Encyclopedia of Muhammad

Languages

english

قدیم فارس کے مذہبی عقائد

اقوامِ عالم مختلف مذہبی اعتقادات و نظریات کی حامل رہی ہیں۔جس کے باعث ہر قوم کسی نہ کسی کی عبادت ضرور کرتی رہی ہے۔قدیم فارس کے باشندے مظاہر پرست تھے۔ روشنی، آسمان، آگ ،ہوا اور وہ تمام اشیاء جو نفع بخش ہوتیں، قابل پرستش سمجھی جاتی تھیں۔ خاص طور پر سورج کو سب سے بڑا دیوتاسمجھا جاتا تھا۔اس کے علاوہ ان کے اہم خدا "وارونا(Varuna)"اور"متھرا(Mithra)"تھے۔ مؤخر الذکر کو"متھرا(Mithra)" اس لیے بھی کہتے تھے کہ یہ ایک طرح سے سورج دیوتا کا دوسرا نام تھا۔ اسی طرح ایک مقدس بیل کی پوجا بھی کی جاتی تھی جس کا نام "ھوما "تھا۔نیز آگ کی پوجا کا تو عام رواج تھا۔ علاوہ ازیں یہ عالم رنگ وبوکس طرح معرضِ وجود میں آیااور اس کے علاوہ دیگر نظریات یعنی خیر وشر ،روح اور اس سے متعلق توہمات پر مبنی تصورات کے بارے میں عجیب وغریب نظریات اہل فارس کے ہاں رائج تھے۔ 1 فارس کے مشرکانہ دور میں زرتشت (Zoroaster)نے لوگوں میں تبلیغ کرنا شروع کی اور انہیں ایک خدا سے جوڑنے کے لیے جدو جہد کی تھی۔

فارسی زرتشتیوں کے یہاں زمانہ قدیم سے آج تک مذہبی پیشوائی کا منصب موروثیت پر مبنی ہے ، وہ اپنے مذہبی پیشوا کو"مؤبد"کہتے تھے۔ مؤبد "مغ "کی ترقی یافتہ شکل ہے، اس سے یہ بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ مجوس مخصوص قبیلہ یا گروہ ہیں جنہوں نے پشت درپشت دینی پیشوائی اور مذہبی رہنمائی کے فرائض انجام دیے تھے، اسی لیے بہت سے مؤرخوں نے مجوسی کو قبیلہ کے بجائے مذہبی گروہ کی حیثیت سے متعارف کرایا تھا۔چنانچہ زرتشت مذہب (Zoroastrianism)کی اشاعت کے بعد بھی دینی پیشوائی مجوسیوں ہی کو حاصل رہی، گویا ہندوستان کے برہمنوں (Brahman)کی طرح فارس کے مجوسیوں کو جو امتیاز حاصل تھا وہ بنیادی طور پر مذہبی تھا اور سیاسی مغلوبیت کے باوجود مذہبی ثقافتی اور تعلیمی اعتبار سے انہوں نے بعد کے حالات میں اپنی پوزیشن بحال رکھنے کی کوشش کی تھی۔

تصورِ خدا

فارسی، خدا کے حقیقی تصور سے لاعلم تھے ایسے میں زرتشت (Zoroaster)آیا اور اس نے توحید کا پیغام دیا۔ اس نے ایک خدا کی پوجا کرنے کا درس دیا جس کا نام"اہور امزدا(Ahura Mazda)"تھا، لیکن رفتہ رفتہ لوگ دوبارہ اپنے ماقبل دیوی دیوتاؤں کی عبادت کرنے لگ گئے اگرچہ ان کے نزدیک ان دیوتاؤں کا درجہ کبریائی ہرگز "اہورامزدا(Ahura Mazda)"جتنا نہ تھا۔اس کے بعد ایک اور قادر مطلق کا بھی اضافہ ہوگیا جس کو "اہرمن (Ahriman)"کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کو برائی اور شر کا خدا مانا گیا جبکہ "اہور امزدا(Ahura Mazda)"سراپاخیر کی قوت کا نام تھا لہٰذا دونوں خدا ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے۔ خیرو شرکی اس ازلی ابدی لڑائی میں کبھی خیر کا خدا جیت جاتا تو کبھی شر کے خدا کا پلہ بھاری رہتا تھا۔ 2 زرتشیت (Zoroastrianism)میں خدا تعالی کے لیے"اہور امزدا(Ahura Mazda)"کا نام سب سے متبرک سمجھا جاتا تھا۔ آہورا(Ahura)کامطلب "آقایا مالک"اورمزدا(Mazda) کا مطلب "مطلق دانش"تھا۔ دینکرت (Denkart) میں "اہور امزدا(Ahura Mazda)"کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

  "وہ بادشاہ ہے، رعایا نہیں ،وہ باپ ہے لیکن کسی کی اولاد نہیں۔وہ سردارہےاوراُس کا کوئی سردار نہیں۔وہ غنی ہے اور فقیروں کے پاس نہیں پھٹکتا۔وہ خوداپنی ذات میں علم ہے۔کسی ذریعے سے علم حاصل نہیں کرتا۔وہ ہدایت کرتا ہے۔بخشش اور رحمت کرتا ہے۔"3

دیوتا

قدیم فارسی باشندے مشرکانہ عقائد کے حامل تھے۔ ان کے نزدیک بہت سے خداوں کا تصور قائم تھا، جیسے جنگ کا خدا، زراعت کا خدا، اسی طرح طوفان کا خدا اور اس کے علاوہ دیگر خداؤں پر بھی ایما ن رکھتے تھے۔مظاہر پرستی بھی لوگوں میں رائج تھی۔ اسی طرح قدرتی عناصر جیسے آگ کو مقدس جسم مان کر اس کی پوجا کی جاتی تھی۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کےمشرکانہ عقائد و نظریات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا تھا اور ایک وقت ایسا آگیا کہ لوگ اس توہم پرستی کے بھنور میں الجھ کر رہ گئے اور اپنے ارد گرد اپنی مراد ، خواہشات پوری کرنے والے متعدد خداوں اور شیطانی دیوتاوٴں کی پرستش میں محو ہوگئے۔4

فارسیوں کے خدا "متھرا(Mithra)"اور "اناہٹا (Anahita)"کا ذکر سب سے پہلے"آرٹاژرسس منیمون (Artaxerxes Mnemon)"اور اوخوس (Ochus) "کی کندہ کی گئیں تحاریر میں ملتا ہے۔ فارسی قدیم دیوتاجسے ابتدا میں عہدو پیمان کا خدا تصور کیا جاتا تھا بعد ازاں اسے ایک مخفی مذہب کا خدا بنا دیا گیا تھا جس کے عقیدت مند تمام یونانی سلطنت میں موجود تھے۔ فارسیوں کا جو اصل مذہب تھا وہ اپنی خالصیت مٹا چکا تھا، ایک خدا "اہورامزدا(Ahura Mazda)"کا عقیدہ پرانا ہوچکا تھانتیجتاً نئے خدا اس کی جگہ وجود میں آتے چلے گئے پھر مزید خداوٴں کا تصور بڑھتا چلا گیا اور یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ آگے چلتا چلا گیا۔

قدیم دور کے فارسی "متھرا(Mithra)"خدا کی عبادت بھی کیا کرتے تھے، لیکن یہ مذہب پانچویں صدی کے اختتام تک اعلی مذہب کے طور پر مشہور نہیں ہوا تھا۔ابتدائی اوستا(Avesta) مذہب میں "متھرا(Mithra)"کو بلند و بالا روشنی کے جہان اور نچلی اندھیروں کی دنیا کے مابین ثالثی کاکردار ادا کرنے والا بتایا گیا تھا۔ آرٹاژرسس دوم (Artaxerxes II)سے لے کر مستقبل میں آنے والے بادشاہ "متھرا(Mithra)"کو فارس کے لیے شاہی شان و شوکت دینے والے خدا کے طور پر مانتے تھے۔ اس کا نام عہدو پیمان کے دوران لیا جاتا تھا اور اس سےمددکے لیے دعا بھی کی جاتی تھی۔فارسی چار عناصر ، روشنی (جس کو مزید دن کی روشنی، سورج کی روشنی اور رات میں چاند کی روشنی میں تقسیم کیا گیا)، پانی، زمین اور ہو ا کی عبادت کیاکرتے تھے۔5 فارس میں مزید جن دیوتاؤں کی عبادت کی جاتی تھی ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

مردوک(Marduk)

مردوک (Marduk)جس کا دوسرا نام "بیل(Bel)"بھی تھا، 6 بابل کا انتہائی قابل عزت خدا تصور کیاجاتا تھا۔ 7اس خدا کو انصاف، رحم دلی، شفاء، احیاء و تشکیل نو، جادواور عدل کا قائم رکھنے والامانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے طوفان اور زراعت کا دیوتا بھی تسلیم کیا جاتا تھا۔8بابل میں ہونے والے خون ریز معرکہ کے بعد متھرازم (Mithraism)کے ماننے والوں نے کلدانی جوتشوں سے روابط قائم کیے اور پوری کوشش کرکے سرکاری سطح پر "مردوک(Marduk)"کی پرستش کا آغاز کردیا تھا، حتی کہ ایک وقت ایسا آگیا کہ دونوں الگ الگ خدا"متھرا(Mithra)"اور "مردوک(Marduk) "کے بڑے پجار یوں نے اپنے خداوٴں کی عبادت ایک ساتھ کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور یوں ایک نیا مذہب "متھرازم(Mithraism)" ان دونوں مذاہب کے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ اس ترمیمی مذہب کے ماننے والوں نے شمالی دور دراز علاقوں میں سفر کیا اور "آرمینیا(Armenia)" میں ایک نئےفرقے کے طور پراپنی جگہ بنالی تھی۔9

اناہٹی (Anahiti)

اناہٹی (Anahiti) جسے "اناہٹا (Anahita)"کے نام سے بھی موسوم کیاجاتا تھا، قدیم فارسیوں کی شاہی شان و شوکت، جنگ، اور زمین کی زرخیزی کی دیوی تھی۔لیکن فارسی اسے زراعت کی دیوی زیادہ تصور کیا کرتے تھے۔ میسوپوٹینیائی (Mesopotamian)ابتدائی دور میں آرٹاژرسس دوم(Artaxerxes-II)نے اناہٹی دھرم کے ماننے والوں کو ممتاز حیثیت دی تھی۔اس کے علاوہ پوری سلطنت ِفارس میں ان کے اعزاز اور ان کی دیوی اناہٹی کی عبادت کے لیے مورتیاں بنوائیں گئیں اور گرجا گھر تعمیر کیے گئے تھے۔

اوستا(Avesta) میں اس دیوی کو" اردوی سورا اناہٹا (Ardvī Sūrā Anāhitā)"کے نام سے موسوم کیا گیا تھا جس کا معنی "دم گھونٹنے والی، طاقتور،اور غیر آلودہ" دیوی تھا۔اس کا نام یہ تاثر دیتا تھا کہ"اناہٹا (Anahita)" دیوی دو علیحدہ دیویوں کا مجموعہ تھی۔ 10 یونان میں اسے"ایتھینا(Athena)" اور"آرٹیمِس(Artemis)"سے پہچانا جاتا تھا، اس کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ یہ زہرہ نامی سیارے کی دیوی ہے۔اس کی پوجا ہند یورپی نسل کی قوم ماد(Medes) اوراہل فارس زرتشی (Zoroastrianism)مذہب قبول کرنے سے پہلے کیاکرتے تھے۔11

شفا دینے والے خدا

فارس میں متعدد دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی تھی جنھیں خاص طور پر شفا دینے والے خدا مانا جاتا تھا۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

ایریمن(Airyaman)

اوستا (Avesta)میں "اریمن(Airyaman) "دیوتا کو بہترین شفا دینے والا خدا مانا جاتا تھا۔ اس کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ یہ بہت رحم دل اور سخی دیوتا ہے۔ اور یہ دیوتا ہندوستان اور فارس دونوں میں شفا دیتا ہے۔ "اریمن(Airyaman) "خدا کے نام کا معنی دوست اور ساتھی کے ہیں۔12

تھریٹا (Thrita)

تھریٹا (Thrita)، ٹریٹا (Trita)کی مثل پرانا، عقلمند، اور بہت زیادہ رحم دل محسن دیوتا تھا، جسے مدد کرنے والا اور انسانیت کے دشمنوں کو دفع کرنے والےکے طور پر مانا جاتا تھا۔ تھریٹا (Thrita)لمبی زندگی دینے والا خدا تھا۔ تھریٹا میں بذات خود شفا دینے کی صلاحیت نہیں تھی بلکہ اس میں یہ قوت زندگی کے پودے"سوما(soma)" سے تعلق ہونے کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی۔اسی تعلق نے اسے ایک مستحکم شفا ددینے والا دیوتا بنا دیا تھا۔ 13

تھریٹا (Thrita)کو شفا دینے والے خدا کے ساتھ ساتھ ہوما14کا بنانے والا اور ایک ایسا خدا مانا جاتا تھا جو خطرناک بیماریوں حتٰی کہ موت کو بھی فنا کرنے والی طاقت سے کھینچ لاتا تھا۔تھریٹا وہ تیسری ذات تھی جس نے جسمانی دنیا کے لیے ہوما تیار کیا تھا۔ تھریٹا (Thrita)کی " اہورا مزدا(Ahura Mazda)"سے دعا نے تمام شفا دینے والے پودوں کو جو وسیع سمندر میں ووروکاشا (Vourukasha)کے مقام پر موجود گاؤکیرنا(Gaokerena)درخت کے ارد گرد اگتے تھے، ان کی طاقتوں کو اپنے اندر شامل کرلیا تھا۔تھرائٹاؤنا (Thraetaona) کے مطابق دیوتا "تھریٹا (Thrita)"شفا دینے والا اور فتح یاب جنگجو تھا۔ اس نے تین سروں والے، تین جبڑوں والے اور چھ آنکھوں والے اژدہے"ازہی دہاک(Azhi-Dahak)"سے مقابلہ کیا تھا۔ اسےزخم، بخار، فضلے اور پیشاب کاغیر ارادی طور پر نکلنے کی بیماری کو دور کرنے والا اور شیطان صفت افراد سے پیدا ہونے والی تکالیف کو دور کرنے کے لیے پکارا جاتا تھا۔فارسیوں کاعقیدہ تھا کہ یہ تمام بیماریاں اور تکالیف "ازہی دہاک(Azhi-Dahak)"کی شیطانی طاقت کی بدولت پیش آتی تھیں۔ تھریٹا (Thrita)نے اس اژدہے کو اپنے ڈنڈے سے ضربیں لگائیں لیکن اسے قتل نہیں کرسکا تھا۔ آخر کار جب اس نے تلوار اٹھاکر اژدہے کے جسم میں گھونپ دی تو اس کی کراہیت بھرے جسم کے اندر سے زیادہ تعداد میں انتہائی خوفناک جاندار رینگتے ہوئے نکلنا شروع ہوگئے اور پوری دنیا ان مکروہ اور گندی مخلوق سے بھر گئی جس میں سانپ، رینگنے والا بھدا مینڈک، بچھو، چھپکلیاں، کچھوے اور مینڈک شامل تھے۔ تھریٹا (Thrita)ان خوفناک جانداروں کے کاٹنے سے پیچھے ہٹ گیا اور مارنے کے بجائے اس نے ان جانداروں کو "دیماوند (Demavand)"پہاڑ میں جکڑ کر قید کردیا تھا۔اسی دن کے بعد سے دنیا میں زلزلہ آنا شروع ہوگئے تھے۔یہ بھی کہا جاتا تھا کہ فنا کرنے والی طاقتیں ایک دن تھریٹا (Thrita)کے اس عمل کو روکنے میں کامیاب ہوگئیں۔ بعد ازاں تھریٹا (Thrita)کو چھ آنکھوں والے اژدہے"ازہی دہاک(Azhi-Dahak)"نے قتل کردیا تھا، تو اس کی اولاد تھرائٹاؤنا (Thraetaona) نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیا اور "ازہی دہاک(Azhi-Dahak)"کو "دیماوند (Demavand)"پہاڑ سے باند ھ دیا تھا۔ بعض اوقات تھرائٹاؤنا (Thraetaona) اپنی ذات کو گدھ کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ 15

متھرا (Mithra)

"متھرا(Mithra)"ابتدائی دور کے ہند فارسی اعلیٰ دیوتاؤں میں سے ایک تھا جس کی اہل فارس پوجا کیا کرتے تھے۔حقیقت میں"متھرا(Mithra)"عہدو پیمان کا خدا تصور کیا جاتاتھا۔اس کے نام کا معنی"جو کسی عہد میں جکڑ سکے" کیا جاتا تھا۔ "متھرا(Mithra)"دیوتاکوزرتشیت (Zoroastrianism)اور ہندو مذہب (Hinduism)میں ایک باعزت علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور دونوں مذاہب کی مذہبی رسومات اوستا (Avesta)اور وید (Veda) کی تعلیمات کو مانتی تھیں۔16

"متھرا(Mithra)" کا ذکرکتاب اوستا (Avesta)میں انتہائی اہم خدائی طاقت کے طور پر کیا گیا تھا ۔سنستکرت میں مترا، پہلوی زبان میں متر اور مئورا اور جدید فارسی میں مھر(Mihr) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا معنی دوستی، عہد و پیمان اور پیار و محبت کیا جاتا تھا۔ فارسیوں کے نزدیک "متھرا(Mithra)"روشنی اور چمک دمک کا دیوتا تھا۔ اوستا میں مہر (Mihr)کے نام سے ایک مکمل یشت(Yashts)موجود ہے۔ "متھرا(Mithra)" دیوتا کا نام ہخامنشی سلطنت(Achaemenid Empire)کے بادشاہوں کی تحاریر میں دیوتا " اہورا مزدا(Ahura Mazda)"اور پانی کی دیوی "اناہٹا (Anahita)" کے نام کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا۔17

رشنو (Rashnu)

رشنو(Rashnu)دیوتا ، "متھرا(Mithra)"ا ور "سروشا (Sraosha)"کے ساتھ مل کر چنواٹ پل (Chinvat Bridge)پر موجود مرے ہوئے انسانوں کی روحوں کو احکامات صادر کیا کرتا تھا ۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں ترازو تھامے ہوئے ہوتے تھے۔18اس کا نام بیانیہ انداز میں کہے جانے والے لفظ "راز "سے اخذ کیا گیا تھاجس کا معنی مکمل واضح، بالکل صحیح سمت میں نتیجہ اخد کرنا تھا۔19رشنو(Rashnu) دیوتا سیدھے اور صحیح اخلاق کا خدا تھا۔اس کی مزید خصوصیات یہ تھیں کہ یہ مرے ہوئے انسانوں کے اعمال کو برابری کی بنیاد پر دیکھتا تھا۔ 20مردوک، اناہٹی، ایریمن، متھرا اور رشنو کی طرح اہل فارس نے اور بھی خود ساختہ خدا بنائے ہوئے تھے جو انکی صحیح دین سے دوری اور گمراہی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ وہاں کے بڑے بڑے بادشاہ اور دانشور بھی اس حقیقت کو سمجھنے سے یکثر غافل تھے کہ اس کائنات کا اصل خالق اور مالک فقط ایک ہی ہے اور یہ جتنے مناصب انہوں نے دیگر خداؤں میں تقسیم کیے ہوئے تھے تمام کے تمام اپنی اصل میں فقط ایک ہی خدا کے مرہون منت ہیں مگر کیونکہ انہوں نے نہ تو انیباء کرام کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں جگہ دی اور نہ ہی زرتشت کی صحیح تعلیمات کو اپنایا اس لیے گمراہی اور بدعقیدگی انکے مزاجوں کا لازمی جزء بن گئی تھی جسکی کچھ اصلاح عیسائیت جبکہ صحیح طور پر کامل اصلاح اسلام نے کی۔

دیگر مذاہب

قدیم فارس کی سلطنت زمینی حدود کے اعتبا ر سے صرف ایک ملک پر محیط نہیں تھی بلکہ اس کا احاطہ کثیر رقبہ کو گھیرے ہوئے تھا جس میں متعدد ممالک شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فارس کی پوری سلطنت کا ایک مرکزی مذہب نہیں تھا بلکہ مختلف علاقوں کے باشندوں نے الگ الگ مذاہب اپنائے ہوئے تھے۔بعض علاقوں میں ایک ہی دھرم پر عمل کیا جاتا تھا اور کچھ ممالک میں اسی مقام کے مروجہ عقیدے کی پیروی کی جاتی تھی۔ ان ادیان کی تفصیل درج ذیل ہے:

مظاہر پرستی

فارس کی آریا(Aryan)قومیں ہجرت سے قبل ایک خاص مذہب پر کاربند تھیں جس کو مظاہر پرستی کہا جاسکتا ہے۔21 یہ مظاہر پرستی ویدک(Vedic) مذہب کے مشابہ تھی۔چنانچہ دونوں میں مظاہرِفطرت کی پرستش رائج رہی تھی اور لوگ دیوی اور دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔ عام لوگ ویدک (Vedic) مذہب کی طرح طاقت کی پوجا کرتے تھے، جوکہ دیوتا کے طور پر جانے جاتے تھے۔وہ(دیوتا) فطرت ،سورج ، چاند، ستارے،زمین،آگ، پانی اور ہوا کی طاقت کے پُتلے (مظہر)تھے۔ 22 اس کے علاوہ قدیم فارسی باشندے قدرت (مثلاً پہاڑوں، دریاؤں اور سمندروں وغیرہ) اور حیوانوں کی بھی پرستش کیا کرتےتھے۔23

زروانزم (Zurvānism)

زروان(Zurvān) دیوتاکی اولین تعلیمات تیرہ (13)یا بارہ(12) صدی قبل مسیح کی تختیوں کے دور سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کی باقیات نوزی (Nuzi)کے قدیم میسوپوٹیمیائی (Mesopotamian)شہر کے مقام پر ملی تھیں۔ فارسیوں کے نزدیک زروان (Zurvān) پروان چڑھانے، بلوغت اور سڑانے کا دیوتا تھا۔ اسکے علاوہ دیوتا کو دو مختلف پہلوؤں کے طور پر تصور کیا جاتا تھا، اسے بغیر حد کے وقت کا خدا اور لمبے دور کا خدا مانا جاتا تھا۔ حقیقت میں زروان(Zurvān) تین الگ خدائی طاقتوں سے منسلک قوت تھی، ان میں سے پہلی قوت وایو(Vayu)"تیز ہوا"، دوسری تھورشتار(Thvarshtar)"خلا"، اورتیسری آتار(Ātar)"آگ"کہلاتی تھی۔

زرتشی مذہب(Zoroastrianism) سے پہلےفارسیوں کا سب سے اعلیٰ دیوتا زروان (Zurvān)ہی تھا۔ان کے نزدیک زروان (Zurvān)زمین و آسمان کے درمیان گردشی محور سے تعلق رکھتا تھا۔ اس دیوتا کو تصویر میں پروں والا شیر دیوتادکھایا جاتا تھا جو ہر طرف سے اژدہوں سے گھرا ہوا سورج کی گردش کو ظاہر کررہا تھا۔

زرتشی مذہب (Zoroastrianism)کی تبدیل شدہ صورت میں زروان (Zurvān)دیوتا کی تیسری سے ساتویں قبل مسیح کےفارسی ساسانی (Sassanian)دور میں دوبارہ پرستش کی جانے لگی تھی۔زروانی تعلیمات میں دو(2) زرتشی دیوتاؤں اہورا مزدا (Ahura Mazdā)اور انگرا مینیو(Angra Mainyu) یا اہریمن(Ahriman)کو متساوی قوت قرار دیا گیا تھا۔ اس نئے عقیدے کی کٹر زرتشیوں نے بھرپور مخالفت کی تھی۔ زروانی مذہب(Zurvanism) کی تعلیمات زیادہ تر متھرازم (Mithraism)، منیچائیزن(Manichaeism) اور اس کے علاوہ دیگر روحانی طاقتوں سے متاثرشدہ تھیں۔ زروانی مذہب(Zurvanism) اسلام کے آنے کے کچھ عرصے بعد ہی فارس سے مکمل طور پر ختم ہوگیا تھا۔24

مانی مت(Manichaeism)

فارسی مذاہب میں زرتشیت(Zoroastrianism) کے بعد جس مذہب نے مقبولیت حاصل کی وہ مانی مت (Manichaeism) تھا۔ یہ مذہب ترکستان، شمالی افریقہ نیزفارس و عراق سے مشرق کی جانب افغانستان، ترکستان و چین تک پھیلا تھا۔25 مانی مت زرتشیت کے دو بڑے گروہوں میں سے پہلا اور انتہائی اہم فرقہ تھا جس کی ترویج بڑی زور و شور سے گی گئی تھی، دوسرے گروہ کانام مزداکزم(Mazdakism) تھا۔اس کی تبلیغ نسبتاً بعد کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ مانوی مذہب(Manichaeism) فارس کی سلطنت میں تیسری صدی عیسوی میں نمودار ہو اتھا۔ اس کی روک تھام کے لیے اصل زرتشت مذہب کے ماننے والوں نے شدید مقابلہ کیا اور پرزور مذمت کی تھی۔

مانی (Mani)بذات خود ایک فارسی نژاد شخص تھا اور ابتدائے عمر میں زرتشی مذہب(Zoroastrianism) کا ایک پیشوا تھا۔ اس نے مجوسیت،بدھ مت اور عیسائیت میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی اور ایک نیا مذہب مرتب کیا جسے اسی کے نام پر مانی مت کہا جاتا ہے وہ زرتشت(Zoroaster)، گوتم بدھ اور جناب عیسیٰ تینوں کو نبی سمجھتا تھا لیکن یہودیوں کے انبیاء کا منکر تھا۔ 26

مانی (Māni)نے اس دور میں موجود مختلف مذاہب کی تعلیمات کو ایک ساتھ جمع کرکے ایک نیا مذہب تشکیل دینے کے لیے جدو جہد کی تھی۔اپنی جذباتی اور ولولہ انگیز طبیعت کی وجہ سے اس کی شدید خواہش تھی کہ یہ مذہب صرف فارس کی حدود میں مقید نہ رہے بلکہ پوری دنیا اسے تسلیم کرلے۔بالفاظِ دیگر، مانی (Māni)کی انتہائی آرزو تھی کہ پوری دنیا یعنی مشرق ومغرب کے تمام علاقوں کو ایک ہی عقیدے پر لاکر منظم کیا جائے جس کی بنیاد ان ہی عقائد پر ہو جس کو اس نے ترتیب دیا تھا۔ 27

مانی (Māni) نے اپنی پیدائش کا مقام اور وقت خود "شابوہراگن (Shabuhragan)"نامی کتاب میں درج کروایا تھا جس کا عنوان "پیغمبر کے آنے کے وقت" تھا۔یہ کتاب وسطی فارسی دور میں شاہ پور اول کے اعزاز میں مرتب کی گئی تھی۔ مانی کے مطابق اس کی پیدائش 215 ء یا 216 ء قبل مسیح میں شہر بابل میں ہوئی تھی۔ 28

مانی بچپن ہی سے روحانی تصورات سے ہم آہنگ تھا ۔جب وہ بیس (20)برس کی عمر کو پہنچا تو اسے روحانی و الہامی نظریات کی ترویج کرنے والی شخصیات نے بہت متاثر کیا، اسی کے نتیجے وہ ایک جھوٹا پیغمبر بن کر نمودار ہواتھا۔جب اس نے پیغمبری کا اعلان کیا یہ وہی دن تھا جب ساسانی بادشاہ"شاہ پوراول Shāhpuhr (Sapor)-I "کی تخت نشینی ہوئی تھی، اس اندازے کے مطابق وہ بیس (20)مارچ 242 A.D. کی تاریخ تھی۔29مانی (Māni) نے لوگوں کواپنے نئے دین کی طرف دعوت دی ۔ شہزادوں میں سب سے پہلے شاپور کے بھائی فیروزنے اس کی دعوت پر لبیک کہا اور غالباً اس کی وساطت سے مانی کی رسائی دربار میں ہوئی اور شاپور بھی اس سے متاثر ہوا اور اس نئے دین کو قبول کرنے کا اعلان کیاتھا۔ شاہی سرپرستی کی وجہ سے یہ دین فارس میں تیزی سے پھیلا اور تقریباًدس (10)سال تک مانی آزادانہ تبلیغ کرتا رہا۔ مانی مت(Manichaeism) کی اشاعت سے زرتشیت(Zoroastrianism)کے قائدین، اور موبدان سخت پیچ و تاب کھا نے لگے اور مانی کو معتوب و مطعون کرنے کی فکر کرنے لگے۔ چنانچہ انہوں نے شاپور کی اجازت سے مناظرہ کیا اور اسے شکست دی۔ شاپور اپنے رسول کی شکست سے سخت برہم ہوا اور اسے قتل کرنے کا حکم صادر کردیا ۔ مانی کسی طرح بھاگ نکلا اور کشمیر اور تبت سے ہوتا ہوا چینی ترکستان پہنچا تھا۔ 30اپنی طویل جلا وطنی کی وجہ سے جو ممکنہ طور پر بیس(20) سال پر محیط تھی وہیں رہا، اس نے اپنے مذہب کی تعلیمات شمالی ہندوستان، تبت، چینی ترکستان اور خراسان اور اس کے علاوہ جہاں بھی وہ گیا اس نے اپنے مذہب کی بھرپور ترویج کی تھی۔آخر کار مانی نے جرأت کی اور فارس واپس آگیا، اس نے" ہورمزد اول(Hurmizd-I) (272-273) "کے دور کے اعلی شاہی حکمرانوں سے ملاقاتیں بھی کیں، لیکن کچھ عرصے بعد ہی فارس کے مذہبی پیشواؤں نے مانی (Māni)کے جھوٹےدعوئے پیغمبری کے معاملے کو عدالت میں سنوائی کے لیے پیش کردیا ۔273 ء یا 274 ء سے تعلق رکھنے والے بہرام اول کے دور کے حکمرانوں نے مانی کو موت کی سزا دے کر اس پر عمل در آمد کروادیا۔اس کی موت کا طریقہ کار انتہائی وحشت ناک تھا۔سب سے پہلے اس کے پورے جسم سے کھال کھینچی گئی، اس کے بعد اس کا سر قلم کر کے اس کی کھال کو تنکوں کی مدد سے سلطنت کےشاہی دروازے پر لٹکا دیا گیا تاکہ مستقبل میں کوئی بھی شخص عقیدے سے منحرف ہونے کی جرأت نہ کرسکے۔مانی (Māni)کی اس بھیانک اور سخت تکلیف دہ موت کے باوجود مانوی مذہب (Manichaeism) بہت تیزی سے پھیلتا چلا گیااورفارس میں مانی مت پر پابندی کے باوجود یہ مذہب مرکزی ایشیا ء ، اور چائنا کے دور دراز علاقوں تک پھیل گیا تھا۔

مانی(Māni)اپنی سابقہ روحانی تعلیمات کی بدولت زرتشت(Zoroaster)، بدھا(Budha)اور پیغمبرعیسی (Jesus)کی شخصیات کو سچائی کا پیغام دینے والے اولین روحانی اشخاص میں شمار کیا کرتا تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کابھی دعوےدارتھاکہ جو کمی ان کے پیغام میں تھی میں نے اسےدور کردیا ہے۔ مانی (Māni)نے زرتشت(Zoroaster) کے پیش کردہ روشنی اور اندھیرے، روح اور مادے کے عقیدے کو اچھائی اور برائی کی قوتوں کے مابین فرق جاننے کا بنیادی آلہ قرار دیا تھا۔ اس نے بدھا(Budha) کی تعلیمات کو انسانی زندگی کے لیے تسلیم کردہ امر قرار دیا تھا، اس کے علاوہ پیغمبرعیسی (Jesus)کو قابل تقلید انسان اور وفا پرست مددگار گردانا تھا۔وہ اس بات کا قائل تھا کہ یہی وہ شخصیت ہیں جس کی دنیا کو تلاش تھی۔31

مانویہ (Manichaeism)پانچ طبقات میں منقسم تھے۔ معلّمون: تعلیم دینے والا،مشمسّون: جنہیں ضیاء آفتاب نے منور کیا،قسیسّوں: مذہی رہنما ، صدیقون: تصدیق کرنے والا،اور سماعون :سننے والے۔مانویہ دن میں چار(4)دفعہ نماز پڑھتے تھے۔ وہ بت پرستی کے قائل نہیں تھے۔ جھوٹ، لالچ، قتل، زنا، چوری، سحر و ساحری ور ریاکاری سے منع کرتے تھے۔ اور مہینے میں سات (7)روزے رکھتے تھے ۔ مانی(Māni)نے اپنی کتابوں کے لیے ایک نیا رسم ا لخط ایجاد کیا تھا ۔32

مانی(Māni)کی دوسرے مذاہب کی تعلیمات کو جمع کرکے ایک نیا مذہب تشکیل دینے نے نئے قبول کرنے والے اور پرانے ماننے والوں کے لیے کسی بھی مذہب کے لوگوں کو اپنے دین کی جانب راغب کرنے کا راستہ ہموار کردیا تھا۔ دنیا کے مغربی علاقوں میں عیسائیت کا زور مضبوط تھا، اسی طرح مشرق میں بدھا کے ماننے والے کثیر تعداد میں موجود تھے، لیکن کائنات کے متعلق مانی کے نظریے کی بنیاد قدیم فارسی ثنویت کے عقیدے پر تھی، جس کی ترویج و اشاعت صدیوں پہلے زرتشت (Zoroaster)نے کی تھی لیکن اس کا نفاذ اور ترمیم اور اس کے روحانی فلسفہ کا اضافہ مانی نے کیا تھا۔مانی(Māni)نے ابتداء سے دو قوانین کی موجودگی کا مفروضہ پیش کیا تھا ۔ مانی کے نزدیک روشنی اچھائی کی قوت کی مثل ہے اور اندھیرا شیطانی طاقتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ عقیدہ مانی مت کا بنیادی عقیدہ ہے۔ 33

مزدَکیت

مانی (Māni)کی موت کے تقریباً ڈیڑھ سو(150)سال کے بعد فارس میں ایک دوسرے مذہبی رہنما کا ظہور ہوا، جو مزدَک(Mazdak)کے نام سےمشہور تھا۔ مزدک کے باپ کا نام بامداد تھا، جو نیشاپور کا رہنے والا تھا۔ ساسانی(Sassanian) بادشاہ قبادِاول کے عہد میں اس نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور لوگوں کو اپنے دین کی طرف بلایا۔ اس کے عقائد کے بارے میں رئیس المؤرخین علامہ عبدالرحمٰن ابن خلدون لکھتے ہیں:

  ثم عاد إلى الملك وصورة الخبر عن ذلك أنّ مزدك الزنديق كان إباحيا، وكان يقول باستباحة أموال الناس وأنھا في،وأنه ليس لأحد ملك شيء ولاحجره، والأشياء كلها ملك للّٰه مشاع بين الناس لا يختص به أحد دون أحد وهو لمن اختاره.34
  اسی زمانہ میں حکومت میں مزدک زندیق (مزدک زندیق)ظاہر ہوا یہ اس چیز کو مباح کہتاتھا اور کہا کرتاتھا کہ مال واسباب اور عورتیں کسی خاص شخص کی ملک نہیں ہیں ،جس کا جی چاہے بے تامل اختیار کرے کیونکہ یہ تمام چیزیں اللہ کی ملک ہیں جس میں ایک آدمی دوسرے آدمی کے مقابلے میں کسی چیز کا خصوصی طور پر حقدار ہونے کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ 35

مزدَک(Mazdak)کے نظری عقائد مانی مت (Manichaeism)سے ماخوذ تھے۔ یہ بھی نور و ظلمت کے دو خداؤں کا مُبَلِّغْ تھا اور دونوں کو ازلی مانتا تھا اور ان کی آویزش کو بلا ارادہ اور اتفاقی بتاتا تھا۔ اس کی تعلیم کے مطابق خیر کا خالق و صانع یزدان (Yazdaan) اور شر کا اہریمن(Ahriman) تھا۔ عقل، ادراک، کواکب اور شمس و قمر یزدان (Yazdaan) دیوتا کے پیدا کردہ تھے۔ اس کے برعکس سانپ، شیر اور درندے دیوتا اہریمن(Ahriman) کی مخلوق تھے۔ صحت و حیات کا عطاکرنے والا یزدان(Yazdaan) تھا، اور مرض و موت کو طاری کرنے والا اہریمن(Ahriman) تھا۔ الغرض جو مفید اور اچھا تھا وہ یزدان (Yazdaan) کی طرف سے تھا۔

مزدَک(Mazdak) کا دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ عالم ِروحانی کی ترکیب بھی عالمِ جسمانی کی طرح ہوتی ہے۔ یزدان(Yazdaan) ایک عظیم بادشاہ کی طرح تخت پر جلوہ افروز ہے اور چار خدّام قوی، تیز، شعور، حافظہ اور مسرت اس کے سامنے کھڑے ہیں اور یہی چار قوتیں عالم کے تمام امور انجام دیتی ہیں۔اپنی اخلاقی تعلیمات میں مزدَک(Mazdak) نے تقویٰ، پاکیزگی، زہد اور ترک شہوات پر زور دیا ہے نیز جانداروں کو ستانے اور گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔ اس کے عقیدے کے مطابق یہ دنیا تین (3)عناصر آب، خاک اور آتش سے وجود میں آئی تھی۔ اس لیے اس نے تینوں کو پاک رکھنے کا حکم دیا ۔ مزدَک(Mazdak) کی تعلیمات کا سب سے اہم حصہ اشتراکیت اور اشتمالیت سے متعلق تھا۔ اس کا خیال تھاکہ تمام دنیا میں نا ہمواری، ظلم ، کینہ ، حرص ، حسد اور جنگ وجدل اہریمن (Ahriman)کی طرف سے ہے اور اس کے پیدا ہونے کا سبب عورت اور دولت ہے، جس پر انسان مالکانہ قبضہ رکھتا ہے ۔ ملکیت کا تصور ہی برُا ہے اور یہ تمام فتنہ و شر کے پھیلنے کا سبب ہے۔ نیز یہ عدل کے خلاف ہے اس لیے دونوں کو ذاتی تصرف سے آزاد کیا جائے اور ان پر تمام لوگوں کا مساوی حق تسلیم کیا جائے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا یکساں موقع دیا جائے۔ یہ طریقہ اہریمن (Ahriman)کی طاقت کو توڑے گا اور یزدان(Yazdaan) کے ہاتھ مضبوط کرے گا کیوں کہ وہ مساوات اور عدل کا خواہاں ہے۔ مزدَک(Mazdak) کا خیال تھا جو اس طریقہ کو پسند نہیں کرتا وہ اہریمن(Ahriman) کا مویّد ہے۔ مزدَک(Mazdak)اس تصور کی تبلیغ اس لیے کرتا تھا کہ یہ یزدان(Yazdaan) کے عین منشاء کے مطابق ہے، اور اہریمن (Ahriman)کے شر کو روکنے کا ایک مفید طریقہ ہے۔36

مزدَک(Mazdak) ایک آدمی کی بیوی کو لیتا تو اسے دوسرے کے حوالے کردیا کرتا تھا۔ اس کے پیروکاروں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور زنا بالجبر سے فارسی معاشرے میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا تھا۔کتب تاریخ میں اس کے حوالہ سے کئی واقعات بھی منقول ہیں جنکی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مزدوک معاشرے میں اسکے دین کے مطابق یہ بات جائز تھی کہ ایک شخص اپنی سگی بہن حتٰی کہ اپنی ماں سے بھی زنا اور بدفعلی کرسکتا تھااور اسکو یہ اختیار مذہبی طور ہر حاصل تھا کہ وہ اپنے گھر کی ہر محرم عورت کو بھی اسی انداز میں اپنی خواہشات نفس کے لیے استعمال کرے جیسے کہ غیر کی عورت کو کرسکتا تھا۔ یہ وہ گمراہی اور بد دینی تھی جو کہ مزدک کے مذہب میں مذہبی طور پر رائج تھی اور اسکے نتیجےمیں نہ صرف انکے نسب مخلوط ہوجایا کرتے تھے بلکہ وہ ان اخلاقی گراوٹوں کا شکار ہوگئے تھے جن کی نظیر انسانی معاشروں سے زیادہ حیوانی معاشرت میں عام ہے۔

صابیت

صابی کے لفظی معنی ہیں جو کوئی بھی اپنے دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں آجائے یا اس کی طرف مائل ہوجائے۔37ایک قرأت میں"صابین"ہے، وہ اسی "صابئین " میں سے ہمزہ کی تخفیف سے ہے اور بعض نے کہا بلکہ وہ ’’صَبَا یَصْبُوْ‘‘سے ہے، جس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی وہ ایک دین سے دوسرے دین کی طرف مائل ہوگیا۔38

اصطلاح میں صابیون (Sabeans) کے نام کا ایک مذہبی فرقہ تھا جو عرب کے شمال ومشرق میں شام وعراق کی سرحد پر آباد تھا۔ یہ لوگ دین توحید اور عقیدہ رسالت کے قائل تھے اور اس لیے اصلاً اہل کتاب تھے۔ یہ لوگ وہ تھے جو ابتداء میں کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لیے قرآن میں یہودیت وعیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لیے لامذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔ 39ان کے عقائد کے متعلق ابن خلدون لکھتے ہیں:

  وزعموا أنّ أمم الصابئة منھم وأنھم من ولد صابی بن لمك بن أخنوخ، وكان نحلتھم في الكواكب والقيام لها كلها واستنزال روحانيّتھا وأنّ من حزبھم الكلدانيين أي الموحّدين.40
  اور اُن (اہل انساب) کا خیال ہے کہ صابی اقوام انہی میں سے ہیں جو صابی بن لمک بن اخنوخ کی اولاد سے ہیں،یہ ستاروں پرایمان رکھتے تھے ،ان کی تعظیم وتکریم کرتے تھے اور ان سے روحانیت طلب کرتے تھے (ان کا خیال ہے کہ)کلدانی یعنی موحدین بھی انہی کی قوم سے ہیں۔

ملکی روایت یہ تھی کہ اژدہاک (عربی کا ضحاک) کے عہد میں ستارہ پرستی کا آغاز ہوا تھا۔ صابئیین (Sabeans)سات سیاروں کی مورتیاں بناکر اپنے معبدوں میں رکھتے تھے۔ آفتاب یا نیّر اعظم خدا وند خدا تھا۔ ہر معبود کے پجاری جداگانہ تھے۔ ایک سیارے کا پرستار دوسرے کے معبد میں جانے کا مجاز نہ تھا۔ معبدکو پیکرستان شیداں کہتے تھے جو کیوان، ہرمز، بہرام، آفتاب، ناہید، تیر اور چاند کی عبادت کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ ہر سیارے کی مورتی دھات کی بنائی جاتی تھی اور ہر ایک کی شکل و صورت، لباس، رنگ و روپ اور خواص جداگانہ تھے۔ ناہید (زہرہ، حسن و عشق کی دیوی) کا معبد عورتوں کے لیے مخصوص تھا۔ ہر معبد کے نام کے ساتھ لفظ"شت"کہا جاتا تھا۔ جیسےادباً نام کے ساتھ"حضرت"یا ہندو"شری" بولتے ہیں۔ 41

صابی مذہب کے ماننے والے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ الہامی مذہب ہےاور وہ حضرت شیث اور حضرت اخنوخ یعنی ادریس کے پیرو کارہیں۔ان کے یہاں سات(7)وقتوں کی نمازیں اور ایک قمری مہینے کا روزہ ہوا کرتاتھا۔یہ جنازے کی نماز بھی پڑھتے تھے۔ ان حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کا دعویٰ صحیح ہو لیکن یہ عیب ان میں آگیا تھا کہ سبع سیارہ (سات ستاروں) کی پرستش کرتے تھے ۔ 42

زرتشت

انگریزی لفظ"Zoroaster"یونانی لفظ زرتشا سے بنا ہے ۔ اس لفظ کے کیا معنیٰ ہیں؟اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی گئی ہیں اور حسب ِ ذیل معنیٰ تجویز کیے گئے ہیں:

  1. بڑا پادری
  2. دستور
  3. دستورِ دستوراں
  4. روحانی رہنما

بہر حال ان معانی میں اوّل ا لذّکر یعنی"بڑا پادری" زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔43

زرتشت(Zoroaster) کا لغوی معنی یزداں پرست ہے۔اسے زرتشت ، زردہشت ، زوراسٹر، زراتشت اور زراتشتر بھی کہتے ہیں۔ وہ قصبہ ارومیا واقع باختر میں پیدا ہوا پروفیسر جیکسن(Professor Jackson) کے خیال میں وہ میدیوں کے ایک قبیلے میگی(Magi) مجوس کا فرد تھا۔ وہ 583ءقبل مسیح میں ستتر(77) برس کا ہوکر فوت ہوا یا بروایت مجوس اسے برق و رعد میں آسمان پر اٹھالیا گیا تھا۔44

زر تشت کی پیدائش اور زندگی کے متعلق بہت زیادہ دیومالائی کہانیاں بھی موجودہیں۔ فارسیوں کے مطابق زرتشت (Zoroaster)اعلی خدائی سورماؤں میں سے ایک تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ زرتشت (Zoroaster)کی ماں "دغدا(Dughda)" نے خواب دیکھا کہ اچھائی اور برائی کی طاقتیں اس کے شکم میں بچے کے لیے آپس میں لڑ رہی ہیں۔ زرتشت(Zoroaster) پیدائش کے وقت مسکرا رہا تھا تو اس کی مسکراہٹ پر عقل مند افراد نے شیطان صفت بادشاہ "دورانسارون(Duransarun)"کو خبردار کیا کہ یہ بچہ اس کی سلطنت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہےتو بادشاہ نے زرتشت(Zoroaster) کو قتل کرنے کا حکم صادر کردیا لیکن حیرت انگیز طور پر بچہ کو مارنے والے شخص کا ہاتھ مکمل ناکارہ ہوگیا تھا۔ شیطانی قوتوں نے بھی بچہ کو غائب کرکے کسی دوسرے مقام پر منتقل کرکےقتل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکا م رہے ، اس کی ماں کو بچہ صحیح سلامت ویرانے میں سوتا ہوا مل گیا تھا۔ اس کے بعد بادشاہ نے بیلوں کا ریوڑ بچے کو کچلنے کے لیے روانہ کردیا لیکن مارنے کے بجائے ریوڑ بچہ کی حفاظت کرنے لگ گیا تھا۔یہی معاملہ اس وقت بھی پیش آیا جب بادشاہ نے گھوڑوں کو اسی مقصد سے بچے کی جانب بھیجا تھا۔یہاں تک کہ بادشاہ نے بھیڑیے کے بچوں کو قتل کرکے معصوم زرتشت (Zoroaster)کو غار میں بھیڑیے کے بچوں کی جگہ رکھ دیا ، جب بھیڑنی نے بچے کو دیکھا تو غصہ سے غرائی لیکن خدا نے اس کو خاموش کردیا، اس کے بعد مقدس گائے کو بچہ کو دودھ پلانے کی غرض سے بھیج دیا تھا۔ اس طرح کی کئی عجوبہ کہانیاں ہیں جو زرتشت کے بارے میں گھڑی گئی ہیں تاکہ اس کو ایک مقدس ہستی ثابت کیا جائے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سوائے چند ایک باتوں کے زرتشت کی تعلیمات بھی صابیت اور مانی مت سے زیادہ مختلف نہ تھی اسی لیے جوانی کی عمر میں زرتشت (Zoroaster)کے ماننے والے وہ لوگ جو اب بھی پرانے عقائد اپنائے ہوئے تھے،اس کی تبلیغ سے بہت ناراض ہوگئے تھے، لیکن زرتشت نے ا ن کا دل اپنی تعلیمات سے واپس اپنی جانب پھیر دیا تھا۔زرتشت (Zoroaster)کو سلطنت کے سپاہیوں نے بزرگی کی عمر میں اس وقت قتل کردیا جب وہ ایک مذہبی قربانی کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ اس کے بارے میں ان کے ماننے والے کہتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا جب زرتشت(Zoroaster)آخری پیغمبر یا "ساوْشینت" (Saoshyant)بن کر دنیا میں واپس آئے گا۔ 45

مسعودی اور البیرونی کے خیال میں زرتشت (Zoroaster)سکندر کے حملے سے تین سو(300)برس پہلے پیدا ہوا تھا۔ رومہ کا مورخ پلینی (Pliny)کہتا ہے زرتشت نام کے کئی مصلحین ہوئے ہیں جن میں سے ایک مزدائیت کا بانی تھا۔ مغرب میں افلاطون کا مکالمہ"المقیبیا"قدیم ترین کتاب ہے جس میں پہلے پہل زرتشت کا ذکر کیا گیا ہے۔ زرتشت نے تیس (30)برس کی عمر میں تبلیغ کا آغاز کیا تھا۔ شاہ گشتاپ اس پر ایمان لایا جس پر شاہی خانوادے کے دوسرے افراد اور امراء نے بھی اس کی دعوت قبول کرلی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا مذہب سارے ملک میں پھیل گیاتھا۔ ہخامنشیوں (Achaemenid)کے عہد میں مذہب زرتشت کے پہلو بہ پہلو متھرا پرستی وغیرہ کے صائبی فرقے بھی رواج پاتے رہے لیکن ساسانی (Sassanian)بادشاہوں نے زرتشت کو سرکاری مذہب قرار دیا اور دوسرے فرقوں کو بدعتی قرار دے کر ان کا قلع قمع کردیا تھا۔

زرتشت کی تعلیمات

کہا جاتا ہے کہ زرتشت کا پیغام خدا پرستی، انکار خوشنودی شیطان، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور ناپاک کاموں سے بچنے پر مشتمل تھا۔ نیز زرتشت کی تعلیم تھی کہ نورو ظلمت دو متضاد قوتیں ہیں۔ اسی طرح یزدان (Yazdaan) اور اہریمن(Ahriman) عالم کے موجود ہونے کا سبب ہیں ان دونوں کے امتزاج سے کچھ ترکیبیں وجود میں آئیں اور ان تراکیب سے مختلف صورتیں پیدا ہوگئیں ہیں ۔ باری تعالیٰ نور و ظلمت کا خالق ہے وہ وحدہٗ لاشریک ہے کوئی اس کا مثل و نظیر نہیں، نورکا وجود اصلی اور حقیقی ہے ظلمت اس لیے وجود میں آئی تاکہ نور کی ضد سے خود نور اچھی طرح واضح ہو جائے،گویا ظلمت کا وجود طبعاً ہے۔ 46

زرتشیت کی تعلیمات اس بات پر زور دیتی تھیں کہ وہ لوگ جو شیطانی قوتوں کوختم کرکے اچھائی کی طاقت حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں تو انہیں"اہورا مزدا (Ahura Mazda)"کے احکامات اور اس کی روحانی مدد کے سائے میں آنا ہوگا۔"امیشا اسپینتاز (Amesha Spentas) اور "یزاتاز(Yazatas) " سےمنسلکہ قوتیں ہی عبادت کی حقدار ہیں۔ انسانوں میں روح بھی موجود ہوتی ہے جسے جسم میں داخل کرکے اس مادی دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ روح ابدی قدرت کا ایک حصہ ہے جو ہمیشہ روحانی دنیا میں باقی رہے گا۔ زرتشی مذہب سوچ ، الفاظ اور اعمال کی پاکیزگی کی دعوت دیتا تھا۔اس کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ انسانی زندگی مکمل طور پر اچھائی اور برائی کے درمیان جدو جہد کا نام ہے۔ دنیا کے اختتام پر ایک "ساوْشینتsaoshyant"آخری پیغمبر آئے گا اور تمام برائی کی طاقتوں کا قلع قمع کردے گا اور ہر طرف اچھائی اور سچ کا بول بالا ہوجائےگا۔ 47 اپنی تعلیمات کی روح سے تقابل ادیان سے تعلق رکھنے والے علماء نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ اشارہ حضور ﷺ کی طرف تھا اور حقیقت میں بھی یہی ہوا کہ جب حضور ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے شیطان اور اس کے نظام پر سخت ضرب لگائی۔

زرتشت نے قدیم دیوتاؤں کی پوجا سے منع کیا اور "اہورا مزدا (Ahura Mazda) "کی عبادت کرنےکی دعوت دی تھی۔اس نے کہاکہ" اہورا "خالق ،مختار مطلق ، حاضر و ناظر ، اورغیر مرئی ذات ہے۔ وہ جسمانی مفہوم میں نور اور اخلاقی مفہوم میں صداقت ہے۔ آفتاب آسمان پر اور آگ زمین "اہورا مزدا (Ahura Mazda)"کے نور کے مظاہر ہونے کی بناپاک ہیں۔ بت پرستی ممنوع ہے۔ ہیروڈوڈٹس(Herodotus) لکھتا ہے کہ اہل فارس دیوتاؤں کے بت نہیں رکھتے تھے اورنہ ہی ان کے ہاں کوئی قربان گاہ موجود تھی۔ وہ ان چیزوں کو حماقت خیال کرتےتھے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ یونانیوں کی طرح یہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے کہ انسان اور دیوتا اصلاً ایک ہی ہیں۔ مارکھم اپنی تاریخ فارس میں لکھتا ہے کہ فارسی واحد قوم ہے جس نے اپنی تاریخ کے کسی دور میں بتوں کی پوجا نہیں کی ہے۔48

زرتشیت میں خدا کا تصور

خدا چونکہ ظاہر نہیں تھا اسی لیے اس کی پرستش تصوراتی طور پر کی جاتی تھی۔ اس نظریے کے شواہد شہنشاہ ڈیریس (Darius)کے مقبرے پر ایک بنے ہوئےخاکےمیں بھی دیکھے گئے تھے جس میں ایک بادشاہ خالی جگہ میں قربان گاہ کے پتھر پر موجود آگ کی تقدیس کرتا دکھائی دے رہا ہےاور اس سارے منظر میں سورج مکمل آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔یہ عمل فارس میں اس وقت سے جاری ہے جب وہاں آتش کدوں کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، اس کے علاوہ "اہورا مزدا(Ahura Mazda)"کا ایک خاکہ بھی دکھایا گیا ہےجوممکنہ طورپرہوامیں معلّق ایک آشوری (Assyrian)طرز کا نمونہ تھا۔ 49

آگ

فارسی مذہب میں آگ کو "اہورا مزدا(Ahura Mazda)"کا بیٹا تصور کیا جاتاتھا۔ "اہورا مزدا(Ahura Mazda)" کےماننے والوں کے نزدیک آگ کے متعلق عقیدہ ایسا ہی تھاجیسے عیسائیوں میں عیسی (Jesus)کا تصور موجود ہےوہ بھی انہیں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ آگ کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھاکہ وہ حقیقی طور پر نجات دہندہ ہے، اور اس کی پوجا اور دیکھ بھال کرنے سے انسان اپنی ذات میں موجود تمام برائیاں، شیطانی خیالات، اچھے اور برے اعمال پرقابو پا سکتا ہے۔اس کے علاوہ روح سے آزادی اور مادی جسم کی وہ خصوصیات جس میں مادیت شامل ہوتی ہے، خلاصی نصیب ہوجاتی ہے۔آگ کا باہری حصہ تمام فضلات کو جلا کر خاکستر کردیتا ہے اور چونکہ اند ر کی آگ اور باہری آگ کا آپس میں انتہائی گہرا تعلق ہے تواس کی مدد سے عبادت گزار اپنے اندر کی برائیوں کو جلا کر ختم کرنا سیکھ جاتا ہے۔ 50

زرتشی تمام قدرتی عناصر کا احترام کرتے تھےاور اسے اپنی پاکیزگی کو بڑھانے اور ترقی دینےکے ساتھ منسلک کرتے تھے۔یسنا (Yasna)17.11 میں تفصیل سے آگ یا قوت کی پانچ اقسام کا بیان ہےجس کے بارے میں پہلوی (Pahlavi)تحاریر میں بھی درج ہے کہ آگ فائدہ مند، اچھائی کو پھیلانے والی، اعلی برکت و فرحت کو مہیا کرنے والی، انتہائی پر رونق اور بہت زیادہ روحانیت کی حامل ہے۔ مزید یہ بھی بیان کیا جاتا تھاکہ آگ کے جلنے کا عمل ایسا ہے کہ اس کا پہلا حصہ آتش برہم میں اور آخری حصہ جنت کے بلند مقام میں "اہورا مزدا(Ahura Mazda)"کے سامنے جل رہاہوتا ہے۔ زرتشی مذہب کی ایک کتاب "بنداہشیشن (Bundahishn)"میں بیان کیا گیا ہے کہ آگ کا پہلا حصہ جو "اہورا مزدا(Ahura Mazda)"کے سامنے روشن ہے، اور آخری حصہ جو آتش برہم میں جل رہا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ کس طرح لوگوں میں اس کے متعلق اعتقاد اور عبادت میں تبدیلی آئی ہے۔ 51

موت ،حیات بعد الموت اور عقیدہ ءِآخرت

فارسیوں میں آخرت کا عقیدہ اجمالی طور پر تو تھا یعنی کہ مرنے کے بعد دائمی راحت و سکون (جنت) اور دائمی عذاب و تکلیف (دوزخ) انسان کے عمل کے مطابق ہوگا لیکن اس کی تفصیلات و جزئیات کا کہیں کوئی تصور نہیں تھا ۔اسی لیے مذہبی اجارہ داروں نے اسےاپنی رضا و خوشنودی اور اپنی دعاؤں اور سفارشات کے ساتھ مخصوص کرلیا تھا۔دو جہانوں کے تصور کے حوالے سے منیک جی نذرونجی لکھتے ہیں:

  زرتشی مذہب کے ماننے والے بنیادی طور پر دو مختلف جہانوں کے بارے میں باہم گفتگو کرتے تھے، موجودہ عالم اور آنے والا عالم۔موجودہ دنیا جسے کرۂ ارض بھی کہا جاتا ہے ،"استونت (Astvant) "مادّی دنیاکہلاتی ہے۔اور دوسرا عالم جو جنتی مقام پر مشتمل ہے "منہیا(Manahya) "روحانی عالم کہلاتا ہے۔قدیم فارسیوں کا یہ ماننا تھا کہ جسم اور روح بنیادی طور پر انسان کی تخلیق کے دو اہم اجزاء ہیں۔یہ دونوں اپنے انفرادی اعضاء اورمطلوبہ روحانی و مادّی حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔جب تک یہ اپنا کام باہم یکجہتی کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، انسان زندہ رہتا ہے اور دنیا میں زندگی کی بہتری اور خوشحالی کے لیے جیتا رہتا ہے۔اس دنیا میں موت کو شیطانی قوت نے متعارف کیا ہےجو ان متفرق عناصر کے قطع تعلق کا سبب بنتی ہے۔ روح زمین پر اپنی حیات کےایک مختصر حصہ کو مادّی جسم کے گھر میں قیام کرتے ہوئے گزارتی ہے۔جب مادّی ڈھانچا بوسیدہ ہو کر دھول ہوجاتا ہےتو یہ جنت کی طرف پرواز کرجاتی ہے۔جسم کے مردہ ہوجانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ روح بھی فنا ہوگئی ہو بلکہ روح غیر فانی ہے۔وفات انسانی زندگی کا اختتام نہیں ہےبلکہ وہ شخص دنیا سے اوپر جنت میں اپنی تمام نسلوں کے ساتھ رہتا ہے۔ موجودہ زندگی مستقبل میں آنے والی زندگی کا ابتدائیہ ہے۔ یہ اعلی ٰ زندگی کی طرف ایک یاترا ہے۔ انسان کو اس بارے میں سوچنا چاہیے اور مرنے کے بعد آنے والے عالم میں زندگی کی طرف سفر کی تیاری میں مصروف رہنا چاہیے۔ اسے زمین پر ناکامیوں کی تکالیف برداشت کرنے پر اس کی آرزو کے مطابق جنت ملے گی۔ جس عیش و عشرت کی زندگی کی دنیا میں تمنا کیا کرتا تھا لیکن اسےپا نہ سکا تو ایسی زندگی حقیقت میں جنت میں اپنے عین گمان کے مطابق پا لے گا ۔ 52

زرتشت(Zoroaster)کے نزدیک اچھے انسان موت کےبعد ایک ایسی زندگی میں داخل ہوں گے جن میں نیک اعمال اور اچھےخیالات کاچلن ہوگااوراس کے برعکس بُرے انسان مرنے کے بعد نہ صرف برے اعمال وخیالات سے دوچارہوں گے۔بلکہ انہیں جسمانی سزا بھی ملے گی۔53

تجہیز و تکفین

زرتشیت(Zoroastrianism) کے ماننے والے اپنے مردوں کو دفنایا نہیں کرتے تھے بلکہ اسے سمندر بردکر دیتے یا جلایا دیا کرتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا یہ ماننا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عقلمند خدا "اہورا مزدا(AhuraMazda)" کی عظیم تخلیق زمین، آگ اور پانی براہ راست انسان کا مردہ جسم سے مس ہوکر ناپاک نہ ہوجائے۔ فارسیوں کے مذہب کے مطابق تمام مری ہوئیں مخلوقات کا جسم ناپاک ہوجاتا تھااور ناپاکی اور انتقال "اہورا مزدا(Ahura Mazda)" کی تخلیق کردہ نہیں بلکہ شیطانی طاقتوں کے حملہ آور ہونے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی تھیں۔ کسی کو مارنے یا ناپاک کرنے کی قوت کا اصل میں خدا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ شیطانی قوتیں"اہورا مزدا(Ahura Mazda)" کی کامل نظام کائنات میں باہر سے در اندازی کرکے ناپاکی ، تباہی اور موت لے کر آتی ہیں۔مخلوقات اور خاص طور پر انسانوں کو پیدا کرنے کا بنیادی مقصد ناپاکی کی موجودگی کو ممکنہ حد تک کم کرنا اورشیطانیت اور باطل قوتوں کے وجود کو دنیاسے مکمل طور پر فنا کردیناتھا۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ تفویض کیےگئے یہ امور کائنات کا وقت مکمل ہونے تک ایک نجات دہندہ کی مدد سے وقوع پذیر ہوں گے۔وہ ایک ایسا وقت ہوگا جب باطل قوتیں آخری معرکہ میں شکست کا منہ دیکھیں گی اور ان سے زبردستی تمام قوتیں سلب کرکے انہیں دنیا سے ان اندھیروں میں واپس پھینک دیا جائے گا جہاں سے ان کی شروعات ہوئی تھی۔

جب کو ئی انسان انتقال کرتا تھا تو سب سے پہلے اس کے مردہ جسم کو ناپاکی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کیے جاتے تھے۔وہ یہ ضروری سمجھتے تھے کہ مرنے کے دن میں ہی مردےکو اس کی آخری آرام گاہ پہنچادیا جائے۔زرتشی مذہب (Zoroastrianism)میں مردے کی آخری رسومات کے متعلق رہنمائی کرنے والے قوانین میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مر نے والے شخص کے اجزائے جسم کو مکمل طور پر جدا کردیا جائے تاکہ دنیا میں زندہ رہنے والی مخلوق آلودگی، بیماری اور کسی بھی قسم کی تکلیف سے محفوظ رہے۔ان کی آخری رسومات کو اس طرح ترتیب دیا جاتا تھا کہ زندہ انسان مردے کو براہ راست نہیں چھوتا تھا بلکہ ناپاکی کی وجہ بننے والے اس وجود کو جتنا جلدی ممکن ہوسکے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔

زرتشی اپنے مردوں کے جسد خاکی سے جتنا جلدی ہو سکے جان چھڑانے کی کوشش کیا کرتےتھے اس کے برعکس غیر فنا روحوں کے لیےپڑھے جانے والے مذہبی منتر بہت پیچیدہ اور لمبے ہوا کرتے تھے۔ موت کے بعد سوگ کے اگلے تین(3) دن تک مردے کے خاندان والے اور دوست احباب آگ کا دیا (Divo)جلایا کرتے تھے۔وہ دیا گھر کی اس جگہ جہاں مردے کا جسم رکھا گیا ہوتا ، مسلسل جلتا رہتا تھا۔ اس دیے میں ماحول کو معطر رکھنے کے لیے صندل کی لکڑی اور خوشبوئیں ڈالی جاتی تھیں۔ یہی طریقہ کار ان عمارتوں "بنگلی(Bungli)"کے مینا رے پر بھی کیا جاتا تھاجہاں مردے کی آخری مذہبی رسومات کی تقریب منعقد کی جاتی تھی۔ اس تقریب میں سوگوار گوشت نہ کھا کر اور دیگر مذہبی عبادات انجام دے کر اپنے مرنے والے کی روح کو سکون پہنچایا کرتے تھے۔ یہ تمام ضروری عبادات دو مرتبہ لازمی دہرائی جاتی تھیں اور دہرانے کا یہ عمل مرنے والے کے چلے جانےکے سبب کیا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ مزید یہ کہ، یسنا (Yasna)اور ویدیوداد (Vidēvdād) کی مذہبی رسم کو آتش کدوں میں انسان کے مرنے کے دن سے ہر تیسرے دن انجام دیا جاتا تھا۔ یہ تمام تقاریب سرا ؤسا(Sraoša)دیوتا کی طرف منسوب کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ان عبادات کا اہتمام مردے کی روح کے خطرناک اور پرخطر راستے پر جانے میں مدد فراہم کرنے اور شیطانی قوتوں سے حفاظت کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔

زرتشیوں کے نزدیک موت عارضی تھی ۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ موت اپنے اصل مقام میں اس وقت واپس چلی جائے گی جب آخری وقت میں شیطانی طاقتوں کو شکست دے کر زبردستی اس مقام میں واپس بھیج دیا جائے گا جہاں سے "اہورا مزدا(Ahura Mazda)"کی اس مکمل دنیا میں تباہی و بربادی پھیلانے کے لیے وہ آئیں تھیں۔ اسی تصور کے تحت ان کا یہ ماننا ہے کہ تمام فوت شدگان ممکنہ طور پر دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور ایک عظیم فیصلہ کے مرحلے سے گزریں گے۔ دوبارہ زندہ کیا جانے کے عمل کا طریقہ یہ ہوگا کہ تمام فوت شدہ لوگوں کو پگھلی ہوئی دھات کی ندی سے گزارا جائے گا۔ گزرنے کے دوران ندی کا مادہ "اہورا مزدا(Ahura Mazda)"کے سچے ماننے والوں کو نیم گرم دودھ سے نہانے جیسا خوشگوار احساس دےگاجبکہ جھوٹے خداؤں کے ماننے والوں کو وہ پگھلی ہوئی دھات کی طرح انتہائی تکلیف پہنچائے گا۔ آخر کار تمام دوبارہ زندہ ہونے والی جانیں پگھلی ہوئی دھات کی ندی سے پاک کرکے نکالی جائیں گی، اس کے بعد ہر پاک شدہ روح کو اپنے خاکی جسم میں دوبارہ داخل کردیا جائے گا۔ دوبارہ زندگی پانے والے انسان اپنی ذاتی شناخت کے ساتھ موجود ہوں گے۔ بیوی اپنے شوہر کو، باپ اپنے بیٹے کو اسی طرح ماں بیٹی کو ، الغرض ہر ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ ان کوہمیشہ کے لیے پندرہ(15) سال کی جوانی کی عمر دے دی جائے گی اور وہ ہمیشہ اسی عمر میں رہیں گےاور ہر قسم کے جسمانی لطف کا مزہ لیں گےلیکن نہ ہی ان کی کوئی اولاد ہوسکے گی اور نہ ہی مزید کسی تکلیف میں مبتلا ہوں گے۔ 54

جادو اور نجوم

قدیم فارسیوں کے ہاں جادو وغیرہ پر بھروسہ اور علمِ نجوم پر اعتقاد بہت زیادہ تھا۔ کوئی قدم اٹھانے سے قبل نجومیوں اور جوتشیوں کے در کی دریوزہ گری کرنا پڑتی تھی، ضرورت تھی کہ کوئی برگزیدہ ہستی انہیں ان پستیوں سے نکال کر ایک رب پر بھروسہ کرنے اور اس کے لکھے پر صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی رضا کی خاطر محنت اور مجاہدہ کی راہ پرگامزن ہونے کی خوئے دلنواز عطا کرے۔

فال گیری کا کام مُغ کرتے تھے۔ آتشِ مقدّس کو دیکھ کر وہ آئندہ کا حال بتاتے تھےاور چونکہ وہ علمِ نجوم سے بہرہ مند ہوتے تھے لہٰذا زائچے بھی تیار کرتے تھے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک عامیانہ علم ِنجوم بھی تھا۔ البیرونی نے سال کے منحوس اور مبارک دنوں کی ایک فہرست دی ہے اور مہینے کی کسی تاریخ کو سانپ کے دیکھنے سے جوجو پیش گوئیاں کی جاسکتی تھیں وہ بھی بتلائی ہیں مثلاً یہ کہ فلاں دن اور فلاں تاریخ کو سانپ دیکھنے سے بیماری آئے گی یا کسی عزیز کی موت کا صدمہ ہوگا یا شہرت وعزّت حاصل ہوگی یا روپیہ ملے گا یا سفر پیش آئے گا یا بدنامی اور سزا ملے گی وغیرہ ۔ستاروں کا قران یا تقابل خاص طور سے منحوس سمجھا جاتا تھا۔55

مقدس حیوان

مجوسی کُتے اور اودبلاؤ (سگ ماہی) کو مقدس مانتے تھے اور کہتے تھےکہ یہ جانور ہرمزد کے محبوب ہیں۔ مرتے وقت چار چشم زردرنگ کے کتے کو مریض کے بستر کے قریب لاتے تاکہ مرنے والا اس کا منہ دیکھ کر جان دے سکے۔ اسی رسم کو" سگ دید"کہتے تھے۔ روایت یہ ہے کہ یم یا جم (ہندوؤں کا یاما) خدا وند مردگاں ہے ۔ جس کے پاس دو چار چشم کتے ہیں جو مُردوں کو سونگھ کر تلاش کیا کرتے ہیں۔ سگ دید اسی عقیدے سے یادگار ہے۔ مجوسی پندرہ(15) یا سولہ (16)برس کے لڑکے کو گستی باندھنے کی رسم ادا کرتے اور آگ کی تقدیس میں غُلو کرتے تھے۔ ان کے آتش کدوں میں دن رات آگ جلتی رہتی تھی جس کی نگہداشت پر مجاورمعیّن ہوتے تھے۔ جو مقررہ وقتوں پر اس میں خوشبو دار لکڑیاں جلاکر پہلوی زبان میں زمزمہ کرتےتھے۔ آگ کے کئی نام تھےجن میں مقدس تین تھیں ۔گشپ، فردنگ اور مہرکے آتش کدے کو آذر بریں کہتےتھے۔ آذر بائیجان میں بکثرت آتش کدے تھے۔ اس کا نام ہی آذر آبادکاں پڑ گیا تھا جو بگڑ کر آذر بائیجان بن گیا۔ مجوسیوں کی بہشت کوہ البرز میں واقع ہے، ان کے عقیدے کے مطابق جس میں نیک ارواح چنیود کے پل پر سے گزر کر داخل ہوتی ہیں۔ بد روحیں اس پل پر سے کٹ کٹ کر دوزخ میں جاگرتی ہیں۔ مجوسیوں کا ایک مشہور عقیدہ یہ تھا کہ قیامت کے قرب میں شاہ بہرام آئے گا جو ان کا بول بالا کرے گا۔ 56

الغرض قدیم فارس میں زرتشت مذہب کے علاوہ بھی کئی مذاہب پائے جاتے تھے جن میں مظاہر پرستی،متھرامت ، صابیئت ،مجوسیت، مزدکیت شامل تھے ۔ان کی تاریخی حیثیت اسی طرح قدیم ہے جس طرح کہ خود اہل فارس کی تاریخ۔ ہر دور وزمانہ میں حکمرانوں کے زیر سایہ عروج حاصل کرنے والے تمام مذاہب وادیان کی مختلف تاریخ ملتی ہےجس کی بدولت اُس کے ماننے والے ،پیروکاربھی اُسی لحاظ سے کبھی زیادہ تو کبھی کم پائے جاتے تھے ۔ سرزمینِ فارس پر کسی الہامی مذہب وعقیدہ کا پتا نہیں چلتا، البتہ لوگوں کے خود ساختہ ادیان فارس پر غالب رہے تھے۔

فارسیوں میں زرتشت کے آنے سے پہلے چند خوبیاں بھی موجود تھیں،جن میں سے سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ لوگ جھوٹ سے نفرت کرتے تھے۔اس کے علاوہ یہ لوگ مقروض ہونے سے بھی بڑی نفرت کیا کرتے تھےکیونکہ جھوٹ بولنا مقروض ہونا مزیدجھوٹ بولنے کے جرم کا ذریعہ بنتا تھا۔اس کے علاوہ یہ لوگ طب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔57

جنس انسانی کے علاوہ مخلوق

ساسانی(Sassanian)دور میں زرتشی مذہب(Zoroastrianism) کے اندرجانوروں کو دو انواع میں تقسیم کیا گیا تھا، اچھے جانور اور برے جانور۔ ان میں اچھی نوع کو ہر حالت میں انسانوں سے محفوظ رکھنا لازم تھا، اور اگر کسی نے بھی انہیں برا بھلاکہا تو ایسے شخص کو انتہائی سخت سزا دی جاتی تھی۔دوسری جانب برے جانوروں کو مار ڈالنا زرتشیت (Zoroastrianism) کے ماننے والوں کی مذہبی ذمہ داری تھی۔اس عمل کو "خرافستر(Khrafstar)" کہا جاتا تھا۔اس طرح کرنےسے برائی کی طاقتوں کو پروان چڑھانےوالے اہریمن (Ahriman)کے مقاصد اور اس کی فوج میں کمی لائی جاسکتی تھی۔

"بندا ہسن(Bundahišn) "میں زرتشیوں کی اساطیر میں سانڈ کو اولین جانوروں میں شامل کیا گیا تھا اور یہ کہا جاتا تھاکہ اسی کے ذریعے جانوروں کی بقیہ تمام انواع کی نسل آگے بڑھی ہے۔ بعد کے ادوار سے تعلق رکھنے والے زرتشی مذہبی تحاریر میں"کتے "کو "گائے" سے مقدس جانور تصور کیا جاتا تھااور اسے نوع انسانی کے ساتھ اچھی مخلوقات میں شامل کیا گیا تھا۔یہاں تک کہ ماضی قریب کی مذہبی تحاریر میں اس بات کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگرایسی مذہبی رسم جس کی ادائیگی کے لیے دو انسانوں کا ہونا ضروری ہوتا لیکن ایک ہی موجود ہے تو دوسرے شخص کی جگہ "کتے " کو رسم ادا کرنے کے لیے شامل کیا جاسکتا ہے۔

بعض مذہبی رسومات میں "کتے " کا ہونا ضروری قرار دیا جاتا تھا، مثال کے طور پر، جب کوئی زرتشتی انتقال کرجائے تو ایک کتے کو اس کا جسم دیکھانے کے لیے لایا جاتاتاکہ وہ اس کے مرنے کی تصدیق کردے۔ اس مذہبی رسم کو "سگ-دد" یعنی "کتے کا دیکھنا" کہا جاتا تھا۔ان کے نزدیک کتے کے اندر دوسری دنیا میں دیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اگر کوئی قابل اور ماہر معالج دستیاب نہ ہوتو بہتر یہ ہے کہ انسان کی جگہ کسی کتے کو اس بات کی پختگی کرنے کے لیے لایا جائے کہ آیا وہ انسان زندہ ہے یا مرچکا ہے۔کتے کو انسان کی آخری رسومات میں مذہبی پیشوا کے طور پر بھی مقرر کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی کتا مرجائے تو اس کی آخری رسومات بھی انسانوں کی طرح اداکی جاتی تھیں۔

بری انواع کے جانوروں کو مارنے کی مہم کے شواہد سب سے پہلے پانچویں صدی قبل مسیح میں ہیروڈوٹس(Herodotus) کے دور میں ملتے ہیں۔قریباً ایک ہزار (1000) سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد وسطی دور سے تعلق رکھنے والی فارسی تحاریر ، جیسے "شایست نےشاایست(Shāyest nē-Shāyest)" میں اس عمل کو مذہبی عبادات میں شمار کیا گیا تھا۔ "بندا ہسن(Bundahisn) "میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر زرتشی پر لازم تھا کہ وہ سانپ کو قتل کرنے کی صلاحیت رکھے۔ برے حجم کے کیڑے مکوڑےجیسے بڑا بھنورا، بڑی مکڑی، اور عام طور پر پائی جانے والی بڑی بھڑکو ناپاک حشرات الارض میں شمار کیا جاتا تھا، اور ان کو اہریمن(Ahriman) کے اپنے ہی اسلحہ کو استعمال کرتے ہوئے جان سے مارنانیکی کا کام سمجھا جاتا تھا تاکہ اس کے سپاہیوں کی تعداد میں کمی ہوجائے۔58

قدیم فارس یا فارس کے مذاہب کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے الہامی مذاہب و ہدایت کے مقابلے میں اپنی عقل کو فوقیت دی اور وہ دین جس کو انبیاء و رسل ﷺلے کر آئے، اس کو مسترد کرکے کئی خود ساختہ دین اپنا لیے تھے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ذہن کے مطابق تبدیلیاں بھی کرتے رہےتھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام کے ظہور سے پہلے تک فارس کے لوگ شدید گمراہی کا شکار رہے اور کبھی بھی ایک منظم اور پرامن معاشرے کا قیام کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔ جبکہ ان مذہبی رہنماؤں نے ہمیشہ ہی انکے عقائد اور نظریات کو گمراہ حد تک بگاڑ کر ان سے نفع کو حاصل کیا اور انکو کبھی صحیح دین الٰہی سیکھنے اور سکھانے پر نہیں ابھارا جو انکی تباہی اور گمراہی کا سبب ِاصلی تھا جسکی وجہ سے اہل فارس ناقابل، تقلید بلکہ قابل رحم تھے اور اسلام کی آمد نے ہی حقیقتا ان پر رحم کیا اور انکے قلوب و اذہان کی اصلاح کی جس میں عیسائیت بھی اپنے وقتوں میں تقریبا ناکام رہی تھی۔

 


  • 1 سیدابو الاعلی المودودی،الجہاد فی الاسلام،مطبوعہ:ادارہ ترجمان القرآن، لاہور،پاکستان،2009ء،ص: 205-207
  • 2 ڈاکٹر طاہرالقادری،سیرۃ الرسول،ج-4،مطبوعہ:منہاج القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:467-468
  • 3 عبدالعزیز سنگھیڑا، ایک خدا ایک پیغام ،مطبوعہ :مکتبہ فریدی کرنوید حفیظ پرنٹر، لاہور ،پاکستان، ء2016،ص:52-53
  • 4 Robert William Rogers (1929), A History of Ancient Persia: From its Earliest Beginnings to the Death of Alexander the Great, Charles Scribner’s Sons, New York, USA, Pg. 16.
  • 5 Clement Huart (1927), Ancient Persia and Iranian Civilization, Trench, Trubner & Co. Ltd., London, U.K., Pg. 81-82.
  • 6 Eric Orlin (2016), Routledge Encyclopedia of Ancient Mediterranean Religions, Routledge, New York, USA, Pg. 139.
  • 7 William H. Mcneill, Jerry H. Bentley, David Christian, Ralph C. Crozier & J. R. Mcneill (2010), Berkshire Encyclopedia of World History, Berkshire Publishing Group, Massachusetts, USA, Pg. 370.
  • 8 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Marduk/ Retrieved: 22-02-2019
  • 9 The Catholic Encyclopedia (Online Version): http://www.newadvent.org/cathen/10402a.htm Retrieved: 22-02-2019
  • 10 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Anahiti Retrieved: 22-02-2019
  • 11 Encyclopedia Iranica (Online Version): http://www.iranicaonline.org/articles/anahid#pt2 Retrieved: 22-02-2019
  • 12 A. Carnoy (1918), Journal of the American Oriental Society: The Iranian Gods of Healing, American Oriental Society, Michigan, USA, Vol. 38, Pg. 294.
  • 13 Ibid, Pg. 296.
  • 14 ہوما: ایک ایسی شراب جو مشرقی ہندوستان میں بغیر پتوں سے تیا رکی جاتی ہے۔ اس کا دوھیا کھٹا مشروب نشہ آور شراب بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
  • 15 Charles Russell Coulter & Patricia Turner (2000), Encyclopedia of Ancient Deities, Routledge London, U.K., Pg. 464-465.
  • 16 Richard Foltz (2013), Religions of Iran: From Prehistory to the Present, One World Publications, London, U.K., Pg. 19.
  • 17 Shodhganga (Reservoir of Indian Thesis): http://shodhganga.inflibnet.ac.in/bitstream/10603/2039/10/10_chapter%202.2.pdf Retrieved: 22-02-2019
  • 18 Charles Russell Coulter & Patricia Turner (2000), Encyclopedia of Ancient Deities, Routledge London, U.K., Pg. 400.
  • 19 William W. Malandra (1983), An Introduction to Ancient Iranian Religion, University of Minnesota Press, Minneapolis, USA, Pg. 76.
  • 20 Prods Oktor Skjaervo (2005), Introduction to Zoroastrianism, Published by the Author, Pg. 25.
  • 21 ڈاکٹر غلام سرور،تاریخ ایران قدیم،مطبوعہ:مکتبہ خورشیددرخشاں،کراچی،پاکستان،(سن اشاعت ندارد)،ص:68-69
  • 22 شیخ احمد دیدات، کنفیوشس ، زرتشت اور اسلام (مترجم:مصباح اکرم)، مطبوعہ:مشتاق بک کارنر، لاہور ، پاکستان ،2010، ص:39
  • 23 اے مانفرید، مختصر تاریخ عالم (مترجم: امیر اللہ خان)، ج-1،مطبوعہ: دارالاشاعت ترقی، ماسکو،روس، 1979ء، ص:50
  • 24 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/Zurvan Retrieved: 02-03-2019
  • 25 سید عین الحق، قدیم مشرق ،ج -2،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ،کراچی، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)،ص:154
  • 26 علی عباس جلالپوری، روایات تمدن قدیم، مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان، ص: 169
  • 27 A. V. Williams Jackson (1932), Researches in Manichaeism with Special Reference to the Turfan Fragments, Columbia University Press, New York, USA, Pg. 3.
  • 28 Michael Tardieu (1997), Manichaeism (Translated by M. B. DeBevoise), University of Illinois Press, Chicago, USA, Pg. 1-2.
  • 29 A. V. Williams Jackson (1932), Researches in Manichaeism with Special Reference to the Turfan Fragments, Columbia University Press, New York, USA, Pg. 6.
  • 30 سید عین الحق، قدیم مشرق ،ج -2،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ،کراچی(سن اشاعت ندارد)،ص:154
  • 31 A. V. Williams Jackson (1932), Researches in Manichaeism with Special Reference to the Turfan Fragments, Columbia University Press, New York, USA, Pg. 6.
  • 32 علی عباس جلالپوری، روایات تمدن قدیم، مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان، ص: 170-171
  • 33 A. V. Williams Jackson (1932), Researches in Manichaeism with Special Reference to the Turfan Fragments, Columbia University Press, New York, USA, Pg. 7.
  • 34 ابو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون تاریخ ابن خلدون،ج-2،مطبوعه: دار الفكر، بيروت،لبنان، 1408 ھ،ص:208
  • 35 ابو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون(حکیم احمد الہ آبادی) ،تاریخ ابن خلدون،ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی،پاکستان، 2003ء،ص:263
  • 36 سید عین الحق، قدیم مشرق ،ج -2،مطبوعہ:مکتبہ فریدی ، کراچی، پاکستان،( سن اشاعت ندارد)،ص: 161-151
  • 37 ابو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين القرطبي ، الجامع لأحكام القرآن ،ج-11،مطبوعة: دار الكتب المصرية، القاهرة، مصر،1384ھ ،ص:163
  • 38 أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى،تفسير الراغب الأصفهاني،ج-1، مطبوعة: كلية الآداب، جامعة طنطا،مصر، 1420 ھ ،ص:214
  • 39 حافظ صلاح الدین یوسف ،تفسیر احسن البیان ، مطبوعہ:دارالسلام،ریاض ،سعودیہ،2011ء،ص:27
  • 40 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون ، تاریخ ابن خلدون ،ج -2،مطبوعه: دار الفكر، بيروت،لبنان، 1408 ھ،ص:6
  • 41 علی عباس جلالپوری، روایات تمدن قدیم، مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان، ص:162-163
  • 42 أبو زيد عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون ، تاریخِ ابن خلدون (مترجم: حکیم احمد الٰہ آبادی) ، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی،پاکستان، 2003ء،ص:34
  • 43 شیخ احمد دیدات، کنفیوشس ، زرتشت اور اسلام (مترجم:مصباح اکرم)،مطبوعہ:مشتاق بک کارنر، لاہور ، پاکستان ،2010، ص:42
  • 44 علی عباس جلالپوری، روایات تمدن قدیم، مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان، ص:163
  • 45 David Leeming (2005), The Oxford Companion to World Mythology, Oxford University Press, Oxford, U.K., Pg. 411.
  • 46 علی عباس جلالپوری، روایات تمدن قدیم، مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان، ص:163-164
  • 47 Edward Craig (1998), Routledge Encyclopedia of Philosophy, Routledge, New York, USA, Vol. 9, Pg. 9168.
  • 48 علی عباس جلالپوری، روایات تمدن قدیم، مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان، ص:164
  • 49 Clement Huart (1927), Ancient Persia and Iranian Civilization, Trench, Trubner & Co. Ltd., London, U.K., Pg. 81.
  • 50 Faredun K. Dadachanji (1941), Philosophy of Zoroastrianism and Comparative Study of Religions, The Times of India Press, Bombay, India, Vol. 1, Pg. 74.
  • 51 H. K. Mirza (1977), The Zoroastrian Religion, Bombay, India, Pg. 109-113.
  • 52 History of Zoroastrianism (1938), Maneckji Nusservanji Dhalla, Oxford University Press, New York, USA, Pg. 98-99.
  • 53 مظہرالدین صدیقی،اسلام اور مذاہب عالم،ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور، پاکستان،2013،ص:52-53
  • 54 Christopher M. Moreman (2018), The Routledge Companion to Death and Dying, Routledge, New York, USA, Pg. 87-92.
  • 55 پروفیسر آرتھر کرسٹن سین ،ایران بعہد ساسانیاں(مترجم:ڈاکٹر محمد اقبال)،مطبوعہ:انجمن ترقی اردو، کراچی، پاکستان ،1992ء،ص:232
  • 56 علی عباس جلالپوری، روایات تمدن قدیم، مطبوعہ: تخلیقات، لاہور، پاکستان، 2012ء،ص:167-168
  • 57 شیخ احمد دیدات، کنفیوشس ، زرتشت اور اسلام،(مترجم:مصباح اکرم)،مطبوعہ:مشتاق بک کارنر، لاہور ، پاکستان ،2010، ص:40
  • 58 Richard Foltz (2010), Journal of Human-Animal Studies: Zoroastrian Attitudes towards Animals, Brill, Leiden, Netherlands, Pg. 370-372.