Encyclopedia of Muhammad
پیدائش 664 عیسوی وفات 52 ہجری والد حیی بن اخطب والدہ برّہ بنت سموالشوہر (۱)سلام بن مشکم (علیحدگی ہوئی) (۲)کنانہ ابن ربیع (جنگ خیبر میں قتل ہوا) (۳)رسول اللہ ﷺ لقب: ام المؤمنینقبیلہ: بنو نضیرمزار مبارک جنت البقیع

Languages

English

ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی

ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی کا اصل نام زینب تھا۔ آپ صفیہ کے نام سے اس وقت مشہور ہوئیں جب حضور نے آپ کے ساتھ نکاح فرمایا۔ 1 "صفی" یا "صفیہ" اُس وقت مال غنیمت کے اُس خاص حصہ کو کہا جاتا تھا جسے عمومی تقسیم سے قبل کسی بادشاہ یا فوجی جرنیل کی خدمت میں پیش کیا جاتا۔ 2 آپ نے غزوہ خیبر کے اسیران جنگ میں سے خود حضرت صفیہ بنت حیی کا انتخاب فرمایا تھا 3 اس لئے آپ کو بھی "صفیہ" کہا گیا جس کی تصدیق حضرت عائشہ سے مروی شدہ روایت بھی کرتی ہے۔

حضرت صفیہ بنت حیی کا نسب

آپ کا پورا نام اور نسب صفیہ بنت حیی بن اخطب بن سعنہ بن ثعلبہ بن عبيد بن كعب بن ابی حبيب تھا۔ آپ کا والد حیی بن اخطب بنو نضیر قبیلہ کا ایک مال دار سردار تھا جس کا نسب حضرت ہارون بن عمران سے ملتا تھا جو حضرت موسی کے بھائی تھے۔ 5 آپ کی والدہ کانام برّہ بنت سموال تھا6 جو رفاہ بن سموئیل کی بہن تھیں اور وہ بنوقریضہ قبیلہ کے سردار تھے۔ 7

حضور سے نکاح سے قبل حضرت صفیہ بنت حیی کی زندگی

آپ کا تعلق مدینہ میں بسنے والے ایک یہودی خاندان کے ساتھ تھا۔ آپ کی پیدائش حضور کے اعلان نبوت کے تین برس بعد ہوئی۔یہ یہودی خاندان اللہ تعالی کے آخری پیغمبر کی آمد کا منتظر تھا جن کی آمد وبعثت کے متعلق ان کی مذہبی کتب میں بشارات موجود تھیں۔ حضور کی آمد کی اطلاع پاکر یہودی جن میں حیی بن اخطب بھی شامل تھا اور اپنے قبیلہ کا سردار ہونے کی حیثیت سے نہایت معزز ومحترم بھی تھا، آپ کو دیکھنے کےلیے اپنے گھر سے نکلا۔ حيی بن اخطب جب حضور کو دیکھنے کےلیے جانے لگا تو اس کا بھائی یعنی حضرت صفیہ کا چچا بھی اس کے ساتھ تھا ۔ جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو آپ نےقبا میں قبیلہ بنو عمر بن عوف کے مکان پر قیام فرمایا ۔ یہ وہ وقت تھا جب حیی بن اخطب اور اس کا بھائی یاسر بن اخطب حضور سے ملنے کےلیے گئے۔ سورج غروب ہونے کے وقت وہ دونوں آہستہ آہستہ، تھکی ماندی حالت میں، شکست خوردہ سے گھر کو واپس لوٹے۔ حضرت صفیہ نے انہیں گھر واپسی پر بڑی خوشد لی کے ساتھ خوش آ مدیدکہا اور سلام کیا لیکن وہ دونوں ذہنی طور پر اتنے زیادہ پریشان تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان کے سلام وکلام کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس کے بعد ابو یاسر نے حیی بن اخطب سے سوال کیا کہ کیا اس کے خیال کے مطابق محمد اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں جس کے جواب میں حیی انکار نہ کرسکا اور اس نے تسلیم کیا کہ وہ واقعی اللہ کے سچےنبی اور رسول ہیں ۔ اس کے بعد ابو یاسر نے حیی سے اس کے آئندہ کے عزائم کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میں حیی نے واضح طور پر کہہ ڈالا کہ وہ ان پر کبھی بھی اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے ایمان نہیں لائے گا اور مرتے دم تک ان سے اپنی دشمنی جاری رکھے گا۔ 8

کچھ عرصہ کے بعد بنو نضیر کے یہود نے آپ کو شہید کرنے کی سازش تیا رکی لیکن اللہ تعالی نے وحی کے ذریعہ آپ کو پہلے سے ہی یہودیوں کی اس سازش کے بارےمیں آگاہ فرمادیا۔ چنانچہ قبل اس کے کہ یہودی اپنی سازش کو عملی جامہ پہناتے، آپ جس جگہ تشریف فرما تھے، آپ نے وہ جگہ فوری طور پر چھوڑ دی اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد یہودی قبیلہ بنونضیر کے قلعوں کا مسلمانوں نے محاصرہ کر لیا جو 6 دن تک جاری رہا جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار پھینک ڈالے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کردیا۔ انہوں نے آپ سے درخواست کی کہ ان کی جان بخشی کردی جائے۔ آپ نے ان کی اس درخواست کو اس شرط پر قبول فرمایا کہ وہ مدینہ منورہ چھوڑ کر کسی اور طرف چلے جائیں گے اور اپنے ساتھ صرف اپنے اونٹوں پر لے جایا جانے والا اسلحہ اور سامان انہیں لے جانے کی اجازت ہوگی۔ اس طرح یہودیوں کے اس قبیلہ نے مدینہ سے کوچ کیا اور جا کر خیبر اور شام میں مقیم ہوگئے۔ 9

آپ کے ساتھ نکاح سے قبل آپ کی ازدواجی زندگی

حضرت صفیہ بنت حیی کی شادی پہلے مشہور یہودی شاعر سلام بن مشکم سے ہوئی۔ وہ ایک بڑا شاعر اور بہادر جنگجو تھا لیکن کچھ عرصہ کے بعد دونوں کے درمیان تفریق ہوگئی اور اس کے بعد حضرت صفیہ کی شادی کنانہ ابن ربیع کے ساتھ ہوئی 10 جو نہایت مالدار شخص ہونے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے مضبوط ترین قلعہ القموص کا مالک بھی تھا ۔

خیبر میں یہودی مستقل طور پر مسلمانوں کے خلاف حملوں کے لیے لوگوں کو اکساتے رہے اور اس مقصد کے لیے تیار ہونے والے افراد وقبائل کے ساتھ مالی طور پر تعاون بھی کرتے رہے۔ چنانچہ 7 ہجری میں مسلمانوں نے ان کی مسلسل ریشہ دوانیوں سے نجات پانے کےلیے خیبر پر حملہ کر کے ان کے قلعوں کو یکے بعد دیگرے تباہ کرڈالا یہاں تک کہ مسلمان فوج ان کے سب سے آخری اور مضبوط ترین گڑھ القموص تک جاپہنچی۔ اعصاب شکن جنگ کے بعد یہودیوں کا یہ آخری اور مضبوط گڑھ بھی مسلمانوں نے بالآخر اللہ کی مدد سے فتح کر ڈالا اور اس میں موجود کِنانہ سمیت دوسرے یہودیوں کو بھی جنگی اسیر بنالیا۔ جنگ کے بعد کنانہ کو آپ کی خدمت میں لایا گیا اور اس سے خیبر میں یہودیوں کی دولت اور خزانوں سے متعلق معلومات حاصل کی گئی جس پر اس نے جواب دیا کہ وہ سب جنگ کی تیاریوں پر خرچ کیا جاچکا ہے لہذا اب اس میں سے باقی کچھ نہیں بچا۔ آپ نے حضرت ابوبکر ، عمر اور علی اور دوسرے یہودیوں کو کنانہ کے الفاظ پر گواہ بناتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اگر کنانہ کی بات جھوٹ ثابت ہوئی تو اسے بدترین سزاد ی جائے گی۔ اللہ تعالی نے آپ کو یہودیوں کے خزانوں کی موجودگی اور مقامات کے بارے میں آگاہ فرمادیا۔ آپ نےحضرت زبیر بن عوام کو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اس مقام کی طرف روانہ فرمایا جہاں خزانے کوچھپایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے یہودیوں کے چھپائے ہوئے خزانے کو نکالا اور اسے لاکر آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔ ایک روایت کے مطابق ایک یہودی ثعلبہ ابن سلام نے آپ کواس خزانے کی صحیح جگہ کے بارے میں آگاہ کیا تھا چنانچہ مسلمانوں نے وہ خزانہ وہاں سے ڈھونڈ نکالا اور اس موقع پر کنانہ کو محمد ابن مسلمہ کے حوالہ کیا گیا جنہوں نے اسے اپنے بھائی کے قتل کے بدلہ میں قتل کرڈالا ۔11

اسی جنگ میں قلعہ قموص سے دوسری خواتین کے ہمراہ حضرت صفیہ بنت حیی کو بطور اسیران جنگ کے مسلمانوں نے اپنی تحویل میں لیا۔ 12 ایک دوسری روایت کے مطابق آپ خیبر کے علاقہ شق میں واقعہ قلعہ نزار سے بطور جنگی قیدی کے مسلمان فوج کے ہاتھ آئیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں نے خیبر کے علاقہ شق میں واقع اس قلعہ میں اپنے دوسرے قلعوں کے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوجانے کے بعد اپنی شکست کے خوف سے اپنے بچوں اور خواتین کو اس قلعہ میں منتقل کردیا تھا۔ 13 بحیثیت جنگی اسیر کے حضرت صفیہ کو ابتدا میں حضرت دحیہ کلبی کے حوالہ کردیا گیا تھا لیکن جب آپ کو حضرت صفیہ کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بنو قریظہ اور بنو نضیر قبیلہ کے حکمران خاندان کی نہایت معزز ومحترم خاتون ہیں جو اپنے خاندانی نسب کے لحاظ سے بھی حضرت ہارون کی اولاد میں سے ہیں توآپ نے ان کی عزت اور تعظیم میں حضرت دحیہ کو حضرت صفیہ کے عوض مالی بدل دے کر حاصل کیا اور حضرت دحیہ کو مزید اس بات کی اجازت دی کہ وہ اسیران جنگ میں سے جس خاتون کو چاہیں اپنے لیے بطور باندی پسند کرسکتے ہیں۔ آپ نے حضرت صفیہ کو اپنی ماتحتی میں لینے کے بعد انہیں سب سے پہلے غلامی سے آزاد فرمایا اور پھر آپ سے نکاح فرمالیا۔ 14

آپ نے حضرت صفیہ اور آپ کی عزیزہ کو حضرت بلال کی معیت میں نکاح کے بعد مدینہ منورہ روانہ کیا۔ حضرت بلال نے واپسی کےلیے اس راستہ کا انتخاب کیاجس پر معرکہ خیبر کے نتیجہ میں حضرت صفیہ کے عزیز واقارب کی لاشیں زمین پر بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ اس موقع پر حضرت صفیہ خاموش رہیں جبکہ آپ کی نو عمر عزیزہ یہ منظر دیکھ کر ضبط کے بندھن کو روک نہ پائیں اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ وہ شدت غم سے اس قدر مغلوب ہوئیں کہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو زمین پر بکھرے ہوئے دیکھ کر اپنے چہر ے پر مٹی ملنے لگیں۔ جب آپ کو حضرت بلال کا علم ہوا تو آپ نے اس کو سخت نہ پسند فرمایا اور حضرت بلال کی اس عمل پر سخت سرزنش فرمائی اور حضرت صفیہ کی عزیزہ کو تسلی دی اور اس کے غم کو دور کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ 15

دوسری روایت کے مطابق جب حضرت صفیہ کو جنگ کے بعدآپ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے صحابہ کو انہیں خیمہ میں لے جانے کا حکم دیا۔ جب آپ ان سے ملنے خیمہ میں تشریف لائےتو حضرت صفیہ نے آپ کے لیے گدا بچھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئیں۔ ان کے ادب اور معاملات کو دیکھتے ہوئے آپ نے ان کے سامنے دو باتیں رکھیں۔ پہلی بات یہ تھی کہ اگر وہ اپنے قبیلہ اور لوگوں میں واپس جانا چاہیں تو جا سکتی ہیں اور دوسرا اختیار یہ تھا کہ وہ اسلام قبول کرکےآپ سے نکاح فرما کر زوجیت کے شرف سے مشرف ہوجائیں۔ حضرت صفیہ نے اس موقع پر اسلام قبول کرنے کو پسند فرمایا کیوں کہ وہ اپنی نوجوانی کی عمر سے ہی اسلام کو پسند کرتی تھیں اور اپنی مرضی اور رغبت سےآپ کے ساتھ نکاح فرمایا اور ام المؤمنین بننے کے شرف سے مزین ہوئیں۔ 16

آپ کاحضرت صفیہ سے نکاح

آپ نے حضرت صفیہ سے خیبر میں نکاح فرمایا اور آپ کی آزادی کو آپ کےلیے مہرقرار دیا۔ 17 حضرت صفیہ کی عمر نکاح کے وقت17 برس تھی۔ 18 جس وقت حضرت صفیہ کا آپ کے ساتھ نکاح ہوا اس وقت آپ کی آنکھ کے نیچے ایک زخم تھا۔ آپ نے جب حضرت صفیہ سے اس زخم کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے اس کے جواب میں یہ تفصیل بیان کی کہ انہیں ان کے سابقہ شوہر نے اُس وقت مارا جب انہوں نے اپنا خواب اس سے بیان کیا۔ وہ خواب یہ تھاکہ انہوں نے بدر ِکامل(چودہویں کے چاند) کو یثرب سے نکلتے اور ابھرتے ہوئے دیکھا جو بعد میں آپ کی گود میں آگرا۔ حضرت صفیہ کے سابقہ شوہر نے جب ان سے یہ خواب سنا تو وہ کہنے لگا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یثرب کے اس بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہو جو ہم سے مسلسل حالت جنگ میں ہے چنانچہ اس بد بخت نے آپ کے چہرے پر ایک زور دار ضرب لگائی جس سے آپ کی آنکھ کے نیچے زخم پیدا ہوگیا جو بعد میں نیلا پڑ گیا تھا اور آپ کے چہرہ پر واضح نظر آتا تھا۔ 19

نکاح کے بعد مدینہ پہنچتے پہنچتے آپ کو تین دن لگے جہاں اس نکاح کےلیے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ستو اور کھجور مہمانوں کو پیش کی گئی۔ 20 ابن ہشام کے مطابق مہمانوں کی ضیافت ”الحیس“ کھانے سے کی گئی جو کھجور، گندم کے ستو اور گھی کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ 21 ابن سعد کے مطابق اس دعوت میں مہمانوں کی ضیافت کےلیے ”حریرہ“ پیش کیا گیا جو پنیر،کھجور اور دودھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ 22 حضرت صفیہ کیونکہ بے انتہا خوبصورت تھیں اور آپ کے حسن و جمال کے چرچےانصاری خواتین میں عام تھے اس لئےجب آپ کی آمدکی خبر مدینہ میں عام ہوئی تو وہاں کی خواتین آپ کودیکھنے کےلیے جمع ہوگئیں 23 جبکہ آپ کواس وقت حضرت حارثہ بن نعمان کے گھر ٹھہرایا گیا تھا۔ 24

حضرت صفیہ آپ سے بے پناہ محبت کیا کرتی تھیں جس کا اظہار وہ گاہے بگاہے اپنی زبان سے بھی کیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ بیمار ہوئے تو آپ کی جمیع ازواج آپ کے گرد جمع تھیں۔ اسی دوران حضرت صفیہ تشریف لے آئیں اور اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں فرمانے لگیں :

  إني واللّٰه يا نبي اللّٰه لوددت أن الذي بك بي. 25
  (اے اللہ کے رسول !) میری خواہش ہے کہ اس وقت جو تکلیف آپ کو لاحق ہے یہ آپ کے بجائے مجھے لاحق ہوجائے۔

حضرت صفیہ کا اخلاق وکردار

حضرت صفیہ نہایت عقل مند پاکباز، صابرہ اور شاکرہ خاتون تھیں جو نہایت سخت حالات اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہونے کے باوجود زبان سے کبھی شکو ہ کناں نہیں ہوتی تھیں۔ 26 آپ نہایت رحم دل ہونے کی وجہ سے دوسروں کی غلطیوں پر انہیں معاف فرمادیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ کی خادمہ نے خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق کو جا کر آپ کے بارے میں غلط شکایت کی جسےا بن حجر العسقلانی نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:

  أن جارية لها أتت عمر فقالت : إن صفية تحب السبت وتصل اليهود، فبعث إليها فسألها عن ذلك، فقالت: أما السبت فإني لم أحبه منذ أبدلني اللّٰه به الجمعة، وأما اليهود فإن لي فيهم رحما، فأنا أصلها، ثم قالت للجارية: ما حملك على هذا؟ قالت: الشيطان. قالت: اذهبي، فأنت حرة. 27
  ان (حضرت صفیہ ) کی خادمہ خلیفہ وقت حضرت عمر کے پاس آئیں اور کہا: صفیہ ( ) کو آج بھی یوم السبت (ہفتہ کے دن ) سے محبت ہے اور اب بھی آپ کا بہت قریبی تعلق یہودیوں کے ساتھ ہے ۔حضرت عمر نے حضر ت صفیہ سے اس شکایت کی صداقت کے بارے میں جاننے کےلیے آپ کے پاس پیغام بھیجوایا ،حضرت صفیہ نے جواب میں ارشاد فرما یا کہ میں اب یوم السبت کو اس لیے ناپسند کرتی ہوں کہ اللہ تعالی نے اس کے مقابلہ میں مجھے کہیں بہتر دن یعنی یوم الجمعہ عطا فرمایا ہے جب کہ اپنے یہودی عزیز واقارب سے ملاقات کے حوالہ سے میں یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ میرے سارے رشتہ دار یہودی الاصل ہیں (لہذا ان سے میری ملاقات یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ہے)۔ اس کے بعد حضرت صفیہ نے اپنی اس خادمہ سے پوچھا کہ تجھے میرے بارے میں اس بدگمانی اور شکایت پر کس چیز نے اکسایا؟ خادمہ نے جواب دیا کہ شیطان نے۔ آپ نے (اسےسزا دینے کے بجائے ) فرمایا :جاؤ، تم آزاد ہو۔

آپ نہایت سخی وفیاض خاتون تھیں۔ آپ اپنی شادی کے بعد جب مدینہ تشریف لائیں توتحفہ کے طور پر آپ نے سونے کی بالیاں حضرت فاطمہ اور آپ کی جمیع ازواج مطہرات کو پیش فرمائیں۔آپ نے اپنے سابقہ گھرکو فروخت کرکے اس کی تہائی رقم اپنے یہودی بھانجے جبکہ بقایا دو تہائی اہل مدینہ کے لیے صدقہ کردی۔ 28 آپ کے دنیا سےظاہری پردہ فرماجانے کے بعد آپ ہمیشہ حضور کی شفقتوں اور عنایتوں کا تذکرہ کیا کرتی تھیں۔ آپ نے حضور کے وصال کے بعد اپنی باقی ماندہ زندگی اللہ تعالی کے ذکر وعبادت میں بسر کی۔ البتہ ہمیشہ آپ کی یہ خواہش رہی کے آپ کے ساتھ اہل ایمان کا رویہ اور برتاؤ ویسا ہی رہے جیسے دوسری ازواج مطہرات کے ساتھ ان کا تھا۔ اس حوالہ سے کتب سیرت میں یہ واقعہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ مسلمان فوج نے دشمن کے علاقے فتح کرنے کے بعد جو مال غنیمت حاصل کیا اس میں سے حضرت عمر نے حضرت جویریہ اور حضرت صفیہ کے علاوہ تمام ازواج مطہرات کے لیے بارہ ہزار(12000)دراہم کا وظیفہ متعین فرمایا جبکہ ان دونوں ازواج مطہرات کو بارہ ہزار(12000) کے بجائے فی کس چھ ہزار (6000)دراہم دئے جس پر انہوں نے شدید اعتراض کرتے ہوئے اس وظیفہ کو لینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر نے یہ کہہ کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ باقی ازواج مطہرات کو زیادہ وظیفہ دینے کا سبب ان کا مہاجر ہونا ہے لیکن حضرت جویریہ اور حضرت صفیہ نے فرمایا کہ انہیں یہ رقم ان کے آپ کے ساتھ ازدواجی رشتے سے منسلک ہونے کی وجہ سے دی گئی ہےلہذا ہمارا بھی آپ کے ساتھ اصل تعلق ان کی شریک حیات ہونے کا ہے چنانچہ حضرت عمر کی پیش کردہ توضیح کو قبول فرماتے ہوئے ان کےلیے بھی بارہ ہزار (12000) دراہم کا وظیفہ مقرر فرمایا۔ 29

حضرت عثمان کے محاصرہ کے دوران آپ کا کردار

حضرت صفیہ نے حضرت عثمان کے دور خلافت میں پیدا ہونے والے شدیدسیاسی بحران کو ختم کرنے اور بغاوت کو فروکرنے کےلیے اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ آپ نے حضرت عثمان کے محاصرہ کے دوران ان تک اپنے خچر پر بیٹھ کر جانے اورپہنچنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی لیکن اشتر نے بزور آپ کو اس بات پر مجبور کیا کہ آپ واپس لوٹ کرچلی جائیں۔ 30 31اس کے بعد آپ نے اپنے اور حضرت عثمان کے گھر کے مابین لکڑی کا ایک نالہ بنا کر کوشش کی کہ کسی طریقہ سے آپ حضرت عثمان اور ان کے اہل خانہ کو پانی اور خوراک پہنچا سکیں۔ 32 آپ حضرت عثمان کی شہاد ت سے قبل ان کی ہر ممکن مدد ومعاونت کی مسلسل کوشش کرتی رہیں جس کی وجہ سے انہیں کئی بار تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

وصال

آپ کا وصال 52 ہجری میں حضرت امیر معاویہ کے دور حکومت میں ہوا۔ 33 آپ کی نماز جنازہ حضر ت سعید بن عاص نے پڑھا ئی34 اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔ آپ کا نام کتب احادیث میں بھی مذکور ہے کیوں کہ آپ نے حضور سے دس احادیث کو روایت کیا ہے۔ 35

 


  • 1 ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1996م، ص: 428
  • 2 ابو الفضل محمدبن مكرم ابن منظور الافریقی، لسان العرب، ج-14، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان،1414ھ، ص: 462
  • 3 ابو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقاني، شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1996م، ص: 430
  • 5 ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 210
  • 6 عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 160
  • 7 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 95
  • 8 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 519
  • 9 ایضاً، ج-2، ص: 190- 191
  • 10 عزالدین علی ابن محمد الشیبانی ابن الأثیر الجزری، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-7، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفقیۃ، القاھرۃ، مصر، 2003م، ص: 160
  • 11 ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 672- 673
  • 12 ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، السیرۃ النبویۃ وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: 304
  • 13 ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 668- 669
  • 14 مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح المسلم، حدیث: 3497، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 600
  • 15 ابو عبداللہ محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-2، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 673- 674
  • 16 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:97
  • 17 امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:285
  • 18 أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج-11، مطبوعۃ: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاھرۃ، مصر، 2004م، ص: 147
  • 19 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-2، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 336
  • 20 ایضاً، ص: 646
  • 21 امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق ، ج-1،مطبوعۃ: دار الكتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:285
  • 22 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:97
  • 23 أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج-11، مطبوعۃ: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاھرۃ، مصر، 2004م، ص: 147
  • 24 ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 211
  • 25 ایضاً، ص: 212
  • 26 ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 211
  • 27 ایضا : 211-212
  • 28 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-8، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:102
  • 29 ابو بكر احمد بن الحسين البيهقی، السنن الکبرٰی، حدیث: 12997، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 569
  • 30 أبو عبد الله محمد بن أحمد شمس الدين الذھبی، تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج-11، مطبوعۃ: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، القاھرۃ، مصر، 2004م، ص: 147
  • 31 ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، ج-8، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص: 212
  • 32 ایضاً
  • 33 ایضاً
  • 34 احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان،1996م، ص: 444
  • 35 السيد الجميلى، نساء النبي صلى الله عليه وآله وسلم، مطبوعۃ: دار ومكتبة الهلال، بيروت، لبنان، 1416ھ، ص: 115