قدیم ایران یا فارس کو آباد کرنے والے آریائی نسل (Aryan Race)کےاولین لوگ تھے ۔یہ خطّہ ایک بڑے رقبے پر مشتمل تھا جوبعد میں ایک بڑی سلطنت کے طور پر نمودار ہوا تھا۔ زمانٔہ قدیم میں سلطنت ایران افغانستان سے لے کرعراق تک پھیلی ہوئی ایک عظیم عالمی طاقت تھی ۔ 1 اس سرزمین پر مختلف ادوار میں مختلف طاقتورخاندانوں کی حکومتیں قائم رہیں جنہوں نے یہاں کئی اہم اور مضبوط سلطنتیں قائم کیں تھیں۔ اس خطے کو عہد قدیم سے ایران او ر فارس کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ ایران کی نسبت آریائی باشندوں(Aryans) کی جانب جب کہ فارس کی نسبت اس سرزمین کے جغرافیائی محل وقوع کی طرف کی جاتی ہے۔ تاریخ میں فارس کو واضح طور پر دو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ساتویں صدی قبل مسیح سے پہلے کا دور اساطیری عہد(Mythological Era) جب کہ ساتویں صدی قبل مسیح کےبعد کا دور تاریخی عہد (Historical Era) کہلاتا ہے۔
لفظِ ایران کےمأخذ کے بارے میں مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ لفظ آریانہ سے مشتق ہے، 2جس کا مطلب"آریاؤں کی سرزمین"(Land of Aryans)ہے۔3اس کو ایران کہنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ آریاؤں کا ملک تھا۔4 ایرانی تاریخ کے عہدِ وسطی میں آریائی باشندوں کی زمین کا نام ērān میں تبدیل ہوگیا جسے دور جدید میں ایران (īrān) کہا جاتا ہے۔ ایرانی قبیلوں نے اس اصطلاح کو اپنی اصل حالت میں محفوظ رکھا ۔ ا س کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تیسری صدی قبل مسیح میں مغربی سائبیریا (Western Siberia)اور ایندرونوو (Andronovo)کے ثقافتی مراکز میں، جہاں سے ایرانی قبائل آئے تھے، یہ اصطلاح اسی حالت میں موجود اور مستعمل تھی۔ ایرانی قبائل نے ہجرت کرکے موجودہ ایرانی سطح مرتفع کے علاقوں میں مقیم ہونے اور اس کے بعد وسطی اور ایرانی سلطنت کے وجود میں آنے کے دوران یہ اصطلاح اسی خاص جغرافیائی مفہوم کےلیے استعمال کی ۔ قدیم ایرانی فرمانرواؤں کے تحریری نقوش اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لفظ "ایران "کا اطلاق کسی خاص علاقے پر نہیں بلکہ پوری سلطنت پر کیا جاتاتھا۔5
نیوورلڈ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق:
Iran formerly known as "Persia" in the West, is one of the world's oldest continuous major civilizations, and is one of the few states that comprise the Cradle of Humanity. 6
"ایران"جسے مغربی ممالک میں عموماً "فارس"کے طور پر جانا جاتا ہے، دنیا کی سب سے اہم اور قدیم تہذیبوں اور ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جن سے انسانیت نے جنم لیا ،(یعنی ان ممالک سے انسانیت اور تہذیب پھلی پھولی تھی)۔
ایران کےلیے قدیم عربی ادبیات میں"الفرس "کا لفظ ملتاہے ۔ عربی لغت"المنجد"میں مذکور ہے: الفرس اور فارس کے معنی مملکت فارس کے باشندے ہیں۔ ان کے ملک کو فارس اوران کی زبان کو لغت فارسیہ کہتے ہیں۔7لفظ فارس یافارسی ایران کی پوری آبادی کے لیے بولاجاتاہےاور عربی اصطلاح العجم کے مترادف شمارہوتاہے۔ جیساکہ عربی لغات میں فارس کے مندرجہ ذیل معانی ملتے ہیں:
(فَارس) بِلَاد الْفرس وَهِي الْآن بِلَاد إيران.8
"فارس سے مراد فرس کا علاقہ جسے اب ایران کہا جاتا ہے۔"
فُرْس: أمة تسكن بلاد فارس (وهي إيران الآن).9
"فُرس سے مراد اہل فارس ہیں( جوکہ اب ایران ہے) "
وسطی ایشیا سے کم وبیش دوہزار(2000) برس قبل مسیح میں آریاؤں (Aryans)نے خروج کیا، یہ وہ وقت تھا جب بابل اورمصر وغیر ہ کے تمدن ،عروج وزوال کی کئی منزلیں طے کرچکے تھے۔ان قبائل کے خروج اور آباد کاری کا عمل صدیوں تک جاری رہا ،کچھ قبیلوں نے مغر ب کا رُخ کیا اوریونان تک بڑھتے چلے گئے ،کچھ فارس میں آباد ہوئے اور کچھ ہند کی طرف ہجرت کرگئے تھے ۔ اس زمانے میں عراق عجم پر آشوریوں (Assyrians)کی حکومت تھی چنانچہ جس طرح ہندی آریائی قبائل وادئ سندھ کے ہڑپاّئی تمدن (Harappa Civilization)سے فیض یاب ہوئے اسی طرح آشوری تہذیب(Assyrians civilization) کےنظام حکومت،مذہب اور فنون نے فارس کے قبائل کو متاثر کیا تھا۔10
فارس کا تاریخی دور تقریبا700 قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔اس سے پہلےادوارمیں بادشاہوں کا ایک مشہورسلسلہ ملتا ہے مگر تاریخی حوالوں سے ان کی تصدیق نہیں ہو سکی اسی لیے اس قبل از تاریخی زمانے کو افسانوی یا اساطیری عہد(Mythological Era) کہا جاتا ہے،مگر قدیم ایرانی ادب، تاریخ ، رسم و رواج اور تہذیب وتمدن پر ان بادشاہوں کے گہرے اثرات مرتب تھے یہاں تک کہ فرد وسی (940-1020 A.D.)نے اپنے شاہ نامہ میں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے۔پہلے افسانوی دور کی ابتدا "ماہ ابد"بادشاہ سے ہوئی جس کی نسل میں بادشاہوں کا ایک طویل سلسلہ رہا تھا۔
اہل فارس کا یہ ماننا تھا کہ "ماہ ابد "نے انسانوں کو گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں سے باہر نکالا اور دنیوی زندگی کو خوشگوار بنانے کا راز بتایا تھا۔ اس کی موت کے بعد یکے بعد دیگرے بارہ (12)فرمانروا گزرے جن کے عہد میں کامل طور پر امن و امان قائم رہا اور لوگ خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے ۔ مگر جب ماہ ابد کے تیرھویں (13)جانشین "آذرابد"نے سلطنت چھوڑ کر درویشی اختیارکی تو ملک کے اندر بدامنی پھیل گئی اور ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا تھا ۔ لاکھوں جانیں تلف ہوئیں اورہزاروں گھر اجڑ گئے تھے۔ ایسی حالت میں لوگ پریشان ہوکر "جی افرم "جوکہ ایک عابد تھا ،اس کے پاس حاضر ہوئے اور اس سے درخواست کی کہ وہ خود اپنے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور سنبھال لے۔11اس نے کچھ دنوں تک حکم خداوندی کا انتظار کیا، جب فرشتہ کے ذریعے خدا کا حکم بھی آگیا تو اس نے تخت نشینی قبول کرلی ۔ اس طرح جی افرم سے ایک نئےشاہی خاندان کی ابتدا ہوئی جس نےہزاروں سال فارس پر حکومت کی ۔ اس کے خاندان کا ایک بادشاہ "جی ابد"یکایک غائب ہوگیا۔ اس کے روپوش ہوتے ہی ایک بار پھر ملک کے اندر انتشار پھیل گیا ،کچھ دنوں تک اس کے بیٹے "شاہ کدریر "نے ملک کو تباہی سے بچایا مگر جب وہ بھی مرگیا تو حالت بد سے بدتر ہوگئی ،اس کے جانشین" ماہ ابل" کے عہد میں برائیاں ہر طرف پھیل گئیں ۔ آخر کار لوگوں نے اسے تخت سے اتار کر اس کے بیٹے "بسن عجم "کو بادشاہ بنادیا۔ مگر یہ بھی حالات کو سدھارنے میں ناکام رہا۔ خدا نے اس قوم پر گویا عذاب مسلط کردیا تھا۔ طرح طرح کی بلائیں نازل ہونے لگیں یہاں تک کہ ان کی سیاسی تنظیم مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی اور وہ جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ ایک عرصہ دراز تک وہ ذلت و مسکنت کی زندگی بسر کرتے رہے اور بالآخر ان میں ایک شخص کیومرث (Kaiomurs)نامی پیدا ہوا جس نے دوبارہ ان کو منظم کیا ۔12فردوسی نے کیومرث سےایران کی تاریخ کی ابتداء بیان کی ہے۔ اس لیے بعد کے مؤرخین نے فردوسی ہی کی پیروی مناسب سمجھی تھی۔
کیومرث(Kaiomurs) کو” زینت التواریخ “میں بسن عجم کا بیٹا کہا گیا ہے 13جبکہ دوسری تمام روایات میں حضرت نوح کا پوتا بتایا گیا ہے۔کیومرث (Kaiomurs)نےپیشدادیان خاندان (Paraclata/Peshdadyan dynasty)کی حکومت کی بنیاد رکھی جس میں دس(10) مشہور بادشاہ گزرے جن میں جمشید(Jamshed/Jima)، ضحاک (Azi-Dahaka/Zohak)اور تھریٹونا (Thraetoana)زیادہ مشہور ہوئے تھے۔14
زمانہ قدیم میں فارسی تہذیب وتمدن ،علوم وآداب اور شان وشوکت،ہر اعتبار سے دنیا کی تمام قوموں پر فوقیت وبرتری رکھتی تھی۔15 ایران کاتاریخی دور تقریباً1500قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔16 یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث عہد عتیق سے ہی اس خطے کی نمایاں تاریخی اہمیت رہی ہے ۔17
علامہ عبدالرحمن ابن خلدون اس حوالے سے لکھتے ہیں:
هذه الأمّة من أقدم أمم العالم وأشدهم قوة وآثارا في الأرض، وكانت لهم في العالم دولتان عظيمتان طويلتان: الأولى منھما الكينية، ويظهر أنّ مبتدأها ومبتدأ دولة التبابعة وبني إسرائيل واحد وأنّ الثلاثة متعاصرة ودولة الكينية هذه هي التي غلب عليھا الإسكندر والساسانية الكسروية ويظهر أنھا معاصرة لدولة الروم بالشام، وهي التي غلب عليھا المسلمون وأما ما قبل هاتين الدولتين فبعيد، وأخباره متعارضة.18
اہل فارس دنیا کے قدیم ترین گروہ سے ہیں یہ اپنے معاصرین سے قوت وشوکت میں بڑھے ہوئے تھے ان کی دوحکومتیں نہایت عظیم الشان تھیں ایک کانام" کینانیہ" تھا،تواریخ سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کا ابتدائی زمانہ اور آغاز زمانہ تبابعہ اور بنی اسرائیل کا زمانہ ایک ہی تھااور یہ تینوں حکومتیں ایک دوسرے کی ہم عصر تھیں ۔دولتِ کینانیہ وہی ہے جس پر سکندر اور ساسانیہ کسرویہ غالب آئے تھے۔ملوک ساسانیہ حکومت روم کی (جو شام میں تھی)ہم عصر تھی اور اسی پر مسلمانوں نے قبضہ حاصل کیا تھا۔ان دونوں حکومتوں کے پہلے اور جوحکومتیں تھیں ان کے حالات نہایت مختلف اور ایک دوسرے سے متعارض تھے۔19
کہا جاتاہے کہ فارس کی سرزمین کو سب سے پہلےشیم (Shem)کے بیٹے ایلم (Elm)نے آباد کیا تھا جوپیغمبر نوح کا بیٹا تھا۔ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر ابراھیم کے دور میں رہنے والا چیدورلاومر(Chedorlaomer) فارس کے قدیم بادشاہوں میں سے ایک تھا۔فارس کی سلطنت کا بانی دوسرے اساطیری عہدکے پہلے حکمران کیومرث (Kaiomurs)کو مانا جاتا ہے جسے گلشاہ(Gilshah)یعنی دنیا کے بادشاہ کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ کیومرث (Kaiomurs)نے اپنا دارالخلافہ بلخ (Balkh) میں بنایا تھا اور اس کا مقصد ایشیاکے وحشی قبائل کو مہذب بنانا تھا۔مگراس کی کاوشوں کی راہ میں غیر مہذب وحشی قبائل شدید مزاہم تھے جنھیں دیوس (Deeves)کہا جاتا تھا۔ان سےمقابلہ کے لیے کیومرث (Kaiomurs)نے اپنے بیٹے سیامک (Siamek) کو ایک طاقت ور فوج کے ساتھ بھیجا، جس میں دشمن پر دہشت طاری کرنے اور اپنے سپاہیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے شیروں اور چیتوں کو بھی ساتھ رکھا گیا تھا،لیکن یہ سب تدبیریں کارگر نہ ہوئیں اور سیامک (Siamek) پہاڑوں میں لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔
سیامک کا ھاؤسچنگ(Houscheng)نامی ایک بیٹا تھا۔ سیامک کے مرنے کے بعدفوج کی کمان اس نے سنبھالی تھی۔ وہ اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لیے آگے بڑھا اور آخر کار اس نے دیوس قبائل (Deeves Tribes)کو زیر کرلیا تھا۔ جنگ کے اختتام کے کچھ عرصے بعد کیومرث (Kaiomurs)کا بھی انتقال ہوگیا اور یوں دانا اور عاقل ھاؤسچنگ (Houscheng)سلطنت کا نیا بادشاہ بن گیا تھا۔ اسی کے دور میں اہل فارس نے آگ کی عبادت کرنا شروع کی اورمقدس آگ کو خدا کی علامت سمجھا جانے لگا تھا۔بعد ازاں تھاموراس (Thamauras) نے ھاؤسچنگ کو شکست دی اور سلطنت کا حکمران بن گیا ، اس کے بعد ایک معرکہ میں تهاموراس کو شاہ جمشید (Shah Djemsheed)نے شکست سے دوچار کردیا تھا۔شاہ جمشید کو فارس کا مشہور حکمران مانا جاتا تھا۔ جمشید نے اپنے طویل دور حکومت میں لوگوں کی زندگی میں کافی جدت پیدا کی تھی ، اس نے لوگوں کو لوہے کا استعمال سکھایا، اس کے علاوہ اون، ریشم، اور سوتی کپڑوں پر بنائی اور کڑھائی کرنے کا فن بھی اسی کے دور میں متعارف ہوا تھا۔ جمشید نے لوگوں کو چار(4) مختلف طبقات میں تقسیم کردیا تھا، پہلے درجہ میں مذہبی پیشوا ، دوسرے میں جنگجو، تیسرے میں تاجر جب کہ چوتھا درجہ کسانوں پر مشتمل تھا ۔20 جمشید کے دور میں مختلف علوم و فنون میں کافی ترقی ہوئی تھی۔ اس نے بارہ(12) مہینوں پر مشتمل جنتری کا آغاز کیا اور سال کےپہلے مہینے کی پہلی تاریخ سے "جشن نوروز"کا سلسلہ شروع کیا تھا۔مختلف ادویات اور انگوری شراب کی ایجاد بھی جمشید کی طرف ہی منسوب ہے۔21
کرہٴ ارض کے قدیم باشندے دوبڑی نسلوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک نسل سامی قبیلوں (Sematic Tribes)کی تھی جو دجلہ وفرات کی وادی میں بس گئے تھے ۔ دوسری نسل آریائی قبیلوں (Aryan Tribes)کی تھی جو پہلے وسطی ایشیا میں آباد تھے لیکن بعد میں ایشیا اور یورپ کےکئی علاقوں میں پھیل گئے تھے۔آریائی نسل کے لوگ تقریباً پانچ ہزار (5000)سال قبل مسیح میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ جہاں کہیں ان کو زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل ہوجاتیں تو کچھ عرصہ کے لیے وہیں قیام کرلیاکرتے تھے۔وسطی ایشیا کا خطہ ان کا پہلا مسکن تھا،پھر آبادی بڑھی تو وہ تلاش معاش میں اِدھر اُدھر نکل کھڑے ہوئے۔کچھ قبائل بحیرہ کیسپین (Caspian Sea)کے آس پاس بس گئے ،جو دوہزار(2000) قبل مسیح میں دو قبیلوں کے طور پر وہاں سے ہجرت کرگئے ۔ایک قبیلہ جنوب مشرق کی جانب گیااور ان ملکوں میں آباد ہوا جو بعد میں فارس اور ہندوستان کہلائے گئے تھےجبکہ دوسرا قبیلہ مغرب کی طرف کوچ کرگیاجو یونان اور اٹلی میں آباد ہوا تھا۔
آریاوٴں کا جو قبیلہ وسطی ایشیا سے کوچ کرکے جنوب مشرق کی طرف گیا،اس نے اپنے نام کی رعایت سے جو خطہ پہلے آباد کیا اس کانام ایران رکھابعد کو وہ بھی دوحصوں میں تقسیم ہوگئے جو خلیج فارس کے شمال مغرب میں بسے وہ میڈی (Medes) کہلائے اور جو شمال مشرق میں آباد ہوئے وہ فارسی (Persian)کہلائےگئےتھے۔22 ماد قوم (Medes) چھ (6)قبائل پر مشتمل تھی:
ان قبائل میں اوّل چار قبائل کا تعلق آریائی نسل سے تھا جب کہ آخری دو قبائل یعنی بود اور مغ غیرآریائی تھے، جو ماد (Medes) سماج کا قدیم تر قبیلہ تھا۔23عبدالکریم شہرستانی نے بھی الملل والنحل میں زرتشتیوں(Zoroastrians) کو مجوسی قوم کا ایک فرقہ یا گروہ کہاتھا۔ اس نے مجوسی قوم کو تین(3) گروہوں میں تقسیم کیا ہے:
مقبول بیگ تاریخ ایران میں لکھتے ہیں کہ آریائی تقریباً چار ہزار(4000) قبل مسیح میں چراگاہوں کی تلاش میں پامیر سے چل کر ایران آئے تھے۔ ابتداءیہ لوگ بخارا اور سمر قند میں آباد ہوئے ۔ وہاں کے حالات سازگار معلوم نہ ہوئے تو ایران کی طرف بڑھے ۔ ایک گروہ ایران کے شمالی علاقے میڈیا میں داخل ہوا، دوسرا گروہ مشرقی ایران کی طرف آیا پھر جنوب کی طرف بڑھا اور جنوبی ایران کے علاقہ پارس میں آباد ہوگیاتھا۔ میڈیا اور پارس کے قدیم باشندے ان نو وارد آریاؤں کے ہاتھوں مارے گئے اور جو بچے، وہ پہاڑوں میں کہیں ادھر ادھر منتشر ہوگئے تھے۔بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے حملہ آوروں کی غلامی قبول کرلی تھی۔آریائی قبائل شروع شروع میں ریوڑ چراتے تھے، رفتہ رفتہ کھیتی باڑی بھی کرنے لگے لیکن یہاں انہیں چین نصیب نہ ہوا کیونکہ ان کے پڑوس میں آشوری آباد تھے اور ایک قدرتی شاہراہ بین النہر ین میسوپوٹیمیا (Mesopotamia) سے نکل کر" کوہ ِ زا گروس "سلسلہ کوہ (Zagros Mountain) سے ہوتی ہوئی میڈیا تک پہنچتی تھی۔اس راستے سے آشوری آئے دن آریوں پر حملے کرتے رہتے تھے۔ انہیں مجبوراً اپنی سلامتی کی خاطر آشوریوں (Assyrians) کو بیاج ادا کرنا پڑتا تھا، آخر آل ِ ماد کے ایک فرد"و یوکس "کواقتدار حاصل ہوا تو آریاؤں کو آشوریوں کے باج و خراج سے چھٹکارا ملاتھا۔ 25
سلطنت نینوا سے بغاوت کرنے کے بعد میڈیا والے ایک آزاد او ر زبردست قوم بن گئے تھے ۔ ان کا پہلا بادشاہ "ڈیوسیس“(Deioces)تھا ،جس کا خاندان مدت تک ان لوگوں پر حکومت کرتارہا۔ ایرانی لوگ اُن پہاڑوں میں آباد تھے جو بحر خزر اور خلیج فارس (Persian Gulf)کے درمیان واقع ہیں ۔قدیم الایام میں میڈیا والوں نے اسیریا (Assyria)کے سامان عیش وعشرت اور ان کے تمدن کو کلیۃً اختیار کرلیاتھا حالانکہ وہ ایک جفا کش اور جنگجو قوم تھے۔26
ایران کی سرزمین پر دنیا کی طاقت ور ترین سلطنتیں قائم رہیں جن میں بابلی سلطنت (Babylonian Empire) ، ایلامی سلطنت(Elam Empire/Susiana Empire)، میڈیائی سلطنت (Median Empire)، آشوری سلطنت(Assyrian Empire)، اشکانی سلطنت(Arsacid Empire)،ہخامنشی سلطنت (Achaemenian Empire)ا ور ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) زیادہ مشہور ہیں۔
بابلی سلطنت (Babylonian Empire) کا آغاز 2300 قبل مسیح میں ہوا اوراس کا پایہ تخت مشہور زمانہ شہر بابل تھا۔یہ سلطنت تقریبااٹھارہ سو (1800) سال قائم رہی یہاں تک کہ539 قبل مسیح میں کوروش اعظم (Cyrus the Great) نے اسےفتح کیا اور بابلی سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا۔
سلطنت ایلام /خوزستانی سلطنت (Elam Empire/Susiana Empire) کا زمانہ بھی بابلی سلطنت کے ہم عصرتھا۔یہ سلطنت 2700قبل مسیح کے قریب قائم ہوئی اور تقریباً دو ہزار2000 سال قائم رہی یہاں تک کہ سلطنت کے پایہ تخت شہر شوش یا خوزستان(Susiana)کو645قبل مسیح میں آشوربانیپال (Ashurbanipal)نے فتح کر لیا اور اس سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا۔
آشوری سلطنت (Assyrian Empire)کا زمانہ 1400 قبل مسیح سے 600 قبل مسیح تھا۔اس کا پایہ تخت دجلہ کے کنارے واقع مشہور شہر نینوا (Nineveh)تھا۔یہ سلطنت تقریبا1200سال قائم رہی۔یہاں تک کہ 600قبل مسیح میں میڈیا والوں نے اسے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیاتھا۔
میڈیا کی سلطنت(Median Empire) مغربی ایران میں 700قبل مسیح میں وجود میں آئی جس کا پایہ تخت اکبٹانا (Ecbatana)تھا جس کو عہد حاضر میں ہمدان کہتے ہیں۔550قبل مسیح میں کورش (Cyrus the Great) نے اس سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔
ہخامنشی سلطنت(Achamenian Empire) کا بانی شاہ کوروش (Cyrus the Great) تھا جس نے550قبل مسیح میں میڈیا کو فتح کر کے حکومت قائم کرلی تھی۔330قبل مسیح میں سکندر اعظم نے ڈیریس سوئم کو شکست دے کر اس سلطنت کا خاتمہ کیاتھا۔اس کا پایہ تخت "پرسیپولس "(Persepolis)شہر تھا۔
اشکانی یا پارتھیاسلطنت (Arsacid Empire) 249قبل مسیح میں پرتھوا قبیلے کے سردار ارشک (Arsaces) نے قائم کی۔ یہ سلطنت تقریبا 475سال قائم رہی یہاں تک کہ اردشیر ابکان نے اسے 226 عیسوی میں ختم کر کے اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ 27
ساسانی سلطنت (Sassanid Empire)کی بنیاد 226 عیسوی میں اردشیر ابکان نے ڈالی جب کہ اس کا خاتمہ مسلمانوں کے ہاتھوں 653 عیسوی میں ہوا۔ حضر ت عمر کے عہد میں قادسیہ(635 عیسوی)، جلولا (637 عیسوی) اور نہاوند(642 عیسوی) کے معرکوں میں مسلمانوں نے ساسانی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بالآخر 653 عیسوی میں دور عثمانی میں آخری ساسانی حکمران یزدگرد بھی مارا گیا اور اس سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔28
فارس میں برسر اقتدارآنے والےسب سے پہلے آریائی قبیلے کا نام" ماد" (Medes)تھا۔اس کا مسکن فارس کا شمالی علاقہ تھا۔ یہاں کا دار الخلافہ ہگمتانا (Hagmatana) تھاجسے قدیم دور میں اکبتانا (Ecbatana)اور موجودہ دور میں ہمدان کے نام سے جانا جاتاہے۔ عمومی طور پر تاریخ دانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہےکہ 2000قبل مسیح میں ماد قبیلے سے تعلق رکھنے والےلوگوں اور ایرانی باشندوں نے اس خطے کو آباد کیا تھا جسے آ ج فارس کہا جاتا ہے۔
ماد (Medes)قبیلے میں فارسی زبان بولی جاتی تھی ۔ ان کی حکومت نویں صدی قبل مسیح سے چھٹی صدی قبل مسیح تک شمالی فارس، شمالی میسوپوٹیمیا(Mesopotamia)، افغانستان(Afghanistan) اور ارمینیا (Armenia)میں قائم تھی۔ ماد قبیلے کے لوگوں کا مادر وطن جنوب مغربی ایران کا خطہ تھا اور اس کا مرکزہمدان تھا جسے ماد اکبتانا(Ecbatana) یا"جائے اجتماع"کہا کرتے تھے۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں وسطی دور کے سیازاریس (Cyaxares)نامی ایک پر عزم بادشاہ نے یورارتین(Urarteans)،شمالی ایران،ارمینیا اور شمالی میسوپوٹیمیا سے تعلق رکھنے والے آشوریوں (Assyrians)پرحکومت قا ئم کرکے سلطنت کو ترکی (Turkey)، قفقاز(Caucasus) اورافغانستان تک وسیع کردیا تھا۔
ماد (Medes)قبیلے کے باشندے ہندی ایرانی(Indo-Iranian) تھے۔یہ لوگ دیگر ایرانی زبان بولنے والے لوگوں کے ساتھ جن میں فارسی بھی شامل تھے ، 1500 قبل مسیح کے آس پاس کے دور میں موجودہ شمالی مغربی ایران کی جانب ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے یونانی تاریخ دان ہیروڈوٹس (Herodotus)کے مطابق ماد (Medes) چھ (6)مختلف قبائل سے مل کر وجود میں آئے تھے۔ان قبائلی گروہوں کے ناموں کے آخری حصہ میں زرتشی پیشواوٴں کی خاص اصطلاح استعمال ہوا کرتی تھی جس سے اس قبیلے کے مذہبی مرتبہ کی نشاندہی ہوا کرتی تھی۔ یہ قبائل قربانیاں اور دیگر مذہبی رسومات ادا کرنے کے بھی ذمہ دار ہوا کرتے تھے۔
ہیروڈوٹس(Herodotus)کے مطابق وسطی دور کے پہلے بادشاہ کا نام ڈیوکس (Deiokes)تھا۔ ڈیوکس ایک ایسا قبائلی رہنما تھا جو اپنے لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے میں ایماندار اور منصف مشہور تھا۔ اسی وجہ سے ماد (Medes)کے تمام قبائل اپنے عمومی معاملات اور جرائم کے متعلق فیصلوں کے لیے ڈیوکس سے رجوع کیا کرتے تھے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد بالآخر تمام چھ (6)قبیلوں نےمشترکہ طور پر ڈیوکس (Deiokes)کو تمام قبائل کا سربراہ اور منصف اعلیٰ منتخب کرلیاتھا۔ سربراہ منتخب ہونے کے بعد ڈیوکس (Deiokes)نے درخواست کی کہ اس کی حفاظت کےلیے ایک سات(7) دیواری قلعہ تعمیر کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے معاملات کے فیصلے صرف لوگوں کے روبرو کرنے کے بجائے تمام تجارتی سرگرمیوں اور عدالتی کاروائیوں کو تحریری صورت میں محفوظ کرنے پر زور دیا تھا۔
ماد (Medes)قبیلے نے ایرانی سلطنت کے بعض اہم فوجی اور سیاسی عہدوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھاجس کی وجہ سے ایرانی الاصل قبائل کے بعد مرتبہ میں دوسرا درجہ ان ہی کا تھا۔وسطی دور کی عدالتوں کے معاملات ایرانیوں نے اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔اس کے علاوہ ایران کے دار الخلافہ اکبتانہ (Ecbatana) میں وہاں کےبادشاہ موسم گرما میں قیام کیا کرتے تھے۔ 29
جب آریا(Aryans) نسل میڈیا(Medes) کے علاقوں میں آبادہوئی تویہ لوگ ماد کہلائے۔ان کا آخری بادشاہ آستیاکس تھا جس پرہخامنشی(Achaemenes) خاندان کے "کوروش اعظم"(Cyrus the Great)نے فتح پائی اور 550قبل مسیح سے پورئے ایشیائے کوچک پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھا ۔ اس کا جانشین" کیوجیہ" تھا،جس نے 529قبل مسیح اور 521قبل مسیح تک حکومت کی تھی،اس کا جانشین" ژرکسیز" تھا۔وہ 485قبل مسیح سے 466قبل مسیح تک حکمران رہا۔دوسرے حکمران ارداشر 445تا425قبل مسیح ، ڈیریس (Darius)دوم424تا404قبل مسیح تک ارداشر دوم 440تا385قبل مسیح،ارداشر سوم 358تا 338قبل مسیح تک اور ڈیریس سوم336 تا333قبل مسیح حکمرانی کرتے رہے۔30
ہخامنشی (Achaemenes) سلطنت تاریخ عالم کی بڑی سلطنتوں میں سے ایک جا نی جاتی ہے۔ یہ سلطنت مغربی یور پی جزیرہ نما بلقان (Balkan Peninsula) سے لے کر مشرقی ہندوستان کی سندھی تہذیب(Indus Valley Civilization) تک پھیلی ہوئی تھی۔ہخامنشیوں کا شمار قدیم ایرانی باشندوں میں ہوتا ہے۔ان کا تعلق جنوبی ایران کے صوبے پارس سے تھا۔330قبل مسیح میں مقدونیا (Macedonia)کے سکندر اعظم سے ڈیریس سوم (Darius III)کی شکست کے بعد ہخامنشی زوال پذیر ہوگئے تھے۔ بعض تاریخ دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ہخامنشی(Achaemenes)ایک افسانوی کردار تھا جسے بعد میں آنے والے ہخامنشی (Achaemenes) حکمران ڈیریس اول (Darius I)نے تخلیق کیا تاکہ تخت شاہی کی دعوے داری قائم رہے۔ 31
ہخامنشی دور(Achaemenes Rule) میں مفتوحہ اقوام کےلوگوں کے ساتھ آزادانہ طرز حکمرانی کا سلوک روا رکھا گیا ۔ سلطنت متعدد صوبوں یا ساتراپیز (Satrapies)میں منقسم تھی ۔ ہر صوبے کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک گورنر مقرر کیا گیا تھا جس کےمعاملات کی مسلسل چھان بین کرنےکے لیےمسلسل حکومتی عّمال آتے رہتے تھے جو براہ راست بادشاہ کو جوابدہ تھے۔ 32
بعد ازاں صوبے داروں نے اپنے اپنے طاقت کے مراکز بنا کر سلطنت کو غیر مستحکم کردیا تھا۔ افراط زر اورمحصولات میں دن بدن اضافہ نے بھی لوگوں کی پریشانیوں میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا ۔ مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگوں کو یکجا کرنے کے لیے وحدت سلطنت کے نظریے نےشروع میں تو اپنا اثر دکھایالیکن یہ نظریہ بھی دیرپا اثر قائم نہ رکھ سکا۔ سلطنت کی وسیع فوج کا نظام بھی دستوں کے بے ہنگم اور الجھا دینے والے انداز سے مرتب کیا گیا تھا۔ہر دستہ اپنے خاص رسم و رواج کے مطابق عسکری تربیت حاصل کرتا اور فوجی لباس زیب تن کرتا تھا نیز ان کی زبانیں بھی مختلف ہوا کرتی تھیں۔
401 قبل مسیح میں کوروش صغیر(Cyrus the Younger)، لیڈیا کے گورنر فریگیا(Phrygia)، اور کپےڈوکیا(Cappadocia)نے مل کر10000یونانی فوجیوں کی مدد حاصل کرکے اپنے بھائی آرتاژرکسیز دوم (Artaxerxes II) کے خلاف معرکہ آرائی کی لیکن اپنی اس کوشش میں ناکام رہے اور تمام یونانی فوج جنگ ہارنے کے بعد اپنے وطن واپس چلی گئی ۔ان ہی کی دی گئی معلومات نے سکندر اعظم کے لیے 334 قبل مسیح میں ایک کامیاب حملہ کی راہ ہموار کی تھی۔33
ساسانی سلطنت (Sassanian Empire) کا بانی ارداشر اول(Ardashir I)تھا جس نے ارتابانوس چہارم (Artabanus IV) کو224 عیسوی میں ہورموزگن (Hormozgan)کے مقام پر شکست دی اور ساسانی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔وہیں سے ارداشر کو "بادشاہوں کے بادشاہ" کا خطاب ملا تھا۔34ساسانی سلطنت قبل از اسلام ایرانی شاہی سلسلے کی آخری سلطنت تھی جس کی حکومت مغربی ایشیا کے وسیع رقبہ پر قائم تھی۔ ساسانی شاہی سلسلے(Sassanid Dynasty)کے حکمران ہخامنشی شاہی خاندان(Achaemenes Dynasty)کے بعد سب سے مشہور اور نہایت طاقتور تصور کیے جاتے تھے۔ ان کے400سالہ اقتدار میں ایرانی و فارسی وطن پرستی کو فروغ ملا اور ان کی تہذیب و ثقافت نے نمو پائی تھی۔ ساسانی شاہی سلسلے کا نام ساسان(Sasan) سے اخذ کیا گیا تھا جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ارداشر اول(Ardashir I) کا باپ یا پھر دادا تھا ،اور اسی کوآرتاژرکسیز(Artaxerxes)بھی کہا جاتا تھا۔ 35ساسانی سلطنت 226 عیسوی سے 651 عیسوی تک قائم رہی اور اس کا ظہوروہاں پہلے سے موجود پارتھین شاہی خاندان(Parthian Dynasty)کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ساسانی سلطنت کی حدود جدید ترکی کی مشرقی سرحد سے لے کر موجودہ پاکستان کے مغربی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔36
ایران میں بولی جانے والی زبانیں آریا (Aryans)زبانوں کے ایک الگ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان زبانوں میں آریائی محاوروں کے ساتھ ساتھ سنسکرت(Sanskrit)اور اس کی ذیلی زبانیں یونانی(Greek)، لاطینی(Latin)، قدیم جرمن زبان ، سلاوی (Slavonian) ، لیتو لیتھونین(Letto-Lithuanian)، کیلٹک (Celtic)، اور ان سےمماثلت رکھنے والی دیگر زبانیں شامل تھیں۔
زبانوں کے اس مجموعہ کا پہلا حصہ خاص طور پر قدیم ، قرون وسطی اور جدید دور میں بولی جانے والی زبانوں پر مشتمل تھاجو فارس (Persia)، میڈیا (Media)اور بکٹیریا (Bacteria)کے ممالک میں بولی جاتی تھیں۔انہیں زنڈ اوسٹا (Zend Avesta)میں آریائی ممالک کے طور پر شمار کیا گیا تھا۔ ان زبانوں کو ہاگ(Haug) نامی محقق نے زبانوں کی مشرقی یا بکٹیرین (Bacterian )شاخ ، مغربی ایرانی شاخ اوربعض کو میڈیا اور فارس کی زبانوں میں تقسیم کیا ہے۔
مشرقی ایران میں بولی جانے والی زبانوں میں سے صرف دو لہجے باقی ہیں اور انہی میں پارسیوں کے مقدس صحیفوں کا نامکمل حصہ تحریر ہے جس کو گاتھا (Gatha)کہا جاتا ہے۔ گاتھا (Gatha)زبان ان تمام زبانوں سے زیادہ قدیم ہے اور اسی زبان میں گاتھا (Gathas)تحریر کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ فارس میں قدیم بکٹیرین (Bacterian)اور رومی دور میں بولی جانے والی اوسٹا زبان(Avesta) بھی شامل ہے جو طویل صدیوں تک بکٹیریا طرز پر بولی اور لکھی جاتی رہی تھی۔
مغربی فارسی زبانوں کے متعلق معلومات ہمیں عہد عتیق کے تین(3) ادوار کے دوران، ازمنہ وسطیٰ اور دور جدید میں ملتی ہیں، لیکن فارسیوں کے تمام ادوار میں ایک مخصوص زبان سلطنت فارس میں تمام ایرانی صوبوں میں تحریری کام کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
ایران میں بولی جانے والی زبانوں کا دوسرا مجموعہ خاص اور نادرزبانوں پر مشتمل تھا ۔ زبانوں کے اس مجموعہ کو ہاگ (Haug) نے اوسیشیائی(Ossetic)زبان کی طرف منسوب کیا تھا جو قفقاز (Caucasus)کے کچھ چھوٹے قبائل بولا کرتے تھے لیکن یہ قبائلی زبانیں قفقاز(Caucasian Languages) میں بولی جانے والی دیگر زبانوں سے یکسر مختلف تھیں جن میں آرمینین(Armenian) اور افغانی پشتو(Afghan Pushto)زبانیں شامل تھیں۔
پارسی مقدس صحیفوں کی اصل زبان کو اوسٹا (Avesta)کہا جاتا ہے۔ان صحائف کے لیے عمومی اصطلاح زنڈ اوسٹا(Zend Avesta)استعمال کی جاتی ہے۔37ساسانیوں(Sassanian)میں پہلوی (Pahlavi)زبان بولی جاتی تھی، اسے پارسک یا پارسگ(Parsik or Parsig) کہا جاتا تھا اور اسی سے جدید پارسی زبان کا نام فارسی اخذ کیا گیا تھا۔فارسیوں کے اصل تحریر شدہ مقدس صحائف کو پہلوی (Pahlavi)کہا جاتا ہے۔ پہلوی زبان کے الفاظ آرامی(Aramaic) حروف سے لیے گئے تھےجس میں ترمیم کرکے اشکانیانیوں(Arsacids) نے ساسانی سلطنت کے آغاز میں ایک الگ زبان کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا تھا ۔ اسے شمال مغربی پہلوی زبان بھی کہا جاتا تھا بعد ازاں اشکانیائی زبان پوری ساسانی سلطنت(Sassanian Empire) میں بولی جانے والی زبان کے طور پر سامنے آئی تھی اور ساسانی سلطنت کے اختتام تک مکمل طور پر رائج ہوچکی تھی۔38
ہخامنشی سلطنت (Achaemenes Empire) کا حکمران طبقہ قدیم پارسی زبان استعمال کیا کرتاتھاجو بنیادی طور پر ہندو یورپی (Indo-European)زبان تھی۔ اس زبان کا اپنا منفرد رسم الخط تھا اور زیادہ تر اسے خسروی کتبہ لکھنے کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا۔آخر کار قدیم پارسی زبان کا جدید فارسی زبان میں ارتقا ہو گیا جسے اب فارسی کہا جاتا ہے۔ پہلے اہم ہخامنشی (Achaemenes) بادشاہ کوروش اعظم(Cyrus the Great) نے آرامی(Aramaic) کو پوری سلطنت میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی جو کہ ایک سامی النسل(Semitic) زبان تھی ۔ 39
قدیم ایران جسے پارس بھی کہا جاتا تھا ، تاریخی حوالے سے اس کامحل وقوع جنوب مغربی ایشیائی خطہ تھا اور موجودہ ملک ایران سے اس کی مماثلت واجبی سی تھی۔40وسیع تنا ظر میں پارس کا اطلاق مغرب میں بحر کیسپین(Caspian Sea) کے عقب سے مشرق میں واقع ہندو کش(Hindu Kush) تک وسیع علاقے پر ہوتا تھا اور ترکستان (Turkestan)کے سر سبز علاقوں،دریائے جیحون(Oxus River)، اور شمال میں واقع جزارٹس (Jaxartes)سے لے کرجنوب میں موجود خلیج فارس تک پھیلا ہوا تھا۔ 41
قدیم فارسی سلطنت مغربی علاقے اور سطح مرتفع کے وسیع حصہ پر مشتمل تھی، یہ حصہ مشرق میں دریائے سندھ (The Indus River)اور مغرب میں دریائے دجلہ(The Tigris River) اور دریائے فرات (The Euphrates River)کے درمیان واقع تھا۔ شیراز (Shiraz)اور کرمان(Kerman) شہر کے جنوبی حصہ میں،درمیان میں اصفہان(Isfahan) ،کرمان اور ہمدان(Hamadan)کے مشہور شہرمغربی حصہ میں 5000فٹ سے بھی زیادہ بلندی پر واقع تھے۔ شمال میں تبریز(Tabriz) کا بلند و بالا شہر تقریباً 4000فٹ سے بھی زیادہ اونچائی پر اور اسی طرح تہران(Teheran) اور مشہد(Meshed) 3000فٹ کی بلندی پرموجود تھے۔
فارس کا زمینی رقبہ بہت وسیع تھا لیکن وہاں آبی ذخائر کی قلت تھی۔ رقبہ کے لحاظ سے وسیع ہونے کے سبب آبادی کا حجم زیادہ تھا اور پانی صرف زندہ رہنے کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا تھا۔ ایران کے پہاڑی سلسلوں پرطائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جنوب مشرق سے شمال مغرب تک پہاڑوں کا ایک مسلسل سلسلہ پھیلا ہواہے۔ ہمدان شہرمیں موجودکوہ الوند (Mount Alvand)کی اونچائی12000فٹ سے بھی زیادہ پیمائش کی گئی تھی۔تہران میں ایلبرز (The Elburz)نامی پہاڑی سلسلہ سطح مرتفع (Plateau)کوکیسپیائی(Caspian)صوبوں سے جدا کرتی ہے۔ کوہ دیماوند (Demavand) کی 19000فٹ سے بھی زیادہ بلند بالا اونچائی سے ایران کا دار الخلافہ مکمل طور پرصاف دیکھا جاسکتا ہے۔مغربی حصہ کی جانب جائیں تو ایران کے انتہائی شمال مغربی کنارے پرتقریباً 17000فٹ سے بھی زیادہ بلندتاریخی کوہ ارارات(Mount Ararat) واقع ہے۔ ان بلند و بالا اور وسیع و عریض پہاڑی سلسلوں نے سلطنت ایران کو سمندر سے بالکل علیحدہ کردیا تھاجس کی وجہ سے قدیم ایرانی باشندے سمندری سفرسے آشنا نہیں تھے ۔
سلطنت ایران کا وسطی علاقہ صحرائی تھا جہاں پانی انتہائی ناپید تھا ۔ اگر کہیں پانی مل بھی جاتا تو نمکین اورکڑوا تھا۔ قدیم دور میں فارس میں سفر کرنا حد سے زیادہ مشکل تھا ۔ اکثر لوگ راستہ بھٹک جاتے یا طوفانوں کی نظر ہوجاتے تھے۔اس کے علاوہ اکثر پانی اور دیگر اشیاء ضروریہ کی ناکافی مقدار اور ضرررسانی مسافروں کی صحت اور طبیعت کی خرابی کا باعث بنتی تھی۔ 42
قدیم ایران کے بادشاہ پارس ابن ہوشنگ کے زمانے میں ایرانی سلطنت موجودہ بلوچستان، کیچ، مکران، کرمان، غور، بامیان، کابلستان، سیستان، زابلستان (افغانستان)، خراسان، ماوراءالنہر، رشت، اصفہان، مازندان،استرآباد، گرگان (جرجان)، فارس لارستان، خوزستان، پنجاب، کردستان، شیروان (آذربائیجان)، بابل، موصل (عراق) اور دیاربکر (ترکی) کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ایران کے شمالی پہاڑ 18700 فٹ تک بلند تھے۔ وسطی اور مشرقی علاقے صحرا تھے۔از منہ وسطی میں سلطنتوں کے ساتھ ساتھ ایران کی حدود وقتاً فوقتاً بدلتی رہیں، اسی طرح سلطنتیں بھی۔ساسانی عہد میں بابل، دل ِایران شہر، کہلاتا تھا۔43
المسعودی کے مطابق سمندر کی طرف سے کوہ قبخ کے پارکا حصہ اصلاً ایران کہلاتا تھالیکن نوشیرواں کے زمانے سے اس دشوار گزار پہاڑ کے جملہ علاقے (جن کے باشندے سربفلک چوٹیوں اور خطرناک گزرگاہوں کی وجہ سے پڑوسی ہونے کے باوجود الگ تھلک رہتے تھے) ایران کہلاتے تھے۔44ایران میں پہاڑوں کی کثرت ہی ماضی میں اس کی عافیت کا باعث تھی اور آج بھی ہے۔45
ایرانی خطّوں کو مغربی اور مشرقی دو مجموعوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جنہیں وسطی ایران کا دشتِ "کویر" ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا۔ یہ دشت عملی طور پر بحیرۂ خزر(Caspian Sea)سے جنوب مشرقی جانب علاقہ مکران میں بحر ہند(Indian Ocean) تک پھیلا ہوا تھا۔عرب جغرافیہ نویسوں نے بعض حصّے خصوصیت سے زیر نظر رکھے اوراسے مفازۃُ خراسان، مفازۃُ فارس، مفازۃُہرسان، یا مفازۃُ سیستان، کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ اسی بناء پر (مختلف بیانات میں)اس دشت کےعرض اور نوعیّت کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کی سطح مجموعی طور پر ایران کی سطح مرتفع کے مشرقی اور مغربی حصوں کی بنسبت پست تھی۔ شمالی حصّہ، ایک وسیع شور زار تھا، جہاں نباتات مشکل سے اُگ سکتی تھیں۔ جنوب کی طرف، فارس کے مشرق میں، وہ خطہ شروع ہوتا تھاجسے موجودہ نقشوں میں دشتِ لُوط(Lut Desert)کہا گیا ہے۔ یہاں اور اس سے آگے جنوب مشرق کی جانب خاصی بڑی تعداد میں نخلستان ملتے ہیں۔ یہ ان کاروانی راستوں کی بڑی بڑی منزلیں تھیں جن کی بدولت قدیم زمانے ہی سے فارس اور کرمان کا رشتہ خراسان اور سیستان سے منسلک رہا تھا۔ جنوب میں توران ومکران کے خطّے، جن سے دشتِ ایران وادی ہلمند کے جنوب میں مل گیا تھا، بالعموم لق ودق میدان یا صحرا ءنظر آتے تھے۔ صحرا کا یہ سلسلہ اگر چہ مشرق اور مغرب کے درمیان روک نہیں بنتا، تاہم اکثر اوقات ملکی سرحدیں اسی کے مطابق معیّن ہوتی رہی تھیں۔ صرف شمالی جانب قومس کا خطّہ اور الرَّے (بعد ازاں تہران) کے مشرق اور بحیرۂ خزر (Caspian Sea)کے ساحل کے ساتھ کا علاقہ مزروعہ اراضی کی ایک مسلسل پٹّی تھی، جو ماد (Media)سے خراسان تک چلی گئی تھی۔
مغربی خطّوں کا وسطی حصّہ (زمانہ قدیم کا) ماد (Media)تھا۔ یہ سطح مرتفع کوہستانی سلسلوں سے معمور تھا، جو زیادہ تر شمال مغرب سے جنوب مشرق کو چلے گئے تھےاور جن کے ڈانڈے جنوب مغرب کی طرف کوہستانِ زاگروس(Zagros)سے ملے ہوئے تھے۔ یہاں کے مشہور ترین شہر ہمّذان(ہمدان)اور اصفہان (Isphahan)تھے۔ اصفہان کے شمال مغرب کی طرف الجبال ہی کے سلسلے میں آذربائیجان تھا، مگر ان دونوں ولایتوں کو اردَلان کے صحرا نما قطعے نے ایک دوسرے سے جدا کردیا تھا۔ آذربائیجان اور بھی زیادہ کوہستانی علاقہ تھا۔کیونکہ یہی علاقہ آگے چل کر ارمینیہ اور قفقاز (Caucasus)کے سلسلہ ہائے کوہ میں تبدیل ہوجاتاتھا۔ اس خطے کو اسلامی جغرافیے میں الجیْل، الدّیلَم اور اگلے (مشرقی) حصّے کو طبرستان کہا گیا ہے۔ اب یہ گیلان اور مازندران کہلاتے ہیں۔ یہ خطہ ایک تنگ ساحلی قطعے پر مشتمل ہے، جو جانب ِمشرق کسی قدر وسیع ہے اور اتنی مرطوب آب وہوا اور کثرت نباتات کے باعث ایران کے باقی خطّوں سے الگ نظر آتا ہے۔ جنوب کی طرف یہ علاقہ اَلْبُرز (Alborz Mountain)کے بلند سلسلہ کوہ تک تقریباً عمومی انداز میں بلند ہوتا چلا گیا ہے، جو وسطی سطح مرتفع کی حد بناتا ہے۔ جنوبی پہاڑی ڈھلانوں کے ساتھ وہ آباد اور مزروعہ پٹّی پھیلی ہوئی ہے جس میں "رے" اہم ترین شہر تھا۔ 46
سرزمینِ ایران ایک سطح مرتفع (Plateau)تھا جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا۔ اس کی شمالی جانب کوہِ البرز تھا جو زنجیر کی طرح شرقاً غرباً پھیلتا چلا گیا تھا۔ یہ سلسلہ کوہ مغرب میں آرمینیہ سے شروع ہو کر بحیریہ خزر سے ہوتا ہوا کوہِ ہندوکش(Hindukush Mountain) سے جاملتاتھا۔ شمال میں کچھ ایسے پہاڑ بھی تھےجن میں کبھی آتش فشانی مادہ پایا جاتاتھا۔مغربی سمت کوہ زاگروس یا کردستان کے پہاڑ تھےجو شمالاً جنوباً پھیلے ہوئےتھے۔ سطح مرتفع کی سب سے زیادہ بلندی جنوبی علاقوں میں تھی مثلاً کرمان میں اس کی بلندی 1600میٹرتقریباً5247فٹ،مشہد میں 1250میٹرتقریباً 4100فٹ اور تبریز میں 1200میٹرتقریباً3940فٹ تھی۔47
شمال میں کوہ" ابرز"دیوار کا کام دیتاتھا۔سب سے اونچی چوٹی دماوندکی تھی جو 18500فٹ بلند اور سال بھر برف سے ڈھکی رہتی تھی۔دماوند(Demavand)ہمالیہ کے سلسلوں کےبعد ایشیاء کا دوسرا سب سے اونچاپہاڑی سلسلہ ہے۔ایران کی سطح مرتفع سمندر کی سطح سے 500سے 3000فٹ تک بلندتھی۔48ایران کی سطح مرتفع میں مستقل آبادی کے دوش بدوش،خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش بھی پائے جاتے تھے۔49
قدیم دور میں ایران میں برف باری اور بارش بہت کم ہوا کرتی تھی۔ شمالی علاقوں میں تقریباً10انچ اور جنوبی علاقوں میں 5 انچ سے زیادہ برف نہیں پڑا کرتی تھی۔ دوسری طرف ایران کےبحر کیپسین (Caspian Sea)کے ساحل سے جڑے ہوئے صوبوں میں بہت زیادہ بارشیں ہوا کرتی تھیں۔سطح مرتفع کے علاقوں کی آب و ہوا شدید خشک تھی ،وہاں کے دن گرم اور راتیں ٹھنڈی ہوا کرتی تھیں۔کیسپین(Caspian) صوبوں کی آب و ہوا تیز بارش کی صورت میں نمی، ملیریائی موسمی بخار اور صحت کے لیے ناموافق موسم میں تبدیل ہوجاتی تھی۔خلیج فارس (Persian Gulf)کی ساحلی پٹی سے منسلک سمندر سے قریب ممالک کے علاوہ دیگر ملکوں کی آب و ہوا انتہائی گرم اور خشک ہوا کرتی تھی۔ بارشیں کافی قلیل مقدار میں ہوا کرتی تھیں اور سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا تھا۔ان ممالک کا وسیع رقبہ خشک صحرا پر مشتمل تھا۔ 50اس حوالے سے بھی شواہد ملتے ہیں کہ قدیم زمانے میں ایران میں پانی کی بہتات تھی اور جنگل بکثرت تھے ۔ 51
فارس دریا ؤں کی کمی کے سبب زیادہ مشہور نہیں تھا۔ لوگ شمالی حصہ سے جنوب تک اور مشرق سے مغربی حصوں کا سفر بغیر کسی دریا کو عبور کیے مکمل کر لیا کرتے تھے۔52ایران میں ایک بڑا دریاتھاجسے اب دریائے کارون(Karun River) کہتے ہیں۔پہلے اس کا نام دریائے اہواز تھا۔ یہ اپنے معاون کرخا سے پانی لیتا ہوا ازمنہِ وسطی میں براہِ راست خلیج فارس میں گرتا تھا، بعد میں شطّ العرب (Arvand Rud)میں گرنے لگاتھا۔53یہ دریا بختیاری پہاڑوں سے نکلتا تھااور خوزستان کے علاقے میں بہتا تھا۔ خلیج فارس میں گرنے سے پہلے اس کی دو شاخیں ہو جاتی تھیں۔سب سے لمبادریا سفید رودہے جو بحرخرز (Caspian Sea)میں گرتا تھا۔مشرق میں دریائے ہیرمند تھاجس میں سب سے زیادہ پانی تھا۔54
آذر بائیجان کے علاقے میں ندی نالوں کی بھی افراط تھی۔ دریائے اَرْس(Araxet) کو اس کی شمالی سرحد سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے جغرافیہ میں نمایاں چیز ارمیہ کی کھارے پانی کی بڑی جھیل تھی۔ آذربائیجان کی مشرقی سرحد سے آگے بحیرۂ خزر (Caspian Sea)کی ساحلی پٹّی تھی۔55دریائے کارون کے قریب ہی ایک اور دریا بہتا تھاجو کرخہ کے نام سے موسوم تھا۔ جب یہ دریا شوش کے قریب پہنچتا تو اس کے بھی دو حصے ہوجاتے تھے۔ آخر یہ دونوں مٹی میں جذب ہوکر دلدل بناتے تھے۔ کچھ فاضل پانی دجلہ میں بھی جاگرتا تھا۔ ان کے علاوہ بعض اور دریا بھی تھےمثلاً شمال میں دریائے اُرس، سرخ رُود، اترک اور گرگان ، جو بحیرۂ خزر (Caspian Sea)میں گرتے تھے۔اصفہان میں زایندہ رود تھا، یہ حقیقت میں ایک قدرتی ندی ہے جو اصفہان کے بیچوں بیچ بہتی ہوئی گزرتی تھی اور بالآخر دلدل بن کر رہ جاتی تھی۔ فارس میں دریائے کور تھاجو جھیل نیریز میں جاگرتا تھا۔ دریائے قرہ آغا بھی بہتا ہوازمین ہی میں ختم ہوجاتا تھا۔ مشرقی ایران میں مرغاب، ہری رود بہتے ہوئے صحرائے ترکمان میں ختم ہوجاتے تھے۔ سیستان میں دریائے ہلمندتھا۔سطح مرتفع کے شمال مشرقی علاقے میں، جو ماورا النہر کہلاتا ہے، دریائے آمویہ(جیحوں)بہتا تھاجو کبھی ایران کی سرحد ہوتی تھی۔ یہ دریا پا میر سے شروع ہو کر بحیرۂ ارال میں جا گرتی تھی۔ یونانی مؤرخین اسے اوکسس(Oxus)لکھتے ہیں۔
سطح مرتفع ایران میں جھیلیں بھی تھیں جن کے نام یہ ہیں: جھیل اُرومیہ، جسے اب رضا شاہ پہلوی کے نام کی مناسبت سے "رضائیہ" کا نام دیا گیا ہے۔ قدیم ایرانی اسےدیویوں کامسکن سمجھتےتھے یہ جھیل ایران کی تمام جھیلوں سے بڑی تھی۔ ایک جھیل فارس میں تھی جو مہارلز کے نام سے موسوم تھی۔ سیستان کی جھیل کا نام ہاموں تھااور بختگان کی جھیل کا نام نیریز تھا۔ تہران اور قم کے مابین جھیل ِقم تھی، اسے حوض سلطان بھی کہتے تھے۔
ایران کے شمال میں بحیرۂ خذر (Caspian Sea)تھا۔ اس کے اردگرد قبائلِ خزررہتے تھے۔انہی سے اس بحیرۂ نے "بحیرۂ خزر" کا نام پایا تھا۔ اسے "بحیرہ کیسپین"بھی کہتے ہیں۔
ایران کے جنوب میں خلیجِ فارس (Persian Gulf) تھاجو عرب اور ایران کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا۔ دریائے دجلہ(Tigris) اور فرات (Euphrates)جو مل کر شط العرب کا نام پاتے ہیں، اسی خلیج میں گرتے تھے۔ دریائے کارون بھی اسی خلیج میں گرتا ہے۔56
ایران کے جغرافیہ سے اندازہ ہوتاہے کہ زمانہ قدیم میں اس خطے کا رقبہ چونکہ بہت زیادہ تھا اسی لیے کئی ممالک کے ساتھ اس کی حدود ملتی تھیں۔ اسی وجہ سے کئی اقوام اورممالک سے ایرانیوں کے مراسم بھی تھے جس کی بدولت وہاں کے لوگوں پر ہمسایہ اقوام کے اثرات بھی مرتب ہوتے رہتے تھے۔ایرانی سلطنت اپنے تاریخی کرَوفر اور شاہی طنطنے کے ساتھ شاید مزید سینکڑوں برس قائم رہی لیکن انسانیت کے لئے اس کی تہی دامنی اس حقیقت کا بدیہی اعلان تھا کہ اب ایرانی سلطنت کے دامن میں افادیت کا عنصر مفقود ہوچکا تھا۔ اب اس سلطنت کا پورا نظام انسان پر انسانوں کی خدائی کے ماسوا کچھ نہ تھا لہذا زمین پر ہر سو جہاں اللہ کی وحدانیت اور رسول ﷺ کی خاتمیت کا پھیریرا لہرانے لگ گیا تھا اور بحر و بر پر توحید و رسالت کے نغموں سے گونج اٹھی تھی، اللہ تعالی نے ساسانی سلطنت کی بے مقصد بادشاہت کو بھی اہل اسلام کے قدموں پر ڈھیر کردیااور ان کو اسلام کی دولت سے مالا مال فرمادیا۔