihis Salam نے میری تصویر انہیں دکھا کر یہ نہیں فرما دیا تھا کہ یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زوجہ (محترمہ) ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ حضرت خولہ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے جب حضرت عائشہ Radi Allah Anha کا نام رشتہ کےلیے لیا تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam فورا اس پر راضی ہوگئے۔ مشرکین مکہ جو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر طعن وتشنیع کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے انہوں نے بھی اس موقع پر حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی منگنی پر لب کشائی کی جرأت نہیں کی بلکہ اسے عرب رسم ورواج کے طور پر کھلے دل سے قبول کرلیا ۔

نکاح کے وقت حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر

منگنی کے وقت حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ Radi Allah Anha اس وقت 6 برس کی تھیں جبکہ نکاح کے وقت 9 سال تھی۔ 15 اس حوالہ سے بنیادی ماخذ جس سے تمام مورخین، سوانح نگار، مستشرقین اور علمائے اسلام حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر کے بارے میں استنباط کرتے ہیں وہ مجموعی طور پروہ 10 روایات ہیں جنہیں امام بخاری، امام مسلم اور امام ابوداؤدRehmatullah Alaih نےاپنی کتب احادیث میں نقل کیا ہے۔ یہ مرویات اگر چہ کہ دوسری کتب احادیث اور تاریخ میں بھی موجود ہیں لیکن صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور سنن ابی داؤد ہی کو ان تمام کےلیے بنیادی مآخذ اور مرجع سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اگر محققین ان دلائل کا تجزیہ کریں جو ان کتب میں مذکور ہیں اور امام بخاری Rehmatullah Alaih اور امام مسلم Rehmatullah Alaih کی مرویات کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کریں اور اس وقت کےمعروضی حالات وواقعات کاجائزہ لیں تو حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر کے حوالہ سے حقیقت حال بالکل واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے۔

راویان احادیث کا تحلیل وتجزیہ

حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر کے حوالہ سے امام بخاری Rehmatullah Alaih نے 5 روایات کواپنی کتاب صحیح بخاری میں جمع کیاہے 1617181920جبکہ امام مسلم Rehmatullah Alaih نے اس حوالہ سے 4 روایات اپنی کتاب صحیح مسلم میں لی ہیں۔ 21222324امام ابو داؤد Rehmatullah Alaihنے بھی اپنی کتاب سنن ابن ابی داؤد میں اس حوالے سےایک روایت رقم کی ہے۔ 25بظاہر یہ 10 مختلف روایات نظر آتی اور شمار ہوتی ہیں تاہم امام بخاری Rehmatullah Alaih کی پانچ مرویات، امام مسلم Rehmatullah Alaih کی 2 مرویات اور امام ابوداودRehmatullah Alaih کی روایت کردہ ایک روایت کا راوی ایک ہی ہے جس کا نام ہشام ہے جو اپنی روایت کو عروہ سے اور وہ اپنی روایت کو حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے نقل کرتے ہیں۔ امام مسلم Rehmatullah Alaih کی بیان کردہ بقیہ2 روایات میں سے ایک کے راوی زہری ہیں جو اسے عروہ سے روایت کرتے ہیں اور عروہ اس روایت کو حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے بیان کرتےہیں جبکہ امام مسلم Rehmatullah Alaih کی روایت کردہ دوسری روایت کے راوی ابراہیم ہیں جنہوں نے اس روایت کی سماعت اسود سے کی اور اسود نے اس روایت کو حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے سماعت کیا ہے۔ اس طرح یہ 10 روایات اپنی حقیقت کے اعتبار سے محض 3 مرویات ہیں۔

ہشام اور اس سے مروی روایات کی علمی حیثیت

حضرت ہشام Radi Allah Anho کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ عروہ کے بیٹے تھے جو حضرت زبیر Radi Allah Anho کے صاحبزادے تھے اور حضرت زبیر Radi Allah Anho حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے بھانجے تھے۔ ہشام کی ولادت 61 ہجری میں ہوئی 26 اور انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی مدینہ منورہ میں بسر کی جہاں تحصیلِ علمِ حدیث کے بعد وہ علم الحدیث کے عالم بن گئے۔ 27ان کی مرویات، حدیث کی کم وبیش تمام کتب میں نقل کی گئی ہیں۔ تاہم بعد میں جب انہوں نے عراق کی طرف سفر کرنا شروع کیا تو وہ اپنی مرویات میں تدلیس یعنی حدیث کے علم میں ایک راوی کو چھپا کر دوسرے راوی کی طرف حدیث منسوب کرنےکا شکار ہوگئے،جیسا کہ امام ذہبی Rehmatullah Alaih یعقوب ابن شیبہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

وقال عبد الرحمن بن خراش: بلغني أن مالكانقم على هشام بن عروة حديثه لأهل العراق، وكان لا يرضاه ثم قال قدم الكوفة ثلاث مرات قدمة كان يقول فيھا حدثنى أبى قال سمعت عائشة، والثانية فكان يقول أخبرنى أبى، عن عائشة، وقدم الثالثة فكان يقول أبى، عن عائشة يرسل، عن ابيه.28
عبد الرّحمٰن بن خراش بیان کرتے ہیں کہ مجھے مالک سے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ ہشام بن عروہ کے اہل عراق سے حدیث کی روایت سے خوش نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہشام کوفہ (عراق) تین مرتبہ گئے تھے۔ جب وہ پہلی مرتبہ لوٹ کر آئے تو ان کے بیان کرنے کا انداز اس طرح تھا کہ میں روایت کرتا ہوں اپنے والد سے جو فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ Radi Allah Anhaسے سنا۔ دوسری مرتبہ انہوں نے اس طرح روایت کیا: میرے والد نے مجھے آگاہ کیا (اس کے بارے میں ) جو انہوں نے حضرت عائشہ Radi Allah Anhaسے روایت کیا ہے۔ تیسری مرتبہ انہوں نے اس طرح کہا : میرے والد نے فرمایا جو وہ روایت کرتے ہیں حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث کی نسبت براہ راست اپنے والد کی طرف کرتے ہیں اور بیچ میں سے دوسرے راویانِ حدیث کو حذف کرڈالتے ہیں۔

اسی طرح امام ذہبی Rehmatullah Alaihسے بھی منقول ہے:

هشام ثبت لم ينكر عليه إلا بعد صار إلى العراق، فانه انسبط فى الرواية وأرسل عن ابيه بنا كان سمعه من غير ابيه عن ابيه. 29
ہشام کی رُوات حدیث کی ثقاہت پر ان کے عراق جانے سے پہلے کسی کو انکار نہیں تھا لیکن وہاں جانے کے بعد انہوں نے بہت ساری روایت کردہ احادیث کی نسبت اپنے والد کی طرف کرڈالی حالانکہ وہ احادیث انہوں نے (اپنے والد سے نہیں بلکہ) دوسرے لوگوں سے سماعت کی تھیں ۔

اس حوالہ سے یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ خود اہل عراق سے حدیث کی روایت کے متعلق حضرت ہشام کا اپنا نظریہ یہ تھا :

قال هشام بن عروة: إذا حدثك العراقى بألف حديث فألق تسعمائة وتسعين وكن من الباقى فى شك. 30
ہشام ابن عروہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی عراقی تمہارے سامنے ایک ہزار احادیث کو روایت کرے تو ان میں سے 990 قبول کیے بغیر مسترد کردو جبکہ باقی ماندہ (10) کے بارے میں مشکوک رہو۔

مذکورہ بالا بحث کے تناظر میں بڑی حیران کن حقیقت سامنے یوں آتی ہے کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر کے حوالہ سے سلسلہ رُواتِ حدیث میں موجود تمام راویان حدیث کا تعلق عراق سے ہے۔ ان احادیث کے راویان میں سے کسی کا بھی تعلق مکہ اور مدینہ سے نہیں ہے۔ 31 یہ بات مزید شکوک وشبہات کو اس لیے جنم دیتی ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حدیث جس میں حضرت عائشہ Radi Allah Anha نے اپنی منگنی اور نکاح کے وقت عمر کو بیان کیا ہو اور اس حدیث کے روات مکہ اور مدینہ کے بجائے عراق سے ہوں یعنی وہ حدیث مکہ اور مدینہ کے بجائے عراق سے روایت کی جارہی ہو۔ اس مسئلہ پر ابن حجر عسقلانی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

هشام بن عروة بن الزبير بن العوام تابعى صغير مشھور ذكره بذالك أبو الحسن القطان وأنكره الذهبى وابن القطان فان الحكاية المشھورة عنه أنه قدم العراق ثلاث مرات ففى الاولى حدث عن أبيه فصرح بسماعه وفى الثانية حدث بالكثير فلم يصرح بالقصة وهى تقتضى انه حدث عنه بما لم يسمعه منه وهذا هو التدليس. 32
ہشام بن عروہ بن زیبر بن عوام کم عمر تابعی تھے جیسا کہ ابو الحسن القطان نے ذکر کیاہے تاہم امام ذہبی اور القطان نے اس بات کی نفی کی ہے۔ ہشام کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ عراق تین مرتبہ گئے ہیں۔ابتداء میں وہ اپنے والد سے نقل کیا کرتے تھے اور پھر وہ کہنے لگے کہ انہوں نے خود اپنے والد سے سنا ہے۔ بعد میں وہ اہل عراق سے بہت ساری احادیث روایت کرتے تھے لیکن وہ مکمل طور پر کبھی یہ تفصیلات نہیں بتاتے تھے کہ انہوں نے کس سے یہ احادیث حاصل کی ہیں۔ ان کا یہ عمل اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ ممکنہ طور پر انہوں نے کئی روایات کو اپنے والد کی طرف منسوب کرڈالا تھا جو انہوں نے اپنے والد سے نہیں سنی تھیں اور یہ عمل حدیث کی اصطلاح میں تدلیس (راوی کا سلسلہ روایت میں کسی راوی کو ترک کرکے دوسرے راوی سے روایت کو بیان کرنا )کہلاتا ہے۔

ایک دوسری جگہ پر ابن حجر عسقلانی Rehmatullah Alaih مزید فرماتے ہیں:

هشام ابن عروة ابن الزبير ابن العوام الأسدى ثقة فقيه ربما دلس من الخامسة. 33
ہشام بن عروہ العوام الاسدی اگر چہ کہ قابل اعتماد فقیہ تھے تاہم سلسلہ رُوات میں پانچویں راوی کے مقام پر انہوں نے روایت میں تدلیس کی ہے۔

البغدادی نقل کرتے ہیں کہ امام مالک Rehmatullah Alaih نے فرمایا :

هشام بن عروة كذاب.34
ہشام بن عروہ جھوٹے تھے۔

امام ذہبی Rehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

حجة إمام، لكن فى الكبر تناقص حفظه، ولم يختلط أبدا، ولا عبرة بما قاله أبو الحسن بن القطان من أنه وسھيل بن أبى صالح اختلطا، وتغيرا. نعم الرجل قليلا ولم يبق حفظه كھو فى حال الشبيبة، فنسى بعض محفوظه أووهم، فكان ماذا! أهو معصوم من النسيان! 35
ہشام بن عروہ اگرچہ کہ مقتدا و پیشوا اور علم الحدیث میں قابل اعتماد تھے لیکن عمر بڑھ جانے کے بعد (بڑھاپے میں) ان کا حافظہ کمزور ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود کبھی انہوں نے چیزوں کو خلط ملط نہیں کیا اور نہ ہی اس بات کی کوئی شہادت ہے کہ انہوں نے احادیث کو باہم ایک دوسرے کے ساتھ ملادیا ہو اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ انہوں نے احادیث میں کوئی تبدیلی کی ہو جیسا کہ ابو الحسن القطان اور سہیل ابن ابی صالح نے روایت کیا ہے۔ تاہم بڑھاپے میں ان کا حافظہ اتنا مضبوط نہ تھا جیسا کہ جوانی میں تھا ۔ بڑھاپے میں وہ چیزوں کو بھول جایا کرتے تھے یا چیزوں کے بارےمیں شک وشبہ کا شکار ہوجایا کرتے تھے چنانچہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ وہ بھول چوک سے محفوظ نہیں تھے۔

مذکورہ بالا تمام روایات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہشام سے حدیث کی روایت میں تدلیس سرزد ہوئی، بعد کی عمر میں ان کا حافظہ کمزور ہوگیا تھا اور انہوں نے کئی احادیث اہل عراق سے روایت کیں جو خود ان کے وضع کردہ اصول کے مطابق ناقابل اعتماد اور ناقابل قبول تھیں۔ اسی طرح یہ بات ایک تاریخی حقیت کے طور پر موجود ہے کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر کے حوالہ سے آٹھ روایات جو ہشام سے مروی ہیں اور جنہیں امام بخار ی ،امام مسلم اور امام ابو داؤد Rehmatullah Alaih نے نقل کیا ہے وہ بھی ناقابل اعتبار اور ناقابل قبول ہیں ۔

بقیہ 2روایات کی علمی حیثیت

دوسری روایت جسے امام مسلم Rehmatullah Alaih نے نقل کیا ہے وہ سلسلۃ الرُوات کے اعتبار سے 6 راویوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک زہری ہیں جو اس حدیث کو عروہ سے روایت کرتے ہیں حالانکہ علم الحدیث کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ زہری نے عروہ سے کوئی چیز روایت کی ہی نہیں ہے۔ 36مزید یہ کہ اس سلسلۃ الرُوات کے دوسرے راوی عبدا لرزاق ہیں جن کے بارے میں کچھ علماء حدیث کی یہ رائے ہے کہ وہ ثقہ اور بااعتماد راوی ہیں تاہم دوسرے اہل علم انہیں ثقہ نہیں سمجھتے بلکہ انہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ۔عباس بن عبد العظیم جو عبدالرزاق کے پاس صنعاء حدیث کے لیے گئے تھے، قسم کھا کر بیان کرتے ہیں:

واللّٰه الذى لا اله الا هو ان عبدالرزاق كذاب. 37
میں اللہ وحدہ لاشریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ عبدالرزاق جھوٹا ہے۔

اما م ذہبی نے بھی اس قول کی تصدیق کی ہے۔ 38اب جب کہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ زہری نے کوئی روایت عروہ سے نہیں کی اور خود حدیث کے راوی عبدالرزاق کی ثقاہت بھی سوالیہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ6 میں سے 2 راویوں کی روایت ہی مشکوک ہوگئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خود یہ روایت بهی قابل اعتماد نہیں ہے۔

اس سلسلہ کی تیسری روایت کو امام مسلمRehmatullah Alaih نے اس طرح نقل کیا ہے:

حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، قالت: تزوجھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علية وسلم وهى بنت ست، وبنى بھا وهى بنت تسع، ومات عنھا وهى بنت ثمان عشرة. 39
ابو معاویہ بیان کرتے ہیں اعمش سے، وہ اسے بیان کرتے ہیں ابراہیم سے، وہ اسے روایت کرتے ہیں حضرت عائشہRadi Allah Anha سے جو فرماتی ہیں: اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب مجھ سے منگنی فرمائی تو اس وقت میری عمر 6برس تھی جبکہ انہوں نے جب مجھ سے نکاح فرمایا تو میری عمر9 برس تھی اور جب انہوں نے دنیا سے پردہ فرمایا تو اس وقت میں 18 برس کی تھی ۔

اس حدیث کے سلسلہ رُوات میں ایک راوی ابو معاویہ ہیں۔ ان کے متعلق علماء حدیث فرماتے ہیں :

وكان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا. 40
وہ حدیث کے حافظ اور انتہائی پارسا شخصیت تھے(لیکن عقیدہ کے لحاظ سے مرجئہ 41 میں سے تھے) ۔

امام سیوطی Rehmatullah Alaih امام ابو داؤد Rehmatullah Alaih سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

وقال أبو داؤد كان رئيس المرجئة بالكوفة. 42
ابو داؤد بیان کرتے ہیں کہ (ابو معاویہ) کوفہ میں مرجئوں کے قائد ورہنما تھے۔

امام ذہبی یعقوب ابن شیبہ سے نقل کرتےہوے بیان کرتے ہیں:

ثقة، ربما دلس، كان يرى الإرجاء. 43
(ابو معاویہ) اپنی ثقاہت کے اعتبار سے قابل اعتبار تھے لیکن حدیث کی روایت بیان کرتے ہوئے بسا اوقات تدلیس کا شکا ر ہوجاتے تھے البتہ اپنے عقیدہ کے اعتبار سے مرجئہ میں سے تھے ۔

ابن حجر عسقلانیRehmatullah Alaih ابن سعد سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس وكان مرجئا. 44
ابن سعد بیان کرتےہیں کہ(ابو معاویہ) ثقہ راوی تھے لیکن بہت ساری احادیث کے سلسلۃ الرُوات میں انہوں نے تدلیس کا ارتکاب کیا جبکہ عقیدہ کے لحاظ سےوہ مرجئی تھے۔

ابو معاویہ کے بارے میں مذکورہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ صحیح العقیدہ نہیں تھے بلکہ مرجئہ تھے اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلسلۃ الرُوات میں بعض راویان حدیث کا ذکر روایت کے وقت ترک کردیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس طرح ان کی بیان کردہ روایات ناقابل اعتماد اور ناقابل قبول ہو گئیں گویا اب تک مذکورہ تینوں روایات کے سلسلۃ الرُوات میں اصولی اور تکنیکی طورپر مسائل ہیں جس کی وجہ سے روایات کے اخذوقبول کےلیے محدثین کے اسلوب کے مطابق یہ روایات ناقابل اعتماد اور ناقابل اعتبار ہیں۔ تاہم اس کا مطلب ہر گز اور ہر گز یہ نہیں ہے کہ کتب احادیث کی تمام یا زیادہ تر روایات جو ان میں جمع کی گئیں ہیں ناقابل اعتماد ہیں۔ہماری پیش کردہ وضاحت صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ امام بخاری، امام مسلم اور امام ابو داؤد Rehmatullah Alaih اپنی تمام تر ثقاہت ووجاہت کے باوجود انسان وبشر تھے اور اپنی تمام تر ممکنہ علمی وتحقیقی کاوش کے باوجود ان کے لیےاس بات کا امکان ہمیشہ موجود رہا ہے کہ انہوں نے کچھ ناقابل اعتماد روایات کو اپنی کتب حدیث میں جمع کردیا ہو ۔اس بات کی دوسری مناسب توجیہ یہ ہے کہ ان ائمہ حدیث نے اپنی کتب میں جمع کردہ احادیث کے حوالہ سے اپنے پیش نظر امام بخاری Rehmatullah Alaih کے استاد کے وضع کردہ اصولِ حدیث کو پیش نظر رکھا ہو جس طرح امام بیہقیRehmatullah Alaih عبدالرحمن سے نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:

عن عبدالرحمن بن مهدى أنه كان يقول: إذا روينا عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى الحلال والحرام والأحكام، تشددنا فى الأسانيد، وانتقدنا الرجال، وإذا روينا فى فضائل الأعمال والثواب والعقاب، تساهلنا فى الأسانيد، وتسامحنا فى الرجال. 45
عبدالرحمن ابن مہدی سے مروی ہے کہ وہ کہا کرتےتھے کہ جب ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے حلال وحرام کی بابت کوئی حدیث روایت کرتے تو سلسلۃ الرُوات کو نہایت سختی سے جانچتے تھے اور ان پر نقد بھی کیا کرتے تھے لیکن جب ہم فضائل اعمال اور ثواب وعذاب سے متعلقہ روایات کو بیان کرتے تو اپنی جانچ کے معیار کو قدرِ نرم کردیا کرتے تھے اور راویوں کے اعمال وعادات سے درگزر کیا کرتے تھے ۔

عبدالرحمن ابن مہدیRehmatullah Alaih، امام بخاری Rehmatullah Alaih کے استاد تھے اور انہیں سلسلۃ الرُوات کے افراد کی جانچ پر مہارت تامہ رکھنے والی شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ وہ بحیثیت ماہر اسماءالرجال کے فرماتے تھے کہ جب کسی کی فضیلت کا معاملہ ہوتاہے تو حدیث کے سلسلۃ ا لرُوات کو سختی کے ساتھ جانچنے کے معیار کو نرم کردیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ تمام احادیث جس میں حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر کو منگنی کے وقت 6اور نکاح کے وقت 9 سال بیان کیاگیا ہے انہیں صحیح طور پر اور سختی کے ساتھ نہیں جانچا گیا کیونکہ ان روایات کا تعلق حلال و حرام کے معاملات سے نہ تھا۔ لہذا امام بخاری، امام مسلم اور امام ابو داؤدRehmatullah Alaih نے شاید اسی وجہ سے امام عبدالرحمن کے وضع کردہ ان اصولوں کو اس طرح کی رُوات کے بیان کرنے میں بطور اصول کے اختیار کرکے ان احادیث کو اپنی کتب احادیث میں درج کیا ہے۔

تاریخی شواہد کی روشنی میں حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر بوقتِ نکاح

حضرت عائشہ Radi Allah Anha کا سنِ ولادت تاریخی لحاظ سے غیرِ متعین ہے تاہم خود حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے مروی روایات کے مطابق بوقت منگنی آپ Radi Allah Anha کی عمر 6 سال اور بوقت نکاح و رخصتی آپ Radi Allah Anha کی عمر9 سال تھی۔ آپ Radi Allah Anha کی مذکورہ عمر غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد روایات و اسناد کی بنیاد پر ہے اور اس روایت سے آپ Radi Allah Anha کی ولادت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان نبوت کے 5 سال بعدثابت ہوتی ہے۔ آپ Radi Allah Anha کی اصل عمر کا اندازہ ان روایات سے لگایا جاسکتا ہے جنہیں امام ابن اسحاقRehmatullah Alaih نے روایت کیا ہے جو خود امام بخاری Rehmatullah Alaih سے تقریبا ایک صدی قبل حیات تھے۔ابن اسحاق روایت کرتے ہیں:

ثم اسلم ناس...اخت عمر بن خطاب، واسماء بنت ابى بكر، وعائشة بنت ابى بكر وهى صغيرة... 46
پھر جب لوگوں میں سے عمر بن خطاب کی بہن،اسماء بنت ابی بکر Radi Allah Anhum اور عائشہ بنت ابی بکر Radi Allah Anha جو چھوٹی بچی تھیں انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔

مذکورہ بالا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نےا بتدائی سالوں میں اسلام کو قبول کیا۔ مندرجہ بالا روایت واضح کرتی ہے کہ اسماء بنت ابی بکر Radi Allah Anha اور عائشہ بنت ابی بکر Radi Allah Anha نے فاطمہ بنت خطاب Radi Allah Anha کے فور اً بعد اسلام قبول کرلیا تھا جو اعلان نبوت کے تیسرے سال اسلام لے آئی تھیں۔

ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ قبول اسلام کے وقت حضرت عائشہ Radi Allah Anha چھوٹی بچی تھیں یعنی آپ Radi Allah Anha اس وقت 6 برس کی تھیں۔ 47 یہی وجہ تھی کہ آپ Radi Allah Anhaنے اسلام کو شعوری طور پر قبول کیا۔اس روایت کے مطابق حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ منگنی کے وقت13 یا14 برس کی تھی کیوں کہ اس منگنی کا انعقاد اعلان نبوت کے دسویں سال ہوا تھا جبکہ نکاح کے وقت آپ کی عمر 16 یا 17 برس تھی کیوں کہ نکاح کا انعقاد ہجرت کے پہلے سال ہوا تھا۔ 48

حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر کا تعین وتقابل حضرت اسماء بنت ابی بکر Radi Allah Anha کی عمر سے

حضرت اسماء Radi Allah Anha حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی بڑی بہن تھیں۔ کتب تاریخ سے یہ بات واضح حقیقت کے طور پر معلوم ہوتی ہے کہ حضرت اسماء Radi Allah Anha حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے 10 سال بڑی تھیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں:

وهى اكبر من اختھا عائشة بعشر سنين...وبلغت من العمر مائة سنة...ثم ماتت فى سنة ثلاث وسبعین. 49
(حضرت اسماءRadi Allah Anha) 10 برس حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے بڑی تھیں۔۔۔آپ (Radi Allah Anha )نے100 برس کی عمر پائی۔۔۔آپ( Radi Allah Anha) کا وصال 73 ہجری میں ہوا۔

قرطبی50 اورجزری 51 نے بھی یہ نقل کیا ہے کہ حضرت اسماء Radi Allah Anha کا وصال100 سال کی عمر میں 73 ہجری میں ہوا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے وقت آپ Radi Allah Anha کی عمر 27 سال تھی ۔ثانیا آپRadi Allah Anha حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے 10 برس بڑی تھیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر 16 یا 17 سال تھی۔

واقعاتی حقائق کی روشنی میں روایات ِ بخاری ومسلم کا تجزیہ

حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے وصال کے بعد خولہ بنت حکیم Radi Allah Anha نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بات پر زور دیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دوبارہ شادی فرمالیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کاشانہ اقدس میں اس وقت اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ کوئی ایسی خاتون ہو جو بچیوں کی دیکھ بھال کرسکے، امور خانہ داری کو دیکھ سکے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بھی اپنے امور حیات میں ان کے ذریعہ مدد و معاونت حاصل ہوسکے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب حضرت خولہ Radi Allah Anha سے یہ پوچھا کہ وہ کس سے شادی کریں تو جواب میں انہوں نے دو نام لیے، ایک حضرت سودہ Radi Allah Anha کا اور دوسرا حضرت عائشہ Radi Allah Anha کا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان میں سے کسی ایک یا دونوں سے نکاح فرماتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اس قابل تھی جو گھر کے معاملات کو اچھے طریقہ سے دیکھ اور سنبھال سکے۔ یہ بات اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اگر حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر اس وقت 6برس کی ہوتی تو حضرت خولہ Radi Allah Anha کس طرح محض 6 سال کی بچی کانام اس مقام و محل میں لیتی 52 کیوں کہ گھر کے معاملات اور مسائل کو دیکھنا اس عمر کی لڑکی کےلیے کسی بھی طور پر ممکن ہی نہیں تھا ۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کا نام حضرت خولہ Radi Allah Anha کے دماغ میں اس لیے آیا تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خواب میں حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی تصویر دکھائی گئی تھی لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو وحی کے ذریعہ صرف آپ کا چہرہ دکھایا گیا تھا اور اس روایت میں اس بات کا کوئی ذکر موجود نہیں کہ منگنی کے وقت حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر مبارک6 برس تھی۔

سورۃ القمر کے وقتِ نزول حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر

امام بخاری Rehmatullah Alaih کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ Radi Allah Anha اس وقت ایک چھوٹی بچی تھیں جب سورۃ القمر نازل ہوئی ۔ یوسف ابن مہک فرماتے ہیں:

قال: إنى عند عائشة ام المؤمنين، قالت: لقد انزل على محمد صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة وإنى لجارية ألعب، بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر. 53
(یوسف ابن مہک) فرماتے ہیں کہ میں اس وقت حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے گھر پر تھا جب اُمّ المؤمنین (حضرت عائشہ Radi Allah Anha ) نے یہ فرمایا : اس وقت جب یہ وحی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر مکہ میں نازل ہوئی بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمرتواس وقت میں چھوٹی عمر کی کھیلنے کودنے والی لڑکی تھی ۔

یہ سورت شق القمر کے موقع پر ہجرت سےتقریباً پانچ سال قبل نازل ہوئی۔ 54 اس حدیث میں حضرت عائشہ Radi Allah Anha بیان کرتی ہیں کہ وہ اس وقت "جاریہ" تھیں۔ عربی زبان میں اس لفظ کا معنی اس عمر کی لڑکی ہوتا ہے جو قریب البلوغ ہو۔ 55 اس کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ القمر کے نزول کے وقت حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر 8 یا 9 برس تھی۔ اگر اس وقت آپ کی اس عمر کو قبول کر لیا جائے تو منگنی کے وقت آپ کی عمر 13یا 14 برس جبکہ نکاح کے وقت 16 یا 17 برس قرار پاتی ہے لہذا آپ کی عمر جو بوقت نکاح اور رخصتی کے9 برس بیان کی جاتی ہے وہ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔

حضرت ابو بکرصدیق Radi Allah Anho کے بچوں کے ولادت کی ترتیب

حضرت ابو بکر Radi Allah Anho کے تمام بیٹے اور بیٹیاں،حضرت عبداللہ،حضرت اسماء،حضرت عبدالرحمن اور حضرت عائشہ Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان نبوت سے قبل یعنی عہد جاہلیت میں پیدا ہوئے۔ طبری بیان کرتے ہیں :

فكل هؤلاء الأربعة من أولاده، ولدوا من زوجتيه اللتين سمينا هما فى الجاهلية. 56
(حضرت ابو بکر Radi Allah Anho ) کے مذکورہ چاروں بچے آپ (Radi Allah Anho)کی دو ازواج سے عہد جاہلیت میں پیدا ہوئے ۔

مذکورہ بالا تفصیل امام طبری کے بیان سے مطابقت رکھتی ہے کیوں کہ یہ تفصیلات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر اعلان نبوت کے پانچویں سال میں8 برس تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی پیدائش آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےاعلان نبوت سے 3 برس قبل ہوئی تھی چنانچہ ہجرت کے پہلے سال لامحالہ آپ کی عمر 16 یا 17 برس ہی تھی۔

عربی زبان میں لفظ بِکر اور ثیّب کا استعمال

حضرت خولہ Radi Allah Anha نے جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے یہ بات عرض کی کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دوبارہ نکاح فرمالیں تو یہ بھی استفسار فرمایا کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ثیبہ(شادی شدہ خاتون جو یا تو بیوہ ہو یا مطلقہ ہو) سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا بِکْر (کنواری یا غیر شادی شدہ لڑکی) سے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ بِکر کا لفظ عربی زبان میں چھوٹی بچی کےلیے استعمال نہیں ہوتا کیوں کہ چھوٹی بچی کو عربی میں "جاریہ" کے لفظ سے پکارا جاتا ہے۔ اب جب حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے لیے بِکر کا لفظ استعمال کیا گیا اور جاریہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا تویہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت حضرت عائشہ Radi Allah Anha غیر شادی شدہ تھیں لیکن بلوغت کی عمر کو پہنچ کر نکاح کے قابل تھیں۔ 57

مذکورہ بالا تفصیلات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی منگنی اور شادی کے وقت عمر سے متعلق روایات میں روایت اور درایت دونوں کے حساب سے تسامح موجود ہیں لہذا یہ غیر معقول بات ہے کہ ان الفاظ کو ان کے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے قبول کیا جائے ۔تاہم پھر بھی اگر کسی طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بوقتِ نکاح حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی عمر 9 برس تھی تو یہ بات کسی بھی صورت میں حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے منصبِ نبوت پرطعن و تشنیع کا باعث نہیں بنتی کیونکہ عرب کے اس ماحول اور دیگر تہذیبوں میں 9 برس کی لڑکی بالغ ہوجایا کرتی تھی اور اس عمر میں نکاح عام تھا ۔

ہجرت مدینہ

جب اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مکہ چھوڑنے کا حکم دیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ منورہ سے اس رات ہجرت فرمائی جواللہ تعالی نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےلیے متعین فرمائی تھی اوراس دوران آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت علی ابن ابو طالب Radi Allah Anho کو اپنے بستر پر چھوڑا۔ 58آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مدینہ منورہ پہنچنے کے چند دنوں بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حضرت ابو بکر Radi Allah Anho نے اپنے گھر والوں کو مدینہ آنے کےلیے پیغام بھیجا۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha نے جب یہ خبر سنی تو آپ Radi Allah Anha بہت خوش ہوئیں اور آنے والے سفر کے لیے تیاری فرمانے لگیں ۔ حضرت ابو بکر Radi Allah Anho نے حضرت عبداللہ بن اُرَیقِط Radi Allah Anho کو اپنے بیٹے عبداللہ Radi Allah Anho کے پاس بھیج کر یہ پیغام دیا کہ وہ آپ Radi Allah Anho کے گھر والوں کو مدینہ منورہ لے آئیں۔چنانچہ وہ ام رومان Radi Allah Anha کے ساتھ حضرت ابو بکر Radi Allah Anho کے اہل خانہ میں سےحضرت اسماء Radi Allah Anha، حضرت عائشہ Radi Allah Anha اور حضرت عبدالرحمن Radi Allah Anho کو مدینہ منورہ لے آئے۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کئی ماہ تک قیام پذیر رہیں۔آپ Radi Allah Anha کے گھر والے شروع میں حارثہ ابن نعمان کے گھر پر مقیم رہے۔ بعد ازاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی اور اس مسجد کے ساتھ ایک رہائش گاہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha وحضرت سودہ Radi Allah Anha کے لیے تعمیر فرماکر حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے نکاح ماہ شوال میں فرمایا۔ 59

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے نکاح

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے نکاح ہجرت کے 8ماہ بعد ہوا۔ 60 نکاح کی یہ تقریب نہایت باوقار اور انتہائی سادہ انداز میں حضرت صدیق اکبر Radi Allah Anho کے گھر پر منعقد کی گئی۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha جب نکاح کے لئے تیار ہوگئیں تو آپ کی والدہ امّ رومانRadi Allah Anha آپ Radi Allah Anha کو اس کمرہ میں لے آئیں جہاں مدینہ منورہ کی خواتین اس خوش قسمت دلہن کا انتظار کر رہی تھیں۔ آپ Radi Allah Anha نے جیسے ہی وہاں قدم رنجہ فرمایا تو ان تمام خواتین نے آپ Radi Allah Anha کےلیے دعا فرمائی اور آپ Radi Allah Anha کی قسمت پررشک کا اظہارکیا۔ 61آپ Radi Allah Anha کے لیے چار سو درہم کا مہر مقرر کیا گیا۔ 62 جب تقریبِ نکاح اختتام پذیر ہوئی تو حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو ان کے گھر لے جایا گیا جو مسجد نبوی سے متصل ایک نہایت سادہ سا حجرہ تھا جو اندر سے بھی کمال سادگی کا نمونہ تھا۔ اس حجرہ کے سامانِ ضرورت میں ایک چمڑے کا گدا تھا جس میں گھاس پھوس بھری ہوئی تھی جبکہ فرش پر کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی۔ اس کمرہ کے دروازہ پر ایک پردہ ٹکا ہواتھا جو اونٹ کے بالوں سے بنایا گیا تھا۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha اپنے اس نئے گھر میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ اپنی نئی زندگی کے آغاز پر نہایت مطمئن ومسرور تھیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں لوگوں کی ہدایت کےلیے علم کے زیور سےمزین فرمایااور ان کی خصوصی تربیت فرمائی جس کے نتیجہ میں آپ Radi Allah Anha خود اپنی ذات میں خوبیوں کا مجموعہ بن گئیں اور آپ Radi Allah Anha کی ذات سے ایک زمانہ تک دنیا نے علم وحکمت کا فیضان پایا ۔

حضرت عائشہ Radi Allah Anha پر بہتان اور آپ کا صبر

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam غزوات کے دوران عمومی طور پر اپنی ازواج میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ 6 ہجری میں بنو مصطلق کی مہم کے دوران آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عائشہ Radi Allah Anha اور حضرت ام سلمہ Radi Allah Anha کو اپنے ساتھ سفر میں رکھا۔ مسلمان اس مہم میں کامیاب ہوکر لوٹے۔ واپسی کے سفر کے دوران مدینہ منورہ سے کچھ فاصلہ پر مسلمان خیمہ زن ہوئے۔ 63اس دوران حضرت عائشہ Radi Allah Anha حاجت کے سبب قافلہ سے کچھ فاصلے پر تشریف لے گئیں۔بعد فراغت اپنی سواری کے پاس پہنچی تو ظفار(یمن کا ایک شہر) کے مہرہ کا بنا ہواآپ کا ہار غائب تھا۔چنانچہ آپ واپس لوٹیں اور اپنا ہار تلاش کرنے لگیں۔ اس ہار کی تلاش میں آپ کو کچھ دیر ہو گئی۔ جو لوگ آپ کو اونٹ پر سوار کیا کرتے تھے وہ آئے اور آپ کےہودج کو اٹھا کر آپ کےاونٹ پر رکھ دیا۔ آپ کیونکہ دبلی پتلی اور نحیف تھیں اس لئے انہوں نے سمجھا کہ آپ ہودج کے اندر ہی موجود ہیں۔ جب آپ اپنا ہار ڈھونڈ کر واپس لوٹیں تو آپ نے وہاں کسی کو نا پایا۔ آپ وہاں بیٹھ کر ان قافلے والوں کا انتظار کرنے لگیں کہ جیسے ہی ان کو علم ہوگا کہ آپ ہودج میں تشریف فرما نہیں ہیں ویسے ہی وہ آپ کو لینے واپس لوٹ آئیں گے۔ جب قافلے والوں کو لوٹنے میں وقت لگا اور آپ پر تھکاوٹ تاری ہونے لگی تو آپ اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے اونگنے لگیں یہاں تک کے سو گئیں۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی جولشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھےتاکہ لشکر کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو تو وہ اٹھا لیں، انہوں نےجب آپ کو سوئے ہوئےدیکھا تو پہچان گئےکیونکہ آپ نے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو پردہ کے حکم کے آنے سے پہلےدیکھا ہواتھا۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی نے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو بغیر چھوئے جگانے کے لئے انّاللّٰہپڑھنا شروع کیا جس کی آواز سے آپ جاگ اٹھیں اور فوراً اپنی چادر سے آپ نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی نےحضرت عائشہ Radi Allah Anha کو سواری پر سوار کرایا اور سواری کو آگے سے پکڑ کر چلنےلگے۔ جب یہ دونوں لشکر کے قریب پہنچے تو ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ لشکر پڑاؤ کئے ہوئے تھا۔ 64 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو دیکھا تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس بات کی خوشی ہوئی اور سکون محسوس ہوا کہ وہ خیریت سے بغیر کسی مصیبت میں مبتلا ہوئے تشریف لے آئیں ہیں۔ تاہم مدینہ منورہ کے منافقین نے عبداللہ بن ابی کی قیادت میں اس واقعہ کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور مسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کرنے کے لیےغنیمت جانا اورحضرت عائشہ Radi Allah Anha پر بہتان باندھنے کےلیے آپ کے خلاف جھوٹی افواہیں پھیلانے لگے جسے بدقسمتی سے بعض سادہ لوح مسلمانوں نے بھی سچ جان کر قبول کرنا شروع کردیا۔ ان مسلمانوں میں مسطح بن اثاثہ بھی شامل تھے جو حضرت ابو بکر Radi Allah Anho کےرشتہ دار تھے۔ان کے علاوہ حضرت حسان بن ثابت اور حمنہ بنت جحش بھی منافقین کی اس سازش کا شکار ہوگئے۔

جب یہ قافلہ مدینہ طیبہ پہنچا تو حضرت عائشہ Radi Allah Anha بیمار ہو گئیں۔ آپ کی یہ بیماری تقریباًایک ماہ تک جاری رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی افواہوں کا بڑا چرچا رہا۔ اس دوران آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب امّ المؤمنین حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے پاس تشریف لے جاتے تو صرف سلام کرنے اور طبیعت دریافت کرنے پر قناعت فرماتے اور واپس تشریف لے جاتے۔ جب آپ کی طبیعت میں افاقہ ہوا تو آپ امّ مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئیں۔ مناصع مدینہ منوّرہ کی آبادی سے باہر رفع حاجت کی جگہ تھی جہاں عموماً خواتین صرف رات میں اس لئے جایا کرتی تھیں کہ گھروں میں بیت الخلاء موجود نہیں تھے۔ جب رفع حاجت سے فارغ ہوکر دونوں خواتین واپس آنے لگیں تو امّ مسطح اپنی چادر میں الجھ گئیں اور ان کی زبان سے حضرت مسطح کی شان میں ناگوار الفاظ نکلے۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha نے اّم مسطح کو منع فرمایا کہ وہ حضرت مسطح کے لئے کوئی سخت بات نہ کہیں کیونکہ وہ بدری صحابی تھے۔ اس پر امّ مسطح ناراض ہوئیں اور حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو بتانے لگیں کہ ان پر تہمت لگانے والوں میں حضرت مسطح پیش پیش ہیں جسے سن کر حضرت عائشہ Radi Allah Anha کا مرض بڑھ گیا۔ جب آپ اپنے گھر واپس آئیں تو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے عرض کیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam انہیں ان کے والدین کے گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمادیں ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو اس کی اجازت دے دی۔ آپ نے اپنی والدہ کےگھر جا کر افواہوں کے بارے میں دریافت کیا جس سے آپ کو اندازہ ہوا کہ آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ان کی طرف عدم التفات اور بے توجہی کا سبب یہ افواہیں تھیں جو مدینہ طیبہ میں گردش کررہی تھیں۔ اگر چہ کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha شدید صدمہ سے دو چار تھیں لیکن وہ تنہا ا س صدمہ کا شکار نہیں تھیں بلکہ خود آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی صدمہ، دکھ اور تکلیف کی اس کیفیت سے گزر رہے تھے۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پوری طرح جانتے تھے کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha اس معاملہ میں بالکل معصوم ہیں اور انہیں افترا پردازوں نے اپنی بہتان بازی کا شکار کیا ہوا ہے۔آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسامہ بن زید اور علی ابن ابی طالب کو بلا کر ان سے اس معاملہ میں ان کی رائے مانگی۔ حضرت اسامہ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یقین دلایا کہ یہ سب جھوٹ اور من گھڑت بات ہے تاہم حضرت علی Radi Allah Anho نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں عرض کی کہ اس معاملہ میں حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی خادمہ خاص حضرت بریرہ سے مزید معلومات حاصل کی جائے۔ جب حضرت بریرہ Radi Allah Anha سے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتیں البتہ جب بھی انہوں نےآٹا گوندھ کر کے اسے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے حوالہ کیا تو وہ اس کی حفاظت کے دوران سو جایا کرتی تھیں اور بھیڑ آکر اس آٹے میں منہ مار دیا کرتی تھی۔ 65

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت ابوبکر Radi Allah Anho کے گھر تشریف لے گئے اور دیکھا کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی آنکھیں مسلسل دو دن رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وہاں جاکر حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے قریب تشریف فرما ہوئے اور پھر اللہ تعالی کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہوئے آپ کو تقویٰ اور طہارت کی نصیحت کی جس کے جواب میں آپ نے قرآن پاک کی اس آیت کوتلاوت فرمایا: 66

فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ 1867
تو(اس موقع پر ) صبر ہی اچھا ہے، اور میں( اس حالت میں صرف )اللہ ہی سےمدد چاہتا ہوں ان باتوں پر جو تم مجھے بتارہے ہو ۔

اس موقع پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر سورہ نور کی آیات 11 سے 21 کا نزول ہوا جس میں اللہ تعالی نے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو منافقین کے عائد کردہ تمام گھٹیا الزامات سے بری قرار دیا۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha اس وحی کے نزول سے بے پناہ خوش ہوئیں اور اللہ کی حمد وثنا ء كی اور اس کی مدد اور معاونت پر اس کی شکر گزار ہوئیں۔ 68یہی وہ موقع تھا جب وحی کے ذریعہ پاک دامن خواتین پر الزام لگانے والوں کےلیے اللہ تعالی نے حد قذف کی سزا کا حکم بھی نازل فرمایا 69جس کے بعد مسطح بن اثاثہ،حسان بن ثابت اور حمنہ بنت جحش جو حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے حوالہ سے افواہ سازی پھیلانے میں شامل تھے انہیں 80 کوڑوں کی سزا دی گئی ۔ 70

اللہ تعالی کی طرف سے اس خصوصی فضل وکرم جس میں حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی پاکدامنی اور عفت وعصمت کا وحی کے ذریعہ اعلان کردیا گیا تھا۔ اسے سننے کے بعد سیدہ عائشہ Radi Allah Anha دوبارہ اپنے حجرہ مبارک میں جو مسجد نبویSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے متصل تھا تشریف لے آئیں اور آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam كے ساتھ زندگی گزاری۔ حجۃ الوداع کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شدید علیل ہوگئے تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےاپنی زندگی کے بقیہ ایّام حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے حجرہ میں گزارے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے حجرہ میں قیام پر بقیہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی کوئی اعتراض اس لیے نہیں کیا کہ ان میں سے ہر ایک اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طبیعت مبارک ناساز تھی اور وہ اپنی صحتیابی کےلیے جہاں رہنا چاہیں رہ لیں۔ چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نہایت پرسکون انداز میں حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے حجرہ مبارکہ میں قیام پذیر رہے جہاں آپ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے ہمہ وقت آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تیمار داری فرمائی ۔ 71

جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دنیا سے رحلت کا وقت قریب آیا تو حضرت عائشہ Radi Allah Anha نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنے جسم کے ساتھ سہارا دیا ہوا تھا اور اسی حالت میں جبکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سر ِاقدس حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے سر اور سینہ کے درمیان تھا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وصال پُرملال ہوا۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha فرمایا کرتی تھیں کہ مجھ پر اللہ تعالی کے بڑے احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وصال پُرملال میرے گھر میں اس وقت ہوا جب میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم اقدس کو اپنے وجود سے سہار ا دیا ہوا تھا۔ 72

حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے امتیازی خصائص واوصاف

حضرت عائشہ Radi Allah Anha کو دس ایسے خصائص اور اوصاف سے نوازا گیا تھا جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی کسی دوسری زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں تھے جن کی تفصیل درج ذیل ہیں :

  1. آپ حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تمام ازواج میں تنہا کنواری زوجہ تھیں۔
  2. آپ کے دونوں والدین مہاجرین تھے۔
  3. آپ کی عصمت وپاکدامنی کی گواہی وحی کے ذریعہ قرآن کریم کی آیات کی صورت میں دی گئی۔
  4. جبرئیل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں آپ کی ریشم میں لپٹی ہوئی تصویر لے کر حاضر ہوئے اور بتایا کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان سے نکاح کرنا ہے۔
  5. آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حضرت عائشہ Radi Allah Anha نے ایک ہی برتن سے غسل فرمایا ہے۔
  6. آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس وقت بھی نماز ادا فرمالیا کرتے تھے جب حضرت عائشہ Radi Allah Anha آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے آرام فرما نے کےلیے دراز ہوتیں ۔
  7. آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اس وقت بھی وحی نازل ہوئی جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے بستر میں تھے۔
  8. آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وصال پُرملال اس وقت ہوا جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سر اقدس حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی گردن اور سینہ کے درمیان تھا۔
  9. آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وصال اس دن ہوا جب ازواج مطہرات میں سے آپ کی باری کا دن تھا۔
  10. آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تدفین بھی حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے حجرہ مبارکہ میں کی گئی ۔ 73

حضرت عائشہ Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وصال پُرملال کے بعد47 برس تک حیات رہیں۔ 74 اس دوران آپ نے دین اسلام کےلیے بے پناہ خدمات سرانجام دیں ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی احادیث طیبہ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جن کی تعداد تقریبا 2210 ہے وہ آپ سے ہی مروی ہیں۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تمام ازواج اور ہم عصر خواتین میں آپ Radi Allah Anha سب سے زیادہ اہل علم اور فقیہ تھیں۔ آپ کو طب اور شاعری پر کمال دسترس حاصل تھی۔ 75 حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان Radi Allah Anhum کے دور خلافت میں فقہی معاملات پر نہایت قابلیت اور مدلل انداز میں آپ اپنی رائے کو پیش فرمایا کرتی تھیں۔ 76 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آپ سے بے پناہ محبت فرمایا کرتے تھے جیسا کہ روایت ہے :

أن عمرو بن العاص، قال: يا رسول اللّٰه أي الناس أحب إليك؟، قال: عائشة ، قال: من الرجال، قال: أبو بكر 77
عمرو بن العاص نے ایک مرتبہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پوچھا کہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ آپ کو کون پسند ہے؟ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا: عائشہ( Radi Allah Anha)۔ آپ (حضرت عمرو ) نےدوبارہ پوچھا کہ مردوں میں آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) کو کون زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) نے جواب دیا: عائشہ (Radi Allah Anha)کے والد ابو بکر (Radi Allah Anho

جنگ جمل

حضرت عثمان غنی کو شہید کرنے کے بعد آپ کے قاتلین نے خود کو حضرت علی Radi Allah Anho کی فوج میں چھپانے کی کوشش کی۔ حضرت عثمان غنی کے متبعین اور دیگر لوگ یہ چاہتے تھے کہ قاتلین عثمان کو سزا دی جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت عائشہ Radi Allah Anha حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لارہی تھیں۔ واپسی کے دوران آپ کی ملاقات طلحہ ابن عبیداللہ اور زبیر بن العوام سے ہوئی جنہوں نے آپ سے یہ استدعا کی کہ وہ حضرت علی Radi Allah Anho سے قاتلین عثمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کریں۔ حضرت عائشہ Radi Allah Anha اس بات کوسن کر راضی ہوگئیں اور حضرت طلحہ Radi Allah Anho اور حضرت زبیر Radi Allah Anho کے ساتھ عراق روانہ ہوئیں۔ انہوں نے بصرہ پہنچ کر حضرت علیRadi Allah Anho کے پہنچنے کا نتظار فرمایا ۔ حضرت علی Radi Allah Anho تشریف لے آئے اور ہرممکن کوشش کی کہ گفت وشنید کے ذریعہ اس معا ملہ کو حل فرمالیں تاکہ مسلمانوں کی وحدت قائم رہے۔ ان مذاکرات کے دوران قعقہ ابن عامر نے بہت ہی عمدہ کردار ادا کیا اور طرفین مسئلہ کے حل پر راضی ہوگئے۔ چنانچہ دوطرفہ لوگ واپس اپنے اپنے خیموں میں جاکر آرام فرما ہوگئے تاہم قاتلین عثمان نے ایک بہت بڑی سازش تیار کر کے مسلمانوں کے درمیان جنگ کی آگ کو بھڑکا ڈالا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے دونوں اطراف کے خیموں پر رات کے اندھیرے میں علیحدہ علیحدہ یلغار کرڈالی جس کے نتیجہ میں اصحاب جمل یعنی حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے متبعین یہ سمجھے کہ شاید حضرت علی Radi Allah Anho کے لشکر نے ان پر حملہ کرڈالا جب کہ حضرت علی Radi Allah Anho کا لشکر سمجھا کہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے حامیوں نے حضرت علی Radi Allah Anho پر حملہ میں پیش قدمی کرڈالی ہے۔ اس اچانک پڑنے والی یورش سے دونوں گروہوں میں جنگ چھڑ گئی جس کا اختتام اس وقت ہوا جب حضرت علی Radi Allah Anho نے اس اونٹ کے پاؤں کاٹ ڈالے جس پر حضرت عائشہ Radi Allah Anha کا پالا ن رکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی Radi Allah Anho آپ Radi Allah Anha کے پاس تشریف لائے اور آپ Radi Allah Anha کے لئے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار فرماتے ہوئے آپ Radi Allah Anha کو میدان جنگ سے مدینہ منورہ واپس لوٹ جانےپر راضی کیا۔ آپ جب وہاں سے واپس لوٹیں تو اس کے بعدآپ نے بقیہ زندگی سیاست کے جھمیلوں سے دور گزاری ۔ 78

وصال

اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ Radi Allah Anha جو نہایت ہی صاحب علم اور صاحب تقوی تھیں، آپ کا وصا ل 17 رمضان المبارک سن 58 ہجری میں ہوا۔حضرت ابو ہریرہ Radi Allah Anho نے آپ Radi Allah Anha کا جنازہ پڑھایا اور آپ Radi Allah Anha کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔ 79


  • 1  محمد بن إسحاق المطلبی، كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:279
  • 2  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-3، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 426
  • 3  أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة النيسابوري، كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة الرشد، الرياض، السعودية، 1994م، ص: 559
  • 4  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 34، ج-23، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 18
  • 5  الحافظ أبو الفضل عبد الرحيم بن الحسين العراقي، ألفية السيرة النبوية (نظم الدرر السنية الزكية)، ج-1، مطبوعۃ: دارالمنہاج، بیروت، لبنان، 1426ھ، ص: 100
  • 6  أبو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 58
  • 7  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 409
  • 8  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 178
  • 9  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 25769، ج-42، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 501-502
  • 10  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السيرة النبوية، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1976م، ص: 142- 143
  • 11  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1996م، ص: 411
  • 12  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 178
  • 13  محمد بن إسحاق المطلبی، كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 280
  • 14  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 411
  • 15  محمد بن إسحاق المطلبی، كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 279-280
  • 16  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3894، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 655
  • 17  ایضاً، حدیث: 3896
  • 18  ایضاً، حدیث: 5133، ص:918
  • 19  ایضاً، حدیث: 5134، ص:918
  • 20  ایضاً، حدیث: 5158، ص:922
  • 21  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 3479، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 596- 597
  • 22  ایضاً، حدیث: 3480
  • 23  ایضاً، حدیث: 3481
  • 24  ایضاً، حدیث: 3482
  • 25  ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی، سنن ابی داود، حدیث: 2121، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص: 429
  • 26  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، الثقات، ج-5، مطبوعۃ: دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند، 1973م، ص: 502
  • 27  خير الدين بن محمود بن فارس الزركلي الدمشقي، الاعلام، ج-8، مطبوعۃ: دار العلم للملايين، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 87
  • 28  أبو عبد الله محمد بن احمد شمس الدین الذھبی، سیر اعلام النبلاء، ج-6، مطبوعۃ: دارالحدیث، القاھرۃ، مصر، 2006م، ص: 210
  • 29  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج-3، مطبوعۃ: دار الغرب الإسلامي، بيروت، لبنان، 2003م، ص: 1003
  • 30  عبد الرحمن بن أبی بکر جلال الدين السیوطی، تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي، ج-1، مطبوعۃ: دار طيبة، الریاض، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودا)، ص: 89
  • 31  حبیب الرحمن صدیقی کاندھلوی، تحقیق عمر عائشہ، مطبوعہ: الرحمٰن پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 21
  • 32  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس، مطبوعۃ: مكتبة المنار، عمان، 1983م، ص: 26
  • 33  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، تقريب التهذيب، مطبوعۃ: دار الرشيد، سوريا، 1986م، ص: 573
  • 34  أبو بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي، تاريخ بغداد وذيوله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1417ھ، ص: 239
  • 35  أبو عبد الله محمد بن احمد شمس الدین الذھبی، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت، لبنان، 1963م، ص: 301
  • 36  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، تھذیب التھذیب، ج-9، مطبوعۃ: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند، 1326ھ، ص:450
  • 37  أبو أحمد بن عدي الجرجاني، الکامل فی ضعفاء الرجال، ج-6، مطبوعہ: الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1997م، ص: 538
  • 38  ابو عبدالرحمن شمس الدین الذھبی، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت، لبنان، 1963م، ص: 611
  • 39  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 3482، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 597
  • 40  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، الثقات، ج-7، مطبوعۃ: دائرة المعارف العثمانية بحيدر آباد الدكن الهند، 1973م، ص: 442
  • 41  مرجئہ وہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ تھا کہ ایمان کا تعلق محض قول اور زبان سے ہے عمل کا اس میں دخل نہیں(لہذا کسی بھی گناہ سے ایمان پر فرق نہیں پڑتا نہ کسی طاعت سے) ۔ علی بن محمد بن علی شریف الجرجانی، کتاب التعریفات، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت لبنان، 1983م، ص: 208
  • 42  عبد الرحمن بن أبی بکر جلال الدين السیوطی، طبقات الحفاظ، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1403ھ، ص: 129
  • 43  أبو عبد الله محمدشمس الدین الذھبی، سیر اعلام النبلاء، ج-9، مطبوعۃ: دارالحدیث، القاھرۃ، مصر، 2006، ص:76
  • 44  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، تھذیب التھذیب، ج-9، مطبوعۃ: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند، 1326ھ، ص: 139
  • 45  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، المدخل إلى علم السنن، ج-1، مطبوعۃ: دار المنهاج للنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 2017م، ص:372
  • 46  محمد بن إسحاق المطلبی، كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:186
  • 47  الحافظ يوسف بن البر النمری، الدرر في اختصار المغازي والسير، مطبوعۃ: دار المعارف، القاهرة، مصر، 1403ھ، ص: 13
  • 48  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 58
  • 49  ابوالفداءاسماعيل بن عمر ابن كثير الدمشقی، البدایۃ و النھایۃ، ج-8، مطبوعۃ: دار الاحیاالتراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 381
  • 50  ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-4، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1782-1783
  • 51  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 8
  • 52  حبیب الرحمن صدیقی کاندھلوی، تحقیق عمر عائشہ، مطبوعہ: الرحمٰن پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 62
  • 53  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4876، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 863
  • 54  شهاب الدين محمود بن عبد الله الحسيني الألوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج-14، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1415ه، ص: 74
  • 55  ابو العباس أحمد بن محمد بن علي الفيومي الحموی، المصباح المنير في غريب الشرح الكبير، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودا)، ص: 97
  • 56  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-3، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 426
  • 57  حبیب الرحمن صدیقی کاندھلوی، تحقیق عمر عائشہ، مطبوعہ: الرحمٰن پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 60- 62
  • 58  الشيخ صفی الرحمن المباركفوري، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 182-183
  • 59  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 3483، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 597
  • 60  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 58
  • 61  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3894، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 655
  • 62  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص: 644
  • 63  أبو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 297-298
  • 64  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4141، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 701- 704
  • 65  ابو بكر أحمد بن عمرو العتكي المعروف بالبزار، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، حدیث:153، ج-18، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 2009م، ص: 171- 173
  • 66  ایضا، ص: 174
  • 67  القرآن، سورہ یوسف 12: 18
  • 68  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمي، الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، حدیث: 4212، ج-10، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 20
  • 69  القرآن، سورۃ النور 24: 4
  • 70  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، ج-2، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: شرکۃ مصطفی حلبی البابی، القاہرۃ مصر، 1955م، ص: 302
  • 71  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4450، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 756- 757
  • 72  ایضاً، حدیث: 4459، ص: 757-758
  • 73  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 63- 64
  • 74  ایضاً، ص: 77
  • 75  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی، امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 43
  • 76  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1996م، ص: 418
  • 77  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 114، ج-23، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 43
  • 78  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-4، مطبوعۃ: دار التراث، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص: 450- 550
  • 79  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 76- 77

Powered by Netsol Online