Encyclopedia of Muhammad

قدیم یونان کے مذہبی عقائد

قدیم یونانیوں کے لیے بھی آج کےآزاد منش افراد کی طرح مذہب ایک ذاتی تصوّر تھا جس کی بنیاد مختلف رسوم و رواج پر مبنی تھی۔مذہبی تصوّر ات کی قبولیت ان کا ذاتی عقیدہ ہونے کے باوجود پورے معاشرے میں سرائیت کیا ہوا تھا۔اپنی رسوم و رواج و دیگر عقائدکے ثبوت کے لیے انہوں نے بہت سی دیومالائی کہانیاں گھڑ لی تھیں۔ بعض یونانی ان کہانیوں پر یقین کرتے ہوئے اس کے مطابق عبادتیں بھی کرتے اور مذہبی تہوار بھی مناتے لیکن وہاں ایسے بھی لوگ موجودتھے جو کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

تصوّر خدا

یونانی باشندے اپنے دیوتاوٴں کو مظاہرقدرت کےنمائندےتصوّر کیا کرتے تھے۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ دیوتاانسانی صورت اورانسانی ادراک رکھتےہیں۔انہیں خوش رکھنےکےلیےیونانی ان کی پوجاپاٹ کرتےاوربھینٹ بھی چڑھاتے تھے۔1ان کا اعتقاد تھا کہ ان کے دیوتا انسانوں کی تمام حرکات و سکنات کا مشاہدہ کر تے ہیں، ان کی ضروریات کو پورا کرتے، خطروں سے بچاتے اور بیماریوں سے شفاء دیتے ہیں۔ اس کےبدلےان دیوتاؤں کی انہیں خصوصیت کے مطابق پوجا کی جاتی تھی۔ لوگ چڑھاوے دیتے، پوجا کرتے اور دیوتا کی مقدّس جگہوں کا خیال رکھتے تھے۔ سوائے کچھ گروہوں کے یونانی حیات بعد الموت کے معاملے میں اپنے دیوتاؤں سے کوئی امید نہیں رکھتے تھے۔ ان کا یہی خیال تھا کہ ان کے دیوتاؤں کےاحسانات صرف دنیا تک ہی محدود ہیں۔ 2

یونانی اعتقادات میں مظاہر پرستی اور اصنام پرستی شامل تھی، اسی وجہ سے ان کے دیوتا بھی آریاؤں اور ہندوؤں کی طرح لاتعداد تھے۔ زمانہ ءشجاعت میں یونانی دیوتا مختلف مظاہرقدرت کےنمائندے سمجھے جاتےتھے۔ یونانیوں کے عقیدےکے مطابق ان کے دیوتا انسانی صورت اور انسانی احساسات بھی رکھتے تھے،اس کے علاوہ ان میں انسانی کمزوریاں بھی پائی جاتی تھیں۔ فرق صرف اتنا تھاکہ یہ انسانوں کی طرح فانی نہیں بلکہ غیر فانی تھےاوردوسروں کوغیرفانی بنانےکی صلاحیت رکھتےتھے۔3

وقت گزرنے کے ساتھ یونانیوں نے یہ بھی ماننا شروع کردیا کہ بظاہر ان کے دیوتا انسانوں کی طرح ہی ہیں، لیکن دونوں میں فرق یہ تھا کہ دیوتا انسانوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں۔4 یونانیوں کے نزدیک ان کے دیوتاؤں کو خوش رکھنے کے لیے چڑھاوے چڑھانا اور پوجا پاٹ کرنا انتہائی ضروری تھا۔ 5وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کی زندگی کے ہر معاملے میں دیوتاؤں کا عمل دخل ہے۔6

دیوتا کو مرئی(مجسّم) شکل میں دیکھنے کی خواہش نے اولمپیا میں فیڈیاس(Phidias)(416-490قبل مسیح) کے ذریعے زیوس (Zeus) کا مجسمہ تیار کرایا جو دیوتا کی خوبیوں اور تقدس کو اجاگر کرتا تھا اور یونانیوں کے اعتبار سے جمالیاتی حسن کی اعلیٰ ترین مثال تھا ۔ مجسمہ ساز کا خیال تھا کہ دیوتائے عظیم کا مجسمہ ایک فرد میں اپنی ذات سے الگ ہوکر تصوّر ربانی میں گم ہوجانے کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذامرئی شکلوں کے ذریعے ربّانیت کا عرفان حاصل کرنے کی پیاس نے دیوتاؤں کے مجسمے تیار کرنا شروع کردیے تھے۔7

بتوں کوبڑےبڑےمندروں میں نصب کرکےان کےآگےمراسم ِبندگی اداکیےجاتےتھے۔ان دیوتاوؤں میں مؤنث ،مذکراور مخنث بھی تھے ۔ہیومر (Homer) کی نظموں سےیہ بھی معلوم ہوتاہےکہ ان کےدیوتاانسانی معاملات میں حصہ بھی لیتے تھے،اس کے علاوہ ٹرائے(Troy)کی جنگ میں وہ شریک بھی ہو ئےاور اپنے بہادروں کی ہمت افزائی بھی کی تھی۔ان میں عام کمزوریاں اورخامیاں بھی پائی جاتی تھیں۔یونانی ان معبودوں کوخالق کائنات یامالک کل نہیں مانتےتھے۔خداکے متعلق ارسطوکایہ عقیدہ تھاکہ وہ ایک مقناطیسی قوت ہےجوتمام اشیاءکواپنی جانب کھینچتی ہےلیکن درحقیقت نہ وہ خالق ہےاورنہ خلق وخلقت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔کشش کاباعث صرف یہ ہےکہ تمام اشیاءاس کی عاشق ہیں۔یونانیوں میں دیوتاؤں کا تقدس محض اسی قدرتھا جتنا کسی بزرگ شخص کاہوتاہے۔اسے چند معمولی مراسم کےساتھ یاد کرنا،اس کی عظمت وتمجیدکے لیےکافی تھا، پھران رسومات میں بھی کھیل تماشے،رقص وموسیقی اورشعروشاعری کا عنصرغالب رہتاتھا۔8

یونانیوں کے کئی دیوتا اور دیویاں تھیں۔ زیوس (Zeus)سب دیوتاؤں اور انسانوں کا باپ تھا۔اس کے علاوہ دوسرے دیوتا اپولو(Apollo)اوردیوی ایتھینا(Athena)مشہور خدا تھے۔9 یونانیوں کی ضعیف الاعتقادیاں مشرق کی بدعقیدگیوں سے زیادہ بدتر،لغواورقابل الزام تھیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی قومیں انوارقدس کے سرچشمہ سےزیادہ قربت رکھتی تھیں ۔جن میں وحی والہام کاسلسلہ جاری تھااورجن کےانبیاءورسل حامل انوار توحید تھے۔اہل یونان نے علم الٰہی کے متعلق سلف صالحین کی تمام روایتوں کوتلف کردیاتھا۔ہرکام کا پھل دنیا ہی میں ملاکرتاہےجیسے نیکوکارکو اپنی نیکی کا پھل ملنااوربدکارکواپنی برائی کی پاداش بھگتنا۔بس اسی قسم کی باتوں سےجوکچھ نتائج اخذکیےجاسکتے ہوں وہی ان کےہاتھوں میں تھےاور فقط انہیں سے وہ روحانی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ان کےشعراءاور فلسفیوں نے حق کا پتہ لگانے اور آخرکارجہالت و بت پرستی کے اندھیرےمیں ہاتھ پاؤں مار کے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ نورکی چند شعاعیں پالینے کی بے انتہا کوشش کی مگر موجودہ نور نبوت سےعدم التفات یا پھر عدم دلچسپی اور وحی الہی سےدوری یا پھر تجاہل عارفانہ کے سبب نور ہدایت سے محروم رہنا ہی انکا مقدر بن گیا ۔

درحقیقت یونانیوں کے دین نے کبھی ایک مکمل نظام کی صورت ہی اختیارنہ کی تھی اور اس میں برابر متضادعقیدےبڑھ رہےتھے۔آسمانوں کی نسبت ان کاخیال تھاکہ زمین کی مثل جانداروں سےآبادہیں۔ان ہستیوں کوصورت وسیرت میں وہ آدمی سےمشابہ جانتےتھےمگرفرق صرف یہ تھاکہ وہ زیادہ طاقتورغیرفانی اورغیرمرئی ہستیاں تھیں اوردنیاوی معاملات میں انہیں پورازورواختیارحاصل تھا۔10

پینتھیون (Pantheon)

پینتھیون (Pantheon)یونانی تہذیب کے خداوٴں کے مجموعہ کو کہا جاتا تھا۔ یہ تمام خدا یونانیوں کے ذاتی بنائے ہوئے تھے اور وہ انہیں خداوٴں کا ایک خاندان تصوّر کرتے تھے۔ جدید تصوّر میں انہیں12 اولمپیائی خدا تصوّر کیا جاتا ہے۔11

یونانی ایک بات پرمتفق تھےکہ آسمان اور زمین کےدیوتا الگ الگ ہیں جو بعض اوقات انسانی صورت میں بھی نمودارہوتےہیں۔ جدیداصطلاح میں اس کواینتھرُپومورفزم(Anthropomorphism) کہا جاتا ہے ۔12 ان کے دیوتاؤں کے نام اور احوال درج ذیل ہیں:

زیوس(Zeus)

زیوس(Zeus) قدیم یونانیوں کا اعلی دیوتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ تصوّر کیا جاتا تھا کہ اس کا مسکن بادلوں میں کوہ المپس(Mount Olympus) میں ہے۔13یونانیوں کی دیومالائی کہانیوں کے مطابق تمام دیوتاؤں اورکل آدمیوں کا باپ زیوس جو(جیوپیٹر)کےنام سےبھی شہرت رکھتاتھا،بجلی اس کی تلوار تھی جس سےوہ اپنے دشمنوں پر حملہ کرتا تھا۔تمام آسمان وزمین پراس کی حکومت قائم تھی۔ 14اس کا تخیل صاف و شفاف آسمان کے مطالعے سے اخذ کیا گیا تھا۔ آسمان جملہ کائنات پرمحیط نظر آتا ہےاور ان ہیولات کے ذریعے جو اس سے نکلتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں گویا ہر چیز پر راج کرتا ہے۔ بظاہر اجرام فلکی کی حالت ایک ہی نہیں رہتی بلکہ ان میں مسلسل اور گوناگوں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔اِسی لیے یونانی زیوس(Zeus)دیوتا کورحمت والاہی نہیں بلکہ جبر و قہر برسانے والا بھی سمجھتے تھے۔ ان کے تصوّر کے مطابق بارش، گرمی اور روشنی کے ساتھ ہی کڑک، چمک اور گرج کے طوفان بھی یہی دیوتا پیدا کرتاہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب اس کے دشمن دیوتاؤں اور عفریتوں نے اس کے راج کے خلاف بغاوت کی تو اس نے ان پر بجلی گرائی جس کی وجہ سے ان میں بہت سے گر کر زمین میں سما گئے تھے۔جب سے ہی وہ دیوتا زمین کو ہلا تے ہیں اور زلزلوں کا باعث بنتے ہیں۔ زیوس کے قبضے میں آسمانی آگ ہی نہیں بلکہ آسمانی پانی بھی تھا۔ بطور مینہ برسانے والے معبود کے اس کی پوجا کا مرکز دودونا(Dodona) تھا۔ زیوس(Zeus)دیوتا ہی کو تمام ندیوں کا منبع بھی سمجھا جاتا تھا۔

زیوس(Zeus)تمام انسانوں اور دیوتاؤں میں سب سے بڑا تھا۔ ہیومر(Homer) اور ہیزوئیڈ(Hesoid)کے مطابق زیوس دیوتاکے پاس وہ طاقتیں تھیں جو کسی کے تصوّر میں بھی نہیں تھیں۔تمام دیوتا اس کو بلا جھجھک قبول کرتے تھے۔ 15 زیوس کے بارے میں یہ بھی گمان کیا جاتا تھا کہ وہ ہر جگہ موجود تھا،وہ ضروریات کا پورا کرنے والا اور مصیبت زدہ کی مدد کرنے والا دیوتا تھا۔ ان کےنزدیک وہ بہت عظیم تھالیکن اس کی ایک کمزوری تھی کہ اپنی عظمت کو قائم رکھنے کے لیے اسے مادّے کی ضرورت تھی۔ یہ بھی مانا جاتا تھا کہ آسمان میں تارے اس نے ہی لٹکائے تھے۔16

ہیرا(Hera)

ہیرا دیوی اولمپیائی عبادت گاہ عامہ(Olympian Pantheon) میں زیوس دیوتا کی تین بہنوں میں سے ایک تھی اور ساتھ ہی زیوس کی بیوی بھی تھی۔وہ شادی بیاہ اور عورتوں کی دیوی تصوّر کی جاتی تھی۔17 دیوی ہیرا (Hera)قدیم یونانی خداوٴں کی ملکہ خیال کی جاتی تھی۔ہیرا دیوی حاسدانہ اور منتقم مزاج طبیعت سے کافی شہرت رکھتی تھی۔قدیم یونانیوں کا یہ ماننا تھا کہ ہیرا بنیادی طور پر اپنے شوہر زیوس سے محبت کرنے والوں اور اس کی ناجائز اولادوں کے خلاف سازشیں کرنے والی دیوی ہے۔ہیرا دیوی کا شمار ان مخصوص دیویوں میں کیا جاتا تھا جو اپنے شوہر کے ساتھ بہت وفادار تھیں۔ اسی لیے ہیرا دیوی ایک وقت میں ایک میاں رکھنے اور اس کے ساتھ ایمانداری کرنے والی عورت کی علامت کے طور پر جانی جاتی تھی۔18اس کا مسکن بھی دودونا(Dodona)تھا۔ اس کی پوجا کا مخصوص مقام آرگوس کے قریب کوہ یوبیہ(Euboea)تھا ، اسے بوپس"چشم بقر" (گئوآنکھ) بھی کہتے تھے۔ آرگوس کے علاوہ اس کے دو صومعے بھی تھے، ایک جزیرہ یوبیہ کے کوہ اوخا پر اور دوسرا کروتون (Crotone)کے قریب اونچی اونچی پہاڑیوں پر واقع تھا، اور وہ خاص طور پرجزیرہ ساموس(Samos) کی محافظہ تھی جس کے نام ہی سے"بلندی" کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔19

ایتھینا(Athena)

ایتھینا(Athena) حکمت، جنگ اور دیگر فنون کی ایک طاقتور دیوی سمجھی جاتی تھی۔20 اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ زیوس(Zeus) کے سر سے پیدا ہوئی تھی جو کہ ایک کھلی جہالت اور کم عقلی کی بات ہے اس کا ہتھیار آسمانی بجلی تھا،حفاظت کے لیے وہ ایک ڈھال استعمال کرتی تھی جس کے اوپر ایک گورگون (Gorgon) کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ایتھینا کو اُلّو کی انکھ والا بھی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ آسمان کی بھی دیوی تھی اور اس کے پجاری اس بات پر اعتقاد رکھتے تھےکہ اپنی فنّی مہارت کی وجہ سے ایتھینا دیوی تمام ظلم و ستم کو ختم کردیتی تھی۔21

اپولو(Apollo)

قدیم یونان میں اپولو(Apollo)کو موسیقی، صداقت ، غیب، روشنی، بیماری، شاعری وغیرہ کا دیوتا تصوّر کیا جاتاتھا۔22اسے اخلاقیات اور جوانی کا شاہکار بھی سمجھا جاتا تھا۔ دیومالائی کہانیوں کے مطابق اپولو (Apollo)ایک اولمپین(Olympian) دیوتا تھا اور زیوس(Zeus) کا بیٹا تھا۔ یہ دیوتا سیاسی طور پر غیر جانبدار سمجھا جاتا تھا ۔ 23

اپولو(Apollo) دیوتا کو تیرکمان سے مسلح سمجھا جاتا تھا۔ یونانی یہ سمجھتے تھےکہ یہ تیر دراصل سورج کی کرنیں تھیں جن کی مدد سے وہ عمق کے عفریتوں پر غالب آتا ہے اور تاریکی کی جگہ نور پھیلادیتا ہے۔ جس طرح روشن بادلوں کو آسمانی مویشی اور بھیڑیوں سے تشبیہ دی جاتی تھی اسی طرح اپولو دیوتا کو ان کا گڈریہ بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ گلوں اور ریوڑوں کا دیوتا بھی سمجھا جاتا تھا۔ سمندر پر اپولو(Apollo) کا اثر نہایت منفعت بخش پڑتا تھا اس لیے کہ وہ طوفان کو کم کرتا اور ایک خاص قسم کی مچھلی اور"دلفین"(Delphian) جوتھمے ہوئے سمندر میں اکثر جہازوں کے چاروں طرف اٹکھیلیاں کرتی ہوئی نظر آتی ہے اسی دیوتا کی طرف منسوب کی جاتی تھی، اسی وجہ سے اس کا خطاب ویلفینیوس بھی تھا۔ روشنی کا دیوتا ہونے کی وجہ سے وہ فطرتاً ناپاکی سے متنفر رہتا تھا اور عفریتوں سے انتقام لینے کا کام نیم معبودوں مثلاً ہرقل(Heracles) ، بیلے روفون، پرسیوس(Perseus) اور تھے سلیوس کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں اپولو دیوتا ازالہ ءِمرض بھی کرتا تھا۔ جب لوگ اپنی مشکلات میں اس کی طرف رجوع کرتے تو وہی انہیں نیک صلاح بھی دیتا تھا ۔اسی کی حفاظت میں عالی شان صومعے تھے جن میں سے سب سے ممتاز بت خانہ ویلفی(Delphi) بہت جلد دودونا(Dodona)کے بت خانے پر سبقت لے گیا۔ زمانہ مابعد میں اس کی پوجا ویلوس (Delos)اور خصوصاً ویلفی(Delphi)میں ہوتی تھی۔روشنی آسمان سے زمین تک سورج کی وساطت سے پہنچتی ہے، جس طرح ہندوستانی دیومالا میں اس کے لیے ایک مخصوص دیوتا یعنی سوریا تھا اسی طرح یونانی بھی اسے مہیلیوس کے نام سے پوجتے تھے جو فی الحقیقت اپولوہی کا دوسرا نام تھا۔24

آرٹمیس(Artemis)

آرٹمیس(Artemis) جنگلی جانوروں، شکار، اور کاشتکاری کی دیوی تھی۔ یہ زیوس(Zeus) اور لیٹو (Leto) کی بیٹی اور اپولو(Apollo) کی جڑواں بہن تھی۔ گاؤں دیہاتوں میں اس دیوی کے کثیر ماننے والے تھے۔ ہر گاؤں میں اس کی الگ الگ دیومالائی کہانیاں مشہور تھیں۔ زیادہ تر اس دیوی کی پوجا کریٹ (Crete) اور دیگر یونانی ریاستوں میں ہوتی تھی۔ 25

آرٹمیس(Artemis) اپولو کی بہن تھی۔ اپنے بھائی کی طرح اس کے ہاتھ میں بھی تیرکمان ہونے کی وجہ سے اس کی شبیہ ایک شکاری کی سی بنائی جاتی تھی۔ اس کی یہ خاصیت تو یقیناً نمایاں تھی، لیکن ساتھ ہی وہ ثمر اور قوائے فطریہ کی دیوی بھی تھی ۔ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ابتداء میں (بجائے ایک کے) دو مختلف الخواص دیویاں تھیں جنہیں زمانہ بعد میں یونانیوں نے یک جاکرکے ازتیمس کا جامہ پہنادیا تھا۔جہاں تک اس موخر الذکر خصوصیت کا تعلق ہے وہ ایشیائے کو چک کی مشہور دیوی کی طرح تھی جس کا معبد منجملہ اور مقامات کے ایفی سوس میں بھی تھا، اس حیثیت سے وہ ایسے قدرتی مناظر کی نگرانی کرتی تھی جو انسانی مساکن سے دور ہوں جیسے جنگل اور چراگاہیں جہاں درندے اور شکاری جانوررہتے ہوں۔ ہر ایسی چیز کی نگہداشت اس کا فرض تھا جو ویمتیر (Demeter، دیونی سوس(Dinosyius) اور اپولو کے (Apollo)حیطہ اختیار سے باہر ہوں۔ وہ ماہتاب کی دیوی بھی تھی۔

ہرمیس(Hermes)

ہرمیس(Hermes) جس کا رومی نام مرکری (Mercury) تھا، قدیم یونان کا تجارت، دولت، قسمت، زرخیزی، جانوروں کی پیداوار، نیند، زبان، چوری اور سفر کا دیوتا تھا۔ یہ تمام دیوتاؤں میں سب سے زیادہ شریر تھا اور دوسرے دیوتاؤں کا پیغام رساں بھی تھا۔ شریر ہونے کے ساتھ ساتھ ہرمیس ایک انتہائی چالباز دیوتا تھا جس نے پوسائڈن(Poseidon) کا سہ شاخہ، آرٹمیس کے تیر اور افروڈائٹی (Aphrodite)کا تہبند چرایا تھا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ہرمیس ہی وہ دیوتا تھا جس نے آگ اور پانسہ کو ایجاد کیا تھا۔ اسی وجہ سے تمام جواری اس دیوتا کی خاص طور پر پوجا کیا کرتے تھے۔ 26

ہیڈس (Hades)

ہیڈس (Hades)جہنم کا دیوتا تھا۔یہ کرونوس (Kronos)اور ریہیہ (Rhea)کا بیٹا اور زیوس (Zeus)کا بھائی تھا۔ یہ اور اس کی بیوی پرسیفنی (Persephone)مل کر زیر زمین دنیا پر حکومت کرتے تھے۔ہیڈیس کا لغوی معنیٰ "غائب" تھا اور چونکہ زیر زمین دنیا کا شمار غائب چیزوں میں ہوتا تھا، اسی لیے اس کے دیوتا کا نام ہیڈس تھا ۔ اس دیوتا کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ ایک ٹوپی پہنتا تھا جس کے ذریعے وہ غائب ہوجاتا تھا۔ ہییڈس نے شادی کے لیے پرسیفنی (Persephone) کو اغوا کیا اور پھر اسےہمیشہ کے لیے اپنے پاس قید کرلیا تھا۔ 27

ہیفیسٹس(Hephaestus)

یونانی دیوتا ہیفیسٹس(Hephaestus) روم میں ولکن(Vulcan) اور قدیم ہندوستان میں وشواکرما (Vishvakarma) کے نام سے جانا جاتا تھا28یہ آگ کا دیوتا تھا، بالخصوص اسے دھاتوں کے پگھلانےوالا تصوّر کیا جاتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ لیمنوس(Lemnos) میں رہتا تھا اور زیوس کے لیے بجلی کے کڑکے بنا کر دیتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ آسمانوں میں رہنے والوں کے لیے زرہ اور ہتھیار بنا بنا کر دیتا تھا جن کو وہ جنگوں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ 29

پرومے تھیوس (Prometheus)کے زوال کے بعد ہیفیسٹس(Hephaestus) آگ کا بہت بڑا دیوتا بن گیا تھا۔ ابتدا میں وہ بجلی کا قائم مقام تھا۔ یونانی یہ تصوّر کرتے تھے کہ چونکہ اسے آسمان سے پھینک دیاگیا تھااس لیے وہ زمین پر موجود ہے۔اٹیکا(Attica) میں اسے گھریلو آتش دان کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔

ہیسٹیا(Hestia)

ہیسٹیا(Hestia) کرونوس (Kronos)اور ریہیہ (Rhea)کی بیٹی اور آتش دان کی دیوی تھی لیکن اس کو دیگر گھریلو چیزوں کی طرف بھی منسوب کیا جاتا تھا۔ ایتھینا(Athena) اور آرٹمیس کی طرح یہ دیوی بھی کنواری تھی اور اس پر کسی قسم کا پیار اثر نہیں کرتا تھا۔ 30اس دیوی کے لیے یونان کے بہت سے شہروں میں آتش کدے قائم تھے جہاں مستقل آگ جلتی رہتی تھی۔ اگر کوئی نئی جگہ بھی آباد ہوتی تو آتش کدے سے خصوصی طور پر آگ وہاں لےجائی جاتی تھی۔ ہیسٹیا کو بولائیا(Boulaia)بھی کہا جاتا تھا ۔ یونان میں اس دیوی کے نام سے چڑھاوے بھی دیے جاتے اور کسی بھی دعا سے پہلے اس دیوی کا باقاعدہ نام لیا جاتا تھا۔ چڑھا وے کے لیے گائے یا خنزیر کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ ان کے ہاں یہ رواج تھا کہ جب نومولود بچہ پانچ دن کا ہوجاتا تو اس کو اٹھا کر کوئی بھی شخص اس دیوی کےآتش دان کے گرد چکر لگاتا۔ اس رسم کے بعد وہ بچہ گھر کا فرد متصوّر ہوتا تھا۔31

پوسائیڈن(Poseidon)

پوسائڈن(Poseidon) کو سمندر کا دیوتا مانا جاتا تھا۔32اس کو عظیم پوسائڈن بھی کہا جاتا تھا جو زمین کو ہلانے والا اور زیوس(Zeus) کے بعد سب سے طاقتور دیوتا تھا۔ 33اس کا بنیادی کام سمندر میں طوفان لانا یا ان سمندروں کو پرسکون رکھنا تھا۔ زیوس اور پوسائڈن کے درمیان اکثرگرما گرمی رہتی تھی۔ ایک بار تو پوسائڈن ایتھینا اور ہیرا کے ساتھ مل گیا اور زیوس دیوتا کو زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی تاکہ وہ اکیلا تمام دیوتاؤں کا حکمران بن جائے۔34اس کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ گھوڑوں کا پالنے والاہے۔ اس بنا ء پر ان کو پوسائڈن ہیپیوس (Poseidon Hippios) بھی کہا جاتا تھا۔35

یونان میں جو قومیں سمندر کے کنارے پر آباد تھیں وہ مختلف اطراف سے پوسائڈن(Poseidon) کی پرستش کرنے کی غرض سے متحد ہوگئیں مثلاً اکائیہ کے شہر ہلی کے میں اس دیوتا کی پوجا کی جاتی تھی۔ بعض یونانی اسےکورنتھ (Corinth)پر پوجتے تھے اور جو یونانی خلیج سارون اور جزیرہ نمائے آرگولس میں رہتے تھے انہوں نے اس کا معبد جزیرہ کالوریا میں بنالیا تھا، نیز سونیوم پر بھی پوسائیڈن کا ایک بت کدہ بنا ہوا تھا، بلکہ حقیقت یہ تھی کہ یونان کے تقریباًہر ایک راس پر ایک ایک بت خانہ بنا ہوا تھا۔36جبکہ عصرقدیم کےمطابق زیوس کابھائی نب چیون (Neptune) تھاجوسمندرکاحکمران تھا۔37

دیمتیر(Demeter)

دمیتر(Demeter) کرونوس(Kronos)اور ریہیہ (Rhea)کی بیٹی تھی اور کاشتکاری کی دیوی تھی۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اچھی فصل کے لیے دیمیتر کو خوش کرنا ضروری ہے۔ دیومالائی کہانی کے مطابق ایک بار اس کے بھائی پوسائڈن نے زبردستی اس سے زنا کیا جس کے نتیجے میں دو بچے پیدا ہوئے۔ ایک کا نام ڈیسپوئن (Despoine) تھا جس کو لوگوں نے اپنی دیوی بنا لیا اور ایرئون (Aerion) جو کہ ایک گھوڑا تھا کیونکہ جب پوسائڈن اس سے زیادتی کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو خودکو بچانے کے لیے اس نے ایک گھوڑی کا روپ دھار لیا تھا۔ دمیتر(Demeter)اصلا اپنے بھائی زیوس(Zeus) کی چوتھی بیوی تھی اور پرسیفونی(Persepone)اسی کی بیٹی تھی۔ لوگ اس کو خوش کرنے کے لیے چڑھاوے دیتے تھے جس کے بدلے دمیتر(Demeter)دیوی انہیں اچھی فصل دیا کرتی تھی۔38

اریس(Ares)

دیومالائی کہانیوں کے مطابق ایرس (Ares)یونانیوں کے جنگ کا خدا تھا۔ وہ اپنے خونریز روئیے کے لیے مشہور تھا۔ وہ اتنا جنگجو تھا کہ زیوس اپنے بیٹے ایرس کی اس صفت قبیح کی وجہ سے شدید نفرت کرتا تھا۔39ظاہری طور پر ایرس کو اچھے قد کے ایک حسین لڑکے کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ اتنا خونخوار ہونے کے باوجود ایرس(Ares) اپولو Apollo)اور ایتھینا(Athena) کے ماتحت تھا ، حکم عدولی کی صورت میں ایتھینا اس کو سخت سزائیں بھی دیتی تھی۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ چونکہ اولمپیا میں امن قائم ہو گیا تھا ، اسی لیے ایرس دنیا میں آگیا کیونکہ یہاں پر انسانوں کے درمیان مسلسل جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔40

افروڈائٹ(Aphrodite)

انسائکلوپیڈیا برٹانیکا (Encyclopedia Britannica)کے مطابق افروڈائٹ (Aphrodite) یونانی جنسی محبت اور خوبصورتی کی دیوی تھی۔ 41Retrieved: 18-03-17]کیل ڈٹن (Kaile Dutton) اس دیوی کی مزید تفصیلات دیتے ہوئے لکھتی ہے کہ افروڈائٹ (Aphrodite) تمام یونانی دیویوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی ۔ اس کی بنیادی ذمہ داری دنیا میں محبت پھیلانا تھی۔42

انسائکلوپیڈیا آف اینشینٹ گریک ورلڈ (Encyclopedia of the Ancient Greek world) اس دیوی کی مزید وضاحت کچھ اس طرح کرتا ہے:

" افروڈائٹ (Aphrodite)قدیم یونان کی محبت، زرخیزی، اور جسمانی خوبصورتی کی دیوی ہونے کے ساتھ ساتھ سمندر کے ساتھ بھی منسوب تھی۔ اس کے علاوہ اس کو فاحشہ عورتوں کی خاص دیوی بھی مانا جاتا تھا۔ کورنتھ(Corinth) میں اس دیوی سے مندر منسوب تھا جو اپنی مقدس داشتہ عورتوں کی وجہ سے کافی مشہور تھا۔ ان فاحشہ عورتوں کی کمائی متبرک خزانےکا حصّہ تھی۔ اس دیوی کی ولادت کے متعلق ہیسائڈ (Hesiod)لکھتا ہے کہ کرونوس (Cronos)نے اپنے والد یورینس (Uranos) کا اعضائے تناسل کاٹ کر سمندر میں پھینک دیا تھا۔ اس کٹے ہوئے حصے سے سفید رنگ کا جھاگ نکلا اور اس سے خوبصورتی کی دیوی افروڈائٹ (Aphrodite) پیدا ہوئی جوقبرص(Cyprus) کے ساحل سے نکلی۔43

ڈائیونیسس(Dionysius)

شراب وانگورکے دیوتا ڈائیونیسس(Dionysius) کے بارے میں یونانیوں کا خیال تھا کہ اس نے اپنی جان کی قربانی دیکرنوع انسانی کوبچایا تھا۔چنانچہ یونانی اس کی موت اوراحیاء کو مذہبی شعائرمیں شمار کرنے لگے تھے۔جب موسم بہار میں پھول کھلتے اور کونپلیں پھوٹتیں توعورتیں پہاڑوں پرنکل جاتیں، وہاں دن رات دل کھول کرشراب پیتیں اور نشے میں مدہوش دیوانہ وارجھومتیں اور ناچتی ہوئی جلوس نکالتی تھیں۔اس حالت میں کسی بکرے یا بیل کو ڈائیونیسس(Dionysius) دیوتا کا اتارسمجھ کرپکڑلیتیں اور اسے دانتوں سے کاٹ کاٹ کرکچاچباجاتی تھیں۔ ان کاعقیدہ تھاکہ اس طرح دیوتا ان کے اندر حلول کرجاتاہے۔44

یونانی دیوتاؤں کی غذا

یونان کی دیومالائی کہانیوں میں ان کے دیوتاؤں کے کھانے کا بھی ذکر ہے۔ ان کہانیوں کے مطابق، اس خاص کھانے سے وہ دیوتا غیر فانی ہوجاتے تھے۔ ان کے کھانے کو امبروزیہ(Ambrosia) اور خاص مشروب کو نیکٹر(Necter) کہا جاتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جب تک اس کھانے کی تخلیق نہیں ہوئی تھی تو یہ دیوتا اپنے مرے ہوئے دشمن کی روحوں کی خوشبو سونگھ کر گذارا کرتے تھے۔ 45 اڈولف ہولمز(Adolf Holmes)کے مطابق اس طلسمی کھانے سے نہ صرف دیوتا غیر فانی ہوجاتےتھے بلکہ ہمیشہ جوان بھی رہتے تھے۔ مزید یہ کہ دیوتا اس شے کو اپنے جسم اور بالوں پر بھی لگاتے تھے۔46 رالنسن (Rawlinson)لکھتا ہے کہ اس کھانے کہ بغیر دیوتا کمزور ہوجاتے تھے لہٰذا وقتا فوقتا انہیں اس کھانے کی ضرورت پڑتی رہتی تاکہ وہ مسلسل تازہ دم رہیں۔47

عقیدہ حیات بعد الموت

قدیم یونانی یہ سمجھتے تھے کہ موت کے بعد وہی لوگ زندہ رہ پاتے ہیں جنہیں زندہ لوگ یاد کیا کرتے ہیں۔ بعد ازاں ان کے عقائد تبدیل ہوگئے اور وہ اس بات کو ماننے لگے کے مرنے کے بعد روحیں ایک اور جگہ منتقل ہوجاتی ہیں۔ اس جگہ کے دیوتا کا نام ہیڈس (Hades)تھا ۔ اس دنیا میں مختلف جگہیں تھیں او ر جن لوگوں نے نیک زندگی بسر کی ہوتی وہ خوبصورت اور آرام دہ جگہ میں سکونت اختیار کرتے ہیں اور جن لوگوں کی زندگی گناہوں سے بھری ہوتی انہیں آگ سے بھرے گڑہوں میں پھینک دیا جاتا ہےجسے ٹارٹارس (Tartarus)کہا جاتا تھا۔وہاں انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں۔48

اس جگہ کی دو وادیاں اپنی سزاؤں کے اعتبار سے کافی مشہور تھیں۔ ایک کا نام ٹنٹالوس(Tantalos) اور دوسری کا سیسیفوس (Sisyphos) تھا۔ ٹنٹالوس میں روحوں کو ہمیشہ بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا جبکہ سیسیفوس میں لوگوں کی سزا یہ تھی کہ تمام لوگ ایک بڑے سے پتھر کو زندگی بھر ایک پہاڑ کے اوپر پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں۔ یونانی لوگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر کسی شخص نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہوتا تو ان کا دیوتا سے ایک خاص تعلق قائم ہوجاتا تھااور زندگی کے اختتام پر انہیں خاص چیزو ں سےبھی نوازا جاتا تھا۔ ان لوگوں کی روحوں کو زیر زمین نہیں لیجایا جاتا بلکہ ایک خاص مقام پر لیجایا جاتا تھاجہاں وہ ہمیشہ عیاشی کی زندگی بسر کرتے رہیں گے۔ 49

یونانیوں کی فہم وفراست نے فلسفہ توخوب ابھارا مگر خالق حقیقی سے تعلق قائم نہ کرسکی۔انہوں نے تن سازی توخوب نبھائی مگرروح پروری کی حقیقت کو نہیں پاسکے۔ وہ مظاہرقدرت دیکھتے رہ گئے مگر یہ نہ جان پائے کہ یہ سب کسی کی نشانیاں ہیں جوبنانے والےکی جانب واضح اشارہ کرتی ہیں۔ان میں سے کسی ایک صاحب عقل نے بھی یہ سوچنا گوارہ نہیں کیا کہ خدا کی ذات جو ہر عیب اور نقص سے پاک ہونی چاہیے اگر اسمیں ہی وہ سارے عیوب جمع ہو جائیں جو عام انسانوں میں ہوتے ہیں تو وہ ذات خدا کیونکر کہلا سکتی ہے ؟ہر وہ گناہ جو ایک بدکار ،گٹھیا اور ذلیل النفس انسان سے ہی متصوّرہوسکتا ہے وہ اس گناہ کی نسبت فخریہ اپنے خداؤں کی طرف کرتے تھے ،زناکاری ،اپنی حقیقی بہن اور بیٹی سے بدفعلی ،شراب نوشی ،چوری و ڈاکہ زنی اور اس قسم کے دیگر رذیل افعال جو ایک سلیم الطبیعت انسان میں بھی کبھی جمع نہیں ہو سکتے وہ انکے تمام خود ساختہ خداؤں میں پائے جاتے تھے جیسا کہ سطور بالا میں خود بحوالہ انکی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے ۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ارسطو ،سقراط ،افلاطون ،پوری پیڈیز،ایسکلیلس ،سو فو کلیز وغیرہ دنیا داری کے حساب سے تو شاید اہل علم و اہل دانش تھے مگر دینی اعتبار سے عقل و فہم سے کورے بلکہ اس درجے کے غبی تھے ،جو انسان اور خدا کے فرق تک کو نہ سمجھ نہ پائے چہ جائیکہ اسکی جزئیات کو سمجھتے انہوں نے ادب و فلسفہ تو یقینا متعارف کروایا مگر قبر ،آخرت بندگی اور خدا پرستی کی بنیادی شد بد سے بھی عاری تھے اس لئے ان میں سے اکثر خود بھی زانی ،شرابی ،بدکار اور ہم جنس پرست تھے۔اس لئے کسی بھی طور پر وہ کسی اہل ایمان کے لئے بالخصوص اور جمیع انسانیت کے لیے بالعموم نہ تو رہبر اور رہنما مانے جا سکتے ہیں اور نہ ہی مقتدی اور پیشوا کا منصب انہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ جو خود گمراہ ،بددین ہو وہ دوسروں کی امامت تو کیا خود اپنی ہدایت کی راہ سے بھی محروم ہوتا ہے اسلیے یہ ضروری تھا کہ ان لوگوں کو حقیقی وصحیح دینی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے کسی نبی و رسول کو بھیجا جائے اور اسکی اتباع ان پر لازم قرار دی جائے جیسا کہ اسلام اور پیغمبر اسلام نے آکر کیا ۔

 


  • 1 غلام باری، تاریخ کامطالعہ،مطبوعہ:مکتبہ اردو،لاہور،پاکستان،1949ء،ص: 184-185
  • 2 Lesley Adkins and Roy A. Adkins, (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 310.
  • 3 ڈاکٹرنگارسجادظہیر،مطالعہ تہذیب،مطبوعہ:قرطاس،کراچی،پاکستان، 2007ء،ص:92
  • 4 Syed Hashmi Fareedabadi, Tareekh Yunan Qadeem, Institute of Aligarh, India, Pg. 26.
  • 5 Ghulam Bari (1949), Tarreekh ka Muta’ala, Maktaba Urdu, Lahore, Pakistan, Pg. 184-185.
  • 6 David Sacks Revised by Lisa R. Brody (2005), Encyclopedia of The Ancient Greek World, (Revised Edition), Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 291.
  • 7 حبیب حق، یونانی تہذیب کی داستان، مطبوعہ:نگارشات پبلشرز، لاہور،پاکستان، 2015ء، ص: 187-188
  • 8 محمد عبد الحلیم شرر، عصر قدیم،مطبوعہ:سٹی بک پوائنٹ،کراچی،پاکستان،2005ء،ص:37
  • 9 ایڈولف ہولم،تاریخ یونان قدیم (مترجم: پروفیسر محمد ہارون خاں شیروانی)، ج-1، مطبوعہ : نفیس اکیڈمی ، کراچی ،پاکستان، 1987ء ،ص: 158-159
  • 10 پروفیسرظفرعمرزبیری،قدیم تہذیبیں اورمذاہب، مطبوعہ:دار الشعور،لاہور،پاکستان،2005ء، ص:122
  • 11 Daniel Ogden (2007), A Companion to Greek Religion, Blackwell Publishing, Oxford, U.K., Pg. 43.
  • 12 سیدہاشمی فریدآبادی،تاریخ یونان قدیم،مطبوعہ:مطبع انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ کالج،انڈیا،ص:26
  • 13 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 4, Pg. 145.
  • 14 پروفیسربشیراحمدخاں ،دنیاکی تاریخ،مطبوعہ :مکتبہ نظامیہ،کراچی،پاکستان،1957ء،ص:73
  • 15 George Grote (1851), History of Greece, John Murray, London, U.K., Vol. 1, Pg. 2-4.
  • 16 George Rawlinson, (1883) The Religion of the Ancient World, Charles Scribner’s Sons, New York, USA, Pg. 184-185.
  • 17 Edwards Frank (2015), North of Heaven, Book Baby, New Jersey, USA, Pg. 22.
  • 18 Mark Cartwright (2012), Ancient History Encyclopedia (Online) https://www.ancient.eu/Hera/: Retrieved: 10-05-2020
  • 19 ایڈولف ہولم، تاریخ یونان (مترجم: پروفیسر محمد ہارون خاں شیروانی) ، ج-1، مطبوعہ : نفیس اکیڈمی ، کراچی ، پاکستان،1987ء،ص: 162-160
  • 20 Nancy Loewen, (1999), Athena: Greek and Roman Mythology, Capstone, Mankato, Massachusetts, USA, Pg. 15.
  • 21 Adolf Holm (1894), The History of Ancient Greece: Its Commencement to the Close of Independence of Greek Nation, Macmillan and Co., London, U.K., Vol. 1, Pg. 126.
  • 22 W. S. Gilbert & Ian C. Bradley (2016), The Complete Annotated Gilbert and Sullivan, Oxford University Press, Oxford, U.K., Pg. 10.
  • 23 Lesley Adkins and Roy A. Adkins, (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 316-317.
  • 24 ایڈولف ہولم، تاریخ یونان (مترجم: پروفیسر محمد ہارون خاں شیروانی)، ج-1، مطبوعہ : نفیس اکیڈمی ، کراچی ، پاکستان،1987ء،ص: 163-164
  • 25 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Artemis-Greek-goddess: Retrieved: 18-3-17
  • 26 Mark Cartwright (2012), Ancient History Encyclopedia (Online): http://www.ancient.eu/Hermes/: Retrieved: 18-03-17
  • 27 Luke Roman and Monica Roman (2010), Encyclopedia of Greek and Roman Mythology, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 192.
  • 28 Vaid Vashish (2012), The Codified Mysteries, Lulu.com, North Carolina, USA, Pg. 165.
  • 29 George Rawlinson, (1883) The Religion of the Ancient World, Charles Scribner’s Sons, New York, USA, Pg. 141-142.
  • 30 Luke Roman and Monica Roman (2010), Encyclopedia of Greek and Roman Mythology, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 234.
  • 31 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 339.
  • 32 Bukert Walter (1985), Greek Religion, Harvard University Press, Massachusetts, USA, Pg. 136.
  • 33 George Grote (1851), History of Greece, John Murray, London, U.K., Vol. 1, Pg. 76.
  • 34 Luke Roman and Monica Roman (2010), Encyclopedia of Greek and Roman Mythology, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 418.
  • 35 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2005), Handbook to the Life in Ancient Greece, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 354.
  • 36 ایڈولف ہولم، تاریخ یونان (مترجم:پروفیسر محمد ہارون خاں شیروانی) ،ج-1،مطبوعہ : نفیس اکیڈمی ، کراچی ، پاکستان، ص: 166-171
  • 37 محمد عبد الحلیم شرر، عصر قدیم،مطبوعہ:سٹی بک پوائنٹ،کراچی، پاکستان،2005ء،ص:37
  • 38 Luke Roman and Monica Roman (2010), Encyclopedia of Greek and Roman Mythology, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 132.
  • 39 Kathleen N. Daly, Marian Rengel (2009), Greek and Roman Mythology, InfoBase Publishing, New York, USA, Pg. 16.
  • 40 George Rawlinson (1883) The Religion of the Ancient World, Charles Scribner’s Sons, New York, USA, Pg. 140-141.
  • 41 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Aphrodite-Greek-mythology: Retrieved: 18-03-17
  • 42 Anna Haywood, (2013), Love Craft: Divine, Cast and Decode Your Way to Love with the Power of Astrology, Numerology, Spells Potions, and More, Adams Media, Massachusetts, USA, Pg. 81-82.
  • 43 David Sacks Revised by Lisa R. Brody, (2005), Encyclopedia of The Ancient Greek World, (Revised Edition), Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 33-34.
  • 44 علی عباس جلالپوری ،روایات تمدن ِ قدیم ، مطبوعہ :تخلیقات، لاہور،پاکستان،2012 ء،ص:127
  • 45 Ancient Origins (Online): http://www.ancient-origins.net/myths-legends/immortality-elixir-life-and-food-gods-001201: Retrieved: 18-03-17
  • 46 William Smith (1845), School Dictionary of Greek and Roman Antiquities London, U.K., Pg. 19.
  • 47 George Rawlinson (1883) The Religion of the Ancient World, Charles Scribner’s Sons, New York, USA, Pg. 135.
  • 48 Ancient History Encyclopedia (Online Version): http://www.ancient.eu/article/29/: Retrieved 22-03-17
  • 49 Afterlife: Greek and Roman Concepts, Encyclopedia of Religion (Online): http://www.encyclopedia.com/environment/encyclopedias-almanacs-transcripts-and-maps/afterlife-greek-and-roman-concepts: Retrieved: 22-03-17