Encyclopedia of Muhammad
تاریخ پیدائش: 580/596 عیسوی رحلت: 61 ہجری. والد: ابو امیہ سہیل بن المغیرہ والدہ: اتکہ بنت عامر شوہر: (۱)عبداللہ بن عبدالاسد (ابو سلمہ) رضی اللہ عنھ (۲) رسول اللہ ﷺ اولاد: سلمہ عمر رضی اللہ عنھ زینب رضی اللہ عنھا رقیہ (درّہ) رضی اللہ عنھا لقب : ام المؤمنین قبیلہ: بنو مغیرہ مزار مبارک: جنت البقیع

Languages

English

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ

حضرت ام سلمہ حضور کی زوجۂ محترمہ تھیں۔ آپ کا اصل نام ہند بنت ابی امیۃ تھا جبکہ ام سلمہ آپ کی کنیت تھی اور اسی سے آپ مشہورہوئیں۔ حضرت ابو عمر کے مطابق آپ کا اصل نام رملہ تھا 1 لیکن کثیر علماء کے اقوال کی روشنی میں یہی معلوم ہوتاہے کہ آپ کا نام ہند تھا۔ 2 اس کے علاوہ حضرت خالد بن ولید آپ کے کی چچا زاد بھائی تھے۔ 3 آپ کثیر احادیث مبارکہ کی راویہ بھی ہیں۔

نسب

حضرت ام سلمہ کا نسب یہ ہے، ہند بنت ابی امیہ سہیل بن المغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم۔4آپ کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ تھا۔ 5 آپ کے والد مکہ کے مشہور مخیر اور فیاض انسان تھے اور زاد الراکب کے لقب سے مشہور تھے۔ 6 آپ کے والد کی عادت تھی کہ اپنے ساتھ سفر کرنے والے کاروان کو اپنے مال سے کھانا کھلاتے تھے ۔ 7

حرم نبوی ﷺ میں داخلے سے قبل زندگی

حضور کے گھرانے میں داخل ہونے سے پہلے حضرت ام سلمہ ابو سلمہ کے نکاح میں تھیں جن کا اصل نام عبداللہ بن عبدالاسد تھا جن کا تعلق قبیلۂ بنو ہلال سے تھا۔8 حضور اور ابو سلمہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے کیونکہ دونوں کی رضاعی والدہ حضرت ثوبیہ تھیں۔ 9

اپنے عالی نسب کے علاوہ حضرت ام سلمہ اور ابو سلمہ ان مسلمانوں میں شامل ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ 10 11 ان سے قبل صرف حضرت ابو بکر ، حضرت علی اور کچھ دیگر افراد مسلمان ہوئے تھے۔ جب دونوں نے اسلام قبول کیا تو قریش مکہ نےانہیں تکالیف پہنچانی شروع کردیں لیکن آپ دونوں استقامت کے ساتھ دین اسلام پر قائم رہے۔حضور کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ دونوں نے حبشہ ہجرت فرمائی۔ 12 13 جب آپ دونوں کو معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ میں معاملات بہتر ہوگئے ہیں تو آپ دونوں مکہ مکرمہ واپس آگئے لیکن جیسے ہی آپ دونوں مکہ مکرمہ واپس پہنچے تو قریش کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ایذا رسانی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب ان کے مظالم حد سے بڑھنے لگے تو دونوں نے مدینہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔کچھ لوگوں کو ان کی ہجرت کی خبر پہنچ گئی تو وہ رکاوٹیں ڈالنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ چنانچہ ام سلمہ کے قبیلے بنو مغیرہ کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کردیا اور ابو سلمہ سے اونٹ کی لگام کھینچ لی اور ام سلمہ کو زبردستی واپس قبیلے جانے پر زور دیا۔ اسی کشمکش میں ابو سلمہ کے قبیلے بنو اسد نے ان کے بیٹے سلمہ کو اپنے قبضہ میں کرلیا اور بنو مغیرہ سے کہنے لگے کہ اگر تم نے ان دونوں میاں بیوی کو جدا کرنے کی کوشش کی تو ان کا بیٹا تمہیں لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی ہاتھا پائی میں ان کے بیٹے سلمہ کے ہاتھ کا جوڑ الگ ہوگیا تھالیکن اس کے باوجود بنو اسد سلمہ کو لے گئے۔ 14 حضرت ام سلمہ کو ان کے قبیلے والے لے گئے اور حضرت ابو سلمہ حضور کے پاس مدینے پہنچ گئے۔ مشرکین مکہ نے ان کا پورا خاندان منتشر کردیا تھا ۔حضرت ام سلمہ اپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی کے غم میں نڈھال ہوگئیں۔وہ روزانہ الابطح کے مقام پر جاتیں اور اپنے شوہر اور بیٹے کی جدائی میں صبح سے شام تک روتی رہتیں اور اللہ سے اپنی فریاد کرتی رہتیں۔ اسی عالم میں پورا ایک سال گزرگیا۔ 15 ایک دن حضرت ام سلمہ کے خاندان میں سے کسی نے ان کو روتے ہوئے دیکھا اور اسے قبیلے کی جانب سے کیے گئے ظلم کا احساس ہوا، اس نے فیصلہ کیا کہ انہیں ان کے شوہر کے پاس جانے دیا جائے۔ اس نے قبیلے والوں سے بات کی اور انہیں ان کے جانے پر راضی کولیا۔ جب بنو اسد کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے مثبت قدم اٹھایا اور حضرت ام سلمہ کے بیٹے سلمہ کو ان کے حوالے کردیا۔ حضرت ام سلمہ بہت خوش ہوئیں اور فوراً ایک اونٹ تیار کیا تاکہ جلد سے جلد اپنے شوہر کے پاس مدینہ منورہ پہنچ سکیں۔آپ نے اپنے بیٹے کو گود میں بٹھایا اور مدینے کی جانب روانہ ہوگئیں۔جب آپ مکہ مکرمہ کے مقام التنعیم پہنچیں تو وہاں آپ کی ملاقات عثمان ابن ابی طلحہٰ سے ہوئی جو اس وقت ایمان نہیں لائے تھے۔عثمان نے ان کی مدد کرتے ہوئے مدینے کی جانب رہنمائی فرمائی۔ جب یہ دونوں قبا پہنچے تو عثمان نے ان سے کہا: آپ کے شوہر اس گاؤں میں ہیں اور یہ کہہ کر مکہ مکرمہ کی جانب لوٹ گئے۔ حضرت ام سلمہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس گاؤں پہنچیں اور بالآخر ایک سال بعد آپ اپنے شوہر سے دوبارہ مل گئیں۔ 16 17 وہ اپنی نیک سیرت بیوی اور بچے کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگئے۔

حضرت ام سلمہ حبشہ ہجرت کرنے والی اور مدینہ ہجرت کرنے والی پہلی خاتوں صحابیہ تھیں۔ 18 حضرت ام سلمہ کے ابو سلمہ سے چار بچے ہوئے جن کے نام سلمہ ، عمر ، زینت اور درہ ہیں، 19 بعض روایات کے مطابق درہ کا اصل نام رقیہ تھا۔ 20

ابو سلمہ کا شمار ان صحابیوں میں ہوتا ہے جو جنگ بدر میں بہادری کے ساتھ کفار مکہ سے لڑے جس میں اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان فتح یاب ہوئے۔ اس کے بعد ابوسلمہ نے جنگ احد میں بھی شرکت فرمائی 21 اور بہادری کے جوہر دکھائے، لیکن اس جنگ میں انہیں بہت زخم بھی آئے۔ 22 انہوں نے اپنے زخموں کی بہت دیکھ بھال کی اور دو مہینے کے عرصے میں آپ دوبارہ صحت مند ہوگئے اور اگلی جنگ میں اللہ کی راہ میں لڑنےکے لیے تیار ہوگئے۔ 4ہجری صفر کے مہینے میں حضور نے 150 صحابہ کرام کی جماعت کے ساتھ قبیلۂ بنو اسد سے جنگ کرنے کے لیے ابو سلمہ کو سپہ سالار بنایا 23 کیونکہ قبیلۂ بنو اسد دوسرے کفارکے ساتھ مدینہ منورہ میں حضور کو معاذ اللہ شہید کرنے کی تک و دو میں لگے ہوئے تھے۔

حضرت ابو سلمہ بہت بہادری سے لڑے اور اللہ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ کامیاب و کامران ہوکر آپ اپنے گھر لوٹے لیکن معرکہ آرائی کے دوران ان کے زخم دوبارہ تازے ہوگئے تھے 24 جن سے انہیں دوبارہ تکلیف شروع ہوگئی تھی، آخر کار زخموں کی تاب نہ لاکر آپ شہید ہوگئے اور اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ 25 آخر وقت میں حضور آپ کے بالکل قریب موجود تھے، حضور ابو سلمہ سے بہت محبت فرماتے تھے۔ حضور نے ابو سلمہ کی روح نکل جانے کے بعد اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھوں کو بند کیا۔ 26 اس کے بعد آپ نے اس طرح ارشاد فرمایا:

  إن الروح إذا قبض تبعه البصر، فضج ناس من أهله، فقال: لا تدعوا على أنفسكم إلا بخير، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون، ثم قال: اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين، واخلفه في عقبه في الغابرين، واغفر لنا وله يا رب العالمين، وافسح له في قبره، ونور له فيه. 27
  جب جان نکلتی ہے تو آنکھیں اس کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔" اور لوگوں نے ان کے گھر میں رونا شروع کر دیا تو آپ نے فرمایا: "اپنے لیےاچھی ہی دعا کرو اس لیےکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔" پھر آپ نے دعا کی "یا اللہ! ابوسلمہ کو بخش دے اور ہدایت والوں میں ان کا درجہ بلند فرما، تو ان کے باقی رہنے والے عزیزوں میں خلیفہ ہو جا اور ہمیں اور ان کو بخش دے اے تمام عالم کے پالنے والے، اور ان کے لیے قبر میں کشادگی فرما اور اس میں روشنی کر ۔

حرم نبویﷺ میں داخلہ

روایتوں میں موجود ہے کہ جب حضرت ام سلمہ کا نکاح حضرت ابو سلمہ سے ہورہا تھا تو انہوں نے آپس میں عہد کیا تھا کہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی پہلے اس دنیا سے چلا گیا تو دوسرا شخص دوبارہ نکاح نہیں کرے گا۔ اس عہد کے باوجود ابو سلمہ نے حضرت ام سلمہ کو تاکید کی کہ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد تم ضرور نکاح کرلینا۔ اس کے بعد آپ نے دعا کی: اے اللہ! انہیں مجھ سے اچھا شوہر عنایت فرماجو انہیں رنج و تکلیف نہ دے۔ 28 جب حضرت ابو سلمہ شہید ہوگئے تو حضرت ام سلمہ نے اپنے شوہر کی بتائی ہوئی دعا دوبارہ مانگی۔ جب آپ کی عدت مکمل ہوگئی تو حضرت ابو بکر نے انہیں پیغام نکاح پہنچایاتا کہ حضرت ابو سلمہ کی اولاد کی پرورش اپنے ذمہ لے لیں، لیکن حضرت ام سلمہ نے حضرت ابو بکر صدیق کو نفی میں جواب دیا۔ 29 ان کے بعد آپ کو حضرت عمر بن خطاب نے نکاح کا پیغام بھجوایا لیکن آپ نے انہیں بھی نفی میں جواب دیا۔ 30

اس کے بعد حضور نے بذات خو د حضرت ام سلمہ کو نکاح کا پیغام بھجوایا۔ آپ بہت خوش ہوئیں اور کہا مرحباً برسول اللہ ﷺ۔لیکن بارگاہ رسالت کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے آپ نے مناسب سمجھا کہ حضور کے سامنے کچھ گزارشات پیش کی جائیں۔ چنانچہ حضرت سلمہ نے حضور کی خدمت میں پہنچایا کہ میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہوں اور میری جوان اولاد ہے۔ اس کے علاوہ مزید یہ کہ میں بہت زیادہ غیرت کھانے والی خاتون ہوں۔ 31 اس کے جواب میں حضور نے ارشاد فرمایا: جہاں تک آپ کی عمر کا سوال ہے، میری عمر آپ سے زیادہ ہے، اور جہاں تک بچوں کا تعلق ہے، اللہ اور اس کا رسول ان کی دیکھ بھال فرمائے گا، اور جہاں تک غیرت کھانے کی بات ہے، میری دعا ہے کہ اللہ آپ سے اس کو دور فرمادے۔32

اس پیغام کے بعد حضرت ام سلمہ نے حضور کا پیغام نکاح قبول کیا اور شوال کے مہینے میں آپ کا نکاح ہوگیا۔33 مہر کی صورت میں آپ کو چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک گھڑا اور دو چکیاں عنایت فرمائیں۔ 34 اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہ کے حق میں حضور کی دعا قبول فرمائی اور ان کے دل میں دیگر ازواج مطہرات سے مزید الفت پیدا فرمادی۔ آپ حضور کے کاشانۂ اقدس میں نہایت آ رام و سکون سے رہنے لگیں اور آپ کی بیٹی حضور کی نگہبانی میں پرورش پانے لگیں۔

6 ہجری میں حضرت ام سلمہ حضور کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرنے گئیں جن میں دیگر صحابۂ کرام بھی شامل تھے۔ لیکن راستے میں مشرکین مکہ نے حضور کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیا، مشرکین مکہ نے کہا کہ مسلمان اس سال اور اگلے سال عمرہ نہیں کریں گے۔ حضرت ام سلمہ نے اس موقع پر بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب حضور نے اپنی اصحاب سے فرمایا کہ اپنے جانوروں کو ذبح کرو اور سر سے بالوں کو اتار لو توبعض اصحاب تذبذت کا شکار ہوگئے اور فیصلے پر عمل کرنے میں شش و پنج میں مبتلا ہوگئے۔ یہ بات حضور نے اپنی زوجۂ محترمہ حضرت ام سلمہ نے کہی جس پر آپ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ! انہیں معاف فرمادیجیے۔ آپ کسی کچھ کلام نہیں فرمائیں جب تک آپ اپنا اونٹ ذبح نہ فرمادیں اور حجام سے اپنے بال نہ ہٹوالیں۔35

رحمت کونین کو حضرت ام سلمہ کی تجویز پسند آئی، آپ باہرتشریف لائے اور کسی سے کلام لیے بغیر اپنا جانور قربان کیا اور سر مبارک سے بال اتروالیے۔ جب مسلمانوں نے حضور کا یہ عمل دیکھا تو انہوں نے بھی فوراً اپنے اپنے جانور قربان کرنا شروع کردیے اور اپنے سرمنڈوالیے۔ 36 تمام اصحاب رسول کو یہ احساس ہوگیا کہ جو حکم حضور نے ارشاد فرمادیا وہ ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ یہی وہ طرز عمل تھا کہ قریش مکہ بھی کئی سال جنگ و جدال کرنے کے بعد اسلام کی حقانیت کو پہچان گئے اور ترویج اسلام کے لیے اپنی تمام رکاوٹیں ختم کردیں۔جس کے بعد اسلام نہ صرف پورے عرب میں بلکہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔

حضرت ام سلمہ نے اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی اپنی دانش مندی کا ثبوت پیش کیا۔ جنگ جمل میں بھی آپ نے امہات المؤمنین کی شرکت کے خلاف آواز اٹھائی اور کہا کہ امہات المومنین کو کسی بھی ایسے معاملے کے دور رہنا چاہیے جس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچے۔

رحلت

حضرت ام سلمہ نے طویل عمر پائی۔ 61 ہجری میں آپ اس دنیا سے تشریف لے گئیں۔ 37 آپ کا انتقال تمام امہات المؤمنین میں سب سے آخر میں ہوا تھا۔حضرت ابو ہریرہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دیگر ازواج مطہرات کے مزارات ساتھ آپ کو دفن کیا گیا۔38

 


  • 1 أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 2 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 3 أبو عبد الله شمس الدين الذهبي، سير أعلام النبلاء، ج-3، مطبوعۃ: دارالحدیث، القاھرۃ، مصر، 2006م، ص: 467
  • 4 عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 322
  • 5 أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 429
  • 6 عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:326
  • 7 أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 8 أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 9 ابو عبداللہ محمد بن ابو بکر ابن قیم الجوزی، زاد المعاد، ج-1، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص: 81
  • 10 محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 181
  • 11 أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 131
  • 12 محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 69
  • 13 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 14 أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 257
  • 15 أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 404
  • 16 أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 258
  • 17 ابوالفدا اسماعیل ابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-2، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطبعۃ والنشر والتوضیع، بیروت، لبنان، 1976م، ص: 216-217
  • 18 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 187
  • 19 عز الدین علی ابن محمد الشیبانی ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: مکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص:326
  • 20 عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شرکۃ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 645
  • 21 أحمد بن يحي بن جابر بن داؤد البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1996م، ص: 207
  • 22 ابو عبداللہ محمد بن عمر الواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دار الأعلمي، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 340
  • 23 محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 182
  • 24 ابو الفدااسماعيل ابن كثير الدمشقي، السیرۃ النبویۃ لابن كثير، ج-3، مطبوعۃ: دار المعرفة للطبعة والنشر والتوضيع، بیروت، لبنان، 1976م، ص: 121
  • 25 حافظ الذھبی، السیرۃ النبویۃ من كتاب تاريخ الاسلام، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 404
  • 26 محمد ابن سعد البصری، طبقات الکبری، ج-3، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 182
  • 27 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حديث: 2130، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:370
  • 28 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 189
  • 29 ابو الفضل احمد بن علی العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 405
  • 30 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 188
  • 31 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 282
  • 32 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 188
  • 33 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 283
  • 34 عبدالملک ابن ھشام، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شرکہ مکتبۃ و مطبع مصطفی البابی، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 645
  • 35 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 191
  • 36 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-11، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1993م، ص: 191
  • 37 ابو عبداللہ شمس الدین الذھبی، سیر الاعلام النبلاء، ج-3، مطبوعۃ: دارالحدیث، القاھرۃ، مصر، 2006م، ص: 467-472
  • 38 محمد بن حبیب البغدادی، المخبر، مطبوعۃ: دارالآفاق، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 85