Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

تاریخ روم

قدیم رومی تہذیب کا شمار تاریخ انسانی کے ان بڑے سماجوں میں کیا جاتا ہے جس کے اثرات نے دنیا کے ایک بڑے حصّے کو متاثر کیا ۔753 قبل مسیح میں سات پہاڑیوں پر قائم ہونے والی ایک چھوٹی شہری ریاست سے لے کر509 قبل مسیح میں ایک بڑی جمہوری ریاست بننے اور پھر27 قبل مسیح میں دنیا کی ایک عظیم سلطنت بننے تک رومی تہذیب کا سفرکئی نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔ یہ ایک قوم کی داستان ہے جس نے اپنے ظلم ،جبر،دہشت گردی اور علم و شعور کے ناجائز استعمال کی بنیاد پر دنیا کے ایک بڑے حصّے پر حکومت کی۔سلطنت روم کی حدود میں انگلستان سمیت یورپ کا ایک بڑا حصہ، شمالی افریقہ، مصر ، شام ، ایشیائے کوچک ، اٹلی اور مغربی ایشیا کا ایک بڑا حصہ شامل تھا۔ روم کے تہذہبی اور ثقافتی اثرات آج کی مغربی تہذیب میں واضح دیکھے جا سکتے ہیں جس میں بے حیائی ،زناکاری ،احسان فراموشی اور استعماری نظام بالخصوص شامل ہے اور یہی بے اعتدالی،ظلم و زیادتی، ہوس ِ مال و ملک، بے حیائی اور بے باکی اور فطرت کے اصولوں سے بغاوت جیسے عوامل نے عظیم الشان سلطنت کو بالآخر فنا کے گھاٹ اتار دیا۔

ارضِ روم کے لیے انگریزی زبان میں(Rome)اور اطالوی زبان میں(Roma) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔روم کی بنیاد روایتوں اور داستانوں میں ملتی ہے۔ تاہم جدید تحقیقات اس نظریہ کو تقویت دیتی ہیں کہ شہر کی بنیاد آٹھویں صدی قبل مسیح میں پڑی۔ شہر روم، رومی بادشاہت کا دارالحکومت بنا (جس پر روایات کے مطابق بادشاہوں کی 7پشتوں نے حکومت کی) اور پھر رومی جمہوریہ کا دارالحکومت بنا (جس میں ایوان بالا یا سینٹ کو زیادہ اختیارات حاصل ہوئے) ۔ یہ کامیابی اور برتری فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ اقتصادی غلبہ کی وجہ سے بھی تھی جس نے اپنے اندر ہمسایہ تہذیبوں خاص کر اٹرسکن(Etruscan) (قدیم مقامی باشندے)اور یونانی تہذیبوں کو جذب کر لیا۔ روم کی برتری پورے یورپ اور بحیرہ روم(Mediterranean Sea) کے ساحلوں پر بڑھتی گئی جبکہ اس کی آبادی 1000000سے تجاوز کر گئی۔ تقریبا 1000سال تک روم مغربی دنیا کا سب سے اہم سیاسی مرکز، امیر ترین اور سب سے بڑا شہر رہا اور یہ برتری سلطنتوں کے اتار چڑھاؤ سے متاثر نہ ہوئی ۔

وجہ ءتسمیہ

کُتبِ تاریخ میں اہل رُوم کے لیے کہیں بنی الاصفر کا نام آتا ہے تو کہیں رُوم یا رُومہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔1لفظ"روم" مختلف اقوام کے نزدیک مختلف معانی ومفاہیم میں استعمال ہوتا تھا۔

روم فارسی اور ترکی زبانوں میں بازنطینی(Byzantine) سلطنت کا نام تھا۔ روم کے ہم معنی الفاظ میں بلاد الرومان یا بازنطینیوں کی سرزمین شامل تھی۔ وسطی ایشیاء میں روم کا لفظ سلطنتِ روما کے لیے استعمال ہوتاتھا ۔لفظ روم زمانہ قدیم ہی سے قدیم یونانیوں، مشرقی رومی سلطنت اور بازنطینی (Byzantine) سلطنت کے لیے استعمال ہوتاتھا ۔2روم کی وجہ تسمیہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ اس کے مؤسسوں میں ایک شخص رو مولس(Romulus) تھا۔ جس کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا ۔3

جدِّاعلیٰ

ابن کثیر کے مطابق اہلِ رُوم حضرت نوح کے بیٹے یافث(Japheth) کی اولاد سے ہیں۔ نوح کے تین بیٹوں کی اولاد سے عرب، حبشہ اور رُوم آباد ہیں۔4امام ترمذی کی ایک روایت کے مطابق بھی سام (Shem)بن نوح اہل عرب کے، حام(Ham) بن نوح اہل حبشہ کے اور یافث (Japheth)بن نوح رومیوں کے جد امجد تھے۔ 5

اہل رُوم کے نسب سے متعلق ابنِ خلدون لکھتے ہیں:

  یہ گروہ عالم کے مشہور ترین گروہوں میں سے ہے۔ بخیال ہر وشیوش ، غریقیوں کا دوسرا گروہ ہے اور یہ دونوں نسباً یونان میں جمع ہوتے ہیں اور بخیال بیہقی، یہ غریقیوں کاتیسرا گروہ ہے اور یہ تینوں نسباً یونان بن علجان بن یافث(Japheth) میں شریک ہیں اور رُوم کے نام سے یہ تمام گروہ موسوم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں رُومیوں ہی کی بڑی سلطنت ہوئی ہے۔6

اساسِ روم

روم کی ابتدائی تاریخ کے حوالے سے ایک قصہ نہایت ہی مشہور ہے جس پر بعض مؤرخین نے اعتماد کیا ہے اور بعض نے صراحتا اسکی نفی کی ہے کہ شہر البا لونگا(Alba Longa) کے ایک بادشاہ کو اس کے بھائی نے تخت سے اتار دیا اور اس کی بیٹی رہییا سِلوِیا(Rhea Silvia) کو ویستا (Vesta)دیوی کی دوشیزہ بنادیا اور اس کو تاحیات کنواری رہنے کی قسم کھانی پڑی۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں رہییا سِلوِیا(Rhea Silvia) کے ہاں جڑواں لڑکے پیدا ہوئے اور بادشاہ نے طیش میں آکر حکم دیا کہ انہیں دریا میں غرق کردیا جائے۔ ایک غلام انہیں ٹوکری میں رکھ کر دریا کے کنارے لے گیا اور ٹوکری پانی میں ڈال دی۔ لیکن وہ دریا میں ڈوبے نہیں بلکہ لہروں نے انہیں کنارے پر انجیر کے درخت کے نیچے پہنچادیا جہاں ایک مادہ بھیڑیئے نے انہیں اپنا دودھ پلایا۔ پھر ان بچوں کو ایک گڈریا اٹھالے گیا جس نے انہیں پالا پوسا۔ ایک کا نام اس نے رومولوس(Romulus) رکھا اور دوسرے کا نام ریموس(Remus)۔

جب دونوں بچے بڑے ہوئے تو ان کی پیدائش کا راز جلد ہی دور دور تک پھیل گیا۔ البا لونگا (Alba Longa)میں انہوں نے غاصب کا تختہ پلٹ کر اپنے نانا کو پھر سے تخت پر بٹھایا اور اس سے ایک نئے شہر کی داغ بیل ڈالنے کی اجازت مانگی۔ یہ شہر بساتے وقت دونوں بھائیوں میں لڑائی ہوگئی۔ رومولوس (Romulus)نے ریموس (Remus)کو قتل کردیا۔ شہر کو رومولوس (Romulus)سے موسوم کیا گیا جو وہاں کا پہلا بادشاہ بنا۔ روم کے قدیم مورخوں کے بیان کے مطابق ا س شہر کی بنیاد 21 اپریل753 قبل مسیح کو رکھی گئی تھی۔ 7

تاریخ کی بعض کتب میں روم کی ابتداء کے متعلق یہ بھی درج ہےکہ جس زمانے میں بلینی آ ریونان میں داخل ہوئے غالباً اسی زمانے میں آریاؤں(Aryans) کا ایک اور گروہ اٹلی پر حملہ آور ہوا۔ اس زمانے میں اٹلی میں قفقاذی نسل کی ایک شاخ اٹریسکن(Etruscans) آباد تھی۔ آریاؤں کی ایک جماعت اٹریسکن(Etruscans) کے جنوب اور جزیرہ منی کے جنوبی حصے کی نو آبادیوں کے شمال میں آباد ہوگئیں۔ یہ لوگ "لاطینی" کہلاتے تھے۔ ابتداء میں ان کے 12قصبے ایک پہاڑی کے گرد آباد تھے ، بعد میں یہ نو آبادیاں مل کر روم بن گئیں۔8

تاریخی ادوار

قدیم روم کی تاریخ کو تین اہم ادوار میں تقسیم کیا جا تا ہے۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ753 قبل مسیح میں روم کی بنیاد پڑنے کے بعد وہاں ملوکیت کے دور کا آغاز ہوا جو 509 قبل مسیح تک جاری رہا۔اس دوران 7بادشاہ گزرے جن میں سے پہلے 6حکمران قدرے بہتر تھے جبکہ ساتواں اور آخری بادشاہ لیوشیس تارقوئینیس سوپربس (Lucius Tarquinius Superbus) ایک ظالم و جابر حکمران تھا جسے ہٹا کر509 قبل مسیح میں جمہوری دور حکومت کا آغاز کیا گیا۔9سلطنت روم کا دور27 قبل مسیح میں آگسٹس سیزر(Augustus Caesar) کی حکومت سے شروع ہوا تھا۔10 مغربی رومی سلطنت476 عیسوی تک قائم رہی ۔11تاہم بازطینی سلطنت 1453 عیسوی تک باقی رہی۔ترک عثمانی حکمران سلطان محمد دوئم نے قسطنطنیہ فتح کر کے اس کا خاتمہ کیا تھا۔12

عہد ملوکیت

753 قبل مسیح سے لےکر509 قبل مسیح تک کے دور کو عہد ملوکیت کہتے ہیں ۔ اس دور کا آغاز روم کے قیام اور اس کے پہلے بادشاہ رومولوس (Romulus)کی753 قبل مسیح میں تخت نشینی کے ساتھ ہوا تھا۔ رومولوس (Romulus) کا اقتدار37سال تک قائم رہا۔اس دورا ن اس نے شہر کو مستحکم کیا،باہر سے آنے والوں کو پناہ اور شہریت دی اور کھیل کے مقابلوں کا بھی انعقاد کرایا۔اسی کے دور میں رومیوں نے عورتوں کی کمی پوری کرنے کے لیےسیبائینز(Sabines) کو کھیلوں کے بہانےبلا کر ان کی کنواری لڑکیوں کو اغوا کر لیا جس سے جنگ چھڑ گئی مگر جلد ہی ان دونوں میں معاہدہ ہو گیا اور سیبائینز(Sabines) کو بھی ریاست میں شریک کر لیا گیا ۔13اس نے بچوں کے قتل کی ممانعت کردی خاص طور پر لڑکوں اور پہلی لڑکی کو قتل نہیں کیا جا سکتا تھا، تاہم اگر بچہ معذور ہو تو پانچ پڑوسیوں کی گواہی اور رضامندی کے بعد اس کے قتل کی اجازت تھی گویا کہ نومولود بچوں کے قتل کی بھیانک تاریخ میں یہ امام کا درجہ رکھتے تھے 14716 قبل مسیح سے 673 قبل مسیح تک نوما پومپیلیئس(Numa Pompilius) کی حکومت رہی جس کا بادشاہ سیبائینز(Sabines) میں سے منتخب کیا گیا تھا۔نوما(Numa) نے اہل روم کو قانون دیا اور تہذیب سکھائی۔ اسی نے کیلنڈر کی اصلاح کی اور ژانوس(Janus) دیوتا کا معبدتعمیر کروایا ۔اس کے بعد 673 قبل مسیح سے641 قبل مسیح تک روم کے تیسرے بادشاہ تلو س ہوسٹی لیس(Tullus Hostilius) کا عہد حکومت رہا جس کے بعد640 قبل مسیح سے616 قبل مسیح تک نوما(Numa) کا پوتا اینکس مارکیوس (Ancus Marcius) تخت نشین رہا جو ایک مقبول حکمران تھا۔ اس نے فتوحات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کو وسعت دی اور اس کے گرد نئی فصیل تعمیر کرائی۔اسی نے روم میں پہلی جیل اور دریائے ٹائبر(River Tiber) پر پل کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو اوستیا(Ostia)کے نام سے موسوم ہوا تھا۔15اس کے بعد لیوشیس تارقوینیس پریسکس(Lucius Tarquinius Priscus)، سرویس تیولیس(Servius Tullius) اور لیوشیس تکیرقینیس سوپربس(Lucius Tcirquinius Superbus) نام کے بادشاہ گزرے ۔16

عہد جمہوریت

عہد ملوکیت کے خاتمے کے بعد چند سَری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔17ہوا یوں کہ جب آخری بادشاہ جو اٹرسکن(Etruscan) نسل سے تعلق رکھتا تھا اور مغرور و متکبر تارقیین(Tarquin the Proud) کے نام سے مشہور تھا، روم کےاشرافیہ اور عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا تو نتیجے میں510 قبل مسیح میں اسے عہدے سے ہٹا کر جلا وطن کر دیا گیا۔ اہل روم نے اس کے بعد ایک نئی طرز حکومت کا آغا ز کیا جسے جمہوری طرز حکومت کا نام دیاگیا تھا۔ اس حکومتی نظام کو عدالتی حاکم چلاتے تھے جنہیں سالانہ بنیادوں پر منتخب کیا جاتا تھا۔ ان پر دو نائب یا قونصل مقرر کیے جاتے تھے جو حقیقی معنوں میں ریاست کے سربراہ ہوتے تھے اور حکومتی ایوان یا سینٹ (Senate) کی مشاورت سے فیصلہ کرتے تھے۔ حکومتی ایوان یا سینٹ(Senate) میں 300موجودہ اور سابقہ فوجداری یاعدالتی حاکم شامل ہوتے تھے۔مجسٹریٹ کے لیےہر بالغ مرد رائے (vote) دے سکتا تھا۔اس عہدے کی کوئی اجرت یا مشاعرہ مقرر نہیں تھا اس لیے مالدار لوگ ہی اس کے امیدوار ہوتے تھے۔ 18

500 قبل مسیح تک اہل روم نےلیتیم(Latium)کے تمام علاقے پر اقتدار قائم کر لیا تھا۔ روم کے لوگوں نے اپنی ریاست میں عوامی جمہوریت کی جڑیں مستحکم کرلیں۔ بعض اوقات ان کو باہر کے حملہ آوروں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے اطالوی شہروں کا ایک اتحاد493 قبل مسیح میں اس غرض سے قائم ہواکہ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ مل جل کر کیا جاسکے۔ چونکہ روم کی اہمیت زیادہ ہوگئی تھی اس لیے فوجی اتحاد میں اسی کو لیڈر تسلیم کیا گیا۔یہ اتحاد اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ چوتھی صدی قبلِ مسیح میں اتحادیوں کی طاقت سب سے زیادہ سمجھی جانے لگی اور اس اتحاد ی طاقت کو390 قبل مسیح میں ایک بربری قوم سے مقابلہ کرنا پڑا۔ اٹلی کے شمال سے گال (Gauls) نے روم پر حملہ کردیا اور شہر کے بڑے علاقے کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔ انہوں نے پہاڑی کے بڑے قلعے کا محاصرہ کافی عرصے تک جاری رکھا اور بالآخر بھاری تاوان لینے کے بعد ٹلے۔اسی دوران جو رومن خوفزدہ ہوکر اپنا وطن چھوڑ گئے تھے وہ واپس آگئے۔ نئے سِرے سے روم کی تعمیر کی گئی اور اس مرتبہ حفاظتی دیوار کو بطورِ خاص تعمیر کیاگیا تاکہ حملہ آوروں کو روم میں داخل ہونے سے روکا جائے۔روم کی تعمیر نو اس کی طاقت میں اضافے کا سبب بنی اور روم کے لوگوں نے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرناشروع کردیا۔ یہ صورتِ حال لاطینی اتحادیوں کے لیے تشویش کا سبب بنی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روم اوردیگر لاطینی ریاستوں میں جنگوں کا آغاز ہوا اور یہ جنگیں 338 قبل مسیح تک جاری رہیں۔ بالآخر روم کی فتح ہوئی اور جنگوں کا خاتمہ ہوگیا۔ہر لاطینی شہر یا قبیلے نے روم سے الگ الگ معاہدہ کیا اورسب نے روم کی برتری کو پوری اہمیت دی۔ یہی نہیں بلکہ بعض شہروں پرروم کی حکومت قائم ہوگئی۔ اندرونی معاملوں میں ان کوآزاد رکھا گیالیکن بیرونی شہروں کو رفتہ رفتہ روم کی شہریت کے حقوق مل گئے۔ اس طرح رومی شہریت صرف روم تک محدود نہ رہی بلکہ اس کا تصوّر وسیع ہوگیااور پھر نئے شہروں کو سینٹ(Senate) اور اسمبلی میں بھی اپنے نمائندے بھیجنے کا حق حاصل ہوا۔ گویا لاطینی شہروں پر338قبل مسیح میں روم کی برتری قائم ہوجانے سے رومی سلطنت کا آغاز ہوا۔ اور روم اٹلی کی سب سے اہم ریاست کے درجے پر پہنچ گیا۔

جس زمانے میں روم دیگر اطالوی ریاستوں پر قبضہ کررہا تھا، اسے ایک ایسے قبیلے سے مقابلہ کرنا پڑا جس کے لوگ بہت جنگجو بہادر اور سخت جان تھے۔ یہ سیمّائیٹ(Sammities) قبیلہ اطالوی نسل سے تھا اور وسطی اٹلی کے پہاڑی علاقے اس قبیلے کے پاس تھے۔روم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو اس قبیلے کے لوگوں نے برداشت نہ کیا اور روم سے اس کی جھڑپیں شروع ہوگئیں جو 343 سے290 قبل مسیح تک جاری رہیں۔ ان جنگوں میں اٹریسکن(Etruscans) اورگال (Gaul)قبیلے نے بھی روم کے دشمنوں کا ساتھ دیا۔روم کی بڑھتی ہوئی حیثیت اور ہوسِ ملک گیری کے سبب سیمّائیٹ (Sammities) قبیلے سے جو طویل جنگ ہوئی، اس جنگ میں روم کے پرانے دشمن بھی سیمّائیٹ(Sammities) قبیلے کے ساتھ ہوگئے اور سوائے جنوبی اٹلی کے سبھی چھوٹی بڑی ریاستیں اورقبیلے میدانِ کارزار میں آگئے۔ شروع میں تو سیمّائیٹ(Sammities) اور اس کے اتحادیوں کوروم کے مقابلے میں فتو حات حاصل ہوئیں لیکن پھر259 قبل مسیح میں ایسی شکستِ فاش کا منہ دیکھنا پڑا کہ سیمّائیٹ(Sammities) قبیلے بھی روم کی برتری قبول کرنے پر مجبور ہوگئے۔ تب پورے وسطی اٹلی پر روم کاپرچم لہرانے لگا اور تقریباً دو ہزار سال تک روم نہ صرف اٹلی میں برسرِ اقتدار رہا بلکہ یورپ ، ایشیا اور افریقہ میں اسے سب سے بڑی طاقت کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ 290قبل مسیح میں تمام وسطی اٹلی اورشمال کے تھوڑے سے حصے پرروم نے اپنا اقتدار قائم کرلیا ۔ شمال کے باقی حصے پر گال (Gaul)قبیلہ حکمراں تھا اور اٹریسکن(Etruscans) قبیلے کا اقتدار بالکل ختم ہوچکاتھا۔ جنوبی اٹلی کا علاقہ اس وقت تک یونانی نو آبادیات میں شامل تھا۔ اس طرح روم کے مقابلے میں صرف دو طاقتیں تھیں۔ یونانی نو آبادیات اور کار تھیج(Carthage) کی نوآبادیات۔ سیمّائیٹ(Sammities)قبیلے کو شکست دینے کے بعد 10برس کے اندر روم نے یونانی نو آبادیات پر حملے شروع کردیے۔ یونانی عیش و عشرت میں مبتلا ہوچکے تھے۔ لہٰذا روم کی ابھرتی ہوئی طاقت کے سامنے ان کا ٹھہرنا مشکل تھا، مگر یونانیوں نے ایپرس(Epirus)(موجودہ البانیہ)کی ریاست سے مدد طلب کی جو اٹلی او ر یونان کے درمیان واقع تھی۔ اس کے 30000فوجی اور جنگی ہاتھی روم کے مقابلے پر آئے اوررومن فوج پر کامیابی حاصل کی لیکن یہ کامیابی مہنگی پڑی کیونکہ اس کے ہزاروں سپاہی مارے گئے۔ اپیرس (Epirus)کے حکمران پائرّہوس (Pyrrhus)نے اس فتح پر کہا”اگر ایسی ہی ایک اور فتح حاصل ہوئی تو میں تباہ ہوجاؤں گا۔"اسی لیے ایسی فتح کو جس میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے" اپی رس وکٹری" کہا جاتا ہے۔

پائرّہوس (Pyrrhus)جنوبی علاقوں سے ہوتا ہوا سِسلی(Sicily) تک پہنچ گیا۔ سِسلی(Sicily)کا کچھ حصہ یونانی نو آبادیات میں شامل تھا اور کچھ حصہ کارتھیج(Carthage) کی نو آبادیات میں۔کارتھیج (Carthage)کے لوگ ان دنوں بحیرۂ روم (Mediterranean Sea)کے علاقوں میں سب سے زیادہ طاقتور تھے۔ وہ یہ کب برداشت کرتے کہ یونانی ان کی نو آبادیات پر حملہ آور ہوں۔چنانچہ انہوں نے پائرّہوس (Pyrrhus)کے بحری بیڑے کا ڈٹ کر مقا بلہ کیا اور اس کو شکست دی، یوں روم کی بڑی فوج نے پائرّہوس (Pyrrhus)کی فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ان شکستوں کے بعد پائرّہوس (Pyrrhus)یونانی نو آبادیات کو روم اورکارتھیج(Carthage) کے رحم و کرم پرچھوڑ کر اپنی سلطنت کو واپس چلاگیا۔سِسلی(Sicily) سے رخصت ہوتے وقت اس نے کہا تھا کہ وہ سِسلی(Sicily) کو روم اور کارتھیج(Carthage) کے درمیان جنگ کاسبب بناکر جارہاہےلیکن روم کی بڑھتی ہوئی طاقت نے 270قبل مسیح میں اٹلی کی تمام نوآبادیات پر قبضہ کرلیا اور کارتھیج(Carthage) سِسلی(Sicily) کے پورے جزیرے پر قابض ہوگیا۔اس لیے ایک طرف روم کا اقتدار بڑھا اوردوسری جانب کارتھیج(Carthage) کی ریاست بھی بہت طاقتور ہوگئی تھی۔19 رومی افواج نے اسی دوران بحیرہ روم(Mediterranean Sea) میں اپنی برتری کا سکہ بٹھا لیا تھا۔رومیوں نےشمالی افریقہ کے شہر کارتھیج(Carthage) پر حملہ کیا اور تین پیونک جنگوں(Punic Wars) کے بعد بالآخر 146 قبل مسیح میں اس پر قبضہ کرکے اسے تباہ کر دیا ۔ اسی دوران روم کی میسیڈونیا(Macedonia)، مغربی ایشیاء اور یونان سے بھی جنگیں ہوئیں اور129قبل مسیح تک یورپ کے ایک بڑے حصے، شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا پر اسکا اقتدار قائم ہوگیا۔20

مسلسل جنگوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے رومی عوام کی معاشی حالت دن بدن ابتر ہوتی جا رہی تھی دوسری جانب اشرافیہ اور عوام میں طبقاتی فرق مسلسل بڑھتا چلا جا رہا تھا جس کا انجام بالآخر خانہ جنگی کی صورت میں نکلا۔ گائیس ماریس(Gaius Marius) اور لیوشیس کورنیلیس سولا فیلِکس(Lucius Cornelius Sulla Felix) اس خانہ جنگی کے اہم کردار تھے۔ ان دونوں کا تعلق رومی افواج سے تھا۔خانہ جنگی کے بعد کے مرحلے میں پومپی (Pompey)، سیسیرو(Cicero) اور جیولیس سیزر (Julius Caesar) کا کردار مرکزی رہا۔21

مغربی ملکوں(فرانس وہسپانیہ) کا جرنیل جیولیس(Julius) 49 قبل مسیح میں اٹلی میں داخل ہوا۔48 قبل مسیح میں جیولیس(Julius)نے یونان میں جرنل پومیئ کو شکست دی۔ 46قبل مسیح میں جیولیس(Julius)پہلے 10سال کے لیے پھر عمر بھر کے لیے ڈکٹیٹر مقرر ہوا۔ چند سال بعد قیصر بن بیٹھا اور اپنی پرستش کرانے لگا۔ 44قبل مسیح میں سینیٹ(Senate) کے ممبروں نے سازش کرکے قیصر جیولیس(Julius)کو قتل کردیا۔ مصر کی ملکہ کلِیوپیٹرا (Cleopatra) اور جیولیس سیزر (Julius Caesar) (قیصر) کے درمیان معاشقانہ تعلقات قائم ہوگئے تھے۔22

44 قبل مسیح میں جیولیس سیزر (Julius Caesar) کے بعد مارک انٹونی(Mark Antony)، لیپیدس (Lepidus) اور آکیٹوین(Octavian) پر مشتمل مجلس ارباب ثلاثہ نے اقتدار سنبھالا۔ 23رومی مملکت کے مغربی حصے میں رومی جرنیل آکیٹوین(Octavian) نے اور مشرقی حصے(یونان) میں مارک انٹونی(Mark Antony) نے اقتدار قائم کرلیا تھا۔ مارک انٹونی(Mark Antony)اور کلِیوپیٹرا(Cleopatra)کے درمیان بھی معاشقہ قائم ہوگیا۔ 32قبل مسیح میں آکیٹوین(Octavian)نے مارک انٹونی(Mark Antony)پر حملہ کیا۔31قبل مسیح میں ایکٹیم(Actium) کے مقام پر بحری جنگ ہوئی اور کلِیوپیٹرا(Cleopatra)مصر چلی گئی۔ 30قبل مسیح میں اسکندریہ(Alexandria) میں لڑائی ہوئی۔ مارک انٹونی(Mark Antony)نے خود کشی کرلی اور اپنی معشوقہ کلِیوپیٹرا(Cleopatra)کے سامنے جان دی۔ کلِیوپیٹرا(Cleopatra)نے بھی خود کشی کرلی۔ کیونکہ آکیٹوین(Octavian)سے اسے نفرت تھی جو اس پر قبضہ جمانا چاہتا تھا۔ آکیٹوین(Octavian)نے پہلے سینیٹ(پنچایت) کے اقتدار کو بحال کرنے کی کوشش کی لیکن ہر دل عزیزی کے باعث بعد میں شاہی اقتدار حاصل کرلیا اور قیصر بن بیٹھا۔ رومیوں نے اسے دیوتا بادشاہ بن کر اس کی پرستش شروع کردی۔ رومیوں کی برائے نام جمہوریت کا خاتمہ ہوگیا اور قیصری دور چلا۔ آکیٹوین(Octavian)جس نے آگسٹس سیزر(Augustus Caesar)(مبارک قیصر) کا لقب اختیار کرلیا تھا،14عیسوی تک بادشاہ بنا رہا۔24

سلطنت روم

31 قبل مسیح تک آکیٹوین(Octavian)جس کا لقب اگسٹس(Augustus) تھا سلطنت روم کا مکمل کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔ اگسٹس(Augustus) نے سلطنت کو مستحکم کیا۔25 اگلے کئی عشروں تک دو خاندانوں جیولیو کلا ڈیس (Julio-Claudians)اور فلاوینز(Flavians) کی حکومت قائم رہی اگسٹس(Augustus) کے بعد آنے والا حکمران تائبیریس(Tiberius) تھا جوایک اچھا منتظم تھا۔ اس نے شاہی خزانے میں بہت اضافہ کیا اور سلطنت کو مستحکم کیا۔ تاہم وہ تھوڑا سخت مزاج اور عوام کے جذبات کی پرواہ نہ کرنے والا حکمران تھا۔ تائبیریس(Tiberius) کے ذاتی محافظ دستے کے سالار سیجانوس(Sejanus) نے اقتدار پر قابض ہونے کے لیےسازشیں شروع کردی تھیں۔ بالآخر شہنشاہ نے31 عیسوی میں سالار سیجانوس(Sejanus) اور اس کے ساتھ شامل سینٹ(Senate) کے ارکا ن کو سزائے موت دے دی۔تائبیریس(Tiberius) کی بادشاہت کے آخری سال خوف اور دہشت کی علامت رہے اسی لیےاس کی 37 عیسوی میں وفات پر عوام نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔

تائبیریس(Tiberius) کے بعد کالیگولا(Caligula) شہنشاہ بنا تو اس نےکھیلوں اور تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔تاہم اس کی شخصیت کا تاریک پہلو یہ تھا کہ وہ سینیٹ(Senate) کے ارکان اور بااثر لوگوں کی تذلیل کر کے لذت اور خوشی محسوس کرتا تھا اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے دیوتا ہونے اور اپنی پرستش کیے جانے پر بھی اصرار کیا۔ کالیگولا(Caligula) کو 41 عیسوی میں قتل کر دیا گیا۔

شہنشاہ کے قتل کے بعد پریٹورین محافظ دستوں(Praetorian Guard) نے کالیگولا(Caligula) کے چچا کلاڈیس(Claudius) کو شہنشاہ نامزد کر دیا جو ایک اچھا حکمران ثابت ہوا۔اس نے سرکاری منتظمہ کے ادارے کا حجم بڑھایا، مختلف صوبوں میں لوگوں کو شہریت دی اور موجودہ برطانیہ (Britain)کاکافی علاقہ سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ کلاڈیس(Claudius) کی بیوی اگریپ پینا صغریٰ (Agrippina the Younger) کے بارے میں خیال کیا جاتا تھاکہ اس نے پہلے شوہر سے پیداہونے والےاپنے بیٹے نیرو(Nero) کو شہنشاہ بنانے کے لیے54 عیسوی میں کلاڈیس(Claudius) کو زہر دے کر قتل کر دیا تھا۔ نیرو(Nero) 16 سال کی عمر میں شہنشاہ بنا۔کئی سال تک اس کے مشیر معاملات سلطنت دیکھتے رہے۔ 62 عیسوی میں نیرو(Nero) نے مکمل کنٹرول لے لیا مگر اس کا رجحان شاعری، کھیلوں، رقص اور رتھوں کی دوڑ کی طرف زیادہ تھا۔26 نیرو (Nero) کا عہد بد انتظامی کا شکار رہا۔ صوبوں میں بغاوتیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔27نیرو(Nero) نے 68 عیسوی میں خود کشی کر لی یوں جیولیو کلاڈیس(Julio Claudius) عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ بعد میں آنے والے حکمران اتنے اہل ثابت قدم نہ ہو سکے۔باربری قبیلوں نے سلطنت کی سرحدوں پر حملے شروع کر دیے اور حکمرانوں کے لیے انہیں روکنا مشکل ہو گیا۔ 378 عیسوی میں ہدریان پول(Hadrianople) کے مقام پرگوتھ(Goth) قبائل نے دو تہائی رومی افواج کوتہہ تیغ کر دیا جس سے سلطنت روم کمزور ہوگئی اور بالآخر 476 عیسوی میں مغربی سلطنت روم کا خاتمہ ہو گیا۔ 28

باز نطینی سلطنت

395 تا 388 عیسوی کے رومی حکمران تھیوڈوسیس اول(Theodosius I)کی وفات پر سلطنت اس کے دوبیٹوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔29مغربی رومی سلطنت کا دارالحکومت روم قرار پایا جبکہ مشرقی رومی سلطنت کا دارالحکومت قسطنطنیہ رہا۔ اس کے سابق نام بیز نطینم کی نسبت سے مشرقی سلطنت کو باز نطینی سلطنت(Byzantine Empire)بھی کہا جاتا تھا۔ یہ سلطنت مغربی سلطنت کے خاتمے کے ایک ہزار سال بعد تک باقی رہی۔بالاخر عثمانی ترک حکمران سلطان محمد دوئم نے 1453 عیسوی میں قسطنطنیہ کی فتح کے ساتھ اس کا خاتمہ کردیا تھا۔قسطنطنیہ کا سنگ بنیادشہنشاہ قسطنطین اول نے 330 عیسوی میں رکھا تھا۔ تب سے لے کر1453 عیسوی تک یہ بازنطینی رومی سلطنت کی علمی،تہذیبی اورانتظامی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ 30

تباہی کے اسباب

ایڈورڈگن رومی سلطنت کے زوال کے بارے میں لکھتا ہے:

  رومی سلطنت کےزوال کے اسباب کے بارے میں اچھی طرح سے تحقیق کرنے کے بعد میں روم کی تباہی کے چار اسباب کی نشاندہی کرسکتا ہوں، جن کا عمل تخریب تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ان اسباب میں سب سے اہم سبب امتدادِ زمانہ اور فطرت کے عوامل کا اثر تھا ۔ دوسرا اہم سبب وحشی اقوام اور عیسائیوں کے عناد آمیز حملےتھے جنہوں نے رومی سلطنت کو کمزور کردیا ۔ اس کے ساتھ ایک اور اہم سبب امارات اور عہدوں کو جائز و ناجائز استعمال تھا جس نے رومی سلطنت کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ۔ رومیوں کے داخلی تنازعات نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔ 31

تاریخ گواہ ہے کہ جب روم کی وسیع سلطنت قائم ہوگئی تو مفتوحہ علاقوں میں روم کے امراء نے اپنی جاگیریں بنائیں۔ علاوہ ازیں پوری سلطنت کو صوبوں میں تقسیم کیاگیا اورانتظام کے لیے گورنر مقرر ہوئے جو بڑے اختیارات رکھتے تھے۔ فوج کی تنخواہیں اورحکومت کے اخراجات صوبے کے لوگوں پر ٹیکس لگا کہ پورے کیے جاتے تھے ۔ ٹیکس کی وصولی میں بڑی سختی کی جاتی تھی۔ صوبے کا گورنرصرف سال بھر کے لیے ہوتا تھا۔ اس قلیل مدت میں ہر گورنر کی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ دولت کما سکے۔ صوبوں کی دولت بڑی تیزی سے روم منتقل ہونے لگی۔ ٹٰیکس وصول کرنے والے رشوتیں بھی وصول کرتے تھے ۔ ٹیکس کی زیادتی کے سبب صوبوں کے مقامی باشندے خستہ حال ہوگئے تھے اور رومی تاجر تجارت پرچھا گئے تھے۔ غرض ہر طرح روم کی شان وشوکت اورخوشحالی میں حیرت انگیز اضافہ ہورہاتھا ، لیکن مزدور طبقہ مفلوک الحال ہوتا چلا گیا جس کی وجہ سے خانہ جنگی کے آثار پیدا ہونے لگے ۔ امرا کے عیش و عشرت کی کوئی حد نہ تھی۔ اسی خانہ جنگی،امرا کی عیش و عشرت اور بے پر واہی کی وجہ سے رومی تہذیب زوال پذیر ہوئی اور اس کی طاقتور فوج، جدید اسلحہ اور فوجی حکمت عملی رومی سلطنت کو بچا نہ سکی۔

سلطنتِ روم کی طبقاتی تقسیم کی وجہ سے امرا ءوعوام کے درمیان جوکش مکش جاری رہتی وہ سلطنت کی بنیادوں کو کھوکھلاکررہی تھی۔ بیرونی حالات اس کے علاوہ تھےجس کے نتیجہ میں سلطنت اندرونی وبیرونی خلفشار کا شکارتھی۔ سلطنت روم کی بد نصیبی یہ رہی کہ اسکے زیادہ تر حکمران ظالم و جابر اور درندہ مزاج آئے جنہوں نے اقتدار کے حصول کے لیے نا صرف ایک دوسرے کو قتل کیا بلکہ بیٹے نے باپ کو ،بیوی نے شوہر کو اور بھائی نے بھائیوں تک کو قتل کروایا ۔ جو حکمران اسطرح اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ان سے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ عوام کی بھلا ئی اور خیر خواہی کا کوئی انتظام کر سکیں ۔نتیجتا ًپورا روم مختلف ادوار میں خانہ جنگیوں کا شکار رہا اور بالآخر وہ وقت آیا جب یہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوگیا ۔

جغرافیہ

شہر روم سات پہاڑیوں اور اُس مقام پر آباد تھا، جہاں دریائے ٹائبر(River Tiber) پر پُل بنا ہوا تھا۔ چنانچہ یہ طبعی طور پر مستحکم تھا۔ با آسانی اس میں قلعہ بندیاں کی جاسکتی تھیں اور با آسانی اس کی حفاظت بھی کی جاسکتی تھی۔ یہ جزیرہ نمائے اٹلی کے وسط میں اور اس کے مغربی ساحل سے تقریباً 15میل کے فاصلے پر تھا۔ یعنی سمندر سے اتنا قریب تھا کہ بحیرۂ روم(Mediterranean Sea) کی اہم تجارتی زندگی میں مثالی کردارادا کر سکتا تھا۔32 اس کے شمال میں بحیرہ اسود(Black Sea)، جنوب میں عراق ، شام اور بحیرۂ روم(Mediterranean Sea)،مشرق میں ارمینیہ(Armenia) اور آذربائیجان اور مغرب میں بحیرہ مارمرا(Marmara Sea)، درہ دانیال جسے ڈارڈینیلز(Dardanelles) کہا جاتا ہے اور جزائر ِروڈس(Rhodes) تھے۔33

شہرِروم کے متعلق جان ایس ہائی لینڈ(John S. Highland) تحریرکرتے ہیں:

  آریائی (Aryans) قبائلی جماعتوں میں سے ایک جماعت اطالیہ میں اٹریسکن(Etruscans)کے ملک کے جنوب اور جزیرۂ منی کے جنوبی حصے کی نو آبادیوں کے شمال میں آباد ہوگئی تھی۔ یہ زراعت پیشہ اجڈ لوگ تھےاور ایک مقدس پہاڑی کے مرکزی معبد کے اطراف 12قصبوں میں جمع ہوگئے تھے۔ یہ لوگ "لاطینی"کہلاتے تھے۔ ان کے ملک اور اٹریسکن(Etruscans)کے ملک کے درمیان ٹائبر کا دریا(River Tiber) سرحد کا کام دیتا تھا۔ یہیں لاطینی نو آبادیوں کے ایک مجموعےنے نشو و نما پائی۔ ان نو آبادیوں کو پہلے پہل تاجروں اور پناہ گزینوں نے آباد کیا اوربعد میں یہی نو آبادیاں مل کر شہر روما بن گئیں۔34

ریاست روم کا گہوارہ وسطی بحیرۂ روم(Mediterranean Sea) میں ایپنی جزیرہ نما تھا جو قریب کے جزیرۂ سِسلی(Sicily) کے ساتھ یورپ اور افریقہ کے درمیان گویا قدرتی پل بناتا تھااور ایپنی جزیرہ نما ئے بلقان کے ساحل کی بہ نسبت کم کٹا پھٹا تھا اور اس میں محفوظ خلیجیں آبنائیں نسبتاً کم تھیں۔ اٹلی کے ساحل کے نزدیک جزیروں کی تعداد بھی بحیرۂ ایجیئن(Aegean Sea) کے جزیروں کی بہ نسبت کم تھیں اور تنوع بھی ان میں اتنا نہیں تھا۔ ایپنی جزیرہ اگرچہ یونان کی طرح ہی پہاڑی تھامگر یہاں اوپر سے نیچے تک بیچوں بیچ صرف ایک ہی سلسلۂ کوہ تھا جس کے دونوں طرف چوڑی وادیوں کا حاشیہ تھا جو زراعت اور مویشی پالنے کے لیے موزوں تھا۔ اٹلی کی زمین کاشت کے لیے کہیں زیادہ موزوں تھی۔زمانۂ قدیم میں اٹلی کو ایک مثالی اور زراعتی ملک تصور کیا جاتاتھا۔ اس کے خاص قدرتی وسائل لکڑی اوردھاتیں تھیں (خصوصاً تانبہ اور ٹین)۔

ایک ہزار قبل مسیح سے پہلے یہ ملک محض جنگلات سے اٹا ہوا پہاڑی علاقہ تھا۔ آریائی زبانیں بولنے والے قبائل نے اس خطے پر ڈیرے جمائے اور چھوٹے قصبے اور شہر یہاں آباد کیے، جبکہ اس کے جنوبی علاقوں میں یونانی آبادیاں تھیں۔ پاسٹم کے نفیس کھنڈرات آج بھی ہمیں ان قدیم یونانی آبادیوں کے وقار اور شان و شوکت کی داستانیں سناتے ہیں۔ اٹریسکن(Etruscans)لوگوں نےجو ایجیئن(Aegean) قوم کے قرابت دار مگرغیر آریائی زبانیں بولنے والے لوگ تھےاس خطے کے وسطی حصہ میں قبضہ جمالیا۔مختلف آریائی قبائل کو مفتوح کرنے کایہ سلسلہ انہوں نے جاری رکھا۔ جب روم تاریخ کے منظر میں ظاہر ہواتو یہ ٹبر(Tiber) کے گھاٹ میں ایک مختصر تجارتی شہر تھا۔ اس کی آبادی بیشتر لاطینی بولنے والوں پرمشتمل تھی جبکہ اٹریسکن(Etruscans)بادشاہ اس پر حاکم تھے۔35

لی گیوریا(Liguria) کا کوہستانی ضلع ہمیشہ سے دشوار گزار رہا تھا اور اطالیہ سے اس کادرجہ بدرجہ اتحاد زمانہ ٔ درازکی طویل اور غیر معروف جنگ و جدال کے بعد عمل میں آیا تھا ۔ ایپی نائن کے شمال میں آلپس کی دیوارِ کوہی (Alpine Wall)تک ایک وسیع اور زرخیز میدان واقع تھاجس کی قابلِ کاشت زمینوں کی آبپاشی پوا اور اس کی باجگذار ندیوں سے ہوتی تھی۔ اہلِ رُوم کو جب اپنی فتوحات اور تنظیم کے سلسلے میں کوہِ آلپ (Alps)کے وجود کا علم ہوا تو انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ زرخیز خطہ جس کے شمال میں آلپس کی دیوارِ کو ہی(Alpine Wall) ہے اور جس کی ندیاں بحیرۂ ایڈریاٹک(Adriatic Sea) میں جاکر گرتی ہیں، متحد اطالیہ کا ایک جز و لاینفک ہے۔ مگر اس ضلع کی تسخیر زمانۂ دراز اور بے حد خونریزی کے بعد عمل میں آئی اور اس پر رُوم کا قبضہ مستحکم اس وقت ہوا جبکہ جنوبی تمدن کی اس میں اشاعت پورے طور سے ہوگئی تھی۔

سرزمین اطالیہ کے آس پاس چھوٹے بڑے کئی جزیرے تھے مگر ان میں سے صرف سسلی(Sicily) روم کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا تھاجیسا کہ کارتھیج(Carthage) کی جنگ سے ثابت ہوا ۔اطالیہ پر تسلط حاصل کرلینے کے بعد اس جزیرے کو فتح کرنا ضروری تھا جو دراصل اطالیہ کا ایک علیحدہ حصہ تھا کیونکہ بغیر اس کے اطالیہ بحری حملوں سے محفوظ نہ رہ سکتا تھا۔ کوہ آلپس کے دروں پر چونکہ روم کا قبضہ نہ تھا اس لیے خشکی کی طرف سےاطالیہ پر حملہ ہوسکتا تھا۔ اطالیہ پر شمال سے متعدد حملے ہوئے اور غالباً زمانہ قدیم کے لوگ اس ملک میں آباد ہوگئے جو ان حملہ آوروں کی اولادمیں سے تھے جو اس طرف آئے تھے۔

موسمی اثرات

موسم سرما میں بعض اوقات سردی نہایت شدّت سے پڑتی تھی مگر بحیثیت مجموعی پیداوار معتدل تھی اورموسم گرما میں گرمی بھی خوب ہوتی تھی۔ اونچی پہاڑیوں کے سوا ملک کے ہر حصے میں زیتون اور انگور کی کاشت بخوبی ہوتی تھی۔ ترکاریوں اور اَناج کی کاشت بھی کثرت سے ہوتی تھی، بعض اضلاع کی زرخیزی تعجب انگیز تھی خصوصاً کیمپینیا(Campania) کی وہ زمینیں جن میں ایک زمانے میں کوہ آتش فشاں تھے۔ بعض اضلاع میں مثلاًایپولیا (Apulia)اورجنوب مشرقی حصے میں پانی کمیاب تھا مگر آب پاشی میں زیادہ دِقّت نہیں ہوتی تھی۔ پہاڑوں اور وادیوں میں چراگاہیں تھیں جن میں ہر موسم میں مویشیوں کے لیے غذا موجود رہتی تھی۔ مویشی پالنے والے قبائل چراگاہوں کی تلاش میں نقل مکانی کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے پہاڑی اضلاع سیاسی لحاظ سے غیر متحد اور پس ماندہ حالت میں رہتے تھے۔ جنگلوں کا رقبہ غالباً آج کل کے مقابلے میں زمانہ قدیم میں زیادہ تھا۔ اریٹیرا(Eritrea) میں ایک گھنا جنگل تھا جس کی وجہ سے روم کو اس ضلع کی تسخیر میں بہت دِقت ہوئی۔ جنوب میں مقام سیلاپائن کے درختوں کا بڑا بھاری جنگل تھا جن سے پچ بنتا تھا۔ شاہ بلوط کے بھی کئی جنگل تھے۔ اس درخت کی نہ صرف چھال اور شہتیر قیمتی تھا بلکہ ان جنگلوں سے خنازیرکی چراگاہ کا بھی کام لیاجاتا تھا۔ وہ قدیم تمدن جس سے ممالک موجودہ بے حد متاثر ہوئے ہیں، بحیرۂ روم(Mediterranean Sea) کے آس پاس کے ممالک میں وجودمیں آیا تھا اور اطالیہ ممالک مذکور کے وسط میں واقع تھا۔ 36

جس طرح شہرِرومہ سات پہاڑیوں کےدرمیان گھِرا ہواتھا اسی طرح بحیرۂ روم (Mediterranean Sea)بھی دیگر بحیرات سے گھِراہوا تھا اوراسی طرح خود روم(اٹلی)بھی چھوٹے بڑے کئی ایک جزیروں کے درمیان واقع تھا۔محلِ وقوع کی اس نعمت کو اہلِ روم کی خوش قسمتی ہی کہاجاسکتاہے۔وہ دنیا کے دیگر ممالک سے رابطہ کے علاوہ غیرملکی تجارت اورسمندری دولتوں سے مالامال تھے۔یہی وجہ تھی کہ سلطنت روم اپنے وقت کی بہت بڑی اورناقابلِ تسخیر مملکت تھی۔ جسے اسکے نااہل اور خود سر قسم کے حکمران لے ڈوبے ورنہ وہ ریاست دنیا پر انمٹ حکمرانی کرنے کی ناصرف اہل تھی بلکہ اسکا جغرافیہ بھی اس عمل میں اسکے لیے نہایت ہی موافق تھا جیسا کہ آ ج بھی اٹلی اور اسکے گرد ونواح کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر حکمرانوں کی بدچلنی اور آپس کی قتل و غارت گری نے اس عظیم سلطنت کو بھی تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا وہ روم جس کو اسکے دشمن کبھی شکست فاش نہ دے سکے خود اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں شکست کھاگیا تھا ۔

 


  • 1 مسعود خان،زہرہ گلنار مسعود،ڈاکٹرمسعودالحسن خان ،تاریخ یورپ ،مطبوعہ:بک فورٹ ،لاہور،پاکستان،2014ء،ص: 59
  • 2 دائرہ معارف الاسلامیہ ، مطبوعہ :دانش گاہ پنجاب، ج-10 ،لاہور، پاکستان، 1973ء،ص:395
  • 3 رشید احمد، تاریخِ مذاہب، مطبوعہ:فرید پبلشرز، کراچی، پاکستان، 2002ء، ص:211
  • 4 ابو الفداء عماد الدین ابن کثیر دمشقی، البدايہ والنهايہ، (مترجم:پروفیسر کوکب شادانی )، ج -۱،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، 1987ء، ص: 149-150
  • 5 محمد بن عيسى، سنن الترمذي، حدیث323،ج-5، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر،1395 ھ، ص:365
  • 6 عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون ، تاریخِ ابنِ خلدون ،(مترجم:حکیم احمد الٰہ آبادی) ، ج-1، مطبوعہ:نفیس اکیڈیمی، کراچی،پاکستان، 2003ء،ص282-283
  • 7 پروفیسر اے مانفرید، مختصر تاریخ عالم(مترجم :امیر اللہ خان) ج-1، مطبوعہ:دار الاشاعت ترقی ، ماسکو ،روس ، 1979ء، ص :111
  • 8 رشید احمد، تاریخِ مذاہب، مطبوعہ:فرید پبلشرز، کراچی، پاکستان، 2002ء، ص:211
  • 9 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/place/Roman-Republic: Retrieved: 09-01-2019
  • 10 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2004), Handbook to Life in Ancient Rome, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 113-114.
  • 11 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Rome, Thalamus Publishing, New York, USA, Pg. 12.
  • 12 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/event/Fall-of-Constantinople-1453: Retrieved: 06-04-2020
  • 13 Robert Franklin Pennell (1890), Ancient Rome: From the Earliest Times Down to 476 A.D., Allyn and Bacon, Boston, USA, Pg. 207.
  • 14 J. C. McKeown (2010), A Cabinet of Roman Curiosities, Oxford University Press Inc., Oxford, U.K., Pg. 1.
  • 15 Robert Franklin Pennell (1890), Ancient Rome, From the Earliest Times Down to 476 A.D., Allyn and Bacon, Boston, USA, Pg. 207.
  • 16 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 4, Pg. 4.
  • 17 Paul Erdkamp (2013), The Cambridge Companion to Ancient Rome, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 21.
  • 18 Peter Chrisp (2006), E. Explore Ancient Rome, Dorling Kindersley Limited, London, U.K., Pg. 12.
  • 19 پروفیسرآفاق صدیقی، سیرۃ البشر، مطبوعہ: الحمد پبلیکشن، کراچی، پاکستان،ص:128-130
  • 20 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 4, Pg. 2.
  • 21 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/place/Roman-Republic: Retrieved: 07-01-2019
  • 22 مرتضی احمد خاں میکش،تاریخ اقوام عالم،مطبوعہ:الوقار پبلی کیشنز،لاہور ،پاکستان ،2006ء،ص: 181-224
  • 23 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/place/Roman-Republic: Retrieved: 07-01-2019
  • 24 مرتضی احمد خاں میکش،تاریخ اقوام عالم،مطبوعہ:الوقار پبلی کیشنز،لاہور ،پاکستان ،2006ء،ص: 181-224
  • 25 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2004), Handbook to Life in Ancient Rome, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 113-114.
  • 26 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 4, Pg. 15-16.
  • 27 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2004), Handbook to Life in Ancient Rome, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 113-114.
  • 28 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Rome, Thalamus Publishing, New York, USA, Pg. 12.
  • 29 ولیم ایل لینگر،انسائیکلوپیڈیا تاریخ عالم ، ج-2،مطبوعہ: الوقار پبلی کیشنز، لاہور ،پاکستان،2016ء،ص:126-125
  • 30 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/event/Fall-of-Constantinople-1453: Retrieved: 06-04-2020
  • 31 ایڈورڈگن ،انحطاط و زوال سلطنت روما (مترجم:ڈاکٹر مظفر حسن ملک) ،مطبوعہ:مقتدرہ قومی زبان ، ج-4،اسلام آباد ،پاکستان، 2010ء، ص:742-743
  • 32 کرین برنٹن، جان بی، کرسٹوفر، رابرٹ-ایل وُلف، تاریخ تہذیب (مترجم: مولانا غلام رسول مہر)، مطبوعہ: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ج-1،پبلشرز،لاہور، پاکستان، 1965ء، ص:122
  • 33 ڈاکٹرغلام جیلانی برق،معجم البلدان،مطبوعہ:الفیصل تاجر کتب ،لاہور ،پاکستان، 2013ء ،ص:172
  • 34 جان ایس ہائی لینڈ اور ایم اے کیمبرج، مختصر تاریخ تمدّن (مترجم: سید مبارزاالدین رفعت صاحب)، مطبوعہ: انجمن ترقیٔ اُردو، کراچی، پاکستان، 1956ء، ص:86
  • 35 ایچ ۔ جی۔ ویلز ، مختصر تاریخ عالم، مطبوعہ:تخلیقات، ج-1، لاہور ، پاکستان، 1996ء، ص:138
  • 36 ڈبلیو ۔ای۔ہیٹ لینڈ، تاریخ جمہوریہ روما (مترجم:مولوی حمید احمد انصاری)، مطبوعہ: دار الطبع جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد(دکن) ، انڈیا، ص:15-17