Encyclopedia of Muhammad
پیدائش 555 عیسوی وفات 619 عیسوی عمر 65 سال والد خویلد بن اسد والدہ فاطمہ بنت زیدشوہر عتیق ابن عابد المخزومی (علیحدگی ہوئی) ابو ہالہ بن زرارہ التمیمی(علیحدگی ہوئی) رسول اللہ ﷺاولاد ہند قاسم رضی اللہ عنہ طاہر رضی اللہ عنہ طیب رضی اللہ عنہ رقیہ رضی اللہ عنہا ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہالقب: ام المؤمنینقبیلہ: قریشمزار مبارک جنت المعلیٰ

Languages

Chinese 中文 Portuguese Hindi Dutch English

حضرت خدیجہ بنت خویلد

حضرت خدیجہ بنت خویلد ایک عقل مند اور بردبار خاتون تھیں۔ وہ نسب میں اعلی، شرافت میں ارفع اور معاشی طور پر مالدار اور خود کفیل تھیں۔ وہ مکہ مکرمہ میں عام الفیل (ہاتھی کا سال) سے تقریباً 15 سال پہلے پیدا ہوئیں۔ 1 ان کا خاندان علاقے کے دیگر خاندانوں سے زیادہ معزز اور محترم سمجھا جاتا تھا۔ جب نبی کریم کی عمرمبارک 25 سال ہوئی تو آپ نے حضرت خدیجہ بنت خویلد سے نکاح فرمایا جو اس وقت 40 سال کی تھیں۔ 2 یہ رسول اللہ کی پہلی شادی تھی اور جب تک حضرت خدیجہ بنت خویلد زندہ رہیں تب تک آپ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔ 3 آپ اور حضرت خدیجہ بنت خویلد کی اس ازدواجی زندگی کو دنیا بھر کے تمام شادی شدہ جوڑوں کے لیے ایک مثالی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

پورا نام و نسب

آپ کا پورا نام خدیجہ بنتِ خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہرتھا۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا جو زید بن الاصم بن رواحہ بن حجربن عبد بن معیس بن عامر بن لوی کی بیٹی تھیں۔ 5

حضور ﷺ سے ماقبل کے نکاح

حضرت خدیجہ بنت خویلد کی شادی سب سے پہلے عتیق بن عابد بن عبداللہ مخزومی سے ہوئی اور ان کی وفات کے بعد ان کی شادی ابو ہالہ بن زرارہ بن نباش بن عدی بن حبيب بن صرد بن سلالہ بن جروہ بن أسيد بن عمرو بن تميم التميمی سے ہوئی۔ 6 ان کا ایک بیٹا ہند بن ابی ہالہ تھا۔ 7 ہند بن ابی ہالہ کی پرورش رسول اللہ اور حضرت خدیجہ نے فرمائی۔ وہ مسلمان ہوئے اور غزوۂ بدر اور احد میں رسول اللہ کے شانہ بشانہ لڑے۔ 8

اسی طرح عتیق بن عابد مخزومی سے حضرت خدیجہ کی ایک بیٹی ہوئی تھیں جس كی وجہ سے آپ امّ ہند کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ 9 جب آپ کے دوسرے شوہر یعنی ابو ہالہ بن زرارة کا وصال ہوا اور آپ کی عدت پوری ہوگئی تو آپ کو اشرافیہ اور قبیلے کی مشہور شخصیات کی طرف سے شادی کے پیغامات بھیجے گئے کیونکہ ہر کوئی آپ کی عزت اور شرف کی وجہ سے نکاح کا خواست گار تھا۔ 10

حضرت خدیجہ بنت خویلد ان عورتوں میں سے تھیں جو اپنے نسب، عزت، وقار، کردار، دولت، حسن سلوک، سخاوت اور کاروبار کی وجہ سے مشہور تھیں۔ 11 اگرچہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں اور پرورش پائی جو شرک سے دوچار تھا لیکن آپ نے ہمیشہ شرک اور دیگرغیر اخلاقی کاموں سے پرہیز کیا کیونکہ آپ کے چچا ورقہ بن نوفل شرک کے منکراور موحد تھے۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھیں کہ بنو اسماعیل کی اولاد میں سے ایک نبی آنے والا ہے کیونکہ انہیں ورقہ بن نوفل نے یہ اطلاع دی تھی۔ 12

کاروباری معاملات

حضرت خدیجہ کو اپنے والدین کی طرف سے اور بعد میں مرحوم شوہر کی وراثت میں سے بڑاحصہ ملا تھا جسے آپ نے مختلف کاروبار میں لگایا۔ بحیثیت عورت کے کیونکہ وہ تجارتی قافلوں کے ساتھ خود سفر نہیں کر سکتی تھیں، اس لیے وہ ربّ المال کی حیثیت سے کاروباری منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ 13 اس دور میں یمن اور شام اہل عرب کے بڑے تجارتی مراکز تھے اورموسم گرما میں عرب کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے جبکہ موسم سرما میں یمن کی طرف جاتے تھے۔ 14 حضرت خدیجہ ان تجارتی قافلوں میں سرمایہ کاری کیا کرتی تھیں اور اپنے مال کو کسی مضارب کے ذریعے دوسرے شہر میں فروخت کرکے وہاں سے مال بھی منگوایا کرتی تھیں جس سے ان کو اچھا منافع ملا کرتا تھا۔

حضرت محمد ﷺ سے نکاح

جب نبی کریم شام سے حضرت خدیجہ کے تجارتی قافلے کو منافع کے ساتھ لے کر لوٹے تو حضرت خدیجہ بہت خوش ہوئیں۔ جب ان کے غلام نے نبی کریم کے محاسن کے حوالے سے تفصیلات ذکر کیں تو حضرت خدیجہ نے آپ کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس حوالے سے بہت سی غیر مناسب روایات بھی منقول ہیں جن کا تدارک ضروری ہے۔ ایک روایت کے مطابق نبی اکرم نے حضرت خدیجہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے اور بعد میں اس شرط پر نکاح فرمانا قبول کرلیا کہ حضرت خدیجہ شادی کے تمام اخراجات کی ادائیگی کریں گی۔ محمد بن سعد بیان کرتے ہیں:

  عن نفيسة بنت منية قالت:. فأرسلتني دسيسا إلى محمد بعد أن رجع في عيرها من الشام. فقلت: يا محمد ما يمنعك أن تزوج؟ فقال: ما بيدي ما أتزوج به. قلت: فإن كفيت ذلك ودعيت إلى الجمال والمال والشرف والكفاءة ألا تجيب؟ قال: فمن هي؟ قلت: خديجة. قال: وكيف لي بذلك؟ قالت قلت: علي. قال: فأنا أفعل. فذهبت فأخبرتھا. فأرسلت إليه أن ائت لساعة كذا وكذا 16
  نفیسہ بنت منیہ () بیان کرتی ہیں کہ: حضرت خدیجہ نے مجھے خفیہ طور پر محمد کے پاس بھیجا جب وہ شام سے اپنے تجارتی سفر کے بعد واپس آئے۔ میں (نفیسہ ) نے کہا: اے محمد ()! آپ کو شادی سے کیا چیز روکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس نکاح کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ میں (نفیسہ ) نے کہا: اگر آپ () کو وافر وسائل میسرآجائیں اور آپ ( )کو خوبصورتی، دولت، عزت اور مساوی حیثیت کی (کسی خاتون) کی طرف سے پیغام ملے تو کیا آپ () اسےقبول کریں گے؟ آپ ()نے پوچھا: وہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: خدیجہ ( )۔ آپ () نے پوچھا: یہ کیسے ممکن ہوگا؟ میں نے کہا: میں اس کا انتظام کروں گی۔ آپ ()نےفرمایا: پھر میں راضی ہوں۔ چنانچہ انہوں نے جاکر خدیجہ ( ) کو اس کی خبر دی۔

کئی محدثین و معتبر سیرت نگاروں کی یہ رائے ہے کہ شام سے واپسی کا یہ سفر نبی کا پہلا تجارتی سفر نہیں تھا۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

  كنت ارعاها على قراريط لأهل مكة. 17
  میں قراریط پر اہل مکہ کے لئے (بھیڑبکریاں) چرایا کرتا تھا۔

ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں یہاں قراریط کے معنی میں دو احتمالات موجود ہیں: ایک تو یہ مکہ کے پاس موجود جگہ کا نام تھا دوسرا اس سے مراد قراط (مخصوص زر مبادلہ) کی جمع بھی ہوسکتی ہے 18 گویا آپ شام کے اس تجارتی قافلے پر جانے سے پہلے بھی اہل مکہ کی بھیڑ بکریاں چَرا کر اپنے لئے مال و اسباب کمایا کرتے تھے۔ اکبر شاہ نجیب آبادی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ مختلف تجارتی قافلوں کے ساتھ اپنا سامان لے کر جایا کرتے تھے اور کافی منافع لے کر واپس آتے تھے۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ حضرت خدیجہ کے تجارتی قافلوں کو بحرین، یمن اور شام لے کرگئے اور ہر بار منافع لے کر لوٹے۔ 19 ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ نے رسول اللہ کو دوسرے تاجروں کے مقابلے میں بہتر تجارتی شرائط پیش کیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مضاربت میں رسول اللہ نے دیگر تجّار کی بنسبت اچھا منافع کمایا۔ یہ تمام روایات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم اگرچہ حضرت خدیجہ کی طرح دولت مند نہیں تھے، لیکن ان کے پاس اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کافی ذرائع تھے۔ مزید برآں ابن ہشام کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ نے حضرت خدیجہ سے شادی کی تو آپ نے انہیں 20 جوان اونٹ مہر کے طور پر دیے جن کی قیمت ان دنوں بہت زیادہ تھی۔ 20 امام دولابی کا ایک اور اقتباس جو زرقانی نے درج کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت خدیجہ کو 12 اوقیہ چاندی دی اور ہر اوقیہ 40 درہم کے برابر تھا۔ 21 ایک درہم تقریباً 3 گرام کے برابر ہے یعنی آپ نے انہیں 1500 گرام چاندی دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے پاس شادی کرنے اور خاندان کی کفالت کا ذریعہ موجود تھا اورآپ کسی اور پر منحصر نہیں تھے لہٰذا جو روایت رسول اللہ کی مالی خستہ حالی کی طرف منسوب ہے وہ ضعیف ہے اور اسی لیے نامور مؤرخین جیسے ابن اسحاق، ابن ہشام، ابن کثیر وغیرہ نے اسے اپنی تصانیف میں شامل نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت احادیث کی بڑی کتابوں میں بھی درج نہیں ہے۔

ایک اور روایت جس کو مسندِ امام احمد بن حنبل میں نقل کیا گیا اس کے مطابق حضرت خدیجہ نے (نعوذ باللہ) اپنے والد کو نشے میں دھت کردیا تھا اور انہیں دھوکہ دیا کہ وہ نشے کی حالت میں رسول اللہ سے ان کے نکاح کا پیغام قبول فرما لیں۔ جیسا کہ روایت میں منقول ہے:

  …ذكر خديجة، وكان أبوها يرغب أن يزوجه، فصنعت طعاما وشرابا، فدعت أباها ونفرا من قريش، فطعموا وشربوا حتى ثملوا، فقالت خديجة لأبيھا: إن محمد بن عبد اللّٰه يخطبني، فزوجني إياه. فزوجها إياه فخلعته وألبسته حلة، وكذلك كانوا يفعلون بالآباء، فلما سري عنه سكره، نظر فإذا هو مخلق وعليه حلة، فقال: ما شأني، ما هذا؟ قالت: زوجتني محمد بن عبد اللّٰه. قال: أنا أزوج يتيم أبي طالب لا، لعمري. فقالت خديجة: أما تستحي تريد أن تسفه نفسك عند قريش؟ تخبر الناس أنك كنت سكران؟ فلم تزل به حتى رضي. 19
  (حضور نے) حضرتِ خدیجہ ( ) کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان کے والد اپنی بیٹی کا نکاح نبی کریم سے کرنے کے لیے تیار نہیں تھے چنانچہ حضرتِ خدیجہ ( ) نے ضیافت کا اہتمام کیا اور قریش کے چند اشرافیہ کو مدعو کیا۔ جب سب نے سیر ہوکر کھا پی لیا تو حضرتِ خدیجہ ( ) نے اپنے والد سے کہا کہ محمد بن عبداللہ () نے مجھے شادی کا پیغام بھیجا ہے، پس آپ میرا ان سے نکاح کر دیں۔ ان کے والد نے ان کی شادی رسول اللہ سے کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو حضرتِ خدیجہ ( ) نے انہیں خاص لباس (عربی رسم و رواج کے مطابق) پہنایا۔ جب نکاح ہوا اور ان کے والد کو ہوش آیا تو انہوں نےاپنے کپڑوں کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟ میں نے ایسا لباس کیوں پہن رکھا ہے؟ حضرت خدیجہ ( ) نے ان سے کہا کہ آپ نے میری شادی محمد بن عبداللہ () سے کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمہاری شادی ابو طالب کے یتیم سے کیسے کرسکتا ہوں؟ میں قسم کھاتا ہوں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس پر حضرت خدیجہ ( ) نے فرمایا کہ اگر آپ ایسی باتیں کہیں گے تو کیا آپ قریش کے سامنے شرمندہ نہیں ہونگے؟ جب تک وہ راضی نہ ہوئے وہ انہیں سمجھاتی رہیں۔

یہ روایت عقل و نقل کے لحاظ سے ضعیف بلکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ روایت منگھڑت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ حضرت خدیجہ کے لئے رشتوں کی کبھی کوئی کمی نہیں تھی۔ مکہ کے سارے رئیس آپ سے نکاح کی خواہش رکھتے تھے اور کئی نے نکاح کے پیغامات بھی بھیجے تھے، لیکن آپ نے انہیں اپنی حسنِ سیرت اور حسن کردار کی وجہ سے قبول نہیں فرمایا ۔ ثانیا نبی کریم سے بھی سینکڑوں خواتین نکاح کرنے کی خواہش رکھتی تھیں کیونکہ آپ حسین و جمیل، صادق اور امین ہونے کے ساتھ سب سے اعلی کردار اور اخلاق کے مالک تھے۔ لہذا آپ کے پاس بھی رشتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ثالثا یہ بات عقلاً بھی محال ہے کہ نبی کریم کسی نشہ میں دھت شخص سے ان حالات میں نکاح پڑھواتے کیونکہ زندگی بھر حضور نشہ آور اشیاء سے خود بھی دور رہے اور ایسے لوگوں کو کبھی پسند نہیں فرمایا جو شراب یا کوئی دوسری نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بہک جائیں۔ مستقبل کے اعلانِ نبوت کے تناظر میں حضور کا ایسے رشتے کے بارے میں جسے ابتداء میں نہ خود آپ نے جانا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی کوشش فرمائی ایسے کام کی اجازت مرحمت فرما دینا یا پھر اس پر سکوت اختیار کرلینا نا ممکن تھا جو اخلاق کے پست ترین درجے سے بھی گرا ہوا ہو لہذا نبی و رسول جس طرح اعلان نبوت کے بعد معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں اسی طرح اعلان ِ نبوت سے قبل بھی اللہ تعالی ہر چھوٹی بڑی برائی سے محفوظ رکھنے کے لئے خصوصی اہتمام فرماتا ہے۔ اسی وجہ سے اس طرح کی روایت نہ صرف تاریخی و عقلی طور پر قابل رد ہے بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں حضور کے مقام و مرتبہ کے خلاف توہین آمیز جرات اور گستاخانہ بیان ہے۔

روایت کے اعتبار سے احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راویوں کا سلسلہ انتہائی ضعیف ہے۔ 22 بیہقی کا بھی یہی قول ہے۔ 23 ابن سعد مزید کہتے ہیں کہ ساری روایت غلط اور غیرصحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ معروف روایت کے مطابق حضرت خدیجہ کے والد جنگ فجارسے پہلےفوت ہوچکے تھے اور عمرو بن اسد جو حضرت خدیجہ كے چچا تهے 24 انہوں نے آپ کا نکاح رسول اللہ سے کیا تھا۔ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی اور نبی کریم 25 سال کے تھے۔ 25 یہ شادی نہایت بابرکت اور محترم تھی اور آپ کی اکثر اولاد اسی نکاح کی برکت سے ہوئی ۔

اولاد

نبی اور حضرت خدیجہ كا یہ نکاح اسلامی تاریخ کے اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ آپ نہ صرف حضور کی زوجہ تھیں بلکہ ایک بہترین رفیق اور دوست بھی تھیں۔ آپ کی سابقہ شوہر سے بھی اولاد موجود تھی لیکن نبی کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے انہی سے تھی۔ آپ کے حضرت خدیجہ سے پیدا ہونے والی اولاد کے اسماء قاسم ، طاہر ، طیب ، زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ تھے۔ قاسم، طیب اور طاہر کا انتقال نبی اکرم کے اعلانِ نبوت سے پہلے ہوا۔ جبکہ ان کی تمام بیٹیاں زندہ رہیں، اسلام قبول کیا، اور آپ کے ساتھ مدینہ ہجرت کرگئیں۔ 26

وصال

حضرت خدیجہ کا انتقال ہجرت سے تقریباً 3 سال قبل، حضرت ابو طالب کےانتقال والے سال، 27 65 سال کی عمر میں ہوا 28 جس کو اسلامی تاریخ میں عام الحزن کہا جاتا ہے۔ 29 انہیں مکہ مکرمہ میں جنت المعلیٰ میں جوالحجون کے نام سے بھی مشہور ہے دفن کیا گیا۔ 30

خدیجہ بنت خویلد

حضرت خدیجہ بنت خویلد ایک عقل مند اور بردبار خاتون تھیں۔ وہ نسب میں اعلی، شرافت میں ارفع اور معاشی طور پر مالدار اور خود کفیل تھیں۔ وہ مکہ مکرمہ میں عام الفیل (ہاتھی کا سال) سے تقریباً 15 سال پہلے پیدا ہوئیں۔ 1 ان کا خاندان علاقے کے دیگر خاندانوں سے زیادہ معزز اور محترم سمجھا جاتا تھا۔ جب نبی کریم کی عمرمبارک 25 سال ہوئی تو آپ نے حضرت خدیجہ بنت خویلد سے نکاح فرمایا جو اس وقت 40 سال کی تھیں۔ 2 یہ رسول اللہ کی پہلی شادی تھی اور جب تک حضرت خدیجہ بنت خویلد زندہ رہیں تب تک آپ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔ 3 آپ اور حضرت خدیجہ بنت خویلد کی اس ازدواجی زندگی کو دنیا بھر کے تمام شادی شدہ جوڑوں کے لیے ایک مثالی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

پورا نام و نسب

آپ کا پورا نام خدیجہ بنتِ خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہرتھا۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا جو زید بن الاصم بن رواحہ بن حجربن عبد بن معیس بن عامر بن لوی کی بیٹی تھیں۔ 5

حضور ﷺ سے ماقبل کے نکاح

حضرت خدیجہ بنت خویلد کی شادی سب سے پہلے عتیق بن عابد بن عبداللہ مخزومی سے ہوئی اور ان کی وفات کے بعد ان کی شادی ابو ہالہ بن زرارہ بن نباش بن عدی بن حبيب بن صرد بن سلالہ بن جروہ بن أسيد بن عمرو بن تميم التميمی سے ہوئی۔ 6 ان کا ایک بیٹا ہند بن ابی ہالہ تھا۔ 7 ہند بن ابی ہالہ کی پرورش رسول اللہ اور حضرت خدیجہ نے فرمائی۔ وہ مسلمان ہوئے اور غزوۂ بدر اور احد میں رسول اللہ کے شانہ بشانہ لڑے۔ 8

اسی طرح عتیق بن عابد مخزومی سے حضرت خدیجہ کی ایک بیٹی ہوئی تھیں جس كی وجہ سے آپ امّ ہند کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ 9 جب آپ کے دوسرے شوہر یعنی ابو ہالہ بن زرارة کا وصال ہوا اور آپ کی عدت پوری ہوگئی تو آپ کو اشرافیہ اور قبیلے کی مشہور شخصیات کی طرف سے شادی کے پیغامات بھیجے گئے کیونکہ ہر کوئی آپ کی عزت اور شرف کی وجہ سے نکاح کا خواست گار تھا۔ 10

حضرت خدیجہ بنت خویلد ان عورتوں میں سے تھیں جو اپنے نسب، عزت، وقار، کردار، دولت، حسن سلوک، سخاوت اور کاروبار کی وجہ سے مشہور تھیں۔ 11 اگرچہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں اور پرورش پائی جو شرک سے دوچار تھا لیکن آپ نے ہمیشہ شرک اور دیگرغیر اخلاقی کاموں سے پرہیز کیا کیونکہ آپ کے چچا ورقہ بن نوفل شرک کے منکراور موحد تھے۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھیں کہ بنو اسماعیل کی اولاد میں سے ایک نبی آنے والا ہے کیونکہ انہیں ورقہ بن نوفل نے یہ اطلاع دی تھی۔ 12

کاروباری معاملات

حضرت خدیجہ کو اپنے والدین کی طرف سے اور بعد میں مرحوم شوہر کی وراثت میں سے بڑاحصہ ملا تھا جسے آپ نے مختلف کاروبار میں لگایا۔ بحیثیت عورت کے کیونکہ وہ تجارتی قافلوں کے ساتھ خود سفر نہیں کر سکتی تھیں، اس لیے وہ ربّ المال کی حیثیت سے کاروباری منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتی تھیں۔ 13 اس دور میں یمن اور شام اہل عرب کے بڑے تجارتی مراکز تھے اورموسم گرما میں عرب کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے جبکہ موسم سرما میں یمن کی طرف جاتے تھے۔ 14 حضرت خدیجہ ان تجارتی قافلوں میں سرمایہ کاری کیا کرتی تھیں اور اپنے مال کو کسی مضارب کے ذریعے دوسرے شہر میں فروخت کرکے وہاں سے مال بھی منگوایا کرتی تھیں جس سے ان کو اچھا منافع ملا کرتا تھا۔

حضرت محمد ﷺ سے نکاح

جب نبی کریم شام سے حضرت خدیجہ کے تجارتی قافلے کو منافع کے ساتھ لے کر لوٹے تو حضرت خدیجہ بہت خوش ہوئیں۔ جب ان کے غلام نے نبی کریم کے محاسن کے حوالے سے تفصیلات ذکر کیں تو حضرت خدیجہ نے آپ کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس حوالے سے بہت سی غیر مناسب روایات بھی منقول ہیں جن کا تدارک ضروری ہے۔ ایک روایت کے مطابق نبی اکرم نے حضرت خدیجہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے اور بعد میں اس شرط پر نکاح فرمانا قبول کرلیا کہ حضرت خدیجہ شادی کے تمام اخراجات کی ادائیگی کریں گی۔ محمد بن سعد بیان کرتے ہیں:

  عن نفيسة بنت منية قالت:. فأرسلتني دسيسا إلى محمد بعد أن رجع في عيرها من الشام. فقلت: يا محمد ما يمنعك أن تزوج؟ فقال: ما بيدي ما أتزوج به. قلت: فإن كفيت ذلك ودعيت إلى الجمال والمال والشرف والكفاءة ألا تجيب؟ قال: فمن هي؟ قلت: خديجة. قال: وكيف لي بذلك؟ قالت قلت: علي. قال: فأنا أفعل. فذهبت فأخبرتھا. فأرسلت إليه أن ائت لساعة كذا وكذا 16
  نفیسہ بنت منیہ () بیان کرتی ہیں کہ: حضرت خدیجہ نے مجھے خفیہ طور پر محمد کے پاس بھیجا جب وہ شام سے اپنے تجارتی سفر کے بعد واپس آئے۔ میں (نفیسہ ) نے کہا: اے محمد ()! آپ کو شادی سے کیا چیز روکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس نکاح کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ میں (نفیسہ ) نے کہا: اگر آپ () کو وافر وسائل میسرآجائیں اور آپ ( )کو خوبصورتی، دولت، عزت اور مساوی حیثیت کی (کسی خاتون) کی طرف سے پیغام ملے تو کیا آپ () اسےقبول کریں گے؟ آپ ()نے پوچھا: وہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: خدیجہ ( )۔ آپ () نے پوچھا: یہ کیسے ممکن ہوگا؟ میں نے کہا: میں اس کا انتظام کروں گی۔ آپ ()نےفرمایا: پھر میں راضی ہوں۔ چنانچہ انہوں نے جاکر خدیجہ ( ) کو اس کی خبر دی۔

کئی محدثین و معتبر سیرت نگاروں کی یہ رائے ہے کہ شام سے واپسی کا یہ سفر نبی کا پہلا تجارتی سفر نہیں تھا۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

  كنت ارعاها على قراريط لأهل مكة. 17
  میں قراریط پر اہل مکہ کے لئے (بھیڑبکریاں) چرایا کرتا تھا۔

ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں یہاں قراریط کے معنی میں دو احتمالات موجود ہیں: ایک تو یہ مکہ کے پاس موجود جگہ کا نام تھا دوسرا اس سے مراد قراط (مخصوص زر مبادلہ) کی جمع بھی ہوسکتی ہے 18 گویا آپ شام کے اس تجارتی قافلے پر جانے سے پہلے بھی اہل مکہ کی بھیڑ بکریاں چَرا کر اپنے لئے مال و اسباب کمایا کرتے تھے۔ اکبر شاہ نجیب آبادی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ مختلف تجارتی قافلوں کے ساتھ اپنا سامان لے کر جایا کرتے تھے اور کافی منافع لے کر واپس آتے تھے۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ حضرت خدیجہ کے تجارتی قافلوں کو بحرین، یمن اور شام لے کرگئے اور ہر بار منافع لے کر لوٹے۔ 19 ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ نے رسول اللہ کو دوسرے تاجروں کے مقابلے میں بہتر تجارتی شرائط پیش کیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مضاربت میں رسول اللہ نے دیگر تجّار کی بنسبت اچھا منافع کمایا۔ یہ تمام روایات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ نبی اکرم اگرچہ حضرت خدیجہ کی طرح دولت مند نہیں تھے، لیکن ان کے پاس اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کافی ذرائع تھے۔ مزید برآں ابن ہشام کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ نے حضرت خدیجہ سے شادی کی تو آپ نے انہیں 20 جوان اونٹ مہر کے طور پر دیے جن کی قیمت ان دنوں بہت زیادہ تھی۔ 20 امام دولابی کا ایک اور اقتباس جو زرقانی نے درج کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت خدیجہ کو 12 اوقیہ چاندی دی اور ہر اوقیہ 40 درہم کے برابر تھا۔ 21 ایک درہم تقریباً 3 گرام کے برابر ہے یعنی آپ نے انہیں 1500 گرام چاندی دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے پاس شادی کرنے اور خاندان کی کفالت کا ذریعہ موجود تھا اورآپ کسی اور پر منحصر نہیں تھے لہٰذا جو روایت رسول اللہ کی مالی خستہ حالی کی طرف منسوب ہے وہ ضعیف ہے اور اسی لیے نامور مؤرخین جیسے ابن اسحاق، ابن ہشام، ابن کثیر وغیرہ نے اسے اپنی تصانیف میں شامل نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت احادیث کی بڑی کتابوں میں بھی درج نہیں ہے۔

ایک اور روایت جس کو مسندِ امام احمد بن حنبل میں نقل کیا گیا اس کے مطابق حضرت خدیجہ نے (نعوذ باللہ) اپنے والد کو نشے میں دھت کردیا تھا اور انہیں دھوکہ دیا کہ وہ نشے کی حالت میں رسول اللہ سے ان کے نکاح کا پیغام قبول فرما لیں۔ جیسا کہ روایت میں منقول ہے:

  …ذكر خديجة، وكان أبوها يرغب أن يزوجه، فصنعت طعاما وشرابا، فدعت أباها ونفرا من قريش، فطعموا وشربوا حتى ثملوا، فقالت خديجة لأبيھا: إن محمد بن عبد اللّٰه يخطبني، فزوجني إياه. فزوجها إياه فخلعته وألبسته حلة، وكذلك كانوا يفعلون بالآباء، فلما سري عنه سكره، نظر فإذا هو مخلق وعليه حلة، فقال: ما شأني، ما هذا؟ قالت: زوجتني محمد بن عبد اللّٰه. قال: أنا أزوج يتيم أبي طالب لا، لعمري. فقالت خديجة: أما تستحي تريد أن تسفه نفسك عند قريش؟ تخبر الناس أنك كنت سكران؟ فلم تزل به حتى رضي. 19
  (حضور نے) حضرتِ خدیجہ ( ) کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان کے والد اپنی بیٹی کا نکاح نبی کریم سے کرنے کے لیے تیار نہیں تھے چنانچہ حضرتِ خدیجہ ( ) نے ضیافت کا اہتمام کیا اور قریش کے چند اشرافیہ کو مدعو کیا۔ جب سب نے سیر ہوکر کھا پی لیا تو حضرتِ خدیجہ ( ) نے اپنے والد سے کہا کہ محمد بن عبداللہ () نے مجھے شادی کا پیغام بھیجا ہے، پس آپ میرا ان سے نکاح کر دیں۔ ان کے والد نے ان کی شادی رسول اللہ سے کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو حضرتِ خدیجہ ( ) نے انہیں خاص لباس (عربی رسم و رواج کے مطابق) پہنایا۔ جب نکاح ہوا اور ان کے والد کو ہوش آیا تو انہوں نےاپنے کپڑوں کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟ میں نے ایسا لباس کیوں پہن رکھا ہے؟ حضرت خدیجہ ( ) نے ان سے کہا کہ آپ نے میری شادی محمد بن عبداللہ () سے کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمہاری شادی ابو طالب کے یتیم سے کیسے کرسکتا ہوں؟ میں قسم کھاتا ہوں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس پر حضرت خدیجہ ( ) نے فرمایا کہ اگر آپ ایسی باتیں کہیں گے تو کیا آپ قریش کے سامنے شرمندہ نہیں ہونگے؟ جب تک وہ راضی نہ ہوئے وہ انہیں سمجھاتی رہیں۔

یہ روایت عقل و نقل کے لحاظ سے ضعیف بلکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ روایت منگھڑت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ حضرت خدیجہ کے لئے رشتوں کی کبھی کوئی کمی نہیں تھی۔ مکہ کے سارے رئیس آپ سے نکاح کی خواہش رکھتے تھے اور کئی نے نکاح کے پیغامات بھی بھیجے تھے، لیکن آپ نے انہیں اپنی حسنِ سیرت اور حسن کردار کی وجہ سے قبول نہیں فرمایا ۔ ثانیا نبی کریم سے بھی سینکڑوں خواتین نکاح کرنے کی خواہش رکھتی تھیں کیونکہ آپ حسین و جمیل، صادق اور امین ہونے کے ساتھ سب سے اعلی کردار اور اخلاق کے مالک تھے۔ لہذا آپ کے پاس بھی رشتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ثالثا یہ بات عقلاً بھی محال ہے کہ نبی کریم کسی نشہ میں دھت شخص سے ان حالات میں نکاح پڑھواتے کیونکہ زندگی بھر حضور نشہ آور اشیاء سے خود بھی دور رہے اور ایسے لوگوں کو کبھی پسند نہیں فرمایا جو شراب یا کوئی دوسری نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بہک جائیں۔ مستقبل کے اعلانِ نبوت کے تناظر میں حضور کا ایسے رشتے کے بارے میں جسے ابتداء میں نہ خود آپ نے جانا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی کوشش فرمائی ایسے کام کی اجازت مرحمت فرما دینا یا پھر اس پر سکوت اختیار کرلینا نا ممکن تھا جو اخلاق کے پست ترین درجے سے بھی گرا ہوا ہو لہذا نبی و رسول جس طرح اعلان نبوت کے بعد معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں اسی طرح اعلان ِ نبوت سے قبل بھی اللہ تعالی ہر چھوٹی بڑی برائی سے محفوظ رکھنے کے لئے خصوصی اہتمام فرماتا ہے۔ اسی وجہ سے اس طرح کی روایت نہ صرف تاریخی و عقلی طور پر قابل رد ہے بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں حضور کے مقام و مرتبہ کے خلاف توہین آمیز جرات اور گستاخانہ بیان ہے۔

روایت کے اعتبار سے احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راویوں کا سلسلہ انتہائی ضعیف ہے۔ 22 بیہقی کا بھی یہی قول ہے۔ 23 ابن سعد مزید کہتے ہیں کہ ساری روایت غلط اور غیرصحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ معروف روایت کے مطابق حضرت خدیجہ کے والد جنگ فجارسے پہلےفوت ہوچکے تھے اور عمرو بن اسد جو حضرت خدیجہ كے چچا تهے 24 انہوں نے آپ کا نکاح رسول اللہ سے کیا تھا۔ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی اور نبی کریم 25 سال کے تھے۔ 25 یہ شادی نہایت بابرکت اور محترم تھی اور آپ کی اکثر اولاد اسی نکاح کی برکت سے ہوئی ۔

اولاد

نبی اور حضرت خدیجہ كا یہ نکاح اسلامی تاریخ کے اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ آپ نہ صرف حضور کی زوجہ تھیں بلکہ ایک بہترین رفیق اور دوست بھی تھیں۔ آپ کی سابقہ شوہر سے بھی اولاد موجود تھی لیکن نبی کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے انہی سے تھی۔ آپ کے حضرت خدیجہ سے پیدا ہونے والی اولاد کے اسماء قاسم ، طاہر ، طیب ، زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ تھے۔ قاسم، طیب اور طاہر کا انتقال نبی اکرم کے اعلانِ نبوت سے پہلے ہوا۔ جبکہ ان کی تمام بیٹیاں زندہ رہیں، اسلام قبول کیا، اور آپ کے ساتھ مدینہ ہجرت کرگئیں۔ 26

وصال

حضرت خدیجہ کا انتقال ہجرت سے تقریباً 3 سال قبل، حضرت ابو طالب کےانتقال والے سال، 27 65 سال کی عمر میں ہوا 28 جس کو اسلامی تاریخ میں عام الحزن کہا جاتا ہے۔ 29 آپ کا مزار مبارک مکہ مکرمہ میں جنت المعلیٰ کے مقام پر مرجع خلائق ہے۔ یہ مقام الحجون کے نام سے بھی مشہور ہے۔ 30

 


  • 1 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 1 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 2 ایضاً
  • 2 ایضاً
  • 3 پیر کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء، ص: 431
  • 3 پیر کرم شاہ الازہری، ضیاء النبی ﷺ، ج-2، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، 2013ء، ص: 431
  • 5 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، مصر، 1955م، ص: 189
  • 5 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، مصر، 1955م، ص: 189
  • 6 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، مصر، 1955م، ص: 643
  • 6 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، مصر، 1955م، ص: 643
  • 7 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، مصر، 1955م، ص: 643
  • 7 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، مصر، 1955م، ص: 643
  • 8 ابو الفدا اسمٰعیل ابن کثیر الدمشقی، جامع المسانيد والسنن الهادي لأقوم سنن، ج-8، دار خضر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1998م، ص: 369
  • 8 ابو الفدا اسمٰعیل ابن کثیر الدمشقی، جامع المسانيد والسنن الهادي لأقوم سنن، ج-8، دار خضر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1998م، ص: 369
  • 9 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 11
  • 9 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 11
  • 10 ایضاً، ج-1، ص: 105
  • 10 ایضاً، ج-1، ص: 105
  • 11 علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج۔1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 199
  • 11 علی ابن ابراہیم ابن احمد الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج۔1، دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 199
  • 12 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2009م، ص: 149
  • 12 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2009م، ص: 149
  • 13 ابو الفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 51
  • 13 ابو الفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2011م، ص: 51
  • 14 ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی، زاد المسیر، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص: 494
  • 14 ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی، زاد المسیر، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص: 494
  • 16 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 16 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 17 محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2262، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 360
  • 17 محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2262، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 360
  • 18 ابو محمد محمود ابن احمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح البخاری، ج-8، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 128
  • 18 ابو محمد محمود ابن احمد بدرالدین العینی، عمدۃ القاری شرح البخاری، ج-8، مطبوعۃ: دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 128
  • 19 Akber Shah Najeebabadi (2000), The History of Islam, Darus Salam, Riyadh, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 98-99.
  • 19 ابو عبدالله احمد بن محمد بن حنبل الشييباني، مسند احمد بن حنبل، حديث: 2849، ج-5، مطبوعه: موسسة الرسالة، بيروت، لبنان، ص: 46
  • 19 Akber Shah Najeebabadi (2000), The History of Islam, Darus Salam, Riyadh, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 98-99.
  • 19 ابو عبدالله احمد بن محمد بن حنبل الشييباني، مسند احمد بن حنبل، حديث: 2849، ج-5، مطبوعه: موسسة الرسالة، بيروت، لبنان، ص: 46
  • 20 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2009م، ص: 150
  • 20 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2009م، ص: 150
  • 21 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 378
  • 21 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-۱، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 2012م، ص: 378
  • 22 ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 2849، ج-5، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 47
  • 22 ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 2849، ج-5، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 47
  • 23 ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي،دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 2008
  • 23 ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي،دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-2، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 2008
  • 24 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 24 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 105
  • 25 ایضاً
  • 25 ایضاً
  • 26 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 130
  • 26 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 130
  • 27 ایضاً، ص: 271
  • 27 ایضاً، ص: 271
  • 28 عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری،أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،ج۔7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، 2003م، ص: 81
  • 28 عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری،أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،ج۔7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، 2003م، ص: 81
  • 29 ابو العباس احمد بن علی الحسینی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1999م، ص: 45
  • 29 ابو العباس احمد بن علی الحسینی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1999م، ص: 45
  • 30 ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-4، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1825
  • 30 ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-4، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 1825