Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!
حضرت ماریہ قبطیہ کا اصل نام ماریہ بنت شمعون تھا 1 اورآپ
کا تعلق مصر کے قبطی خاندان سے تھا۔ 2 انہیں آپ
کی خدمت میں مصر کے عیسائی گورنر مقوقس نے بطور تحفے کے پیش کیا تھا۔ 3 حضرت ماریہ قبطیہ
نے مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی اسی مقدس شہر میں گزاری۔آپ
کو آپ
کے ایک صاحبزادے حضرت ابراہیم
کی والدہ ماجدہ ہونے کا شرف بھی آپ
کو حاصل ہوا۔ 4
آپ نے صلح حدیبیہ کے بعد اپنے نمائندے اور سفیر عرب کے مختلف خطوں اور پڑوسی ممالک کی طرف بھجوائے تاکہ وہاں کے بادشاہوں، امراء اور عام لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جا سکے۔ آپ
نے ان نمائندوں کو اپنی مُہر لگے ہوئے خطوط بھی دیے۔ ان خطوط پر مُہر چاندی کی بنی ہوئی ایک انگوٹھی سے لگائی جاتی تھی جس پر "محمد رسول اللہ" کندہ ہوتا تھا۔ 5 اسکندریہ کے گورنر کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ
کا بطور سفیر انتخاب کیا گیا 6 کیونکہ آپ
مصر کی زبان سے بخوبی واقف تھے۔ مندرجہ ذیل خط مصری قبطیوں کے سردار کےلیے تحریر کیا گیا جو اسکندریہ میں مقیم تھے:
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم، من محمد بن عبد اللّٰه رسول اللّٰه ، إلى المقوقس عظيم القبط، سلام على من اتبع الهدى، أما بعد، فإنى أدعوك بداعية الإسلام، أسلم تسلم، وأسلم يؤتك اللّٰه أجرك مرتين، فإن توليت فإن عليك إثم القبط… 7
شروع اللہ کے نام سے جوبڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔محمد بن عبد اللہ، اللہ کے رسول () کی طرف سے قبطیوں کے سردار کی طرف۔ اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی اتباع کرے ،تمہید کے بعد، میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں ،اسلام لے آؤ تمہیں بھی سلامتی ملے گی،اور اسلا م لے آؤ اللہ تعالی تمہیں دگنا اجر عطافرمائے گا،اور اگر تم اسلام نہ لائے تو تمام قبطیوں کا گناہ (اسلام نہ لانے کا وبال) تمہارے سر ہوگا۔۔۔
قبطیوں کے سردار مقوقس نے آپ کی طرف سے ارسال کردہ خط وصول کرنے کے بعد نہایت احتیاط اور ادب کے ساتھ اسے تہ کیا اور پھر ہاتھی دانت کے بنے ہوئے ایک ڈبے میں احترام کے ساتھ رکھ دیا۔اس کے بعد مقوقس آپ
کے بھیجے ہوئے سفیر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ
سے مخاطب ہوا کہ اگر محمد
اللہ تعالی کے سچے پیغمبر تھے تو آپ
کو جب مکہ سے تکلیفیں دیکر نکالاگیا تو آپ
کفار کو بد دعا دےدیتے تاکہ اللہ تعالی انہیں تباہ و برباد کر دیتا۔حضرت حاطب
نے مقوقس کا یہ اعتراض سنا تو نہایت متانت سے جواب دیاکہ اس طرح تو اگر حضرت عیسی
اللہ تعالی کے سچے پیغمبر تھے تو اس وقت جب انہیں سولی پر چڑھایا جارہا تھا تو وہ بھی اپنے دشمنوں کو بد دعادے دیتے تاکہ اللہ تعالی انہیں بھی تباہ و برباد کر دیتا ۔قبطی سردار حضرت حاطب
کے جواب سے مطمئن اور خوش ہو ا اور اس بات کا اقرار کرنے لگا کہ بے شک حاطب ایک عقلمند اور دانا آدمی ہیں جنہیں ایک اور عقلمند اور دانا شخصیت نے بھیجا ہے۔ 8مقوقس نے یہ بات تو جان لی تھی کہ آپ
اللہ کے سچے رسول ہیں لیکن اس خوف سے کہ رومی عیسائی جو اس وقت پورے مصر کے مالک تھے اور مقوقس خود بھی انہی کا نامزد کردہ ایک گورنر تھا اسے اس کے منصب اور ذمہ داریوں سے یک لخت فارغ کرڈالیں گے اس لیے وہ اسلام قبول کرنے سے گریز ا ں رہا ۔رسول اللہ
نے اس کے اسلام نہ لانے کے متعلق فرمایا:
ضن الخبيث بملكه، ولا بقاء لملكه. 9
نامراد اپنی بادشاہت کی وجہ سے (اسلام لانے سے بخل کرتا ہے) لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی ملکیت کو کوئی بقا نہیں ہے۔
اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود اس نے آپ کی خدمت میں ادب و احترام سے ایک خط تحریر کیا اور اس کے ساتھ کئی تحفے جن میں دو خادمائیں ماریہ قبطیہ اور سیرین ، ایک مرد خادم جس کا نام مابور تھا، ایک خچر جس کا نام "دُلدُل" تھا اور اس کے ساتھ کئی دوسری اشیاء آپ
کی خدمت میں بھجوائیں۔ 10 حضرت ماریہ قبطیہ
اور ان کی بہن سیرین کی والدہ ایک بازنطینی خاتون تھیں۔ 11 ان دونوں بہنوں کا تعلق بالائی مصر کے علاقہ"حیفان" سے تھا 12جو " كورة انصا" کے قریب کا علاقہ تھا 13اور یہ علاقہ دریائے نیل کے مشرقی کنارے پر واقع تھا۔ان دونوں بہنوں کی پرورش مصر کے قدیم شہر میں ہوئی تھی اور اس کے بعد یہ دونوں اسکندریہ کے سردار کے محل میں چلی گئیں تھیں۔حضرت ماریہ
شکل وصورت کے اعتبار سے نہایت وجیہ اور خوبصورت خاتون تھیں۔ 14حضرت حاطب
نے مصر سے مدینہ منورہ واپسی پر حضرت ماریہ
اور آپ
کی ہمشیرہ کو اسلام کی دعوت پیش کی جسے برضا و رغبت تسلیم کر کے دونوں بہنوں نے اسلام قبول کر لیا ۔15
حضرت حاطب جیسے ہی مدینہ تشریف فرما ہوئے تو تمام تحائف لے کر آپ
کی خدمت میں براہ راست حاضر ہو گئے۔آپ
نے حضرت ماریہ قبطیہ
کو اپنے لیے جبکہ آپ
کی ہمشیرہ حضرت سیرین
کو حسان بن ثابت
کے لیے منتخب فرمایا۔ 16 حضرت ماریہ
نے اس کے بعد ایک مخلص مسلمان خاتون کی طرح آپ
کے زیر سرپرستی نہایت خوشگوار زندگی گزاری۔آپ
اگرچہ کہ ان کوآزاد فرما کر آپ
سے نکاح کرنا چاہتے تھے لیکن اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد جس میں آپ
کو حکمتاً مزید نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا تھا آپ
نے ان سے نکاح نہیں فرمایا۔ اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالی ہے :
لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَقِيبًا 5217
اس کے بعد آپ کے لئے بھی اور عورتیں (نکاح میں لینا) حلال نہیں (تاکہ یہی اَزواج اپنے شرف میں ممتاز رہیں) اور یہ بھی جائز نہیں کہ (بعض کی طلاق کی صورت میں اس عدد کو ہمارا حکم سمجھ کر برقرار رکھنے کے لئے) آپ ان کے بدلے دیگر اَزواج (عقد میں) لے لیں اگرچہ آپ کو ان کا حُسنِ (سیرت و اخلاق اور اشاعتِ دین کا سلیقہ) کتنا ہی عمدہ لگے مگر جو کنیز (ہمارے حکم سے) آپ کی مِلک میں ہو (جائز ہے)، اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔
حضرت ماریہ قبطیہ آپ
کے ساتھ اس کے بعد بطور باندی کے آخری دم تک رہیں 18 اور انہوں نے حضور
کے ساتھ رہنے کو اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھ کر نہایت خوش و خرم زندگی گزاری ۔آپ
نے ان کےلیے الگ سے رہائش کا انتظام فرمایا اور آپ
ان کے پاس بھی مختلف اوقات میں وقت گزارا کرتے تھے۔ آپ
سے ہی آپ
کے فرزند حضرت ابراہیم
کی ولادت ہوئی ۔ 19
آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم
کی ولادت سے قبل حضرت ماریہ قبطیہ
کا جتنا ممکن ہو سکتا تھا خیال رکھا گیا اور بوقت ولادت آپ
نے ابو رافع
کی اہلیہ حضرت سلمہ
کو ولادت کے معاملات دیکھنے کے لیے بلوایا۔ 20آپ
کے صاحبزادے حضرت ابراہیم
کی ولادت مدینۃ المنورہ کے مضافاتی علاقے ”العالیہ“ میں دو منزلہ مکان جسے اب”مشربہ ام ابراہیم“ کہا جاتا ہےوہاں پر ہوئی۔ 21حضرت ابو رافع
جب صاحبزادے کی ولادت کی خوشخبری لے کر بارگاہ رسالت ماب
میں حاضر ہوئے تو آپ
نے انہیں اور ان کی اہلیہ کو بڑی فیاضی کے ساتھ انعام عطا فرمایا ئے۔ 22
حضرت ابراہیم کی ولادت کے بعد حضرت ماریہ قبطیہ
کی حیثیت ایک آزاد خاتون کی طرح ہو گئی تھی 23اور آپ
کا مقام پہلے کے مقابلے میں زیادہ بلند اور فائق ہو کر امّ ولدکا ہو گیا۔حضرت ابراہیم
کی ولادت کے بعد جبرائیل
آپ
کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ
کو ان الفاظ کے ساتھ سلام پیش فرمایا :
السلام عليك يا أبا إبراهيم 24
آپ پر سلامتی ہو اے ابراہیم کے والد ۔
آپ نے حضرت جبرائیل
کے اس طرح سلام فرمانے کے بعد ہی اپنے صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا۔ ولادت کے بعد آپ
نے اپنے صاحبزادے کی طرف سے ایک مینڈھا ذبح فرمایا اور ان کے سر کے بالوں کا حلق کروا کر اس کے وزن کےبرابر چاندی غریبوں میں تقسیم فرمائی ۔ 25
ولادت کے بعد آپ نے حضرت ابراہیم کی دیکھ بھال اور پرورش کے لیے ایک خاتون امّ بردہ
کا انتخاب فرمایا جو ان کا ہر ممکن طریقے سے خیال رکھا کرتی تھیں۔ کچھ مہینے کے بعد حضرت ابراہیم
بیمار ہوئے تو انہیں کھجور کے ایک باغ میں پہنچا دیا گیا جو ”مشربہ ام ابراہیم“ کے قریب تھا۔حضرت ابراہیم
کی طبیعت جب مزید بگڑنے لگی تو آپ
کو آگاہ کیا گیا۔ آپ
نے یہ خبر سنی تو آپ
شدید رنج و ملال کا شکار ہوگئے۔ اس موقع پر آپ
نے اپنے صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف
کو بلایا تاکہ وہ آپ
کے ساتھ جا سکیں۔آپ
جب وہاں پہنچے تو آپ
نے حضرت ماریہ
سے حضرت ابراہیم
کو لیا۔ اس وقت حضرت ماریہ
نے با ٓواز بلند رونا شروع کر دیا کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ حضرت ابراہیم
اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ آپ
نے حضرت ابراہیم
کو اپنی گود میں لیا تو اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر فرمایا:
يا بني ما أملك لك من الله شيئاً… 26
اے پیارے بیٹے! اللہ پاک کے حکم کے معاملہ میں ہم تمہارے کچھ کام نہیں آسکتے۔۔۔
یہ کہتے ہوئے آپ کی ابرو مبارک پُر نم ہو گئیں اور چشم مبارک سے آنسو بہنے لگے۔ اسی حالت میں حضرت ابراہیم
کا وصال آپ
کے ہاتھوں میں ہوا ۔آپ
نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم
کا بوسہ لیا اور اپنی نمناک آنکھوں کے ساتھ ارشاد فرمایا:
......لا بد منھا حتى يلحق آخرنا أولنا لحزنا عليك حزناً هو أشد من هذا، وإنا بك لمحزونون، تبكي العين ويحزن القلب، ولا نقول ما يسخط الرب. 27
......(اے بیٹے ابراہیم! اگر) یہ معاملہ یقینی نہ ہوتا کہ ہمارے بعد والا ہمارے پہلے والے سے جاملے گا تو ہمارا غم تم پر اس سے بہت زیادہ ہوتا۔اور ہم آپ پر بہت زیادہ غمگین ہیں،آنکھ رو رہی ہے اور دل پریشان ہے لیکن ہم وہ نہیں کہیں گے جس سے ہمارا رب ناراض ہو۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم کوفضل بن عباس
نے غسل دیا اور آپ
نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ 28نماز جنازہ کے بعد انہیں ان کے بھائیوں اور بہنوں کے برابر قبر میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ننھے ابراہیم
کی قبر تدفین کے بعد اوپر سے مٹی کے ساتھ بند کر دی گئی اور اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ 29حضرت ماریہ
نے اپنے صاحبزادے کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہوئے الوداع کہا اور پھر یہ دعا جو آپ
نے اس طرح کے مواقع کےلیے تعلیم فرمائی تھی اسے پڑھا:
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.30
ہم سب اللہ ہی کے (قبضہ میں) ہیں اور ہم سب نے اللہ تعالی کی طرف ہی جانا ہے۔
اپنے صاحبزادے کے وصال کے بعد حضرت ماریہ اپنی بقیہ زندگی معمول کے مطابق گزارنے لگیں لیکن اگلے ہی سال انہیں آپ
کے فراق اور وصالِ پُر ملال کا صدمہ سہنا پڑا۔ آپ
کے بعد مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق
اور ان کے بعد حضرت عمر فاروق
نے آپ
کے تمام اخراجات اور ضروریات کی نہایت احسن طریقے سے کفالت کی اور آپ
کو معاشی طور پر کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہونے دی۔ آپ
کا وصال حضرت عمر
کے دور خلافت میں سن 16 ہجری میں ہوا۔آپ
کی نماز جنازہ حضرت عمر
نے خود پڑھائی اور آپ
کو جنت البقیع میں 31آپ
کے صاحبزادے کے برابر میں سپرد خاک کیا گیا ۔