encyclopedia

ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی الله عنہا

Published on: 07-Dec-2024
image
پیدائش664 عیسویوفات52 ہجریوالدحیی بن اخطبوالدہبرّہ بنت سموالشوہر(۱)سلام بن مشکم (علیحدگی ہوئی)(۲)کنانہ ابن ربیع (جنگ خیبر میں قتل ہوا)(۳)رسول اللہ ﷺ لقب:ام المؤمنینقبیلہ:بنو نضیرمزار مبارکجنت البقیع
LanguagesEnglish

ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی Radi Allah Anha کا اصل نام زینب تھا۔ آپ Radi Allah Anha صفیہ کے نام سے اس وقت مشہور ہوئیں جب حضور Alaihis Salam نے آپ Radi Allah Anha کے ساتھ نکاح فرمایا۔ 1 "صفی" یا "صفیہ" اُس وقت مال غنیمت کے اُس خاص حصہ کو کہا جاتا تھا جسے عمومی تقسیم سے قبل کسی بادشاہ یا فوجی جرنیل کی خدمت میں پیش کیا جاتا۔ 2 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے غزوہ خیبر کے اسیران جنگ میں سے خود حضرت صفیہ بنت حیی Radi Allah Anha کا انتخاب فرمایا تھا 3 اس لئے آپ Radi Allah Anha کو بھی "صفیہ" کہا گیا جس کی تصدیق حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے مروی شدہ روایت بھی کرتی ہے۔

حضرت صفیہ بنت حیی Radi Allah Anha کا نسب

آپ Radi Allah Anha کا پورا نام اور نسب صفیہ بنت حیی بن اخطب بن سعنہ بن ثعلبہ بن عبيد بن كعب بن ابی حبيب تھا۔ آپ Radi Allah Anha کا والد حیی بن اخطب بنو نضیر قبیلہ کا ایک مال دار سردار تھا جس کا نسب حضرت ہارون بن عمران Alaihmas Salam سے ملتا تھا جو حضرت موسی Alaihis Salam کے بھائی تھے۔ 5 آپ Radi Allah Anha کی والدہ کانام برّہ بنت سموال تھا6 جو رفاہ بن سموئیل کی بہن تھیں اور وہ بنوقریضہ قبیلہ کے سردار تھے۔ 7

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے نکاح سے قبل حضرت صفیہ بنت حیی Radi Allah Anha کی زندگی

آپ Radi Allah Anha کا تعلق مدینہ میں بسنے والے ایک یہودی خاندان کے ساتھ تھا۔ آپ Radi Allah Anha کی پیدائش حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان نبوت کے تین برس بعد ہوئی۔یہ یہودی خاندان اللہ تعالی کے آخری پیغمبر کی آمد کا منتظر تھا جن کی آمد وبعثت کے متعلق ان کی مذہبی کتب میں بشارات موجود تھیں۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آمد کی اطلاع پاکر یہودی جن میں حیی بن اخطب بھی شامل تھا اور اپنے قبیلہ کا سردار ہونے کی حیثیت سے نہایت معزز ومحترم بھی تھا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھنے کےلیے اپنے گھر سے نکلا۔ حيی بن اخطب جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھنے کےلیے جانے لگا تو اس کا بھائی یعنی حضرت صفیہ Radi Allah Anha کا چچا بھی اس کے ساتھ تھا ۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ تشریف لے آئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےقبا میں قبیلہ بنو عمر بن عوف کے مکان پر قیام فرمایا ۔ یہ وہ وقت تھا جب حیی بن اخطب اور اس کا بھائی یاسر بن اخطب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ملنے کےلیے گئے۔ سورج غروب ہونے کے وقت وہ دونوں آہستہ آہستہ، تھکی ماندی حالت میں، شکست خوردہ سے گھر کو واپس لوٹے۔ حضرت صفیہ Radi Allah Anha نے انہیں گھر واپسی پر بڑی خوشد لی کے ساتھ خوش آ مدیدکہا اور سلام کیا لیکن وہ دونوں ذہنی طور پر اتنے زیادہ پریشان تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان کے سلام وکلام کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس کے بعد ابو یاسر نے حیی بن اخطب سے سوال کیا کہ کیا اس کے خیال کے مطابق محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں جس کے جواب میں حیی انکار نہ کرسکا اور اس نے تسلیم کیا کہ وہ واقعی اللہ کے سچےنبی اور رسول ہیں ۔ اس کے بعد ابو یاسر نے حیی سے اس کے آئندہ کے عزائم کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں حیی نے واضح طور پر کہہ ڈالا کہ وہ ان پر کبھی بھی اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے ایمان نہیں لائے گا اور مرتے دم تک ان سے اپنی دشمنی جاری رکھے گا۔ 8

کچھ عرصہ کے بعد بنو نضیر کے یہود نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شہید کرنے کی سازش تیا رکی لیکن اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پہلے سے ہی یہودیوں کی اس سازش کے بارےمیں آگاہ فرمادیا۔ چنانچہ قبل اس کے کہ یہودی اپنی سازش کو عملی جامہ پہناتے، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جس جگہ تشریف فرما تھے، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وہ جگہ فوری طور پر چھوڑ دی اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد یہودی قبیلہ بنونضیر کے قلعوں کا مسلمانوں نے محاصرہ کر لیا جو 6 دن تک جاری رہا جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار پھینک ڈالے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کردیا۔ انہوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے درخواست کی کہ ان کی جان بخشی کردی جائے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی اس درخواست کو اس شرط پر قبول فرمایا کہ وہ مدینہ منورہ چھوڑ کر کسی اور طرف چلے جائیں گے اور اپنے ساتھ صرف اپنے اونٹوں پر لے جایا جانے والا اسلحہ اور سامان انہیں لے جانے کی اجازت ہوگی۔ اس طرح یہودیوں کے اس قبیلہ نے مدینہ سے کوچ کیا اور جا کر خیبر اور شام میں مقیم ہوگئے۔ 9

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ نکاح سے قبل آپ Radi Allah Anha کی ازدواجی زندگی

حضرت صفیہ بنت حیی Radi Allah Anha کی شادی پہلے مشہور یہودی شاعر سلام بن مشکم سے ہوئی۔ وہ ایک بڑا شاعر اور بہادر جنگجو تھا لیکن کچھ عرصہ کے بعد دونوں کے درمیان تفریق ہوگئی اور اس کے بعد حضرت صفیہ Radi Allah Anha کی شادی کنانہ ابن ربیع کے ساتھ ہوئی 10 جو نہایت مالدار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے مضبوط ترین قلعہ القموص کا مالک بھی تھا ۔

خیبر میں یہودی مستقل طور پر مسلمانوں کے خلاف حملوں کے لیے لوگوں کو اکساتے رہے اور اس مقصد کے لیے تیار ہونے والے افراد وقبائل کے ساتھ مالی طور پر تعاون بھی کرتے رہے۔ چنانچہ 7 ہجری میں مسلمانوں نے ان کی مسلسل ریشہ دوانیوں سے نجات پانے کےلیے خیبر پر حملہ کر کے ان کے قلعوں کو یکے بعد دیگرے تباہ کرڈالا یہاں تک کہ مسلمان فوج ان کے سب سے آخری اور مضبوط ترین گڑھ القموص تک جاپہنچی۔ اعصاب شکن جنگ کے بعد یہودیوں کا یہ آخری اور مضبوط گڑھ بھی مسلمانوں نے بالآخر اللہ کی مدد سے فتح کر ڈالا اور اس میں موجود کِنانہ سمیت دوسرے یہودیوں کو بھی جنگی اسیر بنالیا۔ جنگ کے بعد کنانہ کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں لایا گیا اور اس سے خیبر میں یہودیوں کی دولت اور خزانوں سے متعلق معلومات حاصل کی گئی جس پر اس نے جواب دیا کہ وہ سب جنگ کی تیاریوں پر خرچ کیا جاچکا ہے لہذا اب اس میں سے باقی کچھ نہیں بچا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ابوبکرRadi Allah Anho ، عمر Radi Allah Anho اور علی Radi Allah Anho اور دوسرے یہودیوں کو کنانہ کے الفاظ پر گواہ بناتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اگر کنانہ کی بات جھوٹ ثابت ہوئی تو اسے بدترین سزاد ی جائے گی۔ اللہ تعالی نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہودیوں کے خزانوں کی موجودگی اور مقامات کے بارے میں آگاہ فرمادیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےحضرت زبیر بن عوام Radi Allah Anho کو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اس مقام کی طرف روانہ فرمایا جہاں خزانے کوچھپایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے یہودیوں کے چھپائے ہوئے خزانے کو نکالا اور اسے لاکر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں پیش کردیا۔ ایک روایت کے مطابق ایک یہودی ثعلبہ ابن سلام نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کواس خزانے کی صحیح جگہ کے بارے میں آگاہ کیا تھا چنانچہ مسلمانوں نے وہ خزانہ وہاں سے ڈھونڈ نکالا اور اس موقع پر کنانہ کو محمد ابن مسلمہ کے حوالہ کیا گیا جنہوں نے اسے اپنے بھائی کے قتل کے بدلہ میں قتل کرڈالا ۔11

اسی جنگ میں قلعہ قموص سے دوسری خواتین کے ہمراہ حضرت صفیہ بنت حیی Radi Allah Anha کو بطور اسیران جنگ کے مسلمانوں نے اپنی تحویل میں لیا۔ 12 ایک دوسری روایت کے مطابق آپ Radi Allah Anha خیبر کے علاقہ شق میں واقعہ قلعہ نزار سے بطور جنگی قیدی کے مسلمان فوج کے ہاتھ آئیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں نے خیبر کے علاقہ شق میں واقع اس قلعہ میں اپنے دوسرے قلعوں کے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوجانے کے بعد اپنی شکست کے خوف سے اپنے بچوں اور خواتین کو اس قلعہ میں منتقل کردیا تھا۔ 13 بحیثیت جنگی اسیر کے حضرت صفیہ Radi Allah Anha کو ابتدا میں حضرت دحیہ کلبی Radi Allah Anho کے حوالہ کردیا گیا تھا لیکن جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حضرت صفیہ Radi Allah Anha کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بنو قریظہ اور بنو نضیر قبیلہ کے حکمران خاندان کی نہایت معزز ومحترم خاتون ہیں جو اپنے خاندانی نسب کے لحاظ سے بھی حضرت ہارون Alaihis Salam کی اولاد میں سے ہیں توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی عزت اور تعظیم میں حضرت دحیہ Radi Allah Anho کو حضرت صفیہ Radi Allah Anha کے عوض مالی بدل دے کر حاصل کیا اور حضرت دحیہ Radi Allah Anho کو مزید اس بات کی اجازت دی کہ وہ اسیران جنگ میں سے جس خاتون کو چاہیں اپنے لیے بطور باندی پسند کرسکتے ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت صفیہ Radi Allah Anha کو اپنی ماتحتی میں لینے کے بعد انہیں سب سے پہلے غلامی سے آزاد فرمایا اور پھر آپ Radi Allah Anha سے نکاح فرمالیا۔ 14

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت صفیہ Radi Allah Anha اور آپ Radi Allah Anha کی عزیزہ کو حضرت بلال Radi Allah Anho کی معیت میں نکاح کے بعد مدینہ منورہ روانہ کیا۔ حضرت بلال Radi Allah Anho نے واپسی کےلیے اس راستہ کا انتخاب کیاجس پر معرکہ خیبر کے نتیجہ میں حضرت صفیہ Radi Allah Anha کے عزیز واقارب کی لاشیں زمین پر بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ اس موقع پر حضرت صفیہ Radi Allah Anha خاموش رہیں جبکہ آپ Radi Allah Anha کی نو عمر عزیزہ یہ منظر دیکھ کر ضبط کے بندھن کو روک نہ پائیں اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ وہ شدت غم سے اس قدر مغلوب ہوئیں کہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو زمین پر بکھرے ہوئے دیکھ کر اپنے چہر ے پر مٹی ملنے لگیں۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حضرت بلال Radi Allah Anho کا علم ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کو سخت نہ پسند فرمایا اور حضرت بلال Radi Allah Anho کی اس عمل پر سخت سرزنش فرمائی اور حضرت صفیہ Radi Allah Anha کی عزیزہ کو تسلی دی اور اس کے غم کو دور کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ 15

دوسری روایت کے مطابق جب حضرت صفیہ Radi Allah Anha کو جنگ کے بعدآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے صحابہ Radi Allah Anhum کو انہیں خیمہ میں لے جانے کا حکم دیا۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان سے ملنے خیمہ میں تشریف لائےتو حضرت صفیہ Radi Allah Anha نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے گدا بچھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئیں۔ ان کے ادب اور معاملات کو دیکھتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے سامنے دو باتیں رکھیں۔ پہلی بات یہ تھی کہ اگر وہ اپنے قبیلہ اور لوگوں میں واپس جانا چاہیں تو جا سکتی ہیں اور دوسرا اختیار یہ تھا کہ وہ اسلام قبول کرکےآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے نکاح فرما کر زوجیت کے شرف سے مشرف ہوجائیں۔ حضرت صفیہ Radi Allah Anha نے اس موقع پر اسلام قبول کرنے کو پسند فرمایا کیوں کہ وہ اپنی نوجوانی کی عمر سے ہی اسلام کو پسند کرتی تھیں اور اپنی مرضی اور رغبت سےآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ نکاح فرمایا اور ام المؤمنین بننے کے شرف سے مزین ہوئیں۔ 16

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کاحضرت صفیہ Radi Allah Anha سے نکاح

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت صفیہ Radi Allah Anha سے خیبر میں نکاح فرمایا اور آپ Radi Allah Anha کی آزادی کو آپ Radi Allah Anha کےلیے مہرقرار دیا۔ 17 حضرت صفیہ Radi Allah Anha کی عمر نکاح کے وقت17 برس تھی۔ 18 جس وقت حضرت صفیہ Radi Allah Anha کا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ نکاح ہوا اس وقت آپ Radi Allah Anhaکی آنکھ کے نیچے ایک زخم تھا۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب حضرت صفیہ Radi Allah Anha سے اس زخم کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے اس کے جواب میں یہ تفصیل بیان کی کہ انہیں ان کے سابقہ شوہر نے اُس وقت مارا جب انہوں نے اپنا خواب اس سے بیان کیا۔ وہ خواب یہ تھاکہ انہوں نے بدر ِکامل(چودہویں کے چاند) کو یثرب سے نکلتے اور ابھرتے ہوئے دیکھا جو بعد میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی گود میں آگرا۔ حضرت صفیہ Radi Allah Anha کے سابقہ شوہر نے جب ان سے یہ خواب سنا تو وہ کہنے لگا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یثرب کے اس بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہو جو ہم سے مسلسل حالت جنگ میں ہے چنانچہ اس بد بخت نے آپ Radi Allah Anha کے چہرے پر ایک زور دار ضرب لگائی جس سے آپ Radi Allah Anha کی آنکھ کے نیچے زخم پیدا ہوگیا جو بعد میں نیلا پڑ گیا تھا اور آپ Radi Allah Anha کے چہرہ پر واضح نظر آتا تھا۔ 19

نکاح کے بعد مدینہ پہنچتے پہنچتے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تین دن لگے جہاں اس نکاح کےلیے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ستو اور کھجور مہمانوں کو پیش کی گئی۔ 20 ابن ہشام کے مطابق مہمانوں کی ضیافت ”الحیس“ کھانے سے کی گئی جو کھجور، گندم کے ستو اور گھی کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ 21 ابن سعد کے مطابق اس دعوت میں مہمانوں کی ضیافت کےلیے ”حریرہ“ پیش کیا گیا جو پنیر،کھجور اور دودھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ 22 حضرت صفیہ Radi Allah Anha کیونکہ بے انتہا خوبصورت تھیں اور آپ Radi Allah Anha کے حسن و جمال کے چرچےانصاری خواتین میں عام تھے اس لئےجب آپ Radi Allah Anha کی آمدکی خبر مدینہ میں عام ہوئی تو وہاں کی خواتین آپ Radi Allah Anha کودیکھنے کےلیے جمع ہوگئیں 23 جبکہ آپ Radi Allah Anha کواس وقت حضرت حارثہ بن نعمان Radi Allah Anho کے گھر ٹھہرایا گیا تھا۔ 24

حضرت صفیہ Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بے پناہ محبت کیا کرتی تھیں جس کا اظہار وہ گاہے بگاہے اپنی زبان سے بھی کیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیمار ہوئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جمیع ازواج Radi Allah Anhum آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے گرد جمع تھیں۔ اسی دوران حضرت صفیہ Radi Allah Anha تشریف لے آئیں اور اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں فرمانے لگیں :

إني واللّٰه يا نبي اللّٰه لوددت أن الذي بك بي. 25
(اے اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam!) میری خواہش ہے کہ اس وقت جو تکلیف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو لاحق ہے یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بجائے مجھے لاحق ہوجائے۔

حضرت صفیہ Radi Allah Anha کا اخلاق وکردار

حضرت صفیہ Radi Allah Anha نہایت عقل مند پاکباز، صابرہ اور شاکرہ خاتون تھیں جو نہایت سخت حالات اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہونے کے باوجود زبان سے کبھی شکو ہ کناں نہیں ہوتی تھیں۔ 26 آپ Radi Allah Anha نہایت رحم دل ہونے کی وجہ سے دوسروں کی غلطیوں پر انہیں معاف فرمادیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ Radi Allah Anha کی خادمہ نے خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق Radi Allah Anho کو جا کر آپ Radi Allah Anha کے بارے میں غلط شکایت کی جسےا بن حجر العسقلانیRehmatullah Alaih نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:

أن جارية لها أتت عمر فقالت : إن صفية تحب السبت وتصل اليهود، فبعث إليها فسألها عن ذلك، فقالت: أما السبت فإني لم أحبه منذ أبدلني اللّٰه به الجمعة، وأما اليهود فإن لي فيهم رحما، فأنا أصلها، ثم قالت للجارية: ما حملك على هذا؟ قالت: الشيطان. قالت: اذهبي، فأنت حرة. 27
ان (حضرت صفیہ Radi Allah Anha ) کی خادمہ خلیفہ وقت حضرت عمر Radi Allah Anho کے پاس آئیں اور کہا: صفیہ (Radi Allah Anha ) کو آج بھی یوم السبت (ہفتہ کے دن ) سے محبت ہے اور اب بھی آپ Radi Allah Anha کا بہت قریبی تعلق یہودیوں کے ساتھ ہے ۔حضرت عمر Radi Allah Anho نے حضر ت صفیہ Radi Allah Anha سے اس شکایت کی صداقت کے بارے میں جاننے کےلیے آپ Radi Allah Anha کے پاس پیغام بھجوایا ،حضرت صفیہ Radi Allah Anha نے جواب میں ارشاد فرما یا کہ میں اب یوم السبت کو اس لیے ناپسند کرتی ہوں کہ اللہ تعالی نے اس کے مقابلہ میں مجھے کہیں بہتر دن یعنی یوم الجمعہ عطا فرمایا ہے جب کہ اپنے یہودی عزیز واقارب سے ملاقات کے حوالہ سے میں یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ میرے سارے رشتہ دار یہودی الاصل ہیں (لہذا ان سے میری ملاقات یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ہے)۔ اس کے بعد حضرت صفیہ Radi Allah Anha نے اپنی اس خادمہ سے پوچھا کہ تجھے میرے بارے میں اس بدگمانی اور شکایت پر کس چیز نے اکسایا؟ خادمہ نے جواب دیا کہ شیطان نے۔ آپ Radi Allah Anha نے (اسےسزا دینے کے بجائے ) فرمایا :جاؤ، تم آزاد ہو۔

آپ Radi Allah Anha نہایت سخی وفیاض خاتون تھیں۔ آپ Radi Allah Anha اپنی شادی کے بعد جب مدینہ تشریف لائیں توتحفہ کے طور پر آپ Radi Allah Anha نے سونے کی بالیاں حضرت فاطمہ Radi Allah Anha اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی جمیع ازواج مطہرات Radi Allah Anhum کو پیش فرمائیں۔آپ Radi Allah Anha نے اپنے سابقہ گھرکو فروخت کرکے اس کی تہائی رقم اپنے یہودی بھانجے جبکہ بقایا دو تہائی اہل مدینہ کے لیے صدقہ کردی۔ 28 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دنیا سےظاہری پردہ فرماجانے کے بعد آپ Radi Allah Anha ہمیشہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شفقتوں اور عنایتوں کا تذکرہ کیا کرتی تھیں۔ آپ Radi Allah Anha نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وصال کے بعد اپنی باقی ماندہ زندگی اللہ تعالی کے ذکر وعبادت میں بسر کی۔ البتہ ہمیشہ آپ Radi Allah Anha کی یہ خواہش رہی کے آپ Radi Allah Anha کے ساتھ اہل ایمان کا رویہ اور برتاؤ ویسا ہی رہے جیسے دوسری ازواج مطہرات Radi Allah Anhum کے ساتھ ان کا تھا۔ اس حوالہ سے کتب سیرت میں یہ واقعہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ مسلمان فوج نے دشمن کے علاقے فتح کرنے کے بعد جو مال غنیمت حاصل کیا اس میں سے حضرت عمر Radi Allah Anho نے حضرت جویریہ Radi Allah Anho اور حضرت صفیہ Radi Allah Anho کے علاوہ تمام ازواج مطہرات Radi Allah Anhum کے لیے بارہ ہزار(12000)دراہم کا وظیفہ متعین فرمایا جبکہ ان دونوں ازواج مطہرات کو بارہ ہزار(12000) کے بجائے فی کس چھ ہزار (6000)دراہم دئے جس پر انہوں نے شدید اعتراض کرتے ہوئے اس وظیفہ کو لینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر Radi Allah Anho نے یہ کہہ کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ باقی ازواج مطہرات Radi Allah Anhum کو زیادہ وظیفہ دینے کا سبب ان کا مہاجر ہونا ہے لیکن حضرت جویریہ Radi Allah Anha اور حضرت صفیہ Radi Allah Anha نے فرمایا کہ انہیں یہ رقم ان کے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ازدواجی رشتے سے منسلک ہونے کی وجہ سے دی گئی ہےلہذا ہمارا بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ اصل تعلق ان کی شریک حیات ہونے کا ہے چنانچہ حضرت عمر Radi Allah Anho نے آپ Radi Allah Anha کی پیش کردہ توضیح کو قبول فرماتے ہوئے ان کےلیے بھی بارہ ہزار (12000) دراہم کا وظیفہ مقرر فرمایا۔ 29

حضرت عثمان Radi Allah Anho کے محاصرہ کے دوران آپ Radi Allah Anha کا کردار

حضرت صفیہ Radi Allah Anha نے حضرت عثمان Radi Allah Anho کے دور خلافت میں پیدا ہونے والے شدیدسیاسی بحران کو ختم کرنے اور بغاوت کو فروکرنے کےلیے اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ آپ Radi Allah Anha نے حضرت عثمان Radi Allah Anho کے محاصرہ کے دوران ان تک اپنے خچر پر بیٹھ کر جانے اورپہنچنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی لیکن اشتر نے بزور آپ Radi Allah Anha کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ Radi Allah Anha واپس لوٹ کرچلی جائیں۔ 3031اس کے بعد آپ Radi Allah Anha نے اپنے اور حضرت عثمان Radi Allah Anho کے گھر کے مابین لکڑی کا ایک نالہ بنا کر کوشش کی کہ کسی طریقہ سے آپ Radi Allah Anha حضرت عثمان Radi Allah Anho اور ان کے اہل خانہ کو پانی اور خوراک پہنچا سکیں۔ 32 آپ Radi Allah Anha حضرت عثمان Radi Allah Anho کی شہاد ت سے قبل ان کی ہر ممکن مدد ومعاونت کی مسلسل کوشش کرتی رہیں جس کی وجہ سے انہیں کئی بار تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

وصال

آپ Radi Allah Anha کا وصال 52 ہجری میں حضرت امیر معاویہ Radi Allah Anho کے دور حکومت میں ہوا۔ 33 آپ Radi Allah Anha کی نماز جنازہ حضر ت سعید بن عاص Radi Allah Anho نے پڑھا ئی34 اور آپ Radi Allah Anha کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔ آپ Radi Allah Anha کا نام کتب احادیث میں بھی مذکور ہے کیوں کہ آپ Radi Allah Anha نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے دس احادیث کو روایت کیا ہے۔ 35


  • 1  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1996م، ص: 428
  • 2  ابو الفضل محمدبن مكرم ابن منظور الافریقی، لسان العرب، ج-14، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان،1414ھ، ص: 462
  • 3  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1996م، ص: 430
  • 5  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 210
  • 6  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 160
  • 7  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 95
  • 8  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 519
  • 9  ایضاً، ج-2، ص: 190- 191
  • 10  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 160
  • 11  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 672- 673
  • 12  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، السیرۃ النبویۃ وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: 304
  • 13  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 668- 669
  • 14  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 3497، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 600
  • 15  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 673- 674
  • 16  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:97
  • 17  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:285
  • 18  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج-11، مطبوعۃ: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاھرۃ، مصر، 2004م، ص: 147
  • 19  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 336
  • 20  ایضاً، ص: 646
  • 21  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق ، ج-1،مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:285
  • 22  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:97
  • 23  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج-11، مطبوعۃ: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاھرۃ، مصر، 2004م، ص: 147
  • 24  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 211
  • 25  ایضاً، ص: 212
  • 26  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 211
  • 27  ایضا : 211-212
  • 28  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:102
  • 29  ابو بكر احمد بن الحسين البيهقی، السنن الکبرٰی، حدیث: 12997، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 569
  • 30  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج-11، مطبوعۃ: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاھرۃ، مصر، 2004م، ص: 147
  • 31  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 212
  • 32  ایضاً
  • 33  ایضاً
  • 34  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 444
  • 35  السيد الجميلى، نساء النبي صلى الله عليه وآله وسلم، مطبوعۃ: دار ومكتبة الهلال، بيروت، لبنان، 1416ھ، ص: 115

Powered by Netsol Online