قدیم یونان کا معاشی نظام خود مختارا نہ نہیں تھا ۔اس خطےکی زمین زیادہ زرخیز بھی نہیں تھی کیونکہ زیادہ تر حصّہ پتھریلی زمین پر مشتمل تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ قدیم یونانی باشندے کچھ چیزیں خوداگاتے اوربعض دیگر ممالک سے درآمد کیا کرتے تھے۔
تین ہزار برس قبل بحیرۂ روم (Mediterranean Sea) کے مشرقی سرے پر کئی چھوٹے علاقے آباد تھے جن میں الگ الگ قومیں رہائش پذیر تھیں۔ ان میں سے ایک علاقہ فنیشیا(Phoenicia) کہلاتا تھا۔ عرب اس علاقے کو فنیقیہ(Phoenicia) کہتے تھے۔اس کے باشندے فینیشئین (Phoenicians) یا فنیقی کہلاتے تھے۔ فنیقی شام کے ساحلی علاقے میں آباد تھے۔ وہ جہاز رانی میں مہارت رکھتے تھے۔اس دور میں ان کے جہاز اور کشتیاں سمندر کی سطح پر دوڑتی پھرتی تھیں۔ وہ مچھلیوں کا شکار کرتے ، تجارتی معاملات میں بھی مصروف عمل رہتے اور موقع ملنے پر لوٹ مار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ گویا وہ سوداگر اور بیوپاری بھی تھے ساتھ ہی مچھیرے اور سمندری لٹیرے بھی تھے۔
فنیقی تاجر اپنے ملک کا تجارتی مال دور دراز مقامات تک لے جاتےتھے۔ دوسرے ممالک میں ان کے کپڑے، ارغوانی رنگ، دھات کی بنی ہوئی اشیاءاور شیشے کا سامان بڑی شہرت رکھتا تھا۔ بحیرہٴ اسود(Black Sea) اور بحیرۂ ایجیئن(Aegean Sea)کے کنارے جو ممالک تھےوہاں سے انہیں چاندی، سونا، کانسی اور لوہا حاصل ہوتاتھا۔ مصر سے شیشے کے بنے ہوئے برتن، سوتی کپڑے اور مصریوں کی ہنر مندی کے نمونے لایا کرتےتھے۔ اسپین اور برطانیہ سے بھی انہیں چاندی، سیسہ اور ٹین ہاتھ آجاتا تھا۔ دیگر ممالک کے مال و اسباب کے علاوہ سب سے قیمتی چیز وہاں کے حالات تھے۔ تاجر سفر سے لوٹتے تو اپنے ہم وطنوں کو بڑی دلچسپ کہانیاں سنایا کرتے تھے ۔ فنیقیوں نےکثیر ہنر دوسرے ملکوں سے سیکھے لیکن جو کچھ سیکھا اس میں تھوڑی بہت تبدیلی کرکے اسے بہتر بنادیا۔ جن قوموں سے فنیقیوں کا لین دین تھا ان میں یونانی بھی تھے جو بحیرۂ ایجین(Aegaean Sea) کے جزیروں اور ساحلی علاقوں میں آباد تھے۔
یونانیوں کاملک زرخیز نہیں تھا۔ رقبہ چھوٹا ہونے کے ساتھ اس کی زمین پتھریلی تھی۔ ہر طرف پہاڑ پھیلے ہوئے تھے۔ صرف کچھ علاقہ ایسا تھا جہاں تھوڑی بہت زراعت ہوجاتی تھی۔ اس میں کچھ تو سمندر کے کنارے تھے اورکچھ دریاوٴں کی وادیوں میں تھے۔ یونانیوں نے یہیں اپنے دیہات بسائے ہوئے تھے۔ ان میں بعض گاوٴں ایسے تھے جو آگے چل کے شہر کی صورت اختیار کرگئے تھے۔وادیوں میں موجود کھیتوں میں لوگ اناج بوتے تھے۔ اس کے علاوہ پہاڑیوں کی نچلی ڈھلانوں پر مختلف قسم کی سبزیاں مثلاًمٹر، گوبھی اور طرح طرح کی پھلیوں کی کاشت کی جاتی تھی۔ اوپر کے حصے میں زیتون کے درختوں کے جھنڈ تھے۔ زیتون کے تیل سے یونانی کئی کام لیتے تھے۔1
یونان میں زراعت کی صورتحال کےمتعلق میکائل گا گرین(Michael Gagarin) لکھتاہے:
Most of their economic efforts went into agricultural production, and both households and governments gave much attention to it. Athens and many other polies became dependent on grain imports.2
ان کے معاشی معاملات کا رجحان زیادہ تر کھیتی باڑی کی طرف تھا۔جس میں عام گھریلو افراد اور حکومت دونوں خاص توجہ دیا کرتے تھے۔ ایتھنز اور دیگرشہراناج کی در آمدات سے وابستہ ہوگئے تھے۔
قدیم یونان کا 80 فیصد علاقہ پہاڑوں پر مشتمل تھا، یوں زراعت ہموار زمین اور پہاڑوں کی نچلی سطح پر کی جاتی تھی۔ زراعت علاقائی اور شہری سطح پر بڑے پیمانے پر کی جاتی تھی، اس کے علاوہ دیہات اور دور دراز زمینوں پر بھی کھیتی باڑی کی جاتی تھی۔3پہاڑوں کے درمیان اور ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ زرخیز میدانوں میں گندم، انگور، نارنگی اور زیتون اگائے جاتے تھے۔ شدید جاڑے میں بھی کہر(دُھند)نہیں ہوتی تھی اس لیے گرم آب وہوا کی بعض فصلیں بھی کاشت کی جاتی تھیں۔ دریا چھوٹے چھوٹے او رتیز رفتار تھے اس لیے آب پاشی ممکن نہیں تھی۔ کھیتوں کو بالعموم کنؤوں کے پانی سے سیراب کیا جاتاتھا۔ اکثر کھیت ڈھلوانی سطح پر اوسطاً چار پانچ ایکڑ پر اگائے گئےتھے۔پہاڑوں کی ڈھلانوں پر بھیڑ بکریاں پالنے کا بھی رواج تھا ۔ فصلوں کو خزاں کے موسم میں بویا جاتا اور گرمی میں کٹائی کرلی جاتی تھی۔ 4
یونان میں غلہ سب سے اہم ترین فصل تھی لیکن یونان کے موسم اور قطعہ زمین کی وجہ سے اس کی پیداوار توقع کے مطابق نہیں ہوپاتی تھی۔ اس دور میں سرکاری کھیتوں کا کوئی تصوّر نہیں تھا اور نہ ہی کوئی بیت المال کا نظام موجود تھا بلکہ کسان اپنی زمین پر انفرادی طور پر فصل کاشت کیا کرتے تھے۔ عوام کے لیے کوئی گودام موجود نہیں تھا۔ گندم اور جَو کے ساتھ ساتھ باجرے کی بھی کاشت کی جاتی تھی ۔فصل خزاں کے موسم میں بوئی جاتی اور جب کٹائی ہوتی تو پیداوار کی کمی کی وجہ سے گندم اکثر درآمد کرنی پڑجاتی تھی۔
زمین کو زرخیز رکھنے کے لیے یونانی ایک مقام پر سال میں صرف ایک بار اس غرض سے کاشت کرتے کہ زمین کی زرخیزی برقرار رہے۔ ان زمینوں میں صرف ہل چلایا جاتا تھا اور ہاتھوں سے بیج بوئے جاتے تھے۔ یونان کے الگ الگ خطوں میں مختلف اقسام کی فصلیں کاشت کی جاتی تھیں۔ کچھ مقامات پر شراب بنانے کے لیے انگور سال بھر اگائے جاتے جن میں سے کچھ حصہ کھالیاجاتا اور بقیہ حصے سے شراب بنائی جاتی تھی۔ انگور کے پودوں کو اکثر لکڑیوں کے ذریعے سہارا دیا جاتا ۔ان کی بیلوں کے درمیان لوبیا اور جَوبھی اگایا جاتا تھا۔
قدیم یونان کی تیسری اہم فصل زیتون کے درخت تھے جسے یہاں پڑے پیمایا پر اگایا جاتا تھا۔ اس درخت کی یہ خاصیت تھی کہ ایک بار بڑا ہوجا تا تو بہت ہی کم مشقت سے زیتون کا پھل دستیاب ہوجاتا تھا۔ زیتون کی کٹائی نہیں کی جاتی تھی بلکہ موسم خزاں سے موسم بہار تک اکھٹے کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ سیب، ناشپاتی، انار، انجیر، بادام اور دیگر میوہ جات بھی مختلف باغات میں اگائے جاتے تھے۔
مٹر، پیاز، لہسن، اجوائن، گوبھی، سلاد پتہ، کدّو ، چقندر، شلجم کے علاوہ اور بھی بہت سی سبزیاں اگائی جاتی تھی۔ جنگلی جڑی بوٹیاں اگانے کابھی رواج تھا لیکن یہ گھروں میں نہیں بلکہ جنگلوں میں اگائی جاتی تھی۔ 5
زرعی زمینوں کی مقدار بہت کم ہونے کی وجہ سے خوشحال کسانوں کے لیے تویہ ممکن تھا کہ وہ اپنے محدود قطعاتِ اراضی میں زیتون کے پودوں کی کاشت کریں اور طویل عرصہ تک ان پودوں کی نگہداشت کے اخراجات برداشت کریں، لیکن غریب کسانوں کے لیے یہ طریقہ کار قابل عمل نہ تھا۔ وہ دولت مند ہمسایوں سے قرض لینے پر مجبور ہوجاتے۔ قرض خواہ گراں شرح سود پر انہیں قرض دیتے اور مقروضوں کے لیے قرضوں کی ادائیگی ایک کٹھن مسئلہ بن جایا کرتی تھی ۔ اس محدود آمدنی سے اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالیں یا قرضہ ادا کریں؟ اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ جب وہ مقررہ میعاد پر قرض ادا نہ کرپاتے تو ان کی جائیداد چھین لی جاتی تھی۔ بعض اوقات شخصی آزادی سے بھی انہیں محروم ہونا پڑتا تھا۔ ایسے شخص کو مجبور کیا جاتا کہ قرض خواہ کے انگوروں کے باغوں میں بسلسلہء ِادائیگی ءِقرض مزدوری کرتا رہے۔ 6
قدیم یونان میں کھیتی باڑی کے علاوہ لوگ مال مویشی بھی رکھا کرتے تھے۔ ان مال مویشیوں میں بکریاں، بھیڑیں، خنزیر، گائے، بیل اور مرغیاں شامل تھیں۔ بنیادی طور پر وہ ان سے دودھ اور گوشت حاصل کرتے جن سے مزیددیگر اشیاء بھی تیار کی جاتی تھیں۔ ان کے علاوہ وہ لوگ گدھے اور گھوڑے بھی پالتے تھے جسے سواری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کچھ لوگوں نے شہد کی مکھیاں بھی پال رکھی تھی جن سے وہ تازہ شہد حاصل کرتے تھے۔ یہ مال مویشی پہاڑوں پر اگی ہوئی گھاس پھوس کھاتے یا پھر وادیوں میں جو ملتا اسے چَر لیا کرتے تھے۔ اگر کوئی جانور بیمار ہوجاتا تو اس کا علاج اس کا اپنا مالک خود کرتا لیکن ہر گاؤں میں جانوروں کا ایک طبیب بھی موجود ہوا کرتا تھا۔ 7
آیونیہ(Ionia) اور لیڈیا(Lydia) میں کئی طرح کے قدرتی وسائل موجود تھے جن کا استعمال وہاں کے رہائشیوں نے بہت اچھی طرح کیا اور صنعت کاری کے فن میں بہت مہارت حاصل کی۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں پورے یونان میں لیڈیا میں بننے والے سربند، چپل، سونے و چاندی کے زیورات اور دیگر چیزیں بہت مہنگی اور پرتعیش اشیاء میں شمار کی جاتی تھیں۔ اسی خطےکے اونی کپڑے اور کڑہائی بھی بہت پسند کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں کے لوگ لوہے سے مختلف چیزیں بھی بنانا جانتے تھے ۔
ایجینا(Aegina) میں قدرتی وسائل کثیر تعداد میں نہیں تھے اور نرم زمین کے کم ہونےکی وجہ سے لوگ مجبورا ًکھیتی باڑی کو چھوڑ کر صنعت اور تجارت کی جانب مائل ہوگئے تھے۔وہاں کے باسی کانسی کا کام نہایت خوبی سے کرتے تھے، ابالنے میں استعمال ہونے والی دھات کی کیتلی ، تین پایوں والا برتن اور مجسمہ سازی کے فن میں مہارت رکھتے تھے۔اس کے علاوہ کانسی سے مختلف آلات تیار کرتےاور اسے فروخت کیا کرتے تھے۔ کالسس (Chalcis) معدنیات سے بھری کانوں کے پڑوس میں واقع تھا اس وجہ سے یہ شہر جنگ میں استعمال ہونے والے عام ہتھیار اور بالخصوص شاہی استعمال کےمخصوص ہتھیار تیار کرتا تھا۔ 8
یونان کے شہروں میں بہت سے چھوٹے کارخانے موجود تھے جن میں یونانی کاریگر گھر کی سجاوٹ اور آرائشی سامان، طرح طرح کے لیمپ اور مٹی کے برتن تیار کرتےتھے۔ اس کے علاوہ یونانی کاریگر پتھر کا کام بھی خوب کرتے تھے۔ کاریگر ہی کارخانے کا مالک ہوتا تھا وہ اپنی مدد کے لیے کچھ کاریگروں کو نوکر رکھ لیتا تھا۔ یہ لوگ جو سامان بناتے اِسے مالک خود فروخت کرتا تھا۔ لوگ کارخانوں میں آتے اور جس چیز کی ضرورت ہوتی خریدلیا کرتے تھے۔
یونانی جن اینٹوں سے مکان تعمیر کرتے وہ آگ کے بجائے دھوپ میں سکھائی جاتی تھیں۔ مکان تیار ہوجاتا تو ایک خاص مصالحے سے استرکاری کا کام کیا جاتا تھا۔ بازاروں اور منڈیوں میں دکانیں بنانے میں بھی زیادہ محنت نہیں کی جاتی تھی۔ دو تختے کھڑے کرکے اس پر چھپریا سائبان ڈال کر گزارہ کرلیا جاتا تھا۔ البتہ دیوتاوٴں کے مندرتعمیر کرنے میں بڑی مہارت سے کام کیا جاتا تھا۔ شہروں میں بعض اعلیٰ درجے کی عمارتیں بھی تھیں۔ غالباً یونان کی سب سے اچھی عمارت ایتھینا(Athena)دیوی کا مندر تھا۔ ایتھینااصل میں ایتھنز (Athens)شہر کی دیوی تھی۔اسی شہر کے لوگوں نے یہ مندر تعمیر کیا تھا ۔ مندر بہت سادہ تھا لیکن جو لوگ عمارتوں کی خوبصورتی سے واقفیت رکھتے ہیں،وہ ان معابد کا شمار کرہٴارض کی بہترین عمارتوں میں کرتے تھے۔یونانی عمارتوں سے ملتی جلتی عمارتیں بنانا دنیا کے مختلف ملکوں میں بہت مقبول عمل رہا ہے۔ 9
یونانی مجسمہ سازی کا دور480قبل مسیح سےشروع ہوتاہے۔چونکہ یونانیوں نےاپنےدیوتاؤں اوردیویوں کوانسانی صورت دےرکھی تھی اس لیےجب انہوں نے اپنے دیوتاؤں کے مجسمےبنائے توانہیں مکمل انسانی شکل میں پیش کیا۔چوتھی صدی قبل مسیح میں یونانی بت تراشوں نے اپنے مجسموں میں انسانی جذبات کا اظہارکرناشروع کردیاتھا۔10قدیم یونانی مجسمہ سازی پر بھرپوردسترس رکھتے تھے۔ان کے بنائے ہوئے ہر فن پارے کا ایک پس منظر ہوتا تھاجس کے تحت وہ مجسمے کی ہیئت قائم کرتے تھے۔ شاعری کی طرح یونانی مجسمہ سازی بھی مذہبی رنگ سےخالی نہیں تھی۔قدیم تہذیبیں اورمذاہب میں مذکورہےکہ دیوتاؤں کےشکرانےکے طورپرعالی شان مندرتعمیر کیےگئے اور مندروں میں دیوی دیوتاؤں کےمجسمےرکھےگئے تھے۔11
مجسمہ سازی کے ابتدائی حالات اور اس کی درجہ بدرجہ ترویج کے متعلق پروفیسر ایڈولف ہولم (Adolf Holm)کہتا ہےکہ یونانی فن پیکرسازی کی تاریخ روایتی"دئے والوس"سے شروع ہوتی ہے، جو ایتھنز(Athens) کا باشندہ سمجھا جاتاتھااور جس نے فن ِسنگ تراشی کے بہت سے نمونے نہ صرف یونان میں بلکہ یونان سے باہر بھی چھوڑے تھے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے مجسموں میں ہاتھ اور پاوٴں کاامتیازکرکے ان میں گویا جان ڈال دی تھی۔ اس کے مجسموں سے اس فن کے ابتدائی مدارج کاپتہ چلتا ہے جبکہ مورت محض ایک ستون کی شکل کی ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ انداز متروک ہوا اورایسے مجسمےبننے لگے جو کم و بیش انسانی شکل سے مماثلت رکھتےتھے۔12
یونانی زندگی میں شاعری کی جتنی اہمیت تھی ، اتنی ہی مصوری اورسنگ تراشی کی بھی تھی یونانیوں نے تسلیم کیا تھا کہ شاعری ،تصاویر اور مجسموں میں چند بنیادی مشترک قدریں موجود ہیں ۔سائی مونیڈز(Symonds)نے اس رشتے کو یوں بتایا ہےکہ تصویر کشی خاموش شاعری ہے اور شاعری وہ تصویر ہے جو بولتی ہے۔ فنون لطیفہ جمالیاتی اعتبار سے ایک جیسی شے ہیں ۔ مصوروں اور سنگ تراشوں نے عورتوں اور مردوں کو اپنی تخلیق کی بدولت وقار بخشا اور روز مرہ زندگی کی تصویریں کھینچیں ۔کوشش یہ بھی رہی کہ غیر مرئی اشیاء کا مشاہدہ کریں۔مصّوری اورسنگ تراشی ، تعمیر سازی کی مانند شاعری کے بعد ظہور میں آئے ، ان کا مائیسینی(Myceanean) ماضی سے متواتر تعلق نہیں۔بیوڈن (Budin)کے مطابق :
The real impetus for Greek large-scale sculpture came from Egypt, whence the Greek adopted two new styles: The "kouros" and the "kore", both of stone. The "kouros" ("boy") is a nude young male; the kore, ("girl") is a clothes young female.13
وسیع پیمانے پر مجسمہ سازی کا فن یونانیوں نےجو مصر سے لیاتھا اس کے دو طریقے اپنائے تھے۔ وہ کوروس اور کور تھے اور وہ دونوں مجسمے پتھر کے بنے ہوئے تھے۔ کوروس سے مراد ایک برہنہ جوان لڑکاتھااور کور سے مراد ایک کپڑوں میں ملبوس جوان لڑکی تھی۔
سنگ تراشی اورتصویر کشی کے فنون مغربی ایشیاء اور افریقہ کے مغربی ساحل سے یونان آئے تھے۔ اُن مجسموں کو جنہیں یونانی"کوڈرائے "کہاکرتے تھے اورجوکہ برہنہ نوجوانوں کے مجسمے تھے، اُن کی مضبوطی مصری مجسموں سے خاصی ملتی تھی، گو شکلیں مختلف تھیں،لیکن جو شے انہیں مختلف بناتی تھی وہ راحت پہنچانے کی سعی تھی۔یونانیوں کو ہمیشہ اس بات کا احساس رہا کہ مجسمے ، ایک مخصوص معنیٰ میں زندہ رہا کرتے ہیں۔ قبروں پر بنائے گئے مجسمے دراصل قبروں کے اندر دفن انسان ہیں۔دیوتا ؤں کے مجسموں میں اُن کی جاودانی کااثر باقی ہے۔ ارسطونے کہا تھا کہ ممکن ہے اشیاء دیکھنے میں تکلیف دہ ثابت ہوں، لیکن ہم اُن کی انتہائی صحیح عکاسی دیکھ کر انبساط حاصل کرتے ہیں۔14
یونان میں فن عمارت سازی کی ابتداء مندروں کی تعمیر سےہوئی تھی۔ شروع میں لکڑی اورپتھرکی مدد سے عمارتیں تعمیر کی گئیں اورجب ایرانیوں نے یونان پرحملہ کیا تو وہ ان کےمندروں اورشہروں کو راکھ کےڈھیربناگئے تھے۔ایرانیوں کی واپسی کے بعدپھرسےیونانیوں نےاس فن کی طرف توجہ دی اوراپنی عمارتوں میں لکڑی کا استعمال بالکل ختم کردیا۔مختلف پتھروں اورمصالحوں کو عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کیا گیا ۔ عالی شان عمارتوں میں کثرت سےستون بنائےگئے ۔اس طرح یونانیوں نے اپناعلیحدہ طرز تعمیرایجادکرلیا ۔جس میں مخصوص شان اورتوازن رکھا۔سنگ تراشی کا انتہائی عروج پرکلیز(Pericles)کے دورمیں 450قبل مسیح سے 430 قبل مسیح تک ایتھنزمیں ہوا تھا۔سب سے خوبصورت مندراتھینا (Athena)آرٹ کی دیویکےلیےبنایاگیاجسےمشہورمجسمہ ساز فیڈیاس (Phidias) نےسونےاورہاتھی دانت سےبنایاتھا۔مندرکی دیواروں پرمذہبی کہانیوں کی نہایت خوبصورت انداز میں تصویرکشی کی گئی تھی۔یہ مندراپنی سادگی اور خوبصورتی کےلحاظ سےفن عمارت سازی اورسنگ تراشی کا اعلی نمونہ سمجھاجاتاہے۔
یونان میں تین اقسام کی عمارت سازی کوفروغ ہوا۔ ڈوروی(Dorian)، اونوی(Ionic) اورکارنتھی (Corinthian) ۔ان تینوں طریقوں میں ستونوں اورکارنس کی بناوٹ میں فرق تھا۔ڈوروی اندازکےستون اوران کے کارنس سادےہوتےجبکہ اونوی انداز کے ستون اورکارنس بیل بوٹےدارہوتےتھےاورکارنتھی ستونوں کی سطح مزین ہوتی تھی۔15
یونانی مندروں میں تینوں طرز کے ستون پائے جاتے تھے۔یونانی مندروں کی نمایاں خصوصیات ہم آہنگی اورتناسب تھا۔ان کےمندروں میں مصری مندروں کی طرح پراسراریت نہیں پائی جاتی تھی۔ 16 اہل یونان نےتعمیر کا فن بھی کافی حد تک دوسری اقوام سے حاصل کیا تھا۔ وہ اس میں خوب ماہر ہوگئے اور اس میں مزید نکھار پیدا کیا تھا۔ مختلف طرزکی عمارات قائم کیں جن کی تعمیر میں وہ یگانہ نظرآتے تھے۔ان کے طرز تعمیر کا ایک بہترین شاہکار اریکتھائن (Erechteion)مندر تھا جسے درج ذیل میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
قدیم یونان کی منڈی کا ذکر کرتےہوئے ایپل میلانی (Apel Melanie)تحریر کرتی ہے:
The market places of ancient Greece were called agoras. The agoras were an open-air market surrounded by many beautiful buildings. Greek shopped in different areas of the large, busy market place for goods such as fish, pottery, bronze, and bowls, oils, perfumes, cloth, and various regional foods. Officials carefully watched trade in the agora.18
قدیم یونان میں بازار کے لیے مختص جگہوں کو اگوراکہا جاتا تھا۔اگورا بغیر چھت کے کھلی ہوا میں لگنے والے بازار کو کہا جاتا تھا جو اپنے اطراف میں موجود خوبصورت عمارتوں سے گھرا ہوتا تھا۔یونانی مختلف اشیاء کی خریدو فروخت کے لیے بڑے اور مصروف بازاروں کو ترجیح دیتے تھے۔ ان اشیاء میں مچھلی، مٹی کے برتن، کانسی، پیالے، تیل، عطر، کپڑے، اور مختلف علاقائی کھانے شامل تھے۔ بازارکے عہدیدار باریک بینی سے تجارتی معاملات کی نگرانی کرتے رہتے تھے۔
قدیم یونانی اپنے دور کے سب سے بڑے تاجر تھے۔ انہوں نے طویل سمندری سفر طےکیے اور تجارت کی غرض سے نئے نئے مواقع کھوج نکالے۔ ان لوگوں نے تجارت 1300 قبل مسیح سے شروع کی جب سکوں کا وجود تک نہ تھا۔ وہ یہ تجارت اشیاء کے بدلے اشیاء دے کر کرتے تھے۔یونانی تجارت میں اتنے ماہر اپنی معاشی ضرورتوں کی وجہ سے ہوئے تھے۔ وہ لوگ اسپین سے ٹن کا خام مال درآمد کرتے تاکہ کانسی سے مرکب کرکے دھات بنا سکیں۔ اس کے عوض یونانی کپڑے، شراب اور لوہے کے آلات برآمد کرتے تھے۔ 19
یونانیوں نے بہت جلد کشتیاں اور جہاز چلانا سیکھ لیا تھا۔ جہاز رانی سیکھنے کے لیے بحیرۂ ایجین(Aegean Sea) بہت موزوں تھا۔ یہاں ہوا باقاعدگی سے چلتی رہتی تھی، اس لیے بادبانی کشتیوں کو چلانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔علاوہ ازیں سمندر میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے جزیرے موجود تھے۔ لوگ جہازوں اور کشتیوں پر سوار ہوکر بہت دور نکل جاتے لیکن خشکی نظروں سے اوجھل نہیں ہو پاتی تھی۔ یونان سے جو جہاز باہر جاتے اِن پر خربوزے، خشک انجیر اور زیتون کے تیل کے مرتبان لدے ہوتے تھے۔ یہ چیزیں مصر، سسلی اور بحیرۂ اسود کے ملکوں میں بیچ دی جاتی تھیں اور واپسی پر وہ لوگ وہاں سےگیہوں لے آتے تھے۔ یونانیوں کو سائپرس (Cyprus)کے جزیرے سے جو قبرص بھی کہلاتا ہے، تانبا حاصل ہوجاتا تھا،برطانیہ سے ٹین ہاتھ آتا تھا۔ ان دونوں کو ملاکر وہ کانسی بنالیتے تھے۔یونان کے لوگ مال کے عوض چاندی یا سونے کی ڈلیاں نہیں لیتے بلکہ وہ سکے استعمال کرتے تھے۔ یونانی سکے کھرے ہوتے تھے ان میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کی جاتی تھی پھر انہوں نے سکوں کا وزن بھی مقرر کر رکھا تھا جن میں کمی بیشی نہیں ہونے دی جاتی تھی۔ اس لیے لوگوں کو انہیں پرکھنے یا تولنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔20
ہیومر کے زمانے میں پیسے کا واضح ذکر تو نہیں لیکن تاریخی دستاویزات کے مطابق کسی بھی چیز کی قیمت کا اندازہ لگانے کے لیے بیل کو بنیاد بنایا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس پیمانے سے لوگوں نے عدول کیا اور قیمتی دھاتوں کی شکل میں زر مبادلہ حاصل کرنا شروع کیا ۔ چونکہ اس دور میں لوہا بھی ناپید تھا، اسی لیے یہ بھی ایک بہت قیمتی دھات تصوّر کی جاتی تھی۔ قیمتی ہونے کی بناء پر اس سےچھوٹی چھڑیوں کی شکل میں اوبیلوئی (Obeloi) کے نام سے دھاتی رقم تشکیل دی گئی تھی۔ اسےاوبول (Obol) بھی کہا جاتا تھا۔ ایک وقت میں صرف چھ اوبول ہی ہاتھ میں اٹھائے جاسکتے تھے۔ 21
600قبل مسیح میں باقاعدہ یونانیوں نےسکوں کا استعمال شروع کیا۔ ہیروڈوٹس (Herodotus) کے نزدیک سب سے پہلے سکوں کی ایجاد سلطنت لیڈیا(Lydia) میں ہوئی تھی۔ یہ سکےسونے اور چاندی کو ملاکر ایک دھات سے بنائے گئے تھے اور ان پر ایک مہر ہوتی جو اس بات کی دلیل تھی کہ یہ سکے اصلی ہیں۔بعد ازاں جب چاندی کے کثیرذخائر لوریئم (Laurium) میں دریافت ہوئے تو تمام سکےچاندی کے بنائے جانے لگے اور ان پر ایک طرف الو(Owl) کی مہر اور دوسری جانب دیوی ایتھینا(Athena) کی تصویر کندہ کی جاتی تھی۔ چاندی کےسکوں کو ڈراکمہ (Drachma) کہا جاتا تھا۔چھ اوبول ایک ڈراکمہ کے برابر تھےاور 6000 ڈراکمہ کی قیمت ایک ٹیلنٹ (Talent) کے برابر تھی۔ 22
اسپارٹا (Sparta)میں زر مبادلہ کے نام پر لوہے کے بنے ہوئے آدھے کلو کے بلاک استعمال کیے جاتے تھے جن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں کافی دشواری ہوتی تھی۔ خریدوفروخت کے لیے معمولی سی رقم اٹھانے کےلیے بھی بیل گاڑی کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسپارٹا کے ان نام نہاد سکوں کی قیمت آدھے اوبول (Obol)کے برابر تھی۔ اسپارٹا کے کچھ مقامات پر چمڑے کی رقم بھی استعمال کی جاتی تھی لیکن ایسا بہت کم تھا۔
قدیم ادوار میں عمومی طور پر مندروں میں لوگ اپنی دولت جمع کراتے اور اگر کوئی مصیبت ان پر آپڑتی تو یہ رقم ہی کام میں لائی جاتی تھی۔ جب یونان میں تجارتی معاملات ترقی کرتے گئے اور سکوں کا استعمال عام ہوگیا تو یہاں پر بھی بینکاری کے نظام کی ابتداء ہوئی۔ یہاں بھی مندر وں میں ہی خزانے جمع ہوتے اور یہیں سے دوسری ریاستوں کو قرضہ دیا جاتا نہ کہ عام لوگوں کو۔ تاریخی کتب کے مطابق ڈیلوز (Delos) کا مندرپانچ سال کے لیے دس فیصد سود پر قرضہ دیتا تھاجبکہ 433-437 قبل مسیح میں ایتھینا(Athena) کا مندر چھ فیصد سود پر قرضہ دیا تھا۔ 23
دوسری صدی قبل مسیح تک ڈیلوز کا جزیرہ بینکاری کے حوالے سے ایک اہم مرکز بن گیا تھا۔ اس وقت یہاں تین بینک اور ایک مندر تھا جہاں لوگ اپنی دولت جمع کراتے۔ بعد میں اس مرکزی بینک کی 35 شاخیں بن گئی تھیں۔24
جب بینکاری کا نظام عام لوگوں کی دسترس میں آگیا تو لوگوں نے اپنے مفاد کے لیے طرح طرح کے اصول ایجاد کرلیے تھے۔ جس کے پاس بھی دولت ہوتی وہ اپنے مرضی کے مطابق سود وصول کرتا اور دیگر معاملات میں ہیرا پھیری کرتا تھا۔ اس سے منسلک لوگ اتنے بدنام ہوگئے کہ انہیں پیسہ ہڑپنے والی شارک (Money Shark)کا لقب دےدیا گیا ۔ زینوفون (Xenophon)کے مطابق یہ کام دنیا کا نیچ ترین پیشہ تھا اور اسے صرف وہ لوگ اپناتے جو لوگ یا تو کاروباری طور برباد ہوچکے ہوتے یا پھر کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے قابل نہ ہوتے۔ ایتھینز(Athens) کے بینک ایک فریق سے رقم لے کر دوسرے فریق تک بھی پہنچاتےتھے۔ اصول یہ تھا کہ اگر ایک بندہ یہ چاہتا کہ ایک مخصوص رقم دوسرے شخص تک پہنچ جائے تو وہ دوسرے شخص کا نام لکھتا ، پیسے جمع کراتا ، جس کو پیسے دینے ہوتے، اس کی شناخت کے لیے کچھ معلومات لیتا اور پھر اس شخص کو پیسے پہنچادیتا تھا۔ سب سے زیادہ فائدہ بینک کو اس وقت ہوتا جب وہ کسی تاجر یا پھر کشتی والے کو قرضہ دیتا تھاحالانکہ اس طرح کے قرضوں میں پیسوں کے ڈوب جانے کا خطرہ تو بہت ہوتا لیکن یہ اس قدر منافع بخش بھی ہوتا تھا۔ 25
قدیم یونانیوں کا معاشی نظام تنگ نظر اور انتہائی بچکانہ طرز کا بھی تھا۔ اصول کے مطابق پارلیمانی ارکان پر لازم ہے کہ اسمبلی میں سالانہ میزانیہ پیش کریں جس میں سالانہ آمدنی و اخراجات کا ذکر ہو لیکن یونان میں اس طرح کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ یونانیوں کے پاس پارلیمینٹ میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ جب بھی کوئی کام سر پر آتا تو اس وقت پارلیمانی ارکان فیصلہ کرتے کہ کتنی رقم خرچ کرنی چاہیے اور یہ رقم کہاں سے آئے گی۔ ملک کی تمام دولت دو یا تین مقامات پر محفوظ کی جاتی تھی ۔ یہ ڈھیروں کی شکلوں میں نہیں بلکہ مخصوص ڈبوں میں رکھی جاتی تھی۔ہر ڈبے پر لکھا ہوتا کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہےاور کس مد میں خرچ ہونی ہے۔ اسی طرح سال ہا سال ان کا معاشی نظام چلتا رہتاتھا۔ اگر کسی سال اضافی مال بچ جاتا تو وہ رعایا میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ 26ورنہ زیادہ تر وہ مال بھی امیر لوگ آپس میں ہی بانٹ لیا کرتے تھے اور غرباء صرف اس امید پر ہی بیٹھے رہ جاتے کہ آئندہ سالوں میں اگر اس سے زیادہ بچت ہوئی توانہیں بھی کچھ حصّہ مل جائے گا لیکن ایسا سال کبھی نہیں آتا تھا ۔
محصولات اورلگان کےنظام کے متعلق ایم ایم آسٹن (M. M. Austin) نے تحریرکیاہے:
Taxation remained of course the main source of revenue for the majority of Greek cities. The use they made of it is revealing not only of their economic mentality but of the whole system of values on which the Greek city was built.27
یونان کے شہروں کی زیادتی کی وجہ سے محصول کی وصولی حکومتی آمدنی کا بنیادی عنصر تھا۔اس نظام کے وقوع نے نہ صرف یونان کی معاشی حالت کوبہتر کیا بلکہ اس مکمل نظام کو آشکار کیا جس پر یونانی شہروں کی تعمیر و ترقی کا انحصار تھا۔
اس ضمن میں ڈِلون (Dillon)،میتھو (Mathew)اورگارلینڈ(Garland)نے تحریرکیا:
All cities would have had their own system of taxation, both directed and in directed, and in the sixth as well as the fifth century BC. Most states would have had quite complex taxation and commercial systems in place.28
محصول کی وصولی کا نظام تمام شہروں میں مختلف تھا، جس میں بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طریقے شامل تھے، اور یہ نظام چھٹی اور ساتویں قبل مسیح میں بھی موجود تھا۔ کچھ ریاستوں میں محصول کی وصولی اور تجارت کا نظام نہایت پیچیدہ تھا۔
یونانی سرکار کے لیے لگان وصول کرناآمدنی کا سب سے اہم ذریعہ تھا خصوصا ان آمروں کے دور میں جو شہریوں سے جبرا لگان وصول کرتے تھے۔ جب بھی جمہوریت آتی تو ایتھنز کے شہریوں سے لگان وصول نہیں کیے جاتے ۔ ہمیشہ ان کی کوشش ہوتی کہ عام شہریوں کی آمدن و مال پر لگان نہ وصول کریں۔ وہاں کے امراء سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنی دولت کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔ یونان کے شہروں پر اور بھی مختلف قسم کے لگان مسلط تھے ۔ اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ رہائشیوں کا فائدہ ہو یا نقصان۔ جب بھی جنگ ہوتی تو لگان میں بے دریغ اضافہ کردیا جاتا اور ہر چھوٹی بڑی چیز پر لگان لگا دیا جاتا تھا۔ 29
ایک اعتبار سے یونان کی معیشت بقیہ تہذیبوں کی معیشت سے کافی جدید تھی لیکن زرعی وسائل کی قلت کے سبب یہ کبھی بھی خود مختار نہ ہوسکی۔ ان کے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر موجود تھا لیکن وہ سب مل کر بھی ایک مستحکم اور خوشحال معاشی نظام مرتب نہ کرسکے بلکہ اس کے برعکس ایک ظلم پر مبنی نظام بنا ڈالا جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی معیشت کو نقصان پہنچا بلکہ ان کی پوری تہذیب کی بنیا د ہل گئی تھی۔ اس نظام کی وجہ سے امیر مزید امیر ہوگئے اور غریب غریب ترہوگئے تھے۔ امتیاز پر مبنی اس برے نظام سے معاشرے میں موجود خلیج مزید وسیع ہوگئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ جب یونان پر دشمن حملہ آور ہوئے تب اہل یونان نے اپنی فوج کے بجائے دشمنوں کو اپنا نجات دھندہ سمجھ کر ان کا ساتھ دیا اور یوں یونانی تہذیب فنا کے گھاٹ اتر گئی۔