Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم فارس کا عسکری نظام

قدیم دور سے ہی اقوام عالم ایک دوسرے پر اپنا تسلط قائم کرنے اور وسائل پر قابض ہونے کے لیے جنگیں لڑا کرتی تھیں۔ طاقتور ریاستیں کمزور حکومتوں اور قبائل پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اپنی سلطنت کو مزید پھیلانے کے لیے اکثرچھوٹی ریاستوں اور قبیلوں پر حملے کرتی رہتی تھیں۔ نیزبڑی سلطنتوں کو بھی اپنی بقاء اور سالمیت کے لیے ایک بڑی ،تربیت یافتہ اور منظم فوج کی ضرورت رہتی تھی جو جدید اسلحے سے لیس اور اپنےدور کے عسکری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتی تھی۔ سلطنت فارس کو بھی اپنی بقاء اور سالمیت کے لیےہمیشہ ایک طاقتور فوج کی ضرورت رہتی تھی اس لیے عسکری تربیت اور نوجوانوں میں جرات و بہادری کا جذبہ پیدا کرنے پر غیر معمولی توجہ دی جاتی تھی۔ فارس کی افواج سپاہیوں ، زرہ پوشوں اور مشہور عالم لافانی سپاہیوں (Immortals)پر مشتمل ہوتی تھی جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہادری کے جوہر دکھاتے اور دشمن کے لیے خوف کی علامت ہواکرتےتھے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ فارس کی افواج کی تعداد 150000 سے زیادہ تھی۔اس کے باوجود انہیں کئی جنگوں میں یونانیوں سے شکست بھی کھانی پڑی تھی ۔

فوج

ہخامنشی سلطنت (Achaemenid Empire) کے دور میں قومی فوج کی تعداد 120000 سے لے کر 150000 کے قریب تھی۔ اس کے علاوہ دسیوں ہزار اتحادی بھی سلطنت کی خاطر لڑنے کے لیے موجود تھے۔ یہ تربیت یافتہ اور منظم افواج تھیں جنہیں ایک ایک ہزار کے دستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان دستوں کو "ہزارابام (Hazarabam)" کہا جاتا تھا۔ دس (10) "ہزارابام" مل کر "ہیوارابام (Haivarabam)" تشکیل دیتے تھے۔ سب سے بہترین "ہیوارابام" بادشاہ کے ذاتی محافظوں کے دستوں پر مشتمل تھا جنہیں سپاہیانِ جاویداں کہا جاتا تھا۔ فوج کی سب سے چھوٹی اکائی دس (10) سپاہیوں پر مشتمل دستہ ہوا کرتا تھا جسے "دثابہ (Dathaba)" کہا جاتا تھا۔ دس (10) دثابہ مل کر ایک "ستابہ (Sataba)" تشکیل دیتے تھے جو ایک سو (100) سپاہیوں پر مشتمل تھا۔1

فارس کے گھوڑے بھی دنیا بھر میں مشہور تھے اور گھڑ سوار دستے افواج کا سب سے اہم حصّہ تصور کیے جاتے تھے۔ فارسی افواج کی ایک اور اہم خصوصیت"بگل(Bugle)"کا استعمال تھا۔ یہ موسیقی کا ساز تھا جس کی آواز بہت دورتک سنی جاتی تھی۔2

حکومتی افواج کے ساتھ ساتھ چھوٹے حکمرانوں ، قبیلو ں اور امرا شرفا کی ذاتی افواج بھی ہوتی تھیں۔ بادشاہ جنگ کی صورت میں ان سب کو مقررہ وقت پر طے شدہ مقام پر جمع ہونے کا حکم دیتاتھا۔ پارتھائی (Parthians) قبائل بھی اپنی افواج سے بادشاہ کی مدد کرتے تھے نیز بادشاہ اپنی افواج کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں پر بھی انحصار کرتے تھے ۔ پارتھیائی افواج قدیم قبائلی روایات کے مطابق ہی چلتی تھیں۔ ان کی بھی ایک سو، ایک ہزار اور دس ہزار کی تقسیم ہوتی تھی جو بالترتیب واسط (Wast)، درافس (Drafs) اور گند (Gund)کہلاتی تھیں۔ ان کا اپنا اپنا کماندار (Commander) ہوتا تھا جس کا تعین اس کے قبیلے میں سے مرتبے کے مطابق ہوتا تھا ۔ تمام فوج سپاد (Spad)کہلاتی تھی جس کا سربراہ (Supreme Commander) بادشاہ یا اس کا بیٹا بادشاہ کا مقرر کردہ سپہ سالار ہوتا تھا۔

پارتھیائی (Parthians)زرہ پوشوں کے پاس جو سامان حرب ہوتا تھا اس میں تلواریں،لمبی تیر کمان،کلہاڑیاں، نیزے، خنجر اور اس طرح کے دیگر آلات حرب ہوتے تھے۔کچھ مورخین کے مطابق پارتھیائی گھڑ سوار فوج ڈھال استعمال نہیں کرتی تھی بلکہ اس کے بجائے تقریبا چار میٹر لمبے نیزے استعمال کیے جاتے تھے۔اس کے علاوہ سر پر مختلف اقسام کے خود استعمال کیے جاتے جو سپینگین ہلم(Spangenhelm) کہلاتے تھے۔اس کے علاوہ مختلف قسم کی زرہیں اور ہاتھوں اور بازووٴں کو محفوظ رکھنے کے آلات بھی ہوتے تھے جو مضبوط دھاتوں سے بنائے جاتے تھے۔ گھوڑوں کے لیےبھی مضبوط زرہیں ہوتی تھیں۔3

دس ہزار سپاہیانِ جاویداں

ہخامنشی دور سلطنت (Achaemenid Empire)میں بادشاہ کی حفاظت كے ليے دس ہزار(10000) بہادر ترین سپاہیوں پر مشتمل ایک خاص دستہ تشکیل دیا گیاتھا۔ اس فوجی دستے کی تعداد ہمیشہ دس ہزار (10000)برقرار رکھی جاتی تھی۔ اگر کوئی کمی ہو جاتی تو اسے نئے سپاہیوں سےپورا کر لیا جاتا تھا۔یہ سپاہی براہ راست سالار اعلیٰ کو جوابدہ ہوتے تھے۔ان کی اکثریت فارسی سپاہیوں پر مشتمل ہوتی تھی لیکن ان کے ساتھ ساتھ میڈیا(Medes) اور ایلام (Elamites) کے بہادر ترین سپاہیوں کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔ ان سپاہیان ِ جاویداں کو لشکر کشی کے دوران ملازم اور کنیزیں رکھنے کی بھی اجازت ہوتی تھی۔ یہ سپاہ ہمہ وقت چاک و چوبند اور تیار رہتی تھی۔یہ اعلیٰ لباس او ر سونے کی اشیاء بھی استعمال کر سکتے تھے۔اس خصوصی دستے میں سے بھی ایک ہزار(1000) سپاہیوں کا خاص مرتبہ تھا۔ان کے نیزوں کے دستوں میں انار کی شکل کےسونے سے بنےگول نشانات ہوتے تھے جو ان کے خاص رتبے کی نشاندہی کرتے تھے۔

شہ سوار فوج

تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ فارس کی گھڑ سوار فوج کا اہم ترین ہتھیار ان کا نیزہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کئی ہتھیار ہوتے تھے جن میں زرہ بکتر،خو د ، ٹانگوں بازووٴں اور گردن کے لیےحفاظتی آلات،ترکش اور کمان ( جس 130تیر ہوتےتھے) اور دو (2)نیزے شامل تھے۔ شہ سوار کے ساتھ ساتھ گھوڑے کے لیےبھی حفاظتی آلات ہوتے تھے جو اسے دشمن کے حملوں سے بچاتے تھے۔ گھڑ سوار فوج فارس کی فوج میں سب سے اہم تصورکی جاتی تھی ۔ بہت سی جنگوں میں فیصلہ کن کردار انہی دستوں نے انجام دیا تھا۔پلاٹیا (Plataea) کی جنگ اس کی اہم مثال ہے جس میں ایرانی شہ سوار دستوں نے یونانی فوج کو بے پناہ نقصان پہنچایا تھا۔4

بحری ا فواج

عہد عتیق سے ہی فارس کے بحری بیڑے اور آبی جہاز چین (China)او ر روم (Rome)تک تجارت او ر عسکری مقاصد کے لیےآتے جاتے رہتے تھے۔ ہخامنشی عہد(Achaemenid Era) میں جاسوسی کے مقاصدکے لیے بحیرہٴ روم (Mediterranean Sea) میں فارس کے جہازوں اور کشتیوں کی موجودگی کاپتہ ملتا ہے۔ ژرکسیز (Xerxes) کے عہد میں باقاعدہ منظم بحری نظام کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔5ساسانی عہد(Sassanian Era) میں بحیرہ عرب(Arabian Sea) اور بحر ہند(Indian Ocean) میں فارس کی بحری افواج کاطوطی بولتا تھا۔خسروانوشروان(Khosrow Anushirwan) کے دور میں ایران نے بحری افواج کی مدد سے یمن(Yemen) پر حملہ کر کے اسے فارس کی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ تاریخی شواہد سے بحر اسود(Black Sea) میں بھی ایرانی بحری افواج کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔6

مشہورجنگیں

فارس کی مشہور جنگوں کی تفصیل درج ذیل ہے :

میراتھن کی جنگ

میراتھن کی جنگ ڈیریس اول(King Darius-I) کی قیادت میں 490 قبل مسیح میں شمال مشرقی اٹیکا(Attica) میں واقع میراتھن (Marathon)کے مقام پر لڑی گئی تھی ۔یہ سلطنت فارس کی یورپ کی قدیم شہری ریاست ایتھنز (Athens) کےخلا ف پہلی جنگ تھی جو ایرانیوں کی شکست پر ختم ہوئی تھی۔7فارسی افواج کے مقابلے میں ایتھنز (Athens)کی فوج بہت کم تھی اور انہیں صرف پلیٹائی(Palatea) اتحادیوں کی مدد حاصل تھی۔ڈاٹس (Datis)اور آرتافرنس(Artaphernes)فارسی فوج کے سپہ سالار تھے۔ایتھیائی(Athenians) جرنیلوں نے فیصلہ کیا کہ جیسے ہی ایرانی افواج بحری جہازوں سے زمین پر قدم رکھیں گی ان پر براہ راست حملہ کر دیا جائے گا۔ ایتھنز (Athens) کی سپاہ نو ہزارسپاہیوں پر مشتمل تھی جن کی مدد کے لیے پلیٹیا(Palatea)کے چھ سو (600)سپاہی بھی شریک جنگ تھے۔ 8

ایرانیوں نے بیس ہزارکی فوج کے ساتھ میراتھن (Marathon)کے خلیجی علاقے میں پڑاوٴ ڈالاتھا۔ان میں پیادہ ،تیر انداز، اور گھڑ سوار فوجی شامل تھے۔ان افواج کو ایتھنز (Athens) کے شمال مشرق میں واقع کوہ ڈراکونرا (Mount Drakonera)کے مغرب میں بہت بڑے دلدل کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ایتھیائی(Athenians)مسلح پیادہ فوج کی ترتیب انتہائی منظم انداز سے کی گئی تھی اور اس فوج میں پیادہ اور گھڑ سوار دونوں دستےشامل تھے۔ انہیں ایک منظم اور متحد فوج کی صورت میں رہنے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔ ہر سپاہی ثابت قدمی کے ساتھ اپنے دستے سے منسلک رہتا اور اپنے مقر ر کردہ مقام اور امور کی انجام دہی پر پابندی کے ساتھ کاربند رہتا تھا۔ان کا ایک فوجی دستہ آٹھ(8) سپاہیوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا، اگر اگلے حصے میں موجود کوئی سپاہی جنگ لڑتے ہوئے ضائع ہوجاتا تو فوراً اس کی جگہ دوسرا سپاہی ذمہ داری سنبھال لیا کرتا تھا۔ ایتھیائی (Athenians)فوج نے جنگی میدان کے جنوبی حصے پراپنے فوجی دستوں کو ترتیب دیا تھا۔ ان کی بائیں جانب کوہ اجریلکی(Mount Agrielki)تھا جبکہ دائیں جانب سمندر تھا۔بریکسیسا (Brexisa)کا دلدل فوجی پڑاوٴسے تھوڑا پیچھے کی جانب تھا۔ ایتھنز (Athens) کی جانب جانے والا ساحلی راستہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ یونانی فوج نے فارسیوں کے حملے کا انتظار کیا کیونکہ ان کی ایتھیائی (Athenians)اور پلیٹائی (Palatea)افواج تعداد میں فارسی افواج سے بہت کم تھیں۔ اس فوج کے جرنیل اپنی مظبوط دفاعی پوزیشن ہونے کی وجہ سے آگے بڑھ کر کھلے میدان میں جنگ کرنے کے لیے بالکل بھی رضامند نہ تھے۔ اس طرح کرنے سے ان کودشمن کے گھڑ سوار دستوں کی جانب سے تباہ کن حملے کا شدید خدشہ تھا اور بڑی فارسی فوج کی ماہرانہ حکمت عملی سے شکست کھانے کا بھی ڈر تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ انہیں اسپارٹا(Sparta)کی جانب سے فوجی امدادکا بھی انتظار تھا۔ایتھنز(Athens) سے میراتھن (Marathon)کی جانب پیش قدمی سے پہلے ایتھیائی(Athenians)فوج نے اسپارٹیائی(Spartans)دوستوں کی طرف مدد کی درخواست کے لیے سب سےتیز دوڑنے والے پیامبر "فلپائیڈس(Philippides) "کو بھیجا جس نے دو دن سے بھی کم وقت میں تقریباً ایک سو چالیس (140) میل کا سفر طے کر لیا تھا۔ اسپارٹیائی ریاست ایتھینز کی ریاست کی مدد کے لیے ایک چھوٹی فوج بھیجنے پر رضامند ہوگئی تھی لیکن ان کی روانگی تاخیر کا شکار ہوگئی کیونکہ فوج ایک اہم مذہبی تہوار میں مصروف تھی اور اس وقت کا انتظار کر رہی تھی کہ پورا چاند ہو اور انہیں تہوار مکمل کرنے کا اشارہ مل جائے۔9 فارسی اور یونانی ،دونوں فوجوں میں سے کوئی بھی حملے میں پہل کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ ایرانی فوج پیش قدمی کرنے سے گریز کررہی تھی کیونکہ انہیں اپنی کمزور پیادہ فوج کو یونانیوں کی اسلحہ سے لیس اور مستعد مسلح پیادہ سپاہ سے بھڑوانے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ وہ ایتھنز (Athens) میں موجوداپنے دوست ہپیز (Hippias)کی جانب سے مدد کے اشارے کی امید کررہے تھے لیکن یہ تعطل زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا ۔آخر کار فارسی فوج کے سپہ سالار ڈاٹس(Datis) نے اپنی مرتب شدہ حکمت عملی پر عمل شروع کردیا تھا۔اس نے زیادہ تر فوج کو جہازوں پر دوبارہ سوار کرایا اور آرٹافینز(Artaphenes)کووہاں موجود فوج کی کمان دے کر خودخلیج فیلیرون(Phaleron Bay) کی جانب روانہ ہوگیا تھا۔ فارسی سپہ سالار آرٹافینز کا کام ایتھنز کی افواج کو روکے رکھنا تھا۔10 جب ایتھنز (Athenians)کو ڈاٹس(Datis) کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے پیش قدمی کا فیصلہ کیا ۔تقریباً 1600 گز بمطابق 1450 میٹرکی ڈھلوان سے ایتھیائی فوج نے فارسی افواج پر لشکرکشی شروع کردی تھی۔ مسلح پیادہ سپاہیوں نے اپنی قطاروں کو درمیان سے چوڑا کرکے پھیلادیا تاکہ ان کے مقدمہ الجیش کو آسانی سے تباہ نہ کیا جاسکے۔ہخامنشی(Achaemenids) ،ایتھیائی فوج کے اچانک حملے سے حیران و پریشان تھے۔ان کے گھڑ سوار فوجی دستے بھی حملے کے وقت کھانے پینے میں مشغول تھے۔11 ہخامنشی فوجیوں نے ایتھیائی سپاہیوں کا تیر کمانوں کے نرغے میں آنےکا انتظار کیا اور پھر ان پر تیروں کی آگ برسانا شروع کردی تھی۔ تیز بارش کی طرح تیر ایتھنیائی فوج پر برستے رہے لیکن ہخامنشی تیر کمانوں کی یہ حکمت عملی غیر موثر ثابت ہوئی تھی۔ یونانیوں کی باہم آمیختہ ڈھالوں نے ایرانیوں کے آگ سے بھڑکتے ہوئے خطرناک تیروں سے بھرپور حفاظت کی۔ ہر مسلح پیادہ سپاہی نے کانسی کا خود، دستانے اور مضبوط حفاظتی زرہ زیب تن کیا ہوا تھا جس کی مدد سے خطرناک میڈوایرانی(Medo-Persian)تیر وں سے ان کی بھرپور حفاظت ہورہی تھی۔ درمیانی حصے میں جہاں ایرانیوں کے بہترین جنگجو دستے موجود تھے انہوں نے ایتھیائی (Athenians)فوج کو پیچھے دھکیلا اور ان کے مستقر تک ان کا پیچھا کیا تھا۔ اس دوران اطراف میں ایتھیائی اور پلیٹائی (Palatea)فوجیں ایرانیوں کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئیں۔خاص طور پر بائیں جانب، ایرانی افواج کو پیچھے دھکیلنے اور ان کے ربط کو توڑ کر منتشر کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوچکی تھی۔اس دوران ہخامنشی(Achaemenes) گھڑ سوار دستے اپنی فوج کی مددکے لیےآئے اور وقت ضائع کیے بغیر مشکلات کے شکار فوجیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ سخت نقصان ہونے کے باوجود ایرانی اور ساکا(Saka) تیر انداز ایتھیائیوں(Athenians) کی مرکزی فوج کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔لیکن یہ کامیابی میدان جنگ کا عارضی فریب ثابت ہوئی کیونکہ مسلح پیادہ سپاہیوں نے اپنی چال چل کر دشمن کو جال میں جکڑ لیاتھا۔ ہخامنشیوں کے میمنہ(Right Wing)اور میسرہ (Left Wing)پر یونانیوں نے بھر پور یلغار کر دی۔ ہخامنشی افواج نے اپنی دونوں اطراف کی فوجوں کویکجا کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ ان کے اطراف کی فوج انتشار کا شکار ہوچکی تھی اورانہوں نے اپنے قلب کو ہر طرف سے گھرا ہوا پایا۔چاروں طرف یونانی فوج انہیں تہہ وبالا کرنے کے لیے تیار تھی۔ اس حملے سے ایرانی فوج کے قدم اکھڑ گئے۔قسمت سے بچ جانے والی فوج جنوبی حصے میں واقع ساحل کی طرف پیچھے ہٹتی چلی گئی جہاں جنگی جہازوں کے بیڑے لنگر انداز تھے۔یونانی فوجیوں نے ان کا تعاقب کیا اور بڑی تعداد میں جہاز وں کی طرف بھاگنے والے فوجیوں کو جہاز پر چڑھنے سے پہلے ہی قتل کردیا۔ دیگر پسپا ہونے والے فوجی قریب موجود دلدل میں دھنس گئے تھے۔ جنگ کے اختتام پر اعداد و شمار کے مطابق ایرانی فوج کے چھ ہزار چار سو(6400) جوان قتل ہوچکے تھےاور لاتعداد قیدی بن چکےتھے جبکہ سات عدد (7)پانی کے جہاز بھی سمندر میں غرق ہوچکے تھے۔ ایتھیائی فوج(Athenian Army) کے192سپاہی اور ان کا سپہ سالارکلیرناکس (Callirnachus)اس جنگ میں مارے گئے تھے۔12

سلامس کی جنگ

سلامس(Salamis)کی جنگ ژرکسیز (Xerxes) کے دور میں یونانیوں (Greeks)اور ایرانیوں (Persians)کے مابین سمندر میں لڑی گئی تھی۔ یہ معرکہ 480قبل مسیح کے دورمیں ایتھنز (Athens) کے قریب خلیج سیرونک(Saronic Gulf)میں لڑا گیا تھا۔13 ایرانی بحری بیڑہ تقریباً آٹھ سو(800)بادبانوں سے چلنے والے بحری جہازوں پر مشتمل تھا۔14 ہیروڈوٹس(Herodotus)کے مطابق ابتداء میں یونانیوں کے پاس آرتی مژیم (Artemisium) کے مقام پر 271 تین منزلہ جہاز اورنو(9) بادبانی کشتیاں موجود تھیں۔ ایتھینز(Athens)کی ریاست نے 147 تین منزلہ جہاز مہیا کیے تھے۔ جنگ کے اگلے روز مزید 53تین منزلہ جہاز پہنچا دیے گئے جو ممکنہ طور پر جنوبی گزرگاہوں سے آبنائے یوریپس(Euripus Channel)تک حفاظت کے لیے مختص کیے گئے تھے لیکن ان کی نقل و حرکت اس بات کی تصدیق پر منحصر تھی کہ تمام ایرانی بیڑے آرتی میژیم (Artemisium)کے مخالف حصے پر جمع ہوں گے۔ زیادہ تر ایتھیائی (Athenians)سہہ طبقہ جہاز پچھلے تین(3) سالوں میں تعمیر کیے گئے تھے ۔ہیروڈوٹس(Herodotus) کے مطابق یونانی بحری بیڑے کے جہازوں کی کل تعداد تین سو اسی (380) تھی۔15 ژرکسیز (Xerxes) نے جنگ کی صورتحال کو جانچنے کے لیے ایک اونچا مقام تعمیر کیا جہا ں سے وہ جنگ پر نظر رکھ سکتا تھا۔ اس نے سلامس (Salamis)کے علاقے کے مخالف حصے کو متعین کیا کیونکہ وہاں سے سائےٹیلیا(Psyttaleia)کا بہتر طور پر معائنہ کیا جاسکتا تھا۔ سائےٹیلیا ایک جزیرہ تھا جہاں علیحدہ علیحدہ ایرانی دستے رات کی تاریکی میں جہازوں سے اترے تھے ۔یہ مقام ِ جنگ یونانیوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اگر بہتر تدبیر کے ساتھ موثر حکمت عملی طے کی جاتی تو ایرانیوں کو کافی نقصان پہنچایا جاسکتا تھا۔ ایرانی بیڑوں کو سلامس(Salamis)میں موجود پانی کی پتلی گزرگاہوں سے گزرنے میں کافی مشکلات پیش آئیں تھیں۔

جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے آگئیں تو دونوں نے لڑنے سے پہلےکچھ شرائط رکھیں کہ جنگ کس طرح لڑی جائے گی۔ موقع پر فی الفور فیصلہ لینے کی تمام تر ذمہ داری ہر جہاز کے سربراہ کودی گئی تھی۔ بالآخر دونوں قوتیں ایک دوسرے سے برسر پیکا ر ہوگئیں ۔ جنگ کے دوران کافی انتشار پھیل گیا کیونکہ ایرانیوں نے ایک بڑی غلطی یہ کی کہ بادشاہ کو اپنی بہادری اور شجاعت کا نمونہ دکھانے کے لیےبغیر دیکھے جہازوں کو آگے بڑھا نا شروع کردیا اور یوں آگے بڑھنے کے چکر میں اپنے ہی جہازوں کے درمیان پھنس کر رہ گئے جس کے نتیجے میں مڈ بھیڑ کی کیفیت پیدا ہوگئی، جس کےنتیجہ میں شدید افرا تفری پھیل گئی تھی۔ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر یونانی بحریہ کے امیرنے مزید بیڑوں کو آگےدھکیلنا شروع کردیا اوراپنے حملہ کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھا۔

جنگ کی صبح ایرانی فوجوں نے دوبارہ صف بندی کی، دائیں جانب فونیشا (Phoenician) کے ماہر فوجیوں کومقرر کیا گیا اور بائیں جانب آیونین(Ionian)جہازوں کو قطار میں کھڑا کردیا گیا تھا۔ بحری فوجیوں کی نقل و حرکت اور انہیں منظم کرنے کے دوران ہی یونانیوں نے ایرانیوں پر حملہ کردیا مگر ایرانی جرنیل ان جہازوں کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اس دوران افراتفری پھیل گئی اور جہاز ایک دوسرے کے ساتھ الجھ کر رہ گئے تھے۔ اسی دوران اطراف میں موجود ایتھیائی(Athenians) فوجیوں نے فونیشائی (Phoenician)جہازوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ان کے جہاز اٹیکا (Attica) کے ساحل کی جانب اپنے مرکز میں واپس جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ عمومی طور پر تین منزلہ جہاز کا اگلا حصہ بڑے گرزسے لیس ہوا کرتاتھا، اس کی مدد سے کسی بھی دشمن کےجہاز کو پانی میں ڈبویا جاسکتا تھا یا کم از کم دشمن کےجہاز کے چپووٴں کو توڑ کر ناکارہ بنایا جاسکتا تھا۔اگر ابتدائی طور پر گرز سے حملہ ناکام ہوجاتا تھا تو بحری فوجیں دشمن کے جہاز پر تختہ لگا کر چڑھ جاتی تھیں اور زمینی جنگ کی طرح جہاز پر ہی معرکہ آرائی شروع ہوجایا کرتی تھی۔ دونوں اطراف کے جہازوں کے پاس اس مقصد کے لیے تربیت یافتہ سپاہی ہوا کرتے تھے۔یونانیوں کے جہاز مسلح پیادہ سپاہیوں سے لیس ہوا کرتے تھےجبکہ ایرانی اس مقصد کے لیے کم فوجی دستے رکھا کرتے تھے۔

ایرانی جہازوں کی پہلی قطار کو یونانی پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن جہازوں کی دوسری اور تیسری قطار سے مڈبھیر کے دوران کافی افراتفری پھیل گئی تھی۔ یونانیوں کے بائیں جا نب کا ایرانی امیر البحر آریابگنس(Persian Admiral Ariabignes) جو کہ ژرکسیز (Xerxes) کا بھائی تھا جنگ میں پہلے ہی مارا جاچکا تھا یوں اس طرف کی فوجیں امیر نہ ہونے کی وجہ سے بے ترتیبی کا شکار ہوگئیں تھیں۔فونیشیائی دستوں (Phoenician Squadrons) کو بھی ساحل کی جانب دھکیل دیا گیا تھا اور اردگرد بہت سارے جہاز خشکی میں پھنس چکے تھے۔ ژرکسیز (Xerxes)کی آنکھوں کے سامنے اس کے بہترین فوجی دستوں کو جس میں اس کے اپنے بھتیجے بھانجے شامل تھے، ایتھیائیوں (Athenians)نے ذبح کردیا تھا۔16

اسی دوران جنگ اپنےفیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی اورپوری فوج لڑائی میں شا مل ہوگئی تھی لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ یونانیوں نے کچھ جہاز محفوظ مقام پر باندھ دیے تھےلیکن ایرانیوں نے سورج نکلنے کے بعد فوری طور پر بڑی تعداد میں جہاز روانہ کردیے۔ ہیروڈوٹس (Herodotus)نے رائے دی ہے کہ یونانیوں نے جنگ منظم انداز سے لڑی اور اپنی ترتیب کو اچھی طرح قائم رکھاتھا لیکن وحشی جنگجووٴں نے منظم فوجی دستوں کو بے ترتیب کردیاتھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ان کے پاس جنگ لڑنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں تھا جس کی وجہ سے صورحال میں خاصی ابتری آگئی تھی۔ایرانی جنگی جہازوں کا بیڑا بھی بہت زیادہ الجھاوٴ کا شکار تھا۔ فونیشائیوں(Phoenician) نے بادشاہ سے رابطہ کیا اور جنگی حکمت عملی میں ناکامی کا عذر سمجھانے کی کوشش کی اور اس بات کی شکایت کی کہ آیونیوں(Ionian)نے ہمیں دھوکہ دیا ہے، ان کے متعلق ایرانی جنگی جہازوں کے بیڑے میں افراتفری پھیل جانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ان کی بد قسمتی تھی کہ جب یہ بادشاہ کے پاس تھےتب آ یونی(Ionian) آبی جہاز اور ایتھیائی (Athenians)سہہ طبقہ جہاز کے درمیان لڑائی کا منظر نظر آیاجس کے دوران ایجنٹائی(Aiginetan)جہاز نے بھی دھاوا بول دیا تھا۔ آیونی(Ionians)جہاز کے سپاہیوں نے فوری طور پر ایجنٹائی جہاز پر تختے ڈال کراسے اپنے قبضے میں لے لیا ۔ ان کا یہ عمل ژرکسیز (Xerxes) کو اپنی وفاداری اور دلیری ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔ بادشاہ بہت زیادہ غصہ ہوگیا اور اس نے شکایت کرنے والے فونیشائی(Phoenician)سرداروں کے سر قلم کرنے کا حکم صادر کردیا۔دن کے آخر تک فارسی سہہ طبقہ جہاز افراتفری کے عالم میں خلیج فیلیرون(Phaleron)کی طرف واپس ہوگئے کیونکہ وہ سلامس(Salamis)سے یونانیوں کوپیچھے دھکیلنے کے مقصد میں ناکام ہوچکے تھے۔خلاف توقع یونانی اس جنگ میں کامیاب ہوگئے۔ ڈائڈورس(Diodoros)کے مطابق، یونانیوں کےچالیس (40)جہاز جبکہ ایرانیوں کے تقریباًدو سو(200)سے زائدبحری جہاز تباہ ہوئے تھے۔ یہ ان جہازوں کے علاوہ ہیں جنھیں ملاحوں کے ساتھ پکڑ لیا گیا تھا۔17باقی رہ جانے والے سہہ طبقہ جہاز منتشر ہوگئے جس کی وجہ سے بادشاہ ژرکسیز(Xerxes)کو اپنے زمینی منصوبے ایک سال تک روکنا پڑ ے اور وہ واپس ایران چلا گیا تھا۔

تھرمو پیلائے کا معرکہ

تھرموپیلائے کا معرکہ(The Battle of Thermopylae)یونانی(Greek) اور ایرانی فوج(Persian Army) کے مابین وقوع پذیر ہوانے والا اہم معرکہ تھا۔ یونانی فوج مختلف ریاستوں کے اتحاد پر مشتمل تھی۔اس فوج کا سپہ سالار اسپارٹا(Sparta) کا بادشاہ لیونائڈس (Leonidas)تھا جبکہ ایرانی فوج کی کمان ژرکسیز (Xerxes) کے ہاتھوں میں تھی۔یہ جنگ چار سو اسی (480 ) قبل مسیح میں تھرمو پیلائی (Thermopylae)کی گزر گاہوں پر لڑی گئی تھی۔ اسپارٹا کے بادشاہ لیونائڈس (Leonidas) نے آنے جانے کےراستے کو جس سے ژرکسیز (Xerxes)کی فوج کو گزرنا تھا مکمل طور پر بند کردیا تھا۔اس جنگ میں ایرانیوں نے یونانیوں سے جنگ میں کامیابی تو حاصل کرلی تھی لیکن انہیں یونانیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ نقصان بھی برداشت کرنا پڑا تھا۔ یونانی فوج کی تعداد تقریباً 8000کے قریب تھی جبکہ راستے پر مامور فوجیوں کی تعداد 7300کے قریب تھی۔18جدید مورخین کے مطابق ژرکسیز (Xerxes)کی زمینی فوج محتاط اعداد و شمار کے مطابق 80000کے قریب تھی۔19جب ایرانی فوج تھرموپیلائے(Thermopylae)کے داخلی حصے پر پہنچ گئی تو یونانیوں نے اراکین شوری کی مجلس بلائی۔ جس میں پیلوپونیزیوں(Peloponnesians)نے پانی اور خشکی کو ملانے والے حصے سے دستبردار ہونے اور صرف پیلوپونیسس(Peloponnesus) کی حفاطت کا مشورہ دیا ۔اس مقام سے قریب واقع فونیشیائی(Phoenicians) اور لوکرائنز (Locrians)ریاستیں اس فیصلے پر برہم ہوگئیں اورانہوں نے تھرموپیلائے(Thermopylae)کے دفاع کا مشورہ دیا اور مزید مدد کے لیے فوج بھیج دی۔اسپارٹا(Sparta)کے حکمران لیونائڈس (Leonidas)نے بھی اس منصوبے پر عمل کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔ جنگ سے پہلے، ژرکسیز (Xerxes)نے لیونڈاس(Leonidas)سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا لیکن لیونائڈس نے انکار کردیا تھا۔20 قدیم فوکینی فصیل (Phokian wall)انتہائی تباہ کن حالت میں تھی اسی لیے یونانیوں نے فوری طور پر اسے صحیح حالت میں لانے کے لیے کام شروع کردیا تھا۔ تھرموپیلائے(Thermopylae)میں ایرانی فوج کے پہنچنےکے بعد جنگ شروع ہونے میں چار(4) دن لگے۔ اسپارٹائی خاموشی کے ساتھ ایران کے سخت حملے کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنا وقت تربیتی مشقوں میں صرف کیا اور دیوار فوکین کے پاس اپنی فوج کو ترتیب دے دیا تھا۔ پہلے روزژرکسیز (Xerxes)نے میڈیائی(Median)اور کیسین(Kissian) سپاہی دستوں کو بھیجا لیکن جب وہ راستے کو صاف کرنے میں ناکام رہےتواس کے ناقابل تسخیر جنگجو جنگ میں شامل ہوگئے لیکن سخت گھمسان کی جنگ میں یونانی زیادہ ثابت قدم اور مستحکم رہے ۔ یونانیوں کی منتشر ہوکر دوبارہ مجتمع ہو کر حملہ کرنے اوردھوکہ دینے کی حکمت عملی نے دشمن فوج کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا تھا اور اس پر مزید تازہ دم دستوں سے حملہ آور ہونے کی تدبیر نے ایرانیوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ یونانیوں کو پیشہ ورانہ تربیت سے بہت فائدہ ہوا تھا۔جنگ کے دوسرے دن بھی وہی حکمت عملی اپنائی گئی اور راستے پر اپنا قبضہ برقرار رکھا گیا۔21 جنگ کو دو روز مکمل ہونے کے بعد بھی ایرانی(Persian) یونانیوں کو شکست دینے اور راستہ عبور کرنے میں مکمل ناکام رہے تھے۔ جنگ کا پانسہ اس وقت پلٹا جب مالین(Malian) سے تعلق رکھنے والےشخص ایفالائٹس (Ephalites)نے ژرکسیز (Xerxes)پر یہ انکشاف کیا کہ پہاڑوں کے درمیان ایک راستہ موجود ہے۔ اس جرم کی وجہ سے یونانیوں نے مالی شخص کو انتہائی اہم راز افشا کرنے پر غدار قرار دیا تھا۔22یہ راستہ ایرانی کیمپ کے مشرقی حصے سے انوپائے (Anopaea)کی لمبی پہاڑی کی ڈھلان کے پچھلے حصے کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے گزرگاہ کے بالکل قریب جا ملتا تھا۔یہاں سے ایک راستہ فوسس(Phocis) کی جانب اور دوسرا لوکرس(Locris)کے قصبے الپینس (Alpenus) کی جانب جاتا تھا۔یہ مالس(Malis)کی خلیج سےبھی جا ملتا تھا۔ اس خبر کے بعد لیونائڈس (Leonidas)نےہزار فوشین رضاکاروں کو راستے کی نگرانی کرنے کے لیے اونچائیوں پر تعینات کردیا تھا۔ تھرموپیلائے(Thermopylae) میں جنگ کے آخری دن کا آغاز ہوا،لیونائڈس (Leonidas)نے جنگی حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے مجلس شوری کا اجلاس بلا یا جس میں کچھ اتحادیوں کی جانب سے پیچھے ہٹنے کی تجویز پیش کی گئی لیکن بعض بھرپور مزاحمت کرنے پر رضامند تھے۔ لیونائڈس (Leonidas)نےسات سو(700)تھسپئنز (Thespians)اورچار سو(400)تھی بنز (Thebans) سپاہیوں کے علاوہ تمام اتحادیوں کو واپس ہوجانے کا حکم دے دیا۔ ہیروڈوٹس (Herodotus) کی رائے کے مطابق اس نے یہ محسوس کیا کہ کوئی بھی جنگ میں کودنا نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ اپنی قوت کے کمزور ہونے اور تقسیم کی خبر عوام میں پھیلانا نہیں چاہ رہاتھا۔ اس لیے اس نےتین سو(300)اسپارٹائی فوج کے ساتھ وہیں رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔23

لیونائڈس(Leonidas)نے بقیہ مسلح پیادہ سپاہیوں کو دشمن کی فوج روکنے کے لیے آگے بھیج دیا۔ دوسری طرف ژرکسیز (Xerxes)کی فوج کو عہد یداروں نے جنگ لڑنے پر مجبور کیا اور بعض نے بد دلی دکھانے والے سپاہیوں کو جنگ میں شامل کرنے کے لیے چابک کا بھی استعمال کیا تھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ میں لڑائی انتہائی وحشی اور خونی ہوگئی تھی۔ اس جنگ میں کثیر ایرانی(Persians) مارے گئے اور کچھ اپنے ہی ساتھیوں کے پیروں تلے کچلے گئے تھے۔ شروع میں مسلح پیادہ سپاہی نیزوں سے لڑے،لیکن جب نیزےٹوٹ گئے تو انہوں نے اپنی چھوٹی تلواروں سے لڑنا شروع کردیا تھا۔ مرنے والوں میں ژرکسیز (Xerxes)کے دو سوتیلے بھائی بھی شامل تھےجو ایرانیوں کے اگلے مورچوں میں دشمن سے برسرپیکارتھے۔آخر کار لیونائڈس (Leonidas)بھی زمین پر آگرا اور اس کا گرنا ایرانیوں اور اسپارٹائیوں کے لیے اختتام جنگ کا باعث بن گیا تھا۔

ایرانی بادشاہ جنگ جیتنے پر بہت زیادہ جنونی ہوگیا۔ اسے اسپارٹائی بادشاہ کی سرکشی کا شدید غصہ تھا۔ اس نے تھےبنس(Thebans)کے باشندوں کو غلام بنا لیا،انہیں اپنی سلطنت کے غلاموں کا نشان دیا اوران کے شہر پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے پاس لیونائڈس(Leonidas)کی تیروں سے چھلنی سر کٹی لاش بھی لائی گئی تھیں۔ ہیروڈوٹس (Herodotus)کے مطابق اس جنگ میں بیس ہزار (20،000)سپاہی مارے گئے تھے۔ 24

پلاٹائے کا معرکہ

پلاٹائے(Plataea) کا معرکہ ایرانی اور یونانی شہری ریاستوں کے مابین جنگوں کے تسلسل کا آخری معرکہ تھا۔ ایرانی بادشاہ آرتاژرکسیز (Artaxerxes) نے 479 قبل مسیح میں یونان پر چڑھائی کردی تھی۔سلامس (Salamis)میں شکست کھانے کے بعد، ژرکسیز (Xerxes)اپنی فوج سمیت انتہائی بیزار آگیا تھا اور ایران واپس چلا گیا تھا۔ کیونکہ سردیوں کے موسم کی آمد تھی اور ان کے پاس لمبی مدت کی جنگ لڑنے کےلیے وسائل موجود نہیں تھے اس لیے جنگ سے دستبردار ہونے سے پہلے اس نے مارڈونیوس (Mardonios)کو فوج کا سپہ سالا ر مقرر کردیا تاکہ عسکری مہم کا سلسلہ جاری رہے۔

مارڈونیوس ایک ہٹ دھرم لیکن بہادر انسان تھا۔ اس کے نام کا معنی قدیم ایرانی زبان میں "جانباز"تھا۔ مارڈونیوس کو جب اطلاع ملی کہ اسپارٹائی(Spartans) اس کے خلاف جنگی مہم چلا رہے ہیں تو اس نے اٹیکا (Attica) سے اپنی فوج ہٹا لی۔ ایتھنز (Athens) کو چھوڑنے سے پہلے مارڈونیوس (Mardonios) نے وہ سب کچھ تباہ و برباد کردیا جو شہر میں پہلے ایرانی معرکہ کے بعد بچ گیا تھا۔ہیروڈوٹس (Herodotus) نے اٹیکا سے ایرانی فوج کی دستبرداری کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حالات ،جنگی چالوں اور ایرانی گھڑ سوار فوجی دستوں کو جنگ میں شامل کرنےکے لیے مناسب نہیں تھے۔ 25

چار سو اناسی (479 )قبل مسیح کے موسم بہار میں ایرانی سہہ طبقہ جہازوں کا لشکر سیموس (Samos)میں جمع ہوا۔ جون میں ماروڈیوس نے تھسیلی(Thessaly)کی سردیوں کی قیام گاہ کو چھوڑ دیا اور بوئیوٹیا(Boeotia)کی حدود سے دستبردار ہوکر ایک مرتبہ پھر اٹیکا (Attica) پر حملہ کردیا اور دریائے ایسوپس(Asopus) کے شمال میں کثیر تعداد میں محفوظ قلعہ بند خیمے بھی نسب کردئیے تھے۔اسی اثنا میں یونانی سہہ طبقہ جہاز ایجینا(Aegina) کے مقام پر دوبارہ جمع ہوئے اور سفر طے کرتے ہوئے ڈیلوس (Delos)کے مقام پر لنگر اندازہو گئے اور زمینی فوج کو متحرک کردیا تھا۔جولائی کے مہینے میں اسپارٹائی فوج پلیٹائے کی جانب منتقل ہو گئی اوراپنے مورچے سنبھالنے سے پیشتر ایلیوسس (Eleusis) میں دیگر یونانی دستوں سے آملی تھی ۔ انہوں نےسات (7 )کلومیٹر طویل فوج کا مقدمہ بنایا جو ایرانیوں کے مخالف سمت میں تین (3) سےچار (4)کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔26 یہاں تعینات یونانی فوج کی کل تعداد 110000تھی۔ ان فوجی دستوں میں کم اسلحہ اور زیادہ اسلحہ سے لیس دونوں طرح کے سپاہی شامل تھے ۔اسپارٹائی فوج کے ساتھ کم درجہ کے شہری ہیلات (Helots) بھی شامل ہوگئے تھے جنھیں نسبتاً کم اسلحہ سے لیس کیا گیا تھا۔ہر اسپارٹائی فوجی کو سات(7)عدد ہیلات (Helots) پر مشتمل دستہ دیا گیا تھا۔ 27ہیروڈوٹس (Herodotus) نے ایرانی فوج کی قوت کے بارے میں جو تحریر کیا ہے کہ مارڈونیوس(Mardonios) کی کمان کے نیچے 300000جنگجو سپاہی شامل تھے۔ جدید اعداد و شمار کے مطابق ایرانی افواج کی تعدادتقریباً 150000سپاہیوں، جنگجوؤں اور رضاکاروں پرمشتمل تھی۔28 ایک موقع پر گھڑ سوار دستوں نے پوری یونانی فوج کے وسائل منتقل کرنے والےراستہ کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے علاوہ یونانیوں کے پاس پانی پینےکے لیے ایک گرگافیا نامی(Gargaphia) چشمہ تھا جسےایرانی فوج ناقابل استعمال بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔گھڑ سوار دستوں کے حملے دو ہفتوں تک جاری رہےاور بتدریج یونانیوں کے ترسیلی راستوں کو محدود کرتے گئے یہاں تک کہ پوسانیز(Pausanias) کے پاس اپنی فوج کو شہر پلیٹیا(Plataea) کے قریب کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھاکیونکہ وہاں پانی کے بہتر ذرائع اور اچھی غذا موجود تھی۔آخرکار ایرانی سپاہ سالار ماردونیوس (Mardonios) نے گھڑسوار دستوں کوبھیجنا شروع کردیا ۔ اس کا مقصد یونانیوں کی شدت کو کم کرنا اور ان کی قوت کو توڑنا اور پہاڑیوں کے اوپری مقامات کو چھوڑ کر نیچے آنے پر ابھارنا تھا۔گھڑ سوار دستوں نے میگاریوں (Megarians)کی کمزوری جان لی تھی لیکن ایتھنیائی مسلح پیادہ سپاہیوں اور تیر اندازوں کے بہترین سپاہیوں کو فوری طور پر طلب کیا گیااور انہوں نے کمانڈر میسس ٹیس (Masistius) کو قتل کرکے ایرانی حملہ پسپا کر دیا تھا۔29

پوسانیز(Pausanias) عقب سے متوقع حملے سے بچنے اور پانی کے چشمے تک پہنچنے کی غرض سے رات کی تاریکی میں یونانی فوجی مرکز کو سیتھائےرون(Cithaeron)کی پہاڑیوں کے دامن تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہ مقام پلیٹایہ (Palatea)کے بالکل سامنے واقع تھا۔ اسپارٹائیائی (Spartans) اور ٹیجینز (Tegeans)کی یونانی افواج نے ایرانیوں پر جوابی حملہ کیا ۔جب یونانی بائیں پہلو کی فوج اس کے دستوں میں شامل ہوئی تو عقب سے آنے والی تمام ایرانی فوجیں اپنے ہی مرکز میں قید ہوکر رہ گئیں۔ مزید براں ان کےنظم و ضبط میں بھی کافی کمی واقع ہوئی تھی اور آخر کار ناقص مورچہ بندی سے اپنا دفاع کرنے کی کوشش میں ایرانی افواج شکست کا شکار ہوگئی تھیں۔ ماردونیوس(Mardonius) آریمنیسٹس (Arimnestus) نام کےاسپارٹیائی فوجی کی جانب پھینکے گئے پتھر سے مارا گیا۔اس جنگ میں مسلح پیادہ سپاہیوں کا اعلی درجے کااسلحہ اور زرہ بکتر بھی زبردست عسکری ہتھیار ثابت ہوئے تھے۔بغیر قائد کے ایرانیوں کی قوت دم توڑ گئی اور وہ سب میدان جنگ سے بھاگ نکلےتھے ۔ہزاروں کی تعداد میں ایرانیوں کو بھاگتے ہوئے اور ان کے خیموں سے گرفتار کر کے ذبح کردیا گیا تھا۔ایرانیوں کو تھیےسلے (Thessaly) کے شمالی علاقے سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ یونان اور ایران کے مابین جنگیں کئی سال تک جاری رہیں لیکن اس کے بعد ایرانیوں نے کبھی دوبارہ یونان پر حملہ نہیں کیا ۔ اس جنگ میں ایرانیوں کے تقریباً تیس ہزار(30000) جوان مارے گئے تھے جبکہ یونانیوں کو دو ہزار (2000) فوجیوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ 30

معرکہ گاوٴگا میلہ

گاوٴگامیلہ کی جنگ مقدونی بادشاہ سکندر(King Alexander) اور ایرانی سلطان ڈیریس سوم(Darius III)کے مابین ہونے والا آخری فیصلہ کن معرکہ تھا جس کے نتیجے میں سکندر کو ایرانی بادشاہ پر قطعی فتح حاصل ہوگئی تھی۔ یہ معرکہ اربیلہ(Arbela) سے ساٹھ (60 )میل دور ایک مقام پر یکم اکتوبر 331 قبل مسیح میں لڑا گیا تھا۔31 ایسس (Issus)کے مقام پر جنگ میں ڈیریس (Darius)کو شکست دینےکے کے بعد سکندر نے ڈیریس سوم کی ماں، بیوی اور اس کی دو بیٹیوں کو قید کردیا تھا۔ ڈیریس سوم خود بابل بھاگ گیا تھاجہاں اس نے اپنی باقی رہ جانے والی فوج کو دوبارہ منظم کرنا شروع کردیا تھا۔ڈیریس نے متعدد ایلچی سکندر کی جانب اس پیشکش کے ساتھ بھجوائے کہ تم میرا اتحاد قبول کرلو اور بدلے میں شاہی خاندان کے افراد کو رہا کردو، لیکن اس تجویز کو سکندر نے مسترد کردیا تھا۔ بعد ازاں ، ٹائر (Tyre)کے محاصرہ کے دوران ڈیریس نے ایک ٹھوس پیشکش کی جو کہ شاہی خاندان کے افراد کی رہائی کے لیےدس ہزار (10000) ٹیلینٹ(talent) فدیہ،دریائےفرات کا تمام ایرانی مغربی حصہ، ڈیریس کی بیٹی سے شادی، اور آپس میں اتحاد کی پیشکش پر مشتمل تھا۔ تین سو اکتیس (331 ) قبل مسیح کے موسم بہار میں سکندر نے مصر سے کوچ کیاا ور ایران کی جانب پیش قدمی کی ابتدا کی۔ دوران سفر اس نے اپنا رخ دریائے فرات (Euphrates)کی طرف پھیر دیا جہاں وہ اگست کے ابتدائی ایام میں پہنچ گیا تھا۔وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ ڈیریس اس کا پہلےہی بابل شہر کے باہر جنوبی حصے میں ایک بڑی فوجی قوت کے ساتھ انتظار کررہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سکندر نے فرات کی طرف جانے کا ارادہ نہیں بدلا۔

دریا پر پل تعمیر کر کےسکندر کی فوج نے دریا عبور کرلیا تھا۔ سکندرنے اپنی فوج کا رخ شمال کی طرف پھیر دیا لیکن پھر مشرق کی طرف مڑ گیااور آرمینیائی (Armenian)پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پیش قدمی جاری رکھی تھی۔ ڈیریس نے بابل سے اپنی فوج کوشمال میں واقع دجلہ کی جانب منتقل کر دیا تھا ۔ اسے یہ گمان تھا کہ یہ علاقہ سکندر سے بچاوٴ کے لیے بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔32 بہت سوچ بچار کرنےکے بعد اس نے گوگامیلہ(Gaugamela) کے مقام کو اپنے اگلے اور ممکنہ طور پرسکندر کے ساتھ آخری معرکہ کے لیے چن لیا تھا ۔

ایرانیوں کی فوجی قوت بہت زیادہ تھی یہاں تک کہ ایک یونانی تاریخ دان ایرین (Arrian)کے مطابق فوج کی تعداددس لاکھ (1،000،000)کے لگ بھگ تھی، جدید مورخین کے مطابق ڈیریس کی فوجی قوت ایک لاکھ(100000) سے ڈیڑھ لاکھ(150000) کے درمیان تھی۔ ڈیریس کی تحریری ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانیوں کی مسلح افواج کی صف بندی بہت منظم انداز سےکی گئی تھی۔ ایرانیوں نے میدان جنگ کے درمیانی حصے میں اپنا پڑاوٴ کیا اور اپنی روایات پر عمل کرتے ہوئے ایرانی بادشاہ نے اپنے شاہی مصاحبین کے ساتھ نسبتاً اونچے مقام پر خیمہ نصب کیا تھا۔ دائیں جانب کی فوج شام (Syria)، میسوپوٹیمیا (Mesopotamia)اور خلیج فارس کے سپاہیوں پر مشتمل تھی جبکہ بائیں جانب کی فوجی قوت نسبتاً زیادہ جدید سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ سکندر کی فوج چالیس ہزار(40000)پیادہ اورسات ہزار(7000) گھڑسواروں پر مشتمل تھی۔33سکندر نے میدان جنگ کا جائزہ لینے کے لیے مختصر فوج کے دستوں کے ساتھ اونچے پہاڑوں سے نیچے نظر دوڑائی اور ڈیریس(Darius) کی فوجی تنظیم کا جائزہ لیا۔ جنگ شروع ہونے سے ایک روز پہلے سکندر نے اپنے جرنیلوں کی مجلس منعقد کی جس میں فوج کے بائیں جانب کے عہد یدار پرمینیو(Parmenio) نےمشورہ دیا کہ ڈیریس کی فوج کے بڑے حصے پر رات میں ہی حملہ کردیا جائے لیکن سکندر نےاس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ سکندر اور اس کے ساتھ شامل گھڑ سوار دستوں نے دائیں جانب عسکری تنظیم کی جبکہ پرمینیو نے بائیں جانب کی کمان سنبھال لی تھی۔ درمیان میں موجود میسیڈونیائی(Macedonian) فوجی دستے انتہائی تربیت یافتہ سپاہیوں پر مشتمل تھے۔ ان کے ساتھ نسبتاً کم اسلحہ سے لیس سپاہی اور تیر انداز بھی موجود تھے۔34دونوں عسکری قوتیں آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب ہوتی چلی گئیں۔دونوں جانبین کو کمانداروں کی جانب سےبہت ناپ تول کر نقل و حرکت کرنے کی ہدایات تھیں۔میدان جنگ کا کھلا اور وسیع میدان ڈیریس(Darius) کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند تھا کیونکہ اس کو اپنے بہترین جنگجووٴں کو میدان جنگ میں پھیلانے کا بھرپور موقع مل گیا تھا۔ ایرانی فوج نے سکندر(Alexander)کی فوج کو ایک جانب سے مکمل گھیرے میں لے لیا لیکن وہ اپنے گھڑ سوار دستوں کو میدان جنگ کے سیدھی جانب لے گیا ۔ سکندر کی حکمت عملی یہ تھی کہ اسے ایرانیوں کی بائیں جانب سخت حملہ کرنا تھا جبکہ پیادہ سپاہیو ں کومرکزی حصے پر حملہ کرنا تھا۔ لیکن گوگامیلہ کی جنگ میں سکندر کے پیادہ سپاہیوں کو مرکزی حصے پر حملہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ میدان جنگ میں منتشر ہونے کے بجائے ڈھال بردار سپاہیوں (Hypaspists)نے براہ راست گھڑسوار دستوں کے ساتھ ہی حملہ کردیا اور بقیہ نیزہ بردار سپاہیوں(Pezhetairoi)نے ان کے ساتھ مل کر جوش کے ساتھ بھرپورحملہ کیاجس سے دشمن کے حملے سے زخمی ہونے والے فوجی دستے تیزی سے نکلتے چلے گئے تھے جس سے میدان جنگ میں بہت بڑا خلا بن گیاتھا ۔35سکندر نےجب میدان جنگ میں خلا بنا دیکھا تو فوری طور پراس نے فوج کو آگے بڑھایا اور اس خلا میں گھس گیا اور فوجیوں کی قطاروں کو چیر کر ایرانی فوج کے مرکزی حصے کی سمت اپنی فوج کو پھیردیا اور سیدھا ڈیریس کی جانب پیش قدمی شروع کردی ۔ڈیریس اس صورتحال سے خوف زدہ ہوگیا اور میدان جنگ سے بھاگ نکلا۔ 36بعد ازاں ڈیریس کو اس کی فوج کے ایک صوبیدار نے قتل کردیا تھا اور یوں سکندر نے ایرانی سلطنت کے دارالخلافہ بابل کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا ۔ سکندر کی فتح کے ساتھ ہی کورش دوم (Cyrus-II) کی بنائی ہوئی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور یوں سکندر شمال مغربی ایشیا کا بھی حکمران بن گیا تھا ۔ اس جنگ میں میسیڈونیائی فوج کے سات سو (700) جوان جبکہ ایرانیوں کے بیس ہزار (20000) سپاہی مارے گئے تھے۔37

پیش کردہ جنگی تفصیلات و عسکری حکمت عملیوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فارس کا عسکری نظام مظبوط ضرور تھا لیکن ان کی افواج میں وہ حکمت عملی اور جنگی فراصت موجود نہ تھی جو سکندر اعظم جیسے فوجی سالار نے اپنی فوج میں پیدا کی تھی۔ اس کے علاوہ ااہل فارس کی جنگیں بھی دیگر بڑی اقوام کی جنگی تفصیل کی مثل نفس پرستی، دنیاوی جاہ و منصب اور اقتدار کے حصول کے لیے ہی لڑی گئی تھیں جن کے لڑے جانے سے نہ تو کسی غریب کو کبھی کوئی فائدہ پہنچا اور نہ ہی کسی بیوہ یا کمزور کو کوئی نفع حاصل ہوسکا۔ وہ تمام کی تمام جنگیں دنیاوی منفعت اور چند لوگوں کی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ہی لڑی گئیں تھیں جس کا نتیجہ وقتی دنیاوی کامیابی تو ضرور ہوسکتا تھا مگر دائمی و اخروی بربادی اس کے ساتھ ملحقہ تھی جس کو اسلام کے آنے سے قبل اہل فارس سمجھنے سے دوسروں کی مثل یکسر قاصر تھے۔

 


  • 1 Nick Sekunda & Simon Chew (1992), The Persian Army 560-330 B.C., Osprey Publications, London, U.K., Pg. 5.
  • 2 S. V. Sohoni (1957), Annals of Bhandarkar Oriental Research Institute: Samudragupta’s Expedition Against Persia (356-362 A.D.), Bhandarkar Oriental Research Institute, Maharashtra, India, Vol. 38, No. 3-4, Pg. 219.
  • 3 Ilkka Syvanne (2017), Historia I Swiat: Parthian Cataphract vs the Roman Army 53 B.C.- 224 A.D., Instytut Histori Stosunkow Międzynarodowych Warszawa, Poland, Issue: 6, Pg. 34-36.
  • 4 John Curtis & Nigel Tallis (2005), Forgotten Empire: The World of Ancient Persia, The British Museum Press, London, U.K., Pg. 216.
  • 5 Fariborz Haghshenass (2008), Iran’s Asymmetric Naval Warfare, The Washington Institute for Near East Policy, Washington, USA, Pg. 4.
  • 6 Vladmir A. Dimitriv (2017), The International Journal of Maritime History: The Sassanian Navy Revisited, An Unwritten Chapter in Iran’s Military History, Sage Publishing, New York, USA, Vol. 29, Pg. 727.
  • 7 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/event/Battle-of-Marathon Retrieved: 05-02-2019
  • 8 Philip de Souza (2003), Greek and Persian Wars 499-386 B.C., Osprey Publications, London, U.K., Pg. 32.
  • 9 Philip de Souza (2003), Greek and Persian Wars 499-386 B.C., Osprey Publications, London, U.K., Pg. 32.
  • 10 Jack Cassin-Scott (1977), The Greek and Persian Wars 500-323 B.C. Osprey Publications, London, U.K., Pg. 7.
  • 11 Dr. Kaveh Farrokh (2002), Shadows in the Desert, Osprey Publications, London, U.K., Pg. 72.
  • 12 Jack Cassin-Scott (1977), The Greek and Persian Wars 500-323 B.C., Osprey Publications, London, U.K. Pg. 9.
  • 13 Ibid, Pg. 15.
  • 14 Encyclopedia Britannica (Online): https://www.britannica.com/event/Battle-of-Salamis Retrieved: 07-02-2019
  • 15 William Shepherd (2010), Salamis 480 B.C., Osprey Publications, London, U.K., Pg. 38.
  • 16 Philip de Souza (2003), Greek and Persian Wars 499-386 B.C., Osprey Publications, London, U.K., Pg. 65.
  • 17 H.T. Wallinga (2005), Xerxes Greek Adventure, Brill Leiden, Leiden, Netherlands, Pg. 129.
  • 18 G.B. Grundy (1901), The Great Persian Wars and Its Preliminaries, William Clowes and Sons, London, U.K., Pg. 273.
  • 19 Nic Fields (2007), Thermopylae 480 B.C., Osprey Publications, London, U.K., Pg. 55.
  • 20 New World Encyclopedia (Online Version): http://www.newworldencyclopedia.org/entry/Battle_of_Thermopylae Retrieved: 08-02-2019
  • 21 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/thermopylae/ Retrieved: 08-02-2019
  • 22 George Grote (1849), History of Greece, Richard and John E. Taylor, London, U.K., Vol. 5, Pg. 18.
  • 23 Nic Fields (2007), Thermopylae 480 B.C., Osprey Publications, London, U.K., Pg. 80.
  • 24 Philip de Souza (2003), Greek and Persian Wars 499-386 B.C., Osprey Publications, London, U.K. Pg. 57.
  • 25 Periklis Deligiannis, The Battle of Plataea, 479 BC: Strategy, Tactics, Opposing Armies, Strategic and Battlefield Maneuvers, Analysis of The Conflict, Published by Author, Athens, Greece, Pg. 2-3.
  • 26 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Plataea/ Retrieved: 09-02-2019
  • 27 William S. Snyder (1915), Military Analysis of Greece, The Gorham Press, Boston, USA., Pg. 403.
  • 28 Periklis Deligiannis, The Battle of Plataea, 479 BC: Strategy, Tactics, Opposing Armies, Strategic and Battlefield Maneuvers, Analysis of The Conflict, Published by Author, Athens, Greece, Pg. 8-9.
  • 29 William Shepherd (2012), Plataea 479 B.C, Osprey Publications, London, U.K. Pg. 55.
  • 30 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/event/Battle-of-Plataea Retrieved: 10-02-2019
  • 31 Encyclopedia Iranica (Online Version): http://www.iranicaonline.org/articles/gaugamela- Retrieved: 10-02-2019
  • 32 Arther Ferrill (1997), Origin of War, West View Press, Colorado, USA., Pg. 207.
  • 33 Ruth Sheppard (2008), Alexander The Great at Wars, Osprey Publications, London, U.K., Pg. 173.
  • 34 Ancient History Encyclopedia: https://www.ancient.eu/Battle_of_Gaugamela: Retrieved: 10-02-2019.
  • 35 Waldemar Heckel (2002), The Wars of Alexander the Great: 336–323 BC, Part III, Osprey Publications, London, U.K., Pg. 225.
  • 36 Arther Ferrill (1997), Origin of War, West View Press, Colorado, U.S.A. Pg. 210.
  • 37 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/event/Battle-of-Gaugamela: Retrieved: 10-02-2019