encyclopedia

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا

Published on: 26-Feb-2025
ماریہ قبطیہ  رضی الله عنہا
ماریہ قبطیہ رضی الله عنہا
وفات:16 ہجریاولاد:حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہلقب:ام ابراہیممزار مبارک:جنت البقیع
LanguagesEnglishPortuguese

حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha کا اصل نام ماریہ بنت شمعون تھا 1 اورآپ Radi Allah Anha کا تعلق مصر کے قبطی خاندان سے تھا۔ 2 انہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خدمت میں مصر کے عیسائی گورنر مقوقس نے بطور تحفے کے پیش کیا تھا۔ 3 حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha نے مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی اسی مقدس شہر میں گزاری۔آپ Radi Allah Anha کو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ایک صاحبزادے حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کی والدہ ماجدہ ہونے کا شرف بھی آپ Radi Allah Anha کو حاصل ہوا۔ 4

حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha بطورِ تحفہ

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صلح حدیبیہ کے بعد اپنے نمائندے اور سفیر عرب کے مختلف خطوں اور پڑوسی ممالک کی طرف بھجوائے تاکہ وہاں کے بادشاہوں، امراء اور عام لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جا سکے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان نمائندوں کو اپنی مُہر لگے ہوئے خطوط بھی دیے۔ ان خطوط پر مُہر چاندی کی بنی ہوئی ایک انگوٹھی سے لگائی جاتی تھی جس پر "محمد رسول اللہ" کندہ ہوتا تھا۔ 5 اسکندریہ کے گورنر کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ Radi Allah Anho کا بطور سفیر انتخاب کیا گیا 6 کیونکہ آپ Radi Allah Anho مصر کی زبان سے بخوبی واقف تھے۔ مندرجہ ذیل خط مصری قبطیوں کے سردار کےلیے تحریر کیا گیا جو اسکندریہ میں مقیم تھے:

بسم اللّٰه الرحمن الرحيم، من محمد بن عبد اللّٰه رسول اللّٰه ، إلى المقوقس عظيم القبط، سلام على من اتبع الهدى، أما بعد، فإنى أدعوك بداعية الإسلام، أسلم تسلم، وأسلم يؤتك اللّٰه أجرك مرتين، فإن توليت فإن عليك إثم القبط… 7
شروع اللہ کے نام سے جوبڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔محمد بن عبد اللہ، اللہ کے رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کی طرف سے قبطیوں کے سردار کی طرف۔ اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی اتباع کرے ،تمہید کے بعد، میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں ،اسلام لے آؤ تمہیں بھی سلامتی ملے گی،اور اسلا م لے آؤ اللہ تعالی تمہیں دگنا اجر عطافرمائے گا،اور اگر تم اسلام نہ لائے تو تمام قبطیوں کا گناہ (اسلام نہ لانے کا وبال) تمہارے سر ہوگا۔۔۔

قبطیوں کے سردار مقوقس نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف سے ارسال کردہ خط وصول کرنے کے بعد نہایت احتیاط اور ادب کے ساتھ اسے تہ کیا اور پھر ہاتھی دانت کے بنے ہوئے ایک ڈبے میں احترام کے ساتھ رکھ دیا۔اس کے بعد مقوقس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بھیجے ہوئے سفیر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ Radi Allah Anho سے مخاطب ہوا کہ اگر محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ تعالی کے سچے پیغمبر تھے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب مکہ سے تکلیفیں دیکر نکالاگیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کفار کو بد دعا دےدیتے تاکہ اللہ تعالی انہیں تباہ و برباد کر دیتا۔حضرت حاطب Radi Allah Anho نے مقوقس کا یہ اعتراض سنا تو نہایت متانت سے جواب دیاکہ اس طرح تو اگر حضرت عیسی Alaihis Salam اللہ تعالی کے سچے پیغمبر تھے تو اس وقت جب انہیں سولی پر چڑھایا جارہا تھا تو وہ بھی اپنے دشمنوں کو بد دعادے دیتے تاکہ اللہ تعالی انہیں بھی تباہ و برباد کر دیتا ۔قبطی سردار حضرت حاطب Radi Allah Anho کے جواب سے مطمئن اور خوش ہو ا اور اس بات کا اقرار کرنے لگا کہ بے شک حاطب ایک عقلمند اور دانا آدمی ہیں جنہیں ایک اور عقلمند اور دانا شخصیت نے بھیجا ہے۔ 8مقوقس نے یہ بات تو جان لی تھی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ کے سچے رسول ہیں لیکن اس خوف سے کہ رومی عیسائی جو اس وقت پورے مصر کے مالک تھے اور مقوقس خود بھی انہی کا نامزد کردہ ایک گورنر تھا اسے اس کے منصب اور ذمہ داریوں سے یک لخت فارغ کرڈالیں گے اس لیے وہ اسلام قبول کرنے سے گریز ا ں رہا ۔رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کے اسلام نہ لانے کے متعلق فرمایا:

ضن الخبيث بملكه، ولا بقاء لملكه. 9
نامراد اپنی بادشاہت کی وجہ سے (اسلام لانے سے بخل کرتا ہے) لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی ملکیت کو کوئی بقا نہیں ہے۔

اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں ادب و احترام سے ایک خط تحریر کیا اور اس کے ساتھ کئی تحفے جن میں دو خادمائیں ماریہ قبطیہ اور سیرین ، ایک مرد خادم جس کا نام مابور تھا، ایک خچر جس کا نام "دُلدُل" تھا اور اس کے ساتھ کئی دوسری اشیاء آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں بھجوائیں۔ 10 حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha اور ان کی بہن سیرین کی والدہ ایک بازنطینی خاتون تھیں۔ 11 ان دونوں بہنوں کا تعلق بالائی مصر کے علاقہ"حیفان" سے تھا 12جو " كورة انصا" کے قریب کا علاقہ تھا 13اور یہ علاقہ دریائے نیل کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ان دونوں بہنوں کی پرورش مصر کے قدیم شہر میں ہوئی تھی اور اس کے بعد یہ دونوں اسکندریہ کے سردار کے محل میں چلی گئیں تھیں۔حضرت ماریہ Radi Allah Anha شکل وصورت کے اعتبار سے نہایت وجیہ اور خوبصورت خاتون تھیں۔ 14حضرت حاطب Radi Allah Anho نے مصر سے مدینہ منورہ واپسی پر حضرت ماریہ Radi Allah Anha اور آپ Radi Allah Anha کی ہمشیرہ کو اسلام کی دعوت پیش کی جسے برضا و رغبت تسلیم کر کے دونوں بہنوں نے اسلام قبول کر لیا ۔15

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha کی باہم زندگی

حضرت حاطب Radi Allah Anho جیسے ہی مدینہ تشریف فرما ہوئے تو تمام تحائف لے کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں براہ راست حاضر ہو گئے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha کو اپنے لیے جبکہ آپ Radi Allah Anha کی ہمشیرہ حضرت سیرین Radi Allah Anha کو حسان بن ثابت Radi Allah Anho کے لیے منتخب فرمایا۔ 16 حضرت ماریہ Radi Allah Anha نے اس کے بعد ایک مخلص مسلمان خاتون کی طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے زیر سرپرستی نہایت خوشگوار زندگی گزاری۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اگرچہ کہ ان کوآزاد فرما کر آپ Radi Allah Anha سے نکاح کرنا چاہتے تھے لیکن اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حکمتاً مزید نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا تھا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے نکاح نہیں فرمایا۔ اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالی ہے :

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا 5217
اس کے بعد آپ کے لئے بھی اور عورتیں (نکاح میں لینا) حلال نہیں (تاکہ یہی اَزواج اپنے شرف میں ممتاز رہیں) اور یہ بھی جائز نہیں کہ (بعض کی طلاق کی صورت میں اس عدد کو ہمارا حکم سمجھ کر برقرار رکھنے کے لئے) آپ ان کے بدلے دیگر اَزواج (عقد میں) لے لیں اگرچہ آپ کو ان کا حُسنِ (سیرت و اخلاق اور اشاعتِ دین کا سلیقہ) کتنا ہی عمدہ لگے مگر جو کنیز (ہمارے حکم سے) آپ کی مِلک میں ہو (جائز ہے)، اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ اس کے بعد بطور باندی کے آخری دم تک رہیں 18 اور انہوں نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ رہنے کو اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھ کر نہایت خوش و خرم زندگی گزاری ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کےلیے الگ سے رہائش کا انتظام فرمایا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کے پاس بھی مختلف اوقات میں وقت گزارا کرتے تھے۔ آپ Radi Allah Anha سے ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فرزند حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کی ولادت ہوئی ۔ 19

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے صاحبزادے حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کی ولادت

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے صاحبزادے حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کی ولادت سے قبل حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha کا جتنا ممکن ہو سکتا تھا خیال رکھا گیا اور بوقت ولادت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ابو رافع Radi Allah Anho کی اہلیہ حضرت سلمہ Radi Allah Anha کو ولادت کے معاملات دیکھنے کے لیے بلوایا۔ 20آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے صاحبزادے حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کی ولادت مدینۃ المنورہ کے مضافاتی علاقے ”العالیہ“ میں دو منزلہ مکان جسے اب”مشربہ ام ابراہیم“ کہا جاتا ہےوہاں پر ہوئی۔ 21حضرت ابو رافع Radi Allah Anho جب صاحبزادے کی ولادت کی خوشخبری لے کر بارگاہ رسالت ماب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں حاضر ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انہیں اور ان کی اہلیہ کو بڑی فیاضی کے ساتھ انعام عطا فرمایا ئے۔ 22

حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کی ولادت کے بعد حضرت ماریہ قبطیہ Radi Allah Anha کی حیثیت ایک آزاد خاتون کی طرح ہو گئی تھی 23اور آپ Radi Allah Anha کا مقام پہلے کے مقابلے میں زیادہ بلند اور فائق ہو کر امّ ولدکا ہو گیا۔حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کی ولادت کے بعد جبرائیل Alaihis Salam آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان الفاظ کے ساتھ سلام پیش فرمایا :

السلام عليك يا أبا إبراهيم 24
آپ پر سلامتی ہو اے ابراہیم کے والد ۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت جبرائیل Alaihis Salam کے اس طرح سلام فرمانے کے بعد ہی اپنے صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا۔ ولادت کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے صاحبزادے کی طرف سے ایک مینڈھا ذبح فرمایا اور ان کے سر کے بالوں کا حلق کروا کر اس کے وزن کےبرابر چاندی غریبوں میں تقسیم فرمائی ۔ 25

حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کا وصالِ پُر ملال

ولادت کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ابراہیم کی دیکھ بھال اور پرورش کے لیے ایک خاتون امّ بردہ Radi Allah Anha کا انتخاب فرمایا جو ان کا ہر ممکن طریقے سے خیال رکھا کرتی تھیں۔ کچھ مہینے کے بعد حضرت ابراہیم Radi Allah Anho بیمار ہوئے تو انہیں کھجور کے ایک باغ میں پہنچا دیا گیا جو ”مشربہ ام ابراہیم“ کے قریب تھا۔حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کی طبیعت جب مزید بگڑنے لگی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو آگاہ کیا گیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ خبر سنی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شدید رنج و ملال کا شکار ہوگئے۔ اس موقع پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف Radi Allah Anho کو بلایا تاکہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ جا سکیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جب وہاں پہنچے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ماریہ Radi Allah Anha سے حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کو لیا۔ اس وقت حضرت ماریہ Radi Allah Anha نے با ٓواز بلند رونا شروع کر دیا کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ حضرت ابراہیم Radi Allah Anho اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کو اپنی گود میں لیا تو اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر فرمایا:

يا بني ما أملك لك من الله شيئاً… 26
اے پیارے بیٹے! اللہ پاک کے حکم کے معاملہ میں ہم تمہارے کچھ کام نہیں آسکتے۔۔۔

یہ کہتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ابرو مبارک پُر نم ہو گئیں اور چشم مبارک سے آنسو بہنے لگے۔ اسی حالت میں حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کا وصال آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہاتھوں میں ہوا ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم Alaihis Salam کا بوسہ لیا اور اپنی نمناک آنکھوں کے ساتھ ارشاد فرمایا:

......لا بد منھا حتى يلحق آخرنا أولنا لحزنا عليك حزناً هو أشد من هذا، وإنا بك لمحزونون، تبكي العين ويحزن القلب، ولا نقول ما يسخط الرب. 27
......(اے بیٹے ابراہیم! اگر) یہ معاملہ یقینی نہ ہوتا کہ ہمارے بعد والا ہمارے پہلے والے سے جاملے گا تو ہمارا غم تم پر اس سے بہت زیادہ ہوتا۔اور ہم آپ پر بہت زیادہ غمگین ہیں،آنکھ رو رہی ہے اور دل پریشان ہے لیکن ہم وہ نہیں کہیں گے جس سے ہمارا رب ناراض ہو۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم Radi Allah Anho کوفضل بن عباس Radi Allah Anhuma نے غسل دیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ 28نماز جنازہ کے بعد انہیں ان کے بھائیوں اور بہنوں کے برابر قبر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ننھے ابراہیم Radi Allah Anho کی قبر تدفین کے بعد اوپر سے مٹی کے ساتھ بند کر دی گئی اور اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ 29حضرت ماریہ Radi Allah Anha نے اپنے صاحبزادے کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہوئے الوداع کہا اور پھر یہ دعا جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس طرح کے مواقع کےلیے تعلیم فرمائی تھی اسے پڑھا:

...إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 15630
...ہم سب اللہ ہی کے (قبضہ میں) ہیں اور ہم سب نے اللہ تعالی کی طرف ہی جانا ہے۔

وصال

اپنے صاحبزادے کے وصال کے بعد حضرت ماریہ Radi Allah Anha اپنی بقیہ زندگی معمول کے مطابق گزارنے لگیں لیکن اگلے ہی سال انہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فراق اور وصالِ پُر ملال کا صدمہ سہنا پڑا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بعد مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho اور ان کے بعد حضرت عمر فاروق Radi Allah Anho نے آپ Radi Allah Anha کے تمام اخراجات اور ضروریات کی نہایت احسن طریقے سے کفالت کی اور آپ Radi Allah Anha کو معاشی طور پر کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہونے دی۔ آپ Radi Allah Anha کا وصال حضرت عمر Radi Allah Anho کے دور خلافت میں سن 16 ہجری میں ہوا۔آپ Radi Allah Anha کی نماز جنازہ حضرت عمر Radi Allah Anho نے خود پڑھائی اور آپ Radi Allah Anha کو جنت البقیع میں 31آپ Radi Allah Anha کے صاحبزادے کے برابر میں سپرد خاک کیا گیا ۔


  • 1  ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-4، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1912
  • 2  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 191
  • 3  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 264
  • 4  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 318
  • 5  محمد حسين هيكل، حياة محمد ﷺ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 390
  • 6  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 5
  • 7  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص: 13-14
  • 8  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 516-517
  • 9  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص: 15
  • 10  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-2، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 159-160
  • 11  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 449
  • 12  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 600
  • 13  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:172
  • 14  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:433
  • 15  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 449
  • 16  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:172
  • 17  القرآن، سورۃالاحزاب 33 : 52
  • 18  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص: 37
  • 19  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 449
  • 20  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-2، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 160
  • 21  ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-1، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 54
  • 22  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 449
  • 23  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 602
  • 24  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-2، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 160
  • 25  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:433
  • 26  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 271
  • 27  ایضا
  • 28  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 173
  • 29  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:435
  • 30  القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 156
  • 31  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 174

Powered by Netsol Online