encyclopedia

غزوہ خیبر

Published on: 11-Nov-2025
نامِ غزوہغزوۂ خیبرہجری تاریخمحرم الحرام 7 ہجری/ مئی 628 ءمقامخیبر(قع قلعہ بند علاقہ)سببیہودی قبائل کی سازشیں، معاہدہ شکنی اور غطفان قبیلے کے ساتھ اتحاد کر کے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری۔دورانیہتقریباً 15 سے 20 دن تک مختلف قلعوں کا محاصرہ جاری رہا۔لشکرِ اسلام کی تعدادتقریباً 1600 مجاہدین؛ 1400 پیادے اور 200 گھڑسوار۔لشکرِ کفار کی تعدادتقریباً 10مسلمان شہداءتقریباً 15 صحابہ کرامؓ شہید ہوئے۔دشمن کا جانی نقصانتقریباً 93 یہودی مارے گئے۔مالِ غنیمتقلعہ جات، کھجوروں کے باغات، اسلحہ، ساز و سامان، اور زمینوں کا حصہ جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔نتیجہمسلمانوں کی فیصلہ کن فتح، تمام قلعے فتح ہوئے اور یہودیوں نے صلح کی درخواست کی۔اثر و نتائجمدینہ کی شمالی سرحد محفوظ ہوئی، مسلمانوں کی عسکری و معاشی قوت میں اضافہ ہوا، اور یہودی سیاسی طور پر کمزور ہو گئے۔

صلح حدیبیہ کے بعدجب حضرت محمد مصطفیٰSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مشرکینِ مکہ کی طرف سے مطمئن ہوگئے تو سن 7 ہجری، محرم الحرام میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خیبر کے سرکش یہود کی سرکوبی کا ارادہ فرمایا جو مسلسل دشمنانِ اسلام کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرتے اور اُن کے ساتھ ممکنہ تعاون کرتے تھے۔ 1 رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنے ساتھ1600 جانباز لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے 2 جو کہ کئی سارے قلعوں پر مشتمل تھا، 3 جن میں 10 ہزار مسلح جنگجو موجود تھے۔ 4آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اُن پر لشکر کشی فرمائی اور ایک ایک کرکے تمام قلعے فتح کرلیے۔ اس معرکہ میں 93 یہودی جہنم رسید ہوئے اور 15 مسلمان شہید ہوئے۔5 اہل ِ ایمان کو عظیم کامیابی نصیب ہوئی اور بہت سارا مال غنیمت اور وسائل حاصل ہوئے۔ 6

پسِ منظر وسبب

خیبر میں جو یہودی آباد تھے ان میں سے ایک قبیلہ بنو نضیر بھی تھا جسے محمد رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ منورہ سےجلا وطن کیا تھا۔ ان لوگوں نے خیبر میں قیام کر کے اسلام کے خلاف برا بر سازشیں جاری رکھیں ہوئی تھیں۔ غزوہ خندق کا باعث بھی یہی لوگ تھے۔ انہوں نے قریشِ مکہ کو جا کر ورغلایا کہ وہ مدینہ منورہ پر چڑھائی کریں جس میں وہ ان مشرکین کی معاونت کریں گے۔ اس کے بعد یہ یہودی قبیلہ غطفان کے لوگوں کے پاس گئے اور اُنہیں بھی خیبر کی ایک سال کی پیداوار دینے کی شرط پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خلاف جنگ میں شامل ہونے پر آمادہ کر لیا۔7 پھر جب مشرکینِ مکہ نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرلیا تو ان سخت حالات میں ان یہودیوں کا سردار حیی بن اخطب بنوقریظہ کے پاس گیا اور اُنہیں بھی نقضِ عہد اور غدر پر آمادہ کر کے جنگِ احزاب میں قریش مکہ کا ساتھی بنا دیا اور اپنی طرف سے مدد کرنے کا بھر پور یقین دلایا ۔ 8 اسی طرح مستقبل میں بھی قوی خطرہ تھا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئیں اور موقع پا کر قیصرِ روم یا کسریٰ فارس سے مدد لے کر یا مسلمانوں کے دیگر دشمن قبائل کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف چڑھائی کریں۔ اس بناء پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مشرکین مکہ کے ساتھ صلح کر کے ان کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد اس سازشی گروہ کی سرکوبی کا ارادہ فرمایااور ان کے خلاف لشکر کشی فرمائی۔ 9

غزوۂ خیبر میں شریک صحابہ کرام Radi Allah Anhum

جب غزوۂ خیبر کے لیے حضرت محمدمصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے منادی کرائی تو اس مہم جوئی میں شریک ہونے کے لیے کچھ دیہاتی لوگ بھی آگئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو حدیبیہ کے سفر میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےساتھ شامل نہیں ہوئے تھےبلکہ اپنے کاموں میں مشغول ہونے کا عذر کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔اب غزوۂ خیبر میں اُنہیں مالِ غنیمت ملنے کی امیدتھی، اس لیے یہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ غزوۂ خیبر میں جانا چاہتے تھے۔ 10 ادھر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس غزوہ میں ساتھ لے جانے کے لیے صرف اپنے اُن ہی جانباز صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا انتخاب فرمایا جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ حدیبیہ کے سفر میں شریک ہوئے تھے۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے باقی لوگوں کے لیے یہ اعلان فرمایا کہ اُن میں سے صرف وہی لوگ اس سفر میں جاسکتے ہیں جو مالِ غنیمت کے طلب گار نہ ہوں اور جن کے دلوں میں صرف کلمۂ حق کو بلند کرنے کا شوق موجزن ہو۔ 11اس غزوہ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ جانے والے صحابۂ کرام Radi Allah Anhum کی تعداد 1600تھی جن میں سے 1400 پیادے اور 200 گھڑ سوار تھے اور ازواج مطہرات میں سے حضرت ام سلمہ Radi Allah Anha اس سفر میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہمراہ تھیں۔ 12

اہلِ خیبر کی تعداد

خیبر میں تقریباً10 ہزار جنگجو تھےجنہیں اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ اور ناز تھا۔ اُن کے گوشۂ خیال میں بھی یہ نہ تھا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کبھی اُن پرلشکر کشی کریں گے۔ جب اُنہیں بتایا گیا کہ محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تمہارے خلاف حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں تووہ ہر روز نکل کر اپنے لشکر کی صف بندی کرتے تھےاور اپنی عسکری قوت پر اتراتے اور کہتے کہ محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کا لشکرکشی کرنا بہت دور کی بات ہے۔ 13

محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےخادمِ خاص اور نائب

خیبر کے سفر پر روانہ ہوتے وقت حضرت ابو طلحہ Radi Allah Anho نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت کے لیے حضرت ام سلیم Radi Allah Anha کے پہلے خاوند مالک بن نضر کے بیٹے اور اپنی سوتیلی اولاد یعنی حضرت انس بن مالک Radi Allah Anho کو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت کے لئے مختص فرمایا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جہاں بھی فروکش ہوتے تو وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت کے لیے پیش پیش ہوتے تھے۔ 14 اسی طرح مدینہ منورہ میں ایک روایت کے مطابق حضرت نُمیلہ بن عبداللہ لیثیRadi Allah Anho کو 15جبکہ دوسری روایت کے مطابق حضرت سِباع بن عُر فُطہ غطفانیRadi Allah Anho کو نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے نائب ہونے کےشرف سے نوازا گیا۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہنے حضرت سباع بن عرفطہ غطفانیRadi Allah Anho کی نیابت والی روایت کو صحیح ترین قرار دیا ہے۔ 16 اس بات کی تائید حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anho کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہےجس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam غزوہ خیبر کے لیے تشریف لے گئے تب وہ مدینہ منورہ تشریف لائے جہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت سِباع بن عُرفُطہ غطفانیRadi Allah Anho کونائب مقررفر مایا ہوا تھا۔ آپRadi Allah Anhoنے ان کی اقتدا ء میں نمازِ فجر ادا کی جس کی پہلی رکعت میں انہوں نے سورۂ مریم اور دوسری رکعت میں سورۂ مطففین تلاوت فرمائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعدجب اُن سے آپRadi Allah Anho کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپRadi Allah Anho کو خیبر تک جانے کے لیےزادِ راہ دیا۔ 17 البتہ امام زُرقانیرحمۃ اللہ علیہ نے دونوں روایات کے درمیان اس طرح تطبیق کی ہے کہ ممکن ہے کہ پہلے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان دونوں میں سے ایک صحابی کو اپنی جگہ مقرر فرمایاہو پھر کسی وجہ سے اس کی جگہ دوسرے کو متعین کردیا ہو۔ 18

یہودِ مدینہ کامسلمانوں کو تنگ کرنا

مدینہ منورہ میں تاحال جو یہودی موجود تھے انہیں یقین تھا کہ اس غزوے میں بھی مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی اور پہلے کی طرح اب بھی یہود شکست سے دوچار ہوں گے۔ مگر حصولِ عبرت سے عاری یہود ایک مرتبہ پھر اپنی تاریخ دہرانے لگے۔ کئی مسلمان ان کے مقروض تھے۔ انہوں نے مقررہ وقت سے پہلے ہی مسلمانوں سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کر دیا جس پر مسلمانوں نے کچھ مہلت مانگی کیونکہ ان کو یقین تھا کہ اللہ تعالی نے ان سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہوگا اور خیبر سے ان کو مال غنیمت ملے گا جس سے یہ ان کا قرض لوٹا دیں گے۔ لیکن یہود کا مقصد چونکہ صرف پریشان کرنا تھا، اس لیے وہ مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے اسی بات پر مُصر تھے کہ خیبر جانے سے پہلے ہی ہماراقرض واپس کیا جائے جبکہ مسلمانوں کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا۔ 19

محمدرسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حکم عدولی کا انجام

محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے غزوہ خیبر پر نکلنے سے پہلے ایک اعلان یہ بھی کرایا کہ جس کی سواری کمزور ہو یا وہ پریشان حال ہو تو وہ واپس چلا جائے۔ یہ حکم سن کر سوائے ایک آدمی کے تمام کمزور لوگ پلٹ گئے۔ یوں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے غزوے میں جانے والوں کی چھانٹی کردی۔یہ لشکر رات کے وقت اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ اس کمزور آدمی کا گھوڑا ڈر کر بدکا، جس سے وہ آدمی گرپڑا اور اس کی روح پرواز کرگئی۔ جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تمام صورتحال کا علم ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے پوچھاکہ کیا انہوں نے یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ کمزور سواریوں والے اور پریشان حال لوگ واپس چلے جائیں۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے نماز جنازہ کا حکم دیا اور تین بار فرمایا کہ نافرمان شخص کے لئے جنت حلال نہیں۔ 20

عبد اللہ بن ابی منافق کی یہودِ خیبر کو اطلاع

غزوہ خیبر کے موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بن سلول نے اپنے اِک خاص بندے کو خط دے کر خیبر روانہ کیا جس میں اس نے واضح لکھاکہ محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) تم پر لشکر کشی کے لیے آ رہے ہیں ۔ ساتھ اس نے یہ بھی ہدایت دی کہ یہودی اپنا مال و متاع اپنے قلعوں میں محفوظ کر لیں اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے نکلیں۔مزید یہ کہ اس نے ان کو اس بات کا یقین دلایا کہ مسلمانوں کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم ہے اور ان کے پاس خاص اصلحہ بھی نہیں ہے۔21اس خط کی وجہ سے یہود خیبر مسلمانوں کی طرف سےچوکنے ہو گئے۔

یہودخیبر کی بنوغطفان سےمدد کی درخواست

جب یہود خیبر کو عبد اللہ بن اُبی کی طرف سے یہ اطلاع پہنچی کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اُن پر لشکر کشی کے لیے آرہے ہیں تو انہوں نے کنانہ بن ابی حقیق اور ہودہ بن قیس کی قیادت میں 14 افراد پر مشتمل ایک وفد قبیلۂ غطفان کی طرف روانہ کیا۔اُنہوں نے غطفان کے سردار عیینہ بن حصن – جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے– سے ملاقات کی اور ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ کنانہ نے عیینہ سے مدد مانگی اور فتح کی صورت میں ایک سال خیبر کی آدھی پیداوار دینے کا وعدہ کیا۔عیینہ نے یہود کی پیشکش قبول کی اور 4000 جنگجو خیبر کے یہود کی مدد کے لیے بھیجنے پر آمادہ ہوگیا۔ 22

رستےکے لیے راہ نما اور لشکر ِ اسلام کی ترتیب

خیبر جانے کے لیے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے بطورِ راہ نما حضرت حسیل بن خارجہ اشجعی Radi Allah Anho جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے– کو اپنے ساتھ لیا اوراس کے عوض انہیں 20 صاع کھجور دینے کا وعدہ فرمایا۔ 23 اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لشکرِ اسلام کو اس طرح ترتیب دیا کہ مقدمۃ الجیش کی کمان حضرت عکاشہ بن محصن الاسدی Radi Allah Anho کے سپرد کی۔ میمنہ پر حضرت عمر بن خطاب Radi Allah Anhoکو امیر مقرر فرمایا اور میسرہ پر ایک دوسرے صحابی کو متعین فرمایا۔ 24

خیبر کی طرف روانگی

لشکر کو ترتیب دینے کے بعدرسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب صہباء کے مقام پر پہنچے جو خیبر سے قریب تھا تو وہاں عصر کی نماز ادا فرمائی اور ستّو سے کھانا تناول فرمایا۔ مغرب وعشاء کی نمازبھی اسی مقام پر ادا فرمائی۔اس کے بعد حضرت حسیل بن خارجہ Radi Allah Anho کوطلب فرما کر حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کو اس مقام تک لے جائیں جہاں سے مسلمان بنو غطفان اور اہل خیبر کے درمیان حائل ہوجائیں۔انہوں نے حکم کی تعمیل کی اور لشکر ِ اسلام کو لے کر ایسے مقام پر پہنچے جہاں سے متعدد راستے نکل رہے تھے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت حسیل بن خارجہ اشجعی Radi Allah Anho سے آگے جانے والے تمام راستوں کے نام دریافت فرمائے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک راستے کانام حزن، دوسرے کا شاش اور تیسرے کا حاطب ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان تینوں کو مسترد فرمایا۔ اب ایک ہی راستہ رہ گیا تھا جس کا نام مرحب (کشادگی) تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اُسی پر چلنے کا حکم فرمایا۔ 25 اس راستے کو اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عادت مبارکہ تھی کہ ہمیشہ اچھے ناموں کو پسند فرمایا کرتے اور ان سے نیک فال لیتے اور برے ناموں اور بد فالی کو ناپسند فرمایا کرتے۔ چونکہ تین دیگر نام اچھے نہیں تھے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے چوتھے نام کو منتخب فرمایا۔

اس راستے پر چلتے ہوئے لشکرِاسلام وادی رجیع میں جاکر قیام پذیر ہوا۔ یہی وہ جگہ تھی جو بنو غطفان اور خیبر کے درمیان واقع تھی۔ یہاں ٹھہرنے کا مقصد یہ تھا کہ بنو غطفان کو یہودِ خیبر کی مدد کرنے سے روکا جائے۔ 26

قبیلہ بنو غطفان کی واپسی

جب بنو غطفان کو اطلاع ملی کہ محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خیبر پرحملہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئے ہیں تو انہوں نے اپنے تمام جنگجو جوانوں کو اکٹھا کیا تا کہ اہل خیبر کی امداد کے لیے روانہ ہوں۔ جب وہ خیبر کی طرف ایک منزل طے کر چکے تو انہیں پیچھے سے شور سنائی دیا جیسے کسی نے ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دیا ہو۔ انہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں مسلمانوں نے ان کے اہل وعیال کو بے یارو مددگار پاکر ان پر دھاوا نہ بول دیا ہو۔ اس خیال سے وہ لرز اٹھے ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ خیبر کے یہودیوں کی امداد کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے انہیں چاہئے کہ وہ واپس لوٹ کراپنے اہل و عیال کی حفاظت کریں۔ چنانچہ انہوں نے خیبر کے یہودیوں کو ان کے حال پر چھوڑا اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے لوٹ آئے۔ 27

یہودی جاسوس کی گرفتاری

حضرت محمد مصطفیٰSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت عباد بن بشر Radi Allah Anhoکو چند گھڑ سواروں کے ساتھ لشکر کے آگے چلے جانے اور وہاں کے حالات دریافت کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ حضرت عبادRadi Allah Anhoآگے گئے تو اُنہیں ایک یہودی جاسوس ملا۔ اُسےگرفتار کرکے جب چھان بین کی گئی تو وہ کہنے لگاکہ اس کے اونٹ بھاگ گئے ہیں جنہیں ڈھونڈنے کے لیے وہ اِدھر اُدھر گھوم رہا ہے۔ حضرت عبادRadi Allah Anhoنے جب اس کے ساتھ سختی کی تو وہ بولا کہ کنانہ بن ابی الحقیق اور ہوذہ بن قیس اہلِ غطفان کے ہاں مدد لینے گئے تھے، جس کے عوض وہ اہلِ غطفان کو خیبر کی پیداوار سے آدھی کھجوریں دیں گے۔ وہ اسلحے سے لیس ہو کر اپنے جنگجوؤں کے ساتھ خیبر کے قلعوں میں آپہنچے ہیں۔ ان قلعوں میں تقریباً 10 ہزار جنگجو اسلحے سے لیس موجودہیں۔ خیبر کے قلعے بہت بلند و بالا اور بڑے مضبوط ہیں، جنہیں فتح کرنا ممکن نہیں۔ بے شمار اسلحے اور کھانے ، پینے کے سامان کی بہتات ہے۔ ان کی شکست کا کوئی امکان نہیں۔ ان کے قلعوں میں پانی کا وافر ذخیرہ ہے۔ ایسی صورتحال میں ان سے پنجہ آزمائی بے سود ہے۔اس یہودی جاسوس کی یہ جھوٹی داستان سن کر سید نا عباد Radi Allah Anhoکو اندازہ ہوگیا کہ وہ یقیناً یہود کا جاسوس ہے۔ آپRadi Allah Anhoنے جب اس پر مزید سختی فرمائی تو اس نے اپنی جان کی امان پانے کی شرط پر حقیقتِ حال سے آگاہ کیا اور کہنے لگا کہ یہودِ مدینہ کے عبرتناک انجام کی وجہ سے یہودِ خیبر میں خوف و ہراس پھیلا ہواہے۔ ان پر اہلِ ایمان کی دہشت چھا گئی ہے۔ حضرت عباد Radi Allah Anhoاس جاسوس کی یہ ساری باتیں سن کر اسے پکڑ لائے اور رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوبھی خیبر کے اندرونی احوال سے آگاہ کیا۔ سابقہ دی ہوئی امان کے تحت اسے قتل کرنے کے بجائے اس کی مشکیں باندھ کر لشکر میں ہی دھر لیا گیا۔ 28

خیبر کے حدود میں داخل ہوتے وقت رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دعا

جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خیبر کے قریب پہنچے تو صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو رُکنے کا حکم دیا اورپھر یہ دعاپڑھی:

اللهم رب ‌السموات ‌السبع وما اظللنا ورب الأرضين السبع وما أقللن ورب الشياطين وما أضللن، فإنا نسألك خير هذه القرية، وخير أهلها، وخير ما فيها، ونعوذ بك من شر هذه القرية وشر أهلها وشر ما فيها۔29
اللہ! سات آسمانوں اوراُن کے زیرِ سایہ تمام اشیاء کےرب ! اے سات زمینوں اور اُن کی پُشت پر موجود سب چیزوں کے رب! اے شیطانوں اور اُن کی گمراہ کردہ مخلوق کے رب! ہم تجھ سے اس شہر کی بھلائی، اس کے باشندوں کی بھلائی اور جو کچھ اس میں ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور ہم اس گاؤں کے شر سے، اس کے رہنے والوں کے شر سے اور جو کچھ بھی اس میں موجود ہے اُن سب کے شر سےتیری پناہ مانگتے ہیں ۔

یہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عادتِ مبارکہ تھی کہ وہ کسی بھی بستی یا شہر میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ 30 بعد ازاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابۂ کرام Radi Allah Anhumکو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر آگے بڑھنے کا حکم فرمایا۔ اسلامی لشکر آگے بڑھتار ہا یہاں تک کہ خیبر کی بستی کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔ ابھی رات کا اندھیرا تھا تووہاں لشکرِ اسلام نے پڑاؤ ڈالا اور سب نے کچھ دیر آرام کیا۔ 31

یہود کا فرارہوکر قلعہ بند ہونا

خیبر کے یہودیوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ مسلمان ان پر حملہ کرنے کی جرأت کرسکیں گے۔ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اُن کے خلاف لشکر کشی کےارادہ سے نکلنے والے ہیں تو وہ روزانہ اپنے پورے لشکر کو قلعہ سے نکال کر صف بستہ کرتے اور اُسے پوری طرح سےچاق وچوبند دیکھ کر کہتےکہ بھلا محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) ان پرکیسے حملہ کریں گے۔ جس رات اسلام کے جانبازوں کی فوج ان کے علاقہ میں پہنچی اس رات ان پر ایسی نیند مسلط ہوئی کہ طلوع آفتاب تک ان کی آنکھ نہ کھلی۔ وہ نیند کے خمار میں بے سدھ پڑے رہےیہاں تک کہ اس صبح ان کے مرغوں نے بھی اذان نہیں دی۔ 32

جب سورج چڑھے ان کی آنکھ کھلی تو ایک گھبراہٹ ان پر مسلط تھی لیکن وہ حسبِ معمول اپنی کسیاں، کدالیں کندھوں پر اٹھائے اور ہاتھوں میں ٹوکرے، ٹوکریاں پکڑے روز مرہ کے کام کے لیے کھیتوں اور باغات کی طرف روانہ ہوئے ۔ باہر نکلے تو دیکھا کہ اسلام کے مجاہد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قیادت میں ان کے قلعوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیں اور وہ اپنے قلعوں کی طرف بھاگ نکلے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب انہیں سراسیمہ ہو کر پیچھے بھاگتے دیکھا تو اللہ کی بڑھائی بیان کی اور فرمایا کہ خیبر اب اجڑ جائے گا۔33

خیبر کے قلعے

خیبر کا خطہ بنیادی طورپر 3حصوں میں منقسم تھا اور ہر حصہ متعدد قلعوں پر مشتمل تھا۔ پہلا حصہ حصون النطاۃتھا، اس حصے میں قلعہ ناعم، قلعہ صعب اور قلعہ زبیر تھے۔ دوسرا حصہ حصون الشق تھا،اس حصے میں قلعہ ابی اور قلعہ نزارتھے۔ تیسراحصہ حصون الکتیبہ تھا، اس حصے میں قلعہ قموص، قلعہ وطیح اور قلعہ سلالم تھے۔ 34

لشکرِ اسلام کا پڑاؤ اور حضرت حباب کا مشورہ

حضرت محمد مصطفیٰSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے لشکرِ اسلام کے قیام کے لیے یہودیوں کے نطاق کے قلعوں کے قریب اپنے خیمے نصب کروائے۔ حضرت حباب بن منذرRadi Allah Anhoجو خیبر کے یہودیوں کے حوالے سے کافی جان کاری رکھتے تھے، آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر اس جگہ کا انتخاب حکمِ الہی سے ہوا ہے تو پھر کچھ عرض کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رائے ہے اوراس میں مشورہ کی گنجائش موجود ہے تو وہ اپنی رائے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلمانوں کے خیموں کا قلعوں کے قریب ہونا نقصان دے ہوسکتا تھا کیونکہ نطاق کے قلعوں کے تیر انداز بلا کے ماہر تھے اور وہ مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا سکتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کے خیموں کو ایسی جگہ منتقل کریں کہ ان کے تیر بآسانی ان تک نہ پہنچ سکیں۔ثانیا وہ جگہ کھلے میدان کی مانند ہو تاکہ دشمن درختوں کی آڑ لے کر حملہ نہ کرسکے اور پانی کے تالاب بھی وہاں نہ ہوں ۔ 35 آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت حباب Radi Allah Anhoکی رائے کو پسند فرمایا اور محمد بن مسلمہ کو حکم دیا کہ وہ لشکرِ اسلام کے قیام کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کریں۔ چنانچہ محمد بن مسلمہ Radi Allah Anhoنے پورے علاقہ کاجائزہ لینے کے بعد رجیع کی وادی کو لشکرِ اسلام کے قیام کے لیے موزوں سمجھتے ہوئے منتخب کیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس کے بابت آگاہ فرمایا۔ 36

جنگ کا آغاز اور قلعۂ ناعم کا محاصرہ

خیبر کے مختلف قلعوں میں سے سب سے پہلے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قلعہ ناعم کا محاصرہ فرمایا۔اوپر سے تیروں کی بارش ہورہی تھی۔مسلمان بڑی احتیاط سے تیر برسا رہے تھے کیونکہ تیر کم تھے۔ اس کمی کو یوں پورا کیا گیا کہ یہود کی طرف سے آنے والے تیر اُٹھا اُٹھا کر واپس انہی پر برسا دیے جاتے ۔ 37 لڑائی قدرے تھمی تو گرمی کی شدت کی وجہ سے ایک صحابی حضرت محمود بن مسلمہRadi Allah Anhoجاکر قلعۂ ناعم کے سایے میں بیٹھ گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس جگہ کوئی نہیں ہوگا لیکن اوپرسے مرحب یا کنانہ بن ابی الحقیق نامی یہودی نے چکی کا پاٹ گرا دیا جس سے ان کی پیشانی کی جلد کٹ کر نیچے لٹکنے لگی۔ انہیں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس لایا گیا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے دستِ مبارک سے ان کی جلد کو درست فرما کر کپڑے سے باندھ دیا لیکن کچھ وقت بعد حضرت محمود بن مسلمہ Radi Allah Anhaکی اسی زخم سے شہادت واقع ہو گئی۔ 38

عامر بن اکوع Radi Allah Anhoکی شہادت

پہلے دن قتال کے بعد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے پڑاؤ کی جگہ تبدیل کی اور غطفان اور خیبر کے درمیان واقع وادی رجیع میں تشریف لے گئے۔ وہیں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مجاہدین کو قلعوں کی تسخیر کے لیے بھیجتے رہے۔ 39 ایک روز مرحب نامی یہودی قلعے سے باہر نکل کر فدائیان اسلام کو للکار نے لگا۔ مرحب اپنی جرأت و بہادری میں اپناثانی نہ رکھتا تھا۔ وہ غرور وتکبر سے دھاڑتا ہوا باہر نکلا اور تلوار لہرا لہرا کر پکارنے لگا :

قد علمت خيبر أني مرحب
شاكي السلاح بطل مجرب
إذا الحروب أقبلت تلهب. 40
سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ جب جنگیں شعلے بھڑکاتی ہیں تو میں ہتھیار بند، سورما،تجربہ کار اور بہادر ترین شخص کے طور پر سامنے آتا ہوں۔

مرحب کا یہ چیلنج سن کرحضرت عامر بن اکوع Radi Allah Anhoلشکر سے نکل کر شیر کی طرح اس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اسے للکارتے ہوئے کہنے لگے :

قد علمت خيبر أني عامر
شاكي السلاح بطل مغامر. 41
خیبر(میرے بارے میں بھی) خوب جانتا ہے کہ میں عامر ہوں، ہتھیاروں سے لیس، ایک بہادر اور مہم جو مجاہد۔

ان اشعار کو پڑھتے ہوئے حضرت عامر Radi Allah Anho نے مرحب کی دعوت مبارزت قبول کی۔ دونوں کی تلواریں ایک دوسرے کے ساتھ چمکنے لگیں اور وہ ایک دوسرے پر وار کرنے لگے۔ مرحب نے تلوار کا وار کیاجسے حضرت عامرRadi Allah Anhoنے اپنی ڈھال پرروکا اور پھر اُنہوں نے جھٹ سے جھک کر مرحب پر وار کرنا چاہا۔ مگر ان کی تلوار چھوٹی تھی، اس لیے وہ دشمن پر لگنے کے بجائے گھومتی ہوئی خود اُنہیں کو لگی۔ جس سے اُنہیں گہرازخم لگا اور ان کی شہادت واقع ہو گئی ۔

محاصرے کی طوالت

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مقام رجیع ہی میں جلوہ گر تھے اور وہیں سے صحابۂ کرام Radi Allah Anhumکو قلعہ ناعم فتح کرنے کے لیے مسلسل کئی دن تک بھیجتے رہے لیکن قلعہ فتح نہ ہوسکا۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anhoاور حضرت عمر Radi Allah Anhoکی قیادت میں بھی باری باری صحابۂ کرامRadi Allah Anhumبھیجے مگر جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ مجاہدین صبح آتے، دن بھر قلعہ فتح کرنے کے لیے حملے کرتے، مگر فتح پائے بغیر رات ڈھلنے پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں مقام رجیع پر واپس چلے جاتے تھے۔ 42

حضرت علی Radi Allah Anhoکو جھنڈا عطا کرنا

مختلف تدابیر اختیار کرنے کے باوجود جب محاصرہ طول پکڑتا چلا گیا تو ایک رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا کہ اگلے دن وہ اسلام کا عَلم ایک ایسے آدمی کو عطا فرمائیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائے گا۔ اس آدمی کی صفات آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہ بیان فرمائیں کہ وہ آدمی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے محبت کرتا ہوگا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی اس سےمحبت کرتے ہونگے ۔یہ سن کر صحابۂ کرام Radi Allah Anhumمیں سے ہر ایک کی آرزو تھی کہ یہ شرف اسے ہی نصیب ہو۔اگلے دن فجر کی نماز کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت علی Radi Allah Anhoکو طلب فرمایا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حکم پر وہ خدمت میں حاضر ہوئے تو اُن کی آنکھیں آشوبِ چشم کی وجہ سے دُکھ رہی تھیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اُن کی دُکھتی آنکھوں پر اپنا لعاب مبارک لگایا اور دعا فرمائی۔ ان کی آنکھیں اسی وقت اس طرح ٹھیک ہو گئیں جیسے پہلے کبھی دُکھی ہی نہ ہوں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں عَلم تھما کرقلعہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا اور یہ نصیحت فرمائی کہ جہاد وقتال سے پہلے اُن کو اسلام کی دعوت دیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق سے اُنہیں آگاہ کریں کیونکہ اگرایک شخص کو بھی اللہ نے ہدایت نصیب فرمادی تو وہ سرخ اونٹوں سے کہیں زیادہ بہترہے۔ 43

مرحب کا قتل اور قلعہ ناعم کی فتح

حضرت علی Radi Allah Anhoرسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے فتح ونصرت کی دعائیں اور عَلم لے کر لشکرِ اسلام کے ہمراہ قلعہ ناعم کے سامنے تشریف لے گئے۔ یہودیوں میں سب سے پہلے مرحب کا بھائی حارث نکلا۔ اس نے آکر حضرت علی Radi Allah Anhoکو دعوتِ مبارزت دی۔حضرت علی Radi Allah Anhoاس کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلےاور جلد ہی اس کا کام تمام کردیا۔ جو یہودی حارث کے ساتھ قلعہ سے نکلے تھے وہ حارث کو قتل ہوتا دیکھ کر بھاگ نکلے اور قلعہ میں پناہ گزیں ہوگئے۔ 44بعدازاں یہودیوں کا مشہور شہسوار مرحب دھاڑتا ہوا نکلا۔ اس نے اپنے سابقہ رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے حضرت علی Radi Allah Anhoکودعوتِ مبارزت دی۔ حضرت علی Radi Allah Anhoاس کا غرور بھی خاک میں ملانے کے لیے نکلے اور یہ رجزیہ اشعار پڑھنے لگے:

أنا الذي سمتني أمي حيدره
كليث غابات كريه المنظره
أوفيهم بالصاع كيل السندره.45
میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے، میں جنگل كے شیروں کی طرح بڑا خوفناک ہوں، میں انہیں پورا پورا بدلہ چکاتا ہوں، جیسے بھرے پیمانے سے ناپ کر دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد آپ Radi Allah Anhoکا مرحب کے ساتھ مقابلہ ہوا۔ آپ Radi Allah Anhoنےاس پر اپنی تلوار سے بھر پور وار کیا، جس سے اس کا خود کٹ گیا اور سر کے دو ٹکڑے ہوگئے۔46 اس کے بعداسیر نکلا، حضرت محمد بن مسلمہ Radi Allah Anho نے اُسے جہنم رسید کیا۔ پھر مرحب کا بھائی یاسر نکلا اور رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے دعوتِ مبارزت دی۔ حضرت زبیر بن عوام Radi Allah Anho اس کے مقابلے کےلیے نکلے اور اس کو واصل باجہنم کرد یا۔ 47 مرحب اور اس کے بھائیوں کے قتل کے بعد یہودیوں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے مایوس ہوگئے۔ دوسری جانب صحابہ کرامRadi Allah Anho نے سخت حملہ کردیا۔جس سے وہ قلعہ ناعم چھوڑ کر بھاگ نکلے اور قلعہ صعب میں پناہ گزیں ہوگئے۔ یوں مسلمانوں نےقلعۂ ناعم فتح کرلیا۔ 48

قلعۂ صعب کی فتح

قلعۂ ناعم فتح کرنے کے بعد مسلمانوں نے قلعہ صعب کا محاصرہ کیا جو 2 دن تک جاری رہا۔ مسلمان اس دوران بھوک کی شدت سے نڈھال ہونے لگے تھے۔ تیسرے دن قبیلہ اسلم نے اسماء بن حارثہ Radi Allah Anho کو اپنا نمائندہ بناکر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں بھیجا اور بھوک سے نڈھال ہونے کی شکایت کی۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اللہ تعالیٰ سے ایسے قلعہ کی فتح کی دعا مانگی جس میں اشیاءِ خورد ونوش وافر مقدار میں موجود ہوں۔ پھر حضرت حباب بن منذر Radi Allah Anhoکو عَلم دے کر قلعہ فتح کرنے کے لیے بھیجا۔ اس روز یہود کی طرف سے یوشع نامی ایک جنگجو نکلا اور دعوتِ مبارزت دی۔ حضرت حباب بن منذر Radi Allah Anho اس کے مقابلے کےلیے نکلے اور اس کو واصل باجہنم کرد یا۔ پھر دیال نامی ایک اور جنگجو نکلا جسے حضرت عمارہ بن عقبہ Radi Allah Anho نے جہنم رسید کردیا۔ بعد ازاں یہودیوں کی طرف سے اچانک اجتماعی حملہ ہوا۔ اس اچانک حملہ سےمسلمان پیچھے ہٹتے ہٹتے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تک پہنچ گئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے گھوڑے سے اتر کر اپنے صحابہRadi Allah Anhumکو جہاد کی ترغیب دی۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس ترغیب کی بدولت مسلمان دوبارہ سے سنبھل گئے اورآگے بڑھ کرسخت حملہ کیا جس سے یہودی پسپا ہوکر قلعہ کی طرف بھاگ نکلے اور دروازے بندکرنے لگے لیکن مسلمان بھی قلعہ میں داخل ہوگئے اور یہودیوں کو جہنم رسید کرنا شروع کردیا اور جو زندہ بچے اُنہیں قیدی بنالیا۔ 49

مسلمانوں کو اس قلعہ سے جو ذخائر حاصل ہوئے جن میں جو، کھجور، گھی، شہد، تیل، چربی اور دیگر بے شمار اشیاء شامل تھیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حکم سے ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیاکہ خود کھاؤ، جانوروں کو کھلاؤ لیکن کوئی چیز اٹھا کر نہ لے جاؤ۔ اس قلعہ سے مسلمانوں کو یمن سے آئے ہوئے کپڑے کی 20 گانٹھیں دستیاب ہوئیں۔ مختلف قسم کی شرابوں کے مٹکے ملے جن کو توڑ دیا گیا اور شراب بہادی گئی۔ تا نبے اور مٹی کے برتن ملے جن میں یہود کھایا پیا کرتے تھے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان کو دھو کر ان میں کھانے پینے کی اجازت دے دی۔ ان اشیاء کے علاوہ بھیٹر بکریوں کے ریوڑ، گائے کے گلّے اور کثیر تعداد میں گدھے بھی ملے۔مزید یہ کہ ایک یہودی کی نشان دہی پر زیرِ زمین مکان سے اسلحہ دریافت ہوا جس میں منجنیق وغیرہ کی بھی کثیر تعداد تھی۔ 50

قلعۂ زبیر کی فتح

خیبر کی وادی نطاۃ میں تین بڑے قلعے تھے جن میں سے ناعم اور صعب تو مسلمانوں کے قبضہ میں آچکے تھے جبکہ آخری ایک قلعہ حصنِ زبیر باقی تھا۔پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہونے کی وجہ سے پہلے اس قلعہ کو ‘حصنِ قلۃ ’کہاجاتاتھا۔بعد میں حضرت زبیر بن عوام Radi Allah Anhoکے حصے میں آنے کی وجہ سے اسے حصنِ زبیر کہا جانے لگا۔ 51 مسلمانوں نے پہلے 2 قلعے فتح کرنے کے بعد اس قلعے کا محاصرہ کیا جو 3 دن تک جاری رہا۔

ایک یہودی جس کا نام غزال تھا جب اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور یہود کے پاس بچنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں تو وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی اگر حضورSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اسے جان کی امان دیں تو وہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک ایساراستہ بتاسکتا ہے جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنطاق کے سارے قلعوں کو فتح کر کے مطمئن ہو جائیں گے اور اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاہل شق کی طرف متوجہ ہو سکیں گے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کو ، اس کے اہل و عیال اور اس کے اموال کو امان دے دی۔ امان پانے کے بعد اس نے کہاکہ اگر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک مہینہ بھی اس قلعہ کا محاصرہ جاری رکھیں تو یہود کو ذرا پروا نہ ہوگی۔ انہوں نے زیرِ زمین پانی کے لیے سُرنگیں بنا رکھی ہیں۔ رات کی تاریکی میں وہ نکلتے ہیں، پانی سے سیراب ہو کر قلعوں میں واپس آتے ہیں اور تازہ دم ہو کر آپ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان سُرنگوں کو کاٹ دیں تو وہ شدتِ پیاس سے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چنانچہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی سُرنگوں کو کاٹ دیا جس کی وجہ سے وہ باہر نکل آئے اور مسلمانوں سے جنگ شروع کی۔ خوب بہادری کے جوہر دکھائے ۔ کئی مسلمان بھی شہید ہوئے جبکہ 10 یہودی لقمہ اجل بنے۔ بالآخر مسلمانوں نے اس قلعہ کو بھی فتح کر لیا۔ 52یہ نطاق کے قلعوں میں سےآخری قلعہ تھا۔اس سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شق کے علاقہ کے قلعوں کو فتح کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے۔

قلعہ ابی کی فتح

شق کےعلاقہ میں بھی متعدد قلعے تھے۔ سب سے پہلے جس قلعہ کو فتح کرنے کے لئے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam متوجہ ہوئے وہ حصن ابی تھا۔ یہاں کے یہودیوں نے انفرادی لڑائی سے آغاز کیا۔ چنانچہ ایک یہودی سورما جس کا نام عزول تھامیدان میں نکلا اور مسلمانوں کو مقابلہ کے لیے للکارا۔ حضرت حباب بن منذر Radi Allah Anhoاس کے مقابلہ کے لئے نکلے۔ دونوں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔ حضرت حباب Radi Allah Anhoنے اپنی تلوار کے وار سے اس کا دایاں بازو کاٹ دیا۔ اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی ، وہ پیچھے مڑا،تا کہ بھاگ کرقلعہ میں داخل ہولیکن حضرت حباب Radi Allah Anhoنے اسے بھاگنے نہ دیا۔ اس کے پاؤں کو کاٹ ڈالا اور پھر اس کا کام تمام کر دیا۔ اس کے بعد ایک اور یہودی نکلا۔ اس نے بھی دعوتِ مبارزت دی۔ اس کے مقابلہ کے لئے ایک مسلمان مجاہد نکلا لیکن اس یہودی نے اس کو شہید کر دیا اور پھر مد مقابل کے لئے چیلنج دیا۔ اب اس کے مقابلہ کے لئے حضرت ابودجانہ Radi Allah Anhoاپنی شمشیر آبدار لہراتے ہوئے نکلے۔ آپ Radi Allah Anhoنے پہلے وار سے ہی اس کی ٹانگیں کاٹ دیں اور اس کو موت کے گھاٹ اتارکر اس کی تلوار، زرہ اور دوسرا سامان اتار لیا۔ اس کے بعد کسی یہودی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ میدان میں آکر کسی مسلمان کو للکار سکے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئےقلعہ پر حملہ کیا اور اندر داخل ہو گئے۔ حضرت ابودجانہ Radi Allah Anhoان حملہ آور مسلمانوں کی قیادت کر رہے تھے۔ وہاں جتنے یہودی تھے سب بھاگ کھڑے ہوئے اور شق کے دوسرے قلعہ حِصن النزارمیں جا کر پناہ لی۔ 53اس قلعہ سے بھی مسلمانوں کو کثیرتعداد میں بھیڑ، بکریاں، کھانے کی چیزیں اور دیگر ساز وسامان ہاتھ آیا۔

حصن النزار کی فتح

یہ شق کے علاقہ کا دوسرا قلعہ تھا۔ قلعۂ ابی اورنطاق کے تینوں قلعوں کے شکست خوردہ یہودی بھاگ کر اس قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئےتھے۔ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے صحابہRadi Allah Anhumکے ساتھ اس قلعہ پر حملہ کیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی ۔ انہوں نے مسلمانوں پر تیر اور پتھروں کی بوچھاڑ کر دی۔ کئی تیر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لباس کے ساتھ جا کر پیوست ہو گئے ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے مٹھی میں کنکریاں لیکر ان کے قلعے کی طرف پھینکیں جس کے نتیجہ میں قلعہ کی دیواریں لرزنے لگیں۔ مسلمانوں نے ان پر شدید حملہ کیا اور یہودیوں کو جنگی قیدی بناکر قلعہ فتح کرلیا۔ 54

قلعہ قموص کی فتح

نطاق اور شق کے قلعوں کوفتح کر نےکے بعد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کتیبہ کے قلعوں کی طرف متوجہ ہوئے۔کتیبہ کے قلعوں میں حصن القموص سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا۔رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابہ کرام Radi Allah Anhumکےساتھ اس قلعہ کا محاصرہ کیا جو 20دن تک جاری رہا۔ یہ قلعہ آخر کار حضرت علی Radi Allah Anhoکے ہاتھوں فتح ہوا۔اس قلعہ کے بہت سے یہودی مرد و زن کو جنگی قیدی بنالیا گیا۔ اسیر ہونے والی یہودی عورتوں میں حضرت صفیہ Radi Allah Anhaبھی شامل تھیں۔ 55 یہ حیی بن اخطب کی بیٹی اورکنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں۔ اُن کے ساتھ ان کی چچازاد بہن بھی گرفتار ہوئیں۔ 56 رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان دونوں کو حضرت بلال Radi Allah Anhoکے حوالے کیا تانکہ ان کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچایا جا سکے۔ حضرت بلال Radi Allah Anhoلا شعوری طور پر اُنہیں ایسے راستے سےلے کر جانےلگے جہاں یہودیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر حضرت صفیہ Radi Allah Anha کی چچازاد بہن رونے لگیں اور غم سے نڈھال ہونے لگیں۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب اس کی خبر لگی تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت بلال Radi Allah Anhoسےناراضگی کا اظہار فرمایا 57 کہ وہ ان خواتین کو ان کے مقتول مردوں کے پاس سے لے گزرے جو کہ یقیناً ان خواتین کے لئے تکلیف دہ عمل تھا۔

قلعہ و طیح و سلالم

قلعۂ قموص فتح ہونے کے بعد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حصنِ قموص اور حصنِ سلالم کا محاصرہ کیا۔ یہ خیبر میں یہود کےآخری دو قلعے تھے۔ 14 دن تک ان دونوں قلعوں کا محاصرہ جاری رہا لیکن یہودیوں میں سے کوئی جنگ کے لیے باہر نہیں نکلا۔ جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے منجنیق کے ذریعے پتھر برسانے کا ارادہ فرمایا تو اُنہیں اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا اور اُنہیں صلح کرنے میں ہی اپنی عافیت نظرآئی۔ 58 چنانچہ کنانہ بن ابی الحقیق نے ایک آدمی کو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں بھیجا اور اس کے ذریعہ سے عرض کی کہ اگر اجازت ہو تووہ گفتگو کے لئے حاضر ہوجائے۔ جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے اجازت دی تو وہ اپنے قلعہ سے نکل کر بارگاہِ رسالت مابSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں حاضر ہوا اور صلح کی درخواست کی۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کی درخواست قبول فرمائی اور مندرجہ ذیل شرائط پر صلح ہوئی:

  1. رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قلعہ میں مورچہ بند یہودیوں کا خون معاف فرمادیں گے۔
  2. اُن کے بال بچے اُن کے حوالے کردیے جائیں گے۔
  3. یہودی اپنے بال بچوں سمیت خیبر کے قلعوں اور مزروعہ زمین سے نکل جائیں گے۔
  4. یہود سونے چاندی کے سارے زیورات، سواری کے جانور، ہر قسم کا اسلحہ اور کپڑوں کے تھان وغیرہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حوالے کردیں گے۔صرف اتنا کپڑا ساتھ لے جائیں گے جو ان کی پشت پر لدا ہوگا۔
  5. یہود اپنے سامان میں کوئی بھی چیز نہیں چھپائیں گے۔اگر انہوں نے کوئی چیز چھپائی تو اللہ اور اس کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس صلح سے بری الذمہ ہوں گے۔ 59

اس طرح یہ 2 قلعے صلح سے فتح ہوگئے۔ دوسرے قلعوں کے برعکس یہاں جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ ان 2قلعوں سے مسلمانوں کو 100 زرہیں، 400 تلواریں، 1000 نیزے اور 500 عربی کمانیں ترکشوں سمیت مالِ غنیمت کے طور پرمِلیں نیز تورات کے بہت سارے نسخے بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگے جنہیں یہود کی درخواست پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ 60

حیی بن اخطب کے خزانہ کے بارے میں استفسار

صلح کا معاہدہ طے ہونے کے بعد نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کنانہ اور ربیع کو بلاکران سے حیی بن اخطب کے خزانے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ 61انہوں نے کہاکہ جنگوں کے اخراجات کے باعث وہ سارا خزانہ خرچ ہو گیا ہےاور اپنے قول کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انہوں نے شدید قسمیں کھائیں۔ رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں واضح طور پر آگاہ کردیا کہ اگر وہ خزانہ ان کے پاس سے بر آمد ہو گیا تو اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی اور وہ مال مؤمنین کے لئے حلال ہو جائے گا۔ اس بات پر چند مسلمانوں اور یہودیوں کو گواہ بنالیا گیا۔ بعد ازاں سعیہ نے، جو سلام بن ابی الحقیق کا بیٹا تھا، آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک کھنڈر کے بارے میں بتایا کہ وہاں خزانہ مدفون ہے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت زبیر Radi Allah Anhoکو چند مجاہدین کے ہمراہ سعیہ کے ساتھ بھیجا۔ وہاں کھدائی کی گئی تو اونٹ کے چمڑے میں وہ خزانہ دستیاب ہو گیا اور اس میں ان کے سارے زیورات بھی بر آمد ہوگئے۔ جب کنانہ سے مزید تفتیش کی گئی تو اس نے مزید جو کچھ چھپا رکھا تھا وہ سب بھی نکال کر پیش کردیا۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے کنانہ کو محمد بن مسلمہRadi Allah Anho کے حوالہ کیاتا کہ وہ اسے اپنے بھائی کے بدلے میں بطور قصاص کے قتل کرسکیں۔ ادھر ربیع کا سر بھی قلم کیا گیا اور ان کی اولاد کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ اونٹ کے چمڑے میں جو خزانہ ملا، اس میں سونے کے کڑے، سونے کی چوڑیاں، پازیبیں، کان کے آویزے اور جواہرات و زمرد کے ہار اور سونے کی انگوٹھیاں وغیرہ کافی مقدار میں دستیاب ہوئیں۔ 62

حضرت صفیہ Radi Allah Anha کا قبولِ اسلام اور حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ نکاح

اسیرانِ خیبر میں سے ایک حضرت صفیہ Radi Allah Anhaؤ تھیں جن کا تعلق حضرت ہارونAlaihis Salam کے خاندان سے تھا۔ حضرت دحیہ کلبی نےاُنہیں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اجازت سے اپنے لئے منتخب کر لیا تھا لیکن ایک صحابیRadi Allah Anho کی درخواست پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت دحیہ کلبی Radi Allah Anho کو ان سے دستبردار ہو جانے کا حکم دیا۔ 63اس کے بعدآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت صفیہ Radi Allah Anha کو اختیار دیا کہ اگر ان کی مرضی ہو تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamان کو آزاد کر دیں اور وہ اپنے باقی ماندہ رشتہ داروں کے پاس واپس چلی جائیں یا وہ اسلام قبول کرلیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اُنہیں اپنی زوجیت کا اعزاز عطا فرمائیں۔ اُنہوں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دوسری پیشکش کو قبول فرمایا اور رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی زوجیت کے شرف سے مشرف ہو گئیں۔ 64

حضرت ابوایوب انصاری Radi Allah Anho کی بے مثال پاسبانی

جس رات حضرت صفیہ Radi Allah Anhaبارگاہِ رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیں حاضر ہوئیں وہ پوری رات حضرت ابوایوب انصاری Radi Allah Anho نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کےخیمہ کے باہر پہرہ دیتے ہوئے جاگ کر گزاری۔ صبح کوجب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیدار ہوئے اوراُن کے پاؤں کی آہٹ سنی تو اُنہیں بلا کر خیمہ کے ارد گرد چکر لگانے کی وجہ دریافت فرمائی۔ اس پر حضرت ابوایوب انصاری Radi Allah Anho نے وجہ بیان فرمائی کہ یہ خاتون نومسلمہ تھیں اور ان کے باپ ، خاوند اور قوم کو مجاہدینِ اسلام نے قتل کیا تھا۔ انہیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کوئی نقصان نہ پہنچادیں، اس لیے پوری رات وہ خیمہ کے باہر پہرہ دیتے رہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اُن کی اس ادا سے بہت خوش ہوئے اور ان کے لیے حفاظت کی خاص دعافرمائی۔ 65

حضرت محمدSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو زہر دینے کی سازش

جب خیبر فتح ہوا تو زینب نامی ایک یہودن نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو زہر دینے کی سازش کی۔ 66 اس نے بکری کا بھنا ہوا گوشت بطور ہد یہ بارگاہِ رسالت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں پیش کیا۔ اس نے لوگوں سے باقاعدہ معلوم کیا تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو بکری کے کس حصہ کا گوشت زیادہ پسندہے۔ اسے بتایا گیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بکری کے بازو کا گوشت بہت پسند فرماتے ہیں۔ لہذا اس یہودن نےاس بکری کے سارے گوشت میں زہر ملا دیا، لیکن زیادہ زہر بکری کے بازو کے گوشت میں ملایا۔ جب اس بکری کا بھنا ہوا ز ہر آلود گوشت دستر خوان پر رکھا گیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس دستی کواٹھا لیا اور اس کا ایک ٹکڑا تناول فرمایا لیکن چبانے کے بعد فوراً اسے تھوک دیا اور فرمایا اس بازو نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو خبر دی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ اس دسترخوان پرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہمراہ بشر بن براء Radi Allah Anhoاور چند دیگر صحا بہ کرام Radi Allah Anhum بھی موجودتھے۔ حضرت بشر Radi Allah Anhoنے بھی گوشت کاایک ٹکڑا منہ میں ڈالا ، اسے چبایا اور پھر نگل لیا۔ زہر نہایت سخت قسم کا تھا۔ چنانچہ گوشت کے نگلتےہی ان کے چہرہ کی رنگت متغیر ہو گئی اور پَل بھر میں ان کی موت واقع ہوگئی۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے بطور قصاص اس یہودن کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم فرمایا۔ 67

مالِ غنیمت کی تقسیم

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خیبر پر مکمل فتح پانے کے بعد مالِ غنیمت صحابہ کرام Radi Allah Anhum میں تقسیم فرمایا۔ خیبرکے جو قلعےبزورِ قوت فتح ہوئے تھے اُن سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کا خمس نکال کر باقی تمام کا تمام مال مجاہدینِ اسلام میں تقسیم فرمادیاگیا۔ پیدل کو 1 حصہ دیا اور گھڑ سوار کو 2حصے دیےگئے۔ ایک اس کا اور دوسرا اس کے گھوڑے کا۔ 68 جو قلعے بغیرلڑائی کے فتح ہوئے تھے اُن سے حاصل ہونے والا مال ومتاع آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات اور دیگر امورِ خیر کے لیے رکھوا دیا۔

زرعی زمینوں کا انتظام

جب خیبر کے سارے قلعے مسلمانوں نے فتح کر لئے تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے یہودکو یہاں سے چلے جانے کا حکم دیا جس طرح معاہدۂ صلح میں طے پایا تھا۔ اس وقت یہود نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی بارگاہ میں عرض کی کہ انہیں وہیں رہنے دیا جائے تاکہ وہ وہاں کھیتی باڑی اور باغات کی دیکھ بھال کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور بدلے میں جو پیداوار بھی حاصل ہوگی اس میں سے نصف مسلمانوں کو دیں گے۔ چونکہ مسلمانوں کے پاس اتنی تعداد میں غلام نہیں تھے جو یہ کام کرسکیں اس لئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انہیں مشروط اجازت عطا فرمائی کہ جب بھی اہل ایمان چاہیں گے تو یہودیوں کو اس جگہ سے جانا ہوگا۔ 69

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے باغات کے پھلوں اور اجناس کی تقسیم کے لئے حضرت عبداللہ بن رواحہ Radi Allah Anhoکو مقرر فرمایا۔ وہ ہر سال تشریف لے جاتے اور طے شدہ معاہدہ کے مطابق ان اجناس اور پھلوں کو تقسیم کرتے۔ نصف یہود کو دے دیا جاتا اور بقیہ نصف بیت المال کے سپرد کر دیا جاتا۔ ایک سال یہودیوں نے آپRadi Allah Anho کو رشوت دینا چاہی تا کہ غلہ اور زرعی پیداوار کی تقسیم ان کی مرضی کے مطابق کرنے پر آمادہ کر لیا جائے لیکن آپ Radi Allah Anhoنے نہایت سخت الفاظ میں ان کو تنبیہ فرمائی اور یہاں تک کہا کہ یہود ان کی نگاہ میں سب سے ذیادہ مبغوض اور گھٹیا ہیں لیکن وہ تعلیماتِ رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی وجہ سے مجبور ہیں اور ان کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔ آپRadi Allah Anho کا جواب سن کر یہود کہنےلگے کہ ایسے ہی بے لاگ عدل کے باعث آسمان وزمین قائم ہیں ۔ 70

فتح ِ فدک

جب اہلِ فدک کو اس کی اطلاع ہوئی کہ یہودِ خیبر نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ صلح کرلی ہے تو اُن لوگوں نے آنحضرت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ان کی جانوں کو بھی امان دی جائے اوروہ تمام مال واسباب چھوڑ کر وہاں سے جلا وطن ہوجائیں گے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اُن کی یہ درخواست قبول فرمائی۔ چوں کہ فدک بغیر کسی حملہ اور فوج کشی کے فتح ہوا، اس لیے وہ خالص رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے تصرف اور قبضہ میں رہا اور خیبر کی طرح مجاہدین میں تقسیم نہیں ہوا۔ 71

حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anho کی حاضری

جن دنوں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خیبر تشریف لے گئےتھے ان دنوں حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anho اور ان کی قوم کے لوگ اسلام قبول کرکے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے مدینہ منورہ آئے۔ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تو خیبر تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ رات اُنہوں نے مدینہ منورہ میں گزاری اور فجر کی نماز حضرت سباع Radi Allah Anho کی اقتدا میں ادا فرمائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت سباع Radi Allah Anho سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ آپ Radi Allah Anho نے اُنہیں خیبر جانے کے لیے زادِ راہ دیا۔ یہ لوگ خیبر پہنچے تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خیبر فتح کرچکے تھے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے ملاقات ہوئی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مجاہدینِ اسلام سے بات کی اور اُنہیں بھی خیبر کے مال ِ غنیمت میں شریک کر لیا۔ 72

ممنوعاتِ خیبر

خیبر میں صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو مال غنیمت کے طور پر کچھ دراز گوش بھی میسر آئے جنہیں اُنہوں نے کھانے کی نیت سے ذبح کر کےپکانا شروع کردیا۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس کی اطلاع ملی تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےاُس گوشت کے پھینکنے کا حکم دیا اور گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ اسی طرح کچے لہسن کے استعمال سے بھی منع فرما یا۔ 73 مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کسی چیز کے بیچنے سےبھی منع فرمایا ۔ چیر پھاڑنے والے درندوں کا گوشت کھانے سےبھی منع کیا۔ باندی کے استبراء رحم سے پہلے اس کے ساتھ صحبت سے منع فرمایا 74اور متعہ کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا۔ 75

فتح وادی القریٰ وتیماء

فتح ِخیبر کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وادی القریٰ کا رُخ فرمایا۔ وہاں کے لوگوں کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اسلام کی دعوت دی لیکن اُنہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا اور جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ ایک فیصلہ کن معرکہ کے بعد بزورِ بازو وادی القریٰ فتح ہوا ۔ وہاں سے بھی جو مالِ غنیمت حاصل ہوا خمس نکالنے کے بعد باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا گیا۔ وہاں کی زمین وہاں کے لوگوں کے حوالہ کی گئی اور اُن کے ساتھ وہی معاہدہ ہوا جو اہلِ خیبر کے ساتھ ہوا تھا۔ 76اہلِ تیماء کو جب وادی القریٰ کی فتح کا حال معلوم ہوا تواُنہوں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ جزیہ دینے کی شرط پر صلح کرلی۔ 77

مدینہ منورہ واپسی

وادی القریٰ اور تیماء کی فتح کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ واپس ہوئے۔ مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر ایک وادی میں آرام کرنے کی غرض سے نزول فرمایا۔فجر کی نماز کے لیے جگانے کی ذمہ داری حضرت بلال کو سونپی گئی۔ اتفاق سے اُن کی بھی آنکھ لگ گئی اور شدید تھکاوٹ کے باعث پورے لشکر میں سے کسی کی بھی آنکھ نہ کھل سکی ، یہاں تک کہ آفتاب بلند ہوگیا۔ سب سے پہلے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیدار ہوئے اور فوراً صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو جگاکر اس وادی سے کوچ کرنے کا حکم دیا کہ وہاں شیطان ہے۔ اس وادی سے نکل کر آگے گئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے نزول فرماکر حضرت بلال Radi Allah Anho کو اذان کا حکم دیااور نماز ادا فرمائی۔ جب جرف کے مقام پر پہنچے تو رات کا وقت ہوچکا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صحابۂ کرام Radi Allah Anhum کو وہاں رُکنے کاحکم فرمایا اور رات کے وقت اچانک سے گھر میں جانے سے منع فرمایا۔ صبح کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ منورہ میں داخل ہوئے ۔ جب اُحد پہاڑ پر نگاہ مبارک پڑی تو فرمایا کہ یہ پہاڑ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے محبت کرتا ہے اور آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس سے محبت کرتے ہیں 78 یوں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خیبر سے بخیر و عافیت واپسی ہوئی۔


  • 1  الشيخ صفی الرحمن المباركفوري،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 372
  • 2  محمد حسين هيكل، حياة محمد ﷺ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 393
  • 3  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-2، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 106
  • 4  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 48
  • 5  أبو ا لعباس أحمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 341
  • 6  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 174
  • 7  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبی ﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 222-223
  • 8  ابوالفداء اسماعیل بن عمربن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 339
  • 9  محمد حسين هيكل، حياة محمد ﷺ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 393
  • 10  ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 165
  • 11  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 634
  • 12  أبو ا لعباس أحمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 336
  • 13  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 48-49
  • 14  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 12616، ج-20، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:68
  • 15  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 693
  • 16  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-7، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 465
  • 17  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 8552، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 226
  • 18  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 245
  • 19  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 634
  • 20  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 22364، ج-37، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:47
  • 21  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 409
  • 22  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 74
  • 23  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 3568، ج-4، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 33
  • 24  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 409
  • 25  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 117-118
  • 26  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 694
  • 27  ابوالفداء اسماعیل بن عمربن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 375-376
  • 28  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص:640-641
  • 29  أبوبکر أحمد بن الحسین البیہقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعةﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 204
  • 30  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 252
  • 31  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 118
  • 32  محمد ثناء اللہ المظھری، التفسیر المظھری، ج-9، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشدیۃ، الباکستان، 1412ھ، ص: 24
  • 33  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 118-119
  • 34  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-2، مطبوعۃ: دار الصادر، بیروت، لبنان، 1968م، ص: 106
  • 35  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 643-644
  • 36  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 414
  • 37  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 120
  • 38  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 414
  • 39  ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 644
  • 40  موسیٰ بن راشد العازمی، اللؤلؤ المکنون فی سیرۃ النبی المأمون، ج- 3، مطبوعۃ: المکتبۃ العامریۃ، الکویت، 2011م، ص: 408
  • 41  ایضاً
  • 42  محمد حسين هيكل، حياة محمد ﷺ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 395
  • 43  ابو عبد اللہ محمد بن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3009، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 497
  • 44  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبی ﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 310
  • 45  موسیٰ بن راشد العازمی، اللؤلؤ المکنون فی سیرۃ النبی المأمون، ج- 3، مطبوعۃ: المکتبۃ العامریۃ، الکویت، 2011م، ص: 412
  • 46  ایضاً
  • 47  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبی ﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 311
  • 48  موسیٰ بن راشد العازمی، اللؤلؤ المکنون فی سیرۃ النبی المأمون، ج- 3، مطبوعۃ: المکتبۃ العامریۃ، الکویت، 2011م، ص: 416
  • 49  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص:58
  • 50  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبی ﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 313-314
  • 51  ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 265
  • 52  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 122-123
  • 53  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 59-60
  • 54  ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 225
  • 55  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 60
  • 56  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن قیم الجوزی، زادالمعاد فی ھدی خیر العباد، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 290
  • 57  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 697-698
  • 58  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 61
  • 59  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 131
  • 60  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-3، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص: 61-62
  • 61  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 132
  • 62  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبی ﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص:315
  • 63  موسیٰ بن راشد العازمی، اللؤلؤ المکنون فی سیرۃ النبی المأمون، ج- 3، مطبوعۃ: المکتبۃ العامریۃ، الکویت، 2011م، ص: 449-450
  • 64  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 433
  • 65  ایضاً، ص: 434
  • 66  محمد بن أحمد باشميل، من معارک الإسلام الفاصلۃ: موسوعۃ الغزوات الکبریٰ، ج-6، مطبوعۃ: المکتبۃ السلفیۃ، القاھرۃ، مصر، 1988م، ص: 193
  • 67  ابو شھبۃ محمد بن محمد بن سویلم، السیرۃ النبویۃ علی ضوء القرآن والسنۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار القلم، دمشق، سوریۃ، 1427ھ، ص: 417-418
  • 68  ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 236-237
  • 69  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 132-133
  • 70  محمد ثناء اللہ المظھری، التفسیر المظھری، ج-9، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشدیۃ، الباکستان، 1412ھ، ص: 29
  • 71  الشیخ خلیل احمد السھارنفوری، بذل المجھود فی حل سنن ابی داؤد، ج-10، مطبوعۃ: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، 2006م،ص: 231
  • 72  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 8552، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 226
  • 73  أبو ا لعباس أحمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 344
  • 74  ایضا، ص: 348
  • 75  ابو عوانۃ یعقوب بن اسحاق النیسابوری الاسفرائینی، مستخرج ابی عوانۃ، حدیث: 7653، ج-5، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 29
  • 76  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 148
  • 77  أبو ا لعباس أحمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: المكتبة التوفيقية، القاهرة، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 352
  • 78  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-5، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 150

Powered by Netsol Online