منفرد بُودو باش، وسائلِ زندگی، نظریہ حیات اور سیاسی و مذہبی رجحانات و مصلحتوں کے پیشِ نظر ہر قوم جداگانہ طرزِ زندگی اختیار کرتی ہے۔طرزِ زندگی پر ماحول ، ذریعہ معاش اور وسائل کا بھی بڑا گہرا اثر ہوتا ہے،نیز رسوم و رواج اور مذہبی تہوار بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ایک جداگانہ طرزِ زندگی وجود میں آتی ہے۔ قدیم فارس کی ثقافت کا شمار بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ فارس کا معاشرہ مذہبی پیشواؤں کے گرد گھومتاتھا ۔ یہ معاشرہ مختلف طبقات میں منقسم تھا اور ان طبقات کے درمیان واضح فرق تھا۔ فارسی معاشرے میں اول درجہ بادشاہ کا ہوا کرتا اور اس کے ماتحت فارسی قابل قدر خاندانوں کے نمائندے ہوا کرتے تھے۔ قدیم فارس میں شاہی خاندانوں کے افراد عیش و عشرت کی زندگی میں مستغرق رہتے تھے ۔معاشرتی معاملات میں انہیں زیادہ دلچسپی نہیں ہوا کرتی تھی۔ان میں نچلے طبقوں ، خاص طور پر غلاموں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ اور ہتک آمیزسلوک روا رکھا جاتا تھا، اس کے علاوہ عورتوں کو فقط اولاد کے حصول اور جنسی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ الغرض طبقاتی تقسیم ، امراء کی شاہانہ زندگی ، عوام کی خستہ حالی، نکاحِ محرمات جیسی رسومات کی بنیاد پر فارس منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے۔ اس میں بھی تقریباً وہی امراض پائے جاتے تھے جنہوں نے رومی معاشرت کے جسد اجتماعیت کو کھالیا تھا کیونکہ سکندر اعظم کے فارس پر حملے کے بعد طبقاتی تقسیم عروج پر ہوچکی تھی اور اجتماعی احساس مجروح ہوچکا تھا:
فانه منذ ان فتح الاسکندرالمقدونی ارض فارس، والمجتمع الفارسی فى اضطراب مستمر، وان الاسکندروان لم یدم حکمه طویلا في فارس الا ان اثرہ استمعر طویلاً، وھذا الاثر ھو حل الوحدة الفارسیة قدجزا البلاد بین اشرافھا، فجعل علي كل مقاطعه شریفا یحکمھا، ویستقل بحوزتھا، وبذلک تفرقت فارس سیاسیاً، ومع التفرق السیاسی كان التفریق الاجتماعي .1
دراصل سکندر مقدونی کے حملے کے بعد کم از کم اثر یہ ہوا کہ فارسی معاشرے کی اجتماعیت ختم ہوگئی کیونکہ اس نے سلطنت فارس کے مختلف حصوں پر اشراف کو مسلط کردیا تھا اور یہ سیاسی تفرقہ معاشرتی انتشار کا باعث بنا۔ گو بعد میں سیاسی وحدت کی کوئی صورت بن گئی تھی لیکن معاشرتی انتشار بدستور قائم تھا۔ معاشرتی استحکام زوال پذیر ہونے کے باعث فارسی معاشرہ عجیب تضادات کا شکار ہوگیا تھا۔ 2
ساسانی اوستا(Sasanian Avesta) اور اسلامی مؤرخین کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ملت فارس پانچ طبقوں پر مشتمل تھی۔ ایک طبقہ مذہبی علماء کا،دوسراملکی محافظوں کا، تیسراکسانوں کا،چوتھا صنعت کاروں کااور پانچواں دبیروں کا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ واضح تقسیم یہ تھی کہ فارسی معاشرہ دو بڑے واضح طبقات میں منقسم تھا ۔
(الف) اوّل وہ طبقہ تھا جن کے ہاتھوں میں تمام ملک کی دولت سمٹ کر آگئی تھی جو ملکی دولت پر قابض تھے، ہر چیز کے مالک تھے۔ یہ مراعات یافتہ طبقہ وہ تھا جسے پورے ملک کی ملکیت سونپ دی گئی تھی حتیٰ کہ عوام الناس بھی عملاً ان کی ملک قرار پائے۔ اس طبقے میں بالعموم درج ذیل اقسام کے لوگ شامل تھے:
پورے ملک کی دولت کا ارتکاز ان کی تجوریوں میں ہوچکا تھا ان کے احوال چند نکات کی شکل میں درج ذیل ہیں۔
اہل فارس طبقاتی کشمکش کی جس استحصالی جنگ کا شکار ہورہے تھے اس کے فریقین میں سے مستبد، جابر، استحصالی اور حکمران طبقہ کس کروفر، شان و شوکت، طاقت و قوت، عیش و عشرت کا حامل تھا اور اس کے اختیارات کس قدر زیادہ تھے اس کا انداز گذشتہ سطور سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ 4ملک کے سیاہ و سفید کے مالک یہ طبقات اونچی نسل اور اعلیٰ نسب سے تعلق رکھتے تھے۔ اونچی ذات کے یہ لوگ نیچی ذات کے لیے ایک طرح سے ان کی جانوں کے مالک کی حیثیت رکھتے تھے۔
(ب) یہ محرومین کا طبقہ تھا جس میں وسیع پیمانے پر عوام الناس آتے تھے۔ یہ طبقہ بالعموم درج ذیل پیشہ کے حاملین پر مشتمل تھا۔
ان کے حالات درج ذیل تھے:
ان کا مقدر محرومی اور غربت و افلاس کے ساتھ ایسے جوڑ دیا گیا تھا کہ یہ خود اپنے لیے بھوک اور ننگ کے علاوہ اور کسی چیز کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی نسلوں سے اچھے دنوں کے خواب دیکھنے کا ہنر بھی چھین لیا گیا تھا۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر ایسا کوئی خواب دیکھا تو نتیجہ سوائے موت یا حسرت کے اور کچھ نہیں ہوگا۔7
فارسی معاشرے کی عمارت دوستونوں پر قائم تھی ، ایک نسب اور دوسری جائیداد۔ طبقہ نجباء(شرفاء)اور عوام الناس کے درمیان نہایت محکم حدودقائم تھیں۔ دونوں کی ہر چیز میں امتیاز تھا، سواری ،لباس ،مکان ،باغ ، خدمت گاروں یہاں تک کہ عورتوں میں بھی یہ تفاوت موجود تھا۔
نجباء کو عام پیشہ و ملازمین سے جو چیز ممتاز کرتی تھی وہ ان کی سواری کی شان وشوکت اور ان کے لباس اور ساز وسامان کی چمک دمک تھی ،ان کی عورتیں اپنے ریشمی لباس سے پہچانی جاتیں ، ان کے سربفلک محل ،ان کی پوشاک ،ان کے جوتے اور پاجامے ، ان کی ٹوپیاں، ان کا شکار اور ان کے دوسرے امیرانہ شوق ،غرض ہر چیز ان کی اعلی نسبی کا پتہ دیتی تھی۔امراء ونجباء کے خاندان کی پاکی نسب اور ان کی غیر منقولہ جائیدادوں کی محافظت قانون کے ذمے تھی ،اس بارے میں شاہی خاندان کے متعلق فارس نامےمیں آئین نامگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ شاہان فارس کے ہاں رسم تھی کہ وہ تمام غیر ممالک مثلاً چین،ترکستان،روم ،ہندوستان کے بادشاہوں کی بیٹیوں سے شادیاں کرلیتے تھے لیکن اپنی کوئی بیٹی کسی بادشاہ کو نہیں دیتے تھے ،وہ اپنی بیٹیوں کی شادیاں صرف اپنے خاندان کے لوگوں سے کرتے تھے ،ممتاز خاندانوں کے نام سرکاری رجسٹروں میں درج رہتے تھے ،جن کی حفاظت سلطنت کا فرض تھا، حکومت کی طرف سے عوام الناس کو ممانعت تھی کہ وہ طبقہ امرامیں سے کسی کی جائیدادکو خرید سکیں ۔ 8
معاشرے میں ہر شخص کےلیے ایک معین مقام تھا ، ساسانی (Sassanian)سیاست کا یہ محکم اصول تھا کہ کوئی شخص اپنے رتبہ سے بلند تر رتبہ کاہرگز خواہاں نہ ہو جو اس کو پیدائشی طور پر ازروئے نسب حاصل ہے ۔اعلیٰ طبقہ کے افراد کو خصوصی مراعات حاصل تھیں ۔ان کی عالی نسبی اور ان کی غیر منقولہ جائیداد وں کو نقصان پہنچانے یا ان کو اپنے نام منتقل کرانے کی کسی کو اجازت نہ تھی بلکہ ان چیزوں کی حفاظت ان سے زیادہ حکومت کی ذمہ داری تھی ۔ شاہان فارس کو اپنی نسبی بلند ی کا اس قدر شدید احساس تھاکہ وہ صرف اپنی رعایا سے ہی اپنے آپ کو بالاتر نہیں سمجھتے تھے بلکہ دوسرےآزاد ممالک کے حکمرانوں کو بھی اپنا ہم پلہ خیال نہ کرتے تھے بلکہ انہیں اپنے سے فروتر سمجھتے تھے ۔9
فارس میں خاندان کا سربراہ مرد ہوا کرتا تھا۔ ہیروڈوٹس(Herodotus) لکھتا ہے کہ قدیم فارسی حکمرانوں کا یہ نظریہ تھا کہ "مرد کی بڑائی اس بات سے بخوبی ظاہر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیٹوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کے بغیر کون ہے جو زیادہ بیٹے دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ بادشاہ ہر سال اسے تحفہ دیتا ہے۔"زیادہ بیٹوں کا مطلب زیادہ سپاہی، اور اس کے علاوہ نرینہ اولاد سے ہی خاندان کے نام کی بقاء ہوتی تھی۔ ساسانی (Sassanian)دور کے شواہد سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ گھر کا سربراہ شوہر ہوا کرتا تھا۔ قانون کے مطابق اس کی بیوی اور بچوں پر اس کی عزت و تعظیم کرنا لازم تھی۔ اس کے بدلے شوہر پر بھی کچھ خاص ذمہ داریاں تھیں۔ اسے اپنی بیوی کا پوری زندگی ساتھ نبھا نا لازم تھا۔ اگر کوئی شوہر بیوی کو مناسب غذا فراہم نہیں کرتا تو بیوی کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چرا کر کھانے کا اختیار تھا ، اس صورت میں شوہر کو سزا کا حقدار ٹھہرایا جاتا تھا۔ اگر کسی کا شوہر انتقال کرجاتا تو ایک شخص کو خاندان کےسربراہ کے طور پر بیوی بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کی ذمہ داری سونپ دی جاتی تھی۔ زیادہ تر خاندان کا سربراہ بالغ بیٹے یا قریبی رشتہ داروں میں سے کسی شخص کو مختص کرلیا جاتا تھا، اس کے علاوہ خاندان کے باہر سے بھی کوئی شخص ذمہ داری اٹھا سکتا تھا۔ باپ پر بیٹیوں کی پرورش کی ذمہ داری ان کی شادیوں تک اور بیٹوں کے بالغ ہونے تک ہوا کرتی تھی۔ بعض مواقع پر باپ پر ہی بیٹیوں کے لیے جیون ساتھی کو چننے کا اختیار ہوتا تھا۔ جوان بیٹیوں کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار بھی حاصل تھا۔
قلعہ بند پرسیپولس (Persepolis) کی تختیوں میں یہ بات کندہ ہے کہ بڑوں کی طرح بچےبھی ریاست کے لیے کام کیا کرتے اور بدلے میں انہیں ضرورت کے مطابق مناسب غذا فراہم کی جاتی تھی، لیکن بڑوں کے مقابلے میں بچوں کو نسبتاً کم غذا فراہم کی جاتی تھی۔ ماں کو اولاد ہونے کی صورت میں اضافی خوراک فراہم کی جاتی اور اگر اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوتی تو اسے زائد منفعت سے بھی نوازا جاتا تھا۔ ہیروڈوٹس(Herodotus) لکھتا ہے کہ لڑکے اپنی ماں اور دیگر خواتین رشتہ داروں کے ساتھ پانچ سال کی عمر تک رہا کرتے تھے۔ اس کے بعد باپ کے ساتھ ہنر اور دیگر فنون سیکھنے کی غرض سے باہرجایا کرتے تھے۔ 10
قدیم فارسی لوگ کھلے مزاج کے حامل تھے۔وہ کسی بھی قوم کی رسوم کو اختیار کرنے میں کوئی شرم و عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ جوں ہی انہیں کسی قسم کی عیاشی کا سامان یا طریقہ کار کا علم ہوتا بغیر کسی تاخیر کے اسے اپنا لیا کرتے تھے؛اور یوں دیگر تجارتی تعلقات سے انہوں نے خلاف فطرت جنسی تعلق قائم کرنا یونانیوں سے سیکھ لیا تھا۔ فارسی متعدد بیویاں رکھنے کے عادی تھے اس کے علاوہ کثیر تعداد میں داشتہ عورتیں بھی رکھا کرتے تھے۔11 جب کبھی برابر مرتبے کے حامل کسی شخص سے ملاقات کرتےتو بغل گیر ہوکر آپس میں ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوماکرتے تھے۔ بڑے رتبہ والے اشخاص کو خاص عزت سے نوازا جاتا اور اس کے برعکس کم حیثیت کے افراد سے گالوں کو مس کیاجاتا تھا، اس کے علاوہ عوام الناس سے سر جھکا کر ملا کرتے تھے۔ فارسی راستے میں لوگوں کے سامنے کھانے پینے، تھوکنے اور ناک صاف کرنے کو بد تہذیبی گردانتے تھے۔ 12
زرتشت کے دور میں عورت کا بہت بلند مقام تھا۔ وہ آزادانہ طور پر سفر کرسکتی تھی، اس کے علاوہ جائیداد بھی رکھ سکتی تھی، اپنے شوہر کے معاملات اس کے نام سے نہ صرف چلا سکتی تھی بلکہ تحریری معاملات میں بھی اس کا ہاتھ بٹا تی تھی لیکن شہنشاہ ڈیریس (Darius) کے دور کے بعد عورت کا مقام تنزلی کا شکار ہوتا گیا، خاص طور پر طبقہ امرا ءمیں عورت کی وہ حیثیت نہ رہی تھی۔13
اعلی درجہ کی عورت جیسےملکہ اور بادشاہ کی ماں اپنے معاملات اور فیصلہ لینے میں سب سے زیادہ خود مختار ہو اکرتی تھیں۔ یونانیوں کی بیان کردہ تفاصیل کے مطابق ہخا منشی (Achaemenid)سلطنت کے دور میں عورت ریاست کے امور میں مردوں کے ماتحت کام کیا کرتی تھیں۔ ہیروڈوٹس(Herodotus) کے مطابق فارسی عورت اور مرد عوامی تقاریب اور دیگرتہواروں میں ساتھ ہوا کرتے تھے، اس کے علاوہ ریاستی معاملات میں بھی ایک ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ امیر گھرانوں کی عورتیں تعلیم حاصل کرسکتی تھیں، گھڑسواری میں حصہ لے سکتی تھیں، اور سرکاری تہوار مثلاً بادشاہ کی سالگرہ کی تقاریب وغیرہ میں بھی شامل ہو سکتی تھیں۔ 14
آشوریوں(Assyrian) کے دور میں عورتیں بادشاہوں کے حرم کی زینت بھی ہوا کرتی تھیں۔ ہخامنشی (Achaemenid)بادشاہوں کی متعدد بیویاں ہوا کرتی تھیں۔ اس دور میں اولاد پیدا کرنے والی فارسی عورت کو بہت زیادہ سراہا جاتا تھا کیونکہ بچوں کا حصول ان کے لیے خاص اہمیت کا حامل تھا۔ بعض عورتیں شکار پر جانے والے مردوں کی معاونت کے لیے ساتھ جایا کرتی تھیں، اس کے علاوہ شراب پلانے اور رنگا رنگ لباس میں ملبوس ہوکر عیاشی کے لیے بھی استعمال ہوا کرتی تھیں۔
عام عورتیں مرد کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں اور ان کی ایک خاص قیمت ہوا کرتی تھی۔ عورتوں کو ایک ایسی مخلوق بھی سمجھا جاتا تھا جو معاشرے میں تباہی و بربادی لانے کا سبب ہے۔ وسطی دور کی زرتشی تحاریر میں عورتوں کو باعصمت لباس پہننے کی تلقین کی گئی تھی۔ ان پر اپنے سر اور پیروں کو چھپانا لازم تھا۔عام عورت کے لیے چہرے کی زیبائش کرنا اور وِگ کا استعمال سختی سے منع تھا۔ اگر کوئی عورت حیض کے دورانیے سے گزر رہی ہو تو اسے روز مرہ کے معمولات جیسے کھانا پکانا، صفائی ستھرائی کرنا، مقدس آگ کے قریب جانا سختی سے منع تھا۔ ایسی عورت جس نےایام حیض میں کسی مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرلیا ہو ، موت کی سزا کی حقدار ٹھہرتی تھی۔ مردوں پر عورتوں کے خاص ایام میں ان سے دور رہنا لازم تھا، کیونکہ ایسی عورتوں کو چھوت والی اور ہر جاندار کے لیے انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا تھا۔ حمل ضائع کرنا گناہ تصور کیا جاتا تھا اور ایسی عورتوں کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔15
ساسانی (Sassanian)معاشرے میں مثالی وکامل ایسی عورت کو تصور کیا جاتا جس کا قد درمیانہ ، سینہ چوڑا، سر ، سرین اور گردن بالکل مناسب اور خوبصورت ہوں، ٹانگیں چھوٹی ، نازک کمر، پیروں کی ایڑھیاں گول، لمبی انگلیاں اور ہاتھ پاؤں نرم و ملائم اور فربہ ہوں ۔ ان کے سینے گول ہوں ، جسم سر سے لے کر پیروں تک برفی سفید، رخسار اناری لال اور آنکھیں بادامی شکل کی، ہونٹ مرجان نما، قوسی بھنویں، دانت سفید چمکدار اور خوبصورت، بال سیاہ چمکیلےاور لمبے ہوں۔16
ساسانی (Sassanian)دور میں عورت کا مقام کمتر تھا۔ شاہی گھرانے کی عورت ایک خاص قسم کا برقع پہنا کرتی تاکہ عام لوگ اسے پہچان کر قریب نہ آسکیں۔امیر گھرانوں کی عورتیں باہر کام نہیں کیا کرتی تھیں، کیونکہ مردوں کا مقصد ان سے صرف اولاد کا حصول ہوا کرتاتھا۔ دیہاتی اور غریب شہری عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ معاش کے لیے بھی کام کیا کرتی تھیں۔ ایسی عورتیں قالین بانی، کپڑے بننےاور سینے کا کام کیا کرتی تھیں۔فارس کی تجارت میں ان کا بنیادی کردار ہوا کرتا تھا، ان کے بنائے گئے قالین اور کپڑے فارس کے ارد گرد تمام علاقوں میں اہم مال تجارت سمجھے جاتے تھے۔
عام طور پرحفاظتی قوانین کی رو سے عورتوں، غلاموں او ربچوں کو ایک ہی طبقہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ تاریخ دانوں نے اس امر کی وضاحت یوں کی ہے کہ اس دور میں عورتوں کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ"عورتیں بیوقوف ہوتی ہیں، ان کو اپنے راز کبھی مت بتانا"۔ 17
اوستا (Avesta)میں مہذب عورت کی خوبیاں یوں بیان کی گئی ہیں کہ:" ایک باوقار عورت اچھے خاندان کی ہو، وفادارہو اور اس کی دیانت داری عوام الناس میں مشہور ہو۔ نیک طبیعت ہو، گھریلو امور کی انجام دہی بہتر انداز میں کرسکتی ہو، باعصمت ہو اور اپنے باپ ، آباء اور شوہر کی سردار یعنی سالار کی حیثیت سے عزت کرنے والی ہو اور اس کے علاوہ خوب صورت اور مناسب جسم کی مالک ہو۔" ان خصوصیات کی حامل بہترین عورتیں تصور کی جاتی تھیں۔ 18
فارس میں یہ رسم رائج تھی کہ جب کوئی لڑکی نو(9) سال کی عمر کو پہنچ جاتی اور لڑکا پندرہ (15)برس کا ہوجاتا تو ان کی شادی کرنے لیے اقداما ت کا آغاز ہوجاتا تھا۔ اس کے لیے جیون ساتھی کا چناؤماں باپ کیا کرتے تھے۔ یہ عمر نکاح کے لیے موزوں تصور کی جاتی تھی، ان کے نزدیک یہ تصور قائم تھا کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد جنت میں ہماری یہی عمریں ہوں گی۔ بیوی پر لازم تھا کہ دن میں تین مرتبہ شوہر کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے اور اس سے دریافت کرے کہ" آپ کی کیا خواہش ہے اور میں آپ کو کیسے خوش کرسکتی ہوں؟"
زرتشی قوانین کی رو سے نکاح کی متعدد اقسام تھیں اور ایک اندازے کے مطابق پانچ طریقوں سے نکاح ہوا کرتا تھا۔ پہلے طریقہ جس میں عورت اپنے ماں باپ کی رضامندی سے شادی کرے اور ایسے ازدواج کے نتیجے میں جو اولاد ہوتی وہ اگلے جہان میں بھی اسی کی اولاد ہوگی، ایسی عورت پسندیدہ بیوی کہلاتی تھی۔ نکاح کی دوسری قسم وہ ہوتی جس میں بیوی سے صرف ایک ہی اولاد ہوتی اور ایسی عورت کو ایک بچے والی بیوی کہا جاتا تھا، اگر وہ بچہ اپنے ماں باپ کو دے دیتی تاکہ بیٹی کے رخصت ہونے کی وجہ سے اولاد کی جو کمی پیدا ہوگئی ہے وہ پوری ہوجائے، تو یہ بھی پسندیدہ عورت کے درجے میں شامل ہوجایا کرتی تھی۔تیسری قسم ایسی شادی کو کہا جاتا تھا جس میں ایسا مرد جو شادی کی عمر کو پہنچا لیکن بغیر نکاح کے مرگیا ہو، اور اس مرد کے ماں باپ جہیز کسی اجنبی عورت کو دے کر کسی اجنبی سے اس عورت کا نکاح کردیں، ایسی عورت مرے ہوئے مرد کی لے پالک بیوی شمار کی جاتی تھی، اس نکاح کے ذریعے ہونے والی اولاد آدھی مرے ہوئے شخص کی تصور کی جاتی تھی، مزید یہ کہ اگلے جہان میں آدھی بیوی مرے ہوئے شخص کی اور آدھی موجودہ شوہر کی ہوگی۔نکاح کی چوتھی قسم اسے کہا جاتا جس میں بیوہ دوبارہ کسی شخص سے شادی کرے، ایسی عورت خادم بیوی کہلاتی تھی، اگر اس کی پہلے شوہر سے کوئی اولاد نہ ہوتی تو وہ لے پالک بیوی تصور کی جاتی تھی، دوسرے شوہر سے ہونے والی اولاد کی آدھی نسبت پہلے شوہر سےہوتی کیونکہ اگلے جہان میں اسے پہلے شوہر کی بیوی ہی بننا تھا۔ نکاح کی پانچویں قسم اسے کہتے جس میں عورت اپنے ماں باپ کی مرضی کے بغیر کسی مرد سے شادی کرلے، ایسے نکاح کا درجہ شادیوں کی تمام اقسام میں سب سے پست درجہ کا تھا۔ ایسی عورت کو اپنا گھر بنانے والی بیوی کہا جاتا تھا۔وہ اس وقت تک اپنے والدین کی وارث نہیں بن سکتی تھی جب تک اس کا بڑا بیٹا شادی کی عمر کو نہ پہنچ جائےاور اسے اپنےہی باپ کےلیے بیوی کا درجہ نہ دے دے۔ 19
مرد کی وہ بیوی جس کو تمام اختیارات ہوا کرتے تھےاسے" پڈکژسےبیوی" (padixšay wife) کہا جاتا تھا، اس کے پاس دیگر بیویوں کے مقابلے میں بہت زیادہ اختیارات ہوا کرتے تھے۔اگر مرد (šoy)اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہوتاتو وہ اپنی بیوی کو "سیگر"(cagar) کے طور پر اولاد کے حصول کے لیے کسی دوسرے شخص کو دے سکتا تھا،یوں عورت خاوند کے بھائی سے اولاد کے حصول کے لیے بھی شادی رچا سکتی تھی۔اس قسم کی شادی کسی قریبی عزیز سے ہی کی جاتی تھی جو اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہو کہ یہ خاندان کا اندرونی معاملہ ہے۔ 20
ایک مرد اپنی بیوی کسی غیر شخص کو ایک خاص مدت کے لیے دے سکتا تھا، زرتشی مذہب میں اسے "سٹوریح"(sturih) کہا جاتا تھا۔ایسی صورت میں بیوی دوسرے مردکے ساتھ جانے سے انکار نہیں کرسکتی تھی۔ اس تعلق کے نتیجے میں جوبھی اولاد پیدا ہوتی وہ اصل شوہر کی ہی تصور کی جاتی تھی۔اس طرح ایک ایسا شخص جو خود اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو،دوسرے مرد سے حاصل ہونے والے بچوں کو اپنی ذریت شمار کر سکتا تھا۔21
قدیم فارس کے فرمانرواوٴں میں کثیر الازدواجی کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ ان شادیوں کے نتیجے میں ہونے والی اولاد تخت شاہی کے لیےقانونی وارث سمجھی جاتی تھی۔ بادشاہ اپنی جانشینی کے لیے ان ہی میں سے کسی ایک کو چنا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ شاہی خاندان کی اولادوں کو سلطنت میں بڑے اور ذمہ داری والےمناصب کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں کام کرنے کے لیے بھی مقرر کیا جاتا تھا، اس کے علاوہ حکومتی امراء کے طبقے کو مجتمع رکھنے، خاندان کو منظم رکھنے اور بکھرنے سے بچانے کی غرض سےکثیر الازدواجی بہترین انتخاب ہوا کرتی تھی۔ 22
فارسی معاشرے میں مردو عورت دونوں کو طلاق دینے کا اختیا ر تھا۔ ایک مرد اپنی بیوی کو بانجھ ہونے کی صورت میں طلاق دے سکتا تھا، اس کے علاوہ اگر عورت زنا کربیٹھے، سفلی علم میں ملوث ہو، اس کے ذمہ جو ضروری امور ہوں اس کی انجام دہی نہ کرپاتی ہو، اپنی ذات کو شوہر کے سپرد کرنے سے انکار کرنے والی ہو، حیض کے دوران حمل ٹھہرانے میں ناکام ہوجائے، تو ایسی عورتوں کو طلاق دی جاسکتی تھی۔ اس کے علاوہ عورت جب بلوغت کی عمر کو پہنچ کر اپنے شوہر سے دور ہوجاتی تو وہ موت کی حقدار ٹھہرتی تھی۔ 23
پارتھیائی (Parthian)دور میں کم درجہ کی حامل عورتیں دوبارہ زندگی بھر اپنے سابقہ شوہروں سے نکاح نہیں کرسکتی تھیں۔ ساسانی(Sassanian) دور میں کم درجہ والی عورت بذات خود شادی کو ختم نہیں کرسکتی تھی۔ قوانین کی یہ تمام حدیں عام طبقہ پر ہی لاگو ہوتی تھیں، امیر گھرانے کی عزت دار عورتیں آسانی سے اپنے شوہروں کو طلاق دے سکتی تھیں۔ 24 اس دور میں مردصرف چار صورتوں میں اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا تھا ،یا تو وہ عورت بانجھ ہو ، جادوئی علم میں ملوث ہو، اس کا کردار برا ہو اور اپنے حیض کے ایام شوہر سے چھپاتی ہو ۔25
قدیم فارس کے معاشرےمیں بیٹے والدین کے لیے معاشی لحاظ سے اہم سرمایہ اور بادشاہ کے لیے عسکری اثاثہ سمجھےجاتے تھے ۔ بیٹیوں کا کوئی خاص مقام نہیں تھاکیونکہ ان کی نظر میں بیٹی دوسرے مرد کا گھر سنبھالنے اور فائدہ پہنچانے کے لیے ہی ہوتی تھی۔ بچہ پانچ (5)سال کی عمر تک ماں کی کفالت میں اور پانچ (5)سے سات (7)سال تک باپ کی سرپرستی میں رہتا تھا۔ سات(7) سال کی عمر میں بچہ کو اسکول بھیج دیا جاتا تھا۔ تعلیم صرف بیٹوں کو مذہبی پیشواؤں کی سرپرستی میں دی جاتی تھی۔ طالب علموں کی جماعت گرجا گھر میں ہوتی یا پھر مذہبی رہنماؤں کے گھر میں ہوا کرتی تھی۔ اس بات کا بہت زیادہ خیال کیا جاتا تھا کہ اسکول بازار سے دور ہو کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ بازار میں بولا جانے والا جھوٹ، گالیاں اور دھوکہ دہی نوجوانوں کو خراب کرسکتی ہیں۔26
فارس میں محرمات کےآپس میں نکاح کے شواہد بھی موجود تھے۔ بھائی بہن، باپ اور بیٹی اور اسی طرح ماں اور بیٹے کے درمیان بھی شادیا ں ہوا کرتی تھیں۔27اسے سماجی طور پر ہی نہیں بلکہ مذہبی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل تھی،اس رسم کو فارسی میں خویذوگدس (Khvetuk-dasih) کہتے ہیں ۔ 28بھائی بہن میں ازدواجی تعلقات کا رواج فارس اور اس کے باہر ہندوستان میں مجوسیوں ہی کے ذریعہ ہوا، زرتشت مذہب میں اسے ایک براعمل سمجھا جاتا تھا ۔اوستا (Avesta)میں اس ہم رشتگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، البتہ ساسانی (Sassanian)عہدکی پہلوی تحریروں میں اسے فارسی ہونے کی نسبت قبول کرلیا گیا اور مجوسیوں کا یہ مکروہ طریقہ فارس میں ازسرنو زندہ ہوگیاتھا۔ دوسری طرف جنوبی ہند میں بدھ مت (Buddhism)عہد میں خونی رشتوں میں شادی بیاہ کی رسم ان ہی مجوسیوں کے زیر اثر پیدا ہوئی تھی۔ مجوسیوں میں اس ہم رشتگی کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے ایک خاص قبیلہ تھے۔ اپنی نسل کو اختلاط سے بچانے اور اپنے خاندان کو بدستور پیشوائی کے مقام پر فائز رکھنے کے لیے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ ازدواجی تعلقات اپنے ہی خاندان تک محدود رکھے جائیں یا یہ ہوسکتا تھا کہ اس رسم کو بھی مقبول بنانے میں ان کے بزرگوں کا کوئی عمل محرک بن گیا ہو جیسا کہ رسموں کے بننے میں بزرگوں اور بڑوں کے عمل کا خاص دخل ہوتا ہے۔ فارسیوں کے ہاں اس قسم کی شادی کی رسم بہت دیرینہ تھی۔ چنانچہ ہخامنشیوں(Achaemenid) کی تاریخ میں ہمیں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی مذہبی کتابوں میں اس شادی کی بڑی عظمت بیان کی گئی تھی اور کہا گیا کہ ایسی مزاوجت(شادی)پر خدا کی رحمت کا سایہ پڑتا ہے اور شیطان اس سے دور رہتا ہے۔(العیاذ باللہ) نرسی برزمہرمفسر کا یہاں تک دعویٰ ہے کہ خویذوگدس سے کبائر کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ فارسیوں کے ہاں عہد ساسانی (Sassanian)میں محرمات کے ساتھ شادی کی رسم کی تصدیق نہ صرف معاصر مؤرخین، مثلاً اگا تھیاس وغیرہ کے بیان سے ہوتی ہے بلکہ اس عہد کی تاریخ میں ایسی شادیوں کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں، مثلاً بہرام چوبیں نے اور مہران گشنسپ نے اس قسم کی شادیاں کیں۔29 اردشیر دوم نے اپنی بیٹی آتشہ سے شادی کی تھی۔ 30بہمن نے اپنی بہن ہما سے شادی کی تھی۔ارتاخشاشیا (Artaxerxes)نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں سے نکاح کیا تھا۔ 31
یزد گرد دوم (Yazdikart-II)پانچویں صدی کے حکمران نے اپنی بیٹی کو اپنی زوجیت میں رکھا پھر اسے قتل کردیا تھا۔بہرام چوبیں چھٹی صدی عیسوی کے حکمران نے اپنی بہن سے ازدواجی تعلق رکھاتھا۔مشہور چینی سیاح زھوئن سیاگ کا بیان ہے کہ "فارسی قانون معاشرت "میں ازدواجی تعلقات کے لیے کسی رشتہ کا بھی استثناءنہ تھا۔32
علامہ طبری نے لکھا ہے:
إن بھمن هلك وابنه دارا في بطن خماني، وأنھا ولدته بعد أشھر من ملكها وأنفت من إظهار ذلك .33
جب بہمن فوت ہو ا تب اس کا بیٹا دارا(اس کی بیٹی) خمائی کے پیٹ میں تھا۔اور اس نے اپنی بادشاہت کے چند مہینے بعد جنا۔اور خمائی نے اس معاملے کو چھپاکے رکھا تھا۔
طبری کے بقول خمائی اس معاملے کے اظہار سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ اس نے اپنے بچے کو ایک تابوت میں ڈال کر دریا میں بہادیا۔ 34 آرٹا ویراف (Arta Viraf)نے اپنی سات بہنوں سے نکاح کیا تھا۔آرمینیائی(Armenian) سے منسوب یزد گرد دوم (Yazdikart II)سے تعلق رکھنے والےمجوسیوں کے ایلچی اس عمل کو بیان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ:"انہیں ایک کی جگہ زیادہ شادیاں کرنے کے لیے چھوڑدو تاکہ آرمینیائی(Armenian) نسل مزید تیزی سے پھیلے: بیٹی کو باپ کے ساتھ سونے دو اور بہن کو بھائی کے ساتھ لیٹنے دو۔ صرف ماں کوہی بیٹے کے ساتھ سونے کی اجازت نہیں بلکہ پوتی بھی اپنے دادا کے ساتھ لیٹ سکتی ہے۔"محرمات سے نکاح میں بھی عام شادیوں کی مثل گواہ موجود ہوا کرتے تھے۔ ان گواہوں کا انتظام والدین یا اولاد کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی اور دونوں فریقین کو اپنی رضامندی ظاہر کرنا ضروری تھا۔35
ڈیریس (Darius) نے کوروش(Cyrus) سے تعلق رکھنے والی تمام عورتوں سے اس مقصد کے لیےنکاح کیا کہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ شاہی خاندان کے تمام خونی رشتے اس کے اندر اور اس کی آنے والی نسل میں حلول کرگئے ہیں۔فارس کی کثیر ملکائیں شاہی سلسلے کی پاکیزگی اور عفت کو محفوظ رکھنے اور اپنی اولادوں کو شاہی تخت کا وارث بنانے کے لیے محرمات سے نکاح کو بہترین طریقہ گردانتی تھیں۔فارس کے اقتدار اعلیٰ سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی ماں سے بھی شادی رچایا کرتے تھے ۔ ان کا یہ گمان تھا کہ اس ملاپ سے پیدا ہونے والی اولاد بہت اونچے درجے کی ہوگی اور اسے بلند شاہی منصب کے لیے حقدار تصور کیا جاتا تھا۔36اس قسم کے غلیظ ترین تصورات اور حرام کاری پر مبنی غلیظ ترین رشتوں نے اہل فارس کو اخلاقی گراوٹ کے اس گہرے ترین دلدل میں دھنسا دیا تھا جس سے نکالنے میں عیسائیت بھی بہت حد تک ناکام رہی تھی ۔ اگر اہل فارس تک اسلام کا وہ عظیم ترین پیغا م نہ پہنچتا جس میں ماں ، بہن،بیٹی اور بیوی کے فرق کو واضح کیا گیا ہے تو یقینا اہل فارس آج تک اس غلیظ ترین گمراہی کے گھڑوں میں ہی گرے رہتے جیسا کہ آج یورپ اور امریکہ موجود جدیدیت پسند اس قبیح ترین فعل میں ملوث نظر آتے تھے ۔
کثِير نَرہ ایسی شادی کو کہا جاتا ہے جس میں ایک عورت کے ایک سے زائد شوہر ہوں۔ فارس میں ایسی شادی منکوحہ کے لیے عارضی سہولت اور سکھ دینے کے لیے کی جاتی تھی، اس کا تصور ساسانی (Sassanian)دور میں تھا۔عام طور پر عورتیں بیٹے کے حصول کے لیے ایسی شادیاں کیاکرتی تھیں کیونکہ اس تعلق سے حاصل ہونے والی اولاد پہلے شوہر سے وارث بنتی تھی۔ اگر کسی مرد نے کسی سے وعدہ کیا ہو یا کوئی خاص وجہ ہو تو وہ اپنی بیوی اور اس کی جائیداد کو مختصر مدت کے لیے دوسرے مرد کو سونپ دیا کرتا تھا۔اس طرح کے معاملات میں قانونی طور پر عورت پہلے شوہر کی بیوی ہی کہلاتی تھی جب کہ شوہر اب اس کا سرپرست کہلاتا تھا۔اس رشتے سے پیدا ہونے والی اولاد پہلے شوہر کی ہی تصور کی جاتی تھی۔ساسانی (Sassanian)دور میں عورتوں کی کثیر مردوں سے شادیاں اور اس تعلق سے اولاد کا حصول آبائی جائیداداورخاندانی سلسلہ کی بقاء کو قائم رکھنے کے لیےرچایاجاتاتھا 37 جسکے نتیجے میں خاندانی سلسلہ تو نہ بچتا تھا البتہ عورت کھلونہ اور تماشہ بن کر رہ جاتی تھی مگر نہ تو اس قیامت کا اندازہ اس عورت کو ہوتا تھا اور نہ ہی اس کے حقیقی خاوند کو بلکہ وہ سب اندھی بھیڑوں کی مثل اس قبیح و رذیل فعل میں حصے دار بن جایا کرتے تھے۔
فارسیوں کے ہاں ازدواجی زندگی کے بارے میں چند عجیب وغریب معمولات تھے جنہیں کوئی باغیرت اور باحمیت انسان سننے کے لیے بھی شاید تیار نہ ہو لیکن وہ ان معمولات پر کوئی خجالت وشرم محسوس کیے بغیر کھلم کھلا عمل کرتے تھے آرتھر کرسٹن کے مطابق :
شوہر مجاز تھا کہ اپنی بیوی یا بیویوں میں سے ایک کو، خواہ وہ بیاہتا بیوی ہی کیوں نہ ہو، کسی دوسرے شخص کو، جو انقلابِ روزگار سے محتاج ہوگیا ہو، اس غرض کے لیے دے دے کہ وہ اس سے کسب معاش کے کام میں مدد لے۔ اس میں عورت کی رضا مندی کا حاصل کرنا ضروری نہیں ہوتا تھا۔ایسی صورت میں نئے شوہر کو عورت کے مال و اسباب پر تصرّف کا حق نہیں ہوتا تھااور اس عارضی ازدواج میں جو اولاد ہوتی تھی وہ پہلے شوہر کی سمجھی جاتی تھی۔ یہ مفاہمت ایک باضابطہ قانونی اقرارنامے کے ذریعہ سے ہوتی تھی ۔اس قسم کا معاہدہ انسانی ہمدردی کے ذیل میں شامل کیا جاتا تھا، یعنی یہ کہ ایک شخص نے اپنے ایک محتاج ہم مذہب کی مدد کی ہے۔ 38
ہیروڈوٹس (Herodotus) کے مطابق، ہم جنس پرستی قدیم فارس میں اپنے عروج پر تھی۔ فارسیوں کےمتعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ لڑکوں کے ساتھ جنسی فعل کو زندگی کی خوبصورت ترین نعمتوں میں شمار کیا کرتے تھے ۔ اہل فارس نے ہم جنس پرستی جیسا براو قبیح فعل یونانیوں سے سیکھاتھا۔39 گویا کہ اس حرامکاری میں آج کے مغرب زدہ معاشروں کی مثل یونانی اہل فارس کے بھی استاد تھے کیونکہ آج کا مغرب بھی ہر حرام کاری اور بدکاری میں اپنا امام اور پیشوا اسی یونانی یا رومی تہذیب کو سمجھتا ہے۔
اس کے علاوہ قدیم فارس میں پرتکلف ضیافتوں اور تہواروں میں فاحشہ عورتیں عام طور پر دیکھی جاتی تھیں۔ان ضیافتوں میں یہ عورتیں فارسی سپاہیوں کے ہمراہ ہوتیں ، اس کے علاوہ یونان سے معرکہ آرائی میں بھی ساتھ ہوا کرتیں تھیں۔ جنگ میں شکست کی صورت میں یونانی ان عورتوں کو اپنے سپاہیوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔40
بہت سے یونانی مصنفین کے مطابق ، شاہی دربار میں کثیر تعداد میں لونڈیاں رہا کرتی تھیں جن کی ایک اندازے کے مطابق تعداد سینکڑوں میں تھی۔ یہ بات کسی بھی طور پر ڈھکی چھپی نہیں کہ ان عورتوں کو صرف جنسی تسکین حاصل کرنے کے لیے رکھا جاتا تھا۔ یہ عورتیں پر تکلف ضیافتوں ، شکار کھیلنے اور رات کے وقت بادشاہ کے بستروں کو گرم رکھنے اور انہیں محظوظ کرنے کے لیے استعمال ہوا کرتی تھیں۔ ایک حوالے سے یہ بات آشکار ہوئی ہے کہ بادشاہ روزانہ رات گزارنے کے لیے ایک لونڈی کو چنا کرتا تھا۔ لونڈیوں کی رہائش کے لیے حرم کی موجودگی اہم املاک میں شمار کی جاتی تھی اور اس کا شاہی دربار کے قریب ہونا بہتر سمجھا جاتا تھا، چنانچہ جب ڈیریس سوم (Darius III) کو ایسوس(Issos) کے مقام پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت بادشاہ کے ساتھ مہم پر آئی ہوئیں کثیر تعداد میں لونڈیاں سکندر اعظم کی قید میں چلی گئیں۔ اسی طرح ساسانی (Sassanian)دور کے حکمران بھی لونڈیاں رکھا کرتے تھے۔
برائنٹ (Briant)اور بروسیس(Brosius) بیان کرتے ہیں کہ یہ لونڈیاں غیر ملکی نسل کی ہوا کرتیں اور بظاہر معاشرتی اعتبا رسے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ، انہیں مختلف جنگی فتوحات میں قید کرکے بادشاہوں کے حرموں میں منتقل کردیا جاتا تھا۔ آیونی (Ionian)بغاوت کو پسپا کرنے کے بعد ان کے گھروں سے خوبصورت عورتوں کو چن چن کر نکال کر ڈیریس (Darius) کے حرم میں بھیج دیا گیاتھا۔
ہیروڈوٹس(Herodotus)کے مطابق ہر مرد متعدد بیویاں رکھا کرتا تھااور اس سے زیادہ لونڈیاں ہوا کرتی تھیں، بعد کے دور سے تعلق رکھنے والے یونانی فلسفی نے پارتھیائی (Parthian)قوم کے بارے میں یہ دعوی کیا اور اس کی کافی تشہیر بھی ہوئی کہ وہ کثیر تعداد میں بیویاں اورساتھ لونڈیاں بھی رکھا کرتے تھے۔ اس کا مقصد زیادہ تعداد میں اولاد کا حصول تھا۔فارسی اشرافیہ، خاص طور پر صوبے دار شاہی رسم و رواج کی نقل کرتے ہوئے کثیر ازواج رکھا کرتے تھے۔کارہائے(Carrhae) کے فاتح سوریناس (Surenas) کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ اس نے اپنی لونڈیوں کو اپنے ہمراہ رکھنے کے لیے دو سو (200)یکّے بنوائے تھے۔ 41
فارسی بادشاہوں کی بھی متعدد ازواج ہوا کرتی تھیں اور اس کے ساتھ ہی کثیر تعداد میں لونڈیاں بھی رکھا کرتے تھے جنہیں شاہی دربار میں رہائش دی جاتی اور وہ بادشاہ کے مصاحبین کا حصہ بھی ہوا کرتی تھیں۔ ان عورتوں کا مقام و مرتبہ اونچا ہوا کرتا تھا لیکن غیر فارسی نسل سے تعلق کی بنا پر بادشاہ سے شادی نہیں رچا سکتی تھیں۔ 42دو سو (200) سال قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے ایتھنی(Athenaeus) اس بات کے دعوےدار تھے کی فارسی بادشاہ دن بھر سویا کرتے اور پوری رات موسیقی اور لونڈیوں کے ساتھ جنس پرستی میں منہمک رہتے تھے۔43 محل میں لونڈیوں کا ہونا امرا کی پرتعیّش و پر تکلّف زندگی کا اہم جز سمجھا جاتا تھا؛ حکومتی امراء کبھی بھی ان کے بغیر جنگ میں شرکت نہیں کیا کرتے تھے۔ عہد موٴخر میں سلطنت کا بادشاہ اپنے حرم میں 329سے لے کر 360لونڈیاں رکھا کرتا تھا۔ یہ ایک رسم بن چکی تھی کہ کوئی بھی عورت بادشاہ کے ساتھ دو سے زائد مرتبہ رات نہیں گزار پاتی تھی سوائے اس صورت کے کہ بادشاہ اس کی جانب بہت زیادہ رغبت رکھتا ہو۔ 44 پئیر برائنٹ (Pierre Briant)اس حوالے سے بیان کرتا ہے کہ ہر بادشاہ تخت نشین ہونے پر تین سو ساٹھ(360) نئی لونڈیوں کا اپنے لیے انتخاب کرتاتھا۔ اس کے بارے میں شواہد نہیں ملے ہیں کہ پچھلی لونڈیوں کوکس کام پر لگا دیا جاتا تھا۔ ڈیوڈورس (Diodorus)کہتا ہے کہ تمام لڑکیا ں ہر رات ایک قطار بنا کر بادشاہ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے کے لیے کھڑی ہوجاتیں، بادشاہ رات گزارنے کے لیے ان میں سے کسی ایک کو چن لیا کرتا تھا۔ لونڈیوں کی ذمہ داریوں میں خصوصی مہمان کو محظوظ کرنا بھی شامل تھا اس کے علاوہ ان کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہوا کرتی تھی ۔
قدیم فارس کی اشرافیہ گھڑ سواری، تیر اندازی اور نیزہ بازی کا جھوٹا مقابلہ کرنے کے بہت شوقین تھے۔45 پرتکلف اور پرکشش ضیافت کی حامل مجالس کا شمار خاص تقریبات میں ہوا کرتا تھا۔ فارسی اشرافیہ کے محلات میں اور اگر کہیں سفر میں ہوں تو ان کے خیموں میں بادشاہ غیر ملکی مہمانوں اوراپنے درباریوں کے لیے انتہائی پر تکلف دعوت کا اہتمام کرتے تھے۔ شاہی دعوت بادشاہوں کی مالی حیثیت کے ساتھ طاقت و دبدبے کی علامت اور نچلے طبقے سے اس کی وفاداری و خیر خواہی کا ثبوت ہوا کرتی تھیں۔ بادشاہ کی ضیافت کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں مویشوں کا گوشت تیار کیا جاتا جس میں بھیڑ، ہرن جبکہ پرندوں میں بطخیں اور ٹوٹرو شامل ہوا کرتے تھے۔ مختلف اقسام کی گندم اور جو کی روٹی اور کلچے بھی بنائے جاتے تھے،اس کے علاوہ تیل، مصالحہ جات اور جڑی بوٹیاں بھی پکوان بنانے کے لیے منگوائی جاتی تھیں۔ضیافت میں انگور کی شراب ضروری مشروب شمار کی جاتی تھی اس کے علاوہ جو کے خمیر سے بنائی گئی شراب بھی پیش کی جاتی تھیں۔46 قدیم دور کا یونانی تاریخ دان لکھتا ہے کہ تقریباًایک ہزار (1000)کے قریب جانور روزانہ بادشاہوں کی ضیافت کے لیےمارے جاتے تھے، اس میں سے کثیر مقدار میں گوشت محل کے باہر تعینات سپاہیوں کے لیے بھیج دیا جاتا تھا، مہمانوں کی ضیافت کے لیے اس گوشت میں سے حصہ نہیں لیا جاتا تھا۔ 47
کھیل کود اور تفریح کے لیے پارتھیائی(Parthian) قدیم ہخامنشی(Achaemenid) فرمانرواؤں کی طرح شکار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے دستور کے مطابق کثرت کی ایک نئی قسم ورزش بھی متعارف کروائی تھی جسے قرزش پہلوانی کہا جاتا تھا۔ موجودہ دور کے محرر اسے مارشل آرٹس (Martial Art)حربی فنون جسے کراٹے (Karate)کہتے ہیں، کا نام دیتے ہیں ۔اس ورزش میں جسمانی کثرت اور دماغی نشونما کرائی جاتی تھی۔ کھلاڑی جسے پہلوان کہا جاتا تھا، اس کی تربیت کے لیے دائروی نما عمارت مختص کی گئی تھی۔ اس عمارت کو زرخینن (Zurkhanen) کہا جاتا تھا جس کو "قوت کا گھر "کے نام سے بھی موسوم کیاجاتا تھا۔ ان ورزشوں میں پہلوان مختلف طریقوں سے لکڑی کے ڈنڈے گھمانے کی مشق کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو گھڑسواری اور مکّے بازی کے کھیل میں مہارت کے لیے مرتب کیا گیا تھا۔ پہلوانوں کی تربیت کے دوران ڈھولچی مسلسل ڈھول بجاتا اور گائک نظم پڑھتا رہتا تھا۔ زرخینن (Zurkhanen)میں پہلوان جتنا طاقتور ہوتا اسی کے مطابق اس کی عزت کی جاتی تھی۔48
شکار بادشاہوں اور اس کے درباریوں کا خاص کھیل ہوا کرتا تھا۔ شکار کھیلنے کے لیے شاہی قطعہ اراضی میں سے ایک بہت وسیع و عریض میدان مختص کیا جاتا تھا۔ اس میدان میں جنگلی جانور جیسے چیتا، شیر، خنزیر ،اس کے علاوہ ہرن، غزال( چھوٹا خوبصورت آنکھوں والا ہرن) اور شتر مرغ کو ارد گرد کے میدانی علاقوں سے پکڑ کر میدان میں شکار کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ میدان میں صرف شکار کی مشق کے ساتھ نیزہ، خنجر اور تیر کمان جیسے ہتھیاروں کے ذریعے عسکری تربیت بھی کروائی جاتی تھی۔ میدانوں کے علاوہ جنگل میں بھی شکار کھیلا جاتا تھا، اس کے ذریعے شکاری کی قوت برداشت ، صبر اور ہمت کا امتحان لیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ شکار کھیلنا اشرافیہ کی نظر میں حوصلہ افزافعل اور معتبر شناخت کا بھی باعث تھا ۔ سلطنت کی حکمرانی کا تاج سر پر سجانے کے لیے بادشاہ کو شکار کھیلنے کی صلاحیت ، عسکری مہارت، جرات و بہادری، اور جسمانی قوت کا عملی اظہار ماہرین و منصفین کے روبرو پیش کرنا لازم تھا۔ شکار کھیلنے کا معاشرتی پہلو بھی یکساں اہمیت کا حامل تھا۔ 49
اہل فارس کا تعلق اُن اقوام ِ عالم سے تھا جو غلاموں کی کثرت کوثروت کی نشانی اور ریاست و امارت کی علامت سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں غلام کو محض شک کے باعث کوئی شدید سزا نہیں دی جاتی تھی، البتہ اگر وہ اپنی اس عادت کی اصلاح نہ کرتا اور بار بار اسی طرح کی حرکات صادر ہوتیں تو پھر اُس کو قتل کر دیا جاتا تھا۔50
اوستا(Avesta) میں موغو اور قدیم فارسی میں مگوش خادم اور نوکر چاکر کے معنی میں استعمال کیے گئے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آریوں (Aryan)نے فارس کے قدیم باشندوں پر حملہ کیا تو دوسرے ممالک کی طرح جہاں کے لوگ آریوں کے حملہ میں زندہ بچ گئے اوران کو آریوں نے خادم اور غلام بنالیا، اسی طرح فارسیوں کو بھی آریوں نے نوکر چاکر بنالیا، اس طرح وہ مگوش قرار دیے گئے ۔ 51
قدیم فارس میں غلاموں کو معین کرنے کے لیے عمومی اصطلاح "بنداکا"(Bandaka) مقرر تھی جسے لفظ بندا سے اخذ کیا گیا تھا جس کا معنی بندش یا زنجیر کے تھے۔ یہ لفظ نہ صرف اصل غلام کی نشاندہی کے لیے استعمال ہی نہیں بلکہ عام طور پر کسی شخص کے ساتھ وابستگی کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا کرتا تھا۔قدیم فارسی غلاموں کے لیے" گردا " کی اصطلاح بھی استعمال کیا کرتے تھے جس کا اصل معنی گھریلو امور کی انجام دہی کرنے والے غلام کے طور پر کی جاتی تھی۔52
غلاموں اور کمزوروں کے ساتھ یہاں بھی وہی کچھ ہوتا تھا جو دنیا کے دوسرے معاشروں میں ہوتا رہاتھا۔ انسانیت کی عظمت و برتری کا احساس یہاں بھی مفقود تھا۔ غلام کی موجودگی شرف کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ کوئی شخص جتنے غلاموں کا مالک ہوتا اتنا ہی معزز ومحترم شمار ہوتاتھا۔ یہاں بھی معمولی جرائم پر غلام کی جان لے لینا ایک عام سی بات تھی۔53میڈیس (Medes)میں ایک رسم رائج تھی جس میں کوئی بھی غریب شخص اپنی ذات کو کسی امیر انسان کے سپرد اس شرط پر کرسکتا تھا کہ وہ اس کے کھانے پینے کے معاملات کو اپنے ذمہ لینے پر رضامند ہوجائے۔ایسے شخص کی حیثیت غلام کی طرح ہی ہوا کرتی تھی۔لیکن ایسے شخص کو یہ اختیار حاصل ہوتا کہ اگر اس کا مالک اس کے کھانے پینے میں کنجوسی کرے تو وہ اسے جب چاہے چھوڑ سکتا تھا۔
غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد کو ان میں موجود خصوصیات ، جنس اور اصل کے مطابق تقسیم کیا جاتا تھا ۔ مخصوص غلاموں کو گھریلو امور کی انجام دہی کے لیے مختص کردیا جاتا تھا جن کا کام گھر کے امور کی انجام دہی کرنا اور آتش کدہ میں خدمت کرنا شامل تھا۔ گھر میں کام کرنے کے لیے باندیا ں رکھنے کا رواج بھی عام تھا ۔ گھر کے مالک کو باندی پر دسترس حاصل ہوا کرتی تھی، اس سے مالک اولاد بھی حاصل کرسکتا تھاجس کا ثبوت غلام لڑکیوں اور آزاد شہریوں کے متعلق عدالتی کاروائیوں میں سامنے آیا ہے جس میں باندیوں سے ہونے والی اولاد کومعاشرے میں مقام دینے کے لیے مقدمات لڑے جاتے تھے۔ وہ افراد جن پر کسی قسم کا قرض ہوتا یا مذہبی طور پر ان کے لیے یہ فیصلہ ہوتا کہ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت آتش کدہ کو دیں ، انہیں بھی غلاموں کی اسی قسم میں رکھا جاتا تھا۔ غیر ملکی اور دیگر غلام جوکھیتوں پر کام کرنے پر مامور تھے اورجسمانی کام کرنے والے غلاموں کو قیدی غلام کے گروہ سے جانا جاتا تھا۔ایسے غلاموں کا طبقہ عام طور پر اکثریت میں پایا جاتا تھا ، لیکن غلاموں میں ایک مقرر قسم پائی جاتی تھی جسے ٹین (tan)کہا جاتا تھا ، انہیں حفاظتی امور کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ غلام صرف اسی صورت میں آزاد ہوتا جب یا تو اس کا مالک انتقال کرجاتا یاپھر مالک خود اس کو آزاد کردیتا ہو۔ 54
ہخامنشی (Achaemenid)سلطنت کے ترقی یافتہ ممالک میں غلام کی خرید و فروخت کی جاتی اور انہیں وراثت میں بھی تقسیم کیا جاتا تھا اور اس کے علاوہ تحفہ میں دینے کا رواج بھی عام تھا۔ غلاموں کی بہت بڑی تعداد گھر کے مختلف کاموں پر مامور ہوا کرتی تھی۔ کھیتی باڑی کے لیے نسبتاً کم تعداد میں غلاموں کو کام پر لگایاجاتا تھا، ان میں زیادہ تر کھیتوں پر کام کرنے والےکسان کے طور پر اور تعمیراتی کاموں میں استعمال ہوا کرتے تھے۔ کثیر تعداد میں ہنر مند افراد جن میں کپڑا بننے والے، جوتے بنانے والے، ماہر تعمیرات اور دیگر کاریگر افراد بھی غلاموں میں شامل تھے۔ہخامنشی (Achae menid)سلطنت کے شروعاتی دور میں بابل (Babylonia)کے غلام کی قیمت وزن کے حساب سے چاندی کا ایک مینا فی آدھا کلو مقرر تھی، لیکن فارسی حکمرانی دور کے اختتام پر ان کی قیمت دوگنی ہوچکی تھی۔غلاموں کی خرید و فروخت کے دوران بیچنے والے کی یہ ذمہ داری ہوتی کہ وہ خریدنے والے کو اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ یہ ایک آزاد شخص نہیں بلکہ غلام ہے اور خریدنے کے وقت سےسو (100)دن تک یہ نہیں بھاگے گا ۔
غلاموں کا بھاگ جانا بھی ایک بڑا سنگین مسئلہ تھا۔ بھاگنے والے غلاموں کو پکڑ کر جانوروں کی طرح باندھ دیا جاتا تھا اور انہیں بیڑیوں میں جکڑ کر واپس کاموں پر بھیج دیا جاتا تھا۔ جب مالک اپنے غلام مزدوروں سے گھر میں کام کرانے کا خواہشمند نہ ہوتا یا اسے ان سے کام کرانے میں کوئی فائدہ نظر نہ آتا ، تو غلام خود مالک کی طرف سے پگڑی پر دی گئی زمین سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک مقرر حصہ مالک کو دینے کا پابند ہوتا تھا۔ کسی شخص کا قرضے کے عوض خود کو گروی رکھوانے کی مثالیں بہت کم تھیں ۔ مقررہ مدت تک قرضہ نہ دینے کی صورت میں قرض خواہ اس کے بچوں کو غلام بنا لیا کرتا تھا۔ ہخامنشی (Achaemenid)دور میں قرض خواہ قرض دار کو کسی شخص کو بیچ نہیں سکتا تھا۔ عمومی طور پر قرض دار اپنی آزادی کے لیے اورقرض خواہ کا سود اتارنے کے لیے اس کا کام مفت میں کیا کرتا تا کہ جلد سے جلد وہ آزاد ہوجائے۔فارسی دور میں کسی شخص کا اپنی ذات کو قرضے کے عوض بیچ دینا یا غلامی کو قبول کر نا مکمل طور پر ختم ہوگیا تھا۔جنگوں کے دوران قید میں آنے والوں کو غلام کے طور پر قبول کیا جاتا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں غلام آزاد انسانوں کے مقابلے میں کم ہوا کرتے تھے اور ان کی مزدوری آزاد لوگوں کی مزدوری کی جگہ نہیں لے سکتی تھی۔غلاموں کی کثیر تعداد جو ہخامنشی (Achaemenid)اور پارسی عزت دار خاندانوں کے گھریلو امور انجام دیتی تھی، انہیں فاتح لوگوں کے نمائندوں کے لیے بھرتی کرلیا جاتا تھا۔ان مقاصد کے لیے، بابل سالانہ پانچ سو (500)لڑکوں کو فارسی بادشاہ کو بطور محصول دینے کا پابند تھا۔55
سخت حالات میں ایک باپ اپنے بچوں کو بھی بطور غلام بیچ دیا کرتا تھا۔ کچھ لوگ قرض اتارنے کی غرض سے خاص مدت کے لیے غلامی قبول کرلیا کرتے تھے۔ بہرحال ماضی کی طرح زیادہ تر غلام دیگر ملکوں سے جنگ لڑنے کی صورت میں حاصل ہوا کرتے تھے۔ غلام عورت کا بچہ بھی غلام ہی تصور کیا جاتا تھا۔ کچھ شواہد اس بات کی جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک ایسا بچہ جس کا باپ آزاد انسان اور ماں باندی ہو وہ آزاد حیثیت کا بچہ سمجھا جاتا تھاساسانی(Sassanian) قانون میں غلام کو مالک کی ملکیت سمجھا جاتا تھا لیکن خاص معاملے میں قانون غلام کو کچھ انسانی حقوق بھی فراہم کرتا تھا، جیسے وہ عدالت میں بطور گواہ پیش ہوسکتا تھا یا دوسروں پر مقدمہ دائر کرسکتا تھا۔ایسے قوانین غلاموں کو اپنے مالک کے خلاف چارہ جوئی کا حق بھی دیا کرتے جو ان پر بے جا ظلم کرتا تھا۔ایک شخص جزوی طور پر بھی غلام بن سکتا تھا اور اپنی کمائی سے ایک خاص فیصد تک رقم اپنے پاس رکھ سکتا تھا۔بعض غلام ان رقوم کو آزادی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتے تھے۔زرتشی مذہب کےماننے والے غلاموں کو خاص حقوق دیے جاتے تھے جیسے ان کو کسی ایسے شخص کو بیچنے پر پابندی تھی جو زرتشی مذہب کا پیروکار نہ ہو۔ ایسے غلام جو مالکوں سے اپنی آزادی خرید لیا کرتے یا مالک انہیں خود آزاد کردیتے، وہ بادشاہ کے زیر تسلط آجاتےاور بظاہر انہیں کوئی بھی شخص دوبارہ غلام نہیں بنا سکتا تھا۔ 56
قدیم دور کے فارسی اپنے لباس میں خاص طور پر لینن(linen) اور اون(wool) کا استعمال کیا کرتے تھے، اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ جسم سے چپکے ہوئے لباس بنانے میں چمڑے کا استعمال بھی کیا جاتا تھا۔ 57پارتھیائی (Parthian)دور میں موجودہ دور کی مانند تین کپڑوں پر مشتمل پینٹ کوٹ پوری سلطنت میں رائج تھا۔بعض اوقات مرد و عورت چوغہ بھی پہنا کرتے تھے۔ ساسانی (Sassanian)دور میں مرد کم لمبائی کا چوغہ اور شلوار زیب تن کیاکرتے تھے۔اس دور کے بعد میں آنے والے بادشاہ اور دیگر طبقہ امرا ء لمباچوغہ استعمال کیاکرتے تھے۔ تمام فارسی کمر بند کا استعمال بھی کیا کرتے تھے چاہے وہ مختلف ٹکڑوں سے بنائی گئی ہو یا مکمل ایک ہی ٹکڑے پر مشتمل ہو۔58
ہخامنشی(Achaemenid) دور میں مردوں کے لباس طبقات کے مطابق پانچ اقسام پر مشتمل تھے۔ عدالتی لباس ، گھڑ سواری کا لباس، یونانی طرز کا لباس جس میں کم لمبائی کا ڈھیلا چوغہ جو سامنے سے کھل سکتا ہو، ہندوستانی گھاگھرے کی طرز کا لباس جس میں چوغہ شامل نہیں ہوا کرتا تھا ، اس کے علاوہ وہاں کا مقامی لباس جس میں چوغہ گھٹنوں یا ایڑھیوں تک لمبا ہوا کرتا ، شامل تھا۔ لباس کی پانچوں اقسام میں ٹوپی، اوپر پہننے کے کپڑے، قمیص یا چوغہ، شلوار اور جوتے شامل ہوا کرتے تھے۔
فارس کے عسکری سپاہی لال ، مذہبی پیشوا سفید جبکہ گلہ بان نیلے رنگ کا لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔شاہی خاندان کے لوگوں کے کپڑوں پر رنگارنگ پٹیاں جڑی ہوتیں جو ان کے اعلیٰ رتبہ کی عکاسی کیا کرتی تھیں۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے اوائل دور میں ایلمالی (Elmali)سے ملنے والی ایک مصوری میں پر تکلف دعوت کا ایک خاکہ پیش کیا گیا ہے جس میں ایک بلند مرتبہ انسان کی ظاہری شخصیت دکھائی گئی ہے، اس کا زیب تن کیا ہو الباس اور ارد گرد کا ماحول مکمل فارسی طرز کی نشاندہی کرتا دکھایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک پتھر پر تراشے گئےنمونے میں ایک مرد کو وسطی دور کا لباس پہنا ہوا دکھایا گیا تھا۔59
فارس میں عورتیں تہ شدہ چنٹوں والا لمبا کوٹ نما لباس اور یونانی طرز کا ضخیم تنگ جامہ زیب تن کیا کرتی تھیں۔ کبھی کبھار اس لمبے کوٹ کے اوپر مزید ایک چھوٹی قمیص بھی پہنا کرتیں تھیں جسے آج کے دور میں چھوٹی قمیص (Čādor)کہا جاتا ہے ۔ارگلی (Ergili)میں نسب شدہ مجسموں اور خاتون صوبہ دار یا گورنرکےتابوتی پتھر پر اس دور میں استعمال ہونے والے لباس کی نقاشی کی گئی تھی۔ بہرحال خواتین اپنا چہرہ کھلا رکھا کرتی اوربالوں کو کمر کے پیچھے ایک چٹیا میں گوندھ دیا کرتی تھیں۔
قدیم فارسی دور میں عورتوں کے اصل لباس کی باقیات "پازیریک مقبروں(Pazyryk tombs)" سے دریافت ہوئی تھیں ۔ ان دور دراز علاقوں میں استعمال ہونے والے لباسوں میں ایک چھوٹی ٹوپی بھی شامل ہوا کرتی اورایک لمبا، ڈھیلاڈھالااور پوری آستینوں والا لباس (چوغہ) جسے گلہری کی کھال کے بالوں والے حصے کواندر رکھ کر اور اس کی کناریوں کو سیاہ جوان گھوڑے کی کھال سے زیبائش دے کر سیا جاتا وہ بھی شامل تھا۔ اگر اس کی آستینیں تنگ بنائی جاتیں تو اس پر چمڑے کے چھوٹے ٹکڑے خوبصورتی کے ساتھ ٹانکے جاتے تھے۔اس کے علاوہ اس حوالے سے بھی شواہد ملے ہیں کہ اس وقت کی عورتیں کندھوں تک لطیف چمڑے سے بنائی گئی دوگنی موٹائی کی اوڑھنی جس پر جوان سیاہ گھوڑے کی کھال سی جاتی اور چمڑے کی معین نما چوکورٹکڑوں کو ٹانک کر سجایا جاتا، استعمال کیا کرتی تھیں ۔ جوتوں کے دو جوڑے بھی ملے تھے جن کے اندرونی حصہ کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ یہ متجسّس خدوخال عملی طور پر ممکن تھے کیونکہ اسے استعمال کرنے والیاں اپنی ٹانگوں کو اس انداز سے رکھا کرتیں کہ ان کی ایڑھیاں بآسانی ہل سکتی ہوں، بیٹھنے کا یہ رواج اب بھی وسطی ایشیاء میں موجود ہے۔60عورتیں پاجامہ کے اوپر ڈھکنے والا ڈھیلا ڈھالا جامہ پہنا کرتیں جس کو شوخ رنگوں سے مزیّن کمر بند سے باندھا جاتا تھا۔شاہی عورتوں کے جامہ پرسونے کے تار کا کام کیا جاتا تھا۔ سونے کے تار سے عقیق احمر، سبز فیروزہ، زبر جد اور یاقوت ازغوانی جیسے قیمتی اور چمکدار پتھروں کو باندھا جاتا تھا۔ کانوں کے بندے اور بالیوں کوفیروزہ، سَنگِ لاجورد(سرخ نیلے رنگ کا کم قیمتی پتھر) سے مکمل سجادیا جاتا تھا۔ عام لوگوں کے پاس ان قیمتی دھاتوں اور پتھروں کو خریدنے کی گنجائش نہیں ہوا کرتی تھی، لیکن ہنر مند لوگ ان خوبصورت اور مشکل نقش و نگار والی اشیاء کو عام لوگوں کی استطاعت کے مطابق بھی تیار کیا کرتے تھے۔61
سلطنت فارس میں غذائی اجناس کی وافر مقدار متعدد اقسام میں موجود تھیں۔ قحط سالی کے علاوہ شاذو نادر ہی غذائی قلت کا معاملہ درپیش آتا تھا۔ ایک خاندان کے لیے اناج، لوبیا، سیم پھلیاں، پھل، اور سبزیاں معمول کی اہم غذا ئیں تھیں۔ مشروبات میں شراب اورخمر کا عام استعمال کیا جاتا تھا۔مصالحہ جات جیسے دھنیا، کالی تلسی، پودینہ اور ہلدی کو پکوان بنانے اور دیگر کھانوں کی تیاری میں بروئے کار لایا جاتا تھا۔ خشک میوۂ جات اور پھلیاں پوری مملکت میں کھائی جاتی تھیں یہاں تک کہ ان کی ترسیل دور دراز علاقوں میں بغیر خراب ہوئےبآسانی جہازوں کے ذریعے بھی کی جاتی تھی۔ پالک جو آج پوری دنیا میں غذا کے طور پر کھائی جاتی ہے،اس کی پیداوار کرنے والے سب سے اولین لوگ فارسی تھے ۔وہاں کے خانہ بدوش صحرائی لوگ بھیڑ کے دودھ سے مکھن اور دہی حاصل کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بکری، گائے اور گھوڑی سے بھی دودھ دوہا جاتا تھا۔ گوشت ان جانوروں کے علاوہ مرغی اور خنزیر سے بھی حاصل کیاجاتا تھا۔ شکار بازی بہت زیادہ مقبول تھی۔ اشرافیہ جنگلی جانوروں کا گوشت، جیسے جنگلی سور، خرگوش، اور ہرن شوق سے کھایا کرتے تھے۔ بحر گیلان کے ساتھ کناروں پر کثیر مقدار میں مچھلی بھی میسر ہوا کرتی تھی ، مچھلی کو گوشت کے حصول کا بہترین ذریعہ شمار کیا جاتاتھا۔ گوشت کا روزانہ استعمال کرنے والوں کی تعداد کم تھی لیکن اشرافیہ اور امراء اسےکثرت سے غذا میں استعمال کیا کرتے تھے۔ہیروڈوٹس (Herodotus) فارس میں منائی جانے والی تقریبات کے حوالے سے لکھتا ہے کہ سالگرہ کی محافل میں پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا جاتا جس میں وافر مقدار میں بیل، گھوڑا، اونٹ یا گدھے کا گوشت بڑی انگیٹھیوں میں بھون کر پیش کیا جاتا تھا، اس کے مقابلے میں غریب افراد اپنی دعوتوں میں چھوٹےجانوروں کا گوشت بطور ضیافت پیش کیا کرتےتھے۔62
سلطنت فارس کے تمام حصوں میں زمین پر فصل اگائی جاتی تھی اور فارسی صحت مند غذا سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ عام طور پر فارسی اناج میں چاول، جو، اور گندم میں مختلف سبزیاں ، کھجوریں، نارنگی اور لیموں کوساتھ ملاتے اور اس میں مصالحہ شامل کرکے رنگا رنگ اور ذائقہ دار متعدد پکوان تیار کرتے تھے۔اناج سے آٹا اور مختلف انواع کی روٹیاں بھی بنائی جاتی تھیں۔ 63قدیم ا یرانیوں کی معمول کی غذاؤں میں روٹی، جو کا کلچہ(کیک) جسے"مازا (maza)"بھی کہا جاتا تھا، الائچی ، نمک میں پکائے گئے اناج ، ابلا ہوا اور بھنا ہوا گوشت شامل تھے۔ اسٹرابو (Strabo)نے فارسیوں کی کھانے پینے سے متعلق عادتوں کو بیان کیا ہے جس کی تصدیق پرسپولیس(Persepolis) تختیوں سے بھی ہوتی ہےکہ فارس میں جو کو باریک پیس کر روٹی اور کچومر بنا کر کھاناخاص غذاؤں میں شمار کیا جاتا تھا۔ زیادہ تر بکرے اور پالتو مرغیوں کا گوشت استعمال کیا جاتاتھا ، ان کے لئے رومن پیسٹیو ویلاٹیکا (Pastio Villatica)طرز کے الگ سے فارم مختص تھے، وہیں مویشیوں کی پرورش کی جاتی اور اسی کے ذریعےشاہی خاندان کے افراد کے کھانے اور مختلف انواع و اقسام کےپکوان تیار کیے جاتے تھے۔ 64فارسی خالص اور تیز مشروبات پینے کے بہت زیادہ شوقین تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سوچ بچار کرنے کا عمل وہ اسی وقت کیا کرتے تھے جب ان پر نشہ طاری ہوجاتا تھا۔65زیادہ تر فارسی کھجور اور انگور کی خالص شراب استعمال کیا کرتے تھے اور خاص طور پر کھانا ہضم کرنے کے لیے شراب میں نمک ملا کر استعمال کیا کرتے تھے۔ پھلوں میں زیادہ تر انجیر، کھجور، اس کے علاوہ شہتوت، آلوبخارا، سیب، ناشپاتی، بادام، اخروٹ اور پستہ کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ عہد عتیق کے فارسی پھلوں میں انار، آڑو، سنگترے اور مالٹے کی قسم کے موٹے چھلکے والے ایک پھل کو غذا کے طور استعمال کیاکرتے تھےجس کے شواہد رومی یا یونانی دور سے ملتے ہیں۔ سبزیاں، جڑی بوٹیاں، اور دودھ کی اشیاء کے حوالے سے پرسیپولس(Persepolis) کتب میں شواہد بالکل موجود نہیں یا انتہائی کم ہیں، لیکن ان کے حوالےسے یہ مانا جاتا ہے کہ یہ اشیاء بھی فارسیوں کی بنیادی غذا کا حصہ تھیں۔ 66ژرکسیس (Xerxes)کے راج تک لوگ کھانے پینے میں محتاط رہا کرتے تھے، دن میں ایک مرتبہ کھانا کھاتے اور پانی کے علاوہ کوئی مشروب استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔67
قدیم فارسی معاشرے میں صفائی ستھرائی کا عمل اخروی زندگی میں کامیابی کے لیے بہترین فعل تصور کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی شخص اچھا اور صاف ستھرا کا م گندے ہاتھوں سے کرتا تو اسے ناکارہ اور فضول تصور کیا جاتا تھا۔ ایسے اشخاص جو مسلسل گندگی پھیلانے اور وبائی بیماریاں و امراض پھیلانے کا سبب بنتے تھے ان کے لیے سخت سزا کا حکم نامہ جاری کردیا جاتا تھا۔خوشی و پرمسرت تہواروں کے موقع پر تمام لوگ سفید لباس زیب تن کرکےایک ساتھ ایک مجلس میں جمع ہوا کرتے تھے قدیم فارسی زبان اوستا(Avesta) میں لکھے گئے مجموعہ قوانین میں تقریبات میں شامل ہونے کی احتیاطیں اور غسل کے طریقٔہ کا ر کافی مفصل صورت میں موجود ہے۔ زرتشی مقدس صحائف کے مختصر کتابچوں میں جسم اور روح کو پاکیزہ کرنے کے تھکادینے اور اکتادینے والے اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں ۔ ناخن تراشنا، بال بنانا، اور سانس باہر نکالنے کے عمل کو ناپاک اور پلید تصور کیا جاتا تھا۔ 68
فارسی تہذیب و ثقافت کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ایک بہتر معاشرہ بذات خود صرف مادّی وسائل اور نعمتوں کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاسکتا بلکہ ایک مضبوط ، انصاف پرور اور اخلاقی قوانین کی موجود گی میں ہی پنپتا اوراستوار ہوسکتا ہے۔قدیم فارسی معاشرے میں ہر طرح کی نعمتیں و آسائشیں موجود تھیں لیکن اخلاقی قوانین اور اصولوں کا شدید فقدان تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فارس میں خاندانِ سلاطین اور شاہی سلسلہ طویل عرصے تک حکومت کرنے اور ایک منظم و مستحکم معاشرہ قائم کرنے میں یکسر ناکام رہا تھا۔ فارسی معاشرے کو صحیح سمت میں لانے کے لیے خدائی تعلیمات کسی حد تک زرتشی مذہب کی صورت میں موجود تھیں لیکن اس کے باوجود ان کی جہالت و نادانی نے انہیں ناواقف اور گمراہ کردیا تھا۔ یہی گمراہی و نادانی ان کی زندگیوں میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ وہ اصول واخلاقیات اور بداخلاقی، انصاف اور ظلم اور صحیح اور غلط کے مابین فرق کرنے میں مکمل طور پر ناکا م ہوچکے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نفسانی خواہشات اور ذاتی پسند و ناپسند کو پر لطف زندگی کے قوانین شمار کرلیا تھا۔ کھانا پینا ، اور "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست" کے فلسفہ پر عمل کرکےاپنے شب و روز گزارنا ان کا وطیرہ بن چکا تھا۔ امرا ءغریب لوگوں سے وسائل چھین کر، ان کے حقوق پامال کرکے عیاشی میں منہمک تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اشرافیہ کی مسلسل عیش پرستی میں انہماک نے معاشرے کی جڑوں کو کمزور کرنا شروع کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دوسرا طاقتور طبقہ کچھ عرصے بعد حکومت کا تختہ الٹ دیا کرتا اور یہی سلسلہ آگے جاری رہاتھا۔ یہاں تک کہ جو بھی نئی حکومت قائم ہوتی ، وقت گزرنے کے ساتھ وہ بھی اسی عیش پرستی میں مبتلا ہوجایا کرتی تھی ۔