Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!
اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ حبیبہ کا اصل نام رملہ بنت ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف بن قصی تھا۔1 بعض مورخین کا خیال ہے کہ آپ
کا اصل نام ہند تھا2 لیکن زیادہ تر اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ
کا اصل نام رملہ تھا۔3آپ
کی پیدائش حضور
کے اعلان نبوت سے تقریبا 17 برس پہلے ہوئی۔4 آپ
حضرت امیر معاویہ
کی ہمشیرہ اور حضرت ابو سفیان
کی صاحب زادی تھیں۔5 آپ
کی والدہ کا نام صفیہ بنت عبد عاص تھا۔ 6
حضرت اُمّ حبیبہ پہلے عبید اللہ بن جحش جو حضرت زینب بنت جحش
کے بھائی تھے ان کے ساتھ بیاہی ہوئی تھیں۔7 آپ
اور ان کے شوہر نے آپ
کے اعلان نبوت کے بعد شروع ہی میں اسلام قبول کر لیا تھاپھر قریش مکہ کے مظالم سے بچنے کے لیے حبشہ کی طرف دوسری ہجرت میں شریک بھی ہو ئے تھے۔8
حبشہ ہجرت فرمانے کے بعد آپ کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی جس کا نام حبیبہ رکھا گیا۔ چنانچہ اپنی اس بیٹی کی نسبت سے آپ
اُمّ حبیبہ مشہور ہو گئیں۔ 9 کچھ عرصے کے بعد جب انہیں یہ پتہ چلا کہ عمر بن الخطاب اور حمزہ ابن عبدالمطلب
اسلام قبول کر چکے ہیں تو اب انہیں لگا کہ مکہ مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بن چکی ہوگی اسی لیے بہت سارے مسلمان مکہ واپس ہو گئے تاہم اُمّ حبیبہ
اوران کے شوہر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حبشہ میں ہی مقیم رہے۔ کچھ عرصے کے بعد آپ
نے خواب میں دیکھا کہ آپ
کے شوہر بہت ہی بری حالت و کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اُمّ حبیبہ
کا یہ خواب اس وقت سچا ثابت ہو گیا جب آپ
کو اس بات کا پتہ چلا کہ آپ
کے شوہر نے اسلام ترک کر کے عیسائیت کو بطور مذہب کے قبول کر لیا ہے۔آپ
نے جب اپنے شوہر سے اس بارے میں استفسار کیا تو اس نے کہا کہ اس نے بہت سارے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے اور عیسائیت کو ان میں سب سے بہترین پایا ہے لہذا اس نے عیسائیت قبول کرلی ہے۔اس کے بعد عبید اللہ بن جحش نے بڑی کوشش کی کہ آپ
بھی اسلام ترک کر کے عیسائیت اختیار کر لیں لیکن آپ ایک سچی مومنہ کی حیثیت سے اسلام پر قائم و دائم رہیں۔ 10آپ
نے ان کو اپنے خواب سے بھی آگاہ کیا جس میں آپ نے اسے بری حالت میں دیکھا تھا لیکن اس نے یہ بات سن کر کوئی توجہ نہیں دی۔آپ
نے پھر اس کو اسلام اختیار کرنے کی تاکید کی اور سمجھایا کہ عیسائیت اس کے لئے نقصان کا باعث ہوگئ مگر وہ نہیں مانا۔ 11 یہ وہ وقت تھا جب اپنے شوہر کے اس غلط فیصلے کی وجہ سے آپ
پر غم و الم کا پہاڑ گر پڑا تھا۔آپ
کو اپنے شوہر کے حوالے سے یہ بات سمجھ میں نہیں ا ٓسکی کہ آخر اتنی تکالیف اور مشقت برداشت کرنے کے بعد اس نے اسلام کو کیوں چھوڑا کیونکہ اگر اسے عیسائیت ہی اختیار کرنی تھی تو وہ بآسانی مکہ مکرمہ میں ٹھہر سکتا تھا کیونکہ قریشِ مکہ عیسائیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعرض اور انہیں تکلیف میں مبتلا کرنے والے نہیں تھے۔
حضرت اُمّ حبیبہ کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ حبشہ میں یہ تھا کہ وہ بحیثیت مسلمان کے اپنے عیسائی شوہر کے ساتھ کسی بھی صورت میں قیام نہیں کر سکتی تھیں۔ لہذا ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ باقی نہیں رہا کہ وہ اس سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ آپ
کے سابقہ شوہر عبید اللہ بن جحش کے بارے میں آتا ہے کہ بعد میں اس کا انتقال کثرتِ شراب نوشی کے باعث ہوا۔12
حضرت اُمّ حبیبہ نے جب اپنی بیٹی پر نظر ڈالی تو سوچا کہ وہ مکہ واپس چلی جائیں لیکن وہاں مسئلہ یہ تھا کہ خود آپ
کے والد ابو سفیان اُس وقت اسلام کے کھلے دشمن تھے اور آپ
کسی بھی صورت میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں۔ دوسری طرف آپ
کا سسرال بھی حبشہ میں تھا لہذا ان کا وہ گھر جو مکہ میں تھا وہ خالی اور غیر آباد تھا۔ ایسی صورتحال میں مکہ مکرمہ واپس جانا آپ
کے لیے کسی بھی صورت میں موزوں نہیں تھا چنانچہ آپ
نے حبشہ ہی میں قیام فرمایا اور اللہ کے حضور بہتری کے لیے دعا فرمائی۔
اپنے سابقہ شوہر عبید اللہ کے ارتداد اور انتقال کے فوری بعد حضرت اُمّ حبیبہ نے ایک خواب دیکھا جس میں اس بات کی واضح علا مات اور اشارے موجود تھے کہ آپ
کے ساتھ نبی کریم
جلد ہی نکاح فرما لیں گے۔ 13 آپ
کا یہ خواب جلد ہی سچا ثابت ہو گیا کیونکہ آپ
نے حضرت عمر و بن امیہ
کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ حضرت اُمّ حبیبہ
کا نکاح آپ
کے ساتھ کر دیں۔14شاہ حبشہ نجاشی کے لیے یہ بڑے ہی اعزاز کی بات تھی کہ حضور
نے اپنے حوالے سے اسے یہ ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کام کے نتیجے میں اسے اس بات کا بھرپور یقین تھا کہ مسلمانوں اور حبشہ کے تعلقات آپس میں مزید مضبوط ہوں گے۔
حضرت اُمّ حبیبہ کی عدت کے ختم ہونے پر شاہ حبشہ نے آپ
کی خدمت میں ایک خادمہ بھیجی جس نے آپ
کو آپ
کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغام سے آگاہ کیا۔ اس پیغام کو سن کر حضرت اُمّ حبیبہ
بہت ہی خوش ہوئیں اور آنے والی شاہ حبشہ کی خادمہءِ خاص کے لیے خصوصی طور پر دعا فرمائی۔آپ
نے اس کو اپنے چاندی کے دو ہار اور چاندی کی ایک انگوٹھی بطور تحفے کے بھی دی۔اس خادمہ نے حضرت اُمّ حبیبہ
سے کہا کہ شاہ حبشہ نے آپ
سے عرض کی ہے کہ آپ
کسی شخص کو اپنا وکیل بنا لیں تاکہ وہ آپ
کی نیابت میں آپ
کا نکاح حضور
سے کر دیں 15 چنانچہ اُم ّحبیبہ
نے خالد بن سعید العاص
کو اپنا وکیل مقرر فرما کر انہیں آپ
سے نکاح کرنے کی اجازت دے کر بھیجا۔ 16 شاہ حبشہ نے حضرت اُمّ حبیبہ
کےنکاح کی محفل کا انعقاد کیا جس میں اس نے حبشہ میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو مدعو کیا۔تمام مسلمان حضرت جعفر بن ابی طالب اور خالد بن سعید بن العاص
کی قیادت میں اس باوقار تقریب میں شریک ہوئے۔جب تمام شرکائے محفل پہنچ چکے تو نجاشی نے درج ذیل خطبہ دیا :
الحمد اللّٰه الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار، أشھد أن لااله الا اللّٰه وأن محمدا عبده ورسوله وأنه الذى بشر به عيسى ابن مريم عليه السلام۔ 17
تمام تعریفیں اس ذات کےلیے ہیں جو بادشاہت کے قابل ہے بزرگی والا ہے،سلامتی والا ہے، امن والا ہے، عزتوں والا ہے، عظمت والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ پاک کا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ،اور یہ وہی رسول ہیں جن کی خوشخبری عیسی بن مریمنے دی۔
اس خطبہ کے بعد شاہ حبشہ نے اس محفل میں کھڑے ہو کر حاضرین کو آگاہ کیا کہ آپ نے تحریری طور پر ان سے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ وہ اُمّ حبیبہ
کا نکاح آپ
کے ساتھ کر دیں چنانچہ آپ
کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ اُمّ حبیبہ
کانکاح آپ
کے ساتھ00 4 دینار مہر کے عوض کرنے پر راضی ہے جسے خالد بن سعید
نےدلہن کے وکیل کے طور پر قبول فرمایا۔18نکاح اور شادی کی اس تقریبِ سعید کے بعد جب لوگ جانے لگے تو شاہ حبشہ نے کہا کہ تمام انبیاء کرام
کے ہاں یہ روایت اور طریقہ کار مُروج رہا ہے کہ جب کبھی وہ نکاح فرمایا کرتے تھے تو اس کے بعد وہ حاضرین کی تواضع کے لے کھانا پیش کیا کرتے تھے اور حاضرین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ پیش کردہ کھانے کو کھا کر جائیں۔چنانچہ اس محفل نکاح میں بھی کھانا مہمانوں کے سامنے رکھا گیا جو مہمانوں نے خوشی کے ساتھ تناول فرمایا ۔ 19
دوسرے دن نجاشی نے اپنی خادمہ خاص کو اپنی بیویوں کی طرف سے اُمّ حبیبہ کے پاس قیمتی تحائف کے ساتھ بھیجا۔ بیش قیمت ان تحائف میں عنبر اور دوسری عطریات بھی شامل تھیں۔ حضرت اُمّ حبیبہ
نے شاہ حبشہ کے گھرانےکی طرف سے بھیجے ہوئے ان تحائف کو قبول فرمایا اور پھر فوری طور پر استعمال کرنے کے بجائے انہیں حفاظت کے ساتھ اپنے پاس یہ سوچ کر رکھ لیا کہ جب وہ مدینہ منورہ میں رسول کریم
کے گھر پر تشریف لے جائیں گے تو ان تحائف کو اپنے ساتھ لے جائیں گی۔ 20 آپ
نے حبشہ میں فتح خیبر تک قیام فرمایا۔ اس کے بعد حضور
نے عمر بن امیہ الضمری
کو اپنا سفیر بنا کر نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ نجاشی سے حبشہ میں مقیم تمام مہاجرین کو واپس مدینہ منورہ بھیجنے کا انتظام کرسکیں کیونکہ مسلمان اب مدینہ منورہ میں اچھی خاصی قوت وہ طاقت اختیار کر چکے تھے۔ نجاشی نے سفیر ِرسول
کی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے مسافروں کو واپس مدینہ منورہ لے جانے کے لیے دو بحری جہازوں کا انتظام بھی اپنی طرف سے کیا۔ 21 یہ مسلمان جب مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت اُمّ حبیبہ
کو امّ المومنین کے مقام، شرف اور عزت سے نوازا گیا۔آپ
نےحضرت اُمّ حبیبہ
کے لیے دوسری ازواج مطہرات کے حجروں کے برابر میں ایک حجرہ تعمیر فرما یا جہاں آپ
نےحضور
اور اپنی صاحبزادی کے ساتھ نہایت خوشگوار زندگی گزاری۔
حضرت اُمّ حبیبہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ
نے نبی کریم
سے کئی احادیث کو روایت فرمایا۔آپ
سے ان احادیث کو روایت کرنے والوں میں آپ
کی صاحبزادی حبیبہ
، آپ
کے دو بھائی حضرت امیر معاویہ اور حضرت عتبہ
،آپ
کے بھتیجے عبداللہ بن عتبہ بن ابی سفیان
اور ابو سفیان بن سعید بن المغیرہ بن الاخنس الثقفی
جو آپ
کے بھانجے تھے، شامل ہیں۔ ان کے علاوہ آپ
کے دو آزاد کردہ غلام سالم بن سوال اور ابو الجراح
نے بھی آپ
سے احادیث روایت فرمائی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ام سلمہ، عروہ ابن زبیر، ابو صالح السمان
اور دوسرے کئی صحابہ کرام
نے آپ
سے حضور
کی احادیث طیبہ کو روایت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ۔22
قریش مکہ نے جب مسلمانوں کے ساتھ کئے ہوئے صلح حدیبیہ کے ،معاہدہ کو توڑا تو انہیں اس کے برے عواقب و نتائج کا خوف دامن گیر ہوا ۔ لہذا انہوں نے ابو سفیان کو مدینہ منورہ بھیجا تاکہ وہ آپ کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات کوبحال یا حل کر سکیں لیکن وہ آپ
کو اس بات پر قائل نہیں کر سکا۔چنانچہ وہ اپنی صاحبزادی حضرت اُمّ حبیبہ
کے پاس گیا تاکہ وہ اس معاملے میں ان کی طرف سے ان کی سفارش یا مداخلت کر کے معاملے کو حل کروا سکے حالانکہ گزشتہ 15 برسوں سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ 23 ابو سفیان حضرت اُمّ حبیبہ
کے حجرہ مبارکہ میں داخل ہوا اور عمومی طور پر جس طرح مہمان ا ٓکر گھر میں بیٹھتے ہیں اسی طرح اس نے بھی براہ راست ا ٓکر اس جگہ بیٹھنے کی کوشش کی جو آپ
کی جائے خاص تھی۔ اُمّ المومنین حضرت اُمّ حبیبہ
نے جب اس منظرکو دیکھا تو آپ
نے وہاں بچھے ہوئے گدّے کو اپنے والد ابو سفیان کے نیچے سے کھینچ کر اسے تہہ کر دیا اور اسےاس گدّے پر بیٹھنے نہیں دیا۔ابو سفیان نے اپنی صاحبزادی کا یہ رویہ دیکھ کر ان سے اس کی وجہ پوچھی تو آپ
نے اسے جواب دیا کہ یہ وہ گدّا ہے جس پر آپ
تشریف فرما ہوتے ہیں اور ایک مشرک اس پر بیٹھے یہ انہیں گوارہ نہیں چاہے وہ ان کا والد ہی کیوں نہ ہو۔یہ بات سن کر ابو سفیان کہنے لگا کہ لگتا ہے کہ اُن پر اثراتِ بَد ہو گئے ہیں اور پھر وہ وہاں سے اٹھا اور واپس چلا گیا ۔24حضرت اُمّ حبیبہ
کا یہ طرز عمل کے اپنے مشرک والد کو آپ
کے فرش اور گدّے پر بیٹھنے نہیں دیا یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ
کے دل میں آپ
کے لیے اعلی درجے کی محبت، عظمت اور رفعت شان موجود تھی۔ابو سفیان کے اسلام لانے کے واقعات میں اس واقعے کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے کیونکہ اس نے اپنی آنکھوں سے خود اپنی صاحبزادی اور دوسرے مسلمان رشتہ داروں کو آپ
کا بے مثال ادب و احترام کرتے ہوئے دیکھا تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر بالآخر وہ مسلمان ہو گیا۔
حضرت اُمّ حبیبہ کو جب یہ بات محسوس ہوئی کہ اب ان کا وقتِ وصال ا ٓچکا ہے تو انہوں نے تمام اُمہات المومنین
کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ ان کے ساتھ زندگی میں اپنے تعلقات کے حوالے سے ہر چیز کو واضح اور صاف کر سکیں۔انہوں نے ان تمام ازواج مطہرات
سے اپنی دانستہ و غیر دانستہ غلطیوں پر معافی طلب کی اور خود اپنی طرف سے ان میں سے ہر ایک کو تمام چھوٹے بڑے معاملات پر جن سے کبھی بھی ان کی دل آزاری ہوئی تھی دل سے معاف فرما دیا۔ 25 آپ
کا وصال 44 ہجری میں اس حالت میں ہوا 26 کہ آپ
کے چہرہ اقدس نہایت پرسکون اور مطمئن تھا۔ آپ
کا وصال حضرت امیر معاویہ
کے دور حكومت میں ہوا اور آپ
کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔ 27