encyclopedia

ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی الله عنها

Published on: 16-Nov-2024
image
تاریخ پیدائش:593 عیسویرحلت:20 یا 21 ہجری.والد:جحش بن ربابوالدہ:امیمہ بنت عبدالمطلبشوہر:(۱)حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنھ(۲) رسول اللہ ﷺلقب :ام المؤمنینقبیلہ:قریشمزار مبارک:جنت البقیع
LanguagesEnglishChinesePortugueseDutchNorwegianDanishEspanol

حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anha آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سگی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں۔ 1 آپ Radi Allah Anha کی ولادت حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے اعلان نبوت سے 17 برس قبل ہوئی۔ ابتدا میں آپ Radi Allah Anha کا نام برّہ تھا جو بعد میں بدل کر زینب Radi Allah Anha رکھ دیا گیا۔ 2 آپ Radi Allah Anha شکل و صورت کے لحاظ سے نہایت حسین وجمیل تھیں۔ 3 آپ Radi Allah Anha کی پہلی شادی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کے ساتھ ہوئی۔ حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کے طلاق دینے کے بعد آپ Radi Allah Anha کا نکاح حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ ہوا 4 اس طرح آپ Radi Allah Anha بھی ام المومنین یعنی اہل ایمان کی والدہ کےعظیم و عالی مرتبت شرف و سعادت سے بہرہ ور ہوئیں۔

حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anha کا نسب

آپ Radi Allah Anha کا پورا اسم گرامی زینب بنت جحش بن رئاب بن يعمر بن صبرہ بن مرہ بن كبير بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ تھا۔ 5 آپ Radi Allah Anha کی والدہ کا نام امیمہ بنت عبدالمطلب ابن ہاشم تھا 6 جو رشتہ میں حضور Radi Allah Anha کی سگی پھوپھی تھیں۔ 7

حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anha اور حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کا عقد نکاح

حضرت زید Radi Allah Anho کا پورا نام زید بن حارثہ بن شراحیل تھا۔ آپ Radi Allah Anho کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنو کلب سے تھا۔ آپ Radi Allah Anho کی عمر محض 8 برس تھی جب آپ Radi Allah Anho اپنی والدہ کے ساتھ رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے تشریف لےگئے۔ جب آپ Radi Allah Anho اپنی والدہ کے ساتھ اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو کچھ لوگوں نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے آپ Radi Allah Anho کو اغوا کرلیا۔ ان حملہ آوروں نے آپ Radi Allah Anho کو”سوق عکاظ“ (عکاز کے بازار) میں بطور غلام فروخت کردیا۔ آپ Radi Allah Anho کے خریدار حکیم بن حزام جو حضرت خدیجہ بنت خویلدRadi Allah Anha کے رشتہ میں بھانجے تھے، انہوں نے آپ Radi Allah Anho کو 400 درہم میں خرید کر بطور تحفہ اپنی خالہ یعنی حضرت خدیجہ بنت خویلد Radi Allah Anha کی خدمت میں پیش فرمایا اورحضرت خدیجہ Radi Allah Anha نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سےشادی کے بعد آپ Radi Allah Anho کو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت عالیہ میں بطور ہدیہ پیش فرما دیا۔ 8

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت زید Radi Allah Anho کو آزاد فرما کر اپنا منہ بولا بیٹا بنانے کا اعلان فرمایا جس کی وجہ سے حضرت زید Radi Allah Anho کو زید بن محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کہہ کر پکارا جانے لگا۔ 9 حضرت زید Radi Allah Anho جب شادی کی عمر کو پہنچے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے لیے اپنی پھوپھی زاد بہن یعنی زینب بنت جحش Radi Allah Anha کا انتخاب فرمایا جو کہ نہایت خوبصورت اور باوقار خاتون تھیں۔ حضرت زینب Radi Allah Anha بعض وجوہات کی بنا پر اس رشتہ سے خوش نہ تھیں، اسی طرح آپ Radi Allah Anha کے گھر والے بھی حضرت زید Radi Allah Anho کے سابقہ پسِ منظر یعنی غلامی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس رشتہ سے مطمئن نہ تھے۔ 10 اسی دوران قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کا نزول ہوا:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا 3611
اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نافرمانی کرتا ہے تو یقیناً وہ کھلی گمراہی کا شکار ہوگیا۔

اس آیت کے نزول کے بعد حضرت زینب Radi Allah Anha نے اللہ تعالی کا حکم قبول کرتے ہوئے حضرت زید Radi Allah Anho کے ساتھ نکاح فرمالیا، 12 اس طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی معاشرے کے مختلف طبقات میں موجود سماجی تفاوت کو توڑنے کے لیے خود اپنے گھر سے مثال پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

حضرت زید Radi Allah Anho اور حضرت زینب Radi Allah Anha دونوں ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے دل و جان سے محبت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود دونوں کے درمیان ذہنی طور پر ہم آہنگی نہ ہوپائی جس کے سبب ان کی ازدواجی زندگی کامیابی کی منازل طے نہ کرسکی۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ تھی کہ حضرت زینب Radi Allah Anha باوجود چاہت کے اس بات کو نہ بھلاسکیں کہ حضرت زید Radi Allah Anho آزاد کردہ غلام ہیں جبکہ اپنے بارے میں انہیں اس بات کا احساس چین لینے نہیں دیتا تھا کہ وہ خود عرب کے ایک نہایت معزز و محترم خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ دوسری طرف حضرت زید Radi Allah Anho بھی بطور خاوند اور عرب کے مسلمہ سماجی و معاشرتی اصول کے مطابق اپنی اس آرزو کو دبا نہ سکے کہ وہ اپنے گھر کے سربراہ اور بڑے ہیں چنانچہ ان کے درمیان حجت اور بحث و مباحثہ کا سلسلہ مستقل طور پر جاری رہا یہاں تک کہ ان کے خانگی معاملات بگڑتے چلے گئے۔

اسی دوران قرآن کریم کی آیات کا نزول ہوا جن میں متبنی یعنی منہ بولے بیٹے کی شرعی و قانونی حیثیت کو واضح کرکے یہ بتا دیا گیا کہ اسلام میں متبنی یا منہ بولے بیٹے کی حیثیت حقیقی بیٹے کی نہیں ہے13اور نہ ہی اس کا اپنے منہ بولے باپ کی میراث میں کوئی حصہ بطور شرعی ترکہ کے موجود ہے۔ اللہ تعالی کے اس حکم کا واضح مطلب اور نتیجہ یہ تھا کہ آئندہ حضرت زید Radi Allah Anho کوان کے اصل والد کے نام کے ساتھ پکارا، لکھا اور پڑھا جائے گا۔ یعنی پہلے اگر وہ زید بن محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نام سے پکارے جاتے تھے تو اب انہیں زید بن حارثہ Radi Allah Anho پکارا جائے گا۔ 14

ادھر حضرت زید Radi Allah Anho کے گھر کے معاملات ان کی اہلیہ کے ساتھ مزید خراب ہوتے چلے گئے چنانچہ حضرت زید Radi Allah Anho نے حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے حضرت زینب Radi Allah Anha کو طلاق دینے کی اجازت طلب کی۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے خانگی حالات کی نزاکت بھانپ کر انہیں باہم ایک دوسرے سے جدا ہونے کی اجازت عطا فرمادی۔ ادھر اللہ تعالی نے اپنی حکمت کاملہ کے مطابق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anha کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا۔15 چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی عدت کے مکمل ہونے کا انتظار فرمایا16 اور تکمیلِ مدت کے بعد ان سے نکاح کے لیے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔

حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anha کا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ نکاح

حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anha اس بات پر بے انتہا خوش تھیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے نکاح کرنے کے لیے خود اپنا رشتہ بھیجا ہے چنانچہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تین ہجری میں آپ Radi Allah Anha سے نکاح فرمایا۔ 17 اس موقع پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت زینب Radi Allah Anha کو 400 دراہم بطور مہر پیش کیے 18اور ولیمہ کے لیے ایک بکری ذبح فرما کر دعوت کا اہتمام بھی فرمایا۔ اس موقع پر بعض لوگ ایسے بھی تھے جو دعوت ولیمہ کھانے کے بعد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کاشانہ اقدس پر گفتگو اور مزاح کی غرض سےمزید کچھ وقت کے لیے رک گئے۔ یہ لوگ دعوت ولیمہ کھا کر فارغ ہوچکے تھے اس لیے اب ان کے پاس آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کاشانہ اقدس پر مزید رکنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان مہمانوں کے جانے کے انتظار میں گھر سے دو بار اس امید پر باہر تشریف لائے کہ یہ لوگ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے باہر تشریف لے جانے کو پیغام سمجھ کر وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوجائیں گے لیکن اس کے باجود جب یہ لوگ وہاں سے روانہ نہ ہوئے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ان آیات کا نزول فرمایا:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا 5319
اے ایمان والو! نبیِ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہوجایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقیناً تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِ (اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطہرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ سوال کیا کرو، یہ (ادب) تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لئے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد کبھی بھی ان کی اَزواجِ (مطہرات) سے نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہے۔

اس آیت مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ازواج مطہرات اور عام مسلمان خواتین کو حجاب کا حکم دیا گیا تاکہ ان کی عزت، عفت اور عصمت کی حفاظت کی جاسکے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حضرت زینب Radi Allah Anhaسے نکاح فرمانے کے بعد غیر مسلموں اور منافقوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنے کا بھونڈا الزام لگانے کی کوشش کی 20 لیکن ان کا یہ الزام اس لیے بے بنیاد ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اس پورے واقعہ کی وضاحت میں قرآن حکیم کی ان دو آیات کا نزول فرمایا:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 4021
محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

اور فرمایا:

ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا 522
تم اُن (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن (اس پر ضرور گناہ ہوگا) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anha کا اخلاق و کردار

حضرت زینب Radi Allah Anha انتہائی سخی اور فیاض خاتون ہونے کے ساتھ نہایت بلند کردار خاتون تھیں۔ 23 حضرت عائشہ Radi Allah Anha کےساتھ بعض معاملات پر معمولی اختلافات کے علاوہ آپ Radi Allah Anha نے ہمیشہ حضرت عائشہ Radi Allah Anha کی حمایت و مدافعت فرمائی، بالخصوص واقعہ افک میں آپ Radi Allah Anha حضرت عائشہ Radi Allah Anhaکی عفت و عظمت کی خاطر خود اپنی سگی بہن کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ 24 حضرت عائشہ Radi Allah Anha نے بھی آپ Radi Allah Anha کی اس قدردانی اور عزت افزائی کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے آپ Radi Allah Anha کی تعریف ان الفاظ میں کی:

‌ولم ‌أر ‌امرأة ‌قط خيرا في الدين من زينب، وأتقى لله وأصدق حديثا وأوصل للرحم وأعظم صدقة، وأشد ابتذالا لنفسها في العمل الذي تصدق به وتقرب به إلى اللّٰه تعالى، ما عدا سورة من حدة كانت فيها تسرع منها الفيئة 25
میں نے کوئی ایسی عورت نہیں دیکھی جو دین میں زینب Radi Allah Anha سے بہتر ہو، زیادہ پرہیزگار ہو، بات میں زیادہ سچی ہو، خاندانی رشتوں سے زیادہ جڑی ہو، خیرات میں زیادہ سخی ہو، اور صدقہ و خیرات میں زیادہ اپنے آپ کو وقف کرنے والی ہو۔

حضرت زینب Radi Allah Anha مختلف پیشوں میں بھی مہارت رکھتی تھیں، مثلا چمڑے کی دباغت، موتی پرونا اور سامان تجارت کو نفع پر فروخت کرنا، وغیرہ۔ آپ Radi Allah Anha ان کاموں سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی غرباء میں تقسیم کردیا کرتی تھیں۔ 26 ان کی دریا دلی اور سخاوت کے بارے میں مشہور واقعہ یہ ہے کہ جب آپ Radi Allah Anha کو خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق Radi Allah Anho کی طرف سے 12000 درہم بطور سالانہ وظیفہ پیش کیے گئے تو آپ Radi Allah Anha نے اتنی بڑی رقم فوری طور پر تمام ضرورت مند لوگوں میں تقسیم فرمادی پھر اللہ تعالی سے دعا کی کہ آئندہ برس یہ وظیفہ لینے کے لیے وہ بقید حیات نہ رہیں تاکہ وہ اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ 27 حضرت عائشہ Radi Allah Anha نے حضرت زینب Radi Allah Anha کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہمیشہ ان کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تمام ازواج مطہرات میں سے کوئی بھی سوائے ان کے حضرت عائشہ Radi Allah Anha کے ہمسر نہ تھیں اور نہ ہی کسی کو ان کے علاوہ اس قدر، قدر و منزلت حاصل تھی۔ 28

حضرت زینب بنت جحش Radi Allah Anha کا وصال

حضر ت زینب Radi Allah Anha نے اللہ تعالی سے جو دعا مانگی تھی اللہ تعالی نے اسے قبول فرما لیا اور آئندہ برس کے سرکاری نان و نفقہ کی حصولی سے قبل ہی آپ Radi Allah Anha اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دنیا سے پردہ فرما لینے کے بعد تمام امہات المومنین Radi Allah Anhum میں آپ Radi Allah Anha ہی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پہلی زوجہ محترمہ ہیں جن کا وصال ہوا۔ 29 آپ Radi Allah Anha کے انتقال سے متعلق امام مسلم Rehmatullah Alaih نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی درج ذیل حدیث کو نقل فرمایا ہے:

‌أسرعكن ‌لحاقا ‌بي ‌أطولكن ‌يدا. قالت: فكن يتطاولن أيتهن أطول يدا. قالت: فكانت أطولنا يدا زينب؛ لأنها كانت تعمل بيدها وتصدق 30
تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آملنے والی میری وہ اہلیہ ہوگی جو تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے۔ (حضرت عائشہ Radi Allah Anha) فرماتی ہیں : ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ (پھر) فرماتی ہیں: زینب Radi Allah Anha ہم میں سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور (اس کی اجرت) صدقہ کرتی تھیں۔

تاریخِ وفات

آپ Radi Allah Anha کا انتقال 20 ہجری میں حضرت عمر فاروق Radi Allah Anho کے زمانہ خلافت میں ہوا۔ آپ Radi Allah Anha کی نماز جنازہ حضرت عمر فاروق Radi Allah Anho نے پڑھائی اور آپ Radi Allah Anha کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔ 31 انتقال کے وقت آپ Radi Allah Anha کی عمر 53 برس تھی۔ 32


  • 1  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 80
  • 2  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 201
  • 3  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 80
  • 4  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:283
  • 5  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-7، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ،2000م، ص: 567
  • 6  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 80
  • 7  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي ، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 291
  • 8  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 495
  • 9  ایضا، ص: 496
  • 10  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر، ج-24، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 39
  • 11  القرآن، سورۃ الاحزاب 33: 36
  • 12  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر، ج-24، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 39
  • 13  القرآن سورۃالاحزاب 33: 4 -5
  • 14  محمد بن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4782، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،
  • 15  القرآن سورۃالاحزاب 33: 37
  • 16  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:448
  • 17  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 201
  • 18  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 644
  • 19  القرآن، سورۃالاحزاب 33: 53
  • 20  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:31
  • 21  القرآن سورۃالاحزاب 33: 40
  • 22  القرآن سورۃالاحزاب 33: 5
  • 23  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 119-120
  • 24  محمد بن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4141، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 704
  • 25  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث:2442، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 1071- 1072
  • 26  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 203
  • 27  عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 120
  • 28  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-11، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 202-203
  • 29  ابو عبد الله مالک بن أنس المدنی، موطاامام مالک، ج-6، مطبوعۃ: مؤسسۃ زاید بن سلطان آل نہیان للأعمال الخیریۃ والإنسانیۃ، أبو ظھبی، الإمارات، 2004 م، ص: 123
  • 30  مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 6316، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 1079
  • 31  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 436
  • 32  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-11، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، 1967م، ص: 608

Powered by Netsol Online