Encyclopedia of Muhammad

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی الله عنها

Published on: 06-Nov-2024
undefined
تاریخ پیدائش:580/596 عیسویرحلت:61 ہجری.والد:ابو امیہ سہیل بن المغیرہوالدہ:عاتکہ بنت عامرشوہر:(۱)عبداللہ بن عبدالاسد (ابو سلمہ) رضی اللہ عنہ(۲) رسول اللہ ﷺاولاد:سلمہعمر رضی اللہ عنہزینب رضی اللہ عنہارقیہ (درّہ) رضی اللہ عنہالقب :ام المؤمنینقبیلہ:بنو مغیرہمزار مبارک:جنت البقیع
LanguagesEnglish

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ sym-6 کا اصل نام ہند بنت ابی امیۃ sym-6 تھا۔ 1ام سلمہ آپ sym-6کی کنیت تھی جس سے آپ sym-6مشہورہوئیں۔ حضرت ابو عمر sym-5 کے مطابق آپ sym-6 کا اصل نام ”رملہ“ تھا2لیکن اکثر علماء کےمطابق آپ sym-6 کا اصل نام” ہند“ ہی تھا۔ 3آپsym-6حضرت خالد بن ولید sym-5 کی چچا زاد بہن تھیں۔4 آپ sym-6کثیر احادیث مبارکہ کی راویہ بھی ہیں۔

نام و نسب

حضرت ام سلمہ sym-6 کا پورا نام و نسب ہند بنت ابی امیہ بن المغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم تھا۔ 5 آپ sym-6 کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ تھا۔6 آپsym-6 کے والد مکہ کے مشہور مخیر اور فیاض انسان تھے اور ”زاد الراکب“ کے لقب سے مشہور تھے۔ 7 آپ sym-6 کے والد کی عادت تھی کہ اپنے ساتھ سفر کرنے والے کاروان کو اپنے مال سے کھانا کھلاتے تھے ۔8

نبی کریم sym-1 کے ساتھ نکاح سے قبل

ابتداً حضرت ام سلمہ sym-6 ابو سلمہ sym-5 کے نکاح میں تھیں جن کا اصل نام عبداللہ بن عبدالاسد sym-5 تھا۔ عبداللہ بن عبدالاسد sym-5 کا تعلق قبیلۂ بنو ہلال سے تھا۔9 آپsym-1 اور عبداللہ بن عبدالاسد sym-5 آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے کیونکہ دونوں کی رضاعی والدہ حضرت ثویبہ sym-6 تھیں۔ 10

اپنے عالی نسب کے علاوہ حضرت ام سلمہ sym-6 اور ابو سلمہ sym-5 ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ 1112 ان سے پہلے صرف حضرت ابو بکرsym-5، حضرت علی sym-5اور کچھ دیگر افراد مسلمان ہوئے تھے۔ جب دونوں نے اسلام قبول کیا تو قریش مکہ نےانہیں تکالیف پہنچانی شروع کردیں لیکن یہ دونوں میاں بیوی استقامت کے ساتھ دین اسلام پر قائم رہے۔ آپsym-1 کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے زوجین نے حبشہ ہجرت فرمائی۔ 1314 جب ان دونوں کو معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ میں معاملات بہتر ہوگئے ہیں تو یہ دونوں مکہ مکرمہ واپس آگئے لیکن قریش کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ایذا رسانی کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے ان ہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ مشرکین مکہ کو جب ان کی ہجرت کی خبر پہنچی تو وہ رکاوٹیں ڈالنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ چنانچہ ام سلمہ sym-6 کے قبیلے بنو مغیرہ کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کردیا اور ابو سلمہsym-5 سے اونٹ کی لگام چھین لی اور ام سلمہ sym-6کو زبردستی واپس قبیلے جانے پر زور دیا۔ اسی کشمکش میں ابو سلمہ sym-5کے قبیلے بنو اسد نے ان کے بیٹے سلمہsym-5کو اپنے قبضہ میں کرلیا۔ اس جھگڑے میں ان کے بیٹے سلمہsym-5کے ہاتھ کا جوڑ بھی الگ ہوگیا لیکن اس کے باوجود بنو اسد سلمہsym-5کو لے گئے۔ 15حضرت ام سلمہsym-6کو ان کے قبیلے والے لے گئے اور حضرت ابو سلمہ sym-5تنہاآپ sym-1 کے پاس مدینہ تشریف لےآئے۔

حضرت ام سلمہ sym-6اپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی کے غم میں نڈھال ہوگئیں۔ وہ روزانہ الابطح کے مقام پر جاتیں اور اپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی میں صبح سے شام تک روتی رہتیں اور اللہ سے اپنی فریاد کرتی رہتیں۔ 16 ایک دن حضرت ام سلمہsym-6کے خاندان میں سے کسی نے ان کو روتے ہوئے دیکھا اور اسے قبیلے کی جانب سے کیے گئے ظلم کا احساس ہوا۔ اس نے قبیلے والوں سے بات کی اور انہیں ان کے شوہر کے پاس لے جانے پر راضی کرلیا۔ جب بنو اسد کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے مثبت قدم اٹھایا اور حضرت ام سلمہ sym-6کے بیٹے سلمہsym-5کو بھی ان کے حوالے کردیا۔ جب آپ sym-6مکہ مکرمہ کے مقام التنعیم پہنچیں تو وہاں آپ sym-6کی ملاقات عثمان ابن ابی طلحہٰ sym-5سے ہوئی جو اس وقت ایمان نہیں لائے تھے۔عثمان sym-5نے ان کی مدد کرتے ہوئے مدینے کی جانب رہنمائی فرمائی۔ جب یہ دونوں قُبا پہنچے تو عثمان sym-5نے ان کو بتایا کہ ان کے شوہر اس گاؤں میں ہیں اور یہ کہہ کر مکہ مکرمہ کی جانب لوٹ گئے۔ حضرت ام سلمہ sym-6اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس گاؤں پہنچیں اور بالآخر ایک سال بعد آپ sym-6اپنے شوہر سے دوبارہ جا ملیں۔ 17

حضرت ام سلمہ sym-6حبشہ ہجرت کرنے والی اور مدینہ ہجرت کرنے والی پہلی خاتون صحابیہ تھیں۔ 18 حضرت ام سلمہ sym-6کے ابو سلمہ sym-5سے چار بچے ہوئے جن کے نام سلمہsym-5، عمرsym-5، زینبsym-6اور درہsym-6تھا۔ 19بعض روایات کے مطابق درہ کا اصل نام رقیہ sym-6تھا۔ 20

حضرت ابو سلمہ sym-5 کا وصال

حضرت ابو سلمہ sym-5 کا شمار ان صحابیوں میں ہوتا ہے جو جنگ بدر میں بہادری کے ساتھ کفار مکہ سے لڑے جس میں اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان فتح یاب ہوئے۔ اس کے بعد ابوسلمہsym-5 نے جنگ احد میں بھی شرکت فرمائی21 اور بہادری کے جوہر دکھائے، لیکن اس جنگ میں انہیں بہت زخم بھی آئے۔22 انہوں نے اپنے زخموں کی بہت دیکھ بھال کی اور دو مہینے کے عرصے میں آپ sym-5 دوبارہ صحت مند ہوگئے اور اگلی جنگ میں اللہ کی راہ میں لڑنےکے لیے تیار ہوگئے۔

4ہجری میں آپ sym-1 نے 150 صحابہ 23 کی جماعت کے ساتھ قبیلۂ بنو اسد سے جنگ کرنے کے لیے ابو سلمہ sym-5کو سپہ سالار بنایا 24 کیونکہ قبیلۂ بنو اسد دوسرے کفارکے ساتھ مدینہ منورہ میں آپsym-1 کو معاذ اللہ شہید کرنے کی تک و دو میں لگے ہوئے تھے۔ حضرت ابو سلمہ sym-5بہت بہادری سے لڑے اور اللہ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ کامیاب و کامران ہوکر آپ sym-5اپنے گھر لوٹے لیکن معرکہ آرائی کے دوران ان کے پرانے زخم دوبارہ تازے ہوگئے25 جن سے انہیں دوبارہ تکلیف شروع ہوگئی۔ آخر کار زخموں کی تاب نہ لاکر آپsym-5شہید ہوگئے۔26آخر ی وقت میں حضورsym-1 آپ sym-5کے بالکل قریب موجود تھے۔ آپsym-1 نے ابو سلمہ sym-5کی روح نکل جانے کے بعد اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھوں کو بند کیا۔27 اس کے بعد آپ sym-1 نے اس طرح ارشاد فرمایا:

«إن الروح إذا قبض تبعه البصر»، فضج ناس من أهله، فقال: «لا تدعوا على أنفسكم إلا بخير، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون»، ثم قال: «اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين، واخلفه في عقبه في الغابرين، واغفر لنا وله يا رب العالمين، وافسح له في قبره، ونور له فيه.28
”جب جان نکلتی ہے تو آنکھیں اس کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔“ اور لوگوں نے ان کے گھر میں رونا شروع کر دیا تو آپ sym-1نے فرمایا:”اپنے لیےاچھی ہی دعا کرو اس لیےکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔“ پھر آپ sym-1نے دعا کی: ”یا اللہ! ابوسلمہ کو بخش دے اور ہدایت والوں میں ان کا درجہ بلند فرما، تو ان کے باقی رہنے والے عزیزوں میں خلیفہ ہو جا اور ہمیں اور ان کو بخش دے۔ اے تمام عالم کے پالنے والے، ان کے لیے قبر میں کشادگی فرما اور اس میں روشنی کر۔“

نبی کریم sym-1 سے ام سلمہ کا نکاح

جب حضرت ام سلمہ sym-6کا نکاح حضرت ابو سلمہ sym-5سے ہورہا تھا تو ان دونوں نے آپس میں عہد کیا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی پہلے اس دنیا سے چلا گیا تو دوسرا شخص دوبارہ نکاح نہیں کرے گا۔ اس عہد کے باوجود ابو سلمہ sym-5نے حضرت ام سلمہ sym-6کو تاکید کی کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد تم ضرور نکاح کرلینا۔ اس کے بعد آپ sym-5نے حضرت ام سلمہ sym-6کے لئے باقائدہ دعا کی کہ اللہ انہیں ان سے بہترشوہر عنایت فرمائے جو انہیں رنج و تکلیف نہ دے۔29جب حضرت ابو سلمہ sym-6شہید ہوگئے اورآپsym-6کی عدت مکمل ہوگئی تو حضرت ابو بکر sym-5نے انہیں پیغام نکاح پہنچایاتا کہ حضرت ابو سلمہ sym-5کی اولاد کی پرورش اپنے ذمہ لے لیں، لیکن حضرت ام سلمہ sym-6نے حضرت ابو بکر صدیق sym-5کو نفی میں جواب دیا۔30 ان کے بعد آپ sym-6کو حضرت عمر بن خطاب sym-5نے نکاح کا پیغام بھجوایا لیکن آپ sym-6نے انہیں بھی نفی میں جواب دیا۔ 31

اس کے بعد آپ sym-1 نے بذات خو د حضرت ام سلمہ sym-6کو نکاح کا پیغام بھجوایا جس پر آپ sym-6بہت خوش ہوئیں لیکن بارگاہ رسالت sym-1 کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے آپ sym-6نے مناسب سمجھا کہ آپsym-1 کے سامنے کچھ گزارشات پیش کی جائیں۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ sym-6نے آپsym-1 کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں اور میری جوان اولاد ہے۔ اس کے علاوہ مزید یہ کہ میں بہت زیادہ غیرت کھانے والی عورت ہوں۔32 اس کے جواب میں آپsym-1 نے ارشاد فرمایا کہ جہاں تک ان کی عمر کا سوال ہے توآپsym-1 کی عمر ان سے زیادہ ہے، اور جہاں تک بچوں کا تعلق ہےتو اللہ اور اس کا رسول sym-1 ان کی دیکھ بھال کے لئے کافی ہیں، اور جہاں تک غیرت کھانے کی بات ہےتو اللہ آپ sym-1 کی دعا کی برکت سے اس معاملے میں ان کی غیرت(دیگر ازواج کے حوالہ سے) کو دور فرمادے گا۔33

اس پیغام کے بعد حضرت ام سلمہ sym-6نے آپ sym-1 کا پیغام نکاح قبول کیا اور شوال کے مہینے میں آپ sym-6کا نکاح ہوگیا۔ 34 مہر کی صورت میں آپ sym-6کو چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک گھڑا اور دو چکیاں عنایت فرمائی گئیں۔ 35 اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہsym-6کے حق میں آپ sym-1 کی دعا قبول فرمائی اور ان کے دل میں دیگر ازواج مطہرات سے الفت پیدا فرمادی۔ آپsym-6آپ sym-1 کے کاشانۂ اقدس میں نہایت آ رام و سکون سے رہنے لگیں اور آپ sym-6کی بیٹی آپsym-1 کی نگہبانی میں پرورش پانے لگیں۔

6 ہجری میں حضرت ام سلمہ sym-6آپ sym-1 کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرنے گئیں جس میں دیگر صحابۂ کرام sym-7بھی شامل تھے۔ راستے میں مشرکین مکہ نے آپ sym-1 کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیااور فی الحال عمرہ کرنے کی اجازت دینے سے منع کردیا۔ حضرت ام سلمہ sym-6نے اس موقع پر بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب آپ sym-1 نے اپنے اصحاب sym-7سے فرمایا کہ اپنے جانوروں کو ذبح کرو اور سر سے بالوں کو اتار لو توبعض اصحاب تذبذب کا شکار ہوگئے اور فیصلے پر عمل کرنے میں شش و پنج میں مبتلا ہوگئے۔ یہ بات آپ sym-1 نے اپنی زوجۂ محترمہ حضرت ام سلمہsym-6سے کہی جس پر آپ نے فرمایا:

......لن يقوموا حتى تنحر بدنك وتدعو حالقك فيحلقك فخرج ففعل ذلك......36
۔۔۔وہ اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک کہ آپ اپنا جانور ذبح نہ کر دیں اور اپنے حجام کو اپنا سر مونڈنے کے لیے نہ بلالیں۔ چنانچہ آپ (sym-1)نے باہر جا کر ایسا ہی کیا۔۔۔

جب مسلمانوں نے آپsym-1 کا یہ عمل دیکھا تو انہوں نے بھی فوراً اپنے اپنے جانور قربان کرنا شروع کردیے اور اپنے سرمنڈوالیے۔37 تمام اصحاب رسول sym-1 کو یہ احساس ہوگیا کہ جو حکم آپ sym-1 نے ارشاد فرمادیا وہ ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔

مرویات

آپsym-6نےکیونکہ تمام ازواج مطہرات میں سب سے طویل عمر پائی تھی اس لئے آپ sym-6نے نبیsym-1 سے باکثرت روایات کو نقل فرمایا اور آپsym-6سے باکثرت صحابہ کرامsym-6 اور تابعین، جن میں عمر، زينب، عامر، مصعب بن عبد الله، نبہان،عبد الله بن رافع، نافع،سفينہ،ابو كثير، حسن، صفيہ بنت شيبہ، ہند بنت الحارث الفراسيہ، قبيصہ بنت ذؤيب، عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، ابو عثمان النہدی، ابو وائل،سعيد بن المسيب، ابو سلمہ، عروة، ابو بكر بن عبد الرحمن،سليمان بن يسار وغیرہ شامل ہیں، نے روایات کو نقل کیا 38 اور بالخصوص واقعہ کربلا کے حوالے سے بیان کردہ آپsym-6کی روایات نہایت مشہور و معروف ہیں۔

رحلت

حضرت ام سلمہ sym-6نے طویل عمر پائی۔ آپ sym-6کا انتقال تمام امہات المؤمنین میں سب سے آخر میں 61 ہجری میں ہوا۔39 آپ sym-6کو جنت البقیع میں دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ دفن کیا گیا۔40


  • 1  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 329
  • 2  أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 3  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 4  أبو عبد الله شمس الدين الذهبي، سير أعلام النبلاء، ج-3، مطبوعۃ: دارالحدیث، القاھرۃ، مصر، 2006م، ص: 467
  • 5  عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 322
  • 6  أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 429
  • 7  عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:326
  • 8  أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 9  محمد بن إسحاق المطلبی،كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویه لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 260
  • 10  شمس الدين محمد بن أبي بكر ابن قيم الجوزيۃ، زاد المعاد في هدي خير العباد، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 81
  • 11  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 181
  • 12  أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 131
  • 13  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 69
  • 14  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 15  أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 258
  • 16  أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 17  ابوالفدا اسماعیل ابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطبعۃ والنشر والتوضیع، بیروت، لبنان، 1976م، ص: 216-217
  • 18  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 19  عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:326
  • 20  عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 645
  • 21  أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 207
  • 22  ابو عبداللہ محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دار الأعلمي، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 340
  • 23  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، السیرۃ النبویۃ من كتاب تاريخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 404
  • 24  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 182
  • 25  ابو الفدااسماعيل ابن كثير الدمشقي، السیرۃ النبویۃ لابن كثير، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفة للطبعة والنشر والتوضيع، بیروت، لبنان، 1976م، ص: 121
  • 26  أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، السیرۃ النبویۃ من كتاب تاريخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 404
  • 27  محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 182
  • 28  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 2130، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:370
  • 29  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 189
  • 30  أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 405
  • 31  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 188
  • 32  محمد بن إسحاق المطلبی،كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویه لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 282
  • 33  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 188
  • 34  محمد بن إسحاق المطلبی،كتاب السیر و المغازی المعروف بسیرۃ النبویه لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 283
  • 35  عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 645
  • 36  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 191
  • 37  ایضاً
  • 38  أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 406
  • 39  ابو عبداللہ شمس الدین الذھبی، سیر الاعلام النبلاء، ج-3، مطبوعۃ: دارالحدیث، القاھرۃ، مصر، 2006م، ص: 472
  • 40  محمد بن حبیب البغدادی، المحبر، مطبوعۃ: دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد الدكن، الهند ، 1942 م، ص: 85

Powered by Netsol Online