ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کا اصل نام ہند بنت ابی امیۃ
تھا۔ 1ام سلمہ آپ
کی کنیت تھی جس سے آپ
مشہورہوئیں۔ حضرت ابو عمر
کے مطابق آپ
کا اصل نام ”رملہ“ تھا2لیکن اکثر علماء کےمطابق آپ
کا اصل نام” ہند“ ہی تھا۔ 3آپ
حضرت خالد بن ولید
کی چچا زاد بہن تھیں۔4 آپ
کثیر احادیث مبارکہ کی راویہ بھی ہیں۔
حضرت ام سلمہ کا پورا نام و نسب ہند بنت ابی امیہ بن المغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم تھا۔ 5 آپ
کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ تھا۔6 آپ
کے والد مکہ کے مشہور مخیر اور فیاض انسان تھے اور ”زاد الراکب“ کے لقب سے مشہور تھے۔ 7 آپ
کے والد کی عادت تھی کہ اپنے ساتھ سفر کرنے والے کاروان کو اپنے مال سے کھانا کھلاتے تھے ۔8
ابتداً حضرت ام سلمہ ابو سلمہ
کے نکاح میں تھیں جن کا اصل نام عبداللہ بن عبدالاسد
تھا۔ عبداللہ بن عبدالاسد
کا تعلق قبیلۂ بنو ہلال سے تھا۔9 آپ
اور عبداللہ بن عبدالاسد
آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے کیونکہ دونوں کی رضاعی والدہ حضرت ثویبہ
تھیں۔ 10
اپنے عالی نسب کے علاوہ حضرت ام سلمہ اور ابو سلمہ
ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ 1112 ان سے پہلے صرف حضرت ابو بکر
، حضرت علی
اور کچھ دیگر افراد مسلمان ہوئے تھے۔ جب دونوں نے اسلام قبول کیا تو قریش مکہ نےانہیں تکالیف پہنچانی شروع کردیں لیکن یہ دونوں میاں بیوی استقامت کے ساتھ دین اسلام پر قائم رہے۔ آپ
کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے زوجین نے حبشہ ہجرت فرمائی۔ 1314 جب ان دونوں کو معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ میں معاملات بہتر ہوگئے ہیں تو یہ دونوں مکہ مکرمہ واپس آگئے لیکن قریش کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ایذا رسانی کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی وجہ سے ان ہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ مشرکین مکہ کو جب ان کی ہجرت کی خبر پہنچی تو وہ رکاوٹیں ڈالنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ چنانچہ ام سلمہ
کے قبیلے بنو مغیرہ کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کردیا اور ابو سلمہ
سے اونٹ کی لگام چھین لی اور ام سلمہ
کو زبردستی واپس قبیلے جانے پر زور دیا۔ اسی کشمکش میں ابو سلمہ
کے قبیلے بنو اسد نے ان کے بیٹے سلمہ
کو اپنے قبضہ میں کرلیا۔ اس جھگڑے میں ان کے بیٹے سلمہ
کے ہاتھ کا جوڑ بھی الگ ہوگیا لیکن اس کے باوجود بنو اسد سلمہ
کو لے گئے۔ 15حضرت ام سلمہ
کو ان کے قبیلے والے لے گئے اور حضرت ابو سلمہ
تنہاآپ
کے پاس مدینہ تشریف لےآئے۔
حضرت ام سلمہ اپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی کے غم میں نڈھال ہوگئیں۔ وہ روزانہ الابطح کے مقام پر جاتیں اور اپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی میں صبح سے شام تک روتی رہتیں اور اللہ سے اپنی فریاد کرتی رہتیں۔ 16 ایک دن حضرت ام سلمہ
کے خاندان میں سے کسی نے ان کو روتے ہوئے دیکھا اور اسے قبیلے کی جانب سے کیے گئے ظلم کا احساس ہوا۔ اس نے قبیلے والوں سے بات کی اور انہیں ان کے شوہر کے پاس لے جانے پر راضی کرلیا۔ جب بنو اسد کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے مثبت قدم اٹھایا اور حضرت ام سلمہ
کے بیٹے سلمہ
کو بھی ان کے حوالے کردیا۔ جب آپ
مکہ مکرمہ کے مقام التنعیم پہنچیں تو وہاں آپ
کی ملاقات عثمان ابن ابی طلحہٰ
سے ہوئی جو اس وقت ایمان نہیں لائے تھے۔عثمان
نے ان کی مدد کرتے ہوئے مدینے کی جانب رہنمائی فرمائی۔ جب یہ دونوں قُبا پہنچے تو عثمان
نے ان کو بتایا کہ ان کے شوہر اس گاؤں میں ہیں اور یہ کہہ کر مکہ مکرمہ کی جانب لوٹ گئے۔ حضرت ام سلمہ
اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس گاؤں پہنچیں اور بالآخر ایک سال بعد آپ
اپنے شوہر سے دوبارہ جا ملیں۔ 17
حضرت ام سلمہ حبشہ ہجرت کرنے والی اور مدینہ ہجرت کرنے والی پہلی خاتون صحابیہ تھیں۔ 18 حضرت ام سلمہ
کے ابو سلمہ
سے چار بچے ہوئے جن کے نام سلمہ
، عمر
، زینب
اور درہ
تھا۔ 19بعض روایات کے مطابق درہ کا اصل نام رقیہ
تھا۔ 20
حضرت ابو سلمہ کا شمار ان صحابیوں میں ہوتا ہے جو جنگ بدر میں بہادری کے ساتھ کفار مکہ سے لڑے جس میں اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان فتح یاب ہوئے۔ اس کے بعد ابوسلمہ
نے جنگ احد میں بھی شرکت فرمائی21 اور بہادری کے جوہر دکھائے، لیکن اس جنگ میں انہیں بہت زخم بھی آئے۔22 انہوں نے اپنے زخموں کی بہت دیکھ بھال کی اور دو مہینے کے عرصے میں آپ
دوبارہ صحت مند ہوگئے اور اگلی جنگ میں اللہ کی راہ میں لڑنےکے لیے تیار ہوگئے۔
4ہجری میں آپ نے 150 صحابہ 23 کی جماعت کے ساتھ قبیلۂ بنو اسد سے جنگ کرنے کے لیے ابو سلمہ
کو سپہ سالار بنایا 24 کیونکہ قبیلۂ بنو اسد دوسرے کفارکے ساتھ مدینہ منورہ میں آپ
کو معاذ اللہ شہید کرنے کی تک و دو میں لگے ہوئے تھے۔ حضرت ابو سلمہ
بہت بہادری سے لڑے اور اللہ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ کامیاب و کامران ہوکر آپ
اپنے گھر لوٹے لیکن معرکہ آرائی کے دوران ان کے پرانے زخم دوبارہ تازے ہوگئے25 جن سے انہیں دوبارہ تکلیف شروع ہوگئی۔ آخر کار زخموں کی تاب نہ لاکر آپ
شہید ہوگئے۔26آخر ی وقت میں حضور
آپ
کے بالکل قریب موجود تھے۔ آپ
نے ابو سلمہ
کی روح نکل جانے کے بعد اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھوں کو بند کیا۔27 اس کے بعد آپ
نے اس طرح ارشاد فرمایا:
«إن الروح إذا قبض تبعه البصر»، فضج ناس من أهله، فقال: «لا تدعوا على أنفسكم إلا بخير، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون»، ثم قال: «اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين، واخلفه في عقبه في الغابرين، واغفر لنا وله يا رب العالمين، وافسح له في قبره، ونور له فيه.28
”جب جان نکلتی ہے تو آنکھیں اس کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔“ اور لوگوں نے ان کے گھر میں رونا شروع کر دیا تو آپنے فرمایا:”اپنے لیےاچھی ہی دعا کرو اس لیےکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔“ پھر آپ
نے دعا کی: ”یا اللہ! ابوسلمہ کو بخش دے اور ہدایت والوں میں ان کا درجہ بلند فرما، تو ان کے باقی رہنے والے عزیزوں میں خلیفہ ہو جا اور ہمیں اور ان کو بخش دے۔ اے تمام عالم کے پالنے والے، ان کے لیے قبر میں کشادگی فرما اور اس میں روشنی کر۔“
جب حضرت ام سلمہ کا نکاح حضرت ابو سلمہ
سے ہورہا تھا تو ان دونوں نے آپس میں عہد کیا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی پہلے اس دنیا سے چلا گیا تو دوسرا شخص دوبارہ نکاح نہیں کرے گا۔ اس عہد کے باوجود ابو سلمہ
نے حضرت ام سلمہ
کو تاکید کی کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد تم ضرور نکاح کرلینا۔ اس کے بعد آپ
نے حضرت ام سلمہ
کے لئے باقائدہ دعا کی کہ اللہ انہیں ان سے بہترشوہر عنایت فرمائے جو انہیں رنج و تکلیف نہ دے۔29جب حضرت ابو سلمہ
شہید ہوگئے اورآپ
کی عدت مکمل ہوگئی تو حضرت ابو بکر
نے انہیں پیغام نکاح پہنچایاتا کہ حضرت ابو سلمہ
کی اولاد کی پرورش اپنے ذمہ لے لیں، لیکن حضرت ام سلمہ
نے حضرت ابو بکر صدیق
کو نفی میں جواب دیا۔30 ان کے بعد آپ
کو حضرت عمر بن خطاب
نے نکاح کا پیغام بھجوایا لیکن آپ
نے انہیں بھی نفی میں جواب دیا۔ 31
اس کے بعد آپ نے بذات خو د حضرت ام سلمہ
کو نکاح کا پیغام بھجوایا جس پر آپ
بہت خوش ہوئیں لیکن بارگاہ رسالت
کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے آپ
نے مناسب سمجھا کہ آپ
کے سامنے کچھ گزارشات پیش کی جائیں۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ
نے آپ
کی خدمت میں پیغام بھجوایا کہ میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں اور میری جوان اولاد ہے۔ اس کے علاوہ مزید یہ کہ میں بہت زیادہ غیرت کھانے والی عورت ہوں۔32 اس کے جواب میں آپ
نے ارشاد فرمایا کہ جہاں تک ان کی عمر کا سوال ہے توآپ
کی عمر ان سے زیادہ ہے، اور جہاں تک بچوں کا تعلق ہےتو اللہ اور اس کا رسول
ان کی دیکھ بھال کے لئے کافی ہیں، اور جہاں تک غیرت کھانے کی بات ہےتو اللہ آپ
کی دعا کی برکت سے اس معاملے میں ان کی غیرت(دیگر ازواج کے حوالہ سے) کو دور فرمادے گا۔33
اس پیغام کے بعد حضرت ام سلمہ نے آپ
کا پیغام نکاح قبول کیا اور شوال کے مہینے میں آپ
کا نکاح ہوگیا۔ 34 مہر کی صورت میں آپ
کو چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک گھڑا اور دو چکیاں عنایت فرمائی گئیں۔ 35 اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہ
کے حق میں آپ
کی دعا قبول فرمائی اور ان کے دل میں دیگر ازواج مطہرات سے الفت پیدا فرمادی۔ آپ
آپ
کے کاشانۂ اقدس میں نہایت آ رام و سکون سے رہنے لگیں اور آپ
کی بیٹی آپ
کی نگہبانی میں پرورش پانے لگیں۔
6 ہجری میں حضرت ام سلمہ آپ
کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرنے گئیں جس میں دیگر صحابۂ کرام
بھی شامل تھے۔ راستے میں مشرکین مکہ نے آپ
کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیااور فی الحال عمرہ کرنے کی اجازت دینے سے منع کردیا۔ حضرت ام سلمہ
نے اس موقع پر بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب آپ
نے اپنے اصحاب
سے فرمایا کہ اپنے جانوروں کو ذبح کرو اور سر سے بالوں کو اتار لو توبعض اصحاب تذبذب کا شکار ہوگئے اور فیصلے پر عمل کرنے میں شش و پنج میں مبتلا ہوگئے۔ یہ بات آپ
نے اپنی زوجۂ محترمہ حضرت ام سلمہ
سے کہی جس پر آپ نے فرمایا:
......لن يقوموا حتى تنحر بدنك وتدعو حالقك فيحلقك فخرج ففعل ذلك......36
۔۔۔وہ اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک کہ آپ اپنا جانور ذبح نہ کر دیں اور اپنے حجام کو اپنا سر مونڈنے کے لیے نہ بلالیں۔ چنانچہ آپ ()نے باہر جا کر ایسا ہی کیا۔۔۔
جب مسلمانوں نے آپ کا یہ عمل دیکھا تو انہوں نے بھی فوراً اپنے اپنے جانور قربان کرنا شروع کردیے اور اپنے سرمنڈوالیے۔37 تمام اصحاب رسول
کو یہ احساس ہوگیا کہ جو حکم آپ
نے ارشاد فرمادیا وہ ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔
آپنےکیونکہ تمام ازواج مطہرات میں سب سے طویل عمر پائی تھی اس لئے آپ
نے نبی
سے باکثرت روایات کو نقل فرمایا اور آپ
سے باکثرت صحابہ کرام
اور تابعین، جن میں عمر، زينب، عامر، مصعب بن عبد الله، نبہان،عبد الله بن رافع، نافع،سفينہ،ابو كثير، حسن، صفيہ بنت شيبہ، ہند بنت الحارث الفراسيہ، قبيصہ بنت ذؤيب، عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام، ابو عثمان النہدی، ابو وائل،سعيد بن المسيب، ابو سلمہ، عروة، ابو بكر بن عبد الرحمن،سليمان بن يسار وغیرہ شامل ہیں، نے روایات کو نقل کیا 38 اور بالخصوص واقعہ کربلا کے حوالے سے بیان کردہ آپ
کی روایات نہایت مشہور و معروف ہیں۔
حضرت ام سلمہ نے طویل عمر پائی۔ آپ
کا انتقال تمام امہات المؤمنین میں سب سے آخر میں 61 ہجری میں ہوا۔39 آپ
کو جنت البقیع میں دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ دفن کیا گیا۔40