قدیم روم میں مذہب ایک ایسے طریقہٴ کار کو کہا جاتاتھا جس میں خدا کو راضی اور اس کا احترام کرنے کے ساتھ زندگی کے تسلسل کو سکون و اطمینان کے ساتھ چلانا ممکن ہو۔ روم میں عیسائیت سے قبل لفظ مذہب کا وجود نہیں تھا بلکہ ریلیجیو (religio) کا لفظ پایا جاتا تھا جس کا اصطلاحی معنی تقدیس تھا۔
ابتدائی طور پر رومی مظاہر پرست تھے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ ان کے ارد گرد کثیر روحانی قوتیں موجود ہیں ۔ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ان کے آباءو اجداد كی روحانی طاقتیں انہیں ملا حظہ کر رہی ہیں ۔ ابتداءً ان روحانی قوتوں میں تین خداؤں كے گروه كيپيٹولين ٹرائڈ(Capitoline Triad) کو شامل کیا گیا تھا۔ روم کی بنیادوں میں یونانی دَھرم کا عنصر شامل تھاکیونکہ روم کی سلطنت میں بہت سی یونانی کا لونیاں موجود تھیں جس کی وجہ سے رومیوں نے یونانیوں کے بہت سے خدا ؤں كو اپنے خدا فرض كر ليا تھا۔ ان کا مذہب اور دیوی دیوتاؤں كے قصے بھی ایک جیسےہوگئے تھے۔ یونانیوں کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے رومی خدا ؤں میں انسانی خصوصیات کا اضافہ کردیا گیا ، جیسے کہ حسد، محبت، نفرت وغیرہ۔ سلطنت روم میں عقیدہ کے اعتبار سے یکسانیت موجود نہیں تھی کیونکہ ہر شہر نے اپنے ذاتی سرپرست خدا چن لیے تھے اور اپنی الگ رسومات خودگھڑ لی تھیں۔ خداؤں کو عزت دینے کے لیے پوری سلطنت میں گرجا گھر تعمیر کیے جاتے جنہیں خدا کا گھر تصور کیا جاتا تھا۔ ان معابد کے باہر رومی اپنے دیوی دیوتاؤں کی پرستش اسی طرح کرتے جس طرح یونانیوں کے ہاں عبادت کا طریقہ رائج تھا۔سادہ لوح کسانوں کو طلسمی باتوں پر بھی بڑا اعتقاد تھا۔با الفاظ دیگرروم کے مختلف طبقات دیو مالائی داستانوں کو مذہبی حقیقت کے طور پر قبول کر کے لائق پرستش سمجھتے تھے۔بحیثیت مملکت روم ایک وسیع و عریض سلطنت تھی جس میں مختلف قبائل و اقوام اپنی پسند اور چاہت کے مطابق مختلف مذاہب کے پیروکار تھے۔ ان میں بت پرستی کے علاوہ اور بھی مذاہب موجود تھے ۔یہاں پر عیسائیت ، اس کے مختلف فرقے، یہودیت، شاہ پرستی اور سورج پرستی وغیرہ بھی مختلف شکلوں میں موجود تھی۔
ابتداءً رومیوں کا خداؤں کے بارے میں یہ اعتقاد تھا کہ وہ ایک ایسی ذات ہے جو ان کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ان کے نزدیک انسان اور خدا، دونوں کے ذمہ کچھ حقوق و فرائض ہیں جن کی تکمیل دونوں پر واجب ہے۔ مذہب کو خدا اور انسان کے درمیان ایک معاہدے کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ اگر خدا کسی شخص کی دعا قبول کرلے تو اس شخص پر واجب ہوتا کہ خدا کا شکر ادا کرے۔اسی طرح اگر کوئی شخص اپنا فرض پورا کرتا تو دیوتا پر واجب ہو جاتا کہ اس شخص کو فوز و فلاح سے ہمکنار کرے۔1
رومی مافوق الفطرت طاقت پر بھی یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے اسے نیومن (Numen) یا نیومنا (Numena) کا نام دیا ہوا تھا۔2نیومنا(Numena)کوانسانی خصوصیات دی گئیں اور ان کو مذکر، مؤنث اورکبھی کسی غیر معین جنس کے ساتھ منسوب کردیا جاتا تھا۔ یوں ایک خدا کو صفات میں تقسیم کردیا گیا اور اس کی ہر صفت کو دیوتا یا دیوی کی شکل دی گئی۔ یوں دیوتاؤں کا ایک گروہ وجود میں آگیا۔3
روم میں ایک زمانہ (صدیوں) تک ان ہی معبودان باطلہ کی پوجا کی جاتی رہی۔ تاآنکہ حضرت عیسیٰ تشریف لائے اور توحید کا بول بالا کیا جس کو ہر رومی نے قبول نہیں کیا۔ آپ کے رفع الی السماء کے بعد حواریوں میں سے کچھ نے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے خدا کے تصور میں بھی تبدیلیاں کردیں اور بت پرستی کی چیزیں اور عمل یونان سے مستعار لیے ۔مثلاً:
لیزلی ایڈکنزرومی خداؤں کےبارےمیں لکھتی ہے:
The major Roman gods were often thought of in groups, the best known being the Olympians (Jupiter, Juno, Mars, Venus, Apollo, Diana, Ceres, Bacchus, Mercury, Neptune, Minerva and Vulcan), who paralleled the Greek Olympian gods. Di consentes were the 12 great gods (six gods and six goddesses).5
رومیوں کا اعتقاد تھاکہ ان کےخدا گروہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جن میں سب سے بلندمرتبت اولمپئنز(جوپیٹر، جونو، مارس، وینس، اپولو، ڈیانا، سیرس، باخوس، مرکری، نیپچون، منروا اورولکن)تھےجو کہ یونانی اولمپئنزکے مساوی تھے۔ ڈائیکونسینٹس12عظیم خدا تھےجو کہ 6 دیوتا اور6 دیویوں پر مشتمل تھے۔
ان دیویوں اور دیوتاؤں کی تفصیل مندر جہ ذیل ہے:
جونو(Juno) قدیم رومیوں کی اہم دیویوں میں سے ایک تھی۔ جونو(Juno)کو عورتوں کے معاملات کے لیے مختص کیا گیا تھا خصوصاً بچے کی پیدائش کے لیے۔ جونو(Juno)کو اس کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی پوجا جاتا تھاکیونکہ کچھ لوگ اس کو پہنچانے والا ، کچھ لوگ اسے بچانے والا ، کچھ لوگ اسے تنبیہ کرنے والا اورکچھ اسے ملک جونو(Juno) کے طور پر مانتے تھے۔ اس کا مجسمہ ایک جوان عورت کے روپ میں بنایا گیا تھا۔ انگریزی سال میں جون کا مہینہ اسی کے نام سے منسوب ہے۔
جوپیٹر(Jupiter) کو تمام دیوتاؤں کا باپ اور انصاف کا خدا مانا جاتا تھا۔ اس کے معبدمیں نوجوان لڑکے بلوغت کی عمر کو پہنچ جانے پر اور بادشاہ جنگ میں فتح کی خوشی میں چڑہاوے دیا کرتے تھے۔ جوپیٹر(Jupiter)کے معبدکی دیواروں پر وہ معاہدےلٹکائے جاتے تھے جو روم کےدیگر اقوام سے طے پاتے تھے۔6رومی جوپیٹر(Jupiter) کو سب سے برتر اور عظیم دیوتا مانتے تھے۔ انہوں نے اس کے کثیر صفاتی نام بھی رکھے ہوئے تھے جیسےگرجنے والا، آسمانی بجلی گرانے والا، آسمانی نشانیاں دینے والا وغیرہ۔ ان کا یہ تصور تھا کہ دوسرے آسمانی خداؤں کی طرح جوپیٹر(Jupiter)معاہدوں اور حلف ناموں کی نگرانی کرتا ہے۔7
زخم بھرنے والا، کشف، بشارت، موسیقی اور شاعری کے خدا کو رومی اپولو(Apollo) کے نام سے موسوم کرتےتھے۔اس کی خاص نشانی لاؤریل(Laurel) کادرخت تھا۔آگسٹس(Augustus) وہ واحد شہششاہ تھا جس نے اپولو(Apollo) کو دیوتاؤں کے سرپرست کا درجہ دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جنگ جیتنے میں اسی دیوتانے اس کی مدد کی تھی۔ 8
مینروا (Minerva)رومیوں کی ایک خاص دیوی تھی جس کو یونانی ایتھینا (Athena)کے نام سے جانتے تھے۔ دیومالائی تصورات کے مطابق مینروا(Minerva) جوپیٹر(Jupiter) کے سر سے صحیح سلامت اور مسلح حالت میں پیدا ہوئی تھی۔اسی وجہ سے رومیوں نے اس کو دانش مندی ، فنون اور حکمت کی دیوی کا درجہ دیا تھا۔ مینروا (Minerva) دیوی کو جنگ میں فوجیوں کا سرپرست بھی مانا جاتا تھا ۔ان کا یقین تھا کہ دیوی فوجیوں کی بہادری اور مہارت کو ملاحظہ کر رہی ہے۔ جنگ کے بعد مال غنیمت کو بطور چڑہاوا اس کی عبادت گاہ میں پیش بھی کیا جاتا تھا۔9
رومی مذہب میں سیریس(Ceres) کو زراعت کی دیوی مانا جاتا تھا۔ اس کو اکیلا یا پھر زمین کی دیوی ٹیلس (Tellus)کے ساتھ پوجا جاتا تھا۔ اس کے لیے ایک مندر 493 قبل مسیح میں ایونٹائن کی پہاڑی (Aventine Hill) پر بنایا گیا جو کہ بعد میں سیاسی اور مذہبی تہواروں کا مرکز بن گیا تھا۔10
ابتدائی طور پر ڈیانا(Diana) کو جنگلوں اورجنگلی حیات کی دیوی تصور کیا جاتا تھا جس کو یونانی آرٹیمس (Artemis) کے نام سے جانتے تھے۔بعد میں اس کو شکار کی دیوی، چاند کی دیوی اور عورتوں کی محافظہ دیوی کا درجہ دے دیا گیا تھا۔11 اس دیوی سے منسوب بھی ایک مندر ایونٹائن کی پہاڑی (Aventine Hill) پر بنایا گیا تھا۔12
بخوس(Bacchus) وہ رومی دیوتا تھا جس کو یونانی ڈائونیسس(Dionysus) کے نام سے جانتے تھے۔ یہ شراب نوشی اور شہوت کا خاص دیوتا تھا۔ رومیوں کے نزدیک بخوس(Bacchus)عام انسان کو روز مرہ کے مسائل سے شراب نوشی اور جنسی خواہشات کی تکمیل(چاہےوہ جس طرح بھی ہو) کے ذریعے چھٹکارا دلاتاتھا۔ اس کو امن کا پرچار کرنے والا اورزراعت کا سرپرست بھی مانا جاتا تھا۔ 13اس کا مجسمہ ایک خوبصورت برہنہ لڑکے کی صورت میں بنایا گیا تھا اور اس کے سر پر خاص پتوں کا تاج رکھا جاتا تھا۔14
مارس(Mars) کوکھیتوں کی حدود کی رکھوالی کرنے والا دیوتا تصور کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ رومیوں نے اس کو جنگ کا خدا تسلیم کر لیا ۔ مارچ(March)، جو رومی سال کا پہلا مہینہ ہے مارس(Mars)کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔ اسی مہینے میں اس دیوتا سے منسوب بہت سے مذہبی تہوار منائے جاتے تھے۔ رومیوں کے نزدیک اس دیوتا کی اہمیت جوپیٹر (Jupiter)سے کم تھی۔
ابتدائی طور پر رومی ولکن (Vulcan)کو آگ کا خدا سمجھتے تھے۔ بعد ازاں اسے دھات پگھلانے والے دیوتا کا درجہ دے دیا گیا ۔ اس کے بارے میں یہ تصورقائم ہوگیا کہ وہ آتش فشاؤں کے نیچے سائکلوپس (Cyclopes) نامی دیو کے ساتھ رہتاہے جو اس کے کام میں مدد کرتا ہے۔15
وینس(Venus) وہ رومن دیوی تھی جس کو محبت، خوبصورتی اور زر خیزی کے ساتھ منسوب کیا جاتا تھا۔ یونانی دیوی ایفرو ڈائٹ(Aphrodite) کی مثل وینس(Venus) کے مجسمے کو ایک خوبصورت دوشیزہ کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ بھی اعتقاد رکھا جاتا تھا کہ اس کی طاقت کے تحت محبت ، شہوانی لذت، زرخیزی اور مقدس عصمت فروشی کے معاملات بھی تھے۔ 16
رومی دیوتا نیپچیون(Neptune) جسے یونانی دیوتا پوسائڈن (Poseidon)17کے نام سے جانتے تھے، تازہ پانی کا خدا تصور کیا جاتا تھا۔ 399 قبل مسیح میں اسے یونانی خدا پوسائڈن (Poseidon)کے ساتھ تصور کیا جانے لگااور یوں اسےسمندر کے دیوتا کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کی مؤنث جوڑ سلیسیا(Salacia)کے نام سے جانی جاتی تھی جو کہ پانی کے چشموں کی دیوی تھی۔18
اس دیوتا کو خدا کا پیغام رساں دیوتاسمجھا جاتا تھا جو جوپیٹر (Jupiter)کے احکام کی تکمیل کیا کرتا تھا۔ یہ اپنی تیزی کے لیے مشہور تھا۔ اسی لیے رومیوں نے اس دیوتا کے لیے ایک جوان لڑکے کا مجسمہ تیار کیا جس کے سر پر ٹوپی اور جوتوں میں پر لگائے گئےتھے۔اس دیوتا کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ یہ خداؤں اور جانداروں کے درمیان ، زندہ اور مردہ کے درمیان ایک وسیلہ ہے۔رومی اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ یہ دیوتا راستوں سے پتھر ہٹا تا اور مسافروں کے لیے ان کی منزل کے راستے کی نشاندہی کیا کرتا ہے۔19
ویستا آگ کی دیوی جو چولہےکی محافظ تھی۔ شہر روم میں ایک بڑا آتش کدہ تھاجہاں آگ کوکبھی بجھنے نہیں دیا جاتاتھا۔ کنواری لڑکیاں جنہیں ویستاکی کنواریاں(Vestal Virgins)کہتے تھے،اس کی حفاظت کرتی تھیں۔
وہ دیوتا جس کا کام اناج کی کوٹھڑی کی حفاظت کرناتھا۔
جانوس (Janus)دروازےکا محافظ دیوتا تھا۔اس کےآگے پیچھےدوچہرےبنائے جاتےتھے۔امن وآشتی کے دنوں میں روم میں اس کا معبد بندرہتا تھا۔انگریزی ماہ جنوری(January)کانام اسی سےمنسوب ہے۔
کھیتی باڑی کا خاص دیوتاسیٹرن تھا۔جس کےنام پرہفتہ کانام سیٹرن ڈے(Saturn Day) پڑا ،مخفف ہوکر سیٹرڈے(Saturday)ہوگیا۔
رومیوں میں جائداد کی حدیں مقررکرنےوالےپتھربھی پوجےجاتےتھے۔جنہیں ٹرمینس کہتے تھے۔20 رومیوں کا پرانا مذہب انہی خرافات پر مشتمل تھا اس کے علاوہ کچھ اوربھی قبائلی وعلاقائی مذاہب وافکارتھے جن کےمتعلق اے مانفرید لکھتاہے: رومیوں کا پرانا مذہب جس میں بے شمار دیوی دیوتا تھے،ان کا مذہب بھولے بھالے عقائد اور رسم و رواج کا حامل تھا لیکن سماج کی روحانی ضرورتیں پوری نہیں کرسکتا تھا۔ شہنشاہ پرستی یعنی وہ مسلک جسے خود شہنشاہ بڑی اہمیت دیتے تھے، اس خلا کو پر کرنے کے لیے ناکافی تھا۔ اس وجہ سے متعدد مشرقی مسلکوں نے روم میں جڑیں پکڑیں اور مقبولیت حاصل کرنی شروع کردی۔ مثلاً مصری دیوی ایسیس(Isis)، فارس کا دیوتا متھرا(Mithra)اور یہودی جیہووا اور پھر عیسائیت کی تعلیمات۔21
روم میں موجود دیگر مذاہب کی تفصیل درج ذیل ہے:
روم کی سلطنت کی ابتدا سے پہلے یہودی باشندوں نے یہودا کو صدیوں سے اپنا مسکن بنا یا ہوا تھا اور وہاں اپنی مذہبی عبادات کی ادائیگی کیا کرتے تھے۔ 64 قبل مسیح میں یہودا کے باشندے روم کے مختلف علاقوں میں آکر آباد ہوئے اور رومی سلطنت کے تحت آگئے۔ یونانیوں ، رومیوں اور دوسرے ساحلی علاقوں کے لوگوں کےاعتقادات کے بر عکس یہودی ایک خدا کی پرستش کیا کرتے تھے۔ خدا کی عبادت اور روز مرّہ کی زندگی گزارنے کے حوالے سے ان کے بہت سخت اصول تھےجن میں رومی خداؤں کی مکمل تردیدتھی۔ شروع میں رومی عہدیداروں نے یہودیوں کو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی اجازت دی ۔بعد ازاں تائبیریس (Tiberius)نے روم میں یہودیوں کے مذہبی عقائد اور عبادات کے خلاف سخت کاروائی کی۔ سوٹونیس (Suetonius)کے مطابق تائبیریس (Tiberius)نے تمام یہودیوں کو اپنے مذہبی لباس اور دیگر اشیاء کو جلانے کا حکم دے دیا تھا ۔ وہ یہودی جو جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے انہیں بیماری والے علاقوں کی طرف دھکیل دیا گیا اور جو بوڑھے یا بچے تھے ، انہیں خدمت پر لگا دیا گیا۔ ان تمام لوگوں کو جن کے عقائد یہودیوں سے ملتے جلتے تھے انہیں بھی شہر بدر کردیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ حکم نہ ماننے پر غلامی میں جکڑ دیا جائے گا۔
یہودا شہر میں موجود یہودیوں نے رومیوں کے اقتدار کے خلاف کئی مرتبہ بغاوتیں کیں۔ وہ اپنی سیاسی خود مختاری اور مذہبی آزادی کی جنگ لڑتے رہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔22
فرقہٴمتھرا اور اس کے پراسرار تصورات رومیوں میں بہت تیزی سے پھیلے۔ سب سے پہلے اس دین کو پومپی (Pompey)کے سپاہیوں نےقبول کیا۔ان تک یہ دین سلیسین(Cilician) قزاقوں کے ذریعے پہنچا تھا۔ یہ فرقہ سلطنت کے تمام علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ اس دین کو قبول کرنے کے لیے ایک غار میں جا کر کچھ رسومات کو ادا کرنا پڑتا تھا۔وہ سپاہی جو اس دین کو قبول کرتے اور بہادر و مہذب ہوتے انہیں ہمیشہ زندہ رہنے کا وعدہ دیا جاتا تھا۔23
عیسائی مذہب جو سلطنت روم کے بحران کے نظریاتی اظہار کی شکل تھی، پہلی صدی عیسوی میں ابھرا اور دوسری صدی کے آخر اور اس کے بعد انتہائی سرعت کے ساتھ پھیلا۔24 اگر چہ عیسائیت نے چوتھی صدی کی ابتداء میں رومی سلطنت کے آئینی مذہب کی حیثیت حاصل کرلی تھی اور اس کے پیروکاروں پر جبر وتشدداور بت پرستانہ مذاہب سے مقابلہ کا دور ختم ہوگیا تھا لیکن خود مسیحیت کے اندر مختلف عقائد ورسوم کے بارے میں طویل اورتشویش ناک کشمکش شروع ہوگئی تھی۔شاہِ قسطنطین کے عہد میں دوبڑی دور رس تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلی یہ کہ اس نے بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائیت کو قبول کیا۔ اس سے پہلے روم کے بادشاہوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ اس نے اس باطل رسم کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا تھا۔
دوسرا واقعہ جو بڑے دوررس نتائج کا باعث بنا اور اس کے عہد میں وقوع پذیر ہوا، وہ یہ تھا کہ اس نے بیز نطین (Byzantine)کو روم کی سلطنت کا دوسرا دارالحکومت بنایا اور اس کو رومِ ثانی کی حیثیت دے دی۔ یہیں قسطنطنیہ کا شہر آباد کیا گیا جو بعد میں رومی حکومت کا مرکز بنا۔ اس شہر کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ روزِ اول سے یہ شہر مسیحی تھا اور یونانی ثقافت کا مرکز تھا۔ اسے کبھی بھی بت پرستانہ حکومت کا مرکز نہیں بنایا گیا۔ قسطنطین نے کلیسا کو ریاست کا ایک شعبہ بنایا اور اسے اپنے شاہانہ کنٹرول میں رکھا۔ جب کبھی کسی بادشاہ نے کافرانہ اور بت پرستانہ عقائد کو فروغ دینا چاہا، عیسائیت کے پیروکار اس کی مزاحمت کے لیے فوراً میدان میں نکل آئے۔25
سلطنت روما میں عیسائیت کا ایک فرقہ جو آریوں کا تھا وہ اپنی بدعتوں اور عیسائیت میں تبدیلیاں کرنے کی وجہ سے بہت مشہور ہوا ۔ اس کے متعلق لیزلی ایڈکنز لکھتی ہیں:
A widely popular Christian sect that arose in the early third century mainstream bishop viewed it is a threat to the church and it became known as the Arians held that, though Jesus had existed since before time began, he had been created by God the Father and was therefore not fully divine.26
تیسری صدی عیسوی کے اوائل میں عیسائیوں کے مشہور فرقے کا اثرو رسوخ بڑھنے لگا جس کو عیسائیت کے صف اوّل کے مذہبی پیشوا کلیسا کے وجود کے لیےخطرہ تصور کرنے لگےتھے۔آریوس (مصر میں اسکندریہ کا ایک مسیحی پروہت)کے بعد یہ فرقہ آریوسی بدعتی فرقے کے نام سے پہچانا جانے لگا ۔ بنیادی طور پر، آریوسیوں کے نزدیک یسوح مسیح وقت کی ابتداء ہی سے موجود تھے۔ ان کو خدا ،باپ نے پیدا کیا لیکن خدا کے ساتھ اس کی فطرت میں شریک نہیں تھے۔
اہل روم ہر شے میں ایک روح کے وجود کے قائل تھے۔ وہ بے شمار ارواح کے معتقد تھے۔ ان کے نزدیک ہر دیوتا، ہستی، ہر شے، ہر عمل اورہر حرکت میں ایک روح جاگزیں تھی۔ مردوں کی ارواح کو وہ جینیسس کا نام دیتے تھے عورتوں کو جونو (Juno) کہا جاتا تھا ہر شخص کا یوم ولادت اس کی جنس کا تہوار تصور کیا جاتاتھا۔
ارواح پرستی کا لازمی نتیجہ آباء پرستی کی شکل میں نمودار ہوا۔ ان ارواح کو غیر فانی تسلیم کرلیا گیا تھا۔لوگوں کے مرنے کے بعد بھی ان ارواح کی موجودگی پر یقین کیا جا تا تھا۔ مردوں کی روح کو مینس (Manes) کہتے تھے۔ اسلاف کی روحوں کی پرستش کے لیے خاص تہوار مقرر تھے۔ ایک کا نام پیرن ٹیلیا (Parentalia) تھاجو فروری کے مہینے میں منایا جاتا تھا۔ اس میں بیٹے اپنے مرحوم والدین کی روحوں کی پرستش کرتے تھے۔ اس تہوار کا اہتمام کرنا ہر متوفی باپ کے لیے فرض تھا یہی وجہ تھی کہ روم کے باشندے اولاد کی جتنی خواہش رکھتے تھے کوئی دوسرا ملک ان کا مقابلہ نہیں کرسکتاتھا۔ لاولد لوگ کسی بچے کو متبنی ٰکرلیتے تھے تاکہ مرنے کے بعد ان کی روح کی عبادت ہوسکے۔ لوگوں کی ارواح کی عبادت کے لیے ہر گھر میں ایک جگہ مخصوص ہوتی تھی۔
جب رومی یونانیوں سے ملے تو انہوں نے شاہ پرستی کو اپنالیا جس کاچرچا یونان میں تھا۔ ابتدامیں بادشاہ کے متعلق یہ تصور تھا کہ وہ اس دنیا سے رحلت کر جانے کے بعد تقدیس کے درجے پر فائز ہوجاتا ہے یہاں تک کہ سکندر کے باپ فلپ مقدونی(Phillip the Macedonian) کی پرستش اس کی زندگی ہی میں کی جانے لگی تھی۔ رومیوں نے شاہ پرستی کے سلسلے میں باقاعدہ قانون نافذ کیے۔ باقاعدگی اور بےضابطگی ان کے خمیر میں داخل تھی۔ اگسٹس(Augustus) کے مرتے ہی سینٹ(Senate) نے فیصلہ صادر کیا کہ اُسے خداؤں کے زمرے میں شامل کرلیا جائے۔27بادشاہوں کے منظور ِنظر پروہت عوام الناس میں ان کی تقدیس کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے تو دوسری جانب زبردستی ایسے قوانین مرتب کروالیے گئے جنہوں نے حاکموں کی پرستش کو رومی آئین کا حصہ بنادیاتھا۔ سادہ لوح اور مظالم کھائے لوگ ناچاہتے ہوئے بھی انہیں خدا کے طور پر پوجتے تھے۔رومیوں میں بادشاہ پرستی کی ابتداء کےمتعلق لیزلی ایڈکنزلکھتی ہے:
With the expansion of the empire, Rome came to rule eastern nations that were accustomed to worshipping their kings as gods and that readily transferred their worship to Roman rulers.28
رومی سلطنت کی وسعت کے ساتھ ہی مشرقی اقوام رومی حکمرانوں کے زیردست آئیں جو اپنے بادشاہوں کو خداسمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے ۔اس طرح رومیوں میں حکمرانوں کی پوجاکارواج منتقل ہوا۔
روم میں رعایا کو بادشاہوں کی پرستش پر مجبورکیا جاتا تھا۔ کوئی شخص کسی دیوتا کی عبادت سے انکار بھی کرتا تو اس سےباز پرس نہیں ہوتی تھی لیکن بادشاہ کی عبادت کرنے سے پہلو تہی کرنے والے کو سزائیں دی جاتی تھیں۔ عوام کے ذہنوں میں یہ بات اچھی طرح بٹھادی گئی تھی کہ تمام دیوتا پہلے انسان ہی کی طرح اس دنیا میں زندگی بسر کرتے تھےلیکن شاہ پرستی کو مقبول بنانے کے لیے یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ خدا اس زمین پر بادشاہ کی شکل میں موجود ہے۔29
عہد موٴخر کے یونانیوں کی طرح بہت سے رومی بھی روح کی ابدی اور لازوال حیات پر اعتقاد رکھتے تھے۔ کچھ حد تک ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ موت کے بعد روح کو ایک نئے جسم میں دوبارہ زندہ کیا جاتا ہے۔ 30بعض لوگ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ موت کے بعد بھی روح موجود رہتی ہے،جب کہ کچھ لوگوں کا اس بات پر اعتبار تھا کہ موت کے بعد روح دور آسمان کی جانب تیرتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ اس عقیدے کی حمایت پلیٹو(Plato) نے فیئڈو (Phaedo)کے عنوان سے لکھے گئے اپنے صحیفے میں بھی کی ہے۔ اپیکیورین (Epicurean)اور اس کے پیروکار اس عقیدے پر یقین رکھتے تھے کہ روح ایسے کثیر جواہرات کا مجموعہ ہے جو موت کے بعد منتشر ہوجاتے ہیں، جب کہ فلسفی زینو(Xeno) اور اس کے پیروکاروں نے روح کے فنا ہونے سے متعلق کوئی ایک بھی غیر استدلالی تصور نہیں دیا تھا۔ بہت حد تک وہ روح کی موجودگی کے تصور کے متعلق بھی اختلاف رکھتے تھےکہ اگر مرنے کے بعد روح باقی رہتی ہے تو اس صورت میں یاتو مردہ انسان زندگی کو دوبارہ دیکھ لے گا یا پھر اخروی زندگی میں انعام کا حقدار ہوگا یا پھر اپنے برے اعمال کی سزا بھگتے گا۔
عام طور پر ان لوگوں کا روح کے متعلق مشہور عقیدہ یہ تھا جو اصلاً یونانی شاعر ہومر(Homer)کی رزمیہ نظموں سے اخذ شدہ ہیں کہ اچھی اور بری دونوں اقسام کی روحیں پائیں عالم "ہیڈز"(Hades)میں نیچے بھیجی جاتی ہیں ۔ وہاں، ایک تصور کےمطابق گناہ گار روحیں ایک ٹارٹارس (Tartarus) نامی خوفناک مقام میں مختلف سزائیں بھگتی ہیں، جب کہ نیک اور صالح روحیں، جن میں خاص طور پر نامور برگزیدہ انسان شامل ہوتے ہیں ، نہ ختم ہونے والی خوشیوں کے محلات میں رہتے ہیں۔ بہر حال، یہ سوال قابل توجہ ہے کہ کیا یہ عقائد رومیوں کے درمیانی عہد سے قدیم عہدتک اور خسروی ادوار میں بھی موجود تھے یا نہیں؟ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ بہت سے لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ روح مردہ انسان کی قبر کی حدود میں یا اس کے مقبرے کے احاطے میں رہتی ہے۔ اسی لیے رومیوں کے ہاں یہ روایت عام تھی کہ فوت شدگان کی قبروں پر تحفہ تحائف لایا کرتے ، ان پر قربانی کے لیے پیش کی گئی شراب انڈیلی جاتی یا نالیوں کے ذریعے پہنچائی جاتی، اور مردے کی تشفی و تسکین کے لیے اس کے مقبرے پر مختلف انواع کی خوشیوں کی تقاریب منائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ رومیوں کا ایک پختہ عقیدہ یہ تھا کہ مردہ زندہ ہوتا ہے اور زندوں کا شکار بھی کرتا ہے۔اس ڈر سے کچھ لوگ مرنے والوں کے سروں کو جسموں سے الگ کر کے ان کے تابوت پر بھاری پتھر رکھ دیا کرتے تھے۔
بہت سے مذاہب بشمول عیسائیت ، آخرت میں خوشیوں بھری زندگی (جس کو عیسائیت میں بھی جنت کہا جاتا ہے) کا نظریہ رکھنے کے حوالے سے مشہور تھے۔شہنشاہیت کے بعد کے ادوار میں عیسائیت کے نافذ ہونے کے بعد عیسائیوں کا جنت اور جہنم کا تصور(جس کی حمایت اگسٹائین (Augustine)اور دوسرے عیسائی قلم کاروں نے بھی کی ہے) یورپ کے طول و عرض میں مشہور ہوگیا تھا۔ 31
ان تمام تفصیلات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل روم نے اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق دیوی اور دیوتا گھڑے تھےجن کو بنیاد بنا کر وہ اپنی ہر نفسانی خواہش اور رذالت کو تحفظ فراہم کیا کرتے تھے۔ان کے جتنے بھی خدا تھے ،چاہے وہ اولمپئنز (Olympians) ہوں یا دیگر، وہ سارے تدریجا ان کی ضروریات اور نفسانی چاہتوں کے مطابق ہی وجود میں آئے تھے اور وہ جس کے بارے میں جو چاہتے عقیدہ گھڑ لیتے اور بعد والے اس کو دین سمجھ کر قبول کر لیتے تھے ۔ مینروا (Minerva)دیوی جس کے بارے میں یہ عقیدہ گھڑا گیا کہ وہ خدائے جوپیٹر (Jupiter)کے سر سے پیدا ہوئی اس لیے وہ فنون ،عقل و دانش اور حکمت کی دیوی ہے ،اس کے بارے میں بیان کردہ عقیدہ فی نفسہ اتنا مضحکہ خیز ہے جس کو کوئی بھی ذی شعور شخص نہیں مان سکتا ،لیکن رومی اس کو اپنا پختہ عقیدہ سمجھتے تھے ۔اسی طرح بادشاہ اپنی ذات اور اپنے مرتبے کے دوام کے لیے خودساختہ عقائد گھڑ لیا کرتے اور بزور طاقت لوگوں سے پرستش کروایا کرتے تھے۔ چونکہ اہل روم کی اکثریت حیات بعد الموت کی قائل نہیں تھی اسی لیے وہ اس دنیا کی فانی زندگی کی ہر لذت سے خوب سیر ہونا چاہتے تھے اور اس کے لیے ہر ممکن عیاشی کو حاصل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ روم کی عیسائی آبادی حیات بعد الموت کی قائل تھی لیکن چونکہ وہ بھی اس دنیا کی چمک سے بہک گئے اور ان کے پادریوں کی بائبل میں مسلسل تحریفات نے ان کو مزید گمراہ اور بے عمل کردیا تھا چنانچہ وہ اصلاح احوال و ذات کے بجائے اپنی شہوانی لذات کی تکمیل میں مگن تھے ۔ عیسائیت کی اخروی تعلیم ان کے لئے فقط ایک عقیدہ کے طور پر ہی باقی رہ گئی تھی نہ کہ زندگی کو بدلنے کا محرّک اور وسیلہ ۔