Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

قدیم روم کا قانونی نظام

دنیائے مغرب کا وہ قانون جس پر اہل مغرب کو آج بھی ناز ہے، رومن لا(Roman Law) کہلاتاہے۔ ایک رائے کے مطابق یہ وہ قانون ہے جس کا آغاز چوتھی یا پانچویں صدی قبل مسیح سے ہوا تھا۔ یہ قانون پہلی بار 450قبل مسیح میں بارہ تختیوں پر مرتب انداز میں لکھا گیاتھا۔جبکہ دوسری رائے کے مطابق قانون کا بیشتر حصہ سابق سے رائج الوقت رسوم ورواج کی تدوین سے ہی عبارت تھا۔ کچھ احکام دوسری اقوام مثلاً یونانیوں سے ماخوذ بتائے جاتے ہیں۔ ان دوازدہ الواح کے مندرجات میں بعض قانونی ضوابط کے علاوہ مذہبی مراسم ، جنازہ اور میت کے احکام بھی شامل تھے۔ اسلوب میں قانونی تقاضوں اور دو ٹوک انداز کے بجائے شاعرانہ اور مبالغہ آمیز اسلوب اپنایا گیا تھا۔ قانونی احکام بہت سخت اور بعض جگہ ناقابل عمل انداز میں تھے۔یہ قانون مسلسل ترقی کرتا رہااور کئی بار لکھا گیاتھا۔ اس قانون کی ایک اہم تدوین کی مثال وہ قانون ہے جو رسول اللہﷺ کے بچپن کے زمانے میں مرتب کیا گیا۔ غالباً جب حضرت محمدﷺکی پیدائش کو چند سال ہوئے تھے۔ اس وقت ایک رومی فرمانروا جسٹینین(Justinian) نے یہ احکام از سر نو مرتب کرائے تھے۔ ان سب قوانین کے مجموعے کو رومن لا کہا جاتا ہے۔ رومن لا نہ صرف پوری سلطنتِ روما میں رائج تھابلکہ ان علاقوں میں بھی رائج تھاجہاں رومی حکومت کے باج گزار فرمانروا حکمران تھے اور جہاں رومی سلطنت کے اثرات تھے۔1

رومی قانون کی نمو صدیوں کے سفر پر محیط ہے۔ رومی قانون سازی کا سب سے قدیم دور پانچویں صدی قبل مسیح کے لیگس ایکشیونیز(Legis Actiones) کا ہے۔قانون سازی کا اس کے بعد کا مرحلہ دوسری صدی قبل مسیح کی بارہ تختیوں کا دور ہے۔ رومی قانون کی نمو کا آخری مرحلہ دوسری صدی قبل مسیح سے لے کرتیسری عیسوی تک کےدستور العمل کا دور ہے ۔ یہ قوانین روزمرہ کی انسانی زندگی کے مختلف پہلووٴں کا احاطہ کرتے ہیں۔مثلا ان میں جرم و سزا، زمین و جائیدادکی ملکیت، غلامی ، علاقائی سیاست، جسم فروشی، جنسیات اور تجارت سے متعلق قوانین شامل تھے۔یہ قوانین لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیےبنائے گئے تھے تاہم یہی قوانین بہت سنگین انداز سےعوام کے حقوق غصب کرنے کا ذریعہ بھی بنے۔اس نظام کے تحت طبقۂ اشرافیہ سے مختلف سلوک روا رکھا جاتا جبکہ کسانوں اور مزدوروں سے یکسر مختلف انداز سے سلوک اپنایا جاتا تھا۔ امرا اور شرفا کے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد رشوت یا کسی دوسرے غیر اخلاقی و غیر قانونی حربے استعمال کر کے قانون کی گرفت سے بچ نکلتے تھے جبکہ عوامی طبقے کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک اختیار کیا جاتا تھا۔اکثر قدیم معاشروں میں حکومت اور قانون باہم مربوط ہوتے تھے۔ہر حکمران اپنے عہد میں اپنی مرضی کے مطابق ایسے نئے قوانین مدون کرتا تھا جو اس کے ذاتی مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو ں ۔ پچھلے عہد کے اکثر قوانین کو ختم کردیا جاتا تھاتاہم رومی قانون تدریجا ارتقا پذیر رہا اور اس میں بھی حکمرانوں کی ذاتی پسند و ناپسند کا دخل رہا۔روم کے قانونی نظریات نے عہد جدید کے کئی معاشروں کے نظام قانون پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔2

رومیوں کا شمار ان ابتدائی اقوام میں ہوتا ہے جنہوں نے قوانین اور ان مذہبی احکامات میں فرق کیا جن کا تعلق انسان اور خدا کے درمیان سےتھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی الگ کیا جس نے قانون اور اخلاقیات میں فرق پیدا کیا۔ اخلاقی اصول اگر عوامی مفاد کو متاثر نہیں کرتے تو ان پر عمل کرنا صرف شعوری طور پر ضروری قرار دیا گیا اور اس کی پابندی نہ کرنے پر کوئی قانونی سزا نہیں رکھی گئی تھی۔ تاہم روم کے ابتدائی زمانے میں قانون اور اخلاقی اصولوں میں امتیاز پیدا کرنا مشکل تھا جس کی وجہ سیاسی اور مذہبی اقتدار ایک ہی فردکے ہاتھوں میں ہونا تھا۔3رومی قانون کا آغاز بارہ تختیوں یا جسٹینین(Justinian)کے قانون سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی تاریخ روم کے قیام جتنی ہی قدیم ہے 4جس کے مطابق ہر دور کے حکمران نے اپنی حیات اور ضرورت کے اعتبار سے اس میں مَن مانی تبدیلیاں کی اور قانون سازی کے نام پر عوام الناس سے کھلواڑ کیا ۔

جدید قوانین اور رومی قوانین کی ایک مشترکہ خاصیت قانون عامہ(Public Law) کے تحت عوامی اختیارات کی تنظیم و تشکیل اور فرد اور ریاست کے درمیان تعلق بھی ہے۔نجی قانون (Private Law) کے تحت افراد کے درمیان تعلق سے متعلق قوانین بھی روم میں وضع کیے گئے تھے 5جن میں تبدیلی عوام کی مالی اور خاندانی حیثیت کے مطابق ہوتی رہتی تھی ۔

رومی نظام میں عوامی ، فوجداری اور شخصی قانون کے مابین بہت واضح امتیاز موجود تھا۔ عوامی قوانین کارِحکومت سے متعلق تھے جن کا تعلق قانون سازی اور اس بات کا تعین کرنے سے تھا کہ کون سا جرم فرد کی بجائے ریاست کے مفادات کے خلاف ہے۔ قدیم روم کا قانون عہدِ عتیق کے مصنفین کے کام میں اور قدیم کتبوں میں محفوظ ہے۔ قدیم رومی قانون کا ضابطہ دوازدہ الواح تھیں جنہیں 451 قبل مسیح سے450 قبل مسیح کے دوران ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ آئینی قوانین کا مجموعہ تھا جنہیں دس افراد نے مرتب کیا تھا۔ ان بارہ الواح کا مکمل متن اب موجود نہیں البتہ اس کے مختلف حصوں کےحوالے ضرورمحفوظ ہیں۔ 6 اس قانون کو بارہ الواح کا قانون کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسے کانسی کی الواح پر کندہ کرایا گیا تھااور اسے ان الواح سے ہر کوئی پڑھ سکتا تھا۔ 7

اس دور میں انصاف کو رسومات کا مجموعہ اور قانون کو ایک مقدس تحریر سمجھا جاتاتھا۔قانون کی اصطلاحات اور ان کے استعمال کو سمجھنا ضروری تھا ورنہ حق پر ہوتے ہوئے بھی اسے ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا۔اس کی مثال دیتے ہوئے گینز(Gains) لکھتا ہے کہ ایک شخص کی انگور کی بیلیں اس کے پڑوسی نے کاٹ دیں ۔ مقدمہ کے دوران اس نے انگوروں کے لیےدرخت کا لفظ استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ مقدمہ ہار گیا کیونکہ قانون میں صرف درخت کاٹنے کا ذکر تھا۔مذہبی قوانین کو اجنبیوں اور عوامی طبقے(The Plebeian) سے پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ قدیم روم میں قانون خودایک معمہ تھا۔ قدیم روم کے مذہب کو قبول کرنے والے فرد پر ہی اس قانون کا اطلاق لازم قرار دیا جاتا تھا8تاہم رفتہ رفتہ اہل روم نے اپنے قانون کو سائنسی اور عقلی بنیادوں پر استوار کرلیااور اسےبظاہر مذہبی اور اخلاقیات کے اصولوں سے الگ کر دیا تھا۔9

قانون سازی کی تاریخ

سات بادشاہوں کے قدیم رومی دور میں قانون کی بنیاد رسوم پر تھی۔قانون خاندانوں کے درمیان ہونے والے تنازعات اور مذہبی اختلافات دور کرنے کے لیے تھا۔ اس کے بعد آنے والے جمہوری دور میں بادشاہ کی جگہ دو حکومتی عہدیداروں نے لے لی جنہیں کونسلز(Consuls) کہا جاتا تھا۔یہ کونسلز مجوزہ قانون پیش کرتے تھے جس پر اسمبلی میں رائے شماری ہوتی تھی۔ اس رائے شماری کے عمل میں صرف مرد شہری حصہ لیتے تھے۔اس کے بعد آنے والے شہنشاہیت کےدور میں شہنشاہ اگسٹس(Augustus) نے قانون سازی کا اختیار اسمبلی سے لے کرسینٹ(Senate) کو دے دیا تھا۔ اس نے شاہی فرمان کی بنیاد ڈالی جس کے مطابق بادشاہ کا فرمان اگرسینٹ سے توثیق حاصل کر لے تو وہ قانون کی شکل اختیار کرلیتاتھا۔بعد کے حکمرانوں نے سینٹ کے اختیارات کو رفتہ رفتہ کم کر دیا یہاں تک کہ200 عیسوی میں یہ صورتحال ہو گئی کہ شہنشاہ کا فرمان ہی قانون تصور کیا جاتا، اسے سینٹ سے منظوری کی ضرورت نہ ہوتی، اس عہد میں شہنشاہ کی ذات کو ہی روم کی سب سے بڑی قانونی سند سمجھا جاتاتھا۔10

روم میں حکومتوں کی تبدیلی اور فلاحی ریاست کے نظریات کے ساتھ ساتھ قانون سازی کے عمل کی نمو ہوتی رہی۔درجہ بہ درجہ ہر دور اورنسل میں قانون میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔جیسے جیسے نچلے طبقے کے افراد کا سماجی اور سیاسی مقام تبدیل ہوتا گیا ویسے ویسے قانون میں بھی تبدیلیاں ہوتی چلی گئی تھیں۔سب سے پہلی اہم تبدیلی یہ سامنے آئی کہ طبقۂ اشرافیہ اور عوامی طبقےکے درمیان شادی کی اجازت دے دی گئی اور اسی طرح قرض سے متعلق قوانین میں بھی نرمی کردی گئی تھی۔رفتہ رفتہ عہد قدیم کے قانون سے ایک بالکل الگ نظام تشکیل پاگیا جس میں مذہب کی قانون میں مداخلت کو ختم کردیا گیا تھااور قانون کو مکمل وحشی اور درندوں کی طرز پر ترتیب دے دیا گیا جس میں نہ مذہب کی نرماہٹ تھی نہ اخلاق کی گرماہٹ بلکہ ایک سپاٹ اور مردہ نظام وجود میں آگیا جو مشینی انداز میں فیصلے کرنے لگا ۔

جہاں تک بارہ الواح کا تعلق ہے تو انہیں گاؤلس (Gauls)کےقبائل کے روم پر حملے کے دوران جلا دئے جانے کے احتمالات موجود ہیں تاہم انہیں بعد میں حافظے اور دیگر شواہد کی مدد سے دوبارہ تحریر کیا گیاتھا۔یوں رومی قانون بارہا تجدید کے عمل سے گزرا۔قانون کی کئی تشریحات لکھی گئیں جن میں گایئس(Gaius)کی چھ کتابیں مشہور ہیں جنہیں اینٹونینز (Antonines) کی سرپرستی میں تحریر کیا گیاتھا۔11 بارہ الواح اور جمہوری عہد کے درمیانی دور میں قانون سازی کے علم کو فروغ ملا۔مصادر قانون صرف نظائر اور رسوم نہیں رہے تھے بلکہ اہل روم نئے قوانین بنانے اور پرانے قوانین کو منسوخ کرنے کے قابل ہو چکے تھے۔ 12

عدالتی نظام

رومی روایات کے مطابق والد خاندان کا سربراہ تھا اور ریاست گھریلو معاملات میں شاذو نادر ہی مداخلت کرتی تھی۔13زیادہ تر خاندانی معاملات معاشی تنازعات سے متعلق ہوتے تھے۔ بیوی بچوں پر تشدد عام سی بات تھی لیکن اس کا تذکرہ رومی قانون کے حوالوں میں کم ہی ملتا ہے۔ 14شروع میں مقدمات کی سماعت بادشاہ خود کرتے تھے۔بعد میں اس مقصد کے لیےمجسٹریٹ تعینات کر دئے گئے ، ان کے فیصلے کے خلاف اسمبلی میں اپیل بھی کی جا سکتی تھی۔ خاص مقدمات میں سینٹ خصوصی عدالت تشکیل دیتی تھی۔روم میں مستقل عدالتوں کا قیام دوسری صدی قبل مسیح میں ہوا تھا۔رومی بادشاہ سلا(Sulla)کے دور میں مستقل فوجداری عدالتوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیاجن کا مقصد طبقۂ اشرافیہ کے غداری اور رشوت سے متعلق مقدمات کی سماعت کرناتھا۔عدالتیں تیسری صدی عیسوی تک کا م کرتی رہیں۔اس عہد میں اہم سیاسی اور مجرمانہ معاملات کے فیصلے سینٹ میں ہوتے تھے۔ ان جرائم میں اکثر سینٹ کے اراکین بھی ملوث ہوتے تھے۔ باقی جرائم کے فیصلے عوامی عدالتیں کرتی تھیں۔بعض اوقات شہنشاہ خود بھی فیصلے کیا کرتے تھے۔روم میں 100 کے قریب ایسی عدالتیں موجود تھیں جو وراثت اور جائیداد کے تنازعات کے فیصلے کرتی تھیں۔ 15

رومی عدالتوں میں کم عمر بچے اور بہرے افراد حاضر نہیں ہو سکتے تھے بلکہ ان کی طرف سے ان کے وکیل پیش ہوتے تھے۔اس کے علاوہ باقی تمام مقدمات میں فریقین کو عدالت خود آنا پڑتا تھا اور وہ کسی کو وکیل یا نمائندےکی حیثیت سے نامزد نہیں کر سکتے تھے۔16روم کے جمہوری دور میں عدالتوں میں 105افراد تعینات تھے ۔35قبائل میں سے ہر قبیلے کے تین افراد تعینات تھے۔یہ تعداد شہنشاہیت کے دور میں بڑھ کر180 تک پہنچ گئی تھی جنہیں چار عدالتوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ صوبوں میں حکومت کی طرف سے مستقل عدالتیں موجود نہیں تھیں۔ صوبائی گورنر اہم جرائم سے متعلق مقدمات کی سماعت خود کرتے تھے جبکہ مقامی عدالتیں عوامی مقدمات کے فیصلے کرتی تھیں تاہم رومی شہری ان عدالتوں کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے تھے۔ رومی شہریوں کے مقدمات کے فیصلے گورنر کرتے تھے لیکن انہیں شہنشاہ کے دربار میں اپیل کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ 17

روم میں استغاثہ کا کوئی خاص تصور نہیں تھا اس لیے فوجداری قانون کا نظام حکام کے سامنے افراد کی نجی کاوشوں پر ہی منحصر تھا۔ عورتیں وراثت کے معاملات میں گواہی نہیں دے سکتی تھیں تاہم دیگر فوجداری اور عوامی معاملات میں ان کی گواہی قابل قبول تھی۔18177 قبل مسیح میں ایک نیا طریقۂ کار متعارف کرایا گیا جسے دستورالعمل نظام (Formulary System) کا نام دیا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت قانونی مراحل کی تکمیل میں آسانی پیدا ہو گئی تھی۔اس کے تحت مقدمے کے آغاز سے پہلے دونوں فریقین مجسٹریٹ سے مل کر ایک ضابطے کا تعین کر لیتے جس کے مطابق اس معاملے کو حل کیا جاتا تھا ۔ جب ضابطۂ کار طے ہو جاتا تب ہی معاملہ جج کے سامنے لے جایا جاتا تھا۔اس نظام نے قانونی زبان کی پیچیدگیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی کم کر دیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے نتیجے میں ایسے قواعد و ضوابط بھی وضع ہوئے جو بارہ الواح سے ہٹ کر تھے۔ رومی شہنشاہیت کے دور میں ایک مجسٹریٹ یا نامزد افسر مقدمے کا فیصلہ کرتا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا تھا جواس سے بڑی عدالت یا شہنشاہ کے دربار میں کی جا سکتی تھی جس کے نتیجے میں فیصلے تبدیل بھی ہو جاتے تھے۔ایسا اکثر ان مقدمات میں ہوتا تھا جہاں جج یا مجسٹریٹ کسی فریق کا رشتہ دار ہوتا یا پھر کوئی فریق اپنے اثرو رسوخ سے مقدمے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا تھا۔19

جج کا عہدہ

جج کا عہدہ روم میں کوئی قانونی پیشہ نہیں تھا بلکہ زیادہ تر جج عام شہری ہوتے تھے جنہیں خاص طور پر مقدمے کی سماعت اور فیصلے کے لیےمنتخب کیا جاتا تھا بلکہ یہ ایک عوامی ذمہ داری تھی جو اکثر معززین اور اشرافیہ پر لاگو کی جاتی تھی۔عموما دونوں فریقین جس شخص پر متفق ہو جاتے اسے یہ ذمہ داری سونپ دی جاتی تھی اور مجسٹریٹ اس جج کے نام کا تعین کردیتا تھا ۔ تاہم مجسٹریٹ جج کےنام کا تعین کرتے وقت کچھ اصولوں کو لازمی مدنظر رکھتا تھا۔ 20روم کے قانون پر سب سے زیادہ قانون دان اثر انداز ہوتے تھے۔اگرچہ ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی مگر وہ قانون کے ماہرین تھے۔ وہ بغیر کسی معاوضے کے شہریوں ،ججوں اور فوجداری حاکمین کو مشورے دیتے تھے۔

قدیم روم میں مذہبی پیشواوٴں کو بھی جج نامزدکرد یا جاتا تھا۔ شادی، طلاق اور بچوں کے شہری اور مذہبی حقوق سے متعلق فیصلے مذہبی پیشواوٴں پر مشتمل خصوصی عدالت کیا کرتی تھی۔ زنائے محرمات اور پاکدامنی اور تجرد سے متعلق معاملات کے فیصلے بھی یہی مذہبی خصوصی عدالت کرتی تھی۔ اس کے علاوہ بچہ گود لینے یا اپنانےکی صورت میں تبدیلی مذہب کا فیصلہ بھی مذہبی پیشوا کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتاتھا۔ وصیت کرنے کا مطلب مذہب کا جائیداد کی منتقلی سے متعلق قوانین کی مخالفت تھا اسی وجہ سےروم میں شروع کے ادوار میں وصیت کے لیےبھی مذہبی پیشوا کی اجازت ضروری تھی۔اگر دو پڑوسیوں کے درمیان زمین کی حدود پر تنازعہ ہو جاتا تو اس کا فیصلہ بھی مذہبی پیشوا ہی کرتا تھا کیونکہ مذہب کی طرف سے ہر ایک کی زمین کی حدود مقرر تھیں۔21

تصور جرم اور سزا

روم کے جمہوری دور میں کچھ جرائم کی سزائیں متعین تھیں جو بارہ الواح نامی کانسی کی الواح پر درج تھیں۔ کسی کے کھیت میں چوری چھپے رات کے وقت مویشی چھوڑ دینے کی سزا موت تھی۔گودام یا غلے کے ڈھیر کو جان بوجھ کر آگ لگانے کی سزا زندہ جلا دینا تھی۔ جادو منتر کرنے کی سزا میں مجرم کو اتنا مارا جاتا کہ وہ موت کی نیند سوجاتا۔ بارہ الواح میں کئی جرائم کے لیےموت کی سزا تجویز کی گئی تھی۔سزائے موت کے مختلف طریقے بھی بیان کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ بھی جن جرائم کو خطرناک تصور کیا جاتا تھا ان کی روک تھام کے لیےسخت قانون بنائے گئےتھے۔22

سزائے موت کا اطلاق دیگر کئی جرائم پر بھی ہوتاتھا جن میں غداری سب سے اہم جرم تصور کیاجاتاتھا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ قدیم روم میں غریب عوام ہی سزائے موت کا شکار ہوتی تھی جبکہ اشرافیہ قانون سے بچ نکلتے یا سزا میں نرمی حاصل کر لیتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ایسے جرائم جن کا آئین میں ذکر نہیں تھا،وہ بھی سامنے آتے رہتے تھے جن کی سزامقرر کرنے کا اختیار گورنروں کے پاس تھا ، یوں انصاف صوبےدر صوبے اور فرد در فرد کے حوالے سے مختلف صورت اختیار کرلیتا تھا۔تیسری صدی عیسوی کے روم میں قانون کے فوجداری ضابطۂ اطلاق کے حوالے سے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ان میں سے پہلا گروہ اشرافیہ اور معززین کا طبقہ تھا جنہیں اعلی معززین کہا جاتا تھا۔باقی مانندہ شہریوں کو پست انسان تصور کیا جاتا تھا۔رومی نظامِ قانون میں اشرافیہ کے لیے سزائیں اور قوانین نرم تھے۔ وکیل اپنی خدمات کا معاوضہ نہیں لیتے تھے تاہم ان خدمات کی بدولت سیاسی مدد فراہم کرنے کا تقاضہ کرتے تھے۔اسی لیےروم کے سیاستدان زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سیاسی مدد فراہم کرکے اپنا سیاسی اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔23

جمہوری روم کے عہد80 قبل مسیح میں سلا(Sulla)نے قانون میں کئی ترامیم کیں اورعوامی جرائم کی فہرست میں کئی دیگر سنگین جرائم شامل کیےجن میں شدید زخمی کرنا، وصیت میں تبدیلی یا جھوٹی وصیت تیار کرنا، نجی مفادات کے لیے جرائم اور سنگین اخلاقی جرائم جیسے زنا وغیرہ شامل تھے۔ جمہوری عہد میں جرم تسلیم کرنے کی صورت میں موت کی بجائے جلا وطنی کی سزا بھی دی جانے لگی تھی۔عہد سلطنت میں جائیداد ضبط کرنے اور شہریت منسوخ کرنے کی سزا بھی دی جاتی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے ساتھ کام کرنے اور کانوں میں کام کرنے کی سزا بھی دی جاتی تھی جسے سزا کی ایک سخت قسم سمجھا جاتا تھا۔24 بعد کے ادوار میں موت کی سزا میں بنیادی طور پر نرمی کر دی گئی۔ موت کی سزا کے ساتھ ساتھ یہ اختیار بھی دیا جاتا تھا کہ موت سے بچنے کے لیےجلا وطنی اختیار کر لی جائے۔جلا وطنی سے مراد روم اور اٹلی کی حدود سے نکل جانا لیا جاتا تھا۔واپس آنے کی صورت میں موت کی سزا دی جاتی تھی مگر عملی طورایسا کم ہی ہوتا تھا۔25

جرمانہ

قدیم روم میں عمارتوں اور مندروں کی نگرانی پر تعینات مجسٹریٹ آیڈائل(Aedile) کہلاتے تھے ، آیڈائل جرمانے کی سزا متعارف کروانے کے حوالے سے مشہور تھے۔295 عیسوی میں ایسے ہی ایک عہدیدار نے اشرافیہ کی ان عورتوں پر جو کہ جسم فروشی جیسے قبیح دھندے میں ملوث تھیں ، بھاری جرمانے عائد کرکے اتنی رقم اکٹھی کر لی کہ اس سے ایک مندر تعمیر کیا جو آج بھی وینس کے مندر(Temple of Venus)کے نام سے مشہور ہے26لیکن یہ جرمانہ صرف ان عورتوں سے ہی وصول کیا جا سکا جو اس فعل قبیح کا ارتکاب کرتے ہوئے سرِعام پکڑی گئیں ورنہ خود آیڈائل (Aedile)کے اراکین اور بادشاہوں کے گھر والے بھی اس فعل قبیح میں مبتلا رہتے تھے اور ان پر کوئی جرمانہ عائدنہیں کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی ان کے لیے اس کام کو برا سمجھاجاتاتھا ۔

غلاموں سے متعلق سزائیں

اگر کوئی غلام اپنے آقا کو قتل کر دیتا تو اس گھر کے تمام غلاموں کو سزا کے طور پر قتل کر دیا جاتا تھا۔یہاں تک کہ غلاموں اور بچوں کو بھی نہ بخشا جاتا جن کی معصومیت واضح تھی۔سینٹ (Senate)نے عوام کے بھرپور احتجا ج اور رحم کی اپیلوں کے باوجود یہ قانون تبدیل نہیں کیا تھا۔اس قانون کے نتیجے میں پپیڈانیوس (Pedanius) کے گھر کے چار سو غلاموں کو قتل کر دیا گیا تھا ۔اہل روم کے اس عمل سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو باشعور اور تعلیم یافتہ کہلانے والے ان لوگوں میں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیےسب کچھ کر گزرنے والے دہشت گردوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔

دیگر اہم سزاوٴں میں ایک پیری سرئڈ(Parricide) کی سزا تھی جو والد کو قتل کرنے کے جرم میں دی جاتی تھی۔ اس میں مجرم کو پہلے لاٹھیوں سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا پھر اسے ایک بوری میں کتے، سانپ، مرغ اور بندر کے ساتھ باندھ کر بوری کا منہ بند کر دیا جاتا تھا۔ اگر سمندر قریب ہو تو مجرم کو سمندر میں ورنہ جنگل میں جانوروں کے سامنےپھینک دیا جاتا تھا۔ 27قرض ادا نہ کر سکنے کی صورت میں غلام بنالینے یا اپنے گھر پر قید کر دینے کی سزا کا عام رواج تھا۔ 28زنا ، بدکرداری اور ہم جنس پرستی کی بھی سزائیں مقر رتھیں جو جرم کی نوعیت، حالات و واقعات اور شواہد کے جائزے کے بعد تجویز کی جاتی تھیں۔29غلاموں سے جنسی تعلق اور ان کا جنسی استحصال جرم نہیں سمجھا جاتا تھا۔غلاموں کو چونکہ ملکیت سمجھا جاتا تھا اس لیےانہیں آقا جس سے چاہیں جنسی تعلق کا حکم دے سکتے تھے۔ ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ مالک کے حکم پر جنسی تسکین فراہم کریں ۔ جسم فروش عورتوں کی عصمت دری کی بھی اجازت تھی اور اسے قانونا جرم نہیں سمجھا جاتا تھا۔اسی طرح حالت جنگ میں بھی زنا کو جائز قرار دیا گیاتھا۔30 مصلوب کرنے کی سزا بھی عام تھی۔ خطرناک مجرموں کو عوامی مقامات پر صلیب پر لٹکادیا جاتا تھا تاکہ لوگ دیکھ کر خوف کھائیں اور اس جرم کی طرف مائل نہ ہوں۔ لوٹ مار کرنے والوں اور رہزنوں کے لیےیہ سزا عام تھی۔31

قانون کی تشکیلِ جدید

شہنشاہ اگسٹس (Augustus)نے قانون کو سیاست اور حکومت سے الگ کرنے پر زور دیا تھا۔اس نے قانون دانوں کا ایک الگ شعبہ قائم کیا جو قانون کی تشریح کرتا تھا ،اسے شہنشاہ کی حمایت حاصل تھی۔ شہنشاہ ہاڈرائین(Hadrian) کے عہد میں یہ طے کیا گیا کہ اگر قانون دان کسی قانون کی تشریح پر متفق ہوں تو جج پرلازم ہوگا کہ اس پر عمل کرے،اور اگر قانون دانوں میں اس تشریح پر اتفاق نہ ہو تو جج اپنا فیصلہ سنانے میں آزاد تھا۔32

قدیم قانون ِروما کی تشکیل میں قانون دانوں کا بھی خاصا اہم حصہ تھا۔ رومی نظائر قانون وعدالت میں ماہرین ِقانون کا تقرر بادشاہ کیا کرتا تھا، یہ لوگ عام لوگوں کے لیے قانون کی تعبیر وتشریح کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ دراصل یہ ماہرین یا سرکاری شارحین بادشاہ کے ترجمان ہوتے تھے جو بادشاہ کی طرف سے قانون کی توضیح وتشریح کرنے پر مامور تھے۔ رومن لاکے ارتقامیں ان ماہرین کی تشریحات کا خاصا حصہ تھا۔ قانون روما کا یہ حصہ اصطلاحاً (Responsa Prudentium)یعنی اجوبۂ ماہرین کہلاتا ہے۔ جسٹینین(Justinian) وہ شخص تھا جس نے اپنی سلطنت میں تنظیمی معاملات ترتیب دئے اورحکومتی امور کے حوالے سے قوانین مرتب کیے تھے۔ اس کے مرتب شدہ قوانین کو جسٹینین(Justinian)کا مجموعہ قوانین کہا جاتا ہے۔اس کی قانونی خدمات سے متعلق اوایف رابنسن (O.F.Robinson) لکھتے ہیں :33

  شہنشاہ جسٹینین نے تقریباً ایک صدی بعد دوبارہ قانون سازی کا فیصلہ کیا۔ اس کے اس کام نے یورپ کی تمام تر قانون سازی کی ترقی اور تشکیل میں اہم کردار اد کیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں بھی یورپی اقوام نے کالونیز بنائیں وہاں کے قوانین پر جسٹینین کے قوانین کے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ یہ رومی قانون کے مآخذ اور مصادر کی تفہیم اور ان کی تشریح کے لیے بھی بے حد اہم تھاکیونکہ یہی رومی قانون کے ہم تک پہنچنے کاایک اہم ذریعہ ہے۔ جسٹینین کی قانون سازی کو ما قبل قوانین کے متبادل کے طور پر مرتب کیاگیا تھا ،چاہے وہ رومی شہنشاہوں کےقوانین ہوں یا قاضیوں کی مرتب کردہ قانونی تحریریں ۔رومی قانون کی یہ ہی دو صورتیں تیسری صدی عیسوی تک باقی تھیں ۔ 34

مائیکل ہارٹ کے مطابق جسٹنین کا اصل کارنامہ رومی قانون کی ترتیب وتدوین تھا۔ 528 عیسوی میں (جب اسے برسراقتدار آئے سال بھر ہوا تھا) جسٹینین نے شاہی قوانین کی باضابطہ تشکیل کے لیے ایک کمیشن ترتیب دیا۔ کمیشن کا مسودہ پہلی مرتبہ529عیسوی میں شائع ہوا۔ پھر اس میں ترمیم کی گئی اور بالآخر534عیسوی میں اسے آئین کا درجہ ملا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ تمام قوانین اور ضوابط جو اس ضابطہ میں شامل نہیں تھے یک جنبش ِقلم منسوخ کردئے گئے تھے۔ یہ ضابطہ جسٹینین کے "کورپس جیورس سیویلس (Corpus Juris Civilis)" نامی قانون کا پہلا حصہ بنا۔ دوسرے حصہ کو پیڈیکٹ (Padect)یا ڈائجیسٹ(Digest)کہا جاتا ہے۔ یہ ممتاز رومی قانونی مصنفین کے نقطہ ہائے نظر کا ایک خلاصہ ہے اور اسے بھی مستند مانا گیاہے۔ تیسرا حصہ انسٹیٹیوٹ (Institute)کہلاتا ہے جو بنیادی طور پر قانون کے طالب علموں کے لیے نصابی حیثیت رکھتا ہے۔ آخری حصہ میں ان تمام قوانین کونوویلائے (Novellae)کے عنوان سے یکجا کیا گیا جو کوڈیکس (Codex)کی منظوری کے بعد جسٹینین نے وضع کیے تھے۔ یہ جسٹینین کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔35

قانون روما کے بعض تصورات عدل کے خلاف تھےبلکہ دنیا کا کوئی بھی متمدن نظام ان تصورات کو آج قبول نہیں کرتا۔ خودروما میں وہ تصورات آج ناقابل قبول ہیں۔ اہل روم کے امرا نے عوامی فلاح و بہبود کے بجائے اپنے مفاد کے لیےقوانین مرتب کیے اور لوگوں پر بے پناہ ظلم و ستم کیا۔ رومی عدالتوں میں انصاف کا دہرا معیار رائج ہونے اور دن بدن بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں کی وجہ سے انتظامی ڈھانچہ کمزرو ہوتا گیا۔سینٹ(Senate) کا ادارہ طاقتور اشرافیہ کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گیا ۔قانون اور مذہب کے تمام ذرائع اشرافیہ کے وقار میں اضافے کے لیےصرف ہونے لگے اور مال و دولت ہی اقتدار اور عزت کا پیمانہ رہ گئی تھی۔مال و دولت کی بدولت قانون ،حکومت ، اقتدار ، عزت اور مذہب سب خریدا جانے لگا تھا ۔36یوں نظام عدل ، قانون اور عدالتی نظام میں ہو نے والی خرابی پورے رومی معاشرے کے زوال کا سبب بنی۔

 


  • 1 ڈاکٹر محمود احمد غازی،محاضرات فقہ ،مطبوعہ: الفیصل ناشران ،لاہور، پاکستان، 2005ء، ص: 16-25
  • 2 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 1, Pg. 195.
  • 3 Paul Frederic Girard (1906), A Short History of Roman Law, Canada Law Book Company, Toronto, Canada, Pg. 6.
  • 4 Munroe Smith (1904), Columbia Law Review: Problems of Roman Legal History, Columbia Law Review Association Inc., New York, USA, Vol. 4, Pg. 523.
  • 5 Paul Frederic Girard (1906), A Short History of Roman Law, Canada Law Book Company, Toronto, Canada, Pg. 10.
  • 6 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 1, Pg. 195-196.
  • 7 Paul Erdkamp (2013), The Cambridge Companion to Ancient Rome, Cambridge University Press, Cambridge, U.K., Pg. 22.
  • 8 Numa Denis Fustel de Coulanges (2001), The Ancient City, Batoche Books, Ontario, Canada, Pg. 160-161.
  • 9 Paul Frederic Girard (1906), A Short History of Roman Law, Canada Law Book Company, Toronto, Canada, Pg. 7.
  • 10 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 1, Pg. 195.
  • 11 Paul Frederic Girard (1906), A Short History of Roman law, Canada Law book Company, Toronto, Canada, Pg. 51.
  • 12 Paul Frederic Girard (1906), A Short History of Roman law, Canada Law book Company, Toronto, Canada, Pg. 71-72.
  • 13 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 1, Pg. 196.
  • 14 Bruce W. Frier & Thomas AJ. McGinn (2004), A Casebook on Roman Family Law, Oxford University Press, Oxford, U.K., Pg. 4-5.
  • 15 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2004), Handbook to life in Ancient Rome, Facts on File Publishers, New York, USA, Pg. 48.
  • 16 Bruce W. Frier & Thomas A. J. McGinn (2004), A Casebook on Roman Family Law, Oxford University Press, Oxford, U.K., Pg. 457-459.
  • 17 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2004), Handbook to Life in Ancient Rome, Facts on File Publishers, New York, USA, Pg. 49.
  • 18 Bruce W. Frier & Thomas A. J. McGinn (2004), A Casebook on Roman Family Law, Oxford University Press, Oxford, U.K., Pg. 457-459.
  • 19 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 1, Pg. 197.
  • 20 Bruce W. Frier & Thomas AJ. McGinn (2004), A Casebook on Roman Family Law, Oxford University Press, Oxford, U.K., Pg. 457-459.
  • 21 Numa Denis Fustel de Coulanges (2001), The Ancient City, Batoche Books, Ontario, Canada, Pg. 156-157.
  • 22 Richard A. Bauman (1996), Crime and Punishment in Ancient Rome, Routledge, London, U.K., Pg. 9.
  • 23 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2004), Handbook to Life in Ancient Rome, Facts on File Publishers, New York, USA, Pg. 49.
  • 24 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 1, Pg. 196.
  • 25 Richard A. Bauman (1996), Crime and Punishment in Ancient Rome, Routledge, London, U.K., Pg. 6.
  • 26 Ibid, Pg. 13.
  • 27 J. C. Mckeown (2010), A Cabinet of Roman Curiosities, Oxford University Press Inc., Oxford, U.K., Pg. 50-51.
  • 28 Paul Frederic Girard (1906), A Short History of Roman Law, Canada Law Book Company, Toronto, Canada, Pg. 57.
  • 29 Nghiem L. Nguyen (2006), Michigan Journal of Gender and Law: Roman Rape: An Overview of Roman Rape Laws from the Republican Period to Justinian’s Reign, University of Michigan, Michigan, USA, Vol. 13, Issue: 1, Pg. 84-85.
  • 30 Ibid, Pg. 85-86.
  • 31 J. C. Mckeown (2010), A Cabinet of Roman Curiosities, Oxford University Press Inc., Oxford, U.K., Pg. 55.
  • 32 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster Macmillan, New York, USA, Vol. 1, Pg. 197.
  • 33 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/biography/Justinian-I: Retreived: 28-05-2018
  • 34 O.F. Robinson (2006), The Sources of Roman Law: Problems and Methods for Ancient Historians, Routledge, London, U.K., Pg. 20.
  • 35 مائیکل ہارٹ،سو عظیم آدمی (مترجم: محمد عاصم بٹ)،مطبوعہ: تخلیقات،لاہور، پاکستان، 1998ء، ص:497-500
  • 36 Ciprian Rotaru, Dumitru Alexandru Bodislav & Raluca Georgescu (2016), Theoretical and Applied Economics: A Review of Corruption based on the Social and Economic Evolution of Ancient Greece and Ancient Rome, General Association of Economists from Romania, Bucharest, Romania, Vol. 23, No. 2, Pg. 243.