Encyclopedia of Muhammad
پیدائش 605 عیسوی وفات 41 ہجری والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ والدہ زینب بنت مظعون رضی اللہ عنھاشوہر (۱)حضرت خنیس ابن حذافہ رضی اللہ عنہ (شہید) (۲)رسول اللہ ﷺلقب: ام المؤمنینقبیلہ: قریشمزار مبارک جنت البقیع

Languages

EnglishPortuguese

حضرت حفصہ بنت عمر

حضرت حفصہ بنت عمر اعلان نبوت سے پانچ سال قبل 605 ہجری میں پیدا ہوئیں۔ آپ حضرت عمر بن خطاب اور زینب بنت مظعون کے گھر پیدا ہوئی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب بیت اللہ کی دوبارہ تعمیر کی جارہی تھی۔ 1 آپ قرآن حفظ کرنے اور اسے یاد کرنے کے حوالے سے جانی جاتی تھیں۔

نسب

حضرت حفصہ کا نسب یہ ہے، حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباع بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب القریش۔ 2 والدہ کا نام زینب بنت مظعون بن حبیب بن وھب بن حذافہ بن جمح تھا۔ آپ عثمان بن مظعون کی بہن تھیں۔ 3

حرم نبوی ﷺ میں داخلےسے قبل زندگی

حضرت حفصہ نے حضرت عمر کے بابرکت گھر میں پرورش پائی ۔ ابتدا میں آپ کا نکاح حضرت خنیس ابن حذافہ بن قیس بن سعد السہمی سے ہوا تھا۔ حضرت خسیس کا شمار ان مسلمانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حبشہ ہجرت فرمائی تھی اور بعد ازاں مدینہ ہجرت کی تھی۔ 4 آپ نے جنگ بدر میں بھی شرکت فرمائی تھی۔ اس جنگ میں آپ کو بہت زخم آئے جن کی تاب نہ لاکر بالآخر آپ ہجرت کے تیسرے سال انتقال فرماگئے تھے۔ 5 یوں حضرت حفصہ 18 سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد آپ نے بہت دکھ جھیلے۔

حرم نبوی ﷺ میں داخلہ

حضرت عمر کو ان کے بیوہ ہونے کا بہت غم تھا اور وہ اپنی بیٹی کو اس حالت میں نہیں دیکھ پارہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی کے لیے اچھے شوہر کی تلاش کی جائےتاکہ ان کی بیٹی کے چہرے پر دوبارہ خوشی نمودار ہوجائے۔ انہوں نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ آپ میری بیٹی سے نکاہ کریں لیکن یہ سن کر حضرت ابو بکر خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر حضرت عثمان غنی کے پاس گئے اور ان سے اپنی بیٹی کے رشتہ کی بات کی۔ کچھ دن تامل کے بعد حضرت عثمان نے بھی نفی میں جواب دیا۔ 6 حضرت عمر اس وجہ سے بہت غصہ میں آگئے اور شکایت لے کر حضور کی بارگاہ عالیہ میں پہنچ گئے۔ حضور نے آپ کی شکایت سنی اور یہ خوشخبری سنائی۔

  قد زوج اللّٰه عثمان خيرا من ابنتك وزوج ابنتك خيرا من عثمان. 7
  تحقیق اللہ تعالیٰ نے عثمان کا نکاح تمہاری بیٹی سے بہتر عورت سے طے کیا ہے اور تمہاری بیٹی کا نکاح عثمان سے بہتر شخص سے طے کیاہے۔

حضور کی جانب سے یہ خوشخبری سننے کےبعد حضرت عمر نے جان لیا کہ حضور حضرت حفصہ نے نکاح فرمائیں گے۔ حضرت عمر یہ سن کر بہت زیادہ خوش ہوئے کیونکہ آپ سے بہتر کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو حضرت حفصہ نے نکاح کرے۔ اس خوشخبری کو سننے کے بعد حضرت عمر خوشخبری سنانے فوراً گھر گئے اور اپنی بیٹی کو یہ اچھی خبر سنائی، ساتھ ہی ساتھ پورے مدینے والوں کو بھی یہ خوشخبری سنائی۔ راستے میں حضرت ابو بکر سے ملاقات ہوئی۔ان سے جو کلام ہوا وہ نیچے بیان کیا گیا ہے:

  ...فلقيني أبو بكر، فقال: لعلك وجدت علي حين عرضت علي حفصة فلم أرجع إليك شيئا؟ قال عمر: قلت: نعم، قال أبو بكر: فإنه لم يمنعني أن أرجع إليك فيما عرضت علي، إلا أني كنت علمت أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قد ذكرها، فلم أكن لأفشي سر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ولو تركها رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قبلتها. 8
  میری ملاقات حضرت ابو بکر سے ہوئی تو انہوں نے کہا:چونکہ آپ مجھ سے ناراض ہوئے جب آپ نے مجھے حفصہ سے نکاح کے لیے کہا اور میں نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا؟ میں نے کہا: ہاں۔ ابو بکر نے فرمایا: مجھے تمہاری پیشکش سے کسی چیز نے نہیں روکا سوائے اس چیز کے کہ مجھے معلوم تھا کہ حضور نے مجھے ان کے متعلق آگاہ کیا تھا، اور میں اللہ کے رسول کا راز کسی طور پر بھی افشا نہیں کرسکتا ۔ اور اگر رسول اللہ ایسا نہیں کرتے تو میں ضرور آپ کی پیشکش کو قبول کرلیتا۔

اس کے بعد حضور نے حضرت عائشہ سے نکاح کے بعد شعبان کے مہینے میں 9 حضرت حفصہ سے نکاح کرلیا۔ 10 آپ کا مہر 400 چاندی کے درہم تھے۔ 11 اس طرح آپ حضور کے گھرانے میں داخل ہوگئیں یہ جانتے ہوئے کہ آپ کی پہلے ہی دو ازواج مطہرات حضرت عائشہ اور حضرت سودہ موجود ہیں۔ حضرت سودہ نے حضرت حفصہ کو خوش آمدید کہا جبکہ حضرت عائشہ کو انہیں قبول کرنے میں کچھ وقت لگا جو بعد میں بہت اچھی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔

حضرت حفصہ کی حفاظت قرآن کے لیے خدمات

حضرت حفصہ کا زیادہ تر وقت اللہ کی عبادت اور گناہوں کی معافی مانگنے میں گزرتا تھا۔ حضور کے پردہ فرماجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام ازواج مطہرات میں سے آپ ہی کو حفاظت قرآن کا اعزاز عطا فرمایا تھا۔

قرآن مجید کا متن حضرت ابو بکر نے ترتیب دیا تھا تو وہ حضرت عمر کے انتقال فرمانے کے بعد حضرت حفصہ کی نگرانی میں آگیا تھا۔ 12 13 حضرت عثمان نے اپنے دور خلافت میں ان سے قرآن مجید کے متن کو طلب فرمایا اور وعدہ کیا کہ ان کی نقول بناکر قرآن آپ کو واپس کردیا جائے گا۔ حضرت حفصہ نے قرآن کا متن حضرت عثمان کو بھجوایا جنہوں نے ان کی اسی طرح کی نقول بنوائیں اور ان نقول کو مسلمان حاکموں کو بھجوادیا۔ 14 حضرت حفصہ نہ صرف قرآن مجید کا متن اپنے پاس سنبھال کر رکھا بلکہ اسے حفظ بھی فرمالیا تھا۔

رحلت

حضرت حفصہ نے اپنی زندگی روزہ رکھنے اور اللہ کی عبادت میں گزاری۔ آپ حضرت امیر معاویہ کے دور حکومت کی ابتدا میں اس دنیا سے تشریف لے گئیں، یہ 41 ہجری کا دور تھا۔15 آپ کو دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔

 


  • 1 محمد ابن یوسف السھیلی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-11، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص:184
  • 2 محمد ابن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:65
  • 3 احمد ابن یحیی بن جابر ابن داؤد البلاذری، جمل من انساب الاشرف، ج-1، مطبوعۃ:دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص:422
  • 4 ابو الفدا احمد ابن علی العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:291
  • 5 عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ:مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:291
  • 6 ابو حاتم محمد ابن حبان التمیمی الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث-4039، ج-9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:347
  • 7 محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:66
  • 8 محمد ابن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 5122، مطبوعۃ: دار السلام، ریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:915-916
  • 9 محمد ابن یوسف السھیلی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-11، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993م، ص:184
  • 10 محمد ابن اسحاق الیسار المدنی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:280
  • 11 عبدالرحمن ابن عبداللہ السھیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، ج-7، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:562
  • 12 سلیمان ابن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 4901، ، ج-5، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ،القاھرۃ، مصر، 1994م، ص:146
  • 13 محمد ابن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4679، مطبوعۃ: دار السلام، ریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:804
  • 14 ابو حاتم محمد ابن حبان التمیمی الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث-4506، ج-10، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:361
  • 15 عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ:مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:64