قدیم رومی عہد عتیق سے ہی تعلیم کودولت جمع کرنے کا ہنر سمجھتے تھےتعلیم و تر بیت کے عمل نے گھریلوغیر رسمی تعلیمی نظام سے عہد جمہوریت او ر عہد سلطنت تک باقاعدہ رسمی نظام تعلیم کا سفر درجہ بہ درجہ طے کیا تھا۔تاہم اس تعلیمی نظام کا سب سے اہم حصہ وہ بد اخلاقی اور شہری غنڈہ گردی تھی جن کی ریاست کے شہریوں سے توقع کی جاتی تھی اور جسکے حصول کے بعد رومی اپنے علاوہ کسی کو مہذب سمجھنا تو دور کی بات انسان بھی نہیں سمجھتے تھے رومی تعلیم نہ صرف بقا کا ہنر سکھاتی تھی بلکہ روایتی و سماجی ضوابط بھی اگلی نسل میں منتقل کرتی تھی تاہم بظاہر جامع اور کامل نظر آنے والےنظام تعلیم میں درحقیقت کچھ بنیادی خامیاں بھی موجود تھیں۔ قدیم معاشرے میں تعلیم جیسی اہم ضرورت کو بھی ایک آسائش بنا دیا گیا تھا جسے صرف وہی پا سکتے تھے جو اسے حاصل کرنےکی مالی استطاعت رکھتےتھے۔یہاں تک کہ جو افراد تعلیم حاصل کرتے،ان کا بھی اصل مقصد اس سے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا اور سیاست میں اعلی مقام حاصل کرناتھا۔روم کے سیاستدانوں اور طبقہٴ اشرافیہ کے اخلاق کسی سے پوشیدہ نہیں تھے۔ ان میں سے کئی محرم رشتوں سے اور دونوں جنسوں سے جنسی تسکین حاصل کرنے میں کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔اس نام نہاد تعلیم یافتہ طبقہٴ اشرافیہ میں محرمات سے نکاح (incest) اور دو جنسیت پرستی (bisexuality) کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔وہ خود کو کرہٴزمین پر انسانوں کی سب سےممتاز نسل تصور کرتے اور دیگر اقوام پر حکمرانی اور لوٹ مار کو اپنا پیدائشی حق گردانتے تھے۔ مندرجہ بالا عوامل سے ان کے اخلاق اور تعلیم یافتہ ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
قدیم روم میں تعلیم دیگر تہذیب یافتہ اقوام سے ان معنوں میں مختلف تھی کہ حکومت کی اس میں کوئی مداخلت یا اس پرکسی قسم کا کوئی کنٹرول نہیں تھا اور نہ ہی حکومت تعلیم کی فراہمی کے لیے کسی قسم کی کوئی کوششیں کرتی تھی۔نہ ہی روم میں ایتھنز(Athens) کی طرح کوئی خاص علوم و فنون لازمی سکھانے کی قید تھی۔تعلیم کو ایک گھریلو معاملہ سمجھا جاتا تھا۔گھر کے آتش دانوں اور گھریلو دیوتاوٴں لیریس (Lares) کے آس پاس بیٹھ کر بچے زندگی کے مقاصد کے لیے ضروری سمجھے جانے والے امورکی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ریاست نے نوجوانوں کے لیے فن ِ حرب اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کرنے کو لازمی قرا ردیا تھا۔1
روم میں روایتی کلاسیکی تعلیم بھی جاری رہی جس نے رومی نوجوانوں کی شخصیت کی خاص انداز سے تشکیل و تعمیر کی تھی۔ ابتدائی اور اعلیٰ دونوں طرح کی تعلیم کے لیے استعمال ہونے والے مواد کا بڑا حصہ صدیوں تک تبدیل نہیں کیا گیا تھا۔مظاہر پرستی پرمبنی ادبی مواد رومی تعلیم کی بنیاد رہا ۔علم البیان کے ذریعےمسلسل کئی نسلوں تک رومی نوجوانوں کی مختلف پیشوں میں مدد کی گئی جن میں مذہب بھی شامل تھا۔ قدیم رومی قانون کے مطابق والد بچےکی زندگی اپنی پسند کے ضابطے اور سانچے میں ڈھالنے کا مکمل اختیار رکھتا تھا،اسی لیے اس کا بچے کی تعلیم پر بھی مکمل اختیار تھا۔نوجوانوں کی آموزش میں اخلاقی خصائص اور ذہنی صلاحیتوں کی نمو دونوں ہی شامل تھے جو اسے ریاست کی بہتر انداز سے خدمت کے قابل بناتے تھے۔والد کو اپنے بیٹوں پر تنقید کی آزادی تھی تاکہ نوجوان پڑھائی کے عمل میں اپنی پوری محنت صرف کریں۔تعلیم کی جزیات اور طریقے کے معاملے میں والد مکمل طور پر خود مختار تھا۔وہ جو چاہتا اور جیسے چاہتا اپنی اولاد کو سکھا سکتا تھا2 چاہےاسکے لیے اسے درندگی کی حد تک ہی سخت کیوں نہ ہونا پڑے۔
پیشہ ورانہ تربیت کے لیے خاندانوں کےچھوٹے پیمانے پرکاروبار اور ورکشاپس (Workshops)تھیں۔اس بات کے بہت ہی کم شواہد ملے ہیں کہ والد کے علاوہ کسی اور سے تجارتی اور کاروباری عوامل سیکھنے کے لیے طالب علم اور استاد کا تعلق پایا جاتا ہو۔ تاہم خواتین کی تجارت میں شمولیت کی وجہ سے تریگئری(Treggiari) کے بقول اس عمل کی تصویر ایک خاندانی سرگرمی کے طور پر ابھرتی ہے۔ خاندان اور تعلیم سانچہ تھا جس میں افراد کی شناخت ڈھلتی تھی تاہم تعلیم اور معاشرتی اصول و ضوابط سکھانے کا کوئی با ضابطہ نصاب میسرنہیں تھا۔ افراد کے مادی وسماجی تناظر اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کرتے تھے۔شہر اپنے بنیادی انداز و اطوار میں ایک جیسا ہی رہا۔ شہر کا نقشہ ، رسم و رواج ، محلوں اور بازاروں کی عوامی زندگی، حمام، تھیٹر (Theatres)، اکھاڑے، تماش گاہیں اور سرکس وغیرہ کچھ زیادہ تبدیل نہ ہوئے تھے۔ شہری زندگی کے تانے بانے، ترتیب و وضع داری اور رسم و رواج کے بندھن میں بندھی ہوئی زندگی کی گہماگہمی سے نہ صرف رومی خاندان شہری زندگی کے مختلف رنگوں سے لطف اندوز ہوتے بلکہ روم کی زندگی کےعکس کو اپنے اندر سموتےجس سے ان کی صرف رومی شناخت ہی تخلیق پاتی تھی اوروہ خود کو دنیا کا انسان نہیں بلکہ صرف رومی قوم کا فرد سمجھتے تھے جو کہ عجب کی ایک کیفیت تھی ۔
اہل ِ روم فتح کا جشن منانے ، مذہبی تہواروں پر عبادات اور دعاوٴں کے لیے، قربانی اور دعوتوں کے لیے یا پھر رتھوں یا گھوڑوں کی دوڑ دیکھنے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ایسے خاص مواقع کے علاوہ بھی خاندان اپنے گھروں کے قرب وجوار میں جمع ہو کر مل بیٹھتے تھے۔ یہ مجالس اور محا فل خاندانوں کے پسندیدہ مشاغل میں شامل تھیں جن کی بدولت خاندانوں اور افراد کے درمیان تعلقات فروغ پاتے تھے۔رومیوں کے یہ تمام عوامل زندگی کی رنگارنگی کے ساتھ ساتھ غیر رسمی آموزش کا بھی ذریعہ تھے۔
قدیم روم میں والد اپنے بیٹوں کو پڑھنا، لکھنا اور ہتھیاروں کا استعمال کرناسکھاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انہیں مذہبی تہواروں ، عوامی اجتماعات اور اگر سینٹ کا ممبر ہے توسینٹ میں بھی ساتھ لے کرجاتا تھا۔16سال کی عمر میں اشرافیہ کے بچوں کوکسی ممتاز سیاسی شخصیت کے ساتھ سیاسی معاملات کی عملی تربیت حاصل کرنے کے لیے منسلک کردیا جاتاتھا۔17سال کی عمر میں فوجی د ستوں کے ساتھ عسکری تربیت کے لیےجنگی مہمات پر بھیج دیا جاتا تھا۔کچھ خاندانوں میں تعلیم کے یہ طور طریقے اور انداز روم کے دور ِ سلطنت میں بھی برقرار رہے تھے۔
تیسری صدی قبل مسیح کے دوران روم میں ایک مختلف نظام تعلیم نمودار ہوا۔یہ نظام یونانی روایات سے مختلف تھا۔عموما کسی یونانی آزاد شہری یا غلام کو اتالیق کے طور پر تعینات کیا جاتا جسےلٹریٹر (litterator)یا لیوڈی میجسٹر(ludi magister) کے نام سے پکارا جاتا تھاجس كے عمومی معنی استاد كے لیے جاتے تهے ۔تعلیم کی بنیاد یونانی اور لاطینی ادب پر تھی جس کا مقصد موثر خطیب اور اچھےمقرر پیدا کرنا تھا۔ ابتدائی تعلیم کی عمر 7سے 11 سال تھی جس میں لڑکے اور لڑکیوں کو لکھنا، پڑھنا اور ریاضی سکھائی جاتی تھی جبکہ یونانی تعلیم کے لیے خاص اتالیق مقررتھے جنہیں پیڈاگوگس (paidagogus) کہا جاتا تھا۔ 3
تعلیمی عمل میں والد کے کردار کی اہمیت کا اندازہ روم کے عہد جمہوریت کے سینیٹراور تاریخ دان کیٹو(Cato the Censor) کے اس دعویٰ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ صرف والد کو ہی بچے کی تعلیم کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس نے فخریہ کہا تھا کہ اس نے خو د اپنے بیٹے کو لکھنا، پڑھنا، تیغ زنی اور تیراکی سکھائی تھی ۔ماضی میں تمام والدین خود ہی اپنے بچوں کے استاد ہوتے تھے۔روم کے تاریخی محفوظہ میں اس کے کثیر شواہد موجود ہیں۔بعد کے ادوار میں جب تعلیم دینے کے لیے غلاموں کو مقرر کیا جانے لگا تو بگڑے ہوئے امیرزادوں کے لیےیہ ایک تفریح و تفنن کا ذریعہ بن گیا تھا کیونکہ غلام کی حیثیت ایک ملازم سے زیادہ کچھ نہ تھی چاہے وہ خود کو معلم یا مدرس ہی کیوں نہ پکارے۔ اساتذہ کو شاگردوں کے والدین کی طرف سے انتہائی معمولی اجرت دی جاتی تھی جس کی وجہ سے اکثر اساتذہ اپنی آمدنی میں اضافے کے لیے دیگر چھوٹے موٹے کام کرنے پر مجبور تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ روم کے اساتذہ چھڑی کا استعمال کرکے طالبعلموں کو قابو میں رکھنا چاہتے تھےکیونکہ جب بہت سے لڑکے لڑکیاں بغیر جنس کی تخصیص کے ایک تنگ جگہ جمع ہوتے تو نظم و ضبظ برقرار رکھنے کےلیے انکے پاس سوائے ڈنڈے کے استعمال کے اور کوئی مجرب طریقہ نہیں ہوتا تھا۔تاہم کوینٹلیئن (Quintilian) نامی مشہور رومی ماہر تعلیم نے اس معاملے میں اساتذہ کے دوہرے رویوں اور بزدلی کی نشاندہی بھی کی تھی۔ کچھ اساتذہ طلباء کے مشتعل ہونے سےخوفزدہ رہتے تھے جبکہ دوسری طرف ظالم اور بے رحم معلم کے طورپر مشہور اساتذہ بھی موجود تھے۔4 جو پڑھانے سے زیادہ تشدد پسندی پر زور دیتے تھے ۔
بچے کے پید ا ہوتے ہی اسےاجرت پر رکھی گئی کسی دائیہ کے حوالے کر دیا جاتا تھا جسکے نتیجے میں اسکی پرورش ماں کی گود سے زیادہ کسی دائی کی گود میں ہوتی تھی جو آس پڑوس کے تمام بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ وہ ان کی بنیادی ضروریات پر نظر رکھنے سے زیادہ تفریح کا خیال رکھتی تھیں۔ گرایچّی(Gracchi) کی والدہ کرنیلیا (Cornelia)، جیولیس سیزر (Julius Caesar)کی ماں اوریلیا (Aurelia) اور اگسٹس(Augustus)کی والدہ اٹیکا (Attica)کے بارے میں منقول ہے کہ وہ استانی کے منصب پر متعین رہیں اور انہوں نے خود کوطبقہٴ اشرافیہ کے بچوں کی تعلیم و تربیت سے بھی وابستہ کر رکھا تھا۔اس ادارے میں سخت گیری کے استعمال اور اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کا ایک بہترین خاکہ متعین تھا جس کی وجہ سے انسانی ذہن کی معصومیت اور دیانتداری کوختم کیا جاتا تھا اور غلط رسم و رواج اور منفی مثالوں کے اثرات سے بچوں کو خراب کیا جاتا تھا۔5جس کے نتیجے میں وہ بچے بڑے ہو کر عجب کے مرض میں مبتلاہوتے ،اپنے علاوہ غیر قوم کے افراد کو حقیر سمجھتے اور ہمیشہ جنگجووں کی مثل لڑنے بھڑنے اور درندگی پر آمادہ رہتے تھے اور یہ کیفیت ان کی اشرافیہ اور پڑھے لکھے لوگوں میں عام تھی جسکے اثرات آج کے یورپ میں بھی بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں ۔
روم کے قدیم رواج کے مطابق نوجوان اپنے بڑوں کےرویوں کا مشاہدہ کرکے اور ان کی ہدایات سن کر معاشرتی طرز عمل کا طریقہ کار سیکھا کرتےتھے۔ہر شخص اپنے والدین کو رہنما اور استاد سمجھتا تھا۔ اگر کسی کے والدین نہ ہوتے تو وہ سینیٹرز میں سے سب سے بزرگ اور عمر رسیدہ شخص کو اپنا استاد بنا لیتا تھا۔بچے درسگاہ کے علاوہ اکثر وقت اپنے والد کے ساتھ گزارتے تھے۔اگر والد کسان ہوتاتو لڑکے کھیت میں اس کی مدد کرتے ۔اگر خاندان شہر میں رہتا تو بیٹوں سے توقع کی جاتی کہ وہ والد کےساتھ احترام سے کھڑے رہیں اور مہمانوں کو خوش آمدید کہیں۔ان سے یہ بھی توقع کی جاتی تھی کہ وہ اجتماع گاہ میں اپنے عہد کے نامور مقررو ں کے خیالات سنیں۔شروع کے ادوار میں نو عمر لڑکے اپنےوالد کے ساتھ سینیٹ(Senate) میں جا سکتے تھے مگر بعد میں ان پر پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سینیٹ(Senate) کے اہم معاملات کا بچوں کے ذریعےعورتوں تک پہنچنا تھا۔دوسری اہم وجہ یہ بھی تھی کہ بچے اپنے والدین کی غیر مناسب حرکتیں اور غیر اخلاقی طرز زندگی دیکھتے تو وہ بھی اسی طرح کی حرکات کرنے لگتے اور درسگاہوں میں سکھائے گئے آداب و اخلاق فراموش کرنے لگتے تھےجو ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے ۔
عہد جمہوریت میں بچوں کو جو سب سے پہلی چیز سکھائی جاتی وہ بارہ الواح(Twelve Tables) کے قوانین تھے۔ بچوں کو تعلیم کے ابتدائی دور میں ہی جب وہ لکھنا پڑھنا اور ریاضی سیکھ رہے ہوتے ، بارہ الواح (Twelve Tables)پر کندہ قوانین سکھائے جاتے تھے۔تاہم بعد کے ادوار میں ان کی اہمیت کم ہو گئی تھی۔ عہد جمہوریت کے آخری دور کےمشہور رومی فلسفی اور سیاستدان سیسیرو (Cicero) کے مطابق اس کے لڑکپن کے دور میں تما م لڑکے بارہ الواح(Twelve Tables) کے متن کو بھجن کی طرح زبانی یاد کرتے تھے۔جمہوری عہد کے دوسرے نصف اور عہد سلطنت میں لڑکے درس گاہوں میں پڑھنے جاتے تھے۔روم میں تین اقسام کی درس گاہیں قائم تھیں جن میں بنیادی تعلیم کے ادارے، گرامر اور زبان کےدیگر قواعد سکھانے والی درس گاہیں اور علم الانشاء ، بیان اور خطابت سکھانے والے مدارس شامل تھے۔اس طرح کی درس گاہیں صرف روم شہر میں ہی نہیں بلکہ تمام اہم صوبائی شہروں میں بھی موجود تھیں۔سلطنت روم کے تمام حصوں میں معیار تعلیم مختلف تھاجسکی بنیادہر جگہ اور طبقے کے مالی حالات تھے ۔
طبقہٴ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا بچہ جب درسگاہ جانے کی عمر کو پہنچتا تو اس کے ساتھ ایک معلم کو تعینات کردیا جاتا جو عموما ایک تعلیم یافتہ غلام ہوا کرتا تھا ۔وہ بچے کو صبح درسگاہ لے جاتا، وہاں اس کے اسباق ختم ہونے تک انتظار کرتا اور بعض اوقات اس کی کتابیں بھی خود اٹھاتا تھا۔ معلم بچے کی دیکھ بھال کرتا، اس کے اسباق میں مدد کرتا اور ضرورت پڑنے پر سختی کرتا تھا۔الغرض ،وہ بچے کا ہمدم اور دوست بن جاتا تھا6اور اسکی معصومیت کو ختم کرکے اسمیں اپنی چالاکی اور چال بازی کے ہنر کو منتقل کرتا ۔
روم میں تدریسی عمل تین مراحل پر مشتمل تھا۔پہلے مرحلے میں پڑھنا لکھنا اور ریاضی سکھائی جاتی تھی جسے لٹریٹر (litterator)یا لیوڈی میجسٹر(ludi magister) کہلانے والا معلم سکھاتا تھا۔اس کے بعد بچہ یونانی ولاطینی شاعری اور اس کے ساتھ نثر کی تعلیم حاصل کرتا تھا۔ان علوم کے خاص مدرسین گرامیٹیکس (Grammaticus)کہلاتے تھے جو املا، ہجےاور اندازِ بیان پر خاص توجہ دیتے تھے۔آخر میں لڑکوں کو علم البلاغت کے ماہرین رہیٹوریشین (Rhetorician)فنِ خطابت کی تربیت بھی دیتے تھے۔7 مگر ایک قدر جو ان تمام درجات کے معلمین میں مشترک تھی وہ یہ کہ وہ رومی معصوم بچوں کو بھی چالاک ،عیار ،خود سر اور تکبر میں مبتلاء کرکے انکے ذہنوں میں احساس برتری کو اجاگر کر دیتے تھے جسکے نتیجے میں رومی بچوں میں معصومیت تو مکمل طور پر ختم ہو جاتی البتہ اسکی جگہ غرور ،انانیت اور خود سری پیدا ہو جایا کرتی تھی ۔
قدیم روم میں ابتدائی تعلیم کی درسگاہیں طلباء کو علم کے حسن اور خوبصورتی کا احساس دلانے کی بجائے انہیں خواہش پرستی کی جانب مائل کرتی تھی۔ان کا کام صرف ہدایات جاری کرنے تک محدود تھا۔یہ مکاتب طلوع آفتاب کے ساتھ ہی کھل جاتے اور بغیر کسی وقفے کے دوپہر تک جاری رہتے۔ان میں سے اکثر مدارس دکانوں کے باہر شامیانوں میں واقع ہوتے تھے جس کی وجہ سے گلی سے آنے والا ہر طرح کا شور و غل انہیں متاثر کرتا تھا۔درمیان میں صرف کپڑے کا ایک پردہ حائل ہوتا تھا۔استاد کے لیے کرسی اور طلباء کے لیے تپائیاں رکھی جاتی تھیں۔اس کے علاوہ تختہٴ سیاہ، کچھ تختیاں اور ریاضی کی مشقوں میں کام آنے والے گنتارا فریم (Abaci)ہی ان درسگاہوں کی کل کائنات تھے۔یہ درسگاہیں سارا سال ایک ہی طرح سےتعلیمی عمل جاری رکھتی تھیں۔آٹھویں دن جسےننڈینائے(Nundinae) یا خریداری کا دن کہا جاتا تھا،درس گاہ بند کی جاتی تھی۔اس کے علاوہ کوینکواٹرس (Quinquatrus) کے مذہبی تہوار اور گرمیوں کی بھی تعطیلات دی جاتی تھیں۔ اساتذہ کی صرف یہی تمناہوتی کہ ان کے شاگرد لکھنا، پڑھنا اور حساب کتاب کرنا سیکھ لیں چونکہ وہ کئی سال سے اسی کام میں مشغول تھے اس لیے اپنے طریقہ تدریس میں بہتری لانے اور مایوس کن عمل کو تبدیل کرنےکی کوئی سعی نہیں کرتے تھے۔8
تدریس کی ابتدا حروف تہجی اور یونانی ولاطینی زبان کو پڑھانے اورلکھانے سےکی جاتی تھی۔ مشقیں دھات یا ہڈی کے بنے اسٹائیلوس (Stylus)سے لکڑی کی مومی تختیوں پر لکھی جاتی تھیں۔لکھنے کے بعد موم کو کھرچ کر مٹا یا جاتا اور موم کی نئی تہہ لگائی جاتی تھی۔ کچھ تختیاں لکڑی کی کئی تختیوں سے مل کر بنائی گئی ہوتیں اور ایک ڈور کے ذریعے آپس میں کتاب کی مانند جوڑی جاتی تھیں۔ان کے ساتھ ایک کھرچ کر مٹانے کا آلہ بھی منسلک ہوتا جو اغلاط کو مٹانے کے کام آتا تھا۔جب استاد کام کی جانچ کرلیتا تو شاگرد اس تمام کام کو ایک گرم کپڑے سے رگڑ کر مٹا دیتا اور تختی کو اگلے دن کے لیے تیار کرلیتا تھا۔ نظم و ضبط کی بہت اہمیت تھی۔اس مقصد کے لیے چھڑی اور چمڑے کا تسمہ وغیرہ استعمال کیا جاتا تھا۔ والدین تعلیم کے معاملے میں استاد کی سختی کو مستقبل کے سپاہیوں کی تعلیم کا حصہ سمجھتے تھے۔صاحب ثروت خاندان اپنے بچوں کے ساتھ ایک ملازم کو بھیجتے جس کا کام بچے کے آداب اور تعلیم پر نظر رکھنا تھا۔ لٹریڑر(Litterator)کہلانے والا یہ ملازم ضرورت پڑنے پر لاٹھی بھی استعمال کر نے کا مجاز تھا 9اور بعض اوقات یہی ملازم ان معصوم بچوں کی عصمت دری کرتا اور ان کے ساتھ ہم جنس پرستی جیسے قبیح فعل میں ملوث ہو کر انکی معصومیت کو ختم کرنے کے درپے ہوتا تھا۔
قدیم روم میں 11سال کی عمر میں بچے ثانوی تعلیم کے اداروں میں داخل ہوجاتے تھے۔ان درسگاہوں کے لیے گرامیٹیکس (Grammaticus) کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ یہاں فلسفہ، جغرافیہ، ریاضی ، موسیقی اورعلم فلکیات کی تعلیم دی جاتی تھی۔ رومیوں میں یونانیوں کے علم کی بہت قدر تھی اسی لیے یونانی زبان و ادب ان کے ثانوی اداروں کے نصاب تعلیم کا بنیادی حصہ تھا۔اس کے علاوہ ثانوی تعلیم کا ایک اہم مقصد طلباء کو علم البیان اور بلاغت کے استاد رہیٹر (rhetor) سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے تیار کرنا بھی تھا۔ سینیٹرز، حکومتی عہدیداران اور اعلی ٰ فوجی افسران کے بچے 14سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کا آغاز کرتے تھےجو ان کے سیاسی مستقبل کے لیے بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔10
پہلی صدی قبل مسیح میں ا سی عہد کے معاصر شعرا مثلا ورجل (Virgil) کا کلام بھی پڑھایا جاتاتھا۔ دوسری صدی قبل مسیح میں سولہ اور اس سے زائد عمر کے لڑکوں کو علم البیان اور خطابت یونانی اساتذہ پڑھا تے تھے مگر خطابت اور علم البیان کا لاطینی طریقہ کار زیادہ تیزی سے غالب آنے لگا تھا۔رومی سلطنتی دور میں سیاسی خطابت کا زوال ہوا کیونکہ اس وقت سیاسی فیصلے سینیٹ اور اسمبلی میں نہیں بلکہ شہنشاہ خو د کرتے تھے ۔تاہم اس وقت بھی خطابت اور علم البیان تعلیم کا بنیادی عنصرتھااوراس کا مقصد نوجوانوں کو عدالتوں میں شعبہٴ وکالت کے لیے تیار کرنا تھا۔علم البیان کارومی ادب پر بھی گہرا اثر تھا۔ اس کے بہترین ماہر تعلیم بڑے شہروں میں موجود تھے۔آخری رومی عہدمیں علم البیان کے مشہور اساتذہ میں سینٹ اگسٹائین (St. Augustine) ، سینٹ ایمبروز (St. Ambrose) اور آوسونیوس (Ausonius) شامل تھے۔11
رومی معاشرے میں دولت مند اپنے بچوں کےلیے اچھی تعلیم خرید سکتے تھے۔ اس میں لڑکوں اورلڑکیوں کی کو ئی تخصیص نہ تھی۔ جبکہ غریب تنگدستی کی وجہ سے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلا سکتے تھے۔ اس نظام نے اعلیٰ طبقے اور نچلے طبقے کے درمیان گہرا فرق پیدا کر دیا تھا۔ غریب طلباء مقامی اساتذہ سے گھر پر ہی بنیادی تعلیم حاصل کرتے نیز ان کی تعلیم دس گیارہ سال کی عمر میں ہی مالی حالت پست ہونے کی وجہ سے رک جاتی تھی۔ امراء کے بچے ثانوی تعلیم حاصل کرتے اور ان میں سے کچھ اعلی ٰ تعلیم حاصل کر کے خود کوسیاست اورقانون کے شعبوں کے لیے تیار کرتے تھے۔ 12
رومی درس گاہوں کی عمارتیں بہت سادہ بنائی جاتی تھیں۔اکثر عمارتیں کسی سرکاری عمارت کے ایک کونے میں کسی شامیانے تلے واقع ہوتی تھیں۔کہیں کچی چھت ہوتی اور کہیں اطراف سے عمارت کھلی رکھی جاتی تھیں۔ درسگاہوں میں عمل تدریس کا آغاز علی الصبح ہی کردیا جاتا تھا۔ درسگاہوں کے قریب رہنے والے لوگ اکثر ان سے پیدا ہونے والے شور شرابے کی شکایت کرتے نظر آتے تھے۔ صبح مرغ کی بانگ سے پہلے ہی شہر کی گلیاں درس گاہوں کی طرف رواں دواں طلباء اور ان کو نظم وضبط سکھانے والے اساتذہ کی غصے سے بھری آوازوں سے گونج رہی ہوتی تھیں۔13
رومی چونکہ نسلوں سےتجارت سے وابستہ تھے اس لیے چاہتے تھے کہ ان کے بچے حساب کتاب میں ماہر ہوں۔ ذہنی حساب کتاب پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ درس گاہوں میں وہی کچھ پڑھایا جاتا تھا جس کی عملی افادیت ہو۔اس کے ساتھ ساتھ جسمانی ورزش بھی تعلیم کا حصہ تھی۔طلباء کو گھڑ سواری،بھاگنا، چھلانگ لگانا، کشتی اور تیراکی بھی سکھائی جاتی تھی۔اس کا مقصد انہیں جسمانی طور مضبوط بنانا تھا۔اسی طرح اعلیٰ تعلیم جو کہ علم البیان پر مشتمل تھی اچھے ادیب اور مقرر پیدا کرتی تھی۔اس کا مقصد اعلیٰ ذوق کی آبیاری کے ساتھ ساتھ صحیح اور غلط میں تمیز سکھانا تھا خاص طور پر جب مخاطب عوام ہوں۔اس دوران انہیں تقریروں اور مباحثوں میں شرکت کرنی ہوتی جہاں اساتذہ انہیں دلائل دینا اور دلائل کے جوابات دینے کا فن سکھاتے تھے۔ انہیں مناسب الفاظ کا استعمال، زبان و بیان کے اصول،لب و لہجہ ، آواز کا اتار چڑھاوٴ اور مختلف نوعیت کے جذبات کا اظہار کرنا سکھایا جاتا تھا۔انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ اچھا مقرر اور خطیب بننے کے لیے وسیع مطالعہ درکار ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی سکھایا جاتا کہ اپنی صلاحیت کو اعلیٰ مقاصد کے حصول اور ریاست کی فلاح و بہبود کےلیے استعمال کرنا ہے۔
روم میں مختلف پیشوں مثلا قانون، ریاستی انتظامیہ یا فوج وغیرہ کے لیے کوئی خاص تعلیم نہیں تھی بلکہ نوجوان انہیں مشاہدے اور تجربے سے سیکھتے تھے۔ا س کےلیے نوجوانوں کو مشہور سینیٹرز، قانون دانوں، گورنروں یا فوجی جرنیلوں کے ساتھ تربیت کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔اس طرح روم کا طبقہٴ اشرافیہ اپنے بچوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرتا تھا۔14
رومی درجہٴثانوی کے تعلیمی اداروں میں جیومیٹری اور موسیقی پر خاص توجہ دی جاتی تھی ۔ان مضمون کو پڑھانے کے لیے مخصوص اساتذہ رکھے جاتےتھے۔ جیومیٹری کوسا ئنسی استعمال کی بجائےاس کی عملی شکل میں سکھایا جاتا تھا۔ سیسیرو (Cicero)نامی مشہور رومی فلسفی کے بقول یونانیوں کے یہاں جیومیٹری کی بہت قدر تھی مگر ہم نے ناپنے اور حساب لگانے کے حوالے سے اس کے سائنسی اور عملی دائروں کا تعین کیا ہے۔ کونٹیلین(Quintilian)کے بقول جیومیٹری ذہن کو تیز کرتی ہے اور اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔یہ چیزوں کی منظم ترتیب اور منطقی استدلال سکھاتی ہے۔ روم میں موسیقی نے ایک فن کےطور پر ترقی نہیں کی تھی ۔ درسگاہوں میں موسیقی کی تعلیم اس لیے دی جاتی تھی کہ طلباء تال، راگ اور آہنگ کے اصول سیکھ سکیں۔انہیں شاعری کے اوزان اور بحریں سکھائی جاتیں تھیں تاکہ شاعری کو مناسب اتار چڑھاوٴ کے ساتھ پڑھنا سیکھ جائیں اور دوران گفتگو اپنی حرکات و سکنات کو قابو میں رکھ سکیں۔کچھ اساتذہ عہد قدیم کی موسیقی کو فنی اعتبار سے زیادہ بہتر خیال کرتے تھے ۔ 15
قدیم روم میں لڑکیاں ان چیزوں کو سیکھتی تھیں جن سے گھربہتر انداز میں چلایا جا سکتا تھا تاہم عورت کا گھر پر رہنے ،چرخہ کاتنے اور کپڑا بننے کاروایتی تصور رومی سلطنت کی وسعت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا تھا۔امراء کی بیویوں کے پاس گھر کے کاموں کے لیے غلاموں اور باندیوں کی فوج موجود ہوتی تھی نیز کپڑے ، بچھونے اور سامانِ آرائش کی دکانوں پر بہتات تھی۔عہد قدیم کی فنی مہارتوں کی اب ضرورت نہ رہی تھی اس لیے لڑکیاں نجی اتالیق سے لکھنا پڑھنا سیکھنے کے لیے وقت نکال لیتی تھیں16بعض اوقات نوجوان لڑکیاں اتالیق سے پڑھنے کے بہانے عشق بازی بھی کیا کرتی تھیں ۔
لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاص اساتذہ رکھے جاتےتھے جوانہیں گھر پر تعلیم دیتے تھے۔سیسیرو (Cicero)نے اپنے ایک دوست اٹیکس(Atticus) کا تذکرہ کیا ہے جس نے اپنی بیٹی کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے لیے اساتذہ کی خدمات حاصل کی تھیں۔اس طرح کی کثیر امثلہ رومی تاریخ میں محفوظ ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکیوں کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے لیے الگ الگ اساتذہ موجود تھے۔ تاہم علم البیان اور خطابت کی اعلی ٰتعلیم صرف لڑکوں کے لیے مخصوص تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ لڑکیوں کو اس کی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔ان کی جلد شادی کروا دی جاتی جس سے تعلیم کا سلسلہ رک جاتا تھا۔ شادی کی کم سے کم عمر 12سال تھی اور اشرافیاء کے طبقے میں 12سے لیکر 18سال کی عمر تک شادی کرادی جاتی تھی۔اس کے باوجود اکثر لڑکیاں ثانوی درجہ کی تعلیم مکمل کرتی تھیں۔کچھ لڑکیاں شادی کے بعد بھی نجی استاد سےتعلیم جاری رکھتی تھیں۔17تاکہ وہ موقع ملتے ہی ان سے اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کر سکیں ۔
روم کا نظام تعلیم عہد بہ عہد ترقی کرتا رہا مگر وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکا جو ایک اچھے نظام تعلیم کا نصب العین ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے تعلیم کو بنیادی ضرورت کی بجائے اشرافیہ کے طبقے تک محدود ایک آسائش بنادیاتھا۔تعلیم عوام کی پہنچ سے دور رکھی گئی تھی جس کی وجہ سے وہ عملی زندگی کے میدان میں بھی پیچھے تھے۔امراء تعلیم کی بدولت اچھے عہدے اور منصب حاصل کرلیتے تھے۔وہ قانون، سیاست اوردیگر شعبوں میں ترقی بھی کرتے تھے جبکہ غریب ہمیشہ اپنی بقاء کی فکر میں ہی رہتے تھے۔یوں معاشرہ دو درجوں میں منقسم ہو گیا تھا۔ امیر، امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوگیا تھا۔امراء غریب طبقے کو اپنا اطاعت گزار اور خادم سمجھتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ خود کو آزاد خیال سمجھنے والے اس معاشرے میں عورتوں کو بھی تعلیم تک آزادانہ رسائی نہ تھی۔
جہاں جہاں رومی نظام تعلیم کے نمونے کو اپنایا گیا وہاں ا س کے تباہ کن اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔آج بھی کچھ معاشروں میں لالچ، دولت و عہدے کی ہوس،اخلاقی تنزلی، غربت و افلاس،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم،خاندانی نظام کی تباہی سمیت کتنی ہی تباہ کاریاں ہیں جو رومی نظام تعلیم کے ماڈل کو آنکھ بند کر کے اپنانے کے سبب رونما ہوئی ہیں جن سے بچنا ہر مسلم معاشرے کی بقاکے لیے نہایت ہی اہم ہے۔